رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تولوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خداتھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کاکیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیاہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل وصورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم وزیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکا اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جولوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا، ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتاہے!
’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷)
سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے ۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶) نبی اسرائیل کی سیاست، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے۔ جب کوئی نبی انتقال کرجاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے، اورمیرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میںدو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیارکریں، یعنی دنیاسے کنارہ کشی کریں۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھناچاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ جو ’’خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کودو‘‘۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ؐ نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے۔ اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کے لیے ہے، باقی سارے انسان اس کے بندے اورغلام ہیں۔ آپ ؐ نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا:
وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۸۴ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) وہی خدا جوآسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴)جس نے پیدا کیا ہے، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ۔
چوںکہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔
lمستشرقین کی غلط فہمی: بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں: Mohammad at Mecca اور Mohammad at Madeena پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی ، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے(محمد پرافٹ اینڈ سٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء)۔یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اورسیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کااقتدار واختیار الگ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیںکرسکتے۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کودیکھا۔
اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) بھی معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا:’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انھوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں.... [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے‘‘ (A Study of History ،ج۳، ص ۴۷۱، ۱۹۶۱ء)۔اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر، رسولِ کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے۔
اس ڈگر میں استثناء مائیکل، ایچ ہارٹ کاہے کہ جب اس نے انسانی ’تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں‘ کے حالات لکھے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں‘‘۔(The 100، ص۳۳)
lدین و دُنیا کی یکجائی: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دی تو پہلے دن سے یہ بات ظاہر کردی تھی: سجدہ بھی خداہی کو کیاجائے گا اور حکم بھی خدا ہی کامانا جائے گا، اور اقتدار بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کاتسلیم کیاجائے گا۔ جواب میں کفار نے آپ کی شدید مخالفت کی۔ پتھر برسائے، گالیاں دیں، جان لیوا حملے کیے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جاری رکھی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت ان کفار نے حضرت ابوطالب سے کی جو آپ کے چچاجان تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں ورنہ یہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کو ایک جواب دیا اور فرمایا:
کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْـــطُوْنِیْہَا تَمْـــلِکُوْنَ بِہَا الْــعَرَبَ وَتُدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَـجَمُ (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۳، ص۲۷، دارالفکر) میں تم سے ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں۔ اگر اس کو کہہ دوگے تو تم عرب کے اقتدار کے مالک ہوجاؤگے اور تمھاری باج گزاری عجم کے لوگ بھی کریں گے۔
یعنی جو کلمہ میں تم سے کہلوانا چاہتا ہوں اس کلمے میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار عرب کا ہو یا عجم کا ہو وہ تمھارے قبضے میں آجائے گا۔ کفار کی نمائندگی ابوجہل کررہاتھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اے بھتیجے! ایسا وہ کون سا کلمہ ہے جو تم ہم سے کہلوانا چاہتے ہو؟ ایسا ایک نہیں ہم دس کلمہ کہنے کے لیے تیار ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو لاالٰہ الااللّٰہ اوراس کے علاوہ تمام بتوں کی پرستش چھوڑ دو۔ کفار یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے۔ ابوجہل نے کہا :
اَتُرِیْدُ یَا مُحَمَّدُ اَنْ تَجْعَلِ اْلآلِہَۃَ اِلٰــــہًا وَاحِدًا اِنَّ اَمْرَکَ لَعَـجَبٌ (ایضاً) اے محمدؐ! کیسی بات کرتے ہو، ہم لوگ متفرق بتوں کوپوجنے والے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارے دیوتاؤں کوچھوڑ کر ایک خدا کومان لیں؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔
کفار مکہ کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی دعوت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم ایک خدا کومان لوگے، تو صرف آخرت میں جنت ہی نہیں ملے گی بلکہ دنیا کا اقتدار بھی تمھارے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا کااقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں تھاجو ظالم تھے، اور کمزوروں کا استحصال کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین کے ساتھ بھیجا اس میں نہ صرف آخرت کی کامیابی اور سعادت شامل تھی بلکہ انسانوں کی دنیاوی راحت اور سعادت بھی شامل تھی۔ مگر کفار نے اپنا عناد جاری رکھا۔ کفار کی مخالفت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت پر قائم رہے یہاں تک کہ آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی توکفار مکہ نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے لائے گا، اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر ہے۔ بہت سے لوگ آپؐ کے تعاقب میں دوڑے۔ دوڑنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا نام سراقہ بن مالک تھا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اس وقت آپ غارثور میں تھے۔ پتھریلی زمین میں اس کا گھوڑا دھنس گیا۔ اس نے محمدؐ سے دعا کی درخواست کی، آپؐ کی دعا سے اسے مصیبت سے نجات ملی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کَیْفَ بِکَ یَاسُرَاقَۃُ اِذَا تَسَوَّرْتَ بِسِوَارَیْ کِسْرٰی، سراقہ وہ دن کیسا ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے؟ اس کویقین نہیں آیا۔ انھوں نے کہاکہ کیا کسریٰ بن ہرمز کا کنگن میرے ہاتھوں میںہوگا؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ ہاں کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے(السیرۃ الحلبیہ، از علی بن الحلبی،ج۲، ص۴۵، بیروت)۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا۔ مالِ غنیمت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کا کنگن بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور کسریٰ کا کنگن ان کے ہاتھ میں پہنایا اور ان سے فرمایا: کہو:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَہُمَا مِنْ کِسْرٰی بْنِ ھُرْمُزَ الَّذِیْ کَانَ یَقُوْلُ اَنَـا رَبُّ النَّاسِ (السیرۃ الحلبیہ) تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے یہ کنگن کسریٰ سے چھین لیے جو یہ کہتاتھا کہ میں لوگوں کا پروردگار ہوں۔
عَصَیْبَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَفَتَتِحُوْنَ اَلْبَیْتَ الْاَبْیَضَ بَیْتَ کِسْریٰ (مسلم، کتاب الامارۃ: ۳۴۸۶) مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے دارالحکومت کو فتح کرلے گی۔
کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور رستم کی جگہ ایک مسلم حکمراں وہاں حکومت کرے گا۔ جس طرح لوگوں کو سورج کے نکلنے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح صحابہ کرامؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر یقین تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ وہ کلمہ طیبہ جس کے لیے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکالا جارہا ہے، ہمارے اصحاب کو گھروں سے نکالا جارہا ہے اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کیاجارہا ہے،ایک وقت آئے گا کہ صرف مکہ ہی فتح نہیں ہوگا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی شہنشاہیت ایران یا عجم یاکسریٰ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ ہجرت پر روانگی کے وقت آپ ؐ نے دعا فرمائی :
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اے رب! اگر تو داخل کرے تو سچائی کے ساتھ اور اگر مکہ سے نکال رہا ہے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت اور ہجرت سے واضح کردیا کہ اقتدار اللہ کا ہے اوراس کے صالح بندے اس اقتدار کے حق دار ہیں۔ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۱۰۵ (الانبیاء۲۱:۱۰۵) ’’زمین کے اقتدار کے وارث نیک بندے ہوں گے‘‘۔ مکہ میں مومنوں کو ایک طرف بہت مارا گیا اور دوسری طرف مداہنت کی کوششیں بھی کی گئیں۔ کفار چاہتے تھے کہ کچھ آپؐ جھک جائیں اورکچھ ہم جھک جائیں، لیکن آپ ؐ نے شرک کی آمیزش کوقبول نہیں کیا۔
اس نظام کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر جس ریاست کی بناڈالی اس کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں: ’’۱۲؍ربیع الاول پہلی ہجری،۱۴ستمبر ۶۳۳ء کو جس اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی تھی، وہ دوسری دنیاوی سلطنتوں اور حکومتوں اور ریاستوں کی مانند ایک اور دنیاوی ریاست یا حکومت نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مثالی ریاست اور قابل تقلید حکومت تھی، جس کی بنیادیں خدائے قادر مطلق کی حاکمیت اعلیٰ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت خداوندی، امت مسلمہ کی اخوت و مساوات اور احترام ومحبت،بنی آدم کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم کی گئی تھیں۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اسلامی ریاست وحکومت کو اپنی تمام تر پیش رو اور جانشین حکومتوں اور ریاستوں میں ممتاز کرتی ہیں‘‘(عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، محمد یاسین مظہر صدیقی، ص ۲۱)۔
l سیاسی حکمت عملی:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے چار پہلو تھے:
l پہلا یہ کہ مشرکوں کی مخالفت کے اس طوفان میں عفو ودرگزر کیجیے، وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْـرِکِیْنَ۔ جتنی پریشانیاں آتی ہیں، جتنے طنز کے تیر چلتے ہیں ان کو نظر انداز کیجیے، ان کی دشنام طرازیوں کو نظرانداز کیجیے۔ کفار جو اذیتیں آپ کودیتے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرسکیں تو پھر اس دعوت کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنے آپ کو مومن کہناسود مند نہیں ہوگا۔
l رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مشرکوںکے ظلم پر صبر کیجیے۔ پتھر کے جواب میں پتھر نہیں برسانابلکہ اولوالعزم رسولوںؑ کی طرح صبر کرناہے:
فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۰ۭ (الاحقاف۴۶: ۳۵) آپ صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کیجیے۔
چنانچہ آپ ؐ نے خود بھی صبر کیا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ سمیہؓ کو ایذا دی جارہی تھی۔ آپؐ وہاں سے گزرے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپ ؐ نے ان مظلوموں کو دیکھااور فرمایا: آلِ یاسر صبر کرو، جنت کاوعدہ ہے (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۱،ص ۳۴۲)۔کفار مکہ کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور خون مسلمانوں کابہہ رہا تھا۔ آپ ؐ نے تلوار کامقابلہ صبرسے کیا۔
l آپؐ کی سیاسی حکمت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرو، اگر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ہے تو اللہ کی دوسری زمین کشادہ موجود ہے:
وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً۰ۭ (النساء۴: ۱۰۰) جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ منفعت اور وسعت پائے گا۔
l چنانچہ صحابہ کرامؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نجاشی کے ملک میں جاکر پناہ لی۔ پھر دوسری مرتبہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور وہاں جاکر زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب کفار نے مسلمانوں کو نہیں بخشااور مدینہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اب مسلمانوں کو ہاتھ اُٹھانے کا حق مل گیا ہے اور ان کو اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکمت عملی کا چوتھا پہلو تھا:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ (الحج ۲۲:۳۹)جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، جن لوگوں کو ان کے گھروںسے نکالا گیا ہے، جن کو ماراپیٹا گیا ہے صرف اس لیے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک پر یقین رکھتے ہیں، ان کو آج اجازت دی جارہی ہے کہ وہ بھی ہتھیار اُٹھالیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کے یہ چار پہلو تھے، جن کے ذریعے آپ ؐ نے دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں اللہ کی حکومت، اللہ کی عبادت اور اس کی حاکمیت کو نافذ کیا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظریۂ حکومت دیا، اس میں قانون سازی کاحق صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے۔ انسان اس کا اتباع کرنے کامجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۸ (الجاثیہ۴۵: ۱۸) ہم نے ایک ایسا نظامِ قانون، ایک ایسی شریعت اور ایک ایسا دستور آپ کو دیا ہے جس کا اتباع کرنا ہے اور نادانوں کے اتباع سے پرہیز کرنا ہے۔
قرآن کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے دستور حیات لے کرآئے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے قوانین ہیں وہ خواہشات ، تجربات اور امیدوں پر مبنی ہیں۔ یہ غلطیوں کامجموعہ بھی ہوسکتے ہیں اور اچھائیاں بھی جزوی طور پر شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسا نظام قانون ہے جواللہ کی طرف سے منزل ہے اور جس کا کوئی جز غلط نہیں ہوسکتا اور انسانوں کے لیے مضر نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی کاحق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کونہیں دیا بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ اس سیاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بنیاد تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ پیغام بھی آپ ؐ نے لوگوں کو پہنچایا :
وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ (الطلاق۶۵:۱) اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اگر پابندی نہیں کروگے تو تم اپنے آپ پر ظلم کروگے۔
اللہ کی شریعت اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرکے آج کا انسان ایک ظالمانہ نظام قانون کے اندر جکڑ گیاہے۔ جوقانون اللہ کے قانون سے ٹکراتا ہے وہ انسان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَـا اَحَبَّ وَکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَاطَاعَۃَ (صحیح البخاری، کتاب الاحکام) ہر مسلمان پر اپنے حاکم کی بات سننا اور ماننالازم ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا حکم نہ دے۔ اگر وہ گناہ کاحکم دیتا ہے تو سننا اور ماننا واجب نہیں۔
یعنی اللہ کی نافرمانی میںکسی انسان کی فرماں برداری نہیںکی جاسکتی۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیاردیا گیا ۔ یہی اصل قانون ساز اور شارع ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۷ (الحشر۵۹: ۷) اللہ کے رسول جو کچھ دیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے تم رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نائب ہے۔ حضرت آدم کے متعلق فرشتوں سے کہا: اِنِّیْ جِاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ ۲:۳۰) ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والے ہوں‘‘۔خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قانون کو رد کرکے اپناقانون نہ چلائے بلکہ اپنے مالک کے قانون کودنیا کے اندر نافذ کرے۔ لہٰذا انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس مالک کاحکم مانے اور اس کے حکم کو زمین میں نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ حکمران اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپناحکم چلانے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا کے اندر نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۴۴ (المائدہ ۵: ۴۴)جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۵ (المائدہ ۵: ۴۵) جولوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔
گویا، اللہ کے قانون کے برخلاف اپنا قانون چلانا۔ اللہ کے نظام کوچھوڑ کر اپنا نظام چلانا، ظلم وزیادتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دیا اس کے اندر شخصی خواہشات اور شخصی حکم کی جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کواور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کونافذ کرنے کابنیادی طور پر فلسفہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ (النساء۴: ۵۹)اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکمراں کی اطاعت کرو۔
حکمراں کی اطاعت اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہے۔ یہی وجہ ہے جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو، وہاں حکمراں کوقانون سازی کا اختیار دیاگیاہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کویمن کاگورنر بنایا تو ان کورخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤتوکیاکروگے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤتوکیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروںگا اور اس میں کوتاہی نہیں کروںگا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ)
l مشاورت و شورائیت:اس نظام میں ’شورائیت‘ کو حکومت کرنے کا اصول قرار دیاگیاہے۔ آمریت کی جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شورائیت کوپسندفرمایا۔ مسلمانوں کا نظام حکومت آمریت پر مبنی نہیں ہوگا، شورائیت پر مبنی ہوگا۔ قرآن میں ہے، وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ’’مسلمانوں کے معاملات شوریٰ سے طے ہوں گے، مشورے سے چلیں گے‘‘۔ یعنی حکومت سازی کے اندر اورکاروبار حکومت کوچلانے کے لیے تمام اہل الرائے کی شرکت ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق حکم چلائے، باقی سب لوگ سرجھکاکر اس کی اطاعت کرنے لگیں۔ دوسرا اصول آزادی پر مبنی ہے۔ اس نظام میں ایسا نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ غلام ہوں گے اور کچھ لوگ آزاد ہوںگے بلکہ تمام انسان مساوی ہیں، کسی کوکسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اللہ نے تمام انسانوں سے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۳) لوگو تم کوہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھارے قبیلے بنائے، تمھاری برادریاں بنائیں تاکہ تم باہم متعارف ہوسکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں بہتر وہ ہیں جو خدا ترس ہیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر افضل ہیں اورکچھ لوگ پیدائشی طور پر ارذل۔ حقیقی عزت والے اللہ کی نظر میں وہ لوگ ہیں، جن کے اندر خداترسی اورخشیت اور انابت ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ گویا فضیلت کا معیار تقویٰ ہے، ذات اور برادری نہیں۔ انسانوں کے مابین مساوات کاآخری مرتبہ اعلان آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَـجَمِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ (فتح المنعم بشرح صحیح المسلم) تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کوکسی گورے پر، نہ کسی گورے کوکسی کالے پر سوائے تقویٰ کے۔
جن لوگوں میںخداترسی زیادہ ہے، وہ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ بلند ہیںاور جن میں خداترسی نہیں ہے، جو خدا سے نہیں ڈرے ان سے انسانوں کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر سارے انسان برابر ہیں تو سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی، عمل کی آزادی،فکر کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایک موقع تھا کہ مصر کے گورنر کی شکایت ایک بدو نے حضرت عمرؓ کے سامنے کی کہ انھوں نے ناحق ان کومارا ہے۔ آپ نے انھیںبلایا اور بہت تاریخی جملہ فرمایا، آپ نے فرمایا:
مُذکَمْ تعَبَّدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أُمَّھَاتُھُمْ اَحْرَارًا؟ (کنزالعمال، ج۱۲،ص ۶۶۱) کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے۔ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔
یہ آزادی انسان کابنیادی حق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو مجمع عام میں ایک شخص ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بتادیں کہ سب کو مال غنیمت میںایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کودوچادریں کیوں ملیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بیٹے عبداللہ کی چادر حاصل کی ہے۔ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گواہی دی (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ، ج۲،ص ۵۶، مصر)۔یہ نظام قانون، یہ مساوات، یہ آزادی اورحریت دنیا کونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی۔
l عدل و انصاف:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کا تیسرا اصول یہ تھا کہ کسی انسان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ انصاف وہ قدر ہے کہ جس کے اوپر آسمان وزمین قائم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام سیاست کا یہ آفاقی اصول دیا:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا ۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ (المائدہ۵: ۸)کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
اسلام انسانوں کے درمیان منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو نظام حکومت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا، اس کی اساس مساوات ، آزادی اور انصاف پر قائم ہے۔ جہاں بھی اسلامی حکومت ہوگی اس کابنیادی فرض ہوگا کہ وہ انسانوں کوانصاف عطاکرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کے زمانے میں انصاف کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔
l انسانی حقوق کا تحفظ:اللہ کے رسول نے جو نظام سیاست دنیا کو دیا اس کا چوتھا اصول یہ تھا کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کی جائے۔ انسانی حقوق کوضائع نہ ہونے دیاجائے۔ جس کاجو حق ہے وہ حق اس کو عطا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا، لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (صحیح البخاری، کتاب العلم:۶۷) تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے اوپر حرام ہے اور ان کی حرمت کیسی ہے؟ جیسے آج کادن،آج کا شہر اورآج کا مہینہ۔ جولوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم دوسروں تک پہنچادیں۔
مکہ مکرمہ ، ذی الحجہ کا مہینہ اور یوم النہر کا جو تقدس ہے، اسی طرح انسانی جانوں اور مالوں کاتقدس ہے اور انسانی عزتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ دنیا میں ناحق نہ کسی کا خون بہایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کامال کھایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کی عزت لی جاسکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام حکومت دنیا کودیا وہ ایک رفاہی نظام تھا۔ آمریت کانظام نہیں تھا اور ظلم واستحصال سے پاک تھا۔ اس میں ہر شخص خواہ وہ عورت ہو ، مرد ہو، غلام ہو، غریب ہو، نادار ہو، ان کے حقوق کی رعایت کی جاتی تھی۔ آپ ؐ نے فرمایا:
السَّاعِیْ عَلَی الْاَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (صحیح البخاری، کتاب النفقات: ۵۰۴۴) بیواؤں اور ناداروں کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
یہ تو زندہ انسانوں کی خدمت وراحت کے بارے میں فرمایا۔ مُردہ انسان کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دِیْنٌ وَلَمْ یَتْرُکْ وَفَائً فَعَلَیْنَا قَضَاؤُہٗ وَمَنْ تَرَکَ مَالًا مَلِوَرَثَتِہٖ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض: ۶۳۶۲) جوشخص مرگیا اوروہ قرض دار تھا تو اس کا قرض میں ادا کروںگا، اورجوشخص مال چھوڑ کر مرا تواس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا۔
کیا دنیا میں کوئی مثال اس حکومت کی ملے گی کہ مرنے والا اگر قرض دار ہو تو اس کے قرض کی ادایگی حکومت کرے گی؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفاہی حکومت قائم کرنے کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان کواسلام لانے کی دعوت دی اور اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی تابع داری کرنے کی نصیحت کی۔ کیوںکہ یہ ایک مثالی حکومت تھی اور دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ تھی۔ چنانچہ حسب ذیل بادشاہوں کے پاس اپنے سفیروں کوبھیجا۔ قیصرروم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ کو بھیجا۔ ایرانی شہنشاہ کسریٰ کے پاس عبداللہ ابن حذافہ السہمیؓ کوبھیجا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر و بن امیۃ الضمریؓ کوبھیجا۔ غسان کے بادشاہ حارث بن شمر کے پاس شجاع بن وھب الاسلمیؓ کوبھیجا۔ یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کے پاس سلیط بن عمرو العامریؓ کوبھیجا۔ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس العلاء بن حضرمی ؓ کوبھیجا۔ عمان کے بادشاہ جیفر اور عبد (دونوں بھائی) کے پاس عمرو بن العاصؓ کو بھیجا۔(سیرۃ النبی ؐ، ابن ہشام، ج۴، ص ۲۷۸)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سفیروں نے نہایت جرأت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان بادشاہوں کے سامنے رکھا، اور ان کو دین اسلامی اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے کی دعوت دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیروںکا یہ پیغام بین الاقوامی سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی میں رقم طراز ہیں:
جس ملک میں کبھی کوئی حکومت ہی قائم نہیں ہوئی تھی اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دستور مملکت مرتب کیا اور جونظامِ حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہرطرح کارآمد و کافی ثابت ہوا بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی (ص۱۵)۔
l جواب دہی کا احساس:اس نظام حکومت کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمہ داری اور جواب دہی کا تصور پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:
اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ(صحیح البخاری،کتاب الاحکام) یاد رکھنا تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص کو اپنی زیر نگرانی رعیت کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دینا ہے۔
امت مسلمہ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز دیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
جولوگ صاحب ِاختیار اورصاحب ِاقتدار ہیں، وہ خود کو اس دنیا کا مالک نہ جانیں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ امانت دارہیں اور اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اگر حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے تو دنیا کے اندر امن قائم ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جلوہ دنیا کو نظر آجائے۔
آج لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کی بات نہیں کرتے۔ ہرشخص کواس کا حق چاہیے لیکن اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے آدمی کتراتا ہے۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر انسان نظر رکھے۔ یعنی حکمراں ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے، اگر وہ رعایا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگیں بھی ہیں، معاہدے بھی ہیں، امن بھی ہے، بین الاقوامی تعلقات بھی ہیں، ان کو پڑھیے اور دیکھیے کہ آپ ؐ نے غیرمسلم دنیا کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کن اصولوں پر معاملہ کیاتھا؟ آج دنیا میں بے اصولی پائی جاتی ہے۔ نہ جنگ میں اصول ہے، نہ صلح میں اصول ہے، نہ امن میں اصول ہے اور نہ معاہدوں میں اصول ہے۔ کسی چیز میں اصول کی پابندی نہیںکی جاتی ہے،پابندی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ اپنا مفاد ہے۔ اگر مفاد ہو تو امن کی بات آدمی کرتا ہے اور اگر مفاد نہ ہو تو جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مفاد کی خاطر معاہدے توڑ دئیے جاتے ہیں، غداری کی جاتی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایسا نظام دیاجس میں ذاتی مفاد کی جگہ عام انسانوں کا مفاد اور اس سے بڑھ کر اللہ کی مرضی کو سربلند کرنے کی کوشش کی گئی۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’سیاست کومفاد اور اغراض کے بجائے اخلاق کے تابع کرنا اوراسے خداترسی وپرہیزگاری کے ساتھ چلانا اس ریاست کی اصل روح ہے۔ اس میں فضیلت کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے کارفرماؤں اور اہلِ حل و عقد کے انتخاب میں بھی ذہنی وجسمانی صلاحیت کے ساتھ اخلاقی پاکیزگی سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اس کے داخلی نظام کا بھی، ہر شعبہ دیانت وامانت اور بے لاگ عدل و انصاف پر چلنا چاہیے اور اس کی خارجی سیاست کوبھی پوری راست بازی، قول وقرار کی پابندی، امن پسندی اوربین الاقوامی عدل اورحسن سلوک پر قائم ہونا چاہیے‘‘۔(خلافت و ملوکیت، ص۵۴)
اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنالیں، ان کے حکمران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کواپنائیں اور ان کے علما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ان کے تجار رسولؐ کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے طلبہ ، اورعوام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے پیغام کو دنیا تک پھیلانے کی کوشش کریں، تو یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا سے بدامنی کم ہوگی، جہالت کی تاریکی دور ہوگی اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکمران مطلق نہیں بنایا بلکہ اس کو امین بنایا، اس کوقانون کا پابند بنایا۔ اللہ کی خشیت اور ذمہ داری اور جواب دہی سے جوڑا۔ اگر انسان جواب دہی اور اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت شامل ہوجاتی ہے اور جو شخص خواہش کی بنیاد پر حکومت طلب کرے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کبھی حکومت کی تمنا نہ کرنا ،اگر تمنا کرنے سے یا خواہش کرنے سے تم کو اقتدار ملے گا تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے، اور اگر تمھاری خواہش کے علی الرغم تم کو دی جائے تو اللہ کی مدد تمھارے اوپر آتی ہے(صحیح البخاری)۔چنانچہ جولوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرتے ہیں اللہ کے بندوں کواللہ سے جوڑنے کے لیے، اللہ کے حقوق پہنچانے کے لیے، انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے حکمرانی کرتے ہیں وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وشریعت کی پابندی کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں، اپنی خواہشات کا اتباع کرواتے ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوسوں دُور ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روحانیت بھی ہے اور اخلاق بھی، عبادت بھی ہے اور سیاست بھی،معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیامیں نافذ کرنے کی جدوجہد بھی ہے۔ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی گزارنے کا اسوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے :
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِـمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰل عمرٰن۳: ۲۶) اے اللہ حکومت کامالک! تو جسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اورجسے چاہے ذلت دے، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔