۱۶؍اگست۲۰۲۳ء کو جڑانوالہ کی مسیحی بستی میں آتش زنی کا المناک سانحہ رُونما ہوا۔ اُس افسوس ناک واقعے کی ہم نے اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ اس پس منظر میں ’وفاقی وزارتِ مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی‘ نے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی۔اس میں پاکستان کے مسیحی اور دیگر مذاہب کے مذہبی رہنما شریک ہوئے ۔ انھوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا اور اپنی مظلومیت کے حوالے دیے۔ مجھے سب سے آخر میں خطاب کا موقع دیا گیا تومیں نے درج ذیل حقائق پیش کیے۔ چونکہ وقت کی قلّت تھی، اس لیے یہاں تشنۂ بحث ضروری نکات کو ضبط ِ تحریر میں لاکر پیش کیا جارہا ہے:
۱- بدقسمتی سے ہم پاکستانی بحیثیتِ قوم ’خود ملامتی‘کے عادی بن چکے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور تجزیہ کاروں کا یہ مزاج ہے کہ کسی جگہ سے ناخوش گوار واقعے کی خبر آتے ہی، بلاتحقیق، وہ آنکھیں بندکرکے اہلِ پاکستان کو کوسنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔جس طرح: ’’پچیس کروڑ پاکستانیوں میں کوئی ایک بھی خوبی نہیں ہے کہ اُسے عالمی سطح پر اُجاگر کیا جائے‘‘۔
۲- تزویراتی مورچہ بند این جی اوز کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے :’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں، وغیرہ‘‘۔ اس کھیل کو دیکھ کر ہم تجویز کرتے ہیں: پاکستان کے آئین وقانون سے ’اقلّیت‘کا لفظ ہی نکال دیا جائے۔ اقلّیت کا لفظ بولتے ہی ذہن میں ’غیرمسلم ‘کا تصور آتا ہے۔ پاکستان میں ہر پابندِ آئین وقانون غیر مسلم شہری کو، خواہ وہ نسلی اعتبار سے مقیم چلا آرہا ہے یا اُس نے بعد میں پاکستانی قومیت اختیار کی ہے،اسے وہی حقوق حاصل ہیں، جو مسلمانوں کوحاصل ہیں۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان سب غیر مسلموں کو جان، مال، عزّت وآبرو اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم سب پاکستانی ہیں:مسلم پاکستانی اورغیر مسلم پاکستانی۔اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے،جب کہ اقلّیت کے لفظ سے محرومیت کا تاثّر پیدا ہوتا ہے۔ ہماری تجویز ہے:’’Minority Commissionکا نام بدل کر ’’Commission for Protection the Rights of Non-Muslims‘‘رکھ دیا جائے۔
۳- مسلمان یورپ،امریکا ،کینیڈا ،نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا میں عددی اعتبار سے ’اقلّیت‘ میں ہیں، لیکن وہاں ’اقلّیت‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔ جو وہاں کی قومیت کو اختیار کرتا ہے ،وہ اپنے آپ کو امریکن ،کینیڈین، آسٹریلین ، یورپین اوربرٹش کہلاتا ہے،زیادہ سے زیادہ وہ ’مسلم امریکن‘ کہلاتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملے امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں بھی ہوتے رہے ہیں،لیکن وہاں کے میڈیا پر ہم نے کبھی نہیں سنا: ’’اَقلیتوں پر حملہ ہوگیا ہے‘‘ یا ہمارے ہاں کے ’مہذب‘ نظریہ سازوں نے کبھی نہیں کہا: ’’اُن ممالک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔اس کے بجائے محض بدامنی، فسادیا دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے : پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟یہاں توفوراً اقلیتوں کی محرومی کا رونا روتے ہوئے ایک ہنگامہ برپا کردیا جاتا ہے۔ دہشت گردی ایک مجرمانہ ذہنیت کا تسلسل ہے،جس کا مذہب سے نہیں کسی فرد یا طبقے سے تعلق ہوتاہے۔اس پس منظر میں کیا پاکستان میں مسلمانوں کی مساجد ، مزارات ،تعلیمی اداروں، درس گاہوں ،عام مقامات اورعوامی اجتماعات پر خودکش حملے نہیں ہوئے؟کیا اُس وقت بھی یہ کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں مسلمان یا اکثریت محفوظ نہیں ہے‘‘۔ آبادی کے تناسب سے بھی مسلمانوں کا نقصان غیر مسلموں سے کم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تو مسیحیوں کے کلیسائوں ، ہندوئوں کے مندروں ، سکھوں کے گردواروں اور پارسیوں کے آتش کدوں پر بھی پولیس کے محافظ متعین کیے جاتے ہیں، جب کہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کے باوجود اس طرح کا حفاظتی بندوبست نہیں ہوتا، لیکن کہایہی جاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔
۴- امریکا ،کینیڈا ،آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ،یورپ ، برطانیہ ،بھارت، الغرض تمام جمہوری ممالک کی پارلیمنٹ ،کانگریس اورقانون ساز اداروں میں مسلمانوں کے لیے ایک بھی نشست محفوظ نہیں ہے۔ جس نے ان اداروں میں آنا ہو، اُسے عام انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے آنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں غیر مسلموں کو عام انتخابات میں مسلمانوں کے برابر ووٹ دینے کا حق ہے ،لیکن اس کے ساتھ اُن کے لیے محفوظ نشستیں بھی ہمارے قانون ساز اداروں میں رکھی گئی ہیں، اور اس کے باوجود کہاجاتا ہے:’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۵- سول اور دفاعی اداروں کی سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی برابر حصہ لے سکتے ہیں۔علاوہ ازیں اُن کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹہ بھی مختص ہے۔ لیکن ان ممالک میں،جو خود کو حقوقِ انسانیت کاچیمپین سمجھتے ہیں، ان کے ہاں مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کاکوئی کوٹہ مختص نہیں ہے، اس کے باوجود کہاجاتا ہے: ’’پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں‘‘۔
۶- کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی غیر مسلم لڑکی کسی مسلمان لڑکے سے شادی کے لیے اسلام قبول کرلیتی ہے۔ اس طرح کے واقعات مغربی ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں،مگر وہاں کی حکومتوں کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن پاکستان میں کسی تحقیق وتفتیش کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے کہ ’’غیرمسلموں کواسلام قبول کرنے اور تبدیلیِ مذہب پر مجبور کیا جا رہاہے، ایسا کرنا آئین ، قانون کی رُو سے جائز نہیں ہے‘‘۔ ہم نے بار بار یہ کہا ہے: ’’اگر اس حوالے سے کوئی جبرثابت کردے تو ہم ہر سطح اور ہرادارے میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے، کیونکہ اسلام میں جبراً تبدیلیِ مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے، قرآنِ کریم میں اس کی ممانعت ہے‘‘۔ ایک مسیحی مذہبی رہنما نے کہا: ’’تیرہ سال کی لڑکی کو توشعور ہی نہیں ہوتا‘‘، ہم نے کہا: ’’اگرچہ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی بالغہ عورت اپنی آزادانہ مرضی سے نکاح کرسکتی ہے ، اور والدین کی مرضی سے کرے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے اور سب جانتے ہیں: عورت کی بلوغت کا معیار کیا ہے۔ پاکستان کے قانون میں شادی کے لیے پہلے سولہ سال عمر مقرر کی گئی تھی، جسے بڑھا کر اب اٹھارہ سال کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر واشنگٹن میں وائٹ ہائوس یا لندن میں ۱۰ ڈائوننگ اسٹریٹ کے سامنے کوئی دس سال کا سفید فام لڑکا یا لڑکی کلمۂ طیبہ پڑھ کر عَلانیہ اسلام قبول کرلے، تو امریکا کا قانون اُسے کچھ نہیں کہتا، لیکن ایسی پابندیوں کا مطالبہ صرف پاکستان میں کیا جانا فہم سے بالاتر ہے۔
۷- کچھ عرصہ قبل صوبۂ سندھ میں دو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے دو مسلمان لڑکوں سے شادی کی، مگر اس پر کسی تحقیق کے بغیر پورے میڈیا پر واویلا مچادیا گیا:’’لڑکیوں کو اِغوا کر کے جبراً مسلمان بنایا گیا ہے‘‘۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں اپنی عدالت میں بلایا اور دو ہفتے کے لیے اپنے ہندو والدین کے ساتھ بھیج دیا۔ دو ہفتے کے بعد اُن لڑکیوں نے عدالت میں آکربیان دیا: ’’ہم نے کسی زور، زبردستی یا جبر کے بغیر بخوشی اسلام قبول کیا ہے ، اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں‘‘۔ چنانچہ عدالت نے انھیں اُن کے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔این جی اوزکی بیگمات ایسے جوڑوں کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کے انتظار میں رہتی ہیں۔
۸- صوبۂ سندھ میں ’تبدیلیِ مذہب ‘کے قانون میں قرار دیا گیا ہے:’’اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اگر کوئی لڑکی اسلام قبول کرنا چاہے تو اُسے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش کیا جائے گا ، وہ اُس کے لیے مذاہب کے تقابلی مطالعے کا انتظام کرے گااور جب اُس کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے، اور اگر وہ اسلام قبول کرناچاہے توجج اُسے قبولِ اسلام کی اجازت دے گا‘‘۔ کیا ہمارے ہاں منتخب اداروں کے تمام اراکین نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کررکھا ہے کہ ایک نوجوان کے قبولِ اسلام کے لیے اتنی کڑی شرط عائد کی جائے؟
۹-جڑانوالہ سانحے کے بعداظہارِ یک جہتی کے لیے وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ ،چیف جسٹس ، اعلیٰ سرکاری اور عسکری حکام ،بہت سے مسلمان مذہبی رہنما چل کر پہنچے یا بلندآہنگ بیانات دیئے۔ تین دن میں ہر متاثرہ مکان کے لیے بیس بیس لاکھ کے چیک بھی تقسیم کردیے گئے، کیا کسی بڑے سانحے کے بعداتنی عُجلت مسلمانوں کے لیے بھی دکھائی گئی ہے؟ اس سے چند دن پہلے باجوڑ میں جلسۂ عام کے دوران خود کش دھماکا ہوا ،سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئےوہاں تو کوئی بھی نہیں گیا۔
۱۰-عام طور پر ایسے مواقع پر کسی تحقیق کے بغیر الزام لگادیا جاتا ہے۔جڑانوالہ سانحے پر بھی ایسا ہی ہوا۔ بعض یوٹیوبر نے تو حد کردی ،حالانکہ پولس کے اعلیٰ افسران نے خود کہا:’’ٹی ایل پی کے ذمہ داران نے امن قائم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا‘‘۔ پھر پولیس رپورٹ کے مطابق: جڑانوالہ کا واقعہ سراسر ذاتی سطح پر مسیحی گھرانوں کا جھگڑا تھا، جسے مذہبی رنگ دے کر دُنیابھر میں پاکستان کی بدنامی کا سامان کیا گیا۔ کیا کسی نے اس گھنائونے جرم کے ذمہ داران کے خلاف بھی آواز اُٹھائی ہے؟ اسی طرح سیالکوٹ میں ہوا تھا۔ جب تحقیق کے بغیر ایسا الزام کسی مسلم مذہبی گروہ یا حکومتی اداروں پر لگادیا جاتا ہے، ایسا طرزِعمل مجرموں کو قانون کی گرفت سے نکلنے کا آسان راستہ فراہم کرتا ہے۔ خدارا تحقیق کے بغیر ایسا نہ کریں۔قرآنِ کریم میں ہے: ’’مؤمنو، اگر تمھارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی کے سبب کسی قوم کوتکلیف پہنچائو، پھر تمھیں اپنے کیے پرشرمسارہونا پڑے، (الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
۱۱- ایسے روح فرسا سانحات کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی وجوہ کا تعیّن کرکے اصل اور حقیقی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے، ورنہ کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ردِّعمل نہیں روکا جاسکے گا۔اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سانحۂ جڑانوالہ کے بعد کئی روز تک سرگودھا کی مسجد کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر قرآن کے اوراق زمین پر ڈالے جاتے رہے،مگر بڑی مشکل سے علما اورانتظامیہ نے اس حددرجہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر قابو پایا۔
۱۲- لبرل نظریات کا علَم بردار ہونے کے باوجود صدر جنرل پرویز مشرف کو کہنا پڑا: ’’غیرمسلموں نے مغربی ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے لیے توہینِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ذریعہ بنالیا ہے‘‘، جب کہ پاکستان ’بدنام‘ ہے اور اہلِ مغرب ’نیک نام ‘ہیں، کیونکہ انھوں نے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں این جی اوز بناکر ان کو وسائل سے مالا مال کردیا ہے۔
۱۳-ہمارے ہاں تضادات کا عالَم یہ ہے :’’قراردادِ مقاصد کو دستور کا نافذ العمل حصہ بنائے جانے کے بعد آئینی اعتبار سے لازم ہے کہ قرآن وسنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے :قومی اسمبلی میں دس غیر مسلم اراکین ہیں اور اُن کا ووٹ دینے کا حق مسلم اراکین کے برابر ہے ۔پس اگر کسی قانون کے قرآن وسنّت کے مطابق نہ ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہورہی ہو اورایک طرف ۱۷۰ مسلم ارکان ہوں اور دوسری طرف ۱۶۲مسلم ارکان کے ساتھ دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ شامل ہوجائیں، تو ۱۷۰مسلم اراکین کی اکثریت بے اثر ہوجائے گی اور دس غیر مسلم اراکین کے ووٹ فیصلہ کُن حیثیت اختیار کرجائیں گے اور قرآن وسنّت کے خلاف قانون بن جائے گا۔ پس فیصلہ کیجیے: ’’مظلوم اکثریت ہے یا اقلّیت؟‘‘۔
دینی مقدَّسات میں سب سے اہم: ذاتِ باری تعالیٰ ، ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان اور آداب، خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اوروہ اپنی جان ،مال ،آبرو، حتیٰ کہ اپناسب کچھ ان مقدّسات کی حُرمت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ غیرمسلم دُنیا ہو یا مسلم دُنیا، جب اور جہاں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ، مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا ۔
سوال یہ ہے :’’مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ و دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں؟‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات مسلم ممالک میں مسلمان احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں،اپنے جذبات اور ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حد تک یہ بات درست ، قابلِ فہم بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضاہے ۔ لیکن جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے ہی ملک میں قومی اور نجی املاک کو تباہ کرنا یا خدانخواستہ جانی نقصان ہوجانا، درست نہیں ہے۔ جب ہم ایک غلطی کے ازالے کے لیے نکلیں تو ردِّعمل میں ہمیں دوسری غلطی کا ارتکاب کرنا زیب نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح خدانخواستہ ملک کے اندر یا باہر دوسروں کے مذہبی اداروں ،اشخاص اورسفارت خانوںپر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے ، اگرچہ وقتی طور پر جذبات کو اس سے تسکین ملتی ہے، لیکن اس طرح کے عوامل آخر کار منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے :’’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: اہانتِ رسولؐ پر مبنی خاکے چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا ، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دانستہ طور پر ہی کی جاتی ہیں‘‘ ، کیونکہ انھیں معلوم ہے : ’’مسلمان اس پر بے اختیار ردِّعمل کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بعض مواقع یابعض مقامات پر حدود سے تجاوز بھی کر گزریں گے ‘‘، اس طرح وہ دنیا میں یہ پُرزور پروپیگنڈا کریں گے :’’مسلمان انتہا پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں ، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے‘‘ اور ہمارے دیسی لبرل حضرات اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں گے: ’’یہی اسلاموفوبیا‘‘ ہے۔
اور جب اُن سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کی بات کی جائے، تواُن کی حکومتیں اور ہمارے ہاں اُن کے پروردہ عناصر یہ کہتے ہیں: ’’اظہارِ رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ہمارے تمدّن، نظام اور لائف اسٹائل کے لوازمات میں سے ہے‘‘۔ یعنی یہ چیزیں اُن کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں، جن پر وہ کسی طرح کی روک ٹوک عائد کرنے اور قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں۔ مغربی اقوام ا سی مادر پدر آزاد ی پر مشتمل تہذیب کو دوسری اقوام پر مسلّط کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ یک زبان ،یک جان اور یک سو ہوجاتی ہیں۔ چونکہ انھیں حربی ، مادّی ، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے غلبہ حاصل ہے،نیز عالمی اداروں کی پالیسی سازی پر بھی انھی کی گرفت ہے ، اس لیے اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ تجارتی اور سفارتی پابندیاں لگادیتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کا ناطقہ بند کردیتے ہیں، جس کا کوئی مؤثرتوڑ فی الحال اِن ممالک کے پاس نہیں ہے۔
وہی مغربی اقوام، جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے پُرفریب نعروں کی آڑمیں تحفظ دیتی ہیں ،وہاں اگر کوئی جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی (ہولوکاسٹ) کا انکار کرے یا اسے محض افسانوی پروپیگنڈا قرار دے، تو یہ اہلِ مغرب کے نزدیک قابلِ تعزیر جرم ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔الغرض اُن کے نزدیک کم وبیش ڈیڑھ کروڑ یہود کی دل آزاری جرم ہے ،مگر پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابلِ مذمت یا قابلِ افسوس فعل ہے۔ اس سے مسلمانوں کو اپنی قدراور پوزیشن کا بھی اندازہ لگالینا چاہیے کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی، بلکہ عالمی سیاست ،عالمی معیشت اور عالمی امور میں کسی کی اہمیت کو دیکھتی ہے۔ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اور خود عام مسلمانوں کو بھی اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔
مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ردِّعمل نیم دلانہ ،پست ہمتی اور کمزوری پر مبنی ہوتا ہے۔ علامتی طور پر مسلم ممالک کا ایک فورم ’اسلامی تعاون تنظیم‘ ہے، اسے عربی میں مُنَظِّمَۃُ التَّعَاوُنِ الْاِسْلَامی کہاجاتا ہے۔لیکن اس میں تنظیم ، تعاون ، اتحاد اور تحریک کی حقیقی روح موجود نہیں ہے، بس دفع الوقتی اور اپنے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ ایک آدھ اجلاس کرلیتے ہیں، کوئی چھوٹی موٹی، محتاط سی قرار داد پاس کرلیتے ہیں اور بس!
اس کا پہلا اور بنیادی حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدّسات کی اہانت ہو، اُس کا اقتصادی ، سفارتی اورتجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالَمی اداروں پر دبائو ڈالا جائے کہ اقوامِ عالَم اپنے اپنے ممالک میں دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائیں ، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیں اور اس کے سدِّباب کے لیے سنگین سزائیں مقرر کرکے انھیں نافذ کریں۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ’دہشت گردی‘کی ایک جامع و مانع اوراجماعی تعریف کی جائے ، کیونکہ ایک یا چند افراد کوزبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے، تو ایک یا چند افراد کاابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی ، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دنوں ’’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی‘‘کے چیئرمین جناب رائوعبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ہمیں شواہد دکھائے کہ سوشل میڈیا پر اسلام کے دینی مقدّسات کے بارے میں کیا کچھ بیان کیا اور پیش کیا جارہا ہے۔ یہ آڈیو /وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جھرجھری طاری ہوجاتی ہے، دل دہل جاتا ہے،انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی ،آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا۔ کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کرسکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں ۔ رائو صاحب نے بتایا :’’ہم نے سیکڑوں افراد کی نشاندہی کرکے حکام تک پہنچایا ، لیکن نہ تو قانون حرکت میں آتا ہے اورنہ عدالتیں بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ہماری اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی تھیٹر سے فرصت ہی نہیں کہ وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کریں، حالانکہ وہ اپنی ناموس کے لیے تو بہت حساس ہوتے ہیں، توہینِ عدالت کی دھمکی دیتے ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کو اپنے منصب کی حرمت کے برابر بھی نہیں سمجھتے؟اسی طرح اگر کوئی فرد، کسی بااختیار اور طاقت ور شخصیت کی توہین کر بیٹھے اور ایسا گستاخ شخص ملک کے اندر موجود ہے، تو اُسے پاتال سے بھی باہر نکال کر لے آتے ہیں، لیکن یہ پھرتی دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے نہیں دکھائی جاتی۔
جب ہم ان مذموم ابلیسی حرکات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں، تو ہمارے نام نہاد ’روشن خیال‘، سیکولر اور لبرلز کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ یہ بحث کرنے لگتے ہیں: ’’فتویٰ دینا کس کا کام ہے؟‘‘اُن کی خدمت میں گزارش ہے :فتوے اور قضا میں فرق ہے۔اس تحقیق میں جائے بغیر کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے یا غلط، حقیقتِ حال کے مطابق ہے یا نہیں، ’مفتی ‘کا کام فقط یہ ہے کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ پر بتائے کہ اس کا حکمِ شرعی یہ ہے۔ الزام کی تحقیق کرنا ،ثبوت وشواہد کی جانچ پڑتال کرنا اورالزام کو ثابت یا ردّ کرنا یہ قاضی کا کام ہے۔ دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
انھی حکومتوں اور میڈیا کو جب ضرورت پڑتی ہے تو پھر فتوے کے لیے علما سے رجوع کرتے ہیں۔ اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں ،تو علمائے کرام کو ان امور میں دخل اندازی کا شوق نہیں ہے ۔لیکن جب دینی مقدّسات کی حُرمت کو پامال کیا جائے اور ہماری انتظامیہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر سطح کی عدالتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے ،توپھر اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت کو قائم کرنا علمائے حق کی ذمے داری ہے اور اگروہ اس سے گریز کریں یا چشم پوشی کریں یا گوشۂ عافیت تلاش کریں ، تو یہ اُن کی طرف سے دینی ذمے داری سے غفلت اور پہلوتہی قرار پائے گا۔
ہم نے بارہا کہا ہے :’’ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی پر ایف آئی آر کے اندراج کو آسان بنایا جائے نہ کہ مشکل۔ اس طرح ملزم قانون کی تحویل میں چلا جائے گا ، پولس کی حفاظتی حراست میں رہے گااور کوئی اس پر دست درازی نہیں کرپائے گا، اُسے شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے‘‘۔ نیز دینی مقدسات کی توہین اور ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی کے مقدمات کا براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں ٹرائل کیا جائے اور ان کے فیصَل ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کا تعین کیا جائے۔ اس لیے قانون کے سریع العمل نفاذ میں جتنی رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی، نظامِ عدل میں اتنی ہی خرابیاں پیدا ہوں گی، اور رشوت دَر آئے گی۔ اس پر اپیل صرف شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ میں دائر ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے روایتی آزاد خیال اور سیکولر مزاج کے حامل ججوں کے سامنے یہ مقدمات آئیں گے تو اُن کا حشر وہی ہوگا جو ماضی میں ان مقدمات کا ہوا۔ جب جج کے اپنے عقیدے میں دینی مقدسات کی ناموس کی کوئی حیثیت نہ ہو ،تو اُن کے پاس ثبوت وشواہد پر مشتمل مقدمات کو بھی ردّکرنے کے دسیوں حیلے بہانے اور فنّی حربے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسیہ مسیح کے مقدمے میں جسٹس صاحب کی یہ دلیل عجیب تھی :’’جب ساٹھ عورتیں اس وقوعہ کو دیکھ رہی تھیں تو صرف چند نے گواہی دی اور باقی نے کیوں نہ دی؟‘‘، جب کہ قانونی تقاضا فقط یہ ہوتا ہے کہ شرعی معیار پر گواہی درست ہو اور نصابِ شہادت پورا ہو۔
پس لازم ہے کہ دینی مقدّسات کی سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں دینی علوم کے ماہر جج مقرر کیے جائیں۔ جج صاحبان کے لیے دینی علوم کا ماہر ہونا ہی کافی نہیں ہے ،اُن کی دیانت وامانت اور فقاہت وثقاہت پر سب کا اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ بہت بنیادی اصول ہے، ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں آمرمطلق صدر جنرل پرویز مشرف نے جون۲۰۰۲ء میں حُرمتِ سود کے مسئلے کو نمٹانے کے لیے دو علما جج ہی تلاش کیے تھے :جسٹس علامہ خالد محمود کو مانچسٹر، برطانیہ سے اور دوسرے جج جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری تھے، جب کہ اس بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے۔یہ بنچ ۲۰۰۲ء میں ’سانپ سیڑھی کے کھیل‘ کی طرح حُرمتِ سود کے مسئلے کو ۹۹سے صفر پر لے آیاتھا۔
وزیر اعظم نے سویڈن میں اہانتِ قرآنِ کریم کے سانحے پر قومی جذبات کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرایا اور جمعۃ المبارک کو ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی، جس کی تحسین کرتے ہیں ۔مگر یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ احتجاج اُن لوگوں کا حق ہے جو ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، حکومتِ وقت اور حکمرانوں کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کریں ، او آئی سی کے ساتھ مل کراقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں میں یہ مسئلہ اٹھائیں اور عالمی سطح پراس اصول پر مکالمے کا آغاز کریں کہ اس طرح کی مذموم کارروائیاں امنِ عالَم کے لیے خطرہ ہیں، اور انسانیت کے درمیان نفرت کا باعث ہیں ۔ صرف اظہارِ تاسّف اور مذمتی بیانات سے ان کا سدِّباب یا مداوا نہیں ہوسکتا۔ اسے عالمی سطح پر دہشت گردی کی طرح سنگین اور قابلِ تعزیرجرم قرار دیا جائے اور ایسی عالمی عدالتوں میں مسلمانوں کے معتمد نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
ہماری شدید خواہش تو ہے کہ عالمِ انسانیت کا ہر فرد ہمارے دینی مقدّسات کا احترام کرے، لیکن غیر مسلموں سے ہمارایہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدّسات کا لازماًاحترام کریں،کیونکہ احترام تب ہوتا ہے جب دل میں کسی کی تعظیم ہو۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے:’’اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہی شعار دلوں کا تقویٰ ہے ،(الحج۲۲:۳۲)‘‘۔ البتہ ہمارا یہ مطالبہ ضرور ہے اور بجا ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدسات کی توہین نہ کریں اور خود اسلام بھی دوسرے مذاہب کو یہ ضمانت دیتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’مسلمانو!یہ لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں ،انھیں گالی نہ دو ،ورنہ وہ (ردِّعمل میں)سرکشی اور جہالت کی بنا پر اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے ،(الانعام۶:۱۰۶)‘‘۔
ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر عناصر چند مثالیں ڈھونڈ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخوں کو معاف کردیا تھا‘‘۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے حق کو معاف کرنا صاحبِ حق کا اختیار ہوتا ہے ، کسی دوسرے کو یہ اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ نیز فتح مکہ کے موقعے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مخالفین کے لیے عفوِ عام (General Amnesty) کا اعلان کیا تھا ،اُس وقت بھی آپؐ نے گستاخِ نبوت ابن خطل کو معاف نہیں کیا تھا اور اُسے جہنم رسید کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ اسی طرح جب ایک نابینا صحابی نے اپنی بیوی کو قتل کردیا اور اُسے بارگاہِ نبوت میں طلب کیا گیا،تو انھوں نے کہا تھا:یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی اس بیوی سے بے انتہا محبت تھی ،اس سے میرے پیارے بچے ہیں، مگر یہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرتی تھی، اس لیے میں نے اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ کر اسے جہنم رسید کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس اقدام کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی۔
یہ بھی گزارش ہے کہ کئی لوگ شانِ نبوت میں یا دینی مقدسات کی اہانت پر مبنی آڈیو وڈیوکلپس کو بڑے پیمانے پر پھیلاتے اور شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اَزراہِ کرم یہ ہرگز نہ کریں۔ ایک ہی جیسے مناظر بار بار دیکھنے اور دکھانے سے اُن کی سنگینی میں کمی واقع ہوتی ہے اور مسلمانوں میں بے حسی پیدا ہوتی ہے، جس کے بارے میں معلوم ہو اُسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کے اندر دینی مقدسات کی اہانت پر مشتمل مواد کو فلٹر کرنے کے لیے کوئی نظام وضع کرے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت اور سریع العمل کارروائی کے لیے سائبرکرائم میں نئی دفعات کا اضافہ کرے۔ نیز پارلیمنٹ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھائے۔
ہم دینی مقدسات کی توہین کے حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے ، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے ، کیونکہ اس کے منفی نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم، جب ہمارا قانون صرف قانون کی کتابوں کی زینت بنا رہے گااور ہمارے نظامِ عدل میں پورے دینی اور ایمانی عزم کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا، تو اللہ تعالیٰ ،رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تقدیس کے حوالے سے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اشخاص ایسے ہوسکتے ہیں جو رَدعمل میں انتہائی اقدام کر بیٹھیں۔ ایسے اقدام کا سدِّباب صرف قانون کے شفاف اور سریع العمل نفاذ سے ہوسکتا ہے ،اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
یہ سوال کہ ’’کیا اللہ تعالیٰ کے لیے ’عاشق‘ یا ’معشوق‘ یا ’مشوق‘ کے کلمات استعمال کرناجائز ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کے لیے عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا یایہ کہنا کہ ’’فلاں عاشقِ رسول ہے یا میں عاشقِ رسول ہوں‘‘،شرعاً جائز ہے ،نیزکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معشوق کہنا جائز ہے؟ ہم عشق حقیقی اور عشق مَجازی کے الفاظ سنتے رہے ہیں، کیا ان میں کوئی معنوی فرق ہے ،نیزنعت یا سلام میں یہ شعر پڑھناکیسا ہے:’’امتی کیا،خود خدا شیدا ہے تمھارا؟‘‘
سب سے پہلے عشق کے معنی بیان کیے جاتے ہیں، اَلْمُعْجَمُ الْوَسِیْط کے مطابق: ’عشق‘ کے لغوی معنٰی ہیں:’’ بہت شدت سے محبت کرنا،کسی شئے کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا ،چمٹ جانا‘‘۔ مِصْبَاحُ الْمُنِیْر میں ہے:’’ محبت میں اِفراط (یعنی حد سے تجاوز یا انتہائی درجے کی محبت) کو ’عشق‘ کہتے ہیں، اَلْمُنْجِد میں ہے : ’’بہت زیادہ محبت کرنا ،محبت میں حد سے بڑھ جانا،عَشِقَ بِالشَیٔ ِ : چمٹنا،العِشْقُ : محبت کی زیادتی،اس کا اطلاق پارسائی اور غیرپارسائی دونوں اعتبار سے ہوتاہے‘‘۔
ہندی میں ’عشق پیچاں‘ ایک بیل کو کہتے ہیں، اردو زبان میں اسے’آکاس بیل‘ کہتے ہیں، یہ درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو برگ و بار یعنی شاخوں، پتوں اور پھولوں سے محروم کردیتی ہے، پھر وہ زرد ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے۔
پس جب ’عشق‘ قلبِ عاشق پہ چھا جاتا ہے تو اس کو زرد رُو اور لاغَر بدن بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عاشق ، معشوق اور مشوق کے کلمات استعمال کرنا شریعت کی رُو سے درست نہیں۔ شاقَ یَشُوْقُ شَوْقًا کے معنی ہیں:’’شوق دلانا‘‘، اس کی صفتِ مفعولی مشوق ہے۔ شَوقْ کے معنی ہیں:’’سخت خواہش، بڑی آرزو‘‘۔بعض فقہا وعلما نے اسے ’بدعت‘ کہاہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے کلمات استعمال کرنے والے کو بدعتی قرار دیا گیا ہے ،البتہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، بعض علماء نے کہا ہے: ’ایسے شخص کو سزا دی جائے گی ‘۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب میںسے ایک یہ ہے :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صریح اہانت کا کلمہ تو درکنار ، ایسا ذومعنی کلمہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں ، جس کا ایک معنی تعظیم کا ہو اوربولنے والے کی نیت بھی تعظیم کی ہو ،لیکن اس کے ایک دور کے معنی اہانت کے بھی نکل سکتے ہوں ،کیونکہ کوئی بدنیت اور بدعقیدہ شخص ایسے کلمات بول کر اہانت کا معانی مراد لے سکتا ہے‘‘۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مجلس منعقد ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوتا اور کوئی بات کسی صحابی کی سمجھ میں نہ آتی ،تو وہ عرض کرتے: راعِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘،’’یعنی اے اللہ کے رسولؐ! ہماری رعایت فرمایئے ، ہماری طرف توجہ فرمایئے ، اپنی بات مکرر ارشاد فرمایئے‘‘۔صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نیت درست ہوتی تھی ، لیکن بعض منافقین اوریہود بدنیتی سے اس لفظ کو اِمالہ(Tilt) کرکے رَاعِیْنَا کہتے اورباہر آکر اپنی مجلسوں میں اس کا مذاق لیتے کہ ہم نے انھیں بنادیا،کیونکہ رَاعِیْنَا کے معنی ہیں: ’ہمارا چرواہا‘ اور بعض اسے ’رَعْن‘ سے لیتے اوررعونت کے معنی ہیں:’’بے وقوف ہونا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذومعنی لفظ کے استعمال سے منع فرمادیا اور تنبیہہ فرمائی کہ پہلی مرتبہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غورسے سن لیاکرو، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زحمت دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُولُوْا انظُرْنَا وَاسْمَعُوْا (البقرہ ۲:۱۴۰)’’اے ایمان والو!راعِنَا ‘‘نہ کہا کرو،بلکہ انظُرْنَا (ہماری طرف توجہ فرمایئے!) کہاکرو اور (بہتریہ ہے کہ پہلے ہی ) توجہ سے سن لیا کرو‘‘۔ ذومعنی لفظ کو ہم انگریزی میں Ambigous سے تعبیر کرسکتے ہیں،لغت میں اس کے معنی ہیں:’’ایسا لفظ جس کے ممکنہ طور پر ایک سے زائد معانی ہوں، اس سے بعض صورتوں میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
نیز فرمایا: مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۴۶ (النسآء۴:۴۶) ’’یہودیوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے کلمات کو ان کی جگہوں سے پھیردیتے ہیں اورکہتے ہیں : ہم نے سنا اورنافرمانی کی (اور آپ سے کہتے ہیں:) سنیے آپ نہ سنائے گئے ہوں اوراپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعن کرتے ہوئے ’رَاعِنَا‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے سنا اورہم نے اطاعت کی اورآپ ہماری بات سنیں اورہم پر نظرِ کرم فرمائیں تویہ اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے، سوان میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے‘‘۔
قرآن کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کے لیے ’حُبّ‘ کا کلمہ آیا ہے، اُس کی انتہا کو ’اَشَدَّ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ(البقرہ۲:۱۶۵)،’’بعض لوگ اللہ کے غیرکو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اوراُن سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیںاور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں‘‘۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیائے کرام اور بعض متقدمین نے اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے لفظ معشوق اور مَشُوق استعمال کیا ہے، مگر اہل علم نے دو وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل وسماع پر موقوف ہیں، عقل پر موقوف نہیں ہیں) اور دوم یہ کہ اس کا اطلاق جسمانی لذتوں میں (زیادہ) متعارف ہے، (تفسیر امام راغب اصفہانی،ج۱، ص ۴۹)‘‘۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:’’ اہل علم نے اس میں اختلاف کیاہے کہ آیا یہ کلمہ (عاشق یا معشوق) اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بولاجاسکتا ہے ،صوفیا کی ایک جماعت نے کہاہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے اس بابت اثر نقل کیاہے، لیکن ایسا اثر کہیں ثابت نہیں ہے اور اُسی میں ہے :عشق کرنے والا کہے گا:’’ اس نے مجھ سے عشق کیایا میں نے اس سے عشق کیا‘‘اور جمہور علماء نے کہا : یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں نہیں بولا جائے گا ،پس یہ نہیں کہاجائے گا : ’’وہ (فلاں ) سے عشق فرماتا ہے ‘‘ اوریہ بھی نہیں کہاجائے گا : ’’اُس کے بندے نے اُس سے عشق کیا‘‘،محدثین کی اصطلاح میں ’’اثر‘‘قولِ صحابی کو کہتے ہیں۔
قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ سے محبت کے حوالے سے البقرہ: ۱۶۵، ۱۹۵، ۲۲۲، آل عمران: ۳۱، ۷۶، ۱۳۴، ۱۴۶، ۱۵۹، توبہ: ۲۴ اور دیگر مقامات پر أَحَبّ ، یُحِبُّ ، یُحِبُّونَ ، حُبّا کے الفاظ آئے ہیں، نیز حدیثِ پاک میں ہے :’’ جومیری رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، باہم مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے پر مال خرچ کریں ،ان کی محبت میرے ذمۂ کرم پر ہے ،(مسند احمد :۲۲۰۳۰)‘‘، بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب ہیں، بندہ اُن کا حق ادا نہیں کرسکتا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۸ (النحل۱۶:۱۸) ’’اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم اُن کاشمار نہ کر پائو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا،نہایت مہربان ہے ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! میں تیری ثناکا احاطہ نہیں کرسکتا ، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تونے خود اپنی ذات کی فرمائی ،( صحیح مسلم:۴۸۶)‘‘۔
علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں:’’اگر اس نے کہا : میں ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ میں غمِ جان سے آزادہوگیا‘‘،یہ کہنے سے اس کی تکفیر تونہیں کی جائے گی ،لیکن وہ مُبْتَدِع ہے(اور) فریب نفس میں مبتلا ہے،اسی طرح اگر کہا: ’’میں اللہ کا عاشق ہوں یاوہ مجھ سے عشق فرماتا ہے‘‘ تومبتدع ہے۔ علامہ سلیمان بن منصورشافعی لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعاشق اورمعشوق کہنا جائز نہیں ہے ،بلکہ ایساکہنے والے کو سزا دی جائے گی [یعنی یہ ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے]،(حَاشِیَۃُ الْجُمَلْ عَلٰی شَرحِ الْمَنْہَجْ،جلد۲، ص ۱۹۴)‘‘۔
امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا:’’ اللہ تعالیٰ کو عاشق اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کامعشوق کہنا جائزہے یانہیں؟‘‘،آپ نے جواب میں لکھا:’’ناجائز ہے ،کیونکہ عشق کامعنی اللہ عزوجل کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ بے ورُودثبوتِ شرعی حضرتِ عزّت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی ہے، ردالمحتارمیں ہے:’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی لفظ سے صرف مُحال معنی کا وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہے‘‘۔
علامہ یوسف اردبیلی شافعی اَلْاَنْوَار لاَِعْمَالِ الاَبْرَار میں شافعی اور حنفی علماء سے نقل فرماتے ہیں :’’اگر کوئی شخص کہے : میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے‘‘ ،تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ یوں کہے:’’ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتاہے۔ جس طرح قرآنِ کریم میں ہے:’’اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے،(المائدہ۵:۵۴)‘‘،اسی طرح امام ابن حجر مکی نے’اِعلام‘ میں نقل فرما کراسے مقرّر رکھا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد۲۱، ص۱۱۴ تا ۱۱۶)۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی سے سوال ہوا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دل بر، دل رُبا اور معشوق کہہ سکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں الفاظ:دل بر، دل رُبا اور معشوق میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔ یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دل بر یا دل رُبا یا معشوق ہیں، اس لیے کہ دل بر، دل رُبا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہامِ تجسّم (جسمانیت کا وہم پیداہوتا)ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نَقص ،کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے،(فتاویٰ شارح بخاری ،جلد۱، ص ۲۸۱)‘‘۔
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘، ’دلبر‘ اور ’دل رُبا‘ کے الفاظ استعمال کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے اورعلمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین کے لیے ’عاشق‘ کالفظ بکثرت استعمال ہورہاہے ، اس کی جمع عُشّاق ہے اور ع کے فتحہ کے ساتھ عَشّاق کے معنیٰ ہیں : ’’بہت زیادہ عشق کرنے والا ‘‘ ،یعنی یہ مبالغہ کا صیغہ ہے ۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘ کا لفظ کبھی نہیں سنا اوریہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان معلوم نہیں ہوتا ، اس سے اجتناب بہتر ہے ،حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں خرابی نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ کلمہ مُبتذل ہے،سفلی جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، اس لیے ہماری رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معشوق کا کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حبیب اورمحبوب کے کلمات استعمال کیے جائیں ، ان میں حرمت ہے، وقار ہے، تقدیس ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے کہ مومن کی نظر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذواتِ مقدسہ صرف محبوب نہیں، بلکہ اَحَبّ(محبوب ترین) ہونی چاہییں۔
(۱)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن (کامل) نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنے والد ،اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب (اَحَبّ)نہ جانے، (صحیح البخاری:۱۵)‘‘۔
(۲)’’عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دراں حالیکہ وہ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،تم اُس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں تمھارے لیے تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! بخدا!اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر! اب تم نے کمالِ ایمان کو پالیا ،(بخاری:۶۶۳۲)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ ’’شیدا‘‘کے اطلاق کے بارے میں مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’(اللہ تعالیٰ)کو شیدائے محمد کہنا بھی جائز نہیں کہ اس میں معنیٔ سوء کا احتمال ہے،کیونکہ شیدا کے معنی ہیں:’’ آشفتہ ، فریفتہ ، مجنون،عشق میں ڈوبا ہوا، عاشق‘‘، اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے مُنَزَّہ (پاک)ہے،(فتاویٰ شارح بخاری، ج۱، ص۱۴۱)‘‘۔
’رَطْب‘ کے معنی ہیں:’تر‘ ،اور ’یَابِسْ‘ کے معنی ہیں: ’خشک‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،انھیں اُس کے سوا (ازخود)کوئی نہیں جانتا اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے اوروہ ہر اُس پتّے کو جانتا ہے جو(درخت سے) گرتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر خشک وتر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے ، (الانعام۶:۵۹)‘‘۔
قرآنِ کریم میں ’رطب ویابس ‘ ہر قسم کی معلومات کے احاطے کے لیے آیا ہے ، لیکن ہمارے اُردو محاورے میں سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے اور صحیح اور غلط کے مجموعے کو ’رطب ویابس‘ کہتے ہیں ۔ جب کسی کتاب میں ثقہ اور غیر ثقہ دونوں طرح کی باتیں جمع ہوں تو کہاجاتا ہے: یہ ’رطب ویابس‘ کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر میڈیا کی یلغار ہے۔ بے شمار ٹیلی ویژن چینل ہیں، اس کے علاوہ یوٹیوب پرڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے ،نیزواٹس ایپ ، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ خبروں اورتجزیات کی بہتات ہے جن میں سے بعض حقائق پر مبنی ہوتے ہیں،لیکن زیادہ تر تخمینوں، قیاسات ،ظنّیات ، مفروضات اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایک ہی چیز سے ہر ایک اپنا مَن پسند نتیجہ نکالتا ہے۔سو، خبر ذریعۂ علم ہے ، لیکن اس سے بے خبری ،ذہنی انتشار اور فکری کجی عام ہورہی ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے کہا ہے:
خبرِ تَحَیُّرِ عشق سن ،نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو، تُو رہا ،نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
قرآنِ کریم نے خبر کی بابت یہ اصول بیان فرمایا:’’اے ایمان والو! تمھارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو پھر تمھیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے،(الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ کے لیے بھی ردّوقبول کے معیارات مقرر کیے گئے ہیں اور اُس کے لیے علم کا ایک پورا شعبہ’’جرح وتعدیل‘ وجود میں آیا۔ حدیث کے راویوں کے احوال کو منضبط کرنے کے لیے ’اَسْمَآءُ الرِّجَال ‘کی کتب موجود ہیں، سند اور راویوں کے اعتبار سے احادیثِ مبارکہ کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔ رسول اکرمؐ نے اپنی ذاتِ مبارکہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بڑی وعید فرمائی ہے: ’’جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (بخاری:۱۰۷)‘‘، نیز حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں احتیاط کیا کرو، صرف وہی بات میری طرف منسوب کیا کرو، جس کا تمھیں یقینی علم ہو۔ جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی ،وہ (بھی )اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، (ترمذی: ۲۹۵۱)‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے حدیث نے بڑی عرق ریزی اورباریک بینی سے احادیث کی چھان بین کی ، حدیث کے راویوں کے احوال قلم بند کیے ،لوگوں کی وضع کردہ احادیث کو چھان بین کر کے الگ کیا، کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا، اور موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں۔ علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’شعبی بیان کرتے ہیں :میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے پاس ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص بیٹھا وعظ کر رہا تھا ، اس کے گرد لوگوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ اس نے بیان کیا: ’’ فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کی : اللہ تعالیٰ نے دو صور بنائے ہیں اور ہر صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنے سے لوگ بے ہوش ہوں گے اور دوسری بار قیامت کے لیے پھونکا جائے گا‘‘۔ شعبی کہتے ہیں:مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں نمازجلدی ختم کر کے اس کی طرف مڑا اور کہا: شیخ!اللہ سے ڈرو اور غلط بیانی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے صرف ایک صور پیدا کیا ہے ، اسی کو دوبار پھونکا جائے گا۔ اُس شیخ نے کہا:اے فاجر! مجھ سے فلاں، فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے اور تُو مجھ پر ردّ کرتا ہے، پھر اس نے اپنی جوتی اُٹھا کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی پیروی میں اس کے تمام مریدوں نے بھی مجھے اپنے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا ۔ بخدا!ان لوگوں نے مجھ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انھوں نے مجھ سے یہ نہیں کہلوالیا کہ اللہ تعالیٰ نے دو صور پیدا کیے ہیں،(موضوعاتِ کبیر،ص۱۲)
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکرمتوفّٰی۵۷۱ھ بیان کرتے ہیں: ’’ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اس زندیق نے کہا: مجھ کو توتم قتل کر دو گے، لیکن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جن کومیں نے وضع کر کے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، ان میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمایا ہوا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ہارون الرشید نے کہا:اے زندیق!تُو عبداللہ بن مبارک اور ابن اسحاق الفزاری کو کیا سمجھتا ہے، ان کی تنقید کی چھلنی سے تیری وضع کی ہوئی حدیثوں کا ایک ایک حرف نکل جائے گا،(تاریخ دمشق ج۷، ص۱۲۷)‘‘۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کی یلغار ہے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیرہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلادیتے ہیں۔ حالانکہ ہر اُس فرد کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے، نبی اکرمؐ کا یہ فرمان ہرگز نہیں بھولنا چاہیے:’’کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ (تحقیق کیے بغیر) ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے، (سنن ابوداؤد:۴۹۹۲)‘‘۔
علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں:’’امام احمد اور یحییٰ بن معین نے مسجد رُصافہ میں نماز پڑھی۔ ان کے سامنے ایک قصہ گو کھڑا ہوا، اور اس نے حدیث بیان کی:’’ احمد بن حنبل و یحییٰ بن معین نے عبدالرزاق سے،انھوں نے معمر سے ،انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے لا الٰہ الااللہ کہا، اللہ تعالیٰ اس کے ہر کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے اور پَر مرجان کے‘‘۔ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ان دونوں نے اس حدیث سے لاعلمی کا اظہار کیا اورقصہ گوواعظ سے پوچھا:تم نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے؟ اس نے کہا:احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین سے۔یحییٰ بن معین نے کہا:میں یحییٰ بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہرگز روایت نہیں کی، تم کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہو۔ اس نے کہا:میں ایک عرصہ سے سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین احمق آدمی ہے، آج مجھے اس کی تصدیق ہو گئی۔ یحییٰ نے پوچھا:کیسے؟ اس نے کہا:تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں صرف تمھی یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہو، اور ان کا مذاق اُڑا کر چل دیا،(موضوعات کبیر،ص۱۲)‘‘۔
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’حدیث کے موضوع ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے : کسی معمولی سی بات پر بہت سخت عذاب کی وعید ہو یا کسی معمولی سے کام پر بہت عظیم ثواب کی بشارت ہو اور یہ چیز بازاری لوگوں اور قصے اور واقعات بیان کرنے والوں کے ہاں بکثرت موجود ہے، (اَلنُّکَتْ عَلٰی کِتَابِ ابْنِ الصَّلَاح،ج۲،ص۸۴۳-۸۴۴)‘‘۔
اسی طرح ہمارے ہاں رمضان المبارک اور ربیع الاول کی آمد سے قبل ایک من گھڑت حدیث سوشل میڈیا پرپھیلائی جاتی ہے:’’ جس نے سب سے پہلے رمضان المبارک کی یا ربیع الاول کی آمد کی اطلاع دی، اس کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے‘‘۔اس طرح کی حدیث کسی بھی صحیح بلکہ ضعیف اور موضوع احادیث پر لکھی گئی کتب میں بھی نہیں ملتی، اس لیے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے،پس اس طرح کے پیغامات دوسروں کونہیں بھیجنے چاہییں۔
حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:کیا مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:ہاں! پھر سوال ہوا:کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹاہوسکتا ہے، آپؐ نے فرمایا:نہیں، (موطا امام مالک: ۳۶۳۰)‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں سچ جھوٹ میں تمیز ختم ہوگئی ہے۔ ہر ایک کو وہی سچ قبول ہے، جو اُس کے فائدے میں ہو۔
ایک شخص نے سوال کیا: کیا یہ روایت صحیح ہے:’’ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان نہیں دی تھی ، تو سورج ہی نہیں نکلا‘‘۔ اسی طرح یہ روایت بھی بعض قصہ گو واعظ سناتے ہیں: ’’حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں لکنت تھی اور وہ ’ش‘ کا تلفظ ’س‘ سے کرتے تھے، چنانچہ بعض لوگوں کی شکایت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو اذان سے منع کردیا تو اُس دن صبحِ صادق طلوع نہ ہوئی، صحابۂ کرام پریشان ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک بلال کا’س‘ بھی ’ش‘ ہے،جب تک بلال اذان نہ دیں، صبح نہیں ہوسکتی‘‘، یہ روایت بھی موضوع اور من گھڑت ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس کی بابت حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی شارحِ بخاری لکھتے ہیں:’’تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے :یہ روایت موضوع ،من گھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے، (فتاویٰ شارحِ بخاری،ج ۲،ص۳۸)‘‘، مزید لکھتے ہیں: ’’مقررین نے اُن کی زبان میں تتلا پن بتایا ہے، وہ بھی غلط ہے۔ اُن کی آواز انتہائی شیریں ، بلند اور دلکش تھی، (فتاویٰ شارحِ بخاری ،ج۲،ص۴۱)‘‘۔شیخ مرع بن یوسف کرمی مقدّسی (الفوائد الموضوعہ، ص ۳۸)،امام بدرالدین زرکشی (التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ، ج۱، ص۲۰۸)، امام جلال الدین سیوطی (اَلدُّرَرُ الْمُنْتَثِرَۃ فِی الْاحَادِیث المشتھَرۃ)اوردیگر محدثین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔
عربی زبان کے علم المعانی میں خبر کی تعریف یہ لکھی ہے: ’’خبر وہ ہے جو صدق وکذب (دونوں) کا احتمال رکھتی ہے‘‘،یعنی جب تک خبر کا سچا ہونا ثابت نہ ہوجائے ، اُسے کسی بات کے ثبوت یا ردّ میں دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ’صدق‘ سے مراد یہ ہے : ’’جو کہا گیا ہے ،وہ نفس الامر اور واقع کے مطابق ہو‘‘اور ’کذب‘ سے مراد یہ ہے:’’جو کہا گیا ہے، وہ نفس الامر اور واقع کے خلاف ہو‘‘۔
بعض خطبا ء اورمقررین اپنے خطبات میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الْفَقْرُ فَخْرِیْ ( فقر میرا فخر ہے)‘‘۔ نہ صرف واعظین بلکہ بہت سی نامور شخصیات اپنی کتب ورسائل میں بکثرت اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور نعت گو شعراء اپنے کلام میں اس مضمون کو منظوم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال نے کہا:
سماں الْفَقْرُ فَخْرِیْ کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را
حفیظ جالندھری نے کہا:
اگرچہ فَقْرُ فَخْری رتبہ ہے، تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے، فرِکِسرائی وخاقانی
بہادرشاہ ظفر نے کہا:
جس کو حضرت نے کہا: الْفَقْرُ فَخْرِی اے ظفر!
فخرِدیں، فخرِ جہاں پر، وہ فقیری ختم ہے
محدثین کے نزدیک ایسی کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور یہ جعلی اور من گھڑت ہے۔امیر المومنین فی الحدیث امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:’’اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ سے پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا:یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کے ذخیرۂ روایات میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور امام صغانی نے بھی اس کے موضوع ہونے کی تصدیق فرمائی ہے، (اَلتَّلْخِیْصُ الْحَبِیْر،ج۳،ص۲۴۱)۔ علامہ سخاوی نے اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ (ص۴۸۰)، علامہ عجلونی نے کَشْفُ الْخِفَاء (ج۲،ص۸۷)،علامہ محمد طاہر پٹنی نے تَذْکِرَۃُ الْمَوْضُوْعَاتْ (ص۱۷۸)میں اس روایت کو باطل و من گھڑت قرار دیا ہے ۔
اس کے برعکس صحیح احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’فقروفاقے‘ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگاکرتے تھے اورآپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ وہ فقروفاقے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں،چنانچہ آپؐ یہ دعامانگا کرتے تھے:’’اے اﷲ! میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں،(صحیح البخاری:۶۳۷۶)۔ ایک روایت میں ہے: آپ نے دعافرمائی: ’’(اے اﷲ!)میں کفر و فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، (سنن ابوداؤد: ۵۰۹۰)‘‘۔
البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااللہ تعالیٰ سے مَسکنت کی دعا مانگناثابت ہے۔حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین ہی زندہ رکھ، مَسکنت میں موت عطافرما اور مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما،(سنن ترمذی: ۲۳۵۲)‘‘۔ لیکن محدثین فرماتے ہیں:یہاں مَسکنت سے غربت اورفقر وفاقہ مراد نہیں، بلکہ تواضع وانکسار اور اپنے رب کے حضور عجز واحتیاج کا احساس اوراس کی حفاظت، رحمت اور نگرانی کا طالب ہوناہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس مَسکنت کو طلب نہیں کیا، جس کا معنی قِلّت لیا جاتا ہے، بلکہ آپ نے اس مَسکنت کا سوال کیا ہے، جس کے معنی انکسار اور عاجزی کے ہیں،(سنن بیہقی،ج۷،ص۱۸)‘‘۔
ائمہ دین وفقہائے اسلام نے انبیائے کرام کے متعلق فقیر ،غریب،یتیم،مسکین اور بے چارہ وغیرہ ایسے کلمات کے استعمال کو سختی سے ناجائز وحرام قرار دیا ہے ،جن میں بے توقیری ،بے ادبی اور اہانت کا پہلو پایا جاتا ہے۔چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا:’’ایک خطیب نے وعظ کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا:آپ یتیم، غریب،بے چارے تھے‘‘،امامِ اہلسنت نے اس کے جواب میں متعددکتب کے حوالہ جات کے ساتھ لکھا:یہ جائز نہیں کہ ہمارے آقا نبی کریمؐ کو فقیر کہا جائے،رہا لوگوں کا الْفَقْرُ فَخْرِیْ کو آپ سے مروی کہنا تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ امام بدر الدین زرکشی نے امام سبکی کی طرح یہ کہا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ آپؐ کو فقیر یا مسکین کہا جائے اور آپؐ اللہ کے فضل سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر غنی ہیں، خصوصاً اﷲتعالیٰ کے ارشاد: ’’ہم نے آپؐ کو حاجت مند پایا سو غنی کر دیا‘‘ کے نزول کے بعد، رہا! آپ کا یہ فرمان:’’ اے اﷲ!مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘، تو اس سے مراد باطنی مَسکنت کو خشوع کے ساتھ طلب کرنا ہے اور الْفَقْرُ فَخْرِیْ باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا ہے،(فتاویٰ رضویہ، ج۱۴،ص۶۲۸)‘‘۔
اِسی طرح واقعۂ معراج کی بابت بہت سے لوگوں نے مختلف حدیثیں گھڑ رکھی ہیں، چنانچہ بہت سے مقررین بڑے ترنگ اورجوش کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شبِ معراج عرشِ الٰہی کی طرف عروج فرمانے کاارادہ فرمایا تو دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو’ وادیِ طُویٰ ‘میں نعلین اُتار نے کا حکم دیا تھا ،سو اس فرمانِ الٰہی کے پیشِ نظر آپؐ نے بھی اپنے نعلین اُتارنے چاہے،آواز آئی:اے محمد! اپنے نعلین نہ اُتارو،نعلین سمیت ہی آئو تاکہ آپؐ کے نعلین کی برکت سے عرش اعظم کو فضیلت حاصل ہوجائے‘‘۔ اس روایت کو بھی محدثین نے سراسرمن گھڑت اور بے اصل قرار دیا ہے۔
علامہ عبدالحیی لکھنوی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:’’اس قصے کا تذکرہ اکثر نعت گو شعراء نے کیا ہے اور اسے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے اور ہمارے زمانے کے اکثر واعظین اسے طوالت و اختصار کے ساتھ اپنی مجالسِ وعظ میں بیان کرتے ہیں،جب کہ شیخ احمد الْمُقْرِی نے اپنی کتاب فَتْحُ الْمُتَعَال فِیْ مَدْحِ النِّعَال میں اور علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی زرقانی نے شَرْحُ مَوَاہِبِ اللَّدُنْیَہ میں نہایت صراحت سے وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ مکمل طور پر موضوع ہے،اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو برباد کرے۔معراج شریف کی کثیر روایات میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پاپوش پہنے ہوئے تھے۔
علامہ شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’اس روایت کے جھوٹ اور موضوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں ہے ،جو صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ نعلین پاک پہنے عرش پر گئے،ان سے پوچھیے کہ کہاں لکھا ہے ،(فتاویٰ شارحِ بخاری، ج۱،ص۳۰۷)‘‘۔
حضرت اویس قرنی کے بارے میں واعظین بیان کرتے ہیں:’’ جب انھوں نے غزوۂ اُحد میں حضورکے دودندانِ مبارَک کے ٹوٹنے کا سنا تو فرطِ عشق میں اپنے سارے دانت توڑ دئیے کہ نہ جانے آپؐ کے کون سے دندانِ مبارک شہید ہوئے ہیں۔ ایک جگہ تو یہ بھی پڑھنے کو ملا :’’ ان کے ٹوٹے ہوئے دانت پھر صحیح سالم نکل آئے ، انھوں نے پھر توڑے اور ایسا سات بار ہوا،پھر چونکہ وہ ٹھوس غذانھیں چبا سکتے تھے، اس لیے اُن کی خاطر قدرت نے کیلے کا پودا پیدا فرمایا‘‘۔ خوف ِخدا سے عاری نعت خواں ایسے اشعار پڑھ کر نذرانے سمیٹتے ہیں۔یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ یہ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معیار ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار یہی ہوتا تو صحابۂ کرامؓ جو محبتِ رسولؐ میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے، ضرور مشابہتِ رسول کی خاطر اپنے دانتوں کو توڑ دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس وہی قرینۂ عشقِ رسول پسندیدہ اور معتبرہے، جوشریعت کے اصولوں کے مطابق ہو،جب کہ شریعت کی رُو سے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح یہ مثال کہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبریلِ امینؑ سے پوچھا:تمھاری عمر کتنی ہے؟اُنھوں نے عرض کی:یارسول اللہ!مجھے اپنی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں ہے، البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجاباتِ عظمت میں سے چوتھے پردے میں ایک ستارہ چمکا کرتا تھا، وہ ستارہ ستّرہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا اور میں نے اُسے بہتّر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبریلؑ!مجھے اپنے ربِ جلّ جلالہ کی عظمت کی قسم !وہ ستارہ جو ستّر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ طلوع ہوتا تھااور جسے تم بہتّرہزارمرتبہ دیکھ چکے ہو،وہ (طلوع ہونے والا)ستارہ میں ہی ہوں‘‘۔
ہمارے ہاں وعظ وخطابات کی کچھ معروف کتابوں میں یہ حدیث درج ہے اور بہت سے واعظین اورخطبا حضرات گھن گرج کے ساتھ اس حدیث کو محافل میں بیان کرتے ہیں۔حالانکہ اس روایت کے متن وسند کاکتبِ احادیث میں سے کسی کتاب میں کوئی نام ونشان ہے اور نہ ضعیف اور موضوع روایات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں اس کاکہیںذکرملتا ہے۔اس روایت کا ذکر گیارھویں صدی ہجری کے سیرت نگار علامہ نور الدین علی بن ابراہیم حلبی کی کتاب اَنْسَانُ الْعُیُوْن فِیْ سِیْرَۃِ الْاَمِیْنِ الْمَامُوْن میں ملتا ہے۔ علامہ حلبی نے اس روایت کو التَّشْرِیْفَات فِی الْخَصَائِصِ وَالْمعجزات نامی کتاب کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور اِس کتاب کے مصنف کے متعلق وہ فرماتے ہیں:مجھے اِس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا ہے، (ج۱،ص۴۷)‘‘۔ یعنی اس کتاب کے مصنف مجہول اور نامعلوم شخص ہیں ،نیز اصل مآخِذ میں بھی یہ حدیث کہیں نہیں پائی جاتی ، نہ جانے اُنھوں نے کہاں سے اس کو حدیث تصور کرلیا ہے ، لہٰذا اس کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
اِسی طرح کئی واعظین خلفاء ِ راشدین کی طرف یہ روایات منسوب کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا‘‘،حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:’’جس نے محفلِ میلاد کی تعظیم کی، اُس نے اسلام کو زندہ کیا‘‘، حضرت عثمانؓ نے فرمایا:’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا ،گویا وہ غزوۂ بدر وحنین میں شریک ہوا ‘‘،حضرت علیؓ نے فرمایا:’’جس شخص نے میلادالنبیؐ کی تعظیم کی اور میلاد شریف پڑھنے کا سبب بنا ،تو ایسا شخص دنیا سے باایمان جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا‘‘۔
یہ روایات دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم علامہ ابن حجرہیتمی کی طرف منسوب کتاب اَلنِّعْمَۃُ الْکُبْریٰ عَلَی الْعَالَمِ فِیْ مَوْلِدِ سَیِّدِ وُلدِآدَم میں پائی جاتی ہیں۔اس کتاب کے علاوہ کتبِ احادیث وآثاراور کتبِ موضوعات وسِیَر میں کہیں ان روایات کا نام ونشان تک موجود نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جو تمھیں ایسی حدیثیں بیان کریں گے جو نہ تم نے سُنی ہوں گی اور نہ تمھارے آباء نے، تم اُن سے دور رہنا،(صحیح مسلم:۶)‘‘۔
سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر بزرگانِ دین کے یہ ارشادات علامہ علی القاری ،علامہ سیوطی ، علامہ نبہانی،امام رَبّانی مجدِّدِ الفِ ثانی،شیخ عبدالحق محدّث دہلوی، امام احمد رضا قادری رَحِمَہُمُ اللہُ اَجْمَعِیْن اوردیگر علمائے اسلام کی نگاہوں سے کیوں پوشیدہ رہے، جب کہ ان حضرات کی وسعتِ علمی کے اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں۔خود ان اقوال کی زبان اور اندازِ بیان بتا رہا ہے کہ یہ دسویں صدی کے بعد تیار کیے گئے ہیں۔میلاد شریف پڑھنے پر دراہم خرچ کرنے کی بات بھی خوب رہی۔صحابہ کرام ؓکے دور میں نہ تو میلاد شریف کی کوئی کتاب پڑھی جاتی تھی، نہ میلاد کے پڑھنے کے لیے اُنھیں دراہم خرچ کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم، ان کی ہر محفل اور ہرنشست میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل وکمال اور آپؐ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا تھا۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: لوگوں کے انتساب سے خالی ہے ،جب کہ لوگوں کے ہاتھ میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں،ان میں سے اکثر میں موضوع روایات موجود ہیں،(جواہر البحار، ج۳،ص۳۲۹)‘‘۔
لوگوں میں یہ بھی معروف ہے کہ گلاب کا پھول، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت انسؓ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی جاتی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے آسمانوںپر معراج کے لیے بلایاگیا توزمین رونے لگی ،جب میں معراج سے زمین پر واپس ہوا تو میرے پسینے کے قطرات زمین پرپڑے ،اس سے گلاب کاپھول پیدا ہوا، اب جو شخص میری خوشبو سونگھنا چاہتا ہے ،اسے چاہیے کہ گلاب سونگھے‘‘۔ اِسی کے مثل ایک یہ روایت ہے:’’معراج کی شب سفید گلاب میرے پسینے سے پیدا کیا گیا ،سرخ گلاب حضرت جبریلِ امین کے پسینے سے پیدا کیا گیا اور زرد گلاب براق کے پسینے سے پیدا کیا گیا ‘‘۔ ان روایات کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں:’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ اورامام ابن عساکر فرماتے ہیں:’’یہ حدیث موضوع ہے‘‘ (اَلدُّرَرُالْمُنْتَثِرَہْ فِی الْاَحَادِیْثِ الْمُشْتَـہَرہ،ج۱،ص۲۱۹)۔ علامہ سخاوی نے بھی ’’اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ، ص۲۱۶‘‘میں اس حدیث کوشیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے اورعلامہ علی القاری نے بھی’’اَلْمَصْنُوْع فِیْ مَعْرِفَۃِ حَدِیْثِ الْمَوْضُوْع، ص۷۰‘‘میں اس حدیث کوحافظ ابن حجر کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے ،نیز علامہ یوسف بن صالح شامی نے بھی’’سُبُلُ الْہُدیٰ وَالرَّشَاد،ج۲،ص۸۸‘‘میںاس حدیث کو باطل وموضوع قرار دیا ہے۔
دسویں صدی ہجری کے مجدّد،مفسرومحدّث،فقیہ ومؤرّخ تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف اور دولاکھ احادیث کے حافظ خَاتِمُ الْمُحَدِّثِیْن وَالْمُحَقِّقِیْن علامہ جلال الدین سیوطی شافعی اپنی ایک کتاب تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کی وجہ ِتالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’حال ہی میں مصر کے ایک معروف پیشہ ور خطیب کے متعلق مجھ سے یہ فتویٰ طلب کیا گیا کہ اس نے اپنے خطاب میں ایک حدیث بیان کی ہے ،میں اس حدیث کو یہاں نقل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں ،اگر مجبوری نہ ہوتی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑے ہوئے جھوٹ کو ہرگز بیان نہ کرتا۔اس جاہل خطیب نے بیان کیا:’’ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے (الانبیاء ۲۱:۱۰۷)‘‘، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل امینؑ سے فرمایا : اے جبریلؑ!کیا میری رحمت سے تجھے بھی کوئی حصہ حاصل ہوا ہے؟جبریلؑ نے عرض کیا:جی ہاں،یا رسولؐ اللہ!اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہزاروں فرشتوں کو پیدا کیا تھا اور ان سب کا نام جبریل رکھا تھا اور ان میں سے ہر ایک سے یہ سوال فرمایا تھا:میں کون ہوں، لیکن ان میں سے کسی کو جواب معلوم نہیں تھا،چنانچہ سب پگھل گئے ،پھر جب مجھے پیدا کیا گیا تو مجھ سے بھی یہی سوال ہوا ، (الخ)‘‘۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں:میں نے فتویٰ دیا :’’ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے ،یہ باطل ہے ،اسے روایت کرنا اور اسے عوام الناس کے سامنے بیان کرنا ہر گز جائز نہیں ہے ۔ اس خطیب پر لازم ہے کہ جو احادیث وہ محافل میں بیان کرنا چاہتا ہے، پہلے اُنھیں محدثین کے سامنے بیان کرکے ان کی تصحیح کرائے ،اگر وہ اُسے بیان کرنے کی اجازت دیں تو بیان کرے ،بصورتِ دیگر اُنھیں بیان نہ کرے‘‘۔جب میرا یہ فتویٰ اُس خطیب تک پہنچا تو قبول کرنے کے بجائے اس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور شدید غصے کے عالم میں ِ منبرپر کہا:اب مجھ جیسا انسان اِن شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح کرائے گا اور یہ مجھے بتائیں گے کہ کونسی حدیث صحیح اور کون سی باطل ہے،جب کہ میں روئے زمین کا سب سے بڑا عالم ہوں۔اِس طرح اُس نے اور بھی ہذیان بکا،پھر اس نے عوام کو میرے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا ،یہاں تک کہ لوگوں نے مجھے سَبّ وشَتْم کا نشانہ بنایا ،بلکہ قتل اور سنگسار کرنے کی بھی دھمکیاں ملنے لگیں۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو دوبارہ تحریر کیا:’’اگر یہ شخص شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح نہ کروائے گااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب جھوٹ منسوب کرنے پر ہٹ دھرمی دکھاکر اس حدیث کو پھر سے بیان کرے گا، جب کہ اس پر حدیث کا باطل ہونا بھی واضح ہوچکا ہے ،تو میں اس پر کوڑے مارنے کا فتویٰ جاری کروں گا‘‘۔لیکن اس نام نہاد خطیب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ مزید اشتعال انگیزی پر اُترآیا اور ساتھ ہی جاہل عوام بھی اس تعصب میں اس کا ساتھ دینے لگے ،سو میں اس مسئلے پر : تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقِصَاص کے نام سے یہ کتاب لکھ رہا ہوں،اس کا معنٰی ہے: ’’واعظوں کی من گھڑت اور جھوٹی روایتوں اور قصے کہانیوں سے خواص کو خبر دار کرنا ‘‘۔
بھارتی فسطائی اور نسل پرست تنظیم ’راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ‘ (RSS) نے مغالطہ انگیزی پر مبنی تین سوال فضا میں اُچھالے ہیں، جن سے ایک عام سطح کا فرد ان مغالطہ انگیز سوالات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ آر ایس ایس کے مرکزی نظریہ ساز لیڈر نے بھارت میں بسنے والے ۲۰کروڑ سے زاید مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر وہ بھارت میں سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انھیں تین شرطیں پوری کرنا ہوں گی:
درحقیقت یہ تین نکاتی ایجنڈا محض بھارتی نسل پرست برہمنی تنظیم تک محدود نہیںہے، بلکہ آج مغربی ممالک کی حکومتوں اور ان کے زیر اثر مسلم معاشروں کی مقتدر قوتوں کے جارحانہ پروگرام کا بھی حصہ ہے۔تین محترم علماے کرام نے ہماری دعوت پر اس مسئلے پر جو جوابات تحریر کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ س م خ
بلاشبہہ بھارت میں راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ(RSS) ایک فسطائی (Fascist)، نسل پرست (Racist) اور ہندوئوں کی جنونی مذہبی انارکسٹ ( Anarchist) تنظیم ہے۔اس سے مراد وہ گروہ ہے، جو کسی آئین وقانون کو نہیں مانتا۔ ان کا مقصد لاقانونیت ، نِراج اور فساد ہوتا ہے، وشوا ہندو پریشد (WHP)اس کی ذیلی تنظیم ہے ‘‘، نیز یہ کہ اُن کے فکری رہنما رام مادھو نے بھارتی مسلمانوں کو ہندستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں کہ مسلمان بھارت میں ہندوئوں کی طرح اسلام کو ایک پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کر کے رہیں۔جنابِ افتخار گیلانی لکھتے ہیں: ’’بھارتی آرمی کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر نے ایک تھنک ٹینک کے تحت منعقدہ سیمی نار میں کہا تھا: ’’مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کر کے اس کا طواف کریں یا ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں ،کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے‘‘۔
ویدانتیوں کا ایک مطالبہ یہ ہے :’’مسلمان اپنے علاوہ دوسروں کو کافر نہ کہیں‘‘، جب کہ اسلام کے نزدیک جو اسلامی عقائد واحکام اور فرائض ومحرمات کو تسلیم نہیں کرتا یا جس کے عقائد ضدِّاسلام ہیں، اُن کا حامل کافر کہلاتا ہے ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جیسے ’’اگرہندو اپنے آپ کوہندو یاویدانتی کہلوائیں یا نصاریٰ اپنے آپ کو مسیحی کہلوائیں یا یہوداپنے آپ کو یہودی کہلوائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘، معنوی اعتبار سے اس کا مآل (consequence) یا نتیجہ ایک ہی ہے، اس لیے کفر کو کفر ہی کہاجائے گا۔
دراصل ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام ، اسلامی اقدار و روایات اور اسلامی شعائر بھارتی مسلمانوں کو اُمّت سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح بھارتی مسلمان ’عالمی اخوتِ اسلامی‘ کے رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ اگر مسلمانانِ عالَم اور مسلم حکومتیں باحمیت ہوں تو وہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک امت اور ملّت کایہی تصورہے، جو انھیں بُری طرح کھٹکتا ہے اور جسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن شعائر کو مسلمان کی ظاہری پہچان قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ،(نماز میں) ہمارے قبلے کی جانب رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مُسلم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ضمان، (یعنی تحفظ) حاصل ہے، سو اللہ کے ضمان کو نہ توڑو، (صحیح البخاری:۳۹۱)۔
حدیث پاک سے مراد یہ ہے: اگر مندرجہ بالا ظاہری علامات کسی میں پائی جائیں ، تو جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو، اُسے مسلمان تصور کیا جائے گا۔ اسی تصور کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مَنفَعت ایک ہے اس قوم کی، نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح پائو گے کہ جب اُس کا کوئی عُضو تکلیف میں ہوتا ہے تواس کے سبب سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے، (صحیح البخاری:۶۰۱۱)‘‘۔
علامہ محمد اقبال نے اسی حدیثِ پاک کو منظوم کیا ہے:
مبتلائے درد ہو کوئی عُضو ،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی، ہوتی ہے آنکھ
ہندو فسطائی نسل پرست جنونیوں نے مسلمانانِ ہند پرہندستان میں پُرامن طور پر رہنے کے لیے جو تین شرائط عائد کی ہیں، وہ وہی ہیں جو پاکستان کے لبرل سیکولر عناصر یہاں کے مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی لبرل عناصر بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان امت اور ملّت کے تصور سے نکل آئیں ، اسلامی ریاست کی بات کرنا چھوڑ دیں اور ’قومی ریاست‘ کی بات کریں۔ کیونکہ جب ہم مسلم دنیا سے لاتعلقی کے اس تصور کو اپنائیں گے تو بھارتی مسلمانوں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں ،فلسطین کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں پر جوبھی گزرے، اس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہوگا، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔
ہمارے لبرل یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دین سے انحراف، یعنی ارتداد، مذہبی مسلّمات ومقدّسات کی اہانت ،الغرض ایسی کسی بات پر، کسی کو مواخذہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہرایک اسلام کی اپنی تعبیر کرسکتا ہے، اپنے نظریات میں آزاد ہے،کسی عالم یا مفتی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی کے کفر کو کفر کہہ سکیں۔ یہی ہے مادر پدر آزادی ، بے راہ روی اور دین اور اہلِ دین سے بیزاری۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ: ’’جہاد کی بات نہ کی جائے، کیونکہ اس سے عالَمِ کفر ناراض ہوتا ہے‘‘۔
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں ،سکھوں ، جَین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں ‘‘، جب کہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دینِ اسلام کو حق سمجھے اور اس کے مقابل ادیان کو باطل سمجھے۔ اپنے حالات میں دین کے غلبے کی ہرممکن کوشش کرے ، البتہ اسلام، اپنی قبولیت کے لیے جبر واِکراہ اور دہشت و فساد کی اجازت نہیں دیتا ،مگر دعوت وتبلیغ کے ذریعے دینِ اسلام کو پھیلانا ہرمسلمان کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل)ادیان پر غالب کردے ،خواہ مشرک اسے ناپسند کریں، (التوبہ ۹:۳۳، الصف۶۱:۹)‘‘___ اور یہ کہ: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی اس پر کافی ہے (کہ یہ ہوکر رہے گا)، (الفتح ۴۸:۲۸)‘‘۔
اسی طرح کفر کو کفر کہنا پڑے گا۔قرآنِ کریم اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناطِق و شاہد ہیں ۔ حق وباطل میں تمیز کرنا اور حق کوباطل سے ممتاز کرنا ہرمسلمان کی ذمے داری ہے۔ قرآنِ کریم کی ’سورۃ الکافرون ‘اور دیگر متعددآیات اس پر شاہد ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اسلام نے بیانِ حق کے بارے میں مُداہَنت کی اجازت تونہیں دی،لیکن کافروں سے مُدارات ہوسکتی ہے اور قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں اُن لوگوں کے ساتھ نیک برتائو کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، جنھوں نے نہ دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمھیں صرف اُن لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع فرماتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے نکالنے میں (تمھارے دشمنوں کی )مدد کی ہے اور جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے ، تووہی لوگ ظالم ہیں ،(الممتحنہ۶۰:۸-۹)‘‘۔
سورۃ التوبہ۹:۲۴، اور سورۃ المجادلہ ۵۸:۲۲میں قرآنِ کریم نے واضح طور پربتایاہے کہ ایمان اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے،نیز اسلام نے مومن کوکائنات کی اُن تمام چیزوں سے اپنی حد کے اندررہتے ہوئے محبت کرنے یا وابستگی رکھنے کی اجازت دی ہے، جن سے لگائو انسان کافطری تقاضا ہے۔ لیکن اگران تمام چیزوں کی محبت یکجا ہوکر بھی اللہ تعالیٰ،اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اُس کی راہ میں جہاد کے مقابل آجائیں تو ایمان تب سلامت رہے گا جب صرف اللہ تعالیٰ ،اُس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کومحبوب ترین مانا جائے۔
’جہاد‘ایک جامع اصطلاح ہے ،گذشتہ کچھ عشروں سے دشمنانِ اسلام نے جہاد کو فساد کا ہم معنی قرار دے رکھا ہے۔ یہ نظریہ ایک فریب ہے، باطل ہے اور اسلام سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ جہاد کے اپنے تقاضے اور حدود وقیود ہیں۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ جِدال وقِتال کے لیے آمادہ رہتے ہیں ، بحیثیت مسلمان ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ِاس وقت جن اقوام کو دنیا پر مادّی وسائل اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے غلبہ حاصل ہے، انھوں نے آج تک دانستہ انتہاپسندی،دہشت گردی، عسکریت پسندی کی کوئی جامع مانع متفق علیہ(Comprehencive & Agreed upon) تعریف نہیں کی تاکہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں،ان الزامات کو ایک حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں۔ انھوں نے حریّتِ وطن کی جِدّوجُہد(Struggle for Freedom) اور دہشت گردی میں بھی نہ تفریق کی ہے اور نہ ان دونوں کے درمیان ’مابہ الامتیاز‘ (Distinctive Feature)بتایاہے۔انسانی تاریخ میں جِدال وقِتال ہمیشہ ایک غیر مطلوب اور ناگزیر ترجیح رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’لوگو! دشمن سے تصادم کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت مانگتے رہو، لیکن جب (ناگزیر طور پر)دشمن سے ٹکرائو ہوجائے تو (پھر) صبر کرو (اور ثابت قدم رہو)، (صحیح البخاری: ۲۹۶۶)‘‘۔
امریکیوں کے اجداد نے بھی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے اٹھارھویں صدی کے رُبعِ آخر میں مسلح جِدّوجُہد شروع کی تھی اور امریکی آج بھی اپنی آزادی کے لیے مسلّح جِدّوجُہد کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور نشانِ افتخار (Symbol of Pride)مانتے ہیں۔
بھارتی دستور کی دفعات ۲۵ تا ۳۰ کے تحت بھارتی شہریوں کو آزادیِ ضمیرو آزادیِ مذہب کی اجازت ہے۔انھیں اپنے مذہب،زبان، رسم الخط، ثقافت ،مذہبی تعلیم اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے ، وقف قائم کرنے اور اُن کے انتظامی امور کو چلانے کاحق حاصل ہے،جب کہ ڈاکٹر پروین بائی توگڑیاجیسے متعصب ہندو توا کے نظریات کے حامل لوگ، مسلمانوں سے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام ایک دعوتی دین ہے۔اسے کسی خاص ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دعوت سارے عالَمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) آپ کہیے: لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، (الاعراف ۷:۱۵۸)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(مجھ سے پہلے) نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھااور مجھے سارے عالَمِ انسانیت کا رسول بناکر بھیجا گیا ہے، (صحیح البخاری: ۳۳۵)‘‘، ’’مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے، (صحیح مسلم:۵۲۳)‘‘۔
اسلام میں دین اور ملّت ہم معنی ہیں۔ ان میں فرق محض اعتباری ہے: شریعت ،اِس حیثیت سے کہ اُس کی اطاعت کی جاتی ہے، دین ہے اور جب اُسے مدون اور منضبط کردیا جائے تو یہ ملّت اور مذہب کہلاتی ہے۔دین اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ملّت رسول کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ وہ قوم یا گروہ جس کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے، امت کہلاتی ہے، سو تمام مسلمانانِ عالم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہیں۔ اس نظریے سے مسلمان کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے۔ مسلمان مصلحت پسندی کا شکار ہوکر غیر مسلموں کے ساتھ کتنی ہی ملاطفت (leniency) کا برتائوکریں یا مداہنت سے کام لیں، قرآنِ کریم نے متنبہ کیا ہے کہ کافر اس حد تک جانے کے باوجود تم سے خوش نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱)’’اور یہود ونصاریٰ آپؐ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے تاوقتیکہ آپؐ ان کی ملّت کی پیروی کریں ،آپؐ کہیے : اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی(حقیقی ) ہدایت ہے (اور اے مخاطَب!) اگر(حق کا) علم آنے کے بعد بھی تم اُن کی خواہشات کی پیروی کروگے تو تمھیں اللہ (کے عذاب سے) بچانے کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار، (البقرہ ۲:۱۲۰)‘‘، (۲)’’اور اگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر آجائیں، پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے ، نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں ،نہ وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، اور (اے مخاطَب!) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو تم بے شک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہوگے، (البقرہ۲:۱۴۵)‘‘، (۳)’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو ،وہ ایک دوسرے کے دوست ہیںاور تم میں سے جو اُنھیں دوست بنائے گا تویقینا وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (المائدہ:۵۱)‘‘۔
الغرض اگرچہ کفار کے درمیان باہم مفادات کا ٹکرائو(Conflict of Interest) بھی ہوتا ہے،وہ ایک دوسرے کو ناپسند بھی کرتے ہیں ، لیکن جب ان کا مقابلہ اسلام اور مسلمانوں سے ہوجائے تو پھر وہ اپنے باہمی اختلافات کوپسِ پشت ڈال کر اسلام کے مقابل یکجا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مشہور مقولہ ہے:اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ،یعنی سارے کافر اسلام کے مقابل ایک ہی ملّت ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تصورِ امّت اور ملّت سے دست بر دار ہوکر اپنے سارے امتیازات اور خصوصیات کو چھوڑ دیں اور کافروں میں اس حد تک گھُل مِل جائیں کہ ان کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے، جَمعِیَّت تیری
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بے حد خبر رکھنے والا ہے ، (الحجرات ۴۹:۱۳)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ،مَحفلِ انجم بھی نہیں
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کو ’یوم الفرقان‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ’’حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا دن‘‘۔ غزوۂ بدر میں جو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے، اُن میں دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے تمام اسباب موجود تھے۔ اُن کی زبان ایک تھی، نسب ، قبیلہ اور برادری ایک تھی، خونی رشتے بھی موجود تھے، رنگ بھی ایک تھا، حتیٰ کہ اگر ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا، ایک طرف چچا تھا تودوسری طرف بھتیجا تھا۔ ایک طرف ماموں تھا تودوسری طرف بھانجا۔ الغرض وہ تمام نسبتیں موجود تھیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ باہم ٹکرائے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ پھر یہی منظر غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں تھا، کم وبیش یہی رشتے صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے ، لیکن جب یہ رشتے اسلام سے متصادم ہوئے توامام الانبیاء والرُّسل،خاتِمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتۂ اسلام کو مقدم رکھا اور ان تمام رشتوں ، نسبتوں اور قربتوں کو اسلام پر قربان کردیا۔
اقوامِ عالَم اگرچہ نظریاتی طور پر حقوقِ انسانیت ،حقِ آزادیِ مذہب اور حقِ آزادیِ اظہار کی داعی ہیں اور حقوقِ انسانی کے منشور پر دستخط کرچکی ہیں، اپنے آپ کو اُن کا پابند سمجھتی ہیں، لیکن کشمیر ،فلسطین ،مشرقی تیموراور سوڈان کے حوالے سے ان کے معیار ات بدل جاتے ہیں۔ بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک اور ایک بڑی عالمی منڈی ہے،نیز امریکا اور اس کے اتحادی اُسے چین کے مقابل قوت بنانا چاہتے ہیں، اس لیے بھارت کی جانب سے حقوقِ انسانی ، مذہبی منافرت وعصبیت اور اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے اس کے خلاف انضباطی اور تادیبی اقدامات نہیں کیے جاتے ، صرف رسمی بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھارت اقوامِ عالَم کی پروا بھی نہیں کرتا، کیونکہ چین کے محاصرے کے لیے جو چار رکنی اتحاد بنایا ہے ،اس میں امریکا ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں جب امریکا اور اشتراکی روس کے درمیان دنیا کے ممالک کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے سرد جنگ جاری تھی ، تو اُس وقت نہرو کی قیادت میں بھارت ’غیر وابستہ ممالک‘ میں اہم کردار ادا کر رہا تھا ، لیکن اب نریندر سنگھ مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر وابستگی کا چولا اُتار پھینکا ہے اور وہ چین کے مقابل امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
اللہ کی قدرت سے بیش تر مسلم ممالک بحری اور برّی ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بعض مسلم ممالک کو معدنیات کی بے پناہ دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔یہ ممالک عالمی تجارتی گزرگاہوں پر واقع ہیں،ان کی مجموعی آبادی بھی بہت ہے۔ اگر یہ صدقِ دل سے اپنی اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بلاک اور مشترکہ منڈی قائم کریں تو بلاشبہہ عالمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور نہ اس کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ ان مسلم ممالک میں باہم آویزش بھی جاری ہے، ان میں سے بیش تر امریکا اور مغرب کے زیرِ اثر ہیں ، بعض ممالک بدستور روس کے زیرِ اثر ہیں ،اس لیے یہ اپنی کوئی متفقہ پالیسی بنانے کی پوزیشن میںنہیں ہیں ، یعنی آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، ورنہ بھارتی انتہا پسند کبھی مسلمانانِ ہند کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کی جسارت نہ کرپاتے۔
بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیم ’آر ایس ایس‘ کے لیڈر رام مادھو کی طرف سے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں سے تقاضا کیا گیا ہے کہ ’’وہ غیرمسلموں کو کافر نہ کہیں، خود کو عالمی مسلم اُمہ کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کرلیں‘‘۔
یہ تقاضا کوئی نیا نہیں ہے اور نہ صرف بھارتی انتہاپسندوں کا یہ مطالبہ ہے، بلکہ آج کے عالمی سیکولر حلقوں کا بھی مسلمانوں سے یہی مطالبہ ہے۔ اس کی بنیاد صرف وطنیت پر نہیں بلکہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں آسمانی تعلیمات سےلاتعلقی اور تمام قومی و معاشرتی معاملات کو طے کرنے کے لیے علاقائی معاشرتی مزاج اور خواہشات کو بنیاد بنانے کے اصول سے منسوب ہے، جسے قرآن کریم نے اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ (النجم ۵۳:۲۳)سے تعبیر کیا ہے اور اس کی نفی کرتے ہوئے وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰى۲۳ۭ (النجم ۵۳:۲۳)کا فطری قانون سب کے سامنے رکھا ہے۔
انڈیا میں چونکہ وطنیت کو ہی تمام اُمور کی اساس قرار دینے کے ہندو فلسفہ میں مسلمانوں کی کش مکش عملاً صدیوں سے چلی آرہی ہے، اس لیے یہاں یہ بات زیادہ شدت اور سنگینی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ عالمی سطح پر اس کش مکش کا تناظر یہ ہے کہ مغرب اپنے فکروفلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو پوری انسانیت کے لیے حتمی معیار قرار دیتے ہوئے، دُنیا بھر میں اس کے غلبے اور تمام تر مذہبی و علاقائی ثقافتوں کو روندتےچلے جانے کے لیے ہرحربہ اختیار کر رہاہے۔
مگر جب یہی بات آسمانی تعلیمات کا فائنل ایڈیشن اسلام کے عنوان سے کہتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود اور نجات و کامیابی کا واحد معیار آسمانی تعلیمات ہیں تو اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ کی پیروکار قوتیں ہرجگہ اسے کسی قسم کے معاشرتی کردارکا موقع دیئے بغیر ہرحال میں روکنے اور کچل دینے پر تلی بیٹھی ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کو اپنے فائنل ایڈیشن اسلام کی صورت میں دنیا میں کسی جگہ بھی آزادی کے ساتھ معاشرتی کردارادا کرنےکا موقع مل جائے تو مغربی فلسفہ و نظام کے لیے اس کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی خوف سے نہ صرف مغرب بلکہ اپنے محدود تصورات و افکار کو دُنیا پر غالب کرنے کا خواہش مند ہرطبقہ، اسلام دشمنی کا علَم بردار بنا ہوا ہے۔
بھارت میں یہ صورتِ حال قدرےمختلف ہے کہ یہاں اسلامی فلسفہ و ثقافت پر یلغار کا پرچم ہندو مذہب کے انتہاپسندوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور فطری قوانین و احکام پرعمل سےروکنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کے لیے ان کی جدوجہد میں ان کا معاون بننا چاہیے۔ معروضی حالات و ظروف کا لحاظ رکھتے ہوئے، سنجیدگی کے ساتھ ان کی علمی و اخلاقی مدد کرنا چاہیے۔ مسلمانوں پر اسی قسم کی آزمایشیں اور چیلنجز تاریخ کے مختلف اَدوار میں سامنے آتے رہے ہیں،جن کا سامنا عقیدہ و ایمان پر پختگی، استقامت، حوصلہ اور حکمت و تدبر کے ساتھ کرنے والے ہمیشہ سرخرو رہے ہیں اور اب بھی ان شاء اللہ العزیز ایسا ہی ہوگا۔ اگرچہ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید یہ دور زیادہ سنگین اور کہیں زیادہ صبرآزما ہے۔ اللہ تعالیٰ بھارت بلکہ دُنیابھر کے مسلمانوں کو اس میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائے، آمین یارب العالمین!
ہندستان کی شدّت پسند اور’ ہندوتوا‘ کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک راہ نما اور نظریہ ساز رام مادھو نے ایک سہ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، جس پر عمل کرکے ہندستانی مسلمان ملک میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے نکات درج ذیل ہیں:
یہ مطالبات اسی نوعیت کے ہیں، جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے۔آپؐ نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو مشرکین نے اس سے روکنے اور اس کام سے باز رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے۔ ابتدا میں مخالفت ہلکی رہی ، لیکن بعد میں اس میں شدّت آتی گئی۔کمزور سماجی حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آپؐ سے مطالبہ کیا گیا کہ کچھ باتیں آپؐ ان کی مان لیں تو وہ کچھ باتیں آپؐ کی مان لیں گے ، لیکن ان سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ دین کے معاملے میں کوئی مداہنت نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید میں ہے:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۹ (القلم ۶۸: ۸-۹) لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ۔یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔
قرآن نے مخالفین ِ اسلام کی مسلمانوں سے عداوت اور ان کی قولی اور عملی شر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے دلوں میں چھُپے ارمانوں سے ان الفاظ میںپردہ اٹھایا ہے :
اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ۲ۭ ( الممتحنۃ۶۰:۲)ان کا رویّہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمھارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں ۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً (النساء۴:۸۹)وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔
یہی رویّہ موجودہ دور کے مشرکین کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے امتیازات سے دست بردار ہوجائیں اور جو بنیادی عقائد و تصوّرات ان کے درمیان خطِّ امتیاز کھینچتے ہیں ان سے لاتعلّقی اختیار کرلیں ۔ ہندستانی مسلمانوں سے اِن دنوں جو مطالبات کیے جا رہے ہیں وہ اسی نوعیت کے ہیں۔
ذیل میں ان مطالبات کا ا سلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
’کافر‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ’کفر‘ سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانپنے کے ہیں ۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں ، سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔ اسی لیے وہ لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں،مثلاً رات، سمندر، وادی،دریا، گہرا بادل، کسان،زرہ ،وغیرہ۔اسی طرح اس میں ناشکری کے معنٰی بھی پائے جاتے ہیں۔ لفظ ’کفر‘ کا استعمال اسلام کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر بھی ہوا ہے ، یعنی ’اسلام کو نہ ماننے والا‘۔ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہیں ۔ کچھ لوگ اس کو مانتے ہیں، کچھ نہیں مانتے ۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ چاہے اس پر ایمان لائے، چاہے نہ لائے۔ قرآن مجید میں ہے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منع فرمایا تھاکہ ایمان لانے کے معاملے میں کسی پر جبر سے کام نہ لیں:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰: ۹۹)اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟
اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے ۔انسانوں کو آزادی ہے۔ جو لوگ چاہیں اسے مانیں، جو چاہیں نہ مانیں۔ جو اسے مان لیتے ہیں انھیں قرآن مجید’مومن‘ (یعنی ایمان لانے والا) کہتا ہے اور جو اسے نہیں مانتے انھیں ’کافر‘(یعنی ایمان نہ لانے والا) کہتا ہے۔ یہ حقیقت ِ واقعہ کا بیان ہے ۔ اس میں اہانت اور مذمّت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر دوسرے اہلِ مذاہب کا رویّہ ان سے دشمنی، جنگ اور فساد کا نہ ہو تو وہ بھی ان سے خوش گوار سماجی تعلقات رکھیں، ان سے اچھا برتاؤ کریں اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں۔ صرف ان لوگوں سے دوستانہ اور رازدارانہ تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے، جو دشمنی پر آمادہ ہوں اور مسلمانوں کے جانوں اور مالوں کے درپے ہوں۔ قرآن میں ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۹(الممتحنۃ ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اِخراج میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹ :۱۰)مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان ِ نبوّت کے بعد جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھیں مکہ مکرّمہ میں بہت ستایا گیا ، یہاں تک کہ وہ پہلے حبشہ ، پھرمدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ لوگ’ مہاجر‘ کہلائے ۔مدینہ کے لوگ ، جو پہلے ایمان لا چکے تھے، انھوں نے ان بے سر و ساماں لوگوںکی خوب بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ انھیں ’انصار‘ کہا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت ِ مدینہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان میں’ مواخات‘ (بھائی چارہ) کرائی ۔اس کے نتیجے میں وہ باہم شِیر و شکر ہوگئے۔ انسانی تاریخ نے ایمان کی بنیاد پر ایسے مضبوط رشتے کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسانوں میں دوئی باقی نہیں رہتی ، بلکہ وہ ایک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۰ۭ (الانفال۸:۷۵)اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمھارے ساتھ مل کر جدّوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اسلام اہلِ ایمان کو ایک امّت قرار دیتا ہے ، جو ایک عقیدے اور ایک نظریے کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فکر و نظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں ہے:
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۹۲ (الانبیاء ۲۱: ۹۲) یہ تمھاری امّت حقیقت میں ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔
وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۵۲ (المومنون۲۳:۵۲) اوریہ تمھاری اُمّت ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے ڈرو۔
موجودہ دور میں وطنیت اورقومی ریاست کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دنیا مختلف ممالک کے دائروں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے وہاں کی حکومت کوشاں رہتی ہے اور اس سلسلے میں جائز و ناجائز کی بھی پروا نہیں کرتی___ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک کے شہریوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اگر رہتا ہے تو وہ بھائی چارہ ، ہمدردی اور مودّت کے بجائے شک و شبہہ، منافرت، بلکہ بسا اوقات دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔یہ سراسر جاہلی تصوّر ہے ، جسے نیا پیراہن پہنا دیا گیا ہے۔جاہلی شاعر دُرید بن صمّہ کہتا ہے:
وَ مَا أنا الاّ مِن غَزیّۃ اِن غَوَتْ غَوَیتُ ، واِن تَرشُدْ غَزِیّۃ أرشُد
(میں تو قبیلۂ غزیّہ کا ایک فرد ہوں۔وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی اسی راہ پر چلوں گا اور اگر وہ صحیح راہ اختیار کرے گا تو میں بھی اس کے پیچھے چلوں گا)۔
اسلام اس نظریے کا قائل نہیں۔ وہ تمام اہل ِ ایمان کو ، چاہے وہ جس علاقے اور جس ملک میں رہتے ہوں، جس رنگ و نسل کے ہوں ، جو زبان بھی بولتے ہوں اور جس سماجی حیثیت کے مالک ہوں، ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بلیغ تمثیل بیان فرمائی:
مَثَلُ المُؤمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِم وَ تَراحُمِہِم وَ تَعَاطُفِہِم مَثَلُ الجَسَدِ ، اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالحُمّیٰ (مسلم:۲۵۸۶)اہلِ ایمان کے درمیان میں باہم محبت، رحم و کرم اور اُلفت کے معاملے میں ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ اسلام اور وطنیت کا کوئی کوئی میل نہیں ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے افکار و خیالات کسی پر زبردستی مسلّط نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اس کے عقائد و نظریات پر غور کریں، عقل و فکر کے دریچے کھلے رکھ کر اسے سمجھیں، پھر چاہیں تو اسے قبول کرلیں اور چاہیں تو نہ قبول کریں۔ وہ بہت تفصیل سے قبولِ حق کے اچھے نتائج و ثمرات بیان کرتا اور انکارِ حق کے نتائج بد سے آگاہ کرتا ہے، لیکن کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ (الکہف ۱۸:۲۹)صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔
اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق اور ناحق دونوںکو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ اس آزادی سے کام لے کر کچھ لوگ حق کو قبول کرلیتے ہیں اور اللہ کے فرماں بردار بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ اسے قبول نہیں کرتے اور نافرمانی کی روش پر گام زن رہتے ہیں۔ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اس آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بہرہ ور کیا ہے:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میںسب مومن اور فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
اسلامی عقائد و نظریات کے پیچھے دلائل کی قوت ہے اور اسے یقین ہے کہ جو شخص بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ ضرور حلقہ بہ گوشِ اسلام ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ تاکید کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر زور زبردستی نہ کی جائے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اسلام پُر امن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔تمام لوگ کھلے ماحول میں، پوری آزادی کے ساتھ بغیر کسی دباؤ کے، اسلام کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔ اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے اسلام پُرامن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فتنہ و فساد، انارکی، بدامنی اور جنگ کی حالت ہو تو افہام و تفہیم کی راہیں اور بھی مسدود ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، جنگ سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اس پر اسی صورت میں آمادہ ہوا جائے جب جنگ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔اسلام امن و امان کا کس حد تک خواہاں ہے، اس کا اندازہ اس تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دورانِ جنگ دشمن کی طرف سے صلح کی پیش کش ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جائے، خواہ اس کے پس پردہ دشمن کی بدنیتی اور دھوکے کا شبہہ ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۰ۭ (الانفال۸:۶۱-۶۲) ’’اگردشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔
۶ھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادے سے نکلے، مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی دشمنوں نے آپؐ کو روک دیا اور آمادۂ جنگ ہوئے۔ اس موقع پر حدیبیہ کے مقام پر جو صلح نامہ تیار ہوا اس کی تمام شرائط یک طرفہ تھیں اور ان سے مسلمانوں کی پسپائی اور ان کے دشمنوں کی برتری ظاہر ہوتی تھی۔ اس بنا پر بہت سے مسلمان بے چینی محسوس کررہے تھے اور بعض اصحابؓ کے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام شرائط تسلیم کرلیں کہ ان کی بدولت امن و امان کا زرّیں موقع ہاتھ آرہا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ درست تھا۔ امن کے نام پر یہ ظاہری پسپائی ’فتح‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور دو سال کے عرصے میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اتنے مدنی عہد کے چھ سال میں بھی نہ ہوئے تھے۔
لیکن جب انسانوں کا ایک طبقہ دوسرے انسانوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے لگے، ان کی آزادیاں سلب کرلے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں مجبور و محکوم بنا کر رکھے تو اسلام ان مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے ظالم و جابر لوگوں کی سرکوبی ضروری ہے، جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں کو ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں آزادی اور سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵ۭ (النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
اسی طرح اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے جو ان سے جنگ کرنے میں پہل کریں۔ وہ جس طرح دوسروں پر ظلم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اسی طرح ظلم سہنے کا بھی روا دار نہیںہے۔ اسی لیے مشرکین مکہ کے مظالم جب حد سے گزرگئے، تو مسلمان اپنا دین و ایمان بچانے کی غرض سے مدینہ، ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مگر یہاں بھی مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، ان کے خلاف سازشیں کیں اور دوسروںکو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ بالآخر جب پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ (الحج ۲۲:۹ ۳-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے:’’ ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔
اسلام میں ’معروف‘ کا حکم دینے اور ’منکر ‘سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک دونوںکی یکساں اہمیت ہے۔ قرآن میں دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے دونوں میں فرق ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو معروف کی دعوت دیتا ہے اور انھیں قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ان کے قبول و اختیار کو ان پر لازم نہیں کرتا۔ تاہم وہ انھیں منکرات کا ارتکاب کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتا، بلکہ ان پر روک لگاتا ہے اور انھیں ان سے باز رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں ظلم و جور کر رہے ہوں، فتنہ و فساد پھیلا رہے ہوں اور برائیاں عام کر رہے ہوں، انھیں دنیا میں اللہ کے قانون کے تابع ہوکر رہنا پڑے گا اور دنیا کے اقتدار کے مالک وہ لوگ ہوںگے، جو اس پر اللہ کا حکم نافذ کریں اور اسے فتنہ و فساد سے پاک رکھیں:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۰ۚ (الانفال ۸:۳۹) ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔
اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں ’جہاد‘ کا مقصد دوسروں کو زور زبردستی سے مسلمان بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ’شر‘ کا زور ٹوٹے، فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور ان لوگوں کو بے اختیار کردیا جائے، جو اس دنیا میں جبر و اِکراہ، ظلم و زیادتی اور برائیوں کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، تاکہ اللہ کے بندوں کو آزادی نصیب ہو اور وہ بغیر کسی دباؤ کے اللہ کا دین قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔
صوبہ سندھ اسمبلی نے۱۶فروری ۲۰۲۱ء کو ’جبری تبدیلیِ مذہب ‘ کے عنوان سے ایک بل پاس کیا تھا۔اس کے بعد علماء کے ایک وفد کے ہمراہ ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ جنابِ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تو انھوں نے اسے روک دیا اور وہ گورنر کے دستخط سے ایکٹ نہیں بنا۔ مگر پھر اچانک اسے پاکستان کے سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے، مزید غور کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کردی گئی ۱ ۔ اس مجوّزہ مسوّدۂ قانون(Bill) کا عنوان’’امتناعِ جبری تبدیلیِ مذہب ‘‘رکھا گیا، لیکن اپنے وسیع تر مفہوم اور نتائج کے اعتبار سے اسے درحقیقت ’قبولِ اسلام روکنے کابل‘ کہنا چاہیے۔ مجوزہ بل کے مطابق قبولِ اسلام اوراس کی دعوت کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ’مجرمانہ جسارت‘ قرار دیا گیاہے ۔ہم اس قانون کی تطبیق(Application) ،نتائج اور مابعد اثرات پر گفتگو کرنے سے پہلے زیرغور قانون کی اہم دفعات کا مفہومی ترجمہ پیش کر رہے ہیں:
سیکشن ۳،ذیلی شقیں:۴،۵،۶:کوئی بھی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے، یعنی جس کی عمر ۱۸سال سے زیادہ ہے، عاقل اور بالغ ہے اور وہ مذہب تبدیل کرنے کے قابل اور اس پر آمادہ ہے، وہ اپنے قریبی ایڈیشنل سیشن جج کو مذہب کی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کی درخواست وصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ مقررہ تاریخ پر متعلقہ شخص ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہوگا۔ ایڈیشنل سیشن جج اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی یہ تبدیلی کسی دبائو کے تحت نہیں ہورہی ہے اور نہ کسی دھوکا دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ کوئی غیر مسلم جو مذہب اپنانا چاہتا ہے، ایڈیشنل سیشن جج اس کے مذہبی اسکالر سے اس غیر مسلم کی ملاقات کا انتظام کرے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور دوبارہ دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم شخص کو ۹۰دن کا وقت دے گا۔ اگر وہ ۹۰روز کے بعد بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہتا ہے، اگر سیشن جج مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے تقابلِ ادیان کا مطالعہ کرلیا ہے اور اس پر کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہا ہے،تو وہ تبدیلیِ مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا ۔
نوٹ: اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’۹۰ دن گزرنے کے بعد بھی ایڈیشنل سیشن جج کا مطمئن ہونا ضروری ہے‘‘،پس اگر وہ کسی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر وہ اسلام قبول نہیں کرسکتا یا اس کو اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔
نکاح اور تبدیلیِ مذہب: شق(۲): اگر کوئی شخص ایسے شخص کا نکاح پڑھائے، جس کاجبر کے ذریعے مذہب تبدیل کرایا گیا ہو، چاہے وہ اس کا نکاح پڑھانے والا یا نکاح کا سہولت کار ہوتو اس کی سزا بھی کم سے کم تین سال ہوگی‘‘۔ یعنی وہ شخص بھی اسی جرم کا مرتکب ہوگا جس نے اس نکاح کے لیے کسی قسم کی اعانت کی ہے،مثلاً :جہیز کا انتظام کیا یا شادی ہال کا انتظام وغیرہ۔
نوٹ: نکاح پڑھانا ایک دینی کام ہے۔ اس کے لیے دولہا اور دلہن کی رضامندی ، مہر کا تعیّن اور گواہان کی موجودگی ضروری ہے۔ نکاح خواں کے پاس نہ تو قاضی اور عدالت کے اختیارات ہوتے ہیں اور نہ تحقیق وتفتیش کے لیے کوئی عملہ ہوتا ہے، لیکن ہرموقعے پر اُسے سب سے کمزور فرد سمجھ کر دھرلینا بھی کوئی معقول حرکت نہیں ہے۔
نوٹ: قرآنِ کریم کی رُو سے دعوتِ دین مسلمان کا فریضہ ہے۔ قبولِ اسلام کی ترغیب دینا ایک قابلِ تحسین امر ہے ، لیکن ہمارے ہاں اسے بھی قانونی جرم قرار دیا جارہا ہے، جب کہ قرآنِ کریم میں صدقات کا ایک مصرف ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے، جنھیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔
امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں اسلام قبول کرنے پر پابندی نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر امریکا میں کوئی دس بارہ سال کاسفید فام لڑکا یا لڑکی وائٹ ہائوس کے سامنے کھڑے ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو امریکا کا قانون اس میں رکاوٹ نہیں بنے گا، تو ہمارے ہاں اس پابندی کا جواز کیا ہے؟ نیز اگر کوئی دس یا پندرہ سال کا لڑکا یا لڑکی اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور کوئی اس کو اسلام قبول کرنے سے روکتا ہے تو یہ اس کے کفر پر راضی ہونا ہے۔جبری تبدیلیِ مذہب کے امتناع کامجوّزہ بل تو اٹھارہ سال پورے ہونے پر بھی اُسے اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا،حتیٰ کہ ’’وہ درخواست دے کر ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو، اُسے تفہیمِ مذاہب کے لیے تین مہینے کی تربیت دی جائے‘‘۔سوال یہ ہے کہ نیچے سے اُوپر تک ہمارے عمائدینِ مملکت وحکومت میں کتنے ہیں جنھوں نے تقابلِ مذاہب کا کورس کررکھا ہے۔
دین میں جبر نہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے ،بے شک ہدایت گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔پس، جو شخص شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے ،تو اُس نے ایسی مضبوط رسی کو پکڑ لیا ،جسے ٹوٹنا نہیں اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے، اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے ، وہ انھیں (کفر کے) اندھیروں سے (ایمان کے) نور کی طرف نکالتا ہے اور جنھوں نے کفر کیا ، اُن کے حمایتی شیطان ہیں ،وہ انھیںنور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ جہنمی ہیں، جو اس میں ہمیشہ رہیں گے، (البقرہ۲: ۲۵۶-۲۵۷)‘‘۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا حکم واضح ہے کہ کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا، کیونکہ ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے۔ اگر جبری طور پر کوئی تسلیم بھی کرلے ،جب کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے ،توآخرت میں اس تسلیم کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا،وہاں فیصلہ ظاہر پر نہیں بلکہ قلبی تصدیق پر ہوگا۔ برصغیرپر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی ،مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غیرمسلموں کوزبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ایک ہزار برس تک مسلم حکمرانی کے باوجود آج بھی پورے جنوبی ایشیا میں غیر مسلم آبادی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
اسلام تسلیمِ محض نہیں،بلکہ تسلیم بالرّضاکا نام ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ، کہہ دیجیے:تم ایمان نہیں لائے ،ہاں !یہ کہو! ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمھارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا ،بے شک اللہ بہت بخشنے والا ،بے حد رحم فرمانے والا ہے، درحقیقت مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے ،پھر کبھی شک میں مبتلا نہ ہوئے اور انھوں نے اپنے مالوں اوراپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، وہی (ایمان کے دعوے میں)سچے ہیں، (الحجرات۴۹:۱۴-۱۵)‘‘۔
’ایمان‘ قلبی تصدیق کا نام ہے۔اس لیے دنیا کے ممالک میں تبدیلیِ مذہب کا ایساکوئی قانون نہیں ہے ،ایسے بے معنی تجربات صرف پاکستان میں ہوتے رہتے ہیں۔
l ایمان لانا ، سرٹیفکیٹ کا محتاج نہیں:ایمان لانا بندے اور رب کا معاملہ ہے، اور ایمان لانے کے لیے کسی حکومتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ہمارے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے کوئی شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آتا ہے ،تو ہم اُسے شریعت کے مطابق توبہ کراکے اسلام میں داخل کرتے ہیں ،اس میں قانون کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کو ہمارے یا ریاست کے کسی عدالتی سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ، بندوں کے ظاہر وباطن کو خوب جاننے والا ہے۔
ہمیں بحیثیتِ قوم کچھ دوسروں نے ایسے دبائو میں رکھا ہوا ہے کہ گویاہمارا ہر قول وفعل غلط ہے ،ہمارا ہر بیان مشتَبہ ہے،الغرض ہم ہردبائو کو قبول کرتے ہوئے ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتے ہیں ۔ بزعمِ خود ہمارے آزاد وخود مختار میڈیاکے لیے ایسے واقعات من پسند پروپیگنڈا کا ذریعہ بنادیے جاتے ہیں۔ ساری داستان خواہشات اورمفروضوں پر مبنی ہوتی ہے، کسی تحقیق کے بغیر قبولِ اسلام اور جبر کو لازم وملزوم سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام قبول کرنابہت بڑا جرم ہے، پچاس چینل فریاد کُناں ہوتے ہیں اور دہائی دے رہے ہوتے ہیں۔
قبولِ اسلام کے لیے ترغیب کی فضیلت: ایک مسلمان کے لیے کسی کے اسلام قبول کرنے میں مُمِدّومعاون ہونا بہت بڑی سعادت ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا :میں کل جھنڈا اُس شخص کو دوں گاجو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُس کا رسولؐ اُس سے محبت فرماتے ہیں، اللہ اُس کے ہاتھوں پر خیبر کو فتح فرمائے گا۔ لوگوں نے (اس انتظارمیں)رات گزاری کہ جھنڈا کسے دیا جائے گا۔ صبح ہوئی تو ہرایک اس کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: علی کہاں ہیں؟ آپؐ کو بتایا گیا کہ انھیں آنکھوں کا عارضہ ہے۔آپؐ نے اُن کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایااور اُن کے حق میںدعا کی۔ (اس کی برکت سے)وہ ایسے صحت یاب ہوئے کہ گویا انھیں کوئی بیماری لاحق ہی نہیں تھی۔ آپؐ نے انھیں جھنڈا دیا۔ حضرت علیؓ نے پوچھا: میں اُن سے قتال کرتا رہوں حتیٰ کہ وہ ہماری مثل(مسلمان) ہوجائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم باوقار انداز میں چلتے رہو یہاں تک کہ تم اُن کے صحن میں اتر جائو ،پھر انھیں اسلام کی دعوت دو اور بتائو کہ ان پر کیا احکام واجب ہیں ، اللہ کی قسم ! اگر اللہ تمھارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے ،تو یہ آپ کے لیے سرخ اونٹوں کی (گراں بہا دولت) سے بہتر ہے، (بخاری: ۳۰۰۹)‘‘۔
جعلی خبر سازی اور مفروضے: اسلام نے مفروضوں پر رائے قائم کرنے اور تحقیق کے بغیر خبر پر ردِّعمل ظاہرکرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو(ردِّعمل ظاہر کرنے سے پہلے) خوب تحقیق کرلو ، مبادا تم انجانے میں کسی قوم کو تکلیف پہنچادو ، پھر تم اپنے کیے پرپچھتاتے رہو، (الحجرات۴۹:۶)‘‘۔
ہمارے ذرائع ابلاغ اس آیتِ مبارکہ میں بیان کردہ اللہ کی صریح ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کسی تحقیق اور اس کے نتائج آنے سے پہلے فیصلہ صادرکردیتے ہیں کہ جبراً اسلام قبول کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت و انتظامیہ مفتیوں کے فتووں پر تو آئے دن پابندی کی بات کرتی رہتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ کو یہ فری لائسنس کس نے دیا ہے کہ تحقیق کے بغیر جب چاہیں اور جو چاہیں فتویٰ تھوپ دیں، یہ اختیارآپ نے کس آئین اور قانون سے حاصل کیا ہے؟
ہم کئی بار ہندو اور مسیحی رہنمائوں سے کہہ چکے ہیں کہ ’’اگر کسی معاملے میں ثبوت وشواہد سے قبولِ اسلام کے کسی واقعے میں جبر ثابت ہوجائے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘۔ اسی طرح ہر فورم پر کہا ہے کہ ’اقلیت‘ کی اصطلاح کا استعمال ترک کیا جائے، ہمارا آئین وقانون سب کو تحفظ دیتا ہے۔ آپ اپنے آپ کو ’غیر مسلم پاکستانی‘ کہیں ، کیونکہ ’اقلیت‘ کی اصطلاح سے محرومی کا تاثر پیدا ہوتا ہے ، جب کہ غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح اپنے ملک و وطن پر استحقاق کا تاثر پیدا کرتی ہے۔
’جبری تبدیلیِ مذہب ‘کے بل پرسینیٹر انوار الحق کاکڑ صاحب کی سربراہی میں جو پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی ، انھوں نے ہندوئوں کے عائد کردہ الزامات کا سروے کرایا تو دستیاب اعداد وشمارسے پتاچلا کہ ۹۹ فی صد الزامات غلط تھے، خواتین نے اقرار کیا کہ انھوں نے برضا ورغبت اسلام قبول کیا ہے اور خوشی سے شادی کی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے قرائن و شواہد کے ساتھ کہا ہے :یہ بِل یورپین یونین کے مطالبے پر پیش کیا گیا ہے۔
قبولِ اسلام کی ترغیب اور اسوۂ رسولؐ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے لیے نہایت شدت سے خواہش مند رہتے تھے۔ اس کی بابت آپؐ نےفرمایا: ’’میری اور لوگوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،جب اس کا اردگرد روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں، اس میں گرنے لگے اور وہ انھیں اُس میں سے نکالنے لگا،مگر وہ پروانے اور کیڑے مکوڑے اس پر غالب آگئے اور آگ میں داخل ہوگئے، پس میں بھی تمھیں کمر سے پکڑ کرآگ سے نکال رہا ہوں اور وہ اس آگ میں گرے جارہے ہیں، (بخاری:۶۴۸۳)‘‘۔ یہی مضمون قرآنِ کریم میں ہے:’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر فرمائی، جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اُس نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم اس کے فضل (یعنی اسلام ) کی بدولت بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے (اور جہنم میںگرا ہی چاہتے تھے کہ)، اُس نے تمھیں اس سے نجات دے دی، (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)‘‘۔
حضرت عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں:جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا فرمائی ،تو میںنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: (یارسولؐ اللہ!) اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کروں۔ وہ کہتے ہیں: جب رسولؐ اللہ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایاتو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے فرمایا:عمرو! تمھیں کیا ہواکہ ہاتھ کھینچ لیا؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اسلام قبول کرنے کے لیے میری شرط ہے۔ آپؐ نے فرمایا: بولو! تمھاری شرط کیاہے؟ میں نے عرض کی: میری بخشش ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کی تمام غلطیوں کو مٹادیتا ہے، (مسلم:۱۲۱)‘‘۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں: l’’حضرت علیؓ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،(اسد الغابہ، ج۳،ص۵۸۹)، l’’حضرت عمیر بن ابی وقاص قدیم الاسلام مہاجرین میں سے ہیں ،جو بدر میں شہید ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمر ہونے کی وجہ سے انھیں ابتدا میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی، پھر جب آپؐ بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ رو پڑے۔ آپؐ نے انھیں اجازت دے دی۔ ان کی تلوار لمبی تھی، وہ اپنی تلوار کو لٹکائے ہوئے تھے ، شہادت کے وقت ان کی عمر سولہ سال تھی، انھیں عمرو بن عبدِ وُدّ نے شہید کیا، (اسد الغابہ، ج۴،ص ۲۸۷)، l’’معاذ بن حارث بن رفاعہ انصاری صحابی ہیں۔ آپ کی والدہ عفراء بنت عبید بن ثعلبہ ہیں۔ آپ اور رافع بن مالک خزرجی انصاری ہیں،ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں۔ آپ اور آپ کے دونوں بھائی عوف اور معوَّذ، بدر میں شریک ہوئے، اور دونوں بھائی شہید ہوئے‘‘۔ lمعوذبن عفراء اورمعاذ بن عمرو، پندرہ سال سے کم عمر میں غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو قتل کیا،(اسد الغابہ، ج۶، ص۱۹۷)‘‘۔ lجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو زید بن ثابت کی عمر گیارہ سال تھی اور حربِ بُعاث میں وہ سولہ سال کے تھے اور اسی موقع پر ان کے والد شہید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کم عمری کی وجہ سے بدر میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور لوٹادیا اور یہ احد میں شریک ہوئے، (اسد الغابہ، ج۲،ص۳۴۶)‘‘۔
نوٹ: یہاں شرعی بلوغت مراد ہے، ہمارے دور کی اٹھارہ برس سے زائد عمر کی قانونی بلوغت مراد نہیں ہے۔ lحضرت معاذ بن جبلؓ نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا، (اسدالغابہ،ج۵،ص۱۸۷)۔ lحضرت زبیرؓ بن العوام کے اسلام قبول کرنے کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: آٹھ سال، بارہ سال، پندرہ سال اور سترہ سال، ایک قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں فرد تھے، (اسد الغابہ، ج۲، ص۳۰۷)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم الانبیا سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قرآنِ کریم میں’خیر الامم‘ یعنی سب سے بہترین امت اور ’اُمَّتِ وَسَط‘کا لقب عطا فرمایاہے۔ ’وَسَط‘ کے معنی ہیں: ’’(عقیدہ وعمل میں)اعتدال اور توازن پر قائم رہنے والا،جو غُلُوّ اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ مفسّرین کرام نے ’وَسَط‘کا ایک معنی بہترین اور افضل امت بتایا ہے۔ اس اعتبار سے ’خیرالامم‘ اور ’وَسَطُ الامم‘ ہم معنی کلمات ہیں۔
قرآنِ کریم نے جہاں اس امت کو ’خیرالامم‘ کے اعزاز سے نوازا ہے ،وہاںاس کے فرائض بھی بیان فرمائے ہیں، ارشاد فرمایا: ’’جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں، تم ان میں سب سے بہترین امت ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (اٰل عمران۳:۱۱۰)‘‘۔
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا ،دین کی تکمیل اور اتمامِ نعمت کا اعلان فرمایااور آپؐ کوسلسلۂ نبوت ورسالت کا آخری تاج دار بنایا۔ آپؐ سے پہلے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور راہِ راست سے بھٹکی ہوئی اپنی امتوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ درمیان میںانقطاعِ نبوت کے اَدوار بھی آئے۔ ان اَدوار میں انبیائے کرامؑ کی تعلیمات بھلادی گئیں ، اُن میں تحریف کردی گئی یا انھیں مسخ کردیا گیا، تو دین وشریعت کو اپنی اصل شکل پر بحال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ بھیجے۔ مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی نبی اور رسول کے آنے کا امکان ختم کردیا گیا، اس لیے تجدید واِحیاء اور ابلاغِ دین کی ذمے داری کو آپؐ کی امت کی طرف منتقل فرمادیا۔
آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضرین سے اس بات کا اقرارلیا کہ آپؐ نے دین کو بکمال وتمام امت تک پہنچادیا ہے۔پھر یہ فریضہ امت کو منتقل کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: (۱)’’جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ دین کے اس پیغام کو اُن تک پہنچادیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں، (بخاری:۱۰۴)‘‘، (۲)’’مجھ سے تم نے جو امانتِ دین حاصل کی ہے، اُسے دوسروں تک پہنچادو ،خواہ ایک آیت ہی ہو، (صحیح البخاری:۳۴۶۱)‘‘۔
اسلام نے دعوتِ حق کا فریضہ بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کو فرضِ کفایہ کے طور پر تفویض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جوبھلائی کی طرف بلائے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں، (اٰل عمران۳:۱۰۴)‘‘۔ فرضِ کفایہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ایک جماعت دعوتِ حق کے اس فریضے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو تو باقی لوگ بری الذمہ ہیں ، ایساہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے دائرۂ کار واختیار کی حد تک جواب دہ رہے گا۔حدیث پاک میں ہے:
اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے کہاہے:’’ برائی کو طاقت سے روکناہر عہد کے حکمرانوں کی (درجہ بدرجہ )ذمے داری ہے۔ برائی کے خلاف زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کرنا اہلِ علم کی ذمے داری ہے اور اگر کوئی اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو برائی کو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ حدیث پاک میں اسے ’اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس پر بعض حضرات سوال اٹھاتے ہیں: ’’جب کوئی شخص نہ طاقت سے برائی کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے،نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کرسکتا ہے، تو اس میں اس کا کیا قصور ہے کہ اُس کے ایمان کادرجہ کمزور ترین بتایا گیا ہے،جب کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کے لیے جواب دہ نہیں بناتا، (البقرہ۲:۲۸۶)‘‘۔
اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے :’’اس میں مختلف حالات کی طرف اشارہ ہے : کبھی حالات دعوتِ حق کے لیے سازگار ہوتے ہیں اور برائی کو ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے۔کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ برائی کوہاتھ سے تونہیں روکا جاسکتا، لیکن زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے، اورکبھی دین کے لیے حالات اتنے مشکل ہوجاتے ہیں کہ برائی کو نہ ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے اور نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے،توایسے حالات میں لوگ اس بات کے مکلّف ہوں گے کہ دل سے برائی سے نفرت کریں اور اپنا دامن برائی سے بچائے رکھیں۔ایسے حالات کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان سے تعبیر کیا گیا ہے،الغرض یہ تین درجے (اقویٰ، اوسط اوراضعف)تین قسم کے حالات سے متعلق ہیں اور انسان اپنے حسبِ حال ہی دین کے لیے کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ حالات کسی کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان کے درجے کو پہنچادیں تواس میں اس کا ذاتی قصور کوئی نہیں ہے‘‘۔
کلمۂ حق بلند کرنے کی قدرت کے باوجود لاتعلق رہنے والوں کے لیے ،خواہ وہ اپنی ذات میں پارسا ہی کیوں نہ ہوں، حدیث پاک میں وعید آئی ہے:
’’حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ حضرت جبریلؑ کو حکم فرماتا ہے : ’’فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو ‘‘۔ جبریل امینؑ عرض کرتے ہیں :’’ پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’’ اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو ، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا(شعب الایمان:۷۱۸۹)‘‘۔
حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ، مُنکَرات کا چلن عام رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی تدبیر تو دور کی بات ہے ، حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پرکبھی اس کی جبین پر شکن بھی نہیں آئی۔وہ صرف اپنی عبادت اور ذکرواذکار میں مشغول رہا ، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔
الغرض ’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘کے فلسفے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ہرایک حسبِ استطاعت اور حسبِ حال امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا پابند ہے، حدیث پاک میں ہے:
ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں، میں ابوثعلبہ خُشَنی کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: ’’اس آیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’کون سی آیت؟‘‘، میں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اپنی فکر کرو ،اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گی(المائدہ۵:۱۰۵)‘‘، [دراصل، سائل کو شبہہ تھا کہ امت کی ذمہ داری تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، ہمیں توپوری انسانیت کو بچانے کی تدبیر کرنا ہے اورآیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے: ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘]۔ انھوں نے جواب دیا:’’ میں نے اس کی بابت سب سے زیادہ باخبر شخصیت، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہو،حتیٰ کہ ایسا وقت آجائے کہ تم دیکھوکہ بخیل کا حکم مانا جارہا ہے ، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو دین پرترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے۔ (تو یہ مشکل وقت ہے ، پس ایسے وقت میں) اپنے دین کو بچانے کی فکر کرو اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ اب تمھارے پیچھے اتنے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا۔ ایسے ایام میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گاجو تم جیسا کام کریں۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں، ایک روایت میں ہے: عرض کیا گیا: یارسول اللہ!ہمارے پچاس افراد کے برابر یا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر(اجر ملے گا)، آپؐ نے فرمایا: تمھارے پچاس افراد کے برابر، (سنن ترمذی:۳۰۵۸)‘‘۔
اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ممکن ہو، دعوتِ حق کے فریضے کو ادا کرتے رہنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ دعوتِ حق کا فریضہ ادا کرنا عملاً ناممکن یا مشکل ترین ہوجائے۔پس، ایسے حالات میں اپنے دین کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے ،کیونکہ جب حالات بندے کے بس سے باہر ہوجائیں تو اُس سے اُن کے بارے میں جواب طلبی نہیں ہوگی۔
دعوتِ حق کی تاثیر میں داعی کی اپنی بے عملی اور دوغلا پن، یعنی قول وفعل کا تضاد بھی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلادیتے ہو، حالانکہ تم کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ۲:۴۴)‘‘۔
نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے، (الصف۶۱:۲-۳)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے:
اہلِ کتاب کے علماء میں قول وفعل کے تضاد کی خرابی رچ بس گئی تھی ،جسے قرآنِ کریم نے مندرجہ بالا آیات میں بیان فرمایا ہے، بلکہ اُن کی خرابی اس سے بھی کئی درجے بڑھ کر تھی۔ حدیث پاک میں ہے:
سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا، اُن پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ جو بُرا کام کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے، یقینا وہ بہت بُر ے کام کرتے تھے، (المائدہ۵:۷۸-۷۹)‘‘۔
قرآنِ کریم میں مسلمانوں کا شعار یہ بیان کیا گیا ہے: ’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب اور عظیم حکمت والا ہے، (التوبہ۹:۷۱)‘‘۔ جہاں دعوتِ حق میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے اہلِ ایمان کی تعریف کی گئی ہے، وہاں حدیث پاک میں اس فریضے سے لا تعلق رہنے والوں کے بارے میں شدید وعید بھی آئی ہے:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے لا تعلق رہنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر دعوتِ حق کے فریضے سے وہ اسی طرح غافل رہے اور قوم کی بداعمالیوں کا نتیجہ کسی وبال کی صورت میں نازل ہوا ، تو وہ بھی اس سے بچ نہیں سکیں گے، حدیث پاک میںہے:
ہمارے ہاں تقسیمِ کار کردی گئی ہے۔حق کی دعوت دینے والوں کا ایک طبقہ وہ ہے، جنھوں نے اپنے لیے آسان راستہ چنا ہے کہ عبادات کی ترغیب دے کر انفرادی اصلاح کا فریضہ انجام دیا جائے اورخلافِ شرع نظام کو چیلنج نہ کیا جائے۔یہ نظام چلانے والوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہے ۔ یہ کام غیر مسلم ممالک میں بھی ہورہا ہے اور معاشرے کے با اثر طبقات ایسے لوگوں کی تحسین کرتے ہیں کہ یہ کسی سے اُلجھتے نہیں ہیں، نظام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، بس بے ضرر انداز میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، لہٰذا حسّاس اداروں میں بھی ان کے لیے گنجایش رکھی جاتی ہے۔
دراصل مشکل کام ’نہی عن المنَکر‘یعنی برائی سے روکنے کا ہے۔قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’بے شک اللہ عدل واحسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور تمھیں بے حیائی ، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو، (النحل۱۶:۹۰)‘‘۔
برائی سے روکنا حکمران ،بالادست ،مرفّہ الحال اور عیش پرست طبقات کو براہِ راست چیلنج کرنا ہے ، جو انھیں ہرگز پسند نہیں ہے اور اسی لیے اس کی مزاحمت کی جاتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام بھی جب اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے تو اُن کی دعوتِ حق میں بھی سدِّراہ یہی طبقات بنے، جو حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علَم بردار تھے۔ قرآن کریم نے انھیں ’مُتْرَفِیْن‘ سے بھی تعبیر کیا ہے ۔اس سے مراد وہ آسودہ حال طبقات ہیںجو اپنی راحتوں اور عشرتوں سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے اور آخری حد تک مزاحمت کرتے ہیں۔ ہردور میں ان کی روش یہی رہی ہے۔اس لیے دعوتِ حق کا یہ شعبہ نہایت مشکل ہے ۔ یہ عزیمت کا تقاضا کرتا ہے اور اہلِ عزیمت ہر دور میں کم رہے ہیں۔ مگررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے روشنی لینے اور آپؐ سے وابستگی کا دعویٰ کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ دعوتِ حق پر عمل کیا جائے، دعوتِ حق کو پھیلایا جائے، اور منکرات کو روکنے کے لیے اپنی صلاحیت، قوت اور مواقع کے مطابق ذمہ داری ادا کی جائے۔
عصرحاضر میں جدید ٹکنالوجی اور جینیات میں روزافزوں ترقی نے خیر کے بہت سے کاموں کے ساتھ، بعض صورتوں میں اخلاقی و سماجی تخریب کے نہایت بنیادی سوالات بھی کھڑے کیےہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں پر ایک قلمی فقہی مذاکرے میں سوال اور قضیہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان سے جیّد عالمِ دین محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب (کراچی) اور بھارت سے محترم مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (نئی دہلی) کی جانب سے رہنمائی پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)
محترم و مکرم مفتی منیب الرحمٰن صاحب /محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بلاشبہہ ہر زمانہ اور ہر عہد اپنے تقاضے، مطالبات اور چیلنج لے کر سامنے آتا ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام، ماضی سے حال اور حال سے مستقبل، یعنی ہر زمانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام پر خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ، ہر زمانے میں دوسروں (نوعِ انسانی) کے سامنے دعوت پیش کرنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔
ہر زمانے میں مسائل و مشکلات کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے دو صورتیں رہی ہیں: پہلی یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر، پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کیا گیا، اور دوسرا یہ کہ مسائل و مصائب کے پہاڑ کے سامنے فدویانہ خودسپردگی کرتے ہوئے، خود اسلام میں قطع و بُرید کی کوشش کی گئی اور اسے چیلنجوں کے حسب ِ حال بنا کر گزارا کیا گیا۔ پہلا راستہ ایمان، عزیمت اور دانشِ بُرہانی کا تھا اور دوسرا طریقہ ترمیم پسندی ، مرعوبیت اور دین میں تحریف کا۔ پہلے راستے پر علما،فقہا،محدثین، مفسرین اور متکلمین اسلام کی ایک بڑی شان دار تعداد نے علم و نُور کے چراغ روشن کیے۔ اور دوسرے طریقے پر چلنےوالوں نے شرمندگی، انتشار اور تذبذب کے ایسے کانٹے بکھیرے، جن سے اُمت مسلمہ کو فکری اور سماجی سطح پر سخت نقصان پہنچا۔ اس دوسری قسم میں چراغ علی، احمد دین امرتسری، عنایت اللہ خاںمشرقی، مرزا غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز وغیرہ اور انھی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے کچھ ڈگری یافتگان بھی شامل رہے ہیں۔
ذیل میں وہ سوال درج کیا جا رہا ہے، جو جناب جاوید احمد غامدی کے باقاعدہ نظام کے تحت چلائے جانے والے سوشل میڈیا پر فراہم کیا گیا۔ ایسے پروگرام سوچ سمجھ کر اور پوری تیاری کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ایسے ہی سرِراہ چلتے چلتے نہیں کیے جاتے۔ ان پروگراموں میں سامعین بھی گنے چنے ہوتے ہیں اور سوالات بھی سوچے سمجھے۔ مذکورہ پروگرام میں ایک خاتون سوال کرتی ہیں:
میرا سوال Surrogate [متبادل] ماں کے حوالے سے ہے۔ آج کے دور میں یہ مسئلہ سامنے آیا ہے کہ اگر ایک خاتون ماں نہیں بن سکتی اور اس میں کچھ Physical (جسمانی) مسائل ہیں، تو دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کرکے اس سے بچہ پیدا کرایا جاتا ہے۔ ایک تو اس حوالے سے بتادیجیے کہ اس میں آپ کی کیا راے ہے؟ دین اسلام کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ صحیح ہے؟
دوسرا یہ کہ ایک خاتون کو جسمانی مسائل نہیں ہیں لیکن وہ محض خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی، اور وہ [میاں، بیوی] باہر سے دوسری خاتون کو حاصل کرکے بچہ پیدا کرواتے ہیں تو کیا اس طریقے سے بھی جائز ہے؟
جواب میں جاوید احمد صاحب کہتے ہیں:
میرے نزدیک اس مسئلے کا تعلق ’رضاعت‘ سے ہے اور وہ قرآن میں بیان ہوگیا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے واضح کردی گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے بچے کو دودھ پلادیا ہے تو اس سے تمام رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے اور یہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ اس طریقے کا تعلق قائم کیا جائےگا۔ اگر محض چھاتیوں کا تعلق قائم کردینے کے نتیجے میں اتنی حرمتیں واقع ہوگئیں، تو یہاں [یعنی کرائے پر بچہ پیدا کرنے کی صورت میں] بھی واقع ہوں گی۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ نے کرایہ دیا اور فارغ ہوگئے۔ متعین طور پر معلوم ہونا چاہیے، اس کا اعلان ہونا چاہیے، بچے کے بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ فلاں اس کی ماں ہے اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ تمام رشتے اسی طرح پیدا ہوجائیں گے کہ جس طرح ’رضاعت‘ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزو ں کا لحاظ کرکے کوئی آدمی اس جدید تکنیک سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے، تو اس کا جواب بھی اسی میں موجود ہے، کہ دودھ نہیں اترا تو اس صورت میں بھی ’رضاعت‘ کا تعلق قائم کرلیا اور دودھ اترا ہے تو اس کے باوجود رضاعت کا تعلق قائم کرلیا___ دونوں صورتوں میں ٹھیک ہے لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ ماں کا انتخاب کرتے ہیں، یعنی جیسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا، اور وہ ماں کے درجے میں ہیں۔ ان کے تمام رشتے اسی طرح ہوں گے۔ قرآن مجید تو یہاں تک چلا گیا کہ جس خاتون کا دودھ پیا ہے آپ نے، اور پھر کسی اور نے بھی اسی خاتون کا دودھ پیا ہے، تو آپ کے باہم وہی رشتہ پیدا ہوجائے گا جو بہن بھائی کا ہے۔
یہ علانیہ ہونا چاہیے، ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ماں اور نان و نفقے کے حقوق قائم ہوجائیںگے اور جو کچھ معاہدہ ہوا ہے اس کی پابندی کرنی پڑے گی، اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں، ان رشتوں کو بھی وہی حُرمت ملے گی، یعنی نکاح ہونا ہے طلاق ہونا ہے، دین میں ایسے [صورت] ہوگی اگر کسی نے کرنی ہے۔{ FR 737 }
اس مبہم اور متضاد جواب نے ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے کہ جس میں بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
۱- دوسری عورت کی جانب سے، غیر عورت کے بچے کو دودھ پلانے، یعنی رضاعت اور ایک بے نکاحی ماں کے بطن سے غیرمرد کے بچے کی پیدایش کا آپس میں برابری کا کیا تعلق ہے؟
۲- بچے کی پیدایش کے لیے داخلی، جسمانی اور جذباتی کیفیات ___ اور دودھ پلانے کے عمل کو قائم مقام قرار دینا کہاں تک عقلی اور دینی مصالح کے تحت درست استدلال ہے؟
۳- بچے کی خواہش رکھنے والے والدین یا خود بچہ پیدا نہ کرنے والی عورت کی جانب سے کسی غیرعورت سے بچے کی پیدایش کا اہتمام کرنا کیسے اخلاقی، سماجی و قانونی سوال پیدا کرتا ہے؟
۴- ایک غیرمرد کے نطفے کو مصنوعی طور پر دوسری عورت کے ہاں منتقل کرنا، کہ جو اس مرد کے نکاح میں نہیں ہے، کیا یہ ایک ’میکانکی زنا‘تصور نہیں کیا جائے گا؟ اوراس صورت میں پیدا ہونے والا بچہ جائز اور ناجائز کی کون سی قسم سے منسوب ہوگا؟
۵- اس کلام و بیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاوید صاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بارآور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کروا کر بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘۔
۶- کیااس شکل میں یہ صورتِ حال نہیں پیدا ہوگی کہ دولت مند مرد اور دولت مندعورتیں، اپنی دولت کے بل بوتے پر ’بچہ سپرمارکیٹ‘ سے بچے خریدنے یا بنوانے لگیں اور دولت نہ رکھنے والے والدین ’بچے کی خریدوفروخت‘ کے لیے تدابیر سوچنے لگیں۔ یوں میکانکی تناسل اور توالد کا ایک ایسا کھیل شروع ہو، جس میں ماں کا وجود، مرد کے سپرم اور بچے کی پیدایش کا تعلق، منڈی کی معیشت سے جڑ جائے۔ اور پھر سماجی، اخلاقی اور خانگی ڈھانچا ایک ایسی تہذیب پیدا کرے، جس میں نکاحی بیوی، اپنے خاوند کا بچہ دوسری بے نکاحی عورت سے جنوائے یا ایک مرد کسی دوسرے مرد سے نطفہ خریدکر کسی اور جگہ سے بچہ پیدا کرائے گا، تو یوں واقعی ’میرا جسم میری مرضی‘ ہی کا بول بالا ہوگا؟
مغرب اور غیرمسلم دُنیا میں ان خطوط پر کام ہو رہا ہے اور اس لہرسے متاثر ’روشن خیال‘ ’ماہرین‘ اسلامی فکریات جدیدیت سے مرعوبیت یا ’آسانی پیدا کرنے‘ کے ذوق و شوق میں کہاں کی اینٹ اور کہاں کے روڑے کا ملاپ کرا رہے ہیں۔ اس طرزِفکر کے بہرحال اثرات مسلمانوں کے تہذیب و تمدن پر پڑسکتے ہیں۔ اس لیے درخواست ہے کہ شخصی حوالے کو نظرانداز کرکے، مجرد مسئلے کی نوعیت اور مذکورہ بالا جواب میں اُبھرنے والی گمراہ کن سوچ کا جائزہ لے کر اور دین کے منشا اور حکمت کو بیان فرمائیں۔
والسلام
سلیم منصور خالد
rمحترم مفتی منیب الرحمٰن ، رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ ،کراچی
﷽
اَلْجَوَابُ ھُوَ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَاب
Surrogate Motherاُس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزایش کے لیے رضاکارانہ طور پر یا اجرت کے عوض پیش کرے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے،حدیث پاک میں ہے:
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِيْنَا خَطِيْبًا، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَقُوْلُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ يَقُوْلُ يَوْمَ حُنَيْنٍ: قَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءُهٗ زَرْعَ غَيْرِهٖ،يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالٰى،وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيْعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ، ترجمہ:’’رُوَیفع بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں: (ایک دن) ایک شخص نے ہمارے درمیان خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں تمھیں وہی بات کہنے جارہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے غزوۂ حنین کے موقع پر سنی ، آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کا پانی (نطفہ) کسی غیر کی کھیتی (رحم) کو سیراب کرے، یعنی اسے حاملہ کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ رحم پاک ہونے تک کسی جنگی قیدی عورت سے مباشرت کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو فروخت کرے [کیونکہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں]‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۱۵۸)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبّی طریقوں سے اُس کے رحم میںاپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہےاور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا، جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا اور جب بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھاجائے گا، تب بھی وہ عورت غیر کی کھیتی ہے۔اس لیے اس کے رحم میں شوہرکے علاوہ کسی اور کا مادّہ مَنویّہ رکھنا ناجائز ہوگا ۔لیکن اس پر عمل زنا کی تعریف صادق نہیں آتی، البتہ یہ عمل واضح طور پر گناہ کا باعث ہےاورمعناً زنا ہے،کیونکہ اس سےاُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب، صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا، شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے۔بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی کہ جس کےبطن سےاُس نے جنم لیا ہے۔چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱- اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۰ۭ ترجمہ:’’اور ان کی مائیں تو وہی ہیں، جنھوں نے انھیں جنا ہے (المجادلہ۵۸:۲)‘‘۔
۲- حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۰ۭ ترجمہ: ’’اس (یعنی انسان کو) اُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا (الاحقاف ۴۶: ۱۵)‘‘۔
پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نےاُسے جنم دیا ہے،اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا :’’ انسان کی ماں وہ عورت ہے، جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے‘‘۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والےاس مشہور واقعے سے ہوتی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی کہ زَمعہ (جوکہ اُم المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کےوالدتھے) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زَمعہ کےبیٹےعبدکہنے لگے کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے۔پھر یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلٰى أَخِيْهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيْدَةِ زَمْعَةَ مِنِّيْ فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهٗ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِيْ كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ:هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ!، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ:اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ : اِحْتَجِبِيْ مِنْهُ لِمَا رَأٰى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتّٰى لَقِيَ اللهَ ، ترجمہ:’’ عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی: ’’زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے ،تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا:’’ جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے زَمعہ کے بیٹے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی‘‘۔ پھر حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے ،اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ‘‘۔ حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عبد بن زَمعہ! وہ تمھارا (بھائی) ہے‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اُمُّ المومنین سَودہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی‘‘۔ پھر زَمعہ کے بیٹے نے حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا‘‘۔(صحیح البخاری:۲۰۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَر‘‘ کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ ’’تمھارا بھائی ہے، اور چونکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا ،اس لیے آپؐ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’فِراش‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَـوْلُهٗ: اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ: أَيْ لِمَالِكِ الْفِرَاشِ وَهُوَ السَّيِّدُ أَوِ الزَّوْجُ ، ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’بچہ فِراش کا ہے‘‘ سے مراد ’مَالِکُ الْفِرَاش‘ ہے، یعنی وہ عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ‘‘۔(فتح الباری، ج۱، ص۱۶۶)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهٗ :اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ : أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، إِنَّمَا قَالَ: ذٰلِكَ عَقِيْبَ حُكْمِهٖ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ إِشَارَةٌ بِأَنَّ حُكْمَهٗ لَمْ يَكُنْ بِمُجَرَّدِ الْاِسْتِلْحَاقِ بَلْ بِالْفِرَاشِ، فَقَالَ: اَلْوَلَدُ لِلْفِراشِ ،وَأجْمَعَتْ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَآءِ بِاَنَّ الْحُرَّةَ فِرَاشٌ بِالْعَقْدِ عَلَيْهَا مَعَ إِمْكَانِ الْوَطْءِ وَإِمْكَانِ الْحَمْلِ، فَإِذَا كَانَ عَقْدُ النِّكَاحِ يُمْكِنُ مَعَهُ الْوَطْءَ وَالْحَمْلَ، فَالْوَلَدُ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ لَا يَنْتَفِيْ عَنهُ أبَدًا بِدَعْوٰى غَيْرِهٖ وَلَا بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا بِاللِّعَانِ ،ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’بچہ فِراش کا ہے‘‘، سے مراد ’’صَاحِبُ الْفِرَاش‘‘ ہے۔ یہ ارشاد آپؐ نے عبدبن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض اِسْتِلْحَاق (یعنی کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے)سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے ، آپؐ نے فرمایا:’’ بچہ صاحب فِراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جب کہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو۔ پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فِراش کا ہوگا۔ لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(عمدۃ القاری، ج۱۱، ص ۱۶۸)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاش‘کے بعد فرمایا: لِلْعَاھِرِ الْحَجَر،’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی نسبت ِ نسب سے محرومی) ‘‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے، زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ثبوت نسب، صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے ،بلکہ فِراش پر موقوف ہے ۔ جس کا فِراش ہوگا ،اس کا نسب ہوگا خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فِراش ہونے کے لیے امکان وطی کی شرط نہیں رکھی (شرح صحیح مسلم، ج۳،ص۹۳۴)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، اور صاحبِ فِراش سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جس کے نکاح میں ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس، جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی شرعی ضروریات میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری ’مَزنیہ‘ ( جس سے زنا کیا گیاہو) کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
جاوید غامدی صاحب نے تواجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو ’رضاعی ماں‘ قرار دیاہے، جب کہ حدیث نبویؐ میں تو اسے ’حقیقی ماں‘ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ ’مدتِ رضاعت‘ (یعنی ڈھائی برس) کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے ،وہ ’رضاعی ماں‘ کہلائے گی۔ اُس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔
اگرجاوید غامدی صاحب کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے، تو آپ نے اِشکال نمبر۵میں جویہ لکھا ہے :’’اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاویدصاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘، اس کے وقوع کے امکان کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح مغرب میں جنسی تسکین کے لیے مصنوعی اعضائے تناسل اور فرج کی دکانیں برسرِعام کھل رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس شعبے کے لیے بھی ایجنسیاں کھل جائیں اورآگے چل کریہ باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلے اور ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اُجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ بھارت میں باقاعدہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طور پر یہ طریقہ رائج ہے۔ گویا انسان مرتبۂ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں اتر آئے گا اور معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہے گا۔ پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دُوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔
اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سےشوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہو ،یاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنسی ملاپ کے ذریعے حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعے حقیقی شوہرکا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے اسلام پر اللہ تعالیٰ کروڑوںرحمتیں نازل فرمائے ،اُنھوں نے آج سےتقریباًایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول وقواعد بیان کردیےکہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے ،حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا ۔محمدبن سَماعہ بیان کرتے ہیں : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م:۱۵۰ھ) نے فرمایا:
إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهٗ فِيْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ، فَاَنْزَلَ فَاَخَذَتِ الْجَارِيَةُ مَاءَهٗ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فِيْ فَرْجِهَا فِي حِدْثَانِ ذٰلِكَ فَعَلِقَتِ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهٗ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهٗ،ترجمہ:’’کسی شخص نے اپنی باندی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ صحبت کی(یعنی بوس وکنار کیا) اور اُسے انزال ہوگیا ،پھر باندی نے اُس کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنی شرم گاہ میں داخل کرلیا اور اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘۔(المحیط البرہانی، ج۹، ص۴۰۴، البحرالرائق، ج۴،ص ۲۹۲، رَدُّالْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار،ج۳، ص ۵۲۸)
آپ نے اُجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:’’آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو کیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟‘‘ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے ، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رُو سے یہ جائز ہے؟‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:
اَلتَّلْقِيْحُ الصِّنَاعِي: هُوَ اِسْتِدْخَالُ الْمَنِيِّ لِرَحْمِ الْمَرْأَةِ بِدُوْنِ جِمَاعٍ. ،فَإِنْ كَانَ بِمَاءِ الرَّجُلِ لِزَوْجَتِهٖ، جَازَ شَرْعًا، إِذْ لَا مَحْذُوْرَ فِيْهِ، بَلْ قَدْ يَنْدُبُ إِذَا كانَ هُنَاكَ مَانِعٌ شَرْعِيٌّ مِنَ الْاِتِّصَالِ الْجِنْسِيِّ،وَأَمَّا إِنْ كَانَ بِمَآءِ رَجُلٍ أَجْنَبِيٍّ عَنِ الْمَرْأةِ، لَا زِوَاجَ بَيْنَهُمَا، فَهُوَ حَرَامٌ، لاِنَّهٗ بِمَعْنَى الزِّنَا الَّذِيْ هُوَ إِلْقَاءُ مَآءِ رَجُلٍ فِي رَحْمِ امْرَأَةٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا زَوْجِيَّةٌ، وَيُعَدَّ هٰذَا الْعَمَلُ أَيْضًا مُنَافِيًا لِلْمُسْتَوَى الْإنْسَانِیِّ ، ترجمہ: ’’ مصنوعی عملِ تولید، یعنی صحبت کےبغیر مادۂ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کےلیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہےتوشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسےشخص کے مادۂ منویہ کے ذریعےکیاجائےجو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ یہ معنوی طورپرزنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔(اَلْفِقْہُ الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہٗ ،ج۴،ص ۲۶۴۹)
علامہ غلام رسول سعیدی اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ ’’بچہ صاحبِ فِراش کا ہے ‘‘ فرماتے ہیں کہ علامہ شمس الدین سرخسی (متوفّٰی ۴۸۳ھ) نے لکھا ہے:’’جس شخص کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو اوروہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے ،تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘ (شرح صحیح مسلم ،ج۳، ص ۹۳۸)۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا مقصدافزایشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے ،چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ:اَنْكِحُوْا أُمَّهَاتِ الْاَوْلَادِ، فَإِنِّي أُبَاهِيْ بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں ان کے سبب قیامت کے دن (دوسری امتوں پر) فخر کا اظہار کروں گا‘‘۔(مسند احمد:۶۵۹۸)
آپؐ کا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے ۔آپؐ کی کئی ازواجِ مطہرات سے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اگر شادی کے بعد کچھ برسوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونےاور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکّل سے کام لینا چاہیےاور اس مقصد کےلیےجائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے۔تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمـًا۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۵۰ ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں میںحکومت اللہ ہی کی ہے ،وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بےحد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔(الشوریٰ ۳۲:۴۹-۵۰)
لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۷ۚ ترجمہ:’’(وہ مومن کامیاب ہوگئے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقیناً وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے) تجاوز کرنے والے ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۲۳:۵-۷)
یہ اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے۔ شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے ، تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجایش رکھی ہے۔ اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے ، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو ، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو، گود لے سکتی ہے ، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، نہ وہ بچہ ان کا وارث بنے گا، البتہ اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں، اور اسے ہبہ بھی کرسکتے ہیں، نیز اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔
سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے۔ اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے :اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحظُوْرَاتِ اور اَلضَّرُوْرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِھَا، ترجمہ:’’ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اور ضرورت کو اُس کی حد کے اندر رکھا جائے‘‘۔ اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔جاوید احمد غامدی بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلّی کے قائل ہیں ۔ فقہ اور اصولِ فقہ تو دُور کی بات ہے ،وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اصولِ شرع کے پابند ہیں۔
rمحترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ قرآن مجید میں بنیادی اقدار، احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، جب کہ احادیث میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر دی گئی ہیں۔ زمانہ گزر نے کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں جو مسائل اور مشکلات پیش آتے ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے علما و فقہا اور اسرارِ شریعت کے ماہرین نے اجتہاد کیا ہے، لیکن ان کا اجتہاد ہمیشہ دین کی بنیادی ا قدار، اساسی تعلیمات اور روح ِ شریعت سے ہم آہنگ رہا ہے۔ مگر ان کے برعکس جن حضرات نے اس سے ہٹ کر اجتہاد کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی آرا پیش کی ہیں جو اساسیات ِدین اور روح ِ شریعت سے متصادم ہوں انھیں امت میں قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا ہے۔
انسان کی تخلیق کا معروف اور متداول فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اتصال ہو۔ اس کے نتیجہ میں مرد سے منی (سپرم) اور عورت سے بیضہ(اووم) نکلتا ہے۔ دونوں کا اتصال و امتزاج عورت کے اعضائے تناسل میں سے قاذف (Fallopian Tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے۔ اس طرح عمل ِ بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر وہ مخلوط نطفہ (Zygote) عورت کے رحم (یوٹرس)میں منتقل ہوجاتا ہے، جہاں دھیرے دھیرے نشوونما پاتے ہوئے ’جنین‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پورے مرحلے کو بہت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۰ۤۖ (الدھر۷۶: ۲ ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے‘‘۔
قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال صرف نکاح کی صورت میں جائز ہے (النساء۴:۱، ۳، ۲۵، ۱۲۷، النور۲۴: ۳۲، الاحزاب۳۳: ۴۹، الممتحنۃ ۶۰: ۱۰)۔ بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو وہ’ زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے ، خواہ اسے علی الاعلان قائم کیا جائے یا چھپ کر، اوراسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے(بنی اسرائیل۱۷:۳۲، النور۲۴: ۲)۔
خلاصہ یہ کہ ’جنین‘ کی تخلیق کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے استقرارِ حمل ہو سکے۔ جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہو، یا کسی وجہ سے مذکورہ طریقہ اختیار نہ کیا جاسکے تو بارآوری اور تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ یہ نقص مرد میں بھی ہو سکتا ہے اور عورت میں بھی۔ مثلاً مرد قوتِ مردی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، یا اس کے مادۂ تولید میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو ِ تناسل (Penis)تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہوں، یا پھر خصیے بے کار ہوں۔ اسی طرح عورت میں کسی نقص کے سبب خصیۃ الرحم (Ovaries)سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں ،یا وہ پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اسے نکال دیا گیا ہو، یااس میں بار آور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ۔
مغرب نے میڈیکل سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ وہاں مذکورہ بالا بہت سے نقائص کا حل نکال لیا گیا ہے اور ان کا متبادل تلاش کر لیا گیا ہے۔ اگر مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم، سب حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہوں، لیکن مرد جماع پر قادر نہ ہو ،یا اس کا نطفہ خصیوں سے عضو ِ تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں، تو اس کے نطفے کو ایک سرنج میں لے کر عورت کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ عورت کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوتا ہے۔ اسے’ مصنوعی تخم کاری‘ (Artificial Insemination) کہا جاتا ہے۔ اگر مرد کے نطفے میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا وہ تولیدی صلاحیت سے محروم ہو، تو ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا نطفہ استعمال کیا جا تا ہے۔ اسے لے کر عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا م کے لیے مغرب میں مادۂ منویہ کے بڑے بڑے مراکز (Sperm Banks)قائم ہیں، جہاں سے کوئی بھی شخص اپنی پسند کا نطفہ خرید سکتا ہے۔
اگر عورت میں ’قاذفین‘ پیدایشی طور پر موجود نہ ہوں، یا بعد میں کسی وجہ سے مسدود ہوگئے ہوں، البتہ اس کا ’بیضہ‘ صحیح سلامت ہو تو اسے اور مرد کا نطفہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک متعین مدت کے بعد عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے’ ٹیسٹ ٹیوب میں بارآوری‘ (In Vitro Fertilization)کہا جاتا ہے۔
اگر عورت کا رحم بالکل ٹھیک ہو اور استقرارِ حمل کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن خصیۃ الرحم میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ خارج نہ ہو رہا ہو، تو کسی دوسری عورت کا بیضہ لے کر اس کے رحم میں منتقل کیا جا تا ہے، یا مرد کے نطفے سے دوسری عورت کا بیضہ اسی کے رحم میں بارآور کرکے، یا دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے ،اس بارآور بیضہ کی تنصیب بیوی کے رحم میں کر دی جاتی ہے۔ اسے’ انتقالِ بیضہ‘ (Ovum implantation) کہا جاتا ہے۔
اگر مرد کا نطفہ اورعورت کا بیضہ دونوں صحت مند ہوں، لیکن عورت رحم کے کسی مرض میں مبتلا ہو، جس کی وجہ سے اس میں ’استقرار ِحمل‘ ممکن نہ ہو تو زوجین کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب میں دونوں کے مادّوں کو ملا کر حاصل شدہ ’جنین‘ کو اس عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ پرورش پاتا ہے۔
اسی طرح بعض عورتیں صحت مند ہونے کے باوجود حمل و رضاعت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں ۔وہ بھی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیتی ہیں۔
ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوی سے بیضہ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ چنانچہ دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے اور پہلی عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کی ’تخم کاری‘ کرکے اسی (دوسری) عورت کے کرایے پر دیے گئے رحم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ اسے’ قائم مقام مادریت‘ (Surrogacy) کہا جاتا ہے۔
مغرب، جہاں کا کلچر خالص مادّیت پر مبنی اور اخلاقیات سے بالکل عاری ہے، وہاں ان تمام طریقوں پر عمل ہورہا ہے اور مر دو عورت کے تناسلی نظام میں پائے جانے والے خِلقی (Congenital) یا اکتسابی (Acquired)نقائص کو دور کرکے بچے پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس چیز نے میڈیکل کی دنیا میں ایک زبردست انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
انسانی پیدایش کے اسلامی ضوابط
اسلام اپنا ایک نظام رکھتا ہے۔ وہ عام حالات میں زندگی گزارنے کے طریقوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور ان میں کوئی دشواری لاحق ہونے پر کام یابی کے ساتھ ان کا حل پیش کرتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں مروجہ مذکورہ بالا طریقوں کو اسلام کی بنیادی ا قدار اور اساسی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ جو طریقے ان سے ٹکرائیں گے وہ کسی بھی صورت میں اس کے نزدیک قابل ِقبول نہیں ہوسکتے، البتہ جو ان سے متصادم نہیں ہوں گے انھیں اختیار کرنے کی اس کی طرف سے اجازت ہوگی۔
اسلام نے توالد و تناسل اور نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے نکاح کو مشروع کیا ہے۔ زوجین کے جنسی اتصال سے رحمِ مادر میں استقرارِ حمل ہوتا ہے۔عورت جنین کو نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کرتی ہے۔ اس طویل مدت میں وہ طرح طرح کی پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ وضعِ حمل کا مرحلہ بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بچے کی پیدایش کے بعد دو برس وہ اسے دودھ پلاتی ہے۔ ان تمام مراحل کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے (ملاحظہ کیجیے: النساء۴:۱، الاعراف۷: ۱۸۹، لقمان۳۱: ۱۴، الاحقاف۴۶: ۱۵)۔
اسی بنا پر ماں کا تذکرہ باپ کے مقابلے میں زیادہ کیا گیا ہے اور اس کی فضیلتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ امومت (motherhood) کا جذبہ ہر عورت میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ ماں بننے کے لیے ہی عورت ان تمام تکلیف دہ مراحل سے ہنسی خوشی گزرتی ہے۔ اب اگر کوئی عورت ان مراحل سے گزرے بغیر ماں بننا چاہے اور حمل اور وضع ِ حمل کے کاموں کے لیے دوسری عورت کی خدمات حاصل کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت کر رہی ہے۔ عورت کو اس کا تو اختیار ہے کہ وہ کسی کی بیوی نہ بننا چاہے تو نکاح نہ کرے اور ماں نہ بننا چاہے تو جنسی تعلق سے احتراز کرے، لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جسم کو سڈول رکھنے ،یا اس کی خوب صورتی کو دیر تک قائم رکھنے ،یا حمل اور وضع ِ حمل کی تکالیف سے بچنے کے لیے دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے اور چند ٹکوں کے عوض اس سے بچہ پیدا کرواکے خود کواس بچے کی ماں بنا لے۔
اگر شوہر کا نطفہ، بیوی کا بیضہ اور اس کا رحم، سب صحیح سلامت اور صحت مند ہیں ،لیکن کسی نقص کے سبب نطفہ و بیضہ کا اتصال،’انسانی تخم کاری‘ اور استقرار ِ حمل ممکن نہ ہو تو قانونی بنیادوں پر نکاح کے رشتے میں بندھے میاں بیوی میں مصنوعی طریقہ ہائے تولید سے استفادہ جائز ہے۔ یہ عمل علاج کی صورت تصور کیا جائے گا، جس کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر شوہر کسی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، لیکن اس کا نطفہ حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہو اوراس میں تولیدی صلاحیت موجود ہو، تو اسے کسی مصنوعی طریقے سے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا، تاکہ وہ بیوی کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوسکے، جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر نطفہ اور بیضہ کا اتصال اور بارآوری فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ممکن نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب میں ان کو بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا جائز ہوگا۔
البتہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ ہرصورت میں نطفہ شوہر کا، بیضہ بیوی کا اور رحم بھی اسی بیوی کا ہو۔ اگر نطفہ شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا حاصل کیا جائے، یا بیضہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لیا جائے ،یا نطفہ اور بیضہ تو زوجین کے ہی ہوں، لیکن دونوں کا استقرار اور جنین کی پرورش کسی اور عورت کا رحم کرایے پر لے کر اس میں کی جائے، تو یہ تمام طریقے اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً ناجائز ہیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱- شریعت میں اس چیز کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے کہ کسی مرد کے نطفے سے ایسی عورت کا استقرار ِ حمل ہو، جس کا اس سے ازدواجی رشتہ نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَایَحِلّ لِامرِیٍٔ یُومِنُ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِأن یَّسقِيَ مَاؤہُ زَرعَ غَیرِہِ (ابوداؤد: ۲۱۵۸) کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (یعنی ماودۂ تولید) سے کسی دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے‘‘ (یعنی غیرعورت سے مباشرت کرے)۔
یہ حدیث اگر چہ استبراءِ رحم کے پس منظر میں آئی ہے۔ یعنی کوئی عورت کسی مرد سے حاملہ ہو تو وضع ِ حمل سے قبل کسی دوسرے مرد کے لیے اس سے مباشرت جائز نہیں، لیکن اس کا عمومی مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی مرد کا نطفہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲- اسلام نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں:
قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ....وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور۲۴: ۳۰-۳۱)(اے نبیؐ!) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
’شرم گاہوں‘ کی حفاظت کا وسیع مفہوم ہے۔ اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ماورائے نکاح کسی طرح کا جنسی تعلق قائم نہ کیا جائے وہیں اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو فطرت کے اصولوں اور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہو۔ رحم کی تخلیق استقرار ِ حمل سے وضعِ حمل تک جنین کی پرورش کے لیے کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ جنین کی تشکیل شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے اتصال اور بارآوری کے نتیجہ میں ہو اور اس کی پرورش بیوی ہی کے رحم میں ہو۔
۳- اسلام میں نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ کہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَکُمْ أَبْنَاءَکُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ (الاحزاب۳۳: ۴) اور نہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ مِن أَعظَمِ الفِرَیٰ أَن یَّدَّعِی الرَّجُلُ اِلٰی غَیرِ أَبِیہِ (صحیح البخاری: ۳۵۹۰) سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرے۔
رحمِ مادر کی کرایے داری سے اختلاط ِ نسب کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔جائز اور قانونی اولاد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیدائش اس عورت کے واسطے سے ہوئی ہو جو اس کے باپ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الوَلَدُ لِلفِرَاشِ (صحیح البخاری:۷۱۸۲، مسلم:۱۴۵۷) بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ( یعنی جس کی بیوی سے)پیدا ہوا ہو۔
اس حدیث کی رُو سے بچہ جس عورت کے بطن سے پیدا ہوگا ،قانونی طور پر اس کا اور اس کے شوہر کا کہلائے گا۔جس مرد کا نطفہ استعمال ہوا ہے اسے اس بچے کو اپنی طرف منسوب کرنے کی شرعی طور پر اجازت نہ ہوگی۔
۴- جو عورت اپنے رحم کو کرایے پر اٹھائے گی اور اسے کسی جوڑے کے بچے کی پرورش کے لیے پیش کرے گی، وہ چاہے شادی شدہ ہو یا بے شوہر کی (خواہ غیر شادی شدہ ہو یا مطلقہ یا بیوہ)، ہر صورت میں معاشرے میں اس پر بدکاری، بدکرداری اور دیگر ناپسندیدہ اور گھناؤنے الزامات لگنے کا قوی اندیشہ رہے گا۔
۵- رحمِ مادر کی کرایہ داری کے جواز کی صورت میں بہت سے خوف ناک اور بھیانک سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوں گے، جن کا تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مغرب میں عملاً ان کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک میں’بچہ سپر مارکیٹس‘ وجود میں آگئی ہیں۔ دولت مند طبقہ کی خواتین ایسی عورتوں کو تلاش کرتی ہیں، جو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے رحم کرایے پر پیش کر سکیں اور غریب طبقہ کی عورتوں کی ایسی فوج تیار ہوگئی ہے، جو اپنے رحم کو کرایے پر اٹھا کر اچھا خاصا کمالیتی ہیں۔ اس چیز نے ایک انٹر نیشنل انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا رخ غریب ممالک کی طرف ہو گیا ہے، جہاں مال دار ممالک کے لوگ سفر کرکے آتے ہیں اور اپنے ممالک کے مقابلے میں کم خرچ پر بچے پیدا کرواتے ہیں۔ اس انڈسٹری کو ’تولیدی سیاحت‘ (Fertility Tourism){ FR 735 } کا نام دیا گیا ہے۔اس معاملے میں بھارت کو سبقت حاصل ہے ، چنانچہ اسے Surrogacy Capital of the World { FR 736 }کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان قباحتوں کی وجہ سے مغرب کے سنجیدہ اور حساس طبقے میں اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اور استحصال سے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
’رحمِ مادر‘ کی کرایہ داری عالم ِ اسلام میں علما و فقہا، دانش وروں اور مجتہدین کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر غور و فکر کا موضوع بنا ہے۔ مشہور فقہا: ڈاکٹر جاد الحق علی جاد الحق (سابق شیخ الازہر مصر)، ڈاکٹر محمد سید طنطاوی (سابق شیخ الازہر)، ڈاکٹر یوسف القرضاوی(قطر) اور ڈاکٹر مصطفےٰ زرقاء (شام) نے اسے حرام قرار دیا ہے (ملاحظہ کیجیے، ڈاکٹر ہند الخولی، مقالہ:تأجیر الارحام في الفقہ الاسلامي، مجلۃ جامعۃ دمشق للعلوم الاقتصادیۃ والقانونیۃ، جلد ۲۷، شمارہ ۳، ۲۰۱۱ء، ص ۲۸۲-۲۸۳)۔ یہ موضوع رابطہ عالم اسلامی کی زیر نگرانی قائم اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ (آٹھواں اجلاس، منعقدہ ۲۸؍ ربیع الثانی تا ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ (۱۹۸۵ء)، اور تنظیم اسلامی کانفرنس کی زیر نگرانی قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ (تیسرا اجلاس، منعقدہ عمان، ۸ تا ۱۳ ؍ صفر ۱۴۰۷ھ (۱۹۸۶ء) میں بھی زیر بحث آیا تھا اور ان میں بھی علما نے اسے بالاتفاق حرام قرار دیاتھا۔
’رحم مادر‘ کی کرایہ داری کو ’رضاعت‘ کے مسئلے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ رحم میں جنین کی تخلیق اور پرورش ہوتی ہے۔ نطفہ و بیضہ کی بارآوری، حمل کا استقرار اور جنین کی پرورش، تمام مراحل میں صرف اس مرد اور عورت کا اشتراک جائز ہے جو نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانا ایک خارجی معاملہ ہے۔ اس کا جواز قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ اس لیے اس پر قیاس کرکے غیرعورت کے رحم کی کرایہ داری کو جائز قرار دینا قطعاً درست نہیں ۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے اس نعمت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے( الشوریٰ۴۲:۴۹-۵۰)۔ جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو اس سے محروم ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے آزمائش سمجھے اور اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھے ۔ نکاح کے بعد اگر کچھ مدت گزر جانے کے باوجود اولاد نہ ہو تو زوجین کو کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے مطلوبہ ٹیسٹ کرا لینے چاہییں۔اگر ایسے معمولی نقائص کا پتا چلے جن کا علاج اور تدارک ممکن ہو تواس کی حتّیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے علاج کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے(ابو داؤد:۳۸۵۵)۔ اگر عورت میں کسی ایسے دائمی مرض کا علم ہو جس کی وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تومرد دوسرا نکاح کر سکتا ہے اوربیوی کو تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بخوشی اس کی اجازت دے دینی چاہیے۔اور اگر کمی مرد میں ہو ،اس کے باوجود عورت بخوشی اس کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو وہ اپنے رشتے کے کسی بچے کو گودلے کر اس کی پرورش کرسکتی ہے۔ اس صورت میںاس بچے کی نسبت تو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہوگی،البتہ یہ جوڑا اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کا اجر پائے گا۔واللہ اعلم بالصواب
ایک عرصے سے پاکستان میں مختلف درجات میں، حکومتی سطح اور غیرحکومتی سطح پر اور ابلاغی اداروں پر، سیکولر جارحیت اور لبرل فسطائیت کے نقوش نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ۱۴جون ۲۰۲۰ء کو، پنجاب کے گورنر نے سرکاری یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا کہ ’’ڈگری کے حصول کے لیے، طالب علم کوترجمے کےساتھ قرآن پڑھ کرسنانا ہوگا‘‘۔ اس اعلان کا قوم نے خیرمقدم کیا، لیکن ردعمل کے طورپر اخبارات میں اس اعلان کی مخالفت پرمبنی کالم تحریر کیےگئے۔ اس مناسبت سے دو تحریریں پیش کی جارہی ہیں۔ (ادارہ)
مفتی منیب الرحمٰن
ایک وقت تھا کہ جب پاکستان کے مسلمانوں میں دین اور دینی شعائر کے بارے میں بجاطور پر حسّاسیت زیادہ تھی۔ اپنی تمام ترشخصی اور عملی کوتاہیوں کے باوجود دین اوردینی مقدّسات کی بے حُرمتی برداشت نہیں کرتے تھے۔فوراً توانا ردِعمل آتا اور ایسی مذموم حرکات شروع ہی میں دم توڑ دیتیں۔ مُلحدین اور دین بیزار طبقات ہردور میں رہے ہیں۔ ماضی میں جب وہ دین کے بارے میں بے زاری کا اظہارکرتے تو کسی ’مولوی‘ کو نشانہ بناتے، کبھی مسجد اور مدرسے کو ہدفِ تنقید بناتے، الغرض براہِ راست نشانہ بنانے کی جسارت نہیں کرپاتے تھے۔ لیکن جب سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا کی مختلف صورتیں وجود میں آئی ہیں،قرآن، رسولؐ، اسلام اور مقدّساتِ دین پر براہِ راست حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ اگر حسّاس اداروں سے وابستہ شخصیات کے بارے سوشل میڈیا میں کوئی نازیبا بات کرے تو اُسے تلاش کرکے بھرپور گوشمالی کی جاتی ہے۔ لیکن یوں نظر آتا ہے کہ اب وطن عزیز کے ریاستی و حکومتی نظم میں دینی مقدّسات کا دفاع اور تحفظ شاید کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اشارے کنایے میں شراب کی ترغیب و تشویق اخباروں کے ادارتی صفحات میں آئے دن دی جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حلال و حرام اور دینی و سماجی اخلاقیات کی مناسبت سے اخباروں کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم سے بے زاری کا بھی برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ گورنر پنجاب نے یہ اعلان کیا: ’’قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھے بغیریونی ورسٹیوں سے ڈگری نہیں ملے گی‘‘۔ حالانکہ تاحال یہ بات محض ایک اعلان ہے، اس کے پیچھے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہے۔ لیکن اُردو اور انگریزی اخبارات کے بعض کالم نگاروں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ’’کیا یہ لوگ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرتے ہیں؟‘‘
اگر جواب ’ہاں‘ میں ہے تو دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۲ میں لکھا ہے: ’’اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہوگا‘‘۔ آرٹیکل ۲-اے میں ہے: ’’قراردادِ مقاصد میں بیان کردہ اصول اور احکام کو دستور کا مستقل حصہ قراردیا جاتا ہے اور وہ بِحَسْبِہٖ مؤثر ہوں گے‘‘۔ قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے: ’’چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کُل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اُس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنےکا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔
پھر دستورِ پاکستان میں یہ بھی لکھا ہے: ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اوراجتماعی طورپر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے تقاضوںکے مطابق بسر کرسکیں، جیساکہ قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘‘۔
دستورِ پاکستان کے آرٹیکل ۳۱ کے تحت لکھا ہے:
۱- ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اورانھیں سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت یہ کوشش کرے گی:
(الف) قرآنِ پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنا (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، زکوٰۃ و عُشر، اوقاف اورمساجد کی باقاعدہ تنظیم کرنا‘‘۔
اس آرٹیکل میں قرآن و سنت کی تعلیمات، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی اور سہولتیں فراہم کرنے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جب کہ ہمارے سیکولر، لبرل اوردین بے زار دانش وروں کو قرآن کا ترجمہ پڑھانے کی بات اس طرح کھٹکی کہ جیسے قیامت نازل ہوگئی ہو۔
دستور کے آرٹیکل ۲۰۳(الف) میں ’وفاقی شرعی عدالت‘ کی تشکیل اور اس کےفرائض و اختیارات کے ذکر میں یہ درج ہے: ’’اس باب کے احکام دستور کے دیگر احکام پر غالب ہوں گے‘‘۔ یعنی اس امرکی تشریح کہ ملک میں پہلے سے نافذ العمل کوئی قانون یا نیا قانون جو منظوری کے مراحل میں ہے، آیا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ یہ طے کرنے کا اختیار ’وفاقی شرعی عدالت‘ کے پاس ہے اور ان فرائض کی ادایگی میں دستور کی کوئی دفعہ یا قانون، اس کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے۔
آرٹیکل ۲۲۷ کا عنوان ہے: ’قرآن و سنت کے بارے میں احکام‘ اور درج ہے: ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔
دستورِ پاکستان کے اس آرٹیکل میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں: (الف) گذشتہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنا (ب) تمام نئے قوانین اسلام کے مطابق بنانا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عمل قرآن و سنت کو پڑھے اور جانے بغیر تکمیل پاسکتا ہے؟ جب کہ دستور کی رُو سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہونی ہیں اور پارلیمنٹ کو بحث کے بعد ان کی منظوری دینی ہے۔ لیکن اب ہمارے ’آزاد خیال‘ دانش وروں کے نزدیک ریاست و حکومت کے اُمور اور نظامِ تعلیم میں قرآن کے ترجمے کی بات کرنا بھی قابلِ گردن زدنی اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، بلکہ قائداعظم کے پاکستان کی روح کو سلب کرنے کے ہم معنی ہے۔
گذشتہ صدی کے وسط سے ، اس کے اختتام تک سیاست اور سیاسی جماعتوں پر کسی حد تک نظریات کی ’تہمت‘ لگتی تھی۔ اُس دور کے عالمی سیاسی ماحول اور دو سوپر پاورز کی کش مکش کے تناظر میں رائٹسٹ اور لیفٹسٹ، یعنی دائیں بازو، بائیں بازو اور اسلام پسند کی اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں۔ کسی حد تک لوگ سیاسی نظریات کو جانتے بھی تھے اور نظریاتی وابستگیاں بھی رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ سب باتیں قصۂ ماضی بن گئی ہیں۔ اب سیاست صرف مفاداتی، گروہی اور شخصیت پرستی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ سیاسی ’مزارعین‘ کو اپنے لیڈروں کی ناموس کے دفاع سے فرصت ملے تو دین کے دفاع کے لیے وہ وقت نکالیں۔ اس لیے اُن پر نظریاتی حساسیت کی ’تہمت‘ لگانا خود کو شرمسار کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن جب کوئی دستوری اساس، یعنی اسلام اورقرآن و سنت پرحملہ کرے تو دستورِ پاکستان کی رُو سے وفاقی و صوبائی کابینہ، پارلیمنٹ کے ارکان، اعلیٰ عدلیہ،سول اور مسلح اداروں کی اعلیٰ قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کے آگے سدِراہ بنیں، کیوںکہ ان سب نے دستور سے وفاداری کا حلف اُٹھا رکھاہے۔
مگر یہی دکھائی دیتا ہے کہ دین اور دینی شعائر کے تحفظ کے فرض کی ادایگی کے لیے نہ وقت ہے اور نہ اس عہد کی کوئی اہمیت۔ ان سب کے سامنے اسلام کا جو حشر ہورہا ہے، کوئی دشمنِ اسلام بھی شاید ہی کرسکے۔ اس صورتِ حال کا مرثیہ ان الفاظ میں پڑھیے:
میں اگر سوختہ ساماں ہوں، تو یہ رُوزِ سیاہ
خود دکھایا ہے ، مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
یعنی اسلام کو اگر زبان عطا کی جائے تو وہ برملا یہ فریاد کرے گا: آج جو ناکامیاں میرے کھاتے میں ہیں، میرے وقار و افتخار کا سارااثاثہ جو جل کر راکھ ہوچکا، اس کا گلہ مجھے کسی دشمن سے نہیں ہے۔ یہ انجام میرے گھر کے چراغاں نے مجھے دکھایا ہے۔ میرے ماننے والوں نے ’گھرپھونک، تماشا دیکھ‘ کا یہ منظر خود تخلیق کیا ہے۔ اس پر کسی اور کو الزام دینے کے بجاے انھیں خود کو ملامت کرنا چاہیے اور اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔
یہی حال ہماری صحافت کاہے ۔ کبھی اس پر نظریے کی چھاپ تھی، مگر اب نظریے سے اس کا دامن ’صاف‘ ہے۔ کسی زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے ایک بڑے اخبار کے بارے میں کہا تھا: ’’وہ تو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے‘‘۔ مراد یہ کہ اُسے کسی نظریے سے کچھ بھی غرض نہیں ہے، ہرطرح کا مال اپنے شوروم میں سجارکھا ہے۔ گاہک آئےاور اپنی پسند کا مال اُٹھا لے۔ اسی طرح ہمارےہاں پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی بہار تو آگئی ہے، لیکن نظریے سے عاری ہے۔ بس اتنا ہے کہ طاقت کے جس مرکز سے گرم ہوا آتی ہے، اس کے بارے میں یہ محتاط رہتے ہیں، باقی جس کے ساتھ جو کھلواڑ چاہے کریں، اور نان ایشو کو ہمالہ بناکر رونقیں لگائیں۔
یوں لگتا ہے کہ مذہبی،سیاسی ، سماجی، صحافتی، ادبی تنظیموں کے نزدیک قرآن و سنت کی ناموس کے تحفظ کا مسئلہ ثانوی ترجیح کے درجے میں چلا گیا ہے۔ آج تعلیم کو سیکولرائز کرنے کے لیے بھرپور کوششیں اور فیصلے کیے جارہے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی قابلِ ذکر علمی، احتجاجی یا سیاسی کاوش دکھائی نہیں دیتی!
شاہ نواز فاروقی
پاکستان کے سیکولر عناصر کا اسلام پر حملہ کرنے کو جی چاہ رہا ہوتا ہے، تو وہ اسلام پر براہِ راست حملے کی جرأت نہیں کرتے، بلکہ وہ علما، مولویوں، ملاؤں اور امریکی و بھارتی فوجیوں سے برسرِپیکار سرفروشوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی کچھ پرانی ہوچکی ہے۔ اب تو پاکستان میں سیکولر اور لبرل لکھنے والوں کی جرأت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ براہِ راست اسلام کو نشانہ بنانے کی ہمت کر رہے ہیں۔ اس سنگین حملے کا پس منظر یہ ہے کہ گورنر پنجاب نے بطور چانسلر، پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآنِ مجید کو ترجمے سے پڑھنا لازم قرار دے دیا ہے۔ قرآن کو ترجمے سے پڑھے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔ قرآن کو پنجاب کی یونی ورسٹیوں کے تعلیمی پروگرام کا لازمی حصہ بنانے کا عمل تین سیکولر کالم نگاروں کو اتنا بُرا لگا ہے کہ انھوں نے اس فیصلے پر اپنے اپنے انداز سے بھرپور وار کیا ہے۔
روزنامہ دنیا اور ’دنیا ٹیلی ویژن‘ سےوابستہ ایاز امیر کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
’’شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ قائد اعظم نے بارایٹ لا ’لنکنز اِن ‘(برطانیہ) سے کیا۔ اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکر مسلمانانِ ہند اور نہ معمارِ پاکستان ہی پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں.... دونوں کی خوش قسمتی ہی سمجھی جانی چاہیے کہ وہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے عہد میں طالب علم نہ تھے۔ ورنہ ممکن ہے یوں کرنا پڑتا۔ شاعر مشرق کو تو شاید مشکل نہ پیش آتی، لیکن قائد اعظم، جن کی ساری تعلیم انگریزی میں تھی، کو تھوڑی بہت دِقّت ضرور ہوتی۔
’’قائد اعظم کے بغیر برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا قیام ناممکن ہوتا، لیکن قائد اعظم نے اپنی درخشاں زندگی میں [ایسے] شوشوں کا سہارا کبھی نہ لیا.... اُن کی تمام تقاریر چھان ڈالیے، کوئی فضول کا نعرہ نہیں ملے گا۔ لیکن اُن کی وجہ سے بننے والے ملک کی جو پاکستانی قوم کہلاتی ہے، اُس کی تو زندگی ہی فقط نعروں اور شعبدے بازی پہ مبنی ہے۔جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے، وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی، جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کرسکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے گا کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے، لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھے سات یونی ورسٹیوں کے وائس چانسلروں [کے] اجلاس [میں] فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونی ورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی، جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے‘‘(روزنامہ دنیا،۲۰ جون ۲۰۲۰ء)۔کالم نگارنے قرآن کی تعلیم کا جس طرح خاکہ اُڑایا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
اسی طرح ’جنگ‘ اور ’جیو‘ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز کے کالم نویس غازی صلاح الدین صاحب نے اپنے کالم (۲۱ جون ۲۰۲۰ء) میں قرآن کی تعلیم کا خاکہ اُڑاتے ہوئے لکھا:
یقین کریں یا نہ کریں پنجاب کے گورنر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کو اُردو ترجمے کے ساتھ پڑھنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس کے بغیر کسی کو ڈگری نہیں مل سکے گی۔
پھر روزنامہ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر اور اب انسانی حقوق کی تنظیموں میں سرگرمِ کار آئی اے رحمان صاحب نے انگریزی روزنامہ ڈان میں قرآن کی تعلیم پر حملے کے لیے جو کالم لکھا، اس کا متن تو رہا ایک طرف،خود عنوان ہی توہین آمیز ہے: Creeping Religiousity یعنی ’رینگتی ہوئی مذہبیت‘۔ موصوف نے لکھا:’’یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ضیاء الحق اور اس کی جگہ لینے والوں نے چالیس سال تک معاشرے میں اپنی طرز کا اسلام مسلط کرنے کے بعد ایک قانون بناڈالا ہے، جس کے تحت نوجوانوں کو قرآن پڑھنے پر مائل کیا جائے گا۔ اسلام ایک رضا کارانہ مذہب ہے۔ پنجاب کی حکومت کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ ان طلبہ کو سزا دی جائے گی جو قرآن نہیں پڑھیں گے۔ علما خود اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا پنجاب حکومت کا یہ اقدام ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے‘ کے مذہبی اصول کے مطابق ہے؟‘‘ (ڈان، کراچی، ۲۵جون ۲۰۰۲ء)
اسی طرح پرویز ہود بھائی نےروزنامہ ڈان (۱۹جولائی ۲۰۲۰ء) میں یہ سنا دیا ہے کہ ’’ڈگری حاصل کرنے کے لیے قرآن سنانے کی پابندی تو انتہاپسند ضیاء الحق نے بھی نہیں لگائی تھی‘‘۔
ایازامیر یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم جیسے جدید تعلیم یافتہ افراد کا قرآن یا اس کے علم سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ’’اقبال تو شاید قرآن پڑھ بھی لیتے مگر قائد اعظم کو تھوڑی بہت دقّت ضرور ہوتی‘‘۔ اطلاعاً عرض ہے کہ کالم نگار نے اقبال اور قائد اعظم کا جو تصور اپنے ذہن میں باندھا ہے، وہ ان کے ذہن کی پیداوار تو ہوسکتی ہے، مگرحقیقی زندگی میں ایسا نہیں تھا۔ دیکھیے، اقبال کو قرآن سے عشق تھا اور ان کی شاعری قرآن کی تعلیمات میں ڈوبی ہوئی شاعری ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اُسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
علّامہ محمد اقبال کے یہ اشعار بتا رہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک ’’مسلمانوں کا عروج قرآن کو اختیار کرنے کی وجہ سے تھا اور مسلمانوں کا زوال قرآن کو ترک کردینے کی وجہ سے ہے‘‘۔ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ اگر تمھیں جدتِ کردار درکار ہے، تو قرآن میں ڈوب کر ہی یہ متاع گراں مایہ ہاتھ آسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس اقبال کو قرآن سے اتنی محبت ہے وہ قرآن کو نہیں پڑھتا ہوگا؟
اقبال خود کو مولانا روم کا مرید کہتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’مولانا علم کا ایک سمندر ہیں اور میں اس سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ‘‘۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ مولانا روم کی شاعری کو فارسی میں قرآن کی تعلیمات کا مظہر کہا گیا ہے۔ جنھوں نے اقبال کی شاعری کو سرسری طور پر پڑھا ہے انھیں معلوم ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کی لغت مذہبی یا قرآنی ہے۔ ان حقائق کے باوجود یہ صاحب ’تاثر‘ دینا چاہتے ہیں کہ اقبال کی ساری دل چسپی جدید مغربی تعلیم سے تھی، قرآن سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ہرپڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ زندگی کے آخری زمانے میں اقبال کا یہ حال ہوگیا تھا کہ وہ قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور جب بھی انھیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ رہنمائی کے لیے قرآن اُٹھالیتے تھے۔
روزنامہ دنیا کے کالم نگار نے اقبال کو تو کچھ نہ کچھ ’مسلمان‘ مان بھی لیا، مگر قائد اعظم کو تو انھوں نے تقریباً ’اس کے برعکس ‘ بنا کر کھڑا کردیا کہ ایک ایسا آدمی، جس کا قرآن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کا خمیر، ناقص معلومات، جہالت، اسلام دشمنی اور انھی چیزوں پر فخر سے اُٹھا ہے۔ چنانچہ قائد اعظم کے سلسلے میں ایاز صاحب لاعلمی اور جہالت کا شکار ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن میں سیکولر شیاطین سے قائد اعظم کے بارے میں سبق لیا ہوگا کہ وہ قرآن نہیں پڑھتے تھے، حالاں کہ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ وہ تواتر سے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا کرتے تھے۔
قرآن کے ساتھ قائداعظم کے گہرے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے ہم مذہبی اسکالروں کی سند بھی لاسکتے ہیں، مگر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں برطانوی نژاد محقق خاتون سلینا کریم سے رجوع کیا جائے، جنھوں نے قائد اعظم پر ایک ضخیم کتابSecular Jinnah And Pakistan: What The Nation Doesn’t Know لکھی ہوئی ہے۔ چودہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے ایک پورے باب کا عنوان ہے: The Quran and Jinnah’s Speeches، یعنی قرآن اور جناح کی تقاریر۔ اس باب میں سلینا کریم صاحبہ نے سات موضوعات پر قائد اعظم کی تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں اور پھر وہ قرآنی آیات درج کی ہیں، جن سے قائد اعظم کے سات بیانات برآمد ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے: Secular Jinnah and Pakistan (ص ۲۳۵ تا ص ۲۵۲ )۔ اس باب کے اختتام پر سلینا کریم اس نتیجے پہ پہنچتی ہیں:
]ترجمہ]یہ مثالیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جناح کس پُرجوش طریقے سے قرآنی اصولوں کی لفظی اور معنوی اعتبار سے پاس داری کرتے تھے۔ وہ خاص طور پر قرآن کے اصول توحید کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔
مسٹر ایاز نے لکھا ہے کہ مغرب کی جن یونی ورسٹیوں سے اقبال اور قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی، ان میں اگر کسی طالب علم کو انجیل کی آیات پڑھنے کے لیے کہا جاتا تو وہاں قہقہہ بلند ہوتا۔ مغرب کے بے خدا، لامذہب، رسالت اور وحی بیزار معاشرے میں ایسا ممکن ہے، لیکن کیا پاکستانی معاشرہ بھی خدا کا انکار کرتے ہوئے، اس کے تذکرے کے لیے استہزا کا راستہ اپناچکا ہے اور مذہب سے لاتعلق ہوچکا ہے؟ رسالت اور وحی کا منکر ہوچکا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، تو پھر اخبارات اور ٹیلی ویژن کے یہ سیکولر اور لبرل عناصر پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کا مذاق کیوں اُڑا رہے ہیں؟
دی نیوز کے غازی صاحب نے قرآن کی تعلیم پر اپنا مذکورہ پیراگراف Believe it or not کے الفاظ سے اس طرح لکھا ہے، جیسے ’ویٹی کن سٹی‘ میں نفاذ اسلام کردیا گیا ہو۔ انھیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں تعلیمی اداروں میں قرآن نہیں تو کیا بائبل اور گیتا پڑھائی جائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پنجاب کی یونی ورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم کے عزم پر غازی صاحب کا رنگ فق ہوگیا ہے؟
آئی اے رحمٰن صاحب نے تو دیدہ دلیری کامظاہرہ کرتےہوئے سرے سے قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ ہی بنادیا۔ پھرموصوف نے کج فہمی کے عالم میں قرآن کی آیت ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ تک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر ڈالا ہے۔ حالانکہ ’دین میں کوئی جبر نہیں‘ کا تعلق اس بات سے ہے کہ اسلام میں کسی غیر مسلم کو جبر کے تحت مشرف بہ اسلام نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن و سنت کی تعلیم کا نظم قائم کرنا جبر نہیں عین رحمت ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے سیکولر طبقے، سیکولر اور لبرل تعلیم کو ’جزا‘ اور قرآن کی تعلیم کو ’سزا‘ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ عناصر سرعام قرآن و سنت کے خلاف صف آرا ہیں، مگر نہ ریاست کو اس بات کی فکر ہے، اور نہ علما نے بڑے پیمانے پر اس کے مضمرات و نتائج پرغور فرمایا ہے۔
گذشتہ شمارے میں ’مقبوضہ جموں و کشمیر میں املاک کی فروخت‘ کے بارے میں محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا فتویٰ شائع ہوا تھا، جس پر سری نگر سے موصولہ برقی خط اور اس کا جواب مطالعے کے لیے دیا جارہا ہے۔(ادارہ)
حضرت مفتی منیب الرحمٰن صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ!
آپ نے ماہ نامہ عالمی ترجمان القرآن ( اپریل ۲۰۲۰ء) میں ایک مظلوم اور محکوم کشمیری بھائی کے استفسار پر، محکم دینی دلائل ، آثار اور شواہد کے ساتھ اسلامیان جموں و کشمیر کو بڑےایمان افروز الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ: وہ خرید وفروخت کا حق رکھنے کے باوجود ، راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ(RSS) کی سفاک حکومت کے فسطائی اقدامات اور اندھی بہری یلغار کو ناکام بنانے کے لیے، اپنی املاک، جایدادیں اور زمینیں، جارح بھارتیوں اور کافروں کو فروخت نہ کریں۔ آپ کی اس دردمندانہ توجہ پر اہل کشمیر آپ کی ایمان پروری کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔
تاہم، اسی پس منظر میں چند امور آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کیونکہ ’استفتاء‘ میں یہاں کی زمینی صورت حال کی پیچیدگی پوری طرح واضح نہیں ہو رہی۔ یہ چیزیں ہمیں شدید اضطراب ، ناقابل بیان دکھ اور منڈلاتے گھمبیر خطرات و خدشات سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ ان مصائب و آلام سے چھٹکارے کے لیے ،جن جن مسلم قوتوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کے لیے آپ دین اسلام اور شعائر اسلام کی روشنی میں کیا لائحہ عمل تجویز فرماتے ہیں؟ اس ضمن میں حسب ذیل نکات پیش خدمت ہیں، جو پیش نظر رہنے چاہییں:
۱- کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پشتینی باشندے ( پنڈت،ڈوگرہ اور سکھ)رہتے ہیں۔جن کی تعداد ۱۹۴۷ء کے بعد کافی حد تک بڑھا دی گئی ہے۔مگر اس کے باوجود ہماری تمام دینی اور سیاسی قیادت یہ برملا مطالبہ کرتی ہے کہ ’’نقل مکانی کرنے والے پنڈت جموںو کشمیر میں واپس آجائیں‘‘۔
۲-صورت حال یہ ہے کہ یہاں کی سرکاری مشینری میں کام کرنے والے افراد کی فی الحال اکثریت انھی لوگوں پر مشتمل ہے ، جو روزی روٹی کماتے ہیں اور مختلف مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ بھارتی تسلط سے بے زاری تو ان مقامی لوگوں کے اندر بھی کم و بیش اسی شدت سے موجود ہے ،لیکن نہ چاہنے کے باوجود وہ کام تو بھارتی مشینری ہی کے اہداف کی تکمیل اور تقویت کے لیے کرتے ہیں۔
۳- جس طرح سوئی کی مثال دے کر آپ نے ضمیروں کو جھنجوڑا ہے، اور بھارتی مقتدرہ قوتوں سے کسی بھی سطح کی معاونت کی نفی اور حوصلہ شکنی فرمائی ہے، وہ حد درجہ لائق تحسین ہے ۔لیکن سوئی تو دُور کی بات ہے، یہاں پر اس وقت ہربرادری کے لوگوں کی ایک مخصوص تعداد فوج، نیم فوج اور مقامی پولیس میں کام کر رہی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو بھارت کے سیاسی اور صحافتی خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔ اگر اس پہلو سے ان کی پوزیشن کا بھی بکمال و تمام فتوے میں تذکرہ آجائے تو کم سے کم دینی مسئلے کے طور پر ایک مکالمہ شروع ہوجائے۔
۴-زمین نہ بیچنے کا مطلب تو ایک طرح سے سول نافرمانی ہے۔ اس صورتِ حال میں پسی، کچلی اور بے بس آبادی کی طرف سے سول نافرمانی کس طرح نتیجہ خیز ہو سکے گی؟ جب کہ ہمیں چاروں طرف سے مقید کیا گیا ہے اور ہمارے تمام وسائل کو بھارت اپنی وحشیانہ قوت سے اُوپر تلے روندے چلے جا رہا ہے، اور دوسری طرف عظیم الشان مسلم ریاستوں کے عیش پرست اور آخرت کی جواب دہی سے بے نیاز حکمران ،ان سفاک قاتلوں اور وحشیوں کی ناز برداریاں کر رہے ہیں۔
۵-یہاں مقبوضہ کشمیر میں تو ہزاروں ایکڑ زمینیں، جنگلات، آبی وسائل اور پہاڑ وغیرہ انھی برہمن نسل پرست حاکموں کے قاہرانہ قبضے میں ہیں ،جن کو وہ کسی بھی بزنس مین اور نام نہاد کارپوریشنوں کے نام منتقل کر سکتے ہیں۔ سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ریاستی اسمبلی میں بیان کے مطابق: اس وقت تک ۴لاکھ۳۰ ہزار ۹ سو۲۷ کنال زمین تو پہلے ہی سے دہلی کے قابض حکمرانوں نے سراسر غیرقانونی طور پر، اپنے فوجیوں، نیم فوجیوں اور سرکاری اہل کاروں کے حوالے کر دی ہے۔ یہ زمین یہاں کی کسی کٹھ پتلی حکومت نے نہیں دی بلکہ دہلی حکومت نے زور زبردستی سے غیر مقامیوں کو دی ہے۔اس وسیع پیمانے کی بندر بانٹ اور لُوٹ مار کے مقابلے میں میرا اور چند کنال رکھنے والے معمولی معاشی حیثیت کے مالک کسی مقامی مسلمان کا زمین یا جایداد غیر مقامیوں کو فروخت نہ کر نا ، فتوے میں بیان کردہ غرض و غایت کے تقاضوں کو کہاں تک برقرار رکھ سکتا ہے؟
۶- پھر اگر دہلی کی فاشسٹ حکومت ، مسلمانوں کی املاک کو ضبط کر لے ، جیسا کہ عملی طور کیا جارہا ہے تو اس صورت میں ہم کیا کریں؟
۷- یہاں پر’ہندوؤں کو زمین نہ فروخت کرنے‘ کا مطلب بہت سادہ الفاظ میں نہیں لیا جائے گا، اس کے اثرات بھارت میں مسلمانوں پر بھی پڑسکتے ہیں۔ اس لیے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کی بھارتی نو آبادیاتی بدمعاشی کو بھانپتے ہوئے، بزرگ حُریت قائد سیّد علی شاہ گیلانی صاحب نے جموں و کشمیر میں رہنے والوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ’’غیر مقامیوں اور ریاست کے باہر سے آنے والوں کو اپنی جایدادیں فروخت نہ کریں‘‘۔ یہ جملہ معاملے کی نزاکت ظاہر کرتا ہے۔
۸- درحقیقت میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بھارتی سامراجیوں کی ان سفاکیوں، دھاندلیوں اور انسانیت سوز خباثتوں کے خلاف پنجہ آزمائی کے کہیں زیادہ مؤثر میدان اب وادیِ کشمیر یا سری نگر کے بجاے دنیا بھر کے دارالحکومت ہیں، سوشل میڈیا کی نظر نہ آنے والی شاہراہیں اور عالمی اداروں و ذرائع ابلاغ کے ایوان ہیں۔ وہاں پر یہ جنگ ، ہم اکیلے پسے، کچلے، مجبور، تباہ حال اور قیدی نہیں لڑ سکتے (تاہم، جو اور جس قدر لڑ رہے ہیں، اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی)۔ اس مقابلے کی ذمہ داری دنیا بھر کی مسلم حکومتوں، تنظیموں اور انفرادی طور پر مسلمانوں پر آتی ہے۔ خدا کے لیے ان ضمیروں کو بھی جھنجوڑئیے۔ ہماری التجا ہے کہ پاکستان کے سفارت خانوں اور حکومتوں کوتازیانے مارئیے کہ یہاں برہمنی نسل پرستی سیلاب کی طرح امڈی چلی آرہی ہے___ ہے کوئی بندباندھنے والا؟
۹-جو مسلمان تنظیمیں،مسلمان حکومتیں، ادارے اور موثر افراد اس تناظر میں خاموشی سے ہمارے کچلے جانے کا تماشا دیکھنے میں مگن ہیں، براہ کرم ان کی غیرتِ ایمانی اور مقامِ مسلمانی کو جھنجھوڑنے کے لیے قرآن و سنت کے احکامات یاد دلائیے۔
محترم مفتی صاحب، مسلم امت جسد واحد ہے، ہمارے اس دکھ درد کی گہری ٹیسیں کب اور کس طرح عصر حاضر کےمسلمان کی روحوں کو تڑپائیں گی اور انھیں عمل پر اُبھاریں گی؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبر کاتہ
ظفر خالد،سری نگر
m
محترم جناب ظفر خالد صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں نے مقبوضہ کشمیر میں موجود افراد واشخاص کے حوالے سے فتویٰ دیا تھاکہ وہ لالچ میں آکر اپنی زمینیں ہندوؤں کے ہاتھ فروخت نہ کریں۔یہ دو اشخاص کے درمیان بیع وشراء کے معاملات سے متعلق تھا۔آپ نے مقبوضہ کشمیر کا پورا منظرنامہ (Scenario) پیش کیا ہے، یہ ایک پیچیدہ اور گھمبیر مسئلہ ہے۔یہی مسئلہ تحریکِ آزادیِ فلسطین ’ الفتح‘کو درپیش تھا۔ ان کا موقف بھی یہی تھاکہ بلا امتیازِ مذہب، خواہ وہ مسلمان ہوں ،یہود ہوں یا مسیحی، فلسطین اُس کے اصل باشندوں کا وطن ہے۔ اس طرح یہ آزادیِ وطن کی ایک سیکولر تحریک بن جاتی ہے ،اگرچہ اصل اہلِ فلسطین میں بھی تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے اورپورے جموں وکشمیر میں حتیٰ کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی تاحال مسلمانوں کی آبادی غالب ترین ہے اور ظاہر ہے کہ اگر اللہ کی تقدیراور غیبی مدد سے استصوابِ راے (Plebiscite)کی منزل آجائے، تو یہ حق پورے جموں وکشمیر کے باشندوں کو دیا جائے گا،اور اس کے نتیجے کے بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
آپ کا یہ بیان درست ہے کہ جموں وکشمیر میں مسلمان اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو پنڈت، ڈوگرہ اور سکھ باشندے بھی تھے، جن میں سے بعض پنڈت ترکِ وطن کر کے ہندستان چلے گئے۔لیکن یہ حقیقت آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب استصوابِ راے کی منزل آئے گی تو استصوابِ راے مقبوضہ اور آزادجموں وکشمیر میں ایک ساتھ کرایا جائے گااور آرایس ایس اور مودی سرکار کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود ان شاء اللہ مسلمانوں کو واضح اکثریت حاصل رہے گی۔
مکالمے میں تمام امکانات ،جن میں سے بعض ہماری نظر میں ناپسندیدہ قرار پاسکتے ہیں، لیکن دشمن پر اپنے موقف کی معقولیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اُن کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے ،کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر پر حکمرانی اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اُس کے اصل باشندوں کو حاصل ہے،اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ قراردادوں کی روشنی میں بھارت سمیت پوری دنیا اس میثاق کی پابند ہے، تو اپنے موقف کو قوت بخشنے کے لیے یہ کہاجاتا ہوگا کہ اصل کشمیری باشندے اگر کسی بھی وجہ سے ترکِ وطن کر کے چلے گئے ہیں، تو اُن کے حق کو ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آئیں! جموں وکشمیر میں رہایش اختیار کریں اور پھر وہ ووٹ دینے کے حق دار ہوں گے، البتہ بھارت میں رہتے ہوئے اُن کا یہ استحقاق نہیں بنتا۔
بھارتی حکومت اور اُن کی مسلّح افواج کی حیثیت ناجائز قابضین کی ہے، لہٰذا اگر انھوں نے جبراً بعض زمینوں پر قبضہ کیا ہے ، تو یہ ایک بالفعل (De facto)عارضی پوزیشن ہے۔یہ کسی بھی صورت میں بالحق، یعنی دستوری اورقانونی (De jure)طور پرتسلیم نہیں کی جاسکتی،کیونکہ جابرانہ اور غاصبانہ قبضہ کسی چیز کی حقیقی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
’زمین نہ بیچنے‘ کا مطلب کسی بھی صورت میں سول نافرمانی نہیں ہے، کیونکہ اپنی ملکیتی چیز کو اپنی آزادانہ مرضی سے فروخت کرنا یا نہ کرنا، یہ ہر فرد کا دستوری اور آئینی حق ہے، اور قانونِ بین الاقوام بھی اسے تسلیم کرتا ہے ،لہٰذا ہمیں اپنے حق پر ہمیشہ اصرار کرتے رہنا چاہیے۔
آزادیِ وطن کے لیے ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی طویل جِدّوجُہد، عزیمت اور استقامت کو سلام کرتے ہیں کہ وہ ایک طاقت ور ظالم وجابر طاقت کے سامنے کوہِ استقامت بن کر کھڑے ہیںاور اپنے فطری ،دستوری ،شرعی اور قانونی حق کو نہ ترک کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ اُس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اورتقریباً ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی اور ملّی بے حمیّتی کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً انھیں جھنجھوڑ تے رہتے ہیں کہ شاید کبھی اُن کی دینی وملّی حمیّت کا جذبہ بیدار ہوجائے، اور وہ مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے نتیجہ خیز سیاسی ،سفارتی اور اقتصادی اقدامات کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵ۭ (النسآء:۷۵)اور(اے مسلمانو!)تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے، حالانکہ بعض (بے بس اور)کمزورمرد ،عورتیں اور بچے دعا کررہے ہیں :اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی کارساز بنادے اورکسی کو ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(۱) تَرَى المُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، كَمَثَلِ الجَسَدِ، إِذَا اشْتَكٰی عُضْوًا تَدَاعٰى لَهٗ سَائِرُ جَسَدِهٖ بِالسَّهَرِ وَالحُمّٰى (صحیح بخاری:۶۰۱۱)تُو مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے ،باہم محبت کرنے اورایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی مانند پائے گا کہ جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(۲) اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيْهٖ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهٖ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘(صحیح بخاری:۲۴۴۲)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہےاورجو اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیفوں میں سے کسی تکلیف کو دور فرمائے گا اور جو مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج (البقرہ:۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘۔
سو ،فرد ہویا جماعت ، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کے مکلَّف ہیں کہ اپنی بساط کے مطابق باطل کا مقابلہ کریں۔صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کی عزیمت کی بعض مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہرایک اپنی ہمت کے مطابق باطل کا مقابلہ کرنے کا پابند اور جواب دہ ہے۔
میں قارئین سے التجا کرتا ہوں کہ وہ سورۂ بقرہ کی آخری آیت : لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۭ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۰ۭ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا۰ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَـمَا حَمَلْتَہٗ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا۰ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۰ۚ وَاعْفُ عَنَّا۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا۰۪ وَارْحَمْنَا۰۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۸۶ۧ کو ہمیشہ اس کی پوری معنویت کے ساتھ اپنے قلب وذہن میں جذب کر کے دعا کرتے رہا کریں،یقیناً اللہ تعالیٰ کی نصرت شاملِ حال ہوگی۔
مسلم حکومتوں سے توقعات باندھنا خوش فہمی کہی جاسکتی ہے۔جوکام عالمی سطح پر کیا جاسکتا ہے ،وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایسی تنظیمیں جن کا نیٹ ورک مغربی دنیا اور عالَمِ عرب میں ہے، وہ ایک فنڈ قائم کریں اورپھر مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں تک رسائی حاصل کریں ، وہاں سیمی نار منعقد کریں ،مقبوضہ جموں وکشمیر کے احوال کے بارے میں ایک مختصر اور مؤثر دستاویزی فلم بنائیں، جس کے ذریعے بریفنگ دی جاسکے اور وہ دیکھنے والوں کو حقیقت کے قریب تر محسوس ہو، صرف مبالغہ آرائی پر مبنی باتیں نہ ہوں۔ انسانی حقوق کے پہلوؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔ امریکا میں انتخابی سال ہے، وہاں کانگریس کے اراکین کے ساتھ اور انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ سیمی نار منعقد کریں، اور یہ بھی کوشش کریں کہ حقائق کو معلوم کرنے والا ایک آزاد( Facts-finding mission) مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے ، نیز Doctors Beyond Bordersاور Journalists Beyond Bordersتنظیموں کو متحرک کریں اور ان کے وفود کو مقبوضہ کشمیر جانے کے لیے اسپانسرکریں۔اس طرح یہ مسئلہ زندہ رہے گا، نیز مغرب کےاُن مذہبی رہنماؤں کے ساتھ جواپنے حلقوں میں مستند ومعتبر اور قابلِ احترام مانے جاتے ہوں، تعامُل (Interaction)کے راستے نکالیں،اس طرح اس مسئلے میں انسانی بنیادوں پرجان پڑسکتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ!
۱۵؍اپریل۲۰۲۰ء مفتی منیب الرحمٰن
رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ کراچی
استفتاء: بھارت نے اپنے دستوری میثاق، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور قانونِ بین الاقوام کی نفی کرتے ہوئے، ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی دستور کے آرٹیکل ۳۵-اے اور ۳۷۰ میں ترمیم کرکے اپنے تئیں مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ اس طرح ریاست سے باہر پورے بھارت کے باشندوں پر عائد اس پابندی کو ختم کردیا کہ جس کے تحت وہ ریاست جموں و کشمیر میں ڈومیسائل بنانے، ملازمت حاصل کرنے اور جائداد خریدنے کی اجازت نہیں رکھتے تھے۔ اس کا واضح مقصد ریاست جموں و کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو مصنوعی طریقے سے اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ ایسے میں کیا ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بھارتی قابض حکمرانوں کے ان مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے بھارتی ہندوؤں کے ہاتھ اپنی جائدادوں کو فروخت کریں، نیز اسلام، غیر مسلموں کے ساتھ کس حد تک معاملات و مدارات کی اجازت دیتا ہے؟
﷽
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب
عام حالات میں مرتدین کے برعکس یہود ونصاریٰ اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ خرید و فروخت اور دیگرمالی معاملات کرنا شرعاً درست ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا ور صحابہ کرامؓ کا یہودیوں کے ساتھ لین دین ثابت ہے، چنانچہ وہ مدینہ طیبہ کے یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت، قرض اور رہن وغیرہ سمیت تمام جائز معاملات کرتے تھے۔امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں باب کا عنوان قائم فرمایا ہے: ’’بَابُ الشِّـرَاءِ وَالبَيْعِ مَعَ المُشْـرِكِينَ وَأَهْلِ الحَرْبِ‘‘،یہ باب مشرکوں اور اہل حرب سے خریدو فروخت کے بیان میں ہے۔اس باب کے تحت امام بخاریؒ نے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے:
عبدالرحمٰن بن ابو بکرؓ بیان کرتے ہیں :
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوْقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ: أَمْ هِبَةً، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرٰى مِنْهُ شَاۃً ، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک لمبا چوڑامشرک بکریاں ہنکاتا ہوا آیا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فروخت کے لیےہیں یا عطیہ دینے کے لیےیا فرمایا: بطور تحفہ دینے کےلیے؟ اس نے جواب دیا: فروخت کے لیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی‘‘(صحیح البخاری :۲۲۱۶ )۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:
اِشْتَرٰى رَسُوْلُ اللَّهِ مِنْ يَهُوْدِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيْئَةٍ وَرَهَنَهٗ دِرْعَهٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ایک یہودی سے اُدھار اناج خریدا اور اُس کے پاس اپنی زرہ رہن کے طور پر رکھوائی‘‘(صحیح البخاری: ۲۰۹۶)۔
علامہ قسطلانی شافعیؒ فرماتے ہیں:
فِيْهِ جَوَازُ بَيْعِ الْكَافِرِ وَإِثْبَاتُ مِلْكِهٖ عَلٰى مَا فِيْ يَدِهٖ وَجَوَازُ قُبُوْلِ الْهَدْيَةِ مِنْهُ، اس حدیث میں کافر سے خریدوفروخت کے جوازکا بیان ہے اور یہ کہ جو چیزاُس کے قبضے میں ہو،اُس میں اُس کی ملکیت ثابت ہے، نیز کافرسےتحفہ قبول کرنے کے جواز کا بیان ہے‘‘(ارشاد الساری،ج ۴،ص۱۰۱)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ مزارعت کا معاملہ فرمایا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:
قَامَ عُمَرُ خَطِيْبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ كَانَ عَامَلَ يَهُوْدَ خَيْبَرَ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ، حضرت عمرؓ ایک دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ اُن کے اموال پر معاملہ فرمایا تھا(صحیح البخاری :۲۷۳۰)۔
البتہ مخصوص حالات میں اہلِ علم کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ یہود وہنود اور دیگر کافروں کے ساتھ کوئی بھی ایسا معاملہ اور کسی بھی ایسی چیز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، جو اسلامی مملکت اور اہلِ اسلام کے لیے فی الحال یا مستقبل قریب وبعید میں کسی بھی طرح ضرر ونقصان کا باعث ہو،حتیٰ کہ اگر اُن کے ہاتھ سوئی جیسی معمولی چیز فروخت کرنے میں مسلمانوں کا نقصان ہو تو یہ بھی اُنھیں فروخت نہیں کی جائے گی۔یہ گناہ اور سرکشی کے کاموں میں اُن سے تعاون کرنا ہے۔
کشمیر کی سرزمین دارالاسلام ہے ،جہاں صدیوں سے ہی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کی ’بھارتی آئین‘ کا میثاق اس بات کا بیّن ثبوت ہے، اور اب اس پر خط تنسیخ پھیرنا خود ہندستان کے قومی میثاق کی نفی اور جموں و کشمیر کی وحدت کی تحلیل کرنے کی پہلی اینٹ ہے۔
یہ دستوری توثیقات اس بات کی شاہد ہیں کہ جموں وکشمیر ریاست، ہندستان کاحصہ نہیں ہے،بلکہ بھارت کا مقبوضہ علاقہ ہےاور اقوامِ متحدہ نے۱۹۴۸ء سے اپنی قراردادوں میں اِسے متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے ہی ہندستانی حکومت اس علاقے پر قابض ہےاور تقریباً تہتّربرسوں سے مسلمانوں کی اکثریت کے خاتمے کےلیےاُن پرہر طرح کا ظلم وتشددروا رکھے ہوئے ہے اوران کے حقوق غصب کرتی آئی ہے۔اب اُنھوں نے ایک نیا حربہ اختیار کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے،تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے وہاں ہندوؤں کی آباد کاری کاسلسلہ عمل میں لایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے اہلِ کشمیر کو ڈرا دھمکاکر اور حیلے بہانوں کےذریعے اپنی مملوکہ زمینیں فروخت کرنے یا کرائے پر دینے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ از روے شریعت ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی زمینیں اورغیر منقولہ جائداد ہندوؤں کو فروخت کریں،کیونکہ یہ مسلمانوںکوکمزور کرنے، اسلام اور اسلام دشمن قوتوں کی مدد واعانت اوران کی تقویت کا سبب ہے ، جوکہ از روے شریعت ممنوع ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ:۲)گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو۔
علامہ ابن کثیرؒ نے تفسیر میں معجم کبیر کے حوالے سے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے:
مَنْ مَشٰى مَعَ ظَالِمٍ لِيُعِيْنَهٗ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهٗ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ،جو شخص کسی ظالم کے ہمراہ اُس کی اعانت کے لیےیہ جانتے ہوئے چلا کہ وہ ظالم ہے،تو وہ اسلام سے نکل گیا(تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص۱۱)۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَعَانَ عَلٰى قَتْلِ مُوْمِنٍ وَلَوْ بِشَطْرِ كَلِمَةٍ، لَقِيَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ مَكْتُوْبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ،جس شخص نے کسی مؤمن کے قتل پراعانت کی ،خواہ ایک کلمہ ہی کیوں نہ کہا ہو،تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے مایوس ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ:۲۶۲۰) ۔
علامہ علاءالدین حصکفیؒ لکھتے ہیں:
يَحْرُمُ أَنْ نَبِيْعَ مِنْهُمْ مَا فِيْهِ تَقْوِيَتُهُمْ عَلَى الْحَرْبِ كَحَدِيْدٍ وَعَبِيْدٍ وَخَيْلٍ وَلَا نَحْمِلُهٗ اِلَيْهِمْ وَلَوْ بَعْدَ صُلْحٍ ، لِاَنَّهٗ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ نَهٰى عَنْ ذٰلِكَ، ہمارے لیے اہلِ حرب کےہاتھ کسی ایسی چیز کوفروخت کرناحرام ہے، جواُنھیں جنگ میں قوت پہنچانے کا ذریعہ بنے،مثلاً:لوہا،غلام اور گھوڑے۔ اورہم ان چیزوں کوفروخت کرنے کے لیے دارالحرب بھی لے کر نہیں جائیں گے ،خواہ صلح کے بعد ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے،(رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار، ج۴، ص ۱۳۴)۔
یہ تمام سامانِ حرب دشمن کے لیے حالات کو سازگار بنانے کا استعارہ ہیں۔ اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:
أَرَادَ بِهِ التَّمْلِيْكَ بِوَجْهٍ كَالْهِبَةِ ،بَلِ الظَّاهِرُ أَنَّ الْإِيْجَارَ وَالْإِعَارَةَ كَذٰلِكَ،لِاَنَّ الْعِلَّةَ مَنْعُ مَا فِيْهِ تَقْوِيَةٌ عَلٰى قِتَالِنَا،قَوْلُهٗ :كَحَدِيْدٍ وَسِلَاحٍ مِمَّا اُسْتُعْمِلَ لِلْحَرْبِ، وَلَوْ صَغِيْرًا كَالْإِبْرَةِ، وَكَذَا مَا فِي حُكْمِهٖ مِنَ الْحَرِيْرِ وَالدِّيْبَاجِ ،فَإِنَّ تَمْلِيْكَهٗ مَكْرُوْهٌ، لِاَنَّهٗ يُصْنَعُ مِنْهُ الرَّايَةُ، علامہ حصکفی کی مراد یہ ہے کہ کفار کو کسی بھی طرح ایسی اشیا کا مالک بنانا جائز نہیں ہے ،جس سے اُنھیں قوت وطاقت حاصل ہو، خواہ مالک بنانا خرید وفروخت کے ذریعے ہو یا تحفہ کے ذریعے،بلکہ ظاہر بات یہ ہے کہ اُنھیں اس قسم کی اشیا کرائے اور عاریت کے طور پر دینا بھی جائز نہیں ہے،کیونکہ ممانعت کی علت اُن سےاس چیز کو روکنا ہے، جس کے ذریعے اُنھیں ہم مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں قوت حاصل ہو ،مثلاً : لوہا ، ہتھیار وغیرہ ایسی چیزیں جو جنگ میں استعمال کی جاتی ہیں،خواہ وہ انتہائی معمولی ہوں، جیسے:سوئی۔اسی طرح اس کے حکم میں ہے،مثلاً ریشم ودیباج کا مالک بنانا بھی مکروہ ہے ،کیونکہ اس سے جھنڈا بنایا جاتا ہے(رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار،ج۴، ص ۱۳۴)۔ مزیدلکھتے ہیں:
الذِّمِّيُّ إذَا اشْتَرٰى دَارًا أَيْ أَرَادَ شِرَاءَهَا فِي الْمِصْرِ لَا يَنْبَغِي أَنْ تُبَاعَ مِنْهٗ ،فَلَوْ اِشْتَرٰى يُجْبَرُ عَلٰى بَيْعِهَا مِنَ الْمُسْلِمِ ، اگرذمی شخص (جومسلمانوں)کے شہر میں زمین خریدنے کا ارادہ کرے، تو اُسے زمین فروخت نہیں کرنا چاہیے۔پس، اگر اس نے زمین خرید لی تو اُسے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس زمین کو مسلمان کے ہاتھ فروخت کرے (ایضاً،ج۴، ص ۲۰۹)۔ نیز لکھتے ہیں:
وَإِذَا تَكَارٰى أَهْلُ الذِّمَّةِ دُوْرًا فِيمَا بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهَا فِي الْمِصْرِ ،جَازَ لِعَوْدِ نَفْعِهٖ إلَيْنَا وَلِيَرَوْا تَعَامُلَنَا فَيُسْلِمُوْا بِشَرْطِ عَدَمِ تَقْلِيْلِ الْجَمَاعَاتِ لِسُكْنَاهُمْ شَرَطَهُ الْإِمَامُ الْحُلْوَانِيُّ ،فَإِنْ لَزِمَ ذٰلِكَ مِنْ سُكْنَاهُمْ أُمِرُوْا بِالْاِعْتِزَالِ عَنْهُمْ وَالسُّكْنٰى بِنَاحِيَةٍ لَيْسَ فِيْهَا مُسْلِمُوْنَ وَهُوَ مَحْفُوْظٌ عَنْ أَبِي يُوْسُفَ،اور اگر اہلِ ذمہ، مسلمانوں کی بستیوں میں گھروں کو کرائے پر لیناچاہیں تو جائز ہے،کیونکہ ایک تو اس کا ہمیں نفع پہنچے گا، اوردوسری بات یہ ہے کہ وہ ہمارے معاملات کو دیکھ کر مسلمان ہوجائیں گے ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اُن کے رہایش پذیر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد قلیل نہ ہو ،امام حلوانی ؒنے اس کی شرط لگائی ہے۔پس! اگر اُنھیں رہایش دینے سے مسلمانوں کی تعداد کا قلیل ہونا لازم آتا ہو تو مسلمانوں سے علیحدگی کا حکم دیا جائے گا، اور وہ کسی ایسے کنارے میں رہیں گے، جہاں مسلمان نہ ہوں، یہ قول امام ابویوسفؒ سے محفوظ ہے، (رَدُّالْمُحْتَارِعَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار، ج۴، ص ۲۱۰)۔
امام ابویوسفؒ چونکہ قاضی القضاۃ رہے ہیں، اس لیے انھیں ان عملی حکمتوں اور تدابیر کا تجربہ ہے، جو مسلمانوں کی تدبیر اجتماعی اور تمدنی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں:
لَا نَقُوْلُ بِالْمَنْعِ مُطْلَقًا وَلَا بِعَدَمِهٖ مُطْلَقًا بَلْ يَدُوْرُ الْحُكْمُ عَلَى الْقِلَّةِ وَالْكَثْرَةِ وَالضَّرَرِ وَالْمَنْفَعَۃِ،کفار کے ہاتھوں زمین فروخت کرنا یا اُنھیں زمین کرائے پر دینے کو نہ تو ہم مطلقاً منع کرتے ہیں اور نہ اِسے مطلقاً جائز قرار دیتے ہیں،بلکہ حکم کا مدار مسلمانوں کی قلت وکثرت اور ضررومنفعت پر ہے،(ایضاً، ج۴، ص ۲۱۰)۔
علامہ ابن بطال مالکیؒ لکھتے ہیں:
الشِّـرَاءُ وَالْبَيْعُ مِنَ الْكُفَّارِ كُلُّهُمْ جَائِزٌ، إِلَّا أَنَّ أَهْلَ الْحَرْبِ لَا يُبَاعُ مِنْهُمْ مَا يَسْتَعِيْنُوْنَ بِهٖ عَلٰی إِهْلَاكِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنَ الْعِدَّةِ وَالسَّلَاحِ، وَلَا مَا يُقَوُّوْنَ بِهٖ عَلَيْهِمْ،کفار کے ساتھ خریدوفروخت کے حوالے سے تمام معاملات جائز ہیں، لیکن ایسی کوئی چیز فروخت کرنی جائز نہیں ،جو اہل حرب مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں اور اس سے مسلمانوں کے خلاف انھیں مدد اور قوت وطاقت حاصل ہو،(شَرْحُ صَحِیْحِ الْبُخَارِیْ لِاِبْنِ الْبَطَّال، ج۶ ،ص۳۳۸)۔
امام شاطبیؒ فرماتے ہیں:
أَنَّ بَيْعَ الشَّمْعِ لَهُمْ مَمْنُوعٌ اِذَا كَانُوْا يَسْتَعِيْنُونَ بِهٖ عَلٰى إِضْرَارِ الْمُسْلِمِينَ،کفار کو شمع فروخت کرنا (بھی)ممنوع ہے،جب کہ اس کے ذریعے اُنھیں مسلمانوں کو ضرر پہنچانے میں مدد حاصل ہوتی ہو (حَاشِیَہْ دَسُوْقِیْ عَلَی الشَّرْحِ الْکَبِیْر، ج۳، ص۷)۔
مسلّمہ شافعی محدّث امام یحییٰ بن شرف الدین نوَوِی ؒلکھتے ہیں:
وَأَمَّا بَيْعُ السِّلَاحِ لِاَهْلِ الْحَرْبِ فَحَرَامٌ بِالْإِجْمَاعِ، اہل حرب کوہتھیار فروخت کرنا بالاجماع حرام ہے(اَلْمَجْمُوْعُ شَرْحُ الْمُہَذَّبْ،ج۹،ص۳۵۴)۔
علامہ ابن حزم اَندَلُسی ظاہریؒ لکھتے ہیں:
وَالْبَيْعُ مِنْهُمْ جَائِزٌ إلَّا مَا يَتَقَوَّوْنَ بِهٖ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ دَوَابَّ أَوْ سِلَاحٍ أَوْ حَدِيْدٍ أَوْ غَيْرِ ذٰلِكَ، فَلَا يَحِلُّ بَيْعُ شَيْءٍ مِنْ ذٰلِكَ مِنْهُمْ أَصْلًا،قَالَ تَعَالٰى: وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ، فَتَقْوِيَتُهُمْ بِالْبَيْعِ وَغَيْرِهٖ مِـمَّا يَقْوَوْنَ بِهٖ عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ حَرَامٌ، وَيُنَكَّلُ مَنْ فَعَلَ ذٰلِكَ، وَيُبَالَغُ فِي طُولِ حَبْسِهِ،کفار کے ساتھ خریدو فرخت جائز ہے،مگر ایسی اشیا کی خرید وفروخت جائز نہیں جس کے ذریعے اُنھیں مسلمانوں پرتقویت حاصل ہو ، مثلاً اُنھیں چوپائے،ہتھیار ،لوہاوغیرہ فروخت کرنا ،پس ان میں سے کوئی چیز اُن کے ہاتھ فروخت کرنا اصلاً جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو‘‘،پس اُنھیں خرید و فروخت و دیگر ذرائع سےتقویت پہنچانا کہ اُنھیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائےحرام ہے، ایسے شخص کو عبرت ناک سزا دی جائے گی اور لمبے عرصے تک قید میں رکھا جائے گا،(اَلْمُحَلّٰی بِالْآثَار،ج۷، ص۵۷۴)۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَنْ يَّجْعَلَ اللہُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا۱۴۱ۧ (النسآء:۱۴۱)’اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی سبیل ہرگزروا نہیں رکھی۔
الغرض، پُرامن حالات میں مسلمان، غیر مسلموں کے ساتھ مدارات اور مواسات کا برتاؤ کرسکتے ہیں۔ مدارات سے مرادحسن سلوک ہے، تاکہ ان کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہو، جسے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تالیفِ قلب سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ مواسات سے مراد انسانی بنیادوں پر غیر مسلم کے ساتھ ہمدردی اور غم گساری کا برتاؤ کرنا، مثلاً: بھوکے کو کھانا کھلانا، بیمار کی عیادت کرنا، اس نیت کے ساتھ اس کی صحت کی دعا کرنا کہ شاید مہلت اس کے حق میں مفید ثابت ہو اور اسے ایمان کی توفیق نصیب ہوجائے۔
صحیح مسلم(۲۵۶۹) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ناداروں کی بھوک، بیماری اور بے لباسی کو بالترتیب اپنی بھوک، بیماری اور جامہ پوشی سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ تاکید کا انتہائی درجہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس حُسن سلوک کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے، مثلاً: البقرہ:۱۸۴، المائدہ:۹۵، بنی اسرائیل :۲۶، الروم :۳۸، المجادلہ:۴، الحاقۃ:۳۴، الدھر:۸، الفجر:۱۸، البلد:۱۶ وغیرہا من الآیات۔ اسی طرح قرآن کریم نے سورۃ المائدہ (۳۲) میں جہاں ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل اور بے قصور انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے سے تعبیر فرمایا ہے، وہاں نفسِ مومن کی بات نہیں کی بلکہ مطلق نفس (انسانی جان) کی بات کی ہے۔
اسلام نے کافروں اور مشرکوںکے ساتھ ’مداہنت‘ سے منع فرمایا ہے۔ ’مداہنت‘ کے معنی ہیں: دین کے معاملے میں بے جا رعایت کرنا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۹ (القلم: ۸-۹) آپ حق کو جھٹلانے والوں کا کہانہ مانیں، وہ چاہتے ہیں کہ آپ(دین کے معاملے میں)اُن کو بے جا رعایت دیں تاکہ وہ بھی (جواباً)کچھ رعایت دے دیں ۔
کفارومشرکین کے ساتھ دین کے معاملے میں سودا بازی (Bargaining)یا’کچھ لو اور دو‘ (Give & Take)اور مفاہمت (Compromise)کی کوئی گنجایش نہیں ہے، اس مضمون کے تفہـُّم (understanding)کے لیے سورۃ الکافرون کا ترجمہ مع تفسیر مفید رہے گا۔
اسی طرح اسلام نے کفار ومشرکین کے ساتھ قلبی دوستی کی اجازت نہیں دی، اللہ نے فرمایا ہے:
۱- يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۵۱ (المائدہ:۵۱) اے مومنو!یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گاتو وہ (درحقیقت) انھی میں سے (شمار )ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
۲- وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ(ھود:۱۱۳) اور ظالموں کی طرف (قلبی )میلان نہ رکھو،مباداتمھیں (جہنم کی) آگ چھوئے۔
۳- يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ۰ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللہِ رَبِّكُمْ۰ۭ (الممتحنہ:۱)اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا ڈول ڈالتے ہو، حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے، وہ اس کا انکار کرچکے ہیں، وہ رسول کو اور تمھیں (محض) اس سبب سے بے وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو۔
۴- لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ(المجادلہ :۲۲)آپ ایسی قوم نہیں پاؤ گے جو (ایک جانب) اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں (اور دوسری جانب) اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے رشتے دار ہوں۔
۵- لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۰ۚ (المائدہ: ۸۲)آپ مومنوں کے ساتھ شدید ترین عداوت رکھنے والا یہود اور مشرکوں کو پائیں گے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں پر، مقبوضہ جموں وکشمیر اور اب ہندستان بھر کے مسلمانوں کی تائید و حمایت لازم ہے، کیونکہ صدیوں سے نسل درنسل رہنے والے ان مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے ، ان کی جان ومال اور آبرو کی حرمتوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں ہم ماسواے مقبوضہ جموں وکشمیر ، باقی ماندہ ہندستان کے مسلمانوں کی تحدیدات (limitations) اور مجبوریوں کو سمجھتے ہیں، ہمیں ان کے دکھوں ،ذہنی ،جسمانی اور روحانی اذیتوں کا ادراک ہے، لیکن آسام وکشمیری مسلمانوں کے حوالے سے بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے جو بیانات سامنے آئے ہیں، کاش کہ وہ نہ آتے۔ بلاشبہہ وطن کی محبت ایک فطری امر ہے، لیکن وطن معبود نہیں ہے۔ اگر وطن معبود ہوتا تو تاریخِ انبیاے کرام میں ہجرت کا کوئی باب نہ ہوتا۔ بطورِ خاص، سیرت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم میں ہجرت بھی ہے، پھر ’فتحِ مبین‘ ہے۔ جدید انسانی تاریخ میں سوویت یونین کا زوال اور پھر تحلیل ہونا اس کی روشن مثال ہے۔ ہندستان سابق کمیونسٹ سلطنت سوویت یونین سے زیادہ طاقت ور ملک نہیں ہے۔ حقِ وطن کو عصرحاضر کے اجتماعی ضمیر نے انسانیت کے عقل عام (Common Sense) اور اجتماعی دانش (Collective wisdom)نے بھی تسلیم کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور جِدُّو جُہدِ آزادی میں فرق روا رکھا گیا ہے۔
بھارت کے نئے قانون شہریت نے تنگ نظر نسل پرستی کے علَم بردار نریندرا مودی کی بھارتی حکومت کی انسانیت دشمنی کو پوری دنیا پر واضح کردیا ہے ۔مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کا بالخصوص مقبوضہ جموں وکشمیر، فلسطین اور بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے، اور عالمِ عرب کا سکوت و لا تعلقی جس طرح ایک مجرمانہ فعل ہے، اسی طرح کسی دوسرے مسلم ملک پر ملت کفر کی یلغار میں ممد ومعاون بننا اس سے بھی کہیں زیادہ بدتر فعل ہے۔ یہ اس حدیث نبویؐ سے صریح بغاوت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ (خود) اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ (اغیار کے مظالم کا نشانہ بننے کے لیے ) اسے بے سہارا چھوڑتا ہے‘‘ (صحیح البخاری: ۶۹۵۱)۔
جب ہم کسی خاص تناظر میں شریعت کا کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں، تو فسادی لوگ اُسے اس کا مفہومِ مخالف نکال کر منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ’’ اسلام اپنے ماننے والوں کو دوسرے ادیان کے ماننے والوں سے نفرت سکھاتا ہے‘‘،اس لیے یہاں وضاحت سے بیان کیا جارہا ہے کہ اسلام انسانیت سے نفرت نہیں سکھاتا۔ اسلام ’جرم‘ سے نفرت کرتا ہے اور مجرم سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے اور اسلام اعلیٰ انسانی اقدار کا علَم بردار ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱- لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ (الممتحنہ:۸) جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمھارے ساتھ جنگ نہیں کی اور نہ تمھیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
امام احمد بن علی ابو بکر الرازی الجصاص الحنفیؒ (م: ۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
۲- رُوِيَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيْ شَاْنِ أَ سْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَأُمُّهَا جَاءَتْ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ تَسْتَمْنِحُهَا، وَسَاَلَتِ النَّبِيَّ عَنْ ذٰلِكَ، فَاَنْزَلَ اللہُ تَعَالٰى هٰذِهِ الْآيَةَ، روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنہماکے بارے میں نازل ہوئی کہ اُن کی مشرکہ والدہ ان کے پاس کچھ ہدیہ یا عطیہ لینے کی نیت سے آئیں۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیۂ مبارکہ نازل فرمائی(شَرْح مختصر الطحاوی،ج۲،ص۳۸۶)۔
معلوم ہوا کہ غیرمسلم کو عطیہ یا ہدیہ دیا جاسکتا ہے۔امام جصاصؒ کے بقول ’’یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے‘‘:
۳- عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللهِ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ اِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا،قَالَ: نَعَمْ صِلِيهَا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں: میری ماں حالتِ شرک میں اپنے والد کے ساتھ قریش کے اُس دور میں میرے پاس آئیں، جب انھوں ایک مدت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کامعاہدہ کرلیا تھا ، سو انھوں نے رسولؐ اللہ سے پوچھا اور عرض کی: یارسول اللہ! میری ماں آئی ہیں اور وہ کچھ (عطیے کی) خواہش رکھتی ہیں، کیا میں اُن کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرو (صحیح البخاری:۳۱۸۳)۔
۴- وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیـْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:۹) وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔
اس آیت کے تحت امام ابوبکرجصاصؒ لکھتے ہیں:
۵- وَالْاَسِيْرُ فِيْ دَارِ الْإسْلَامِ لَا يَكُوْنُ إِلَّا كَافِرًا، فَدَلَّ عَلٰى أَنَّ الصَّدَقَةَ عَلَيْهِمْ قُرْبَةٌ، دارالاسلام میں قیدی تو کافر ہی ہوں گے، پس یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ غیر مسلم کو صدقہ دینا بھی کارِ ثواب ہے (شرح مختصر الطحاوی،ج۲، ص۳۸۶)۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
۶- وَلَا بَاْسَ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَلَى الْمُشْـرِكِ مِنَ النَّافِلَةِ وَلَيْسَ لَهٗ فِي الْفَرِيْضَةِ مِنَ الصَّدَقَةِحَقٌّ، وَقَدْ حَمِدَ اللهُ تَعَالٰی قَوْمًا، فَقَالَ : وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ،مشرک کو نفلی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فرض صدقے میں اُس کا حق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو کھانا کھلاتے ہیں۔
اگر اس کے اسلام لانے کی اُمید ہو تو پھر صدقہ کرنا بہتر ہے:
امام ابوجعفرطحاویؒ لکھتے ہیں:
۷- وَأَمَّا سِائِرُ الصَّدَقَاتِ مِنْ نَحْوِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ وَالْكَفَّارَاتِ فَيَجُوْزُ إِعْطَاؤُهَا اَهْلَ الذِّمَّةِ ،وَرُوِيَ عَنْ اَبِيْ يُوْسُفَ:: اَنَّ كُلَّ صَدَقَةٍ وَاجِبَةٍ: لَا يَجُوْزُ أَنْ يُّعْطٰى اَهْلُ الذِّمَّةِ مِنْهَا،اَلْحُجَّةُ لِاَبِيْ حَنِيْفَةَ:قُوْلُ اللهِ تَعَالٰى: ’’فَكَفَّارَتُهٗ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِيْنَ‘‘ وَقَوْلُهٗ: فَإِطْعَامُ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا‘‘}.،وَقَالَ النَّبِيُّ فِيْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ: نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعٌ مِنْ تَمَرٍ،: وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ الْمُسْلِمِ وَالْكَافِرْ وَأَيْضًا: لِمَا رُوِيَ :اَنَّ الْمُسْلِمِيْنَ كَرِهُوا الصَّدَقَةَ عَلٰى غَيْرِ أَهْلِ دِيْنِهِمْ، فَاَنْزَلَ اللهُ تَعَالٰى: لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلٰكِنَّ اللهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ ،فَقَالَ النَّبِيُّ : تَصَدَّقُوْا عَلٰى أَهْلِ الْاَدْيَانِ‘‘،فَعُمُوْمُ الْآيَةِ، وَلَفْظُ النَّبِيِّ كُلُّ وَاحِدٍ يُجِيْزُ دَفْعَ الصَّدَقَاتِ إِلٰى أَهْلِ الذِّمَّةِ،فَلَمَّا قَامَتِ الدَّلَالَةُ عَلٰى تَخْصِیْصِ زَكَوَاتِ الْاَمْوَالِ: خَصَّصْنَاهَاوَبَقِيَ حُكْمُ الْعُمُوْمِ فِيـْمَا عَدَاهَا،اور رہے باقی صدقات !جیسے صدقۂ فطر اور کفارات تو ان کا ذمّیوں کو دینا جائز ہےاور امام ابویوسف سے مروی ہے:’کوئی بھی صدقہ واجبہ ذمّیوں کو دینا جائز نہیں ہے‘۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر مبنی ہے: ’’پس، اُس (قسم )کا کفارہ دس مساکین کو کھلانا ہے‘‘اوریہ ارشاد:’’پس، ساٹھ مسکینوں کو کھلانا ہے‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کے بارے میں فرمایا: آدھی صاع گندم یا ایک صاع کھجور اور آپ ؐ نے مسلم اور کافر کے درمیان فرق نہیں فرمایا، اور یہ بھی مَروی ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں کو صدقہ دینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیاتو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’آپ پر انھیں ہدایت دینا لازم نہیں ہے ، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے،(البقرہ:۲۷۲)، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اہلِ ادیان کو صدقہ دو‘‘تو آیت کا عموم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات ذمّیوں کو صدقہ دینے کی اجازت دیتے ہیں، پس جب زکوٰۃ کے اموال کے بارے میں تخصیص آگئی:’’صدقہ اُن (مسلمانوں )کے مال داروں سے لیا جائے اور اُن کے فقراء کو لوٹایا جائے ‘‘،تو ہم نے اسے مسلمانوں کے لیے خاص کردیا اور(حربیوں کے استثناء کے ساتھ ) باقی صدقات کا حکم مسلم اور غیرِ مسلم کے لیے عام رہا، (شرح مختصر الطحاوی، ج۲، ص۲۸۴- ۲۸۵)‘‘۔
الغرض، اگر غیر مسلم کافر ومشرک مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ (State of War)میں ہوں یا مسلمانوں پر مظالم ڈھارہے ہوں اور حقِ آزادی اور حقِ وطن کو سلب کر رکھا ہو، جیسے بھارت اور اسرائیل، تو ان کو کسی بھی طرح کا صدقہ ( واجب یا نفلی) ، عطیہ یا ہبہ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ظلم میں معاونت ہے۔
بھارت نے جموں وکشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اہل کشمیر کواُن کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور محصور کر رکھا ہے، اس لیے مسلمانانِ کشمیر کا ہندوؤں کو اپنی جائداد فروخت کرنا یا کرایے پر دینا ناجائز ہے۔ یادرہے اسرائیل نے فلسطینیوں کے وطن پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے ، ان پر مظالم ڈھارہا ہے اور اسرائیل نے فلسطین میں سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے لیے یہی حربہ آزمایا تھا کہ ان کی جائدادیں مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر خریدیں، جن کی سزا فلسطینی اب تک بھگت رہے ہیں۔
ھٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔[۲۳مارچ ۲۰۲۰ء]
انسانی اور سماجی زندگی، میں لفظ اور زبان کو مرکزیت حاصل ہے۔ جنابِ اطہر ہاشمی اُردو زبان کی اصلاح کے لیے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل ،کراچی میں ’خبرلیجیے زباں بگڑی‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا : ’’ہمارے ہاں ’صلواتیں سنانا‘ محاورہ رائج ہے۔ اس کے معنی ہیں:’بُرا بھلا کہنا ،گالیاں دینا وغیرہ‘، یہ ہَجو کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،حالانکہ لفظِ صلوات کے معنی :درود، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے ، اورحسبِ حال اس کے معنی مراد ہوتے ہیں۔یہ صلوٰۃ بمعنی نماز کی بھی جمع ہے۔ پس اس محاورے کا استعمال ترک کردینا چاہیے ،کیوں کہ اس سے لفظِ صلوات کی اہانت ہوتی ہے جو شریعت کی رُو سے ناجائز ہے‘‘۔ اس طرح کے کئی محاورے اور جملے رائج ہیں، جن میں سے چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
- ایک محاورہ ہے:’’آنتیں قُل ھُوَ اللّٰہ پڑھ رہی ہیں ‘‘، آنتیں چوں کہ نجاست کا مرکز ہوتی ہیں ،اس لیے اُن کی طرف قُل ھُوَ اللّٰہ یعنی سورۂ اخلاص پڑھنے کی نسبت کرنا خلافِ ادب ہے ۔ اس محاورے کو بھی ترک کرنا چاہیے۔
- بعض لوگ بھولے بھالے اور سیدھے سادے آدمی کے لیے ’اللہ میاں کی گائے ‘کا محاورہ استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح اردو میں ’اللہ میاں‘ اور سندھی وسرائیکی زبان میں ’اللہ سائیں‘ بولاجاتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ بھی خلافِ ادب ہے۔’میاں‘ اور ’سائیں‘ ایسے کلمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے شایانِ شان نہیں ہیں، خواہ ان کوبولنے یا لکھنے والے کی نیت اچھی ہی ہو، لیکن ان کے معانی میں اہانت کا پہلو موجودہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اسمِ جلالت کے ساتھ ان کلمات کا استعمال درست نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ،اللہ جَلَّ شَانُہٗ اور اللہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی یا باری تعالیٰ کے کلمات استعمال کرنے چاہییں۔ نوٹ: بعض لوگ عَزَّوَجَلَّ کو عِزّوَجَلْ بولتے ہیں،یہ بھی درست نہیں ہے۔ اسی طرح جَلَّ جَلَالُہٗ کو جَلِّ جَلَالُہٗ بولتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔ ذیل میں ہم کتبِ لغت کے حوالے سے لفظ ’میاں‘ اور ’سائیں‘ کے معانی درج کر رہے ہیں:’میاں‘: اُردو زبان میں آقا، شوہر، والی، وارث، سرکار، جناب عالی، یار دوست، مدرس، امیرزادہ۔ بعض لوگ بزرگ یا عمر رسیدہ شخص کو بھی ’میاں جی‘ کہتے ہیں۔ سائیں: خاوند، فقیر، بھکاری ودیگرمعانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (قائد اللغات، فیروز اللغات، فرہنگ عامرہ ، علمی اُردو لغت)
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ معانی اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض معانی ایسے ہیں، جن میں ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ لہٰذا، نہایت تاکید کے ساتھ ہمارا مشورہ ہے کہ ’اللہ میاں‘ اور ’اللہ سائیں ‘ ایسے کلمات بولنے سے احترازہی کرنا چاہیے ۔ اپنے گھروں، مجالس اور بچوں کے ساتھ گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا نام لیتے وقت اسی احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی شانِ جلالت بلند ترین ہے، اور ہرنَقص و عیب اور کمزوری سے پاک ہے، فرمایا:
۱- ’’آپ کا ربّ جو بڑی عزت والا ہے ،ہر اس عیب سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں‘‘۔ (الصافات۳۷:۱۸۰)
۲-’’اورسب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے ان (ہی) ناموں سے پکارو اور انھیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں راہِ حق سے انحراف کرتے ہیں‘‘۔ (الاعراف۷:۱۸۰)
۳- ’’(اے رسولؐ!) آپ کہہ دیجیے! تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکاروگے ،اس کے سب ہی نام اچھے ہیں ‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷:۱۱۰)
اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے اسم ذات ’’اللہ‘‘ ہے۔قرآنِ کریم میں اس کے صفاتی نام بھی مذکور ہیں، مثلاً: اَلْمَلِکْ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلَامُ ، اَلْمُؤْمِنْ، اَلْمُھَیْمِنُ ، الْعَزِیْزُ، اَلْجَـبَّارُ،اَلْمُتَکَبِّرُ، اَلسَّتَّار، اَلْغَفَّار، اَلرَّؤُفُ ، اَلرَّحِیْم، اَلْکَرِیْم، سُبْحَان اور دیگراسماے مقدّسہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تعبیر کرنے کے لیے جو بھی اسما ،صفات اور کلمات استعمال کیے جائیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں۔
پس، اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایسا ذو معنی کلمہ ، جس کے ایک معنی اچھے ہوں اور دوسرے بُرے ، استعمال کرناجائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب آپؐ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے ، اور آپؐ کی کوئی بات اُن کی سمجھ میں نہ آتی، تو وہ عرض کرتے :رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری رعایت فرمائیے)۔ اس کے لیے قرآنِ کریم میں رَاعِنَا کا کلمہ آیا ہے ، مگر منافق کلمۂ رَاعِنَا کو اِمالہ کرکے بولتے اور اپنی مجلس میں جاکر کہتے: ’’ہم نے انھیںرَاعِیْنَا، یعنی ہمارا چرواہا کہہ دیا ہے‘‘ اور بعض صورتوں میں وہ اسے رَعن ، یعنی احمق کے معنی میں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسا ذو معنی کلمہ استعمال کرنے سے صحابہ کو منع فرمادیا ،حالانکہ اُن کی نیت صحیح تھی اورمرادبھی درست۔ لیکن منافقین اُس کا دور کا معنی اہانت مرادلیتے تھے، پس ارشاد ہوا: ’’اے مومنو! رَاعِنَامت کہو،بلکہ اُنْظُرْنَا کہو اور توجہ سے سنو‘‘ (البقرہ۲:۱۴۰)۔ (۲)بعض یہودی اللہ کے کلام کو اس کے اصلی مقامات سے تبدیل کردیتے اور کہتے : ’’ہم نے سنا اورنافرمانی کی اور(کہتے ہیں:) سنیے!آپ کو نہ سنا جائے ‘‘۔وہ اپنی زبان کو بل دے کر اور دین میں طعن کرتے ہوئے رَاعِنَاکہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے آپ کا حکم سنا اور آپ کا کہا مانا اور ہماری بات سنیے اور نظرکرم فرمائیے ، تو اُن کے لیے بہت بہتر اور درست بات ہوتی ‘‘۔ (النسآء۴:۴۶)
چنانچہ، حُرمتِ رسول کو قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو حکم فرمایا:’’ اگر آیندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات تمھاری سمجھ میں نہ آئے تو ذو معنی کلمہ رَاعِنَا مت کہنا ،بلکہ: اُنْظُرْنَا یَارَسُولَ اللّٰہ (یارسولؐ اللہ! ہماری جانب نظر کرم فرمائیے!) ‘‘کہا کرواور زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ ابتدا ہی سے توجہ سے سنا کرو تاکہ اللہ کے رسول کو دوبارہ زحمت نہ دینی پڑے۔
پس، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذو معنی کلمہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، تواللہ تعالیٰ کی شان میں کیسے جائز ہوگا۔لہٰذا، ماؤں کو چاہیے کہ اپنی گود میں بچوں کی دینی تربیت کریں اور اُن کی عادت بنائیں کہ وہ جب بھی اللہ کا نام لیں تو اللہ تعالیٰ، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کہا کریں ۔ جب ایک مرتبہ زبان پریہ الفاظ رواں ہو جائیں گے تو پھر زندگی بھر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ان کا اندازِ تکلم یہی رہے گا۔شیخ سعدی نے کہا ہے:’’بچپن میں سیکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہے، جب کہ پختہ عمر میں کوئی بات سیکھنا پانی پر لکیر کی مانند ہوتا ہے کہ ادھر لکیر کھچی اور پیچھے سے بند ہوتی چلی گئی‘‘۔
- جنابِ اطہر ہاشمی نے ایک اور محاورے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے :’’بسم اللہ ہی غلط ہوگئی‘‘۔ یہ بھی اہانت کا کلمہ ہے ، اگرچہ کہنے والے کا مطلب یہ ہے کہ کام کی شروعات ہی غلط ہوگئی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے : ’’ہر اہم کام جو اللہ کے نام سے نہ شروع کیا جائے، وہ ناقص ہوتا ہے‘‘ (سنن دارَقُطنی:۸۸۴)۔لہٰذا،اللہ کے نام سے شروع کیا ہوا کام بابرکت ہوتا ہے۔ہمیں کسی کام میں ناکامی کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرنی چاہیے ، اللہ کی طرف برائی کی نسبت خلافِ ادب ہے۔ قرآن کا شعارِ ادب یہ ہے : ’’تمھیں جو بھلائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی جانب سے ہے اور تمھیں جو برائی پہنچتی ہے ،وہ تمھاری اپنی ذات کے سبب ہے‘‘۔ (النساء۴:۷۹)
- اُردو کا محاورہ ہے :’’نمازیں بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑ گئے‘‘۔یہ محاورہ ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے کہ انسان کسی سے کوئی رعایت حاصل کرنے جائے اور رعایت ملنے کے بجاے اس پرمزید بوجھ ڈال دیا جائے ۔ یہ محاورہ درست نہیں ہے ،کیوں کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ روزہ ایک ناگواربوجھ ہے ، حالانکہ روزہ اللہ کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کو خوش دلی سے انجام دینا ہر مومن کا شعار ہونا چاہیے۔اسی طرح فرض نمازوں کے لیے کسی کے استثناء کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بندے پر فرضِ عین ہے اور ہر عاقل وبالغ اور ذی شعور مسلمان پر اس کی پابندی لازم ہے۔
- ایک محاورہ ہے:’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘‘۔اس کے معنی ہیں: کوئی دانستہ جرم کرتا رہا یا حرام ذرائع سے مال جمع کرتا رہا اور پھر پاکیزہ بننے کے لیے حج پر چلا گیا۔ گویااس نے حج کو حرام کو حلال کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سوچ باطل ہے،کیوں کہ توبہ زندگی میں کسی مرحلے پر بھی کی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ یہ شرعی شرائط کے مطابق ہو اور ماضی کے افعال کی تلافی بھی ہو ۔ اگر حرام ذرائع سے مال کمایا ہے تو اُسے اپنی ملکیت سے نکالے۔اگر اصل مالکان معلوم ہیں تو انھیں لوٹادے ۔اگر سرکاری خزانے میں خیانت کی ہے تو وہ مال خزانے میں جمع کرادے اور اگرحق دار کا پتا نہیں ہے یا وہ وفات پاچکا ہے اور اس کے وارث موجود ہیں تو ان کے سپرد کردے ورنہ ثواب کی نیت کیے بغیر اسے صدقہ کردے۔ بلی کو حج سے کیا نسبت ہے؟ اس میں بھی اہانت کا پہلو موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے عمرہ اور حج کرانے کو گناہوں کی تلافی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔
- ایک محاورہ ہے :’’کیا کریں زمانہ ہی بُرا ہے ‘‘۔ حدیثِ پاک میں زمانے کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بنی آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانے کو پلٹنے والا میں ہوں۔ تمام معاملات میرے قبضۂ قدرت میں ہیں اور میرے ہی حکم سے نظامِ گردشِ لیل ونہار قائم ہے‘‘ (ابوداؤد:۵۲۷۴)۔اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات میں ’دَھَر‘نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کے اسماے صفات توقیفی ہیں ، یعنی کسی نے اپنی عقلی اُپج سے وضع نہیں کیے ، بلکہ یہ قرآن وحدیث سے روایت اور سماع پر موقوف ہیں۔ نیز یہ کہ ابتداے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ایک روش پر چل رہا ہے،ارشاد ہوا : ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش کے دن( یعنی ابتداے آفرینش) سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کتاب میں مہینوں کی تعدادبارہ ہے ‘‘ (التوبہ۹:۳۶)۔ اس لیے نظامِ گردشِ لیل ونہار اور سورج کے طلوع وغروب کا دورانیہ وہی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں بھی کائنات زمان ومکان کا نام ہے۔ پس فی نفسہٖ زمانے میں کوئی خرابی نہیں ہوتی،زمانے میں رہنے والے اچھے یا برے ہوتے ہیں، لہٰذااچھائی یا برائی کی نسبت زمانے کی طرف کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔
- اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات بہکنے ،بھٹکنے ،غلطی کرنے اور بھول چوک سے پاک ہے، لیکن بعض لوگوں کی زبان پرکفریہ جملے آجاتے ہیں، مثلاً: (الف): ’’میری قسمت میں شاید اللہ کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے‘‘، (ب): ’’نہ جانے میرا بلاوا کب آئے گا، شاید بنانے والا بھول ہی گیا ہے‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’اُن کا علم میرے رب کے پاس لوحِ محفوظ میںدرج ہے۔ وہ نہ توبھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے (طٰہٰ۲۰:۵۲)‘‘۔بعض اوقات کفریہ کلمات پر مشتمل گانے چلتے رہے ہیں:
آج میری تقدیر کا مالک سوتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
تقدیر کا مالک اللہ ہے۔اُس کی شان تویہ ہے :’’ نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۵)۔ اس کا علم حضوری ہے اور ہر قسم کی غفلت اور سہو سے پاک ہے۔ اس کی جانب سونے، بھولنے یاغفلت کی نسبت کرنا قرآن کا انکار ہے،اس سے توبہ لازم ہے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے جہاں نسیان اور اِنساء کے کلمات آئے ہیں ، وہ بھولنے کے معنی میں نہیں ہیں، بلکہ نظرانداز کرنے کے معنی میں ہیں،جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں:’’اس نے تو اس بات کو طاقِ نسیان پر رکھ دیا ہے‘‘۔
- اسی طرح کفریہ معانی کے حامل کئی اورجملے لوگ سوچے سمجھے بغیربول دیتے ہیں، مثلاً: ’’ارے یہ تو اتنا چالاک ہے کہ خدا کو بھی دھوکا دے دے‘‘۔ کسی کا یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، خود فریبی اور بدنصیبی ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا: ’’وہ (اپنی دانست میں)اللہ اور مومنوں کو دھوکا دیتے ہیں ،(لیکن در حقیقت )وہ اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتے ہیں اور انھیں اس بات کا شعور نہیں ہے‘‘(البقرہ۲:۹)۔دھوکاتو اُسے دیا جاسکتا ہے جس سے حقیقت کو چھپانا ممکن ہو،جب کہ اللہ کی شان یہ ہے :’’اور اگر آپ بلند آواز سے بولیں تو بے شک وہ آہستہ اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ بات کوخوب جانتا ہے‘‘ (طٰہٰ۲۰:۷)‘‘۔ (۲)’’اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور (اس کو بھی) جو سینوں میں چھپا ہے‘‘ (المومن۴۰:۱۹)‘‘، پس کس کی مجال کہ اُسے دھوکا دے۔
-’’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘‘: بعض لوگ اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے یہ کلمہ بولتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے اہانت کا پہلو نکلتا ہے، اس سے احتراز کرنا چاہیے ۔اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ معاذ اللہ ! اللہ جھوٹ بھی بلواتا ہے۔ اللہ ہرگز جھوٹ نہیں بلواتا،بندہ خود جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(۱) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ (التوبہ ۹:۱۱۹)۔(۲):’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو‘‘ (الاحزاب۳۳: ۷۰)۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو’اِضلال ‘(گمراہ کرنے )کی نسبت ہے،اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرمایا(۱): ’’اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑدے، اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے‘‘ (الاعراف۷:۱۸۶)۔(۲)’’اور انھوں نے جو گناہ کیے تھے ،ان کی سزا ان کے سامنے آجائے گی اور وہ عذاب ان کا احاطہ کرلے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے‘‘ (الزمر ۳۹:۴۸)۔ کسی بھی فعل کا کاسب اور فاعل بندہ خود ہوتا ہے۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا عزم کرلیتا ہے اور ارادہ عمل میں ڈھلتا ہے تو تخلیق اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کا مفہوم یہی ہے: ’’اور اللہ نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا ہے‘‘۔ (الصافات۳۷:۹۶)
پس، اللہ کی رضا اس میں نہیں کہ کوئی جھوٹ بولے، وہ تو جھوٹوں پر لعنت فرماتا ہے۔ جھوٹ بندہ خود بولتا ہے۔ یہ اس کی اپنی شامتِ اعمال ہے، لہٰذا ’اللہ جھوٹ نہ بلوائے‘ کہنا شانِ الوہیت میں بے ادبی ہے۔ لوگ سوچے سمجھے بغیراس طرح کے کلمات بول دیتے ہیں۔ انھیںاس سے اجتناب کرنا چاہیے۔بارگاہِ الوہیت کے ادب کا تقاضا یہی ہے۔
- ہمارے ہاں مردوں کی ’ہم جنسیت‘ (Sodomy) کے لیے لفظِ’لُوطی‘ اور ’لواطت‘ عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کو بھی ترک کردینا چاہیے ، کیوں کہ لوط علیہ السلام نبی تھے اور کسی نبی کے نام کے ساتھ برائی کو منسوب کرنا اُن کی اہانت ہے۔ اس کا متبادل لفظ’عملِ قومِ لوط‘ ہے یابقول ہاشمی صاحب :’’چوں کہ قومِ لوط سدوم کی رہنے والی تھی ،اس لیے اسے ’سدومی‘ کہاجائے۔