۱۶؍اگست۲۰۲۳ء کو جڑانوالہ کی مسیحی بستی میں آتش زنی کا المناک سانحہ رُونما ہوا۔ اُس افسوس ناک واقعے کی ہم نے اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ اس پس منظر میں ’وفاقی وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی‘ نے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی۔اس میں پاکستان کے مسیحی اور دیگر مذاہب کے مذہبی رہنما شریک ہوئے ۔ انھوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا اور اپنی مظلومیت کے حوالے دیے۔ مجھے سب سے آخر میں خطاب کا موقع دیا گیا تومیں نے درج ذیل حقائق پیش کیے۔ چونکہ وقت کی قلّت تھی، اس لیے یہاں تشنۂ بحث ضروری نکات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر پیش کیا جارہا ہے:
۱- بدقسمتی سے ہم پاکستانی بحیثیتِ قوم ’خود ملامتی‘کے عادی بن چکے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور تجزیہ کاروں کا یہ مزاج ہے کہ کسی جگہ سے ناخوش گوار واقعے کی خبر آتے ہی، بلاتحقیق، وہ آنکھیں بندکرکے اہلِ پاکستان کو کوسنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔جس طرح: ’’پچیس کروڑ پاکستانیوں میں کوئی ایک بھی خوبی نہیں ہے کہ اُسے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جائے‘‘۔
۲- تزویراتی مورچہ بند این جی اوز کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے :’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں، وغیرہ‘‘۔ اس کھیل کو دیکھ کر ہم تجویز کرتے ہیں: پاکستان کے آئین وقانون سے ’اقلّیت‘کا لفظ ہی نکال دیا جائے۔ اقلّیت کا لفظ بولتے ہی ذہن میں ’غیرمسلم ‘کا تصور آتا ہے۔ پاکستان میں ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم شہری کو، خواہ وہ نسلی اعتبار سے مقیم چلا آرہا ہے یا اُس نے بعد میں پاکستانی قومیت اختیار کی ہے،اسے وہی حقوق حاصل ہیں، جو مسلمانوں کوحاصل ہیں۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سب غیر مسلموں کو جان، مال، عزّت وآبرو اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم سب پاکستانی ہیں:مسلم پاکستانی اورغیر مسلم پاکستانی۔اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے،جب کہ اقلّیت کے لفظ سے محرومیت کا تاثّر پیدا ہوتا ہے۔ ہماری تجویز ہے:’’Minority Commissionکا نام بدل کر ’’Commission for Protection the Rights of Non-Muslims‘‘رکھ دیا جائے۔
۳- مسلمان یورپ،امریکا ،کینیڈا ،نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا میں عددی اعتبار سے ’اقلّیت‘ میں ہیں، لیکن وہاں ’اقلّیت‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔ جو وہاں کی قومیت کو اختیار کرتا ہے ،وہ اپنے آپ کو امریکن ،کینیڈین، آسٹریلین ، یورپین اوربرٹش کہلاتا ہے،زیادہ سے زیادہ وہ ’مسلم امریکن‘ کہلاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں بھی ہوتے رہے ہیں،لیکن وہاں کے میڈیا پر ہم نے کبھی نہیں سنا: ’’اَقلیتوں پر حملہ ہوگیا ہے‘‘ یا ہمارے ہاں کے ’مہذب‘ نظریہ سازوں نے کبھی نہیں کہا: ’’اُن ممالک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔اس کے بجائے محض بدامنی، فسادیا دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے : پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟یہاں توفوراً اقلیتوں کی محرومی کا رونا روتے ہوئے ایک ہنگامہ برپا کردیا جاتا ہے۔ دہشت گردی ایک مجرمانہ ذہنیت کا تسلسل ہے،جس کا مذہب سے نہیں کسی فرد یا طبقے سے تعلق ہوتاہے۔اس پس منظر میں کیا پاکستان میں مسلمانوں کی مساجد ، مزارات ،تعلیمی اداروں، درس گاہوں ،عام مقامات اورعوامی اجتماعات پر خودکش حملے نہیں ہوئے؟کیا اُس وقت بھی یہ کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں مسلمان یا اکثریت محفوظ نہیں ہے‘‘۔ آبادی کے تناسب سے بھی مسلمانوں کا نقصان غیر مسلموں سے کم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مسیحیوں کے کلیسائوں ، ہندوئوں کے مندروں ، سکھوں کے گردواروں اور پارسیوں کے آتش کدوں پر بھی پولیس کے محافظ متعین کیے جاتے ہیں، جب کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کے باوجود اس طرح کا حفاظتی بندوبست نہیں ہوتا، لیکن کہایہی جاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔
۴- امریکا ،کینیڈا ،آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ،یورپ ، برطانیہ ،بھارت، الغرض تمام جمہوری ممالک کی پارلیمنٹ ،کانگریس اورقانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے لیے ایک بھی نشست محفوظ نہیں ہے۔ جس نے ان اداروں میں آنا ہو، اُسے عام انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے آنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں غیر مسلموں کو عام انتخابات میں مسلمانوں کے برابر ووٹ دینے کا حق ہے ،لیکن اس کے ساتھ اُن کے لیے محفوظ نشستیں بھی ہمارے قانون ساز اداروں میں رکھی گئی ہیں، اور اس کے باوجود کہاجاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۵- سول اور دفاعی اداروں کی سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی برابر حصہ لے سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اُن کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹہ بھی مختص ہے۔ لیکن ان ممالک میں،جو خود کو حقوقِ انسانیت کاچیمپین سمجھتے ہیں، ان کے ہاں مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کاکوئی کوٹہ مختص نہیں ہے، اس کے باوجود کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۶- کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی غیر مسلم لڑکی کسی مسلمان لڑکے سے شادی کے لیے اسلام قبول کرلیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات مغربی ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں،مگر وہاں کی حکومتوں کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان میں کسی تحقیق وتفتیش کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے کہ ’’غیرمسلموں کواسلام قبول کرنے اور تبدیلیِ مذہب پر مجبور کیا جا رہاہے، ایسا کرنا آئین ، قانون کی رُو سے جائز نہیں ہے‘‘۔ ہم نے بار بار یہ کہا ہے: ’’اگر اس حوالے سے کوئی جبرثابت کردے تو ہم ہر سطح اور ہرادارے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ اسلام میں جبراً تبدیلیِ مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے، قرآنِ کریم میں اس کی ممانعت ہے‘‘۔ ایک مسیحی مذہبی رہنما نے کہا: ’’تیرہ سال کی لڑکی کو توشعور ہی نہیں ہوتا‘‘، ہم نے کہا: ’’اگرچہ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی بالغہ عورت اپنی آزادانہ مرضی سے نکاح کرسکتی ہے ، اور والدین کی مرضی سے کرے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے اور سب جانتے ہیں: عورت کی بلوغت کا معیار کیا ہے۔ پاکستان کے قانون میں شادی کے لیے پہلے سولہ سال عمر مقرر کی گئی تھی، جسے بڑھا کر اب اٹھارہ سال کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر واشنگٹن میں وائٹ ہائوس یا لندن میں ۱۰ ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے کوئی دس سال کا سفید فام لڑکا یا لڑکی کلمۂ طیبہ پڑھ کر عَلانیہ اسلام قبول کرلے، تو امریکا کا قانون اُسے کچھ نہیں کہتا، لیکن ایسی پابندیوں کا مطالبہ صرف پاکستان میں کیا جانا فہم سے بالاتر ہے۔
۷- کچھ عرصہ قبل صوبۂ سندھ میں دو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے دو مسلمان لڑکوں سے شادی کی، مگر اس پر کسی تحقیق کے بغیر پورے میڈیا پر واویلا مچادیا گیا:’’لڑکیوں کو اِغوا کر کے جبراً مسلمان بنایا گیا ہے‘‘۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں اپنی عدالت میں بلایا اور دو ہفتے کے لیے اپنے ہندو والدین کے ساتھ بھیج دیا۔ دو ہفتے کے بعد اُن لڑکیوں نے عدالت میں آکربیان دیا: ’’ہم نے کسی زور، زبردستی یا جبر کے بغیر بخوشی اسلام قبول کیا ہے ، اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں‘‘۔ چنانچہ عدالت نے انھیں اُن کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔این جی اوزکی بیگمات ایسے جوڑوں کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے انتظار میں رہتی ہیں۔
۸- صوبۂ سندھ میں ’تبدیلیِ مذہب ‘کے قانون میں قرار دیا گیا ہے:’’اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اگر کوئی لڑکی اسلام قبول کرنا چاہے تو اُسے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش کیا جائے گا ، وہ اُس کے لیے مذاہب کے تقابلی مطالعے کا انتظام کرے گااور جب اُس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے، اور اگر وہ اسلام قبول کرناچاہے توجج اُسے قبولِ اسلام کی اجازت دے گا‘‘۔ کیا ہمارے ہاں منتخب اداروں کے تمام اراکین نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کررکھا ہے کہ ایک نوجوان کے قبولِ اسلام کے لیے اتنی کڑی شرط عائد کی جائے؟
۹-جڑانوالہ سانحے کے بعداظہارِ یک جہتی کے لیے وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ،چیف جسٹس ، اعلیٰ سرکاری اور عسکری حکام ،بہت سے مسلمان مذہبی رہنما چل کر پہنچے یا بلندآہنگ بیانات دیئے۔ تین دن میں ہر متاثرہ مکان کے لیے بیس بیس لاکھ کے چیک بھی تقسیم کردیے گئے، کیا کسی بڑے سانحے کے بعداتنی عُجلت مسلمانوں کے لیے بھی دکھائی گئی ہے؟ اس سے چند دن پہلے باجوڑ میں جلسۂ عام کے دوران خود کش دھماکا ہوا ،سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئےوہاں تو کوئی بھی نہیں گیا۔
۱۰-عام طور پر ایسے مواقع پر کسی تحقیق کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے۔جڑانوالہ سانحے پر بھی ایسا ہی ہوا۔ بعض یوٹیوبر نے تو حد کردی ،حالانکہ پولس کے اعلیٰ افسران نے خود کہا:’’ٹی ایل پی کے ذمہ داران نے امن قائم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا‘‘۔ پھر پولیس رپورٹ کے مطابق: جڑانوالہ کا واقعہ سراسر ذاتی سطح پر مسیحی گھرانوں کا جھگڑا تھا، جسے مذہبی رنگ دے کر دُنیابھر میں پاکستان کی بدنامی کا سامان کیا گیا۔ کیا کسی نے اس گھنائونے جرم کے ذمہ داران کے خلاف بھی آواز اُٹھائی ہے؟ اسی طرح سیالکوٹ میں ہوا تھا۔ جب تحقیق کے بغیر ایسا الزام کسی مسلم مذہبی گروہ یا حکومتی اداروں پر لگادیا جاتا ہے، ایسا طرزِعمل مجرموں کو قانون کی گرفت سے نکلنے کا آسان راستہ فراہم کرتا ہے۔ خدارا تحقیق کے بغیر ایسا نہ کریں۔قرآنِ کریم میں ہے: ’’مؤمنو، اگر تمھارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی کے سبب کسی قوم کوتکلیف پہنچائو، پھر تمھیں اپنے کیے پرشرمسارہونا پڑے، (الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
۱۱- ایسے روح فرسا سانحات کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی وجوہ کا تعیّن کرکے اصل اور حقیقی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے، ورنہ کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ردِّعمل نہیں روکا جاسکے گا۔اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سانحۂ جڑانوالہ کے بعد کئی روز تک سرگودھا کی مسجد کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر قرآن کے اوراق زمین پر ڈالے جاتے رہے،مگر بڑی مشکل سے علما اورانتظامیہ نے اس حددرجہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر قابو پایا۔
۱۲- لبرل نظریات کا علَم بردار ہونے کے باوجود صدر جنرل پرویز مشرف کو کہنا پڑا: ’’غیرمسلموں نے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے توہینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ذریعہ بنالیا ہے‘‘، جب کہ پاکستان ’بدنام‘ ہے اور اہلِ مغرب ’نیک نام ‘ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں این جی اوز بناکر ان کو وسائل سے مالا مال کردیا ہے۔
۱۳-ہمارے ہاں تضادات کا عالَم یہ ہے :’’قراردادِ مقاصد کو دستور کا نافذ العمل حصہ بنائے جانے کے بعد آئینی اعتبار سے لازم ہے کہ قرآن وسنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے :قومی اسمبلی میں دس غیر مسلم اراکین ہیں اور اُن کا ووٹ دینے کا حق مسلم اراکین کے برابر ہے ۔پس اگر کسی قانون کے قرآن وسنّت کے مطابق نہ ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہورہی ہو اورایک طرف ۱۷۰ مسلم ارکان ہوں اور دوسری طرف ۱۶۲مسلم ارکان کے ساتھ دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ شامل ہوجائیں، تو ۱۷۰مسلم اراکین کی اکثریت بے اثر ہوجائے گی اور دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرجائیں گے اور قرآن وسنّت کے خلاف قانون بن جائے گا۔ پس فیصلہ کیجیے: ’’مظلوم اکثریت ہے یا اقلّیت؟‘‘۔