نومبر۲۰۲۰

فہرست مضامین

عبدالغفار عزیز بھائی

پروفیسر خورشید احمد | نومبر۲۰۲۰ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

زندگی کے سفر میں گزرنے والا ہرماہ و سال، جانے والے عزیزوں ، دوستوں اور حددرجہ قیمتی انسانوں کی جدائی کا دُکھ دیتا ہےاور باربار زندگی کی ناپایداری کا احساس دلاتا ہے۔ ہرجدائی ایک زخم ہے لیکن کچھ تو اتنے گہرے ہیں کہ ان کی ٹیسیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور گاہے مایوسی کے سائے بھی تعاقب کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جلد ہی خالق کائنات کا حکم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی قدم جما دیتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ ہرفرد نے جانا ہے۔ وہ آیا بھی حکمِ الٰہی سے تھا اور گیا بھی خالق کی مرضی سے ہے۔ اللہ کی حکمت ہی غالب ہے، لیکن چشم کا اَشک بار ہونا بھی انسان کی فطری مجبوری ہے۔

ایسے قیمتی افراد میں بہت سی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔ تاہم، چودھری غلام محمد صاحب مرحوم [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء]کی یاد ہروقت ساتھ رہتی ہے، جنھوں نے تحریک ِ اسلامی کی دعوت کودنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے افریقہ، عالمِ عرب، جنوبی ایشیا، مشرق بعید اور یورپ و امریکا کے لیے بامعنی منصوبہ سازی کی، حالانکہ ا ن کے چوبیس گھنٹے کراچی میں جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے مخصوص تھے۔ چودھری صاحب کے ساتھ جن حضرات نے، ان کے دست و بازو کی حیثیت سے تحریک اسلامی کے پیغام کو دُنیابھر میں پھیلایا، ان کے تذکرے میں محترم مسعود عالم ندوی [م: ۱۶مارچ ۱۹۵۴ء]، محترم عاصم الحداد [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۹ء]اور جناب خلیل احمد حامدی [م: ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء] نمایاں ہیں۔ ان حضراتِ گرامی کی پے درپے جدائی نے دل توڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانۂ غیب سے کوئی نہ کوئی بندوبست فرما دیا۔ اسی ضمن میں میرے لیے چھوٹے بھائی اور عزیز بیٹے کی مانند عبدالغفار عزیز اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئے۔ ان سے رفاقت کا ۳۰برسوں پر پھیلا زمانہ یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے میں سمٹ گیا اور وہ ۵؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اپنے ربّ کے بلاوے پر ہمیں چھوڑ کر، اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

عبدالغفارعزیز بھائی کو یاد کرتا ہوں تو میرے ذہن میں ان کا خوب صورت، صحت مند اور توانا سراپا اُبھرتا ہے۔ ایساسراپا جو خوش خلقی، حُسنِ اخلاق، فروتنی، ہمدردی، لگن، اپنائیت اور جذبۂ دعوت سے سرشار ہے۔ان کی زندگی، خدمات اور کارکردگی پر نظر ڈالتا ہوں تو سورہ آل عمران کی آخری آیت نظروں کے سامنے آجاتی ہے:
 ترجمہ:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے‘‘۔

اس میں اہلِ ایمان کے لیے فلاح کی خوش خبری ہے، مگر چار شرائط کے ساتھ، یعنی صبر، ثابت قدمی، دین کی خدمت کے لیے کمربستہ رہنا اور تقویٰ جو نام ہے مقصد زندگی اور دین کے غلبے کی جدوجہد کے لیے استقامت اور استمرار کا۔ باطل کے مقابلے میں ہم قدم رفقا کے ساتھ مل کر، ایک دوسرے سے بڑھ کر پامردی دکھانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے عبدالغفار عزیز کو صبر، ثابت قدمی، خدمت ِدین کے لیے کمر بستگی، اور تقویٰ___ ان چاروں خصوصیات کے اعتبار سے اللہ کا سچا بندہ اور دین کا مخلص خادم پایا۔

دعوتِ حق اور ایک بندئہ مومن کی کامیابی کی یہ چاروں صفات بے حد اہم ہیں۔ تاہم مَیں دیگر تین اعلیٰ صفات کے ساتھ دعوتِ دین کے کاموں کے لیے کمربستہ رہنے پر خصوصی توجہ کو بہت اہم سمجھتا ہوں، جنھیں بدقسمتی سے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مطالعہ، تحقیق، محنت، تیاری اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اقدامات شامل ہیں۔ اس پہلو سے میں نےعزیزی عبدالغفار میں وہ کیفیت دیکھی، جو تحریک کی بڑی بنیادی ضرورت ہے۔ آج مطالعے، تحقیق، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جو قرآن کا تقاضا اور تاریخ کا مطالبہ ہے۔ مجھے حالیہ تحریکی زندگی میں عزیزی حسن صہیب مراد [م: ۱۰ستمبر ۲۰۱۸ء] اور عزیزی عبدالغفار عزیز میں یہ کیفیت نظرآئی اور مجھے توقع تھی اور ہرلمحہ یہی دُعا تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے دین کی خدمت لے۔لیکن ہوتا وہی ہے جو خالق و مالک کو مطلوب ہے۔ یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے۔ تحریک کی قیادت، نوجوان کارکنوں اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کو اس سلسلے میں بڑی فکرمندی اور عملی کاوش کی ضرورت ہے۔ اللہ کا قانون ہے کہ وہ توکّل اور صبرومصابرت کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور تحقیق و جستجو اور مخالف پر علمی اور عملی برتری کو بھی جدوجہد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرف پوری توجہ دیں۔ عبدالغفار عزیز نے اس سلسلے میں ایک روشن مثال چھوڑی ہے۔

انھوں نے نوجوانی ہی میں، بہت سے روشن معاشی امکانات کو چھوڑتے ہوئے، اور کیرئیر کی قربانی دے کر، اپنا پورا مستقبل تحریک اسلامی کے سپرد کردیا کہ تحریک دین حق کی جدوجہد میں انھیں جہاں اور جس طرح کام کرنے کی ہدایت کرے گی، وہ پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھیں گے۔ ہمارے اس عابد و زاہدبھائی نے واقعی پلٹ کر نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ عبدالغفار عزیز، جماعت اسلامی کے بڑے مخلص رہنما حکیم عبدالرحمان عزیز مرحوم (سابق رکن مرکزی مجلس شوریٰ) کے صاحبزادے تھے۔ گویا کہ انھوں نے تحریک کے ماحول میں آنکھیں کھولیں، لیکن عملاً ان کی ابتدائی تربیت میں براہِ راست جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ ثانوی درجۂ تعلیم کے بعد ان کی فکری، دینی اور تعلیمی تربیت الاخوان المسلمون کے دامنِ محبت میں ہوئی، جب وہ علّامہ محمدیوسف القرضاوی صاحب کے   حلقۂ اثر میں زیرتعلیم تھے اور قطر کی درس گاہوں میں پڑھ رہے تھے۔ اخوان سے گہرے ربط نے ان کی شخصی تعمیر اور صلاحیتوں میں نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ قرآن کریم سے گہرا تعلق اور اذکار و اوراد سے عملی وابستگی ایسی کہ جیسے سانسوں کی آمدورفت، اللہ کی کبریائی اور احسانات کے اعتراف سے بندھی ہو۔ یہ چیز بھی اخوان سے تعلق کا عظیم عطیہ تھا، جسے انھوں نے اپنایا۔ اُردو زبان کا بہترین ذوق، انگریزی پر اچھی قدرت اور عربی زبان وادب سے عشق کی حد تک وابستگی نے ان میں اظہاروبیان کی قدرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔

عزیزی عبدالغفار کی شخصیت کے تحریک اسلامی اور اس کی قیادت سے تعلق کا ایک یادگار واقعہ اس وقت رُونما ہوا، جب بے نظیر صاحبہ کے دورِ وزارتِ عظمیٰ اور جناب نصیراللہ بابر کے  زمانۂ وزارتِ داخلہ میں، بحالی جمہوریت تحریک کے دوران، اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پُرامن ریلی ہوئی۔ ریلی کے بعد میرے گھرسے اسلام آباد پولیس نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی قیادت میں، محترم امیرجماعت قاضی حسین احمد صاحب اور مجھے گرفتار کیا۔ عجیب منظر تھا کہ ہم نہتے افراد کو گرفتار کرنے کے لیے سو کے قریب مسلح پولیس اہل کار، ہمارے گھر اور گھر کی عقبی گلیوں پر قابض تھے۔ جب پولیس ہمیں لے جانے لگی تو عبدالغفار عزیز نے بڑھ کر ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ ’’مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ محترم امیرجماعت کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میں ان کی خدمت کے لیے اختیاری گرفتاری پیش کرتا ہوں‘‘۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عبدالغفار عزیز کو ہمارے ساتھ لے جانے کا حکم دے دیا اور ہمیں سملی ڈیم کے گیسٹ ہاؤس میں لے جایا گیا ، جہاں ہم نے مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ یہ اور بات ہے کہ نصف شب کے بعد ہمیں رہا کردیا گیا، لیکن جس طرح عبدالغفارعزیز نے امیر جماعت کی رفاقت کا حق ادا کیا، اس کا نقش کبھی دل سے محو نہیں ہوسکتا۔

ملّت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات، اسلامی تحریکوں کے معاملات اور کارکردگی پر گہری نظر نے، انھیں ملکوں اور قوموں کی تقسیم سے بالاتر حیثیت دے کر ملّت کا عزیز، ہمدرد اور مددگار بنا دیا تھا۔
مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، مسئلہ شیشان ہو یا تقسیم سوڈان کا المیہ، مشرقی تیمور کی مسیحی تخلیق ہو یااراکان، بوسنیا، کوسووا ، سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی، بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کے رفقا کے لیے پھانسیوں اور قیدوجبر کی کالی آندھی ہو یا بھارت میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زمین، مصرمیں اخوان المسلمون کی جدوجہد، تحریک و انتخابات میں کامیابی اور داروگیر کا سلسلہ ہو یا شام میں  قتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، تاجکستان، ترکی، مراکش، تیونس، الجزائر اور صومالیہ میں تحریک اسلامی کو درپیش چیلنج ہو یا یورپ میں پھیلی ہوئی تحریک اسلامی کی تنظیموں میں رابطہ کاری، ہرجگہ عبدالغفار عزیز ایک تازہ دم، ہمہ تن اور اَن تھک رہبراور مددگار کی حیثیت سے یوں کندھے سے کندھا ملا کر چلتے دکھائی دیتے، کہ جیسے وہ انھی ہم مقصد ساتھیوں کے ساتھ مدتوں سے سرگرمِ کار چلے آرہے ہیں۔
اس ضمن میں وہ قلم سے، تقریر سے، ملاقاتوں سے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مکالموں اور مذاکروں کے ذریعے اور سوشل میڈیا پر تائید و ہمدردی اور ظالم کی مذمت کے لیے میدان میں ہروقت چوکس کھڑے رہتے اور درست موقف پوری قوت سے بیان کرتے ہوئے منظر پر چھا جاتے۔ عالمِ اسلام سے ان کی کمٹ منٹ رسمی نوعیت سے بالاتر اور جسم میں دوڑتے لہو کی مانند تھی۔

عالمِ اسلام کے مسائل اوربحرانوں پر انھوں نے ترجمان القرآن میں نہایت قیمتی مضامین لکھے، جو مصدقہ معلومات اور لکھنے والے کی براہِ راست معاملات کی جڑوں تک رسائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ مضامین مجرد معلومات سے آگے بڑھ کر جذبات کی گرمی اور عمل کی لگن کو بھی انگیخت کرتے۔ وہ مختلف ممالک میں بروئے کار اسلامی تحریکوں کے اندرونی بحرانوں اور تنظیمی مناقشوں کو حل کرنے کی صلاحیت اور بصیرت رکھتے تھے۔ میں نے انھیں مختلف درجات اور حلقوں میں مشاورت کے دوران بے لاگ اور صاف صاف راہِ عمل کی نشان دہی کرتے دیکھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ  وہ حفظ ِ راز اور حفظ ِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔

عالمی محاذ پر پاکستان کے قومی موقف کو پیش کرنے اور پاکستان کے نظریے کا دفاع کرنے اور تاریخ کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی پروپیگنڈے کی تردید کے میدان میں ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ بلاشبہہ انھوں نے پاکستان کے ایک رضاکار سفیر کا کردار ادا کیا۔
نہ صرف ماہ نامہ ترجمان القرآن ، بلکہ تحریک اسلامی نے عالمی سطح پر ان کی شخصیت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں مگر یہ اللہ کی مرضی کہ عبدالغفار عزیز بھائی ربّ کے بلاوےپر لبیک کہتے ہوئے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم سے رخصت ہوگئے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کی رحلت سے جو خلا واقع ہوا ہے، اسے پُر کرنے کا انتظام فرمائے، آمین!