عصرحاضر میں جدید ٹکنالوجی اور جینیات میں روزافزوں ترقی نے خیر کے بہت سے کاموں کے ساتھ، بعض صورتوں میں اخلاقی و سماجی تخریب کے نہایت بنیادی سوالات بھی کھڑے کیےہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں پر ایک قلمی فقہی مذاکرے میں سوال اور قضیہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان سے جیّد عالمِ دین محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب (کراچی) اور بھارت سے محترم مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (نئی دہلی) کی جانب سے رہنمائی پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)
محترم و مکرم مفتی منیب الرحمٰن صاحب /محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بلاشبہہ ہر زمانہ اور ہر عہد اپنے تقاضے، مطالبات اور چیلنج لے کر سامنے آتا ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام، ماضی سے حال اور حال سے مستقبل، یعنی ہر زمانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام پر خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ، ہر زمانے میں دوسروں (نوعِ انسانی) کے سامنے دعوت پیش کرنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔
ہر زمانے میں مسائل و مشکلات کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے دو صورتیں رہی ہیں: پہلی یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر، پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کیا گیا، اور دوسرا یہ کہ مسائل و مصائب کے پہاڑ کے سامنے فدویانہ خودسپردگی کرتے ہوئے، خود اسلام میں قطع و بُرید کی کوشش کی گئی اور اسے چیلنجوں کے حسب ِ حال بنا کر گزارا کیا گیا۔ پہلا راستہ ایمان، عزیمت اور دانشِ بُرہانی کا تھا اور دوسرا طریقہ ترمیم پسندی ، مرعوبیت اور دین میں تحریف کا۔ پہلے راستے پر علما،فقہا،محدثین، مفسرین اور متکلمین اسلام کی ایک بڑی شان دار تعداد نے علم و نُور کے چراغ روشن کیے۔ اور دوسرے طریقے پر چلنےوالوں نے شرمندگی، انتشار اور تذبذب کے ایسے کانٹے بکھیرے، جن سے اُمت مسلمہ کو فکری اور سماجی سطح پر سخت نقصان پہنچا۔ اس دوسری قسم میں چراغ علی، احمد دین امرتسری، عنایت اللہ خاںمشرقی، مرزا غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز وغیرہ اور انھی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے کچھ ڈگری یافتگان بھی شامل رہے ہیں۔
ذیل میں وہ سوال درج کیا جا رہا ہے، جو جناب جاوید احمد غامدی کے باقاعدہ نظام کے تحت چلائے جانے والے سوشل میڈیا پر فراہم کیا گیا۔ ایسے پروگرام سوچ سمجھ کر اور پوری تیاری کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ایسے ہی سرِراہ چلتے چلتے نہیں کیے جاتے۔ ان پروگراموں میں سامعین بھی گنے چنے ہوتے ہیں اور سوالات بھی سوچے سمجھے۔ مذکورہ پروگرام میں ایک خاتون سوال کرتی ہیں:
میرا سوال Surrogate [متبادل] ماں کے حوالے سے ہے۔ آج کے دور میں یہ مسئلہ سامنے آیا ہے کہ اگر ایک خاتون ماں نہیں بن سکتی اور اس میں کچھ Physical (جسمانی) مسائل ہیں، تو دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کرکے اس سے بچہ پیدا کرایا جاتا ہے۔ ایک تو اس حوالے سے بتادیجیے کہ اس میں آپ کی کیا راے ہے؟ دین اسلام کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ صحیح ہے؟
دوسرا یہ کہ ایک خاتون کو جسمانی مسائل نہیں ہیں لیکن وہ محض خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی، اور وہ [میاں، بیوی] باہر سے دوسری خاتون کو حاصل کرکے بچہ پیدا کرواتے ہیں تو کیا اس طریقے سے بھی جائز ہے؟
جواب میں جاوید احمد صاحب کہتے ہیں:
میرے نزدیک اس مسئلے کا تعلق ’رضاعت‘ سے ہے اور وہ قرآن میں بیان ہوگیا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے واضح کردی گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے بچے کو دودھ پلادیا ہے تو اس سے تمام رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے اور یہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ اس طریقے کا تعلق قائم کیا جائےگا۔ اگر محض چھاتیوں کا تعلق قائم کردینے کے نتیجے میں اتنی حرمتیں واقع ہوگئیں، تو یہاں [یعنی کرائے پر بچہ پیدا کرنے کی صورت میں] بھی واقع ہوں گی۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ نے کرایہ دیا اور فارغ ہوگئے۔ متعین طور پر معلوم ہونا چاہیے، اس کا اعلان ہونا چاہیے، بچے کے بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ فلاں اس کی ماں ہے اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ تمام رشتے اسی طرح پیدا ہوجائیں گے کہ جس طرح ’رضاعت‘ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزو ں کا لحاظ کرکے کوئی آدمی اس جدید تکنیک سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے، تو اس کا جواب بھی اسی میں موجود ہے، کہ دودھ نہیں اترا تو اس صورت میں بھی ’رضاعت‘ کا تعلق قائم کرلیا اور دودھ اترا ہے تو اس کے باوجود رضاعت کا تعلق قائم کرلیا___ دونوں صورتوں میں ٹھیک ہے لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ ماں کا انتخاب کرتے ہیں، یعنی جیسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا، اور وہ ماں کے درجے میں ہیں۔ ان کے تمام رشتے اسی طرح ہوں گے۔ قرآن مجید تو یہاں تک چلا گیا کہ جس خاتون کا دودھ پیا ہے آپ نے، اور پھر کسی اور نے بھی اسی خاتون کا دودھ پیا ہے، تو آپ کے باہم وہی رشتہ پیدا ہوجائے گا جو بہن بھائی کا ہے۔
یہ علانیہ ہونا چاہیے، ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ماں اور نان و نفقے کے حقوق قائم ہوجائیںگے اور جو کچھ معاہدہ ہوا ہے اس کی پابندی کرنی پڑے گی، اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں، ان رشتوں کو بھی وہی حُرمت ملے گی، یعنی نکاح ہونا ہے طلاق ہونا ہے، دین میں ایسے [صورت] ہوگی اگر کسی نے کرنی ہے۔{ FR 737 }
اس مبہم اور متضاد جواب نے ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے کہ جس میں بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
۱- دوسری عورت کی جانب سے، غیر عورت کے بچے کو دودھ پلانے، یعنی رضاعت اور ایک بے نکاحی ماں کے بطن سے غیرمرد کے بچے کی پیدایش کا آپس میں برابری کا کیا تعلق ہے؟
۲- بچے کی پیدایش کے لیے داخلی، جسمانی اور جذباتی کیفیات ___ اور دودھ پلانے کے عمل کو قائم مقام قرار دینا کہاں تک عقلی اور دینی مصالح کے تحت درست استدلال ہے؟
۳- بچے کی خواہش رکھنے والے والدین یا خود بچہ پیدا نہ کرنے والی عورت کی جانب سے کسی غیرعورت سے بچے کی پیدایش کا اہتمام کرنا کیسے اخلاقی، سماجی و قانونی سوال پیدا کرتا ہے؟
۴- ایک غیرمرد کے نطفے کو مصنوعی طور پر دوسری عورت کے ہاں منتقل کرنا، کہ جو اس مرد کے نکاح میں نہیں ہے، کیا یہ ایک ’میکانکی زنا‘تصور نہیں کیا جائے گا؟ اوراس صورت میں پیدا ہونے والا بچہ جائز اور ناجائز کی کون سی قسم سے منسوب ہوگا؟
۵- اس کلام و بیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاوید صاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بارآور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کروا کر بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘۔
۶- کیااس شکل میں یہ صورتِ حال نہیں پیدا ہوگی کہ دولت مند مرد اور دولت مندعورتیں، اپنی دولت کے بل بوتے پر ’بچہ سپرمارکیٹ‘ سے بچے خریدنے یا بنوانے لگیں اور دولت نہ رکھنے والے والدین ’بچے کی خریدوفروخت‘ کے لیے تدابیر سوچنے لگیں۔ یوں میکانکی تناسل اور توالد کا ایک ایسا کھیل شروع ہو، جس میں ماں کا وجود، مرد کے سپرم اور بچے کی پیدایش کا تعلق، منڈی کی معیشت سے جڑ جائے۔ اور پھر سماجی، اخلاقی اور خانگی ڈھانچا ایک ایسی تہذیب پیدا کرے، جس میں نکاحی بیوی، اپنے خاوند کا بچہ دوسری بے نکاحی عورت سے جنوائے یا ایک مرد کسی دوسرے مرد سے نطفہ خریدکر کسی اور جگہ سے بچہ پیدا کرائے گا، تو یوں واقعی ’میرا جسم میری مرضی‘ ہی کا بول بالا ہوگا؟
مغرب اور غیرمسلم دُنیا میں ان خطوط پر کام ہو رہا ہے اور اس لہرسے متاثر ’روشن خیال‘ ’ماہرین‘ اسلامی فکریات جدیدیت سے مرعوبیت یا ’آسانی پیدا کرنے‘ کے ذوق و شوق میں کہاں کی اینٹ اور کہاں کے روڑے کا ملاپ کرا رہے ہیں۔ اس طرزِفکر کے بہرحال اثرات مسلمانوں کے تہذیب و تمدن پر پڑسکتے ہیں۔ اس لیے درخواست ہے کہ شخصی حوالے کو نظرانداز کرکے، مجرد مسئلے کی نوعیت اور مذکورہ بالا جواب میں اُبھرنے والی گمراہ کن سوچ کا جائزہ لے کر اور دین کے منشا اور حکمت کو بیان فرمائیں۔
والسلام
سلیم منصور خالد
rمحترم مفتی منیب الرحمٰن ، رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ ،کراچی
﷽
اَلْجَوَابُ ھُوَ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَاب
Surrogate Motherاُس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزایش کے لیے رضاکارانہ طور پر یا اجرت کے عوض پیش کرے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے،حدیث پاک میں ہے:
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِيْنَا خَطِيْبًا، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَقُوْلُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ يَقُوْلُ يَوْمَ حُنَيْنٍ: قَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءُهٗ زَرْعَ غَيْرِهٖ،يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالٰى،وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيْعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ، ترجمہ:’’رُوَیفع بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں: (ایک دن) ایک شخص نے ہمارے درمیان خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں تمھیں وہی بات کہنے جارہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے غزوۂ حنین کے موقع پر سنی ، آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کا پانی (نطفہ) کسی غیر کی کھیتی (رحم) کو سیراب کرے، یعنی اسے حاملہ کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ رحم پاک ہونے تک کسی جنگی قیدی عورت سے مباشرت کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو فروخت کرے [کیونکہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں]‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۱۵۸)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبّی طریقوں سے اُس کے رحم میںاپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہےاور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا، جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا اور جب بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھاجائے گا، تب بھی وہ عورت غیر کی کھیتی ہے۔اس لیے اس کے رحم میں شوہرکے علاوہ کسی اور کا مادّہ مَنویّہ رکھنا ناجائز ہوگا ۔لیکن اس پر عمل زنا کی تعریف صادق نہیں آتی، البتہ یہ عمل واضح طور پر گناہ کا باعث ہےاورمعناً زنا ہے،کیونکہ اس سےاُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب، صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا، شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے۔بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی کہ جس کےبطن سےاُس نے جنم لیا ہے۔چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱- اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۰ۭ ترجمہ:’’اور ان کی مائیں تو وہی ہیں، جنھوں نے انھیں جنا ہے (المجادلہ۵۸:۲)‘‘۔
۲- حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۰ۭ ترجمہ: ’’اس (یعنی انسان کو) اُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا (الاحقاف ۴۶: ۱۵)‘‘۔
پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نےاُسے جنم دیا ہے،اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا :’’ انسان کی ماں وہ عورت ہے، جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے‘‘۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والےاس مشہور واقعے سے ہوتی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی کہ زَمعہ (جوکہ اُم المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کےوالدتھے) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زَمعہ کےبیٹےعبدکہنے لگے کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے۔پھر یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلٰى أَخِيْهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيْدَةِ زَمْعَةَ مِنِّيْ فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهٗ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِيْ كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ:هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ!، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ:اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ : اِحْتَجِبِيْ مِنْهُ لِمَا رَأٰى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتّٰى لَقِيَ اللهَ ، ترجمہ:’’ عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی: ’’زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے ،تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا:’’ جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے زَمعہ کے بیٹے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی‘‘۔ پھر حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے ،اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ‘‘۔ حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عبد بن زَمعہ! وہ تمھارا (بھائی) ہے‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اُمُّ المومنین سَودہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی‘‘۔ پھر زَمعہ کے بیٹے نے حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا‘‘۔(صحیح البخاری:۲۰۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَر‘‘ کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ ’’تمھارا بھائی ہے، اور چونکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا ،اس لیے آپؐ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’فِراش‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَـوْلُهٗ: اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ: أَيْ لِمَالِكِ الْفِرَاشِ وَهُوَ السَّيِّدُ أَوِ الزَّوْجُ ، ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’بچہ فِراش کا ہے‘‘ سے مراد ’مَالِکُ الْفِرَاش‘ ہے، یعنی وہ عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ‘‘۔(فتح الباری، ج۱، ص۱۶۶)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهٗ :اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ : أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، إِنَّمَا قَالَ: ذٰلِكَ عَقِيْبَ حُكْمِهٖ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ إِشَارَةٌ بِأَنَّ حُكْمَهٗ لَمْ يَكُنْ بِمُجَرَّدِ الْاِسْتِلْحَاقِ بَلْ بِالْفِرَاشِ، فَقَالَ: اَلْوَلَدُ لِلْفِراشِ ،وَأجْمَعَتْ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَآءِ بِاَنَّ الْحُرَّةَ فِرَاشٌ بِالْعَقْدِ عَلَيْهَا مَعَ إِمْكَانِ الْوَطْءِ وَإِمْكَانِ الْحَمْلِ، فَإِذَا كَانَ عَقْدُ النِّكَاحِ يُمْكِنُ مَعَهُ الْوَطْءَ وَالْحَمْلَ، فَالْوَلَدُ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ لَا يَنْتَفِيْ عَنهُ أبَدًا بِدَعْوٰى غَيْرِهٖ وَلَا بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا بِاللِّعَانِ ،ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’بچہ فِراش کا ہے‘‘، سے مراد ’’صَاحِبُ الْفِرَاش‘‘ ہے۔ یہ ارشاد آپؐ نے عبدبن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض اِسْتِلْحَاق (یعنی کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے)سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے ، آپؐ نے فرمایا:’’ بچہ صاحب فِراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جب کہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو۔ پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فِراش کا ہوگا۔ لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(عمدۃ القاری، ج۱۱، ص ۱۶۸)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاش‘کے بعد فرمایا: لِلْعَاھِرِ الْحَجَر،’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی نسبت ِ نسب سے محرومی) ‘‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے، زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ثبوت نسب، صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے ،بلکہ فِراش پر موقوف ہے ۔ جس کا فِراش ہوگا ،اس کا نسب ہوگا خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فِراش ہونے کے لیے امکان وطی کی شرط نہیں رکھی (شرح صحیح مسلم، ج۳،ص۹۳۴)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، اور صاحبِ فِراش سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جس کے نکاح میں ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس، جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی شرعی ضروریات میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری ’مَزنیہ‘ ( جس سے زنا کیا گیاہو) کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
جاوید غامدی صاحب نے تواجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو ’رضاعی ماں‘ قرار دیاہے، جب کہ حدیث نبویؐ میں تو اسے ’حقیقی ماں‘ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ ’مدتِ رضاعت‘ (یعنی ڈھائی برس) کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے ،وہ ’رضاعی ماں‘ کہلائے گی۔ اُس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔
اگرجاوید غامدی صاحب کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے، تو آپ نے اِشکال نمبر۵میں جویہ لکھا ہے :’’اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاویدصاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘، اس کے وقوع کے امکان کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح مغرب میں جنسی تسکین کے لیے مصنوعی اعضائے تناسل اور فرج کی دکانیں برسرِعام کھل رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس شعبے کے لیے بھی ایجنسیاں کھل جائیں اورآگے چل کریہ باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلے اور ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اُجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ بھارت میں باقاعدہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طور پر یہ طریقہ رائج ہے۔ گویا انسان مرتبۂ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں اتر آئے گا اور معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہے گا۔ پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دُوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔
اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سےشوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہو ،یاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنسی ملاپ کے ذریعے حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعے حقیقی شوہرکا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے اسلام پر اللہ تعالیٰ کروڑوںرحمتیں نازل فرمائے ،اُنھوں نے آج سےتقریباًایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول وقواعد بیان کردیےکہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے ،حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا ۔محمدبن سَماعہ بیان کرتے ہیں : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م:۱۵۰ھ) نے فرمایا:
إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهٗ فِيْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ، فَاَنْزَلَ فَاَخَذَتِ الْجَارِيَةُ مَاءَهٗ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فِيْ فَرْجِهَا فِي حِدْثَانِ ذٰلِكَ فَعَلِقَتِ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهٗ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهٗ،ترجمہ:’’کسی شخص نے اپنی باندی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ صحبت کی(یعنی بوس وکنار کیا) اور اُسے انزال ہوگیا ،پھر باندی نے اُس کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنی شرم گاہ میں داخل کرلیا اور اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘۔(المحیط البرہانی، ج۹، ص۴۰۴، البحرالرائق، ج۴،ص ۲۹۲، رَدُّالْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار،ج۳، ص ۵۲۸)
آپ نے اُجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:’’آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو کیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟‘‘ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے ، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رُو سے یہ جائز ہے؟‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:
اَلتَّلْقِيْحُ الصِّنَاعِي: هُوَ اِسْتِدْخَالُ الْمَنِيِّ لِرَحْمِ الْمَرْأَةِ بِدُوْنِ جِمَاعٍ. ،فَإِنْ كَانَ بِمَاءِ الرَّجُلِ لِزَوْجَتِهٖ، جَازَ شَرْعًا، إِذْ لَا مَحْذُوْرَ فِيْهِ، بَلْ قَدْ يَنْدُبُ إِذَا كانَ هُنَاكَ مَانِعٌ شَرْعِيٌّ مِنَ الْاِتِّصَالِ الْجِنْسِيِّ،وَأَمَّا إِنْ كَانَ بِمَآءِ رَجُلٍ أَجْنَبِيٍّ عَنِ الْمَرْأةِ، لَا زِوَاجَ بَيْنَهُمَا، فَهُوَ حَرَامٌ، لاِنَّهٗ بِمَعْنَى الزِّنَا الَّذِيْ هُوَ إِلْقَاءُ مَآءِ رَجُلٍ فِي رَحْمِ امْرَأَةٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا زَوْجِيَّةٌ، وَيُعَدَّ هٰذَا الْعَمَلُ أَيْضًا مُنَافِيًا لِلْمُسْتَوَى الْإنْسَانِیِّ ، ترجمہ: ’’ مصنوعی عملِ تولید، یعنی صحبت کےبغیر مادۂ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کےلیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہےتوشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسےشخص کے مادۂ منویہ کے ذریعےکیاجائےجو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ یہ معنوی طورپرزنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔(اَلْفِقْہُ الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہٗ ،ج۴،ص ۲۶۴۹)
علامہ غلام رسول سعیدی اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ ’’بچہ صاحبِ فِراش کا ہے ‘‘ فرماتے ہیں کہ علامہ شمس الدین سرخسی (متوفّٰی ۴۸۳ھ) نے لکھا ہے:’’جس شخص کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو اوروہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے ،تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘ (شرح صحیح مسلم ،ج۳، ص ۹۳۸)۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا مقصدافزایشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے ،چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ:اَنْكِحُوْا أُمَّهَاتِ الْاَوْلَادِ، فَإِنِّي أُبَاهِيْ بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں ان کے سبب قیامت کے دن (دوسری امتوں پر) فخر کا اظہار کروں گا‘‘۔(مسند احمد:۶۵۹۸)
آپؐ کا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے ۔آپؐ کی کئی ازواجِ مطہرات سے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اگر شادی کے بعد کچھ برسوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونےاور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکّل سے کام لینا چاہیےاور اس مقصد کےلیےجائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے۔تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمـًا۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۵۰ ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں میںحکومت اللہ ہی کی ہے ،وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بےحد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔(الشوریٰ ۳۲:۴۹-۵۰)
لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۷ۚ ترجمہ:’’(وہ مومن کامیاب ہوگئے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقیناً وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے) تجاوز کرنے والے ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۲۳:۵-۷)
یہ اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے۔ شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے ، تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجایش رکھی ہے۔ اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے ، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو ، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو، گود لے سکتی ہے ، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، نہ وہ بچہ ان کا وارث بنے گا، البتہ اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں، اور اسے ہبہ بھی کرسکتے ہیں، نیز اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔
سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے۔ اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے :اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحظُوْرَاتِ اور اَلضَّرُوْرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِھَا، ترجمہ:’’ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اور ضرورت کو اُس کی حد کے اندر رکھا جائے‘‘۔ اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔جاوید احمد غامدی بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلّی کے قائل ہیں ۔ فقہ اور اصولِ فقہ تو دُور کی بات ہے ،وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اصولِ شرع کے پابند ہیں۔
rمحترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ قرآن مجید میں بنیادی اقدار، احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، جب کہ احادیث میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر دی گئی ہیں۔ زمانہ گزر نے کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں جو مسائل اور مشکلات پیش آتے ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے علما و فقہا اور اسرارِ شریعت کے ماہرین نے اجتہاد کیا ہے، لیکن ان کا اجتہاد ہمیشہ دین کی بنیادی ا قدار، اساسی تعلیمات اور روح ِ شریعت سے ہم آہنگ رہا ہے۔ مگر ان کے برعکس جن حضرات نے اس سے ہٹ کر اجتہاد کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی آرا پیش کی ہیں جو اساسیات ِدین اور روح ِ شریعت سے متصادم ہوں انھیں امت میں قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا ہے۔
انسان کی تخلیق کا معروف اور متداول فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اتصال ہو۔ اس کے نتیجہ میں مرد سے منی (سپرم) اور عورت سے بیضہ(اووم) نکلتا ہے۔ دونوں کا اتصال و امتزاج عورت کے اعضائے تناسل میں سے قاذف (Fallopian Tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے۔ اس طرح عمل ِ بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر وہ مخلوط نطفہ (Zygote) عورت کے رحم (یوٹرس)میں منتقل ہوجاتا ہے، جہاں دھیرے دھیرے نشوونما پاتے ہوئے ’جنین‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پورے مرحلے کو بہت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۰ۤۖ (الدھر۷۶: ۲ ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے‘‘۔
قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال صرف نکاح کی صورت میں جائز ہے (النساء۴:۱، ۳، ۲۵، ۱۲۷، النور۲۴: ۳۲، الاحزاب۳۳: ۴۹، الممتحنۃ ۶۰: ۱۰)۔ بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو وہ’ زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے ، خواہ اسے علی الاعلان قائم کیا جائے یا چھپ کر، اوراسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے(بنی اسرائیل۱۷:۳۲، النور۲۴: ۲)۔
خلاصہ یہ کہ ’جنین‘ کی تخلیق کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے استقرارِ حمل ہو سکے۔ جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہو، یا کسی وجہ سے مذکورہ طریقہ اختیار نہ کیا جاسکے تو بارآوری اور تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ یہ نقص مرد میں بھی ہو سکتا ہے اور عورت میں بھی۔ مثلاً مرد قوتِ مردی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، یا اس کے مادۂ تولید میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو ِ تناسل (Penis)تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہوں، یا پھر خصیے بے کار ہوں۔ اسی طرح عورت میں کسی نقص کے سبب خصیۃ الرحم (Ovaries)سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں ،یا وہ پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اسے نکال دیا گیا ہو، یااس میں بار آور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ۔
مغرب نے میڈیکل سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ وہاں مذکورہ بالا بہت سے نقائص کا حل نکال لیا گیا ہے اور ان کا متبادل تلاش کر لیا گیا ہے۔ اگر مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم، سب حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہوں، لیکن مرد جماع پر قادر نہ ہو ،یا اس کا نطفہ خصیوں سے عضو ِ تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں، تو اس کے نطفے کو ایک سرنج میں لے کر عورت کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ عورت کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوتا ہے۔ اسے’ مصنوعی تخم کاری‘ (Artificial Insemination) کہا جاتا ہے۔ اگر مرد کے نطفے میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا وہ تولیدی صلاحیت سے محروم ہو، تو ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا نطفہ استعمال کیا جا تا ہے۔ اسے لے کر عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا م کے لیے مغرب میں مادۂ منویہ کے بڑے بڑے مراکز (Sperm Banks)قائم ہیں، جہاں سے کوئی بھی شخص اپنی پسند کا نطفہ خرید سکتا ہے۔
اگر عورت میں ’قاذفین‘ پیدایشی طور پر موجود نہ ہوں، یا بعد میں کسی وجہ سے مسدود ہوگئے ہوں، البتہ اس کا ’بیضہ‘ صحیح سلامت ہو تو اسے اور مرد کا نطفہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک متعین مدت کے بعد عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے’ ٹیسٹ ٹیوب میں بارآوری‘ (In Vitro Fertilization)کہا جاتا ہے۔
اگر عورت کا رحم بالکل ٹھیک ہو اور استقرارِ حمل کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن خصیۃ الرحم میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ خارج نہ ہو رہا ہو، تو کسی دوسری عورت کا بیضہ لے کر اس کے رحم میں منتقل کیا جا تا ہے، یا مرد کے نطفے سے دوسری عورت کا بیضہ اسی کے رحم میں بارآور کرکے، یا دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے ،اس بارآور بیضہ کی تنصیب بیوی کے رحم میں کر دی جاتی ہے۔ اسے’ انتقالِ بیضہ‘ (Ovum implantation) کہا جاتا ہے۔
اگر مرد کا نطفہ اورعورت کا بیضہ دونوں صحت مند ہوں، لیکن عورت رحم کے کسی مرض میں مبتلا ہو، جس کی وجہ سے اس میں ’استقرار ِحمل‘ ممکن نہ ہو تو زوجین کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب میں دونوں کے مادّوں کو ملا کر حاصل شدہ ’جنین‘ کو اس عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ پرورش پاتا ہے۔
اسی طرح بعض عورتیں صحت مند ہونے کے باوجود حمل و رضاعت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں ۔وہ بھی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیتی ہیں۔
ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوی سے بیضہ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ چنانچہ دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے اور پہلی عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کی ’تخم کاری‘ کرکے اسی (دوسری) عورت کے کرایے پر دیے گئے رحم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ اسے’ قائم مقام مادریت‘ (Surrogacy) کہا جاتا ہے۔
مغرب، جہاں کا کلچر خالص مادّیت پر مبنی اور اخلاقیات سے بالکل عاری ہے، وہاں ان تمام طریقوں پر عمل ہورہا ہے اور مر دو عورت کے تناسلی نظام میں پائے جانے والے خِلقی (Congenital) یا اکتسابی (Acquired)نقائص کو دور کرکے بچے پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس چیز نے میڈیکل کی دنیا میں ایک زبردست انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
انسانی پیدایش کے اسلامی ضوابط
اسلام اپنا ایک نظام رکھتا ہے۔ وہ عام حالات میں زندگی گزارنے کے طریقوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور ان میں کوئی دشواری لاحق ہونے پر کام یابی کے ساتھ ان کا حل پیش کرتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں مروجہ مذکورہ بالا طریقوں کو اسلام کی بنیادی ا قدار اور اساسی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ جو طریقے ان سے ٹکرائیں گے وہ کسی بھی صورت میں اس کے نزدیک قابل ِقبول نہیں ہوسکتے، البتہ جو ان سے متصادم نہیں ہوں گے انھیں اختیار کرنے کی اس کی طرف سے اجازت ہوگی۔
اسلام نے توالد و تناسل اور نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے نکاح کو مشروع کیا ہے۔ زوجین کے جنسی اتصال سے رحمِ مادر میں استقرارِ حمل ہوتا ہے۔عورت جنین کو نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کرتی ہے۔ اس طویل مدت میں وہ طرح طرح کی پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ وضعِ حمل کا مرحلہ بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بچے کی پیدایش کے بعد دو برس وہ اسے دودھ پلاتی ہے۔ ان تمام مراحل کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے (ملاحظہ کیجیے: النساء۴:۱، الاعراف۷: ۱۸۹، لقمان۳۱: ۱۴، الاحقاف۴۶: ۱۵)۔
اسی بنا پر ماں کا تذکرہ باپ کے مقابلے میں زیادہ کیا گیا ہے اور اس کی فضیلتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ امومت (motherhood) کا جذبہ ہر عورت میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ ماں بننے کے لیے ہی عورت ان تمام تکلیف دہ مراحل سے ہنسی خوشی گزرتی ہے۔ اب اگر کوئی عورت ان مراحل سے گزرے بغیر ماں بننا چاہے اور حمل اور وضع ِ حمل کے کاموں کے لیے دوسری عورت کی خدمات حاصل کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت کر رہی ہے۔ عورت کو اس کا تو اختیار ہے کہ وہ کسی کی بیوی نہ بننا چاہے تو نکاح نہ کرے اور ماں نہ بننا چاہے تو جنسی تعلق سے احتراز کرے، لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جسم کو سڈول رکھنے ،یا اس کی خوب صورتی کو دیر تک قائم رکھنے ،یا حمل اور وضع ِ حمل کی تکالیف سے بچنے کے لیے دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے اور چند ٹکوں کے عوض اس سے بچہ پیدا کرواکے خود کواس بچے کی ماں بنا لے۔
اگر شوہر کا نطفہ، بیوی کا بیضہ اور اس کا رحم، سب صحیح سلامت اور صحت مند ہیں ،لیکن کسی نقص کے سبب نطفہ و بیضہ کا اتصال،’انسانی تخم کاری‘ اور استقرار ِ حمل ممکن نہ ہو تو قانونی بنیادوں پر نکاح کے رشتے میں بندھے میاں بیوی میں مصنوعی طریقہ ہائے تولید سے استفادہ جائز ہے۔ یہ عمل علاج کی صورت تصور کیا جائے گا، جس کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر شوہر کسی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، لیکن اس کا نطفہ حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہو اوراس میں تولیدی صلاحیت موجود ہو، تو اسے کسی مصنوعی طریقے سے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا، تاکہ وہ بیوی کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوسکے، جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر نطفہ اور بیضہ کا اتصال اور بارآوری فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ممکن نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب میں ان کو بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا جائز ہوگا۔
البتہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ ہرصورت میں نطفہ شوہر کا، بیضہ بیوی کا اور رحم بھی اسی بیوی کا ہو۔ اگر نطفہ شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا حاصل کیا جائے، یا بیضہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لیا جائے ،یا نطفہ اور بیضہ تو زوجین کے ہی ہوں، لیکن دونوں کا استقرار اور جنین کی پرورش کسی اور عورت کا رحم کرایے پر لے کر اس میں کی جائے، تو یہ تمام طریقے اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً ناجائز ہیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱- شریعت میں اس چیز کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے کہ کسی مرد کے نطفے سے ایسی عورت کا استقرار ِ حمل ہو، جس کا اس سے ازدواجی رشتہ نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَایَحِلّ لِامرِیٍٔ یُومِنُ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِأن یَّسقِيَ مَاؤہُ زَرعَ غَیرِہِ (ابوداؤد: ۲۱۵۸) کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (یعنی ماودۂ تولید) سے کسی دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے‘‘ (یعنی غیرعورت سے مباشرت کرے)۔
یہ حدیث اگر چہ استبراءِ رحم کے پس منظر میں آئی ہے۔ یعنی کوئی عورت کسی مرد سے حاملہ ہو تو وضع ِ حمل سے قبل کسی دوسرے مرد کے لیے اس سے مباشرت جائز نہیں، لیکن اس کا عمومی مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی مرد کا نطفہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲- اسلام نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں:
قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ....وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور۲۴: ۳۰-۳۱)(اے نبیؐ!) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
’شرم گاہوں‘ کی حفاظت کا وسیع مفہوم ہے۔ اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ماورائے نکاح کسی طرح کا جنسی تعلق قائم نہ کیا جائے وہیں اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو فطرت کے اصولوں اور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہو۔ رحم کی تخلیق استقرار ِ حمل سے وضعِ حمل تک جنین کی پرورش کے لیے کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ جنین کی تشکیل شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے اتصال اور بارآوری کے نتیجہ میں ہو اور اس کی پرورش بیوی ہی کے رحم میں ہو۔
۳- اسلام میں نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ کہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَکُمْ أَبْنَاءَکُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ (الاحزاب۳۳: ۴) اور نہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ مِن أَعظَمِ الفِرَیٰ أَن یَّدَّعِی الرَّجُلُ اِلٰی غَیرِ أَبِیہِ (صحیح البخاری: ۳۵۹۰) سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرے۔
رحمِ مادر کی کرایے داری سے اختلاط ِ نسب کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔جائز اور قانونی اولاد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیدائش اس عورت کے واسطے سے ہوئی ہو جو اس کے باپ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الوَلَدُ لِلفِرَاشِ (صحیح البخاری:۷۱۸۲، مسلم:۱۴۵۷) بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ( یعنی جس کی بیوی سے)پیدا ہوا ہو۔
اس حدیث کی رُو سے بچہ جس عورت کے بطن سے پیدا ہوگا ،قانونی طور پر اس کا اور اس کے شوہر کا کہلائے گا۔جس مرد کا نطفہ استعمال ہوا ہے اسے اس بچے کو اپنی طرف منسوب کرنے کی شرعی طور پر اجازت نہ ہوگی۔
۴- جو عورت اپنے رحم کو کرایے پر اٹھائے گی اور اسے کسی جوڑے کے بچے کی پرورش کے لیے پیش کرے گی، وہ چاہے شادی شدہ ہو یا بے شوہر کی (خواہ غیر شادی شدہ ہو یا مطلقہ یا بیوہ)، ہر صورت میں معاشرے میں اس پر بدکاری، بدکرداری اور دیگر ناپسندیدہ اور گھناؤنے الزامات لگنے کا قوی اندیشہ رہے گا۔
۵- رحمِ مادر کی کرایہ داری کے جواز کی صورت میں بہت سے خوف ناک اور بھیانک سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوں گے، جن کا تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مغرب میں عملاً ان کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک میں’بچہ سپر مارکیٹس‘ وجود میں آگئی ہیں۔ دولت مند طبقہ کی خواتین ایسی عورتوں کو تلاش کرتی ہیں، جو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے رحم کرایے پر پیش کر سکیں اور غریب طبقہ کی عورتوں کی ایسی فوج تیار ہوگئی ہے، جو اپنے رحم کو کرایے پر اٹھا کر اچھا خاصا کمالیتی ہیں۔ اس چیز نے ایک انٹر نیشنل انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا رخ غریب ممالک کی طرف ہو گیا ہے، جہاں مال دار ممالک کے لوگ سفر کرکے آتے ہیں اور اپنے ممالک کے مقابلے میں کم خرچ پر بچے پیدا کرواتے ہیں۔ اس انڈسٹری کو ’تولیدی سیاحت‘ (Fertility Tourism){ FR 735 } کا نام دیا گیا ہے۔اس معاملے میں بھارت کو سبقت حاصل ہے ، چنانچہ اسے Surrogacy Capital of the World { FR 736 }کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان قباحتوں کی وجہ سے مغرب کے سنجیدہ اور حساس طبقے میں اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اور استحصال سے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
’رحمِ مادر‘ کی کرایہ داری عالم ِ اسلام میں علما و فقہا، دانش وروں اور مجتہدین کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر غور و فکر کا موضوع بنا ہے۔ مشہور فقہا: ڈاکٹر جاد الحق علی جاد الحق (سابق شیخ الازہر مصر)، ڈاکٹر محمد سید طنطاوی (سابق شیخ الازہر)، ڈاکٹر یوسف القرضاوی(قطر) اور ڈاکٹر مصطفےٰ زرقاء (شام) نے اسے حرام قرار دیا ہے (ملاحظہ کیجیے، ڈاکٹر ہند الخولی، مقالہ:تأجیر الارحام في الفقہ الاسلامي، مجلۃ جامعۃ دمشق للعلوم الاقتصادیۃ والقانونیۃ، جلد ۲۷، شمارہ ۳، ۲۰۱۱ء، ص ۲۸۲-۲۸۳)۔ یہ موضوع رابطہ عالم اسلامی کی زیر نگرانی قائم اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ (آٹھواں اجلاس، منعقدہ ۲۸؍ ربیع الثانی تا ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ (۱۹۸۵ء)، اور تنظیم اسلامی کانفرنس کی زیر نگرانی قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ (تیسرا اجلاس، منعقدہ عمان، ۸ تا ۱۳ ؍ صفر ۱۴۰۷ھ (۱۹۸۶ء) میں بھی زیر بحث آیا تھا اور ان میں بھی علما نے اسے بالاتفاق حرام قرار دیاتھا۔
’رحم مادر‘ کی کرایہ داری کو ’رضاعت‘ کے مسئلے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ رحم میں جنین کی تخلیق اور پرورش ہوتی ہے۔ نطفہ و بیضہ کی بارآوری، حمل کا استقرار اور جنین کی پرورش، تمام مراحل میں صرف اس مرد اور عورت کا اشتراک جائز ہے جو نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانا ایک خارجی معاملہ ہے۔ اس کا جواز قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ اس لیے اس پر قیاس کرکے غیرعورت کے رحم کی کرایہ داری کو جائز قرار دینا قطعاً درست نہیں ۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے اس نعمت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے( الشوریٰ۴۲:۴۹-۵۰)۔ جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو اس سے محروم ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے آزمائش سمجھے اور اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھے ۔ نکاح کے بعد اگر کچھ مدت گزر جانے کے باوجود اولاد نہ ہو تو زوجین کو کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے مطلوبہ ٹیسٹ کرا لینے چاہییں۔اگر ایسے معمولی نقائص کا پتا چلے جن کا علاج اور تدارک ممکن ہو تواس کی حتّیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے علاج کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے(ابو داؤد:۳۸۵۵)۔ اگر عورت میں کسی ایسے دائمی مرض کا علم ہو جس کی وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تومرد دوسرا نکاح کر سکتا ہے اوربیوی کو تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بخوشی اس کی اجازت دے دینی چاہیے۔اور اگر کمی مرد میں ہو ،اس کے باوجود عورت بخوشی اس کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو وہ اپنے رشتے کے کسی بچے کو گودلے کر اس کی پرورش کرسکتی ہے۔ اس صورت میںاس بچے کی نسبت تو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہوگی،البتہ یہ جوڑا اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کا اجر پائے گا۔واللہ اعلم بالصواب