عطا بن یسار (م:۱۰۳ھ)مشہور تابعی اور راویٔ حدیث ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ملاقات کی اور پوچھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں بیان ہوئی ہیں وہ مجھے بتلائیے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ توریت میں بھی موجود ہیں اور وہ صفات یہ ہیں:
اے نبیؐ! ہم نے آپ کو گواہ بناکر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اہل عرب کے لیے پشت پناہ بناکر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل یعنی اللہ پر بھروسا کرنے والا رکھا ہے۔ نہ آپ تندخو ہیں، نہ سخت مزاج ہیں، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی روح قبض نہیں کریں گے جب تک کہ آپؐ کے ذریعے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں اور وہ لاالٰہ الا اللہ کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کے ذریعے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کوکھول دے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ الصخب فی الاسواق)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توریت کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے، ان سے ملتی جلتی آیات قرآن میں اس طرح وارد ہوئی ہیں: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۴۶ (الاحزاب۳۳:۴۵-۴۶) ’’اے نبیؐ! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے‘‘۔
مذکورہ آیات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ آپؐ شاہد یعنی گواہ ہیں۔ دوم یہ کہ آپؐ جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ سوم یہ کہ آپؐ دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں ۔ چہارم یہ کہ آپؐ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ آپؐ روشن چراغ ہیں ۔ اسی طرح سورۃ الفتح میں کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۸ۙ (الفتح۴۸: ۸) ’’بے شک ہم نے آپؐ کو شاہد اور مبشر اور نذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کی طرف سے دنیا میں بھی گواہ ہیں اور آخرت میں بھی گواہ ہوں گے۔ دنیا میں آپ کی شہادت کاحوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں اہل عرب سے کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۱۵ۭ (المزمل۷۳: ۱۵) ’’ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تمھارے اوپر گواہ ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا‘‘۔
دوسری جگہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ۲: ۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے تم لوگوں کو معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں‘‘۔
لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دو طرح کی ہے۔ ایک قولی شہادت اور دوسری عملی شہادت۔ قولی شہادت یہ ہے کہ آپؐ نے آغاز نبوت سے لے کر وفات تک خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی گواہی دی، اس کے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا اور اس کے سوا کسی کو خالق ومالک نہیں مانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خلاقیت اور الوہیت کے ساتھ فرشتوں کی عبدیت اور معصومیت، انبیائے سابقین کی حقانیت، آسمانی کتابوں کی صداقت، حیات بعدالموت کی حقیقت، جنت وجہنم کی واقعیت اور جزا وسزا کے برحق ہونے کی گواہی دی۔ اسی طرح اللہ کے دین، شریعت اور احکام کی گواہی دی اور اس کے حلال وحرام کے ضابطوں اور قضا وقدر کے فیصلوں کی گواہی دی۔
دنیا کی طرح آخرت میں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں گے۔ آخرت کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں ایک جگہ کہا گیا ہے: وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ (النحل۱۶: ۸۹) ’’اور جس روز ہم ہراُمت میں ان کے اندر سے ایک گواہ اٹھائیں گے جو ان پر گواہی دے گا اور اے محمدؐ آپ کو ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے‘‘۔
دوسری جگہ قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ (النساء۴: ۴۱)’’وہ منظر کیسا ہوگا جب ہم ہرامت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپؐ کو ان تمام لوگوں پر گواہ بناکر کھڑا کریں گے‘‘۔
آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی امت کے اعمال پر بھی ہوگی اور انبیائے سابقین کی امتوں پر بھی ہوگی۔ اس کی تفصیل متعدد روایات میں وارد ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ تم قرآن کی تلاوت کرکے سناؤ۔ انھوں نے عرض کیا کہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سناؤں؟ رسولِ کریم ؐ نے جواب دیا: ہاں، تم پڑھو اور میں سنوں گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ النساء کی تلاوت کرنی شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے: فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس کرو۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حضوؐر آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب قول المقری للقاری حسبک)۔
تیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کفروشرک، نفاق ،الحاد اور نافرمانی پر اللہ کے غضب اور عذابِ جہنم سے ڈراتے ہیں۔ یہ دونوں صفات تمام انبیا ؑ میں مشترک ہیں۔ سارے انبیاؑ لوگوں کو کفروشرک اور بُرے اعمال کے انجام سے ڈراتے تھے اور عقیدۂ توحید اور اچھے اعمال کرنے پر جنت کی بشارت دیتے تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۰ۚ (الکہف۱۸: ۵۶)’’ہم رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نبی بناکر بھیجتے ہیں‘‘۔دوسری جگہ ارشاد ہے:رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء۴: ۱۶۵)’’ہم نے رسول بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کو اللہ پر حجت کرنے کا موقع نہ ملے ‘‘۔
دوسری جگہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے:اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۰ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌ۲۴ (الفاطر۳۵: ۲۴)’’بے شک ہم نے آپؐ کو برحق بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو‘‘۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بشارت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ آپؐ لوگوں کو مایوس اور متنفر نہیں کرتے تھے بلکہ امید، شوق اور یقین پیداکرتے تھے۔ اللہ کی رحمت اور جنت کی بشارت دیتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے تومیں ان میں پہلا شخص ہوں گا، جب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف وفد کی شکل میں جائیں گے تو میں ان کا متکلم ہوں گا، اور جب لوگ مایوس ہوجائیں گے تو میں ان کو خوشخبری دوں گا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ وہ خوشخبری دینے والے بنیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ان کو ہدایت کی: انطلقا فبشرا ولاتنفرا و یسرا ولا تعسرا، تم دونوں (یمن) جاؤ اور خوشخبری سناؤ، نفرت نہ پیدا کرو، آسانی فراہم کرو اور دشواری میں نہ ڈالو۔ (معجم طبرانی بحوالہ تفسیر ابن کثیر، سورئہ احزاب: ۴۶)
انبیائے سابقین بھی اپنی قوموں کے لیے بشیر ونذیر تھے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے بشیر ونذیر ہیں۔ چوںکہ آپؐ آخری نبی ہیں اور رہتی دنیا تک آپؐ ہی کے پیغام کو لائحہ عمل بننا ہے، اس لیے آپ کی انذار اور تبشیر کی صفت کو نمایاں کرکے بیان کیا گیاہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (السبا۳۴:۲۸)’’ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔ یعنی گذشتہ انبیائے کرام ؑ وقتی اور زمانی طور پر بشیر ونذیر تھے، جب کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم دائمی اور آفاقی طور پر بشیر ونذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو صحیفۂ ہدایت قرآن کریم عطا کیا اور اسے صاف ستھری آسان زبان میں نازل کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اسے خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے استعمال کریں اور آپؐ کے بعد لوگ قرآن سے بشارت حاصل کریں اور خوفِ خدا اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم۱۹: ۹۷)’’بے شک ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان پر آسان کردیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے خدا ترس لوگوں کو خوشخبری دیں اور جھگڑالو قوم کو اس کے ذریعے ڈرائیں‘‘۔
اس کے برخلاف حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص قوم یا محدود زمانے کے لیے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور آخری زمانے تک کے لیے داعی بن کر آئے۔ ان کی دعوت قیامت تک کے لیے کافی ہے۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اسی لیے ان کا لقب ’نبی آخر الزماں‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دائمی اور عالمگیر دعوت کا اعلان کرنے کے لیے فرمایا:قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۱۵۸ (اعراف۷: ۱۵۸) ’’اے محمدؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کی بادشاہت ہے آسمانوں او رزمین میں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سارے کلام پر اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت یاب ہو‘‘۔
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے، اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بھی تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ کسی قوم یا ملک کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ لہٰذا ان کی دعوت کو قبول کرنا صرف ایک نبی کی دعوت کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کو قبول کرنا اور ان کے بتائے ہوئے راستہ کو اختیار کرنا ہے۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ داعی نہیں تھے کہ ان کے دل میں لوگوں کے عقیدہ وعمل کو درست کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، اور وہ اس کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس آفاقی دعوت کے لیے کھڑا کیا اور اس جوکھم بھرے کام کے لیے ان کو منتخب کیا۔ اسی لیے داعیًا الی اللہ کے ساتھ باذنہ کا لفظ بھی شامل کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا والوں کو توحید کی دعوت دینے پر صرف مامور نہیں کیا بلکہ اس راہ کے نشیب وفراز سے بھی آگاہ کیا اور اس کی مشکلات سے باخبر کیا۔ اس کی حکمت سے روشناس کیا اور مرحلہ بہ مرحلہ اس دعوت کے لیے آپؐ کی تربیت کی۔ اس کے روحانی اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرنے کی ہدایت کی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کی ضرورتوں، تقاضوں، مشکلات اور کامیابی کے امکانات سے پوری طرح اپنے نبی کو آگاہ کیا اور اسی کے مطابق تیار کیا۔ رسولؐ کی دعوت کے اسی طریق کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پاک میں کہاگیا ہے:قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف ۱۲: ۱۰۸)’’آپؐ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے کہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور میرے متبعین بھی۔ پاک ہے اللہ کی ذات اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آفاقی دعوت کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: ’’دیکھو میرابندہ جسے میں سنبھالتا، میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے، میں نے اپنی روح اس پر رکھی۔ وہ تمام قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گا، اس کا زوال نہ ہوگا اور نہ مسلا جائے گا، جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں‘‘۔ (یسعیاہ، باب:۴۲، آیت: ۱-۴)
اس بشارت کی مزید وضاحت انجیل میں حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کی گئی ہے:’’یسوع نے ان سے کہا: کیا تم نے کتاب مقدس میں نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا، یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے لیے پھل لائے دے دی جائے گی، اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘۔ (متی، باب: ۲۱، آیت: ۴۲-۴۳)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سراجِ منیر کہا، شمس منیر نہیں کہا۔ حالاںکہ سورج چراغ سے زیادہ روشنی دیتا ہے اور اس کی روشنی عالم گیر ہوتی ہے۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ایک سورج سے دوسرا سورج پیدا نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور دعوت سے ہزاروں چراغِ ہدایت روشن ہوسکتے ہیں۔
امام رازی نے لکھا ہے:’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سراج کا لفظ استعمال کیا ہے، سورج کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ حالاںکہ سورج میں چراغ سے زیادہ روشنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج سے کوئی دوسرا سورج نہیں پیدا کیاجاسکتا، جب کہ چراغ سے دوسرا چراغ جلایا جاسکتا ہے۔ اگر ایک چراغ بجھ جائے تو دوسرے چراغ سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ نے آپؐ سے ہدایت کی روشنی حاصل کی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے صحابہؓ ستاروں کی طرح ہیں۔ تم ان میں سے جن کی بھی پیروی کروگے ہدایت یاب ہوگے‘‘۔ اسی طرح ان کے بعد تابعین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نُورِ ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور مجتہدین بھی سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (تفسیر الکبیر، سورۃ الاحزاب: ۴۶)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم کو بھی اللہ نے انذار وتبشیر کا مصدر بنایا ہے۔ رسول کریمؐ کے دنیا سے گزر جانے کے بعد قرآن ہمیشہ کے لیے بشیر ونذیر کی حیثیت سے موجود اور منور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِہِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۱ۭ۫ قَيِّـمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۲ۙ (الکہف۱۸:۱-۲)’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کردے، اور ایمان لاکر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ اُن کے لیے اچھا اجر ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنایا۔ آپؐ کی سیرت وکردار کو دوسرے انسانوں کے لیے معیار اور نمونہ بنایا۔ آپؐ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اجمالاً گذشتہ آسمانی کتابوں میں فرمایا اور تفصیلاً قرآن کریم میں کیا۔ آپؐ کو خاتم النبیین بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب، مقام اور ذمہ داریوں کی صراحت فرمائی۔ لوگوں کو آپؐ کے حقوق سے آگاہ کیا، آپؐ کی دعوت کو آفاقی اور شریعت کو دائمی بنایا۔ اس دعوت میں انسانوں کے لیے راحت، بشارت اور نجات ہے۔
اسلام کی بنیاد دو ستونوں پر ہے: ایک اللہ کی عبادت اور دوسرے مخلوق کی خدمت۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ستون بھی ڈھے جائے تو پوری بنیاد ہل جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ان کے بارے میں ارشاد ہے:
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق اور مغرب کی طرف کرو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم ایمان لائو، اللہ پر، یوم آخرت پر، اور فرشتوں پر، کتاب اور پیغمبروں پر اور مال خرچ کرو، اس کی محبت کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کی آزادی پر اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔(البقرہ۲: ۱۷۷)
اسلام نے اللہ کی عبادت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کو یکساں اہمیت دی ہے۔ اس کے لیے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے اور اس کی جواب دہی بھی ہے۔ اگر معاشرے میں حاجت مند اور مفلوک الحال لوگ موجود ہوں اور صاحب ِحیثیت ان کی دستگیری نہ کریں تو ان کا عقیدہ بے اثر اور عبادت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ اللہ کی رضا کا راستہ بندوں کی خدمت کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس لیے دینی اعمال سماجی تقاضوں کی تکمیل کے بغیر معتبر نہیں ہوتے۔ اس نکتہ کو قرآنِ پاک نے اس طرح سمجھایا ہے:
اس نے گھاٹی نہیں پار کی اور تمھیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ گھاٹی؟ غلام آزاد کرانا، فاقہ کے دن میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو، پھر وہ ہوجائے ایمان والوں میں اورصبر کی اور رحم کھانے کی تاکید کرنے والوں میں۔وہ لوگ بڑے نصیب والے ہیں۔(البلد ۹۰:۱۱-۱۸)
یعنی اللہ پر ایمان لانا ایک دعویٰ ہے اور اس کی دلیل اللہ کے نادار بندوں کی خدمت کرناہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی آبادی کو اللہ کا کنبہ قرا ردیا ہے اور فرمایاہے:
اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ) پوری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو وہی شخص پسند ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
انسانوں کی خدمت اور ناداروں کی حاجت روائی اخلاص سے اور بدلہ کے جذبہ کے بغیر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں فرمایا ہے :
وہ لوگ کھانا کھلاتے ہیں اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، تم سے بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے۔(الدھر۷۶: ۸-۹)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کامال اپنے مال سے زیادہ عزیز ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کو اپنے مال سے زیادہ وارث کا مال پیارا ہو۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مال تم نے آگے بھیج دیا وہ تمھارا مال ہے اور جو پیچھے چھوڑ دیا وہ وارث کامال ہے۔ (الصحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ماقدم من مالہٖ فہو لہ)
نادار انسانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو مال خرچ کیا جائے درحقیقت وہ اپنا مال ہے کیوں کہ آخرت میں اس کااجر ملے گا اور جو مال انسان دنیا میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ تو وارثوں کا ہوتاہے۔قرآن یقین دہانی کراتاہے:
اور جو خیرات تم کروگے اس کا پورا بدلہ تم کو دیا جائے گااور تم پر ظلم نہ ہوگا۔(البقرہ ۲:۲۷۲)
اسلام نے انسانوں کی خدمت کا اعلیٰ معیار مقرر کیاہے۔ اس نے بے غرض خدمت اور بے لوث محبت کے ساتھ اپنا عمدہ اور پسندیدہ مال خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ عام طور پر لوگ غریبوں اور ناداروں کو کھانے پینے ، پہننے یا ضرورت کی اشیا دیتے ہیں تو اپنے گھر کا ناکارہ حصہ نکال کر دیتے ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ انسانی خدمت نہیں بلکہ تحقیر ہے۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے لیے جس مال کو اچھا اور کارآمد سمجھتا ہے وہ غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے۔ قرآن پاک نے یہ اصولِ زندگی عطا کرتے ہوئے فرمایا:
تم لوگ نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہ کرو اور جو کچھ بھی تم خرچ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔(ال عمرٰن۳: ۹۲)
اسلام نے یہ نکتہ بھی واضح کردیا کہ ضرورت مندوں اور ناداروں پر مال خرچ کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہے۔کیوں کہ خالق کائنات نے مال داروں کے مال میں ناداروں کا حق رکھ دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ مال دار لوگ ناداروں کا حق ادا کریں۔ معاش میں پیچھے رہ جانے والوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ان کے مالوں میں متعین حصہ ہے سوال کرنے والوں کا اور محروم لوگوں کا۔(المعارج۷۰:۲۴-۲۵)
پھر ان حق داروں کا حق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ (الروم ۳۰: ۳۸)
مادہ پرست ذہن لوگوں سے مال حاصل کرنے کو مالداری اور ان پر خرچ کرنے کو ناداری کا ذریعہ سمجھتاہے۔ اسلام اس نظریۂ زندگی کا رُخ بدلتا ہے اور لوگوں کا ناحق مال لینے کو ناداری اور ان پر خرچ کرنے کو مالداری سے تعبیر کرتاہے۔ قرآن میں اس نظریہ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:
جومال تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کر بڑھ جائے، وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ اللہ کی رضا کے لیے تم دیتے ہو تو انھی لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتاہے۔(الروم ۳۰:۳۹)
اسلام نے انسانی زندگی کو کارآمد اور کامیاب بنانے کے لیے بقائے نفع کا اصول دیا۔ دنیامیں جو چیز غیر نفع بخش ہوگی وہ جلد ختم ہوجائے گی اور جو چیز نفع بخش ہوگی وہ دیر تک قائم رہے گی۔ اس کے مطابق اگر انسان دوسرے انسان اور دوسری مخلوق کے لیے نفع بخش ہوگا تو وہ باقی رہے گا اور اگر وہ نفع بخش نہ ہوگا تو اپنے وجود کا جواز کھودے گا اور روئے زمین پر بے آبرو ہوجائے گا۔ قرآن پاک نے ندی نالوں کے جھاگ کی مثال دے کر سمجھایا:
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(الرعد۱۳:۱۷)
یہ بات نہایت بلیغ اور خوب صورت طریقہ سے قرآن نے سمجھادی کہ روئے زمین پر باقی رہنے کے لیے دوسروں کے لیے نفع بخش ہونا ضروری ہے۔ اسی نکتہ کی وضاحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی ہے:
خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ (کنز العمال، باب خطب النبیؐ، ومواعظہ)لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے نفع بخش ہو۔
مسلمانوں کو خاص طور پر نبی پاکؐ نے یہ حکم دیا کہ وہ عام انسانوں کے لیے نفع بخش بنیں اور ان کی بھلائی کے لیے کام کریں تاکہ ان کا وجود معنی خیز ہو، ان کی ضرورت محسوس کی جائے اور ان سے خیر کی توقع کی جائے۔ اس مشن کے لیے وہ اپنا وقت اور مال لوگوں پر خرچ کریں۔ یہی راستہ ہے دنیا میں عزت پانے اور آخرت میں نجات حاصل کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ ان بندوں کی تکلیف کو دُور کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کی تکلیف کا مداوا کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدرت کا یہ زریں اصول ان لفظوں میں بیان فرمایا:
جو شخص دنیا میں کسی مومن کی کوئی تکلیف دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیف دُورکرے گا، اور جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فراہم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کی مدد میں رہتاہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتاہے۔(مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے دعوائے ایمان کو غلط ٹھیرایا ہے جو خود تو پیٹ بھر کے کھا لیتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جاتاہے۔(الادب المفرد، باب لایشبع دون جارہ)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت خلق اور انفاق کی خود بڑی روشن مثال تھے۔ آپؐ کی پہچان مکہ میں خدمت خلق سے تھی۔ آپؐ ہمیشہ ناداروں کی ضرورت پوری کرتے۔ انسانی معاشرے میں آپؐ سے زیادہ ناداروں پر مال خرچ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب رمضان کا مہینہ آتا تو تیز رفتار ہواؤں سے زیادہ مال خرچ کرتے تھے۔(الصحیح البخاری)
آپؐ ہی کے بارے میں حضرت ابوطالب نے کہا تھا:
وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہٖ
ثُـمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَۃٌ لِلْاَرَامِلِ
وہ گورے مکھڑے والا جس کے واسطے سے بارش کی دعائیں مانگی جاتی ہیں، یتیموں کا سرپرست اور بیواؤں کا پشت پناہ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مال واسباب آتے تھے تو ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ بحرین سے بہت سا مال آپؐ کے پاس آیا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے مالوں میں سب سے زیادہ تھا۔ آنجنابؐ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں پھیلادو، پھر آپؐ نماز کے لیے چلے گئے، نماز ادا کرنے کے بعد تشریف لائے اور اس مال کے پاس بیٹھ گئے۔ پھر جو کوئی بھی نظر آیا آپؐ اسے دیتے چلے گئے۔ اس جگہ سے اس وقت اٹھے جب سارا مال تقسیم ہوگیا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔(الصحیح البخاری)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اَزواج مطہراتؓ میں بھی خدمت خلق اور محتاجوں کی حاجت روائی کی روایت پورے طور پر قائم رہی۔ رسو ل پاکؐ کا گھرانہ محتاجوں کی ضرورت کی تکمیل کا مرکز بنارہا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں ام ذرہ بیان کرتی ہیں کہ عبداللہ ابن زبیرؓ نے ان کی خدمت میں دو تھیلیوں میں بھرا ہوا مال بھیجا، میرے اندازے کے مطابق ۸۰ ہزار یا ایک لاکھ درہم تھے۔ حضرت عائشہؓ اس وقت روزہ کی حالت میں تھیں۔ وہ بیٹھ کر ان درہموں کو تقسیم کرنے لگیں، شام ہوتے ہوتے ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں بچا۔ جب افطار کا وقت قریب ہوا تو اپنی باندی سے کہا کہ افطار کا سامان لے آؤ۔ وہ ایک روٹی اور زیتون لے کر آئی۔ اُمِ ذرہ نے حضرت عائشہؓ سے کہا: اگر آپ چاہتیں تو کم سے کم ایک درہم سے گوشت خرید لیتیں۔ اُم المومنینؓ نے جواب دیا کہ تم نے پہلے یاد دلایاہوتا تو شاید میں خرید لیتی۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج۲،ص ۴۷)
اسی طرح حضرت عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضر ت عائشہؓ کو ۷۰ ہزار درہم تقسیم کرتے ہوئے دیکھا، جب کہ خود اپنے دوپٹے میں پیوند لگا کر اوڑھتی تھیں (ابوالفرح ابن جوزی، صفۃ الصفوۃ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد، ۱۹۶۸ء، ج۲،ص۱۳)
ازواجِ مطہر اتؓ کے علاوہ صحابہ کرامؓ نے غربا پر وری اور انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھایا۔ مال دار صحابہؓ نے غربا پروری میں مثال قائم کی تو عام صحابہؓ نے بھی حسب استطاعت ضرورت مندوں کی اعانت وخدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حضرت ابوبکرؓ کی پوری زندگی غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور غلاموں کی امداد اور خدمت میں گزری ۔ حضرت عمر فاروقؓ خدمتِ خلق کے معاملے میں کتنے فکر مند اور مستعد تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے :
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ رات کوگشت لگاتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام صرار پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکارہی ہے اور اس کے پاس دو تین بچے رورہے ہیں۔ قریب جاکر حقیقت دریافت کی تو اس عورت نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھادی ہے۔ حضرت عمرؓ اسی وقت اٹھے، مدینہ آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لے کر چلتا ہوں۔ فرمایا: ہاں، لیکن تم قیامت کے دن میرا بار نہیں اٹھاؤگے۔ (شبلی نعمانی، الفاروق، نئی دہلی، ۲۰۱۴ء، ص۳۰۲)
خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ بڑے تاجر تھے اور اپنے مال کا بڑا حصہ غریبوں ، یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کردیتے تھے۔ یہی اسوہ خلیفۂ چہارم حضرت علیؓ کا بھی تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت طیارؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
مسکینوں کے لیے جعفر بن ابی طالب بہترین انسان تھے۔ وہ ہمارے پاس آتے تھے اور ان کے گھر میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ہم لوگوں کوکھلاتے تھے۔(الصحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلوا والعسل)
قرآن پاک نے مسکینوں اور یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا اور حدیث پاک میں یتیموں کی کفالت کی جو ترغیب دی گئی، اس کی وجہ سے صدر اسلام کا مسلم معاشرہ محتاجوں کے لیے نعمت کدہ اور جنت نشاں بن گیا۔ یتیموں کو ایسے مشفق سرپرست مل گئے کہ ان کو اپنے والد یا والدین سے محرومی کا احساس ختم ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا :
كُنْ لِلْيَتِيْمِ كَالْاْبِ الرَّحِيْمِ (الادب المفرد، باب کن للیتیم کالاب الرحیم) یتیموں کے لیے رحمت کرنے والے باپ بن جاؤ۔
آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میںیتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب، فصل من یعول یتیما)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح بخاری میں صراحت سے بیان کیاگیا ہے کہ: کَانَ لَا یَاْکُلُ طَعَامًا حَتَّی یُؤْتٰی بِـمِسْکِیْنٍ (الصحیح البخاری)وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے کھانے میں شریک نہ ہوجائے۔
روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ خاص طور پر یتیموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ایک واقعہ معروف تابعی ابومحذورہ نے اس طرح بیان کیاہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس میںبیٹھا تھا کہ صفوان بن امیہ کھانے کی ایک دیگ کے ساتھ آئے جسے کچھ لوگ اٹھائے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے وہ دیگ حضرت ابن عمرؓ کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے پاس پڑوس کے غربا ومساکین اور لوگوں کے غلاموں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرمایا۔ (الادب المفرد، باب ھل یجلس خادمہ معہ اذاا کل)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کھانا کھلانے میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں کرتے تھے بلکہ ہر انسان کی بلاتفریق مذہب وملت خبرگیری کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور تابعی حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری ذبح کررہا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ جب تم ذبح کرنے سے فارغ ہوجاؤ تو سب سے پہلے بکری کا گوشت ہمارے پڑوسی یہودی کے گھر پہنچاؤ۔ (الادب المفرد، باب جار الیہودی)
حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبلؓ اپنی قوم کے افضل ترین نوجوانوں میں سے تھے۔ جب بھی کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا تو اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ خدمت خلق کے لیے انھوں نے اتنے قرضے لیے کہ ان کا سارا مال ختم ہوگیا۔ بالآخر انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے درخواست کی کہ قرض داروں سے تھوڑی تخفیف کرادیں، لیکن قرض دار اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا بچا ہوا مال بیچ کر ان میں تقسیم کردیا اور حضرت معاذ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ (صفۃ الصفوۃ ، ج۲، ص ۱۹۷)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مصیبت زدہ ان کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا تو وہ ہر طرح سے اس کی مدد فرماتے۔ خدمت خلق کے اتنے حریص تھے کہ اعتکاف سے نکل کر لوگوں کی مدد کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ ایک مرتبہ وہ مسجد نبویؐ میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص وہاںآیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اسے غم زدہ دیکھا تو فرمایا: اے شخص میں تم کو غمگین دیکھتا ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں اے رسول کریمؐ کے چچازاد بھائی! فلاں آدمی کا میرے اوپر قرض ہے اور اسے ادا کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اپنے اعتکاف سے نکل آئے اور اس محتاج کے ساتھ چل پڑے اور فرمانے لگے کہ میں نے اس قبر کے مکین (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں چل پڑا اور اس کی ضرورت پوری کی تو اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے‘‘۔ (طبرانی، بیہقی، المستدرک للحاکم)۔اس طرح کی مثالیں دیگر صحابہ کرامؓ کی بکثرت موجود ہیں۔
خدمتِ خلق کی وراثت صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کے حصہ میں آئی ۔ بڑی تعداد ان تابعین کی ہے جنھوں نے انسانی خدمت کو اپنا مشن بنایا۔ ربیع بن خیشم مشہور تابعی اور محدث تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے شاگرد تھے۔ غربا پروری اور انسانی خدمت کو وظیفۂ زندگی بنائے ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی اہلیہ سے عمدہ کھاناپکانے کو کہا: بیگم نے نہایت اہتمام سے یہ کھانا پکایا۔ ربیع نے وہ کھانا لے جاکر شہر کے ایک پاگل کو اپنے ہاتھ سے کھلایا، اس کے منہ سے لعاب بہتا تھا اور ربیع اسے کھانا کھلاتے تھے۔ کھانا کھلاکر گھر پہنچے توبیوی نے کہا کہ میں نے اس قدر اہتمام سے کھانا تیار کیا اور آپ نے ایسے آدمی کو کھلادیا جو یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اس نے کیا کھایا۔ ربیع نے جواب دیا کہ خدا تو جانتا ہے۔ (شاہ معین الدین ندوی، تابعین، ۲۰۰۹ء، ص۱۱۸)
ایک اور نامور تابعی مسروق بن اجدع یمن کے رہنے والے تھے۔ علم وعبادت میں مشغول رہتے اور خدمت خلق کے لیے وقت اور دولت صرف کرتے تھے۔ جب بھی ان کو کوئی رقم ملتی، اسے ضرورت مند انسانوں پرخرچ کردیتے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی ایک متمول انسان سائب بن اقرع سے کی۔ ان سے بیٹی کے مہر کے علاوہ دس ہزار دینار لیے اور یہ ساری رقم مساکین، غلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ میں تقسیم کردی۔ (تابعین، ص۴۵۷)
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ مال دار مسلمانوں نے نادار انسانوں کی دست گیری کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ لگادیا۔ چند مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ تاریخ کا یہ روشن باب نئی نسلوں کے ذہن میں رہے اور وہ اس سے روشنی اور رہنمائی حاصل کریں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا نام اسلام کی دعوت اور خدمت خلق کے لیے بہت روشن ہے۔ وہ ایک طرف لوگوں کو دین کی طرف بلاتے اور لوگوں کا عقیدہ اور اعمال درست کرتے تھے اور دوسری طرف محتاجوں کی حاجت روائی کرتے اور مسافروں کوکھانا کھلاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر ہر قوم کے لوگ شریک ہوتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی یہ روایت لنگر میں تبدیل ہوئی اور ان کی خانقاہ میں آنے والوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ خواجہ اجمیری فرماتے ہیں:’’میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبان سے سنا کہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھے گا۔ اول: سخاوت، دریا کی سخاوت کی طرح۔ دوم: مخلوق سے شفقت، آفتاب کی شفقت کی طرح۔ سوم: تواضع، زمین کی تواضع کی طرح‘‘۔(عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، کتب خانہ رحیمیہ دیوبند، ص ۲۹)
مغلیہ عہد کے ایک بزرگ شیخ عبدالعزیز چشتی (م:۱۵۶۷ء) بڑے عالم وفاضل اور بلندمرتبہ اخلاق کے حامل تھے۔ مخلوق پر شفقت وعنایت کرنے میں بے مثال تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے :’’شیخ عبدالعزیز محتاجوں کی حاجت روائی میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ شیخ قاضی خاں کے پاس پہنچے تو اپنا مال ومتاع، گھوڑا گاڑی جو کچھ ان کے پاس تھا سارا کاسارا راہ خدا میں تقسیم کردیا‘‘۔ (شیخ محمد اکرام، رود کوثر، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص۷۰)
مغلیہ عہد کے ایک اور بزرگ شیخ داؤد شیرگڑھی (م۱۵۷۴ء) تھے۔ بڑے عابد اور زاہد شب بیدار تھے۔ خلق خدا کی دینی رہنمائی کے علاوہ مالی خدمت بھی کیا کرتے تھے۔ان کی خانقاہ میں لنگر تھا جس سے لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام ہوتاتھا۔ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ:’’آپ کا معمول تھا کہ سال میں ایک دو دفعہ جو کچھ آپ کے پاس نذر وفتوحات کی قسم سے آتا، تقسیم کردیتے اور اپنے گھر میں ایک مٹی کے کوزے کے سوا کچھ نہ رکھتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۶۸)
ایک اور بزرگ شیخ علاء الدین لاہوری بنگالی غرباپروری اور خدمت خلق میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ ’’بخلق بخششہائے بے اندازہ می کرد‘‘ مخلوق پر بے انتہا بخشش کرتے تھے۔ ان کے والد بادشاۂ وقت کے مہتمم خزانہ تھے۔ بادشاہ کو خیال ہوا کہ شیخ اپنے والد کی مدد سے خزانہ کو تصرف میں لے آئیں گے۔ چنانچہ ان کو دوسال کے لیے سنار گاؤں جو ڈھاکہ سے ۱۸ میل کے فاصلہ پر ہے بھیج دیا۔ آپ سنار گاؤں چلے گئے اوروہاں بھی آپ کی فیاضی جاری رہی۔ خادم کو حکم تھا کہ جو خرچ ہوتا تھا اسے دوگنا کردو۔ شیخ نے جلاوطنی قبول کرلی مگر خلق خدا کی خدمت نہ چھوڑی۔ (عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار، ص۱۴۹)
خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کی مثالیں اسلامی تاریخ میں بے شمار ہیں۔ خاص طور پر علما اور مشائخ میں۔ یہ حضرات دین کی اشاعت اور لوگوں کی اصلاح وتربیت ہی سے سروکار نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے دُکھ درد میں شریک ہوتے، ان کی ضرورت پوری کرتے اور ان کی مالی مدد کرنے میں بہت کوشش کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے بارے میں سید حسن عسکری نے لکھاہے:’’خود تو فقروفاقہ، اَوراد ووظائف اور ذکر واشغال میں منہمک رہتے، لیکن کمزوروں، دکھی لوگوں ، حاجت مندوں، علما ومشائخ، ضعفا اور فقرا کی حاجتوں ،وجۂ معاش اور ضروریات دنیوی کے لیے سفارشات کے لیے ہمیشہ تیار رہتے اورحقیقت یہ ہے کہ امراء، رؤسا اور سلاطین سے جو کچھ تھوڑا بہت انھیں واسطہ تھا محض ان لوگوں کی داد رسی اور حاجت روائی کے لیے ہوتاتھا‘‘۔(پروفیسر سید حسن عسکری، عہد وسطٰی کی ہندی ادبیات میں مسلمانوں کا حصہ، پٹنہ، ۱۹۹۵ء، ص ۲۱۲-۲۱۳)
انیسویں صدی میں برصغیر ہند میں مسلم حکومت کا زوال ہوا تب بھی مسلمانوں میں انسانی خدمت کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ مسلمان اگرچہ مصیبت سے گزر رہے تھے مگر خدمت خلق کے کاموں سے غافل نہ تھے۔ ۱۸۶۰ء میں شمالی ہند میں قحط پڑا تھا، جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بانی سرسیّداحمد خاں اس زمانہ میں مرادآباد میں صدر الصدور تھے۔ انھوں نے کلکٹر جان اسٹریچی کی اجازت سے قحط زدہ لوگوں کی راحت رسانی، تیمارداری اور خوراک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
خواجہ الطاف حسین حالی نے لکھاہے:’’محتاج خانہ کے حُسنِ انتظام کا یہ حال تھا کہ چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم ہوجاتا تھا۔ بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر موجود تھا، بیماروں کو پرہیزی کھانا ملتا تھا، زچاؤں اور شیرخوار بچوں کو دودھ یا کھیر ملتی تھی۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ہندو کھانا پکاتے تھے۔ جو ہندو اپنے سوا کسی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے تھے ان کے لیے علیحدہ چوکے بنے ہوئے تھے۔ شہر کی پردہ نشین اور عزت دار عورتیں جو محتاج خانہ میں نہیں آسکتی تھیں،ان کے پاس سوت کاتنے کے لیے آٹھ آٹھ آنہ فی اسم اور ایک ایک پٹاری روئی کے گالوں کی میر محلوں کی معرفت بھیج دی جاتی تھی۔ جب سوت کت کر آجاتا تھا، تو اور روئی اور کاتنے کی اُجرت بھیج دیتے تھے۔ سرسیّد صبح وشام دونوں وقت بلاناغہ محتاج خانہ میں خود جاتے تھے۔ ایک ایک بیمار کو دیکھتے تھے، جن کنگالوں کی صورت اور حالت آنکھ سے دیکھی نہ جاسکتی تھی، جن کے دست جاری ہوتے تھے اور کپڑے بول وبراز میں لتھڑے ہوتے تھے، ان کو سرسیّد خود اپنی گود میں اٹھا کر دوسری صاف جگہ احتیاط سے لٹادیتے تھے اور ان کے کپڑے بدلواتے تھے‘‘۔ (الطاف حسین حالی، حیاتِ جاوید، نئی دہلی، ۲۰۰۴ء، ص ۱۰۹)
آج کے زمانہ میں بھی ایسی روشن مثالیں پائی جاتی ہیں۔کویت میں ایک مشہور تاجر تھے، شیخ عبداللہ علی المطوع۔ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور رفاہی اداروں پر خرچ کرتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ عمرہ کرنے کے لیے گئے، مکہ مکرمہ میں کھجوریں خریدیں اور دوکان دار سے قیمت کم کروائی۔ واپسی پر اپنے سکریٹری سے کہا کہ میراکاروبار میرے وارثوں کے لیے ہے اور میری جائیداد کا معقول حصہ (غالباً ایک تہائی) چیچنیا کے یتیموں اور بیواؤں کے لیے ہے جس کی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سکریٹری نے کہا کہ ابھی تو آپ چند کلوکھجوروں کے لیے مول بھاؤ کررہے تھے اور اب اتنی بڑی جائیداد چیچنیا کے غریبوں کو دے رہے ہیں؟ شیخ نے کہا کہ تجارت میں مول بھاؤ کرنا خریدار کا حق ہے اور یہ سودا اللہ سے ہے جس کا اجر آخرت میں مقرر ہے۔
اسلام نے خدمت خلق ، انفاق فی سبیل اللہ اور انسانوں کی نفع رسانی کے کاموں کو انفرادی عمل کے ساتھ اجتماعی شکل بھی عطا کی اور اسے ادارہ کی حیثیت عطاکردی تاکہ انسانوں کی خدمت کی پائیدار اور دائمی صورت پیدا ہوجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین اعمال کے (۱) علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، (۲) صدقۂ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے (۳) نیک اولاد جو اپنے مرحوم والد/والدہ کے لیے دعا کرتی رہے (مسلم ، کتاب الوصیۃ)
انسان اپنی زندگی میں خدمت خلق کے لیے جو انفاق وقتی طور پر کرتا ہے وہ عارضی ہے، اس کا اجر وثواب قیامت میں ضرور ملے گا۔ لیکن ایسا صدقہ وخیرات جومرنے کے بعد بھی جاری رہے وہ صدقۂ جاریہ ہے، اس کا فیض جاری رہے گا، اس لیے اس کا اجر بھی بے حساب ہے۔ صدقۂ جاریہ کی مختلف شکلیں ہیں اور زمانہ کی ضرورت اور ترقی کے لحاظ سے یہ شکلیں بدلتی رہتی ہیں، مثلاً عبادت گاہ بنوانا، تعلیم گاہ بنوانا، یتیم خانہ اورکتب خانہ بنوانا، خانقاہ اور قبرستان بنوانا، مسافر خانہ بنوانا، سرائے بنوانا، اسپتال اور سینی ٹوریم بنوانا، علمی و ادبی اور تحقیقی ادارہ بنوانا، کنواں اور تالاب بنوانا، حمام اور طہارت خانہ بنوانا، لنگر اور سبیل بنوانا وغیرہ۔
یہ کام ایسے ہیں کہ ان سے فائدہ وقتی طور پر بھی اٹھایا جاتا ہے اور دائمی طور پر بھی یعنی نسل در نسل اٹھایا جاتاہے۔ اسی لیے اسے صدقۂ جاریہ کہاجاتاہے۔ یہ سارے کام مسلمانوں کے صدقات وخیرات سے انجام پاتے ہیں۔ اسلام نے ان کاموں کو بہتر اور پائیدار بنانے کے لیے وقف کا تصور دیا، یعنی کوئی مال یاجائیداد اس طرح فی سبیل اللہ وقف کیا جائے کہ اس کی اصل مالیت باقی رہے، البتہ اس کی آمدنی سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں، جائیداد ختم نہ ہو اور انتفاع باقی رہے۔خدمت خلق کا یہ ایک عہد آفریں تصور تھا جو اسلام نے دیا۔ اس نے نظریہ کو اقدار میں اور اقدار کو ادارہ میں ڈھالنے کا شعور عطا کیا۔
انسانی خدمت کے اس اداراتی نظام کاآغاز خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہوا۔ مخیریق نام کا ایک یہودی تھا، جنگ احد میں شریک ہوا۔ وہ مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ لڑا اوراسی جنگ میں مارا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میں مار ا جاؤں تو میری جائیداد محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق تصرف میں لائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مخیریق اچھا یہودی تھا‘‘ (ابوجعفر ابن جریر طبری، تاریخ الطبری، القاہرۃ، ج۲، ص۵۳۱)۔مخیریق کے سات باغ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے قبضہ میں لیا اور فی سبیل اللہ وقف کردیا‘‘۔ (برہان الدین الطرابلسی، الاسعاف فی احکام الاوقاف، ص۱۰)
اسلامی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ دوسرا وقف خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کاتھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓکو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس کے اصل مال کوباقی رکھو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کردو، مگر شرط یہ ہوگی کہ اصل مال نہ بیچاجائے گا،نہ ہبہ کیاجائے گا اور نہ وراثت میں جائے گا۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ وہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ اس کی آمدنی فقراء، قرابت داروں ، غلام کی آزادی، مہمان اور مسافر کے لیے ہوگی۔ (الصحیح البخاری، کتاب الشروط)
صدر اسلام کاتیسرا وقف خلیفۂ سوم حضرت عثمان غنیؓ نے کیاتھا۔ اس وقف کی تاریخ خود حضرت عثمان غنیؓ اس طرح بیان کرتے ہیں:’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں رومہ کنواں کے علاوہ کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بیرِ رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا؟ اس کی وجہ سے جنت میں اسے خیر ملے گی، تو میں نے اپنے اصل مال سے اس کنواں کو خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کوبھی شریک کرلیا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
اس کے بعد صحابہ کرامؓ میں خدمت خلق کے لیے زمین، جائیداد وقف کرنے کا رجحان عام ہوگیا، اور لوگ کثرت سے رفاہی کاموں کے لیے جائیداد وقف کرنے لگے۔عرب اور عجم کے ملکوں میں مسلمانوں نے وقف کا ایک بے مثال نمونہ قائم کردیا۔ مسلمان جہاں بھی گئے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے مال وجائیداد وقف کرتے رہے۔ حجاز سے لے کر اندلس تک، ایران سے لے کر ازبکستان تک، ترکی سے لے کر مراقش تک اور مصر وشام سے لے کر ہندستان، پاکستان اور انڈونیشیا تک مسلمانوں نے عام انسانوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے بے دریغ جائیداد وقف کی۔ وقف کی املاک سے مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کے انسانوں کو فیض پہنچا۔ کیوں کہ جائیداد مسجد وخانقاہ کے علاوہ ہسپتال، سرائے ، لنگر اور تعلیم گاہوں کے لیے بھی وقف کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات اور پرندوں کی خوراک کے لیے بھی جائیداد وقف کی۔ وقف کی یہ روشن روایت آج بھی آگے بڑھ رہی ہے۔
دنیا کے سبھی آسمانی مذاہب نے انسان کو اللہ کی عبادت کرنے، اس کا ذکر کرنے، اس کے حضور نذر ونیاز پیش کرنے اور اس کے نام پر جانور قربان کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن پاک میں کہا گیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۳۴ۙ (الحج۲۲:۳۴)ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ لوگ ان جانوروں پر جو اللہ نے ان کو بخشے ہیں اللہ کا نام لیں۔ پس تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اسی کی فرماںبرداری کرو اور خوش خبری دو عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔
قرآن کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے سارے مذاہب میں قربانی کی روایت پائی جاتی ہے۔ مگر بعض مذہبی گروہ آج بھی ایسے موجود ہیں جو کسی جان دار کے قتل کو جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کے یہاں قربانی رسمِ عبودیت کا حصہ نہیں ہے۔ ایسے مذاہب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانی مذاہب ہیں، آسمانی نہیں۔ مذاہب عالم میں سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں قربانی کی روایت بہت مستحکم ہے اور اس کے احکام کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ان کا موازنہ کرنے سے انسانوں کی مذہبی تاریخ کے بہت سے حقائق آشکارا ہوتے ہیں اور عہد بہ عہد قربانی کے ارتقاکے مراحل سے پردہ اُٹھتا ہے۔
قرآن کریم میں بھی قابیل اور ہابیل کی قربانی کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’اور ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا حال سنادو، جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔ ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس نے کہا میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ جواب میں دوسرے نے کہا کہ اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتاہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اپنے اللہ پروردگار عالم کا خوف رکھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو سمیٹے اور جہنم والوں میں شامل ہوجائے اور یہی ظالموں کا بدلہ ہے‘‘۔(المائدہ۵: ۲۷-۲۹)
بائبل اور قرآن کے بیانات کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل میں خدا اور قابیل کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے، اس کی تفصیل ملتی ہے، لیکن ہابیل اور قابیل کی باہمی گفتگو کی تفصیل نہیں ہے۔ جب کہ قرآن پاک میں دونوں بھائیوں یعنی قاتل ومقتول کی باہمی گفتگو کو بھی نقل کیا گیا ہے تاکہ ظالم کی ذہنیت اور نیت کو ظاہر کیا جائے اور مقتول بھائی کی سادگی، سچائی اور خداترسی پر روشنی ڈالی جائے۔ نیز بائبل میں دونوں بھائیوں کے نام کی صراحت ہے، جب کہ قرآن میں نام کی صراحت کے بجائے آدمؑ کے دو بیٹوں کا ذکر کیا گیاہے۔ قرآن میں تاریخ انسانی کے اس پہلے قتل کے اخلاقی اور سماجی نتائج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
’’ابراہیم نے قربانی کو جلانے کے لیے لکڑیاں اسحاق کے کندھوں پر رکھ دیں اور خود چھری اور آگ جلانے کے لیے انگاروں کا برتن اٹھایا۔ دونوں چل پڑے۔ اسحاق بولا: ابو! ابراہیم نے کہا جی بیٹا۔ ابو، آگ اور لکڑیاں تو ہمارے پاس ہیں لیکن قربانی کے لیے بھیڑیا بکری کہاں ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: اللہ خود قربانی کے لیے جانور مہیا کرے گا بیٹا۔ وہ آگے بڑھ گئے۔ چلتے چلتے وہ اس مقام پر پہنچے جو اللہ نے اس پر ظاہر کیا تھا۔ ابراہیم نے وہاں قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں ترتیب سے رکھ دیں۔ پھر اس نے اسحاق کو باندھ کر لکڑیوں پر رکھ دیا اور چھری پکڑی تاکہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ عین اسی وقت رب کے فرشتے نے آسمان سے آواز دی ابراہیم، ابراہیم! ابراہیم نے کہا جی میں حاضر ہوں۔ فرشتے نے کہا: اپنے بیٹے پر ہاتھ نہ چلا، نہ اس کے ساتھ کچھ کر، اب میں نے جان لیا ہے کہ تو اللہ کا خوف رکھتاہے۔ کیوں کہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی مجھے دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب پیدائش، باب۲۲، آیت ۱-۱۳)
حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کا یہ واقعہ قرآن کریم میں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور وہ حسب ذیل ہے:(ابراہیم ؑ نے دعا کی) ’’اے رب مجھ کو نیک اولاد عطا کر، تو ہم نے اسے ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔ جب وہ لڑکا دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کررہا ہوں، اب تُو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا کہ ’’اے باپ! آپ کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے کرگزرئیے، ان شا ء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔ پھر جب دونوں نے حکم مان لیا اور بیٹے کو باپ نے پیشانی کے بل پچھاڑدیا تو ہم نے پکارا کہ ’’اے ابراہیم! تونے خواب سچ کر دکھایا، ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور اس کے بدلے میں ہم نے بڑی قربانی کا فدیہ دیا اور اس پر آنے والوں کو باقی رکھا۔سلامتی ہو ابراہیم پر۔ اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور ہم نے اس کو اسحاقؑ کی بشارت دی جو صالحین میں سے نبی ہوگا‘‘۔(الصافات۳۷:۱۰۰-۱۱۲)
بائبل اور قرآن میں مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ میں عمومی مماثلت ہے۔ البتہ تین باتوں میں فرق ہے۔
اوّل یہ کہ بائبل میں مذکور ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا، جب کہ قرآن میں ہے کہ خواب میں بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت دی۔
دوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے یہ بات اپنے بیٹے پر ظاہر نہیں کی، بلکہ جب ابراہیمؑ نے قربان گاہ پر جلانے کی لکڑیاں اپنے بیٹے اسحاقؑ کے کندھوں پر رکھ دیں تو اسحاقؑ نے پوچھا کہ قربانی کے لیے مینڈھا یا بکری کہاں ہے؟ تب بھی ابراہیمؑ نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا، جب کہ قرآن میں وضاحت ہے کہ جب ابراہیمؑ کو خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت ملی تو ابراہیمؑ نے پورا خواب اپنے بیٹے کو بتایا اور اس سے قربان ہونے کی رضامندی حاصل کی۔ قرآن کے بیان کردہ واقعہ میں باپ بیٹے دونوں کی فضیلت اور عظمت معلوم ہوتی ہے، جب کہ توریت کے بیان سے صرف حضرت ابراہیمؑ کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتاہے۔
سوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اکلوتے بیٹے اسحاقؑ کو قربان کرنے کا حکم دیا تھا اور انھوں نے اسحاقؑ کو قربان کرنے کے لیے ہاتھ باندھ کر لکڑی پر لٹادیا تھا، جب کہ قرآن میں ذبح ہونے والے بیٹے اسحقؑ نہیں اسماعیلؑ تھے۔ قرآن کے مطابق پہلے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا خواب دکھایاگیا اور اس کی تعبیر پوری ہونے پر حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ قربانی کے وقت حضرت اسماعیلؑ ہی حضرت ابراہیمؑ کے اکلوتے بیٹے تھے۔
’’میں اسماعیل کے سلسلے میں بھی تیری درخواست پوری کروں گا۔ میںاسے بھی برکت دے کر پھلنے پھولنے دوں گا اور اس کی اولاد بہت ہی زیادہ بڑھا دوںگا۔ وہ بارہ رئیسوں کا باپ ہوگا اور میں اس کی معرفت ایک بڑی قوم بنادوں گا۔ لیکن میرا عہد اسحاقؑ کے ساتھ ہوگا جو عین ایک سال کے بعد سارہ کے یہاں پیدا ہوگا۔
اللہ کی ابراہیم کے ساتھ بات ختم ہوئی اور وہ اس کے پاس سے آسمان پر چلا گیا۔ اسی دن ابراہیم نے اللہ کا حکم پورا کیا۔ اس نے گھر کے ہر ایک مرد کا ختنہ کروایا۔ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کا بھی اور ان کا بھی جو اس کے گھر میں رہتے لیکن اس سے رشتہ نہیں رکھتے تھے‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۷ ،آیت۲۰تا ۲۴)
اس سے بھی زیادہ واضح ثبوت یہ ہے کہ توریت میں صاف لفظوں میں بیان کیاگیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے ہاں حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا تو ابراہیمؑ نے اس کا نام اسماعیلؑ رکھا،اس وقت ابراہیمؑ چھیاسی برس کا تھا۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۶، آیت ۱۶)
اسی توریت میں یہ بھی صراحت مذکور ہے کہ:’’جب اسحاق پیدا ہوا، اس وقت ابراہیم سوسال کاتھا‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب۲۱، آیت ۵)
توریت کے مذکورہ بیانات بتارہے ہیں کہ پہلے حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش ہوئی اور پھر ۱۴سال بعد حضرت اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔ اللہ نے جب اکلوتے (بلکہ پہلوٹھا) فرزند کو قربان کرنے کا حکم دیا تو وہ فرزند حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحاقؑ۔ اس لیے توریت کے ترجموں میں اکلوتے کے بعد اسحاقؑ کا اضافہ علمائے یہود کی تحریف پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائبل کے مفسرومحقق علامہ حمیدالدین فراہیؒ نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبیح ہونے کے شرف سے محروم کرنے کے لیے توریت کے بیان میں پانچ قسم کی تحریفات کی ہیں۔ (حمیدالدین فراہی، ذبیح کون ہے؟ ترجمہ: امین احسن اصلاحی، دائرہ حمیدیہ ، سرائے میر، اعظم گڑھ، ص۱۳۰)
مولانا فراہی نے بطور خلاصہ لکھا ہے:’’یہود نے ذبح کے واقعے میں حضرت اسماعیل ؑ کے نام کی جگہ حضرت اسحاق ؑکا نام ڈال دیا۔ حالاںکہ خود توریت سے اس امر کی علانیہ تردید ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس تحریف کی تردید کے لیے صرف یہ کیا کہ اصل واقعہ ٹھیک ٹھیک اس کی صحیح ترتیب کے ساتھ بیان کردیا اور اسی لپیٹ میں متعدد دلائل اس امر کے بیان کردئیے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں، حضرت اسحاقؑ نہیں ہوسکتے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۴۴)
حضرت موسیٰ ؑکے بارے میں ہے:’’خصوصیت کے ساتھ سات دن کے بعد موسیٰ نے آٹھویں دن ہارون، اس کے بیٹوں اور اسرائیل کے بزرگوں کوبلایا۔ اس نے ہارون سے کہا، ایک بے عیب بچھڑا اور ایک بے عیب مینڈھا چن کر رب کو پیش کر، بچھڑا گناہ کی قربانی کے لیے اور مینڈھا بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ہو۔ پھر اسرائیلیوں کو کہہ دینا کہ گناہ کی قربانی کے لیے ایک بکرا، جب کہ بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ایک بے عیب یک سالہ بچھڑا اور ایک بے عیب یک سالہ بھیڑکا بچہ پیش کرو۔ ساتھ ہی سلامتی کی قربانی کے لیے ایک بیل اور ایک میڈھا چنو، تیل کے ساتھ ملائی ہوئی غلہ کی نذر بھی لے کر سب کچھ رب کو پیش کرو کیوں کہ آج ہی رب تم پر ظاہر ہوگا‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۹، آیت ۱-۵)
بنی اسرائیل کی قربانی کے لیے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو جو احکام دئیے تھے عہد نامہ عتیق میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:’’رب نے ملاقات کے خیمے میں سے موسٰی کو بلاکر کہاکہ اسرائیلیوں کو اطلاع دے کہ اگر تم میں سے کوئی رب کو قربانی پیش کرنا چاہے تو وہ اپنے گائے بیلوں یا بھیڑ بکریوں میں سے جانور چُن لے۔
اگر وہ اپنے گائے بیلوں میں سے بھسم ہونے والی قربانی چڑھانا چاہے تو وہ بے عیب بیل چن کر اسے ملاقات کے خیمے کے دروازے پر پیش کرے، تاکہ رب اسے قبول کرے۔ قربانی پیش کرنے والا اپنا ہاتھ جانور کے سر پر رکھے تو یہ قربانی مقبول ہوکر اس کا کفارہ دے گی۔ قربانی پیش کرنے والا بیل کو وہاں رب کے سامنے ذبح کرے۔ پھر ہارون کے بیٹے جو امام ہیں اس کا خون رب کو پیش کرکے اسے دروازہ پر کی قربان گاہ کے چار پہلوؤں پر چھڑکیں۔ اس کے بعد قربانی پیش کرنے والا کھال اتار کر جانور کے ٹکڑے ٹکڑے کرے۔ امام قربان گاہ پر آگ لگاکر اس پر ترتیب سے لکڑیاں چنیں۔ اس پر وہ جانور کے ٹکڑے سر اور چربی سمیت رکھیں۔ لازم ہے کہ قربانی پیش کرنے والا پہلے جانور کی انتڑیاں اور پنڈلیاں دھوئے۔ پھر امام پورے جانور کو قربان گاہ پر جلادے۔ اس جلنے والی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔(ایضاً، باب۱، آیت۱-۱۰)
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھتیجوں یعنی حضرت ہارونؑ کی اولاد کو امام بنایا تھا اور ان کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز قرار دیا تھا۔ توریت میںامام کی صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ قربانی کرنے کی بھی تفصیل ملتی ہے۔ ان میں ایک یہ ہے:
’’اماموں کو مقدس میں میری خدمت کے لیے مخصوص کرنے کا طریقہ یہ ہے ۔ ایک جوان بیل اور دوبے عیب مینڈھے چن لینا۔ بہترین میدے سے تین قسم کی چیزیں پکانا جن میں خمیر نہ ہو۔ پہلے سادہ روٹی، دوسرے روٹی جس میں تیل ڈالا گیا ہو، تیسرے روٹی جس پر تیل لگایا گیا ہو۔ یہ چیزیں ٹوکری میں رکھ کر جوان بیل اور دو مینڈھوں کے ساتھ رب کو پیش کرنا‘‘۔ (ایضاً، کتاب خروج، باب ۲۹، آیت ۱-۴)
بیل کوملاقات کے خیمے کے سامنے لانا۔ ہارون اور اس کے بیٹے اس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھیں۔ اسے خیمے کے دروازہ کے سامنے رب کے حضور ذبح کرنا۔ بیل کے خون میں سے کچھ لے کر اپنی انگلی سے قربان گاہ کے سینگوں پر لگانا اور باقی خون قربان گاہ کے پائے پر انڈیل دینا۔ انتڑیوں پر کی تمام چربی، جوڑ، کلیجی اور دونوں گردے ان کی چربی سمیٹ کر قربان گاہ پر جلادینا۔ لیکن بیل کے گوشت، کھال اور انتڑیوں کے گوبر کو خیمہ گاہ کے باہر جلادینا ،یہ گناہ کی قربانی ہے۔
اس کے بعد پہلے مینڈھے کولے آنا، ہارون اور اس کے بیٹے اپنے ہاتھ مینڈھے کے سر پر رکھیں۔ اسے ذبح کرکے اس کا خون قربان گاہ کے چارپہلو پر چھڑکنا۔ مینڈھے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی انتڑیوں اور پنڈلیوں کو دھونا پھر انھیں سر اورباقی ٹکڑوں کے ساتھ ملاکر پورے مینڈھے کو قربان گاہ پر جلادینا۔ جلنے والی یہ قربانی ربّ کے لیے بھسم ہونے والی قربانی ہے اور اس کی خوشبو رب کو پسند ہے۔ (ایضاً، آیت ۱۰-۱۹)
بائبل میں گناہ کے کفارہ کے طور پر قربانی دینے اور سلامتی کی قربانی یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قربانی دینے کے احکام مفصلاً مذکور ہیں اور دونوں میں قدرے فرق بھی ہے۔ توریت میں مذکور ہے:
’’ربّ نے موسیٰ سے کہا: اسرائیلیوں کو بتانا کہ جو ربّ کو سلامتی کی قربانی پیش کرے وہ رب کے لیے ایک حصہ مخصوص کرے۔ وہ جلنے والی یہ قربانی اپنے ہاتھوں سے ربّ کو پیش کرے۔ اس کے لیے وہ جانور کی چربی اور سینہ ربّ کے سامنے پیش کرے۔ سینہ ہلانے والی قربانی ہو۔ امام چربی کو قربان گاہ پر جلادے، جب کہ سینہ ہارون اور اس کے بیٹوں کا حصہ ہے۔ قربانی کی داہنی ران امام کو اٹھانے والی قربانی کے طور پر دی جائے۔ وہ اس امام کا حصہ ہے جو سلامتی کی قربانی کا خون اور چربی چڑھاتاہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۷، آیت۲۸-۳۴)
گناہ اور قصور کی قربانی کے لیے ایک ہی اصول ہے جو امام قربانی کو پیش کرکے کفارہ دیتا ہے اس کو اس کا گوشت ملتاہے۔ اس طرح جو امام کسی جانور کوبھسم ہونے والی قربانی کے طور پر چڑھاتا ہے اسی کو جانور کی کھال ملتی ہے‘‘۔ (ایضاً، آیت ۷-۹)
بائبل میں قربانی کا گوشت قربانی کے دن ہی استعمال کرنے کا حکم دیا گیاہے۔اگلے دن کے لیے قربانی کا گوشت بچا کر رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ توریت میں ہے:’’گوشت اسی دن کھایا جائے جب جانور ذبح کیا گیا ہو، اگلی صبح تک کچھ نہیں بچنا چاہیے۔ اس قربانی کا گوشت صرف اس صورت میں اگلے دن کھایا جاسکتا ہے جب کسی نے منت مان کر یا اپنی خوشی سے اسے پیش کیاہے۔ اگر کچھ گوشت تیسرے دن تک بچ جائے تو اسے جلانا ہے۔ اگر اسے تیسرے دن بھی کھایا جائے تو رب یہ قربانی قبول نہیں کرے گا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اسے ناپاک قرار دیا جائے گا‘‘۔(عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب ۷، آیت ۱۵-۱۸)
قرآن میں قربانی کے گوشت کو آنے والے دنوں میں استعمال کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور غریبوں اور ناداروں کوبھی کھلاؤ۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۰ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۳۶ (الحج ۲۲: ۳۶)تم اس قربانی میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت پسند محتاج اور فقیر کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے اسے تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں قربانی کا گوشت تین دنوں سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا تھا، بعد میں آپؐ نے اجازت دے دی اور اس کی حکمت بھی بیان فرمائی۔
حضرت نبیشہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے منع کیا تھا کہ وہ تم سب لوگوں کو پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے ۔ اب تم اسے کھاؤ، بچا کے بھی رکھو اور (صدقہ کرکے) ثواب بھی حاصل کرو۔ سنو! یہ دن کھانے پینے اور اللہ عزوجل کو یاد کرنے کے ہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب حبس لحوم الاضاحی)
اس مضمون کی ایک تفصیلی روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بھی مروی ہے۔(ایضاً)
بائبل میں جانور کی جگہ پرندوں کی قربانی کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ یہ قربانی ان لوگوں کے لیے ہے جو جانور قربان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ توریت میں ہے ’’اگر قصوروار شخص غربت کے باعث بھیڑ یا بکری نہ دے تو وہ رب کو دوقمریاں یا دو جوان کبوتر پیش کرے۔ ایک گناہ کی قربانی کے لیے اور ایک بھسم ہونے والی قربانی کے لیے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۵،آیت۷-۸)
قرآن میں صرف ’انعام‘ چوپایوں کی قربانی کا حکم ہے۔ پرندوں کی قربانی کا حکم نہیں ہے۔ اسی لیے قربانی صاحب ِنصاب یعنی مال دار لوگوں پر واجب کی گئی ہے۔ نادار لوگوں پر قربانی نہیں ہے۔ کفارہ میں بھی مسکینوں کوکھانا کھلانے اور روزہ رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ جو لوگ غریب اور نادار ہیں ان سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ ان کے لیے دوسرے احکام ہیں جو ان کی حالت کے مطابق ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ اضحی کے دن مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے‘۔ ایک شخص کہنے لگا:’ اگر میں مادہ اونٹنی یابکری کے علاوہ کچھ نہ پاؤں توکیا اسی کو ذبح کردوں؟‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’نہیں۔ تم بال کترلو، ناخن تراش لو، مونچھ کترلو اور زیر ناف کے بال صاف کرلو، اللہ رب العزت کے نزدیک یہی تمھاری پوری قربانی ہے‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی)
بائبل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین کی گئی ہے۔ ان مخصوص مقامات کے علاوہ کہیں اور قربانی نہیںکی جاسکتی، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی۔ توریت میں وضاحت ہے:’’ر ب نے موسیٰ سے کہا ہارون، اس کے بیٹوں اور تمام اسرائیلیوں کو ہدایت دینا کہ جو بھی اسرائیلی اپنی گائے یابھیڑ بکری،ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پررب کو قربانی کے طور پر پیش نہ کرے بلکہ خیمہ گاہ کے اندر یا باہر کسی اور جگہ پر ذبح کرے، وہ خون بہانے کا قصوروار ٹھیرے گا۔ اس نے خون بہایا ہے اور لازم ہے کہ اسے اس کی قوم میں سے مٹایا جائے۔ اس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی اب سے اپنی قربانیاں کھلے میدان میں ذبح نہ کریں بلکہ رب کو پیش کریں۔ وہ اپنے جانوروں کو ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پر امام کے پاس لاکر انھیں رب کو سلامتی کی قربانی کے طور پر پیش کریں۔ امام ان کا خون ملاقات کے خیمے کے دروازہ پر کی قربان گاہ پر چھڑکے اور اس کی چربی اس پر جلادے۔ ایسی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۱۷، آیت۱-۷)
اس کے برخلاف قرآن میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین نہیں کی گئی ہے۔ قربانی کسی بھی پاک صاف جگہ کی جاسکتی ہے خواہ قربان گاہ میں ہو یا کھلے میدان میں۔
بائبل میں اماموں کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل اپنی خطاؤں کے کفارہ کی قربانی اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی قربانی انھی اماموں کے ذریعے کراتے تھے۔
توریت میں ہے:’’موسیٰ نے ہارون اور اس کے بچے ہوئے بیٹوں اِلی عزر اور اتمر سے کہا: غلّہ کی نذر کا جو حصہ رب کے سامنے جلایا نہیں جاتا اسے اپنے لیے لے کر خمیری روٹی پکانا اور قربان گاہ کے پاس ہی کھانا کیوں کہ وہ نہایت مقدس ہے۔ اس مقدس جگہ پر کھانا کیوں کہ وہ رب کی جلنے والی قربانیوں میں سے تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہے۔ کیوں کہ مجھے اس کا حکم دیا گیاہے۔ جو سینہ ہلانے والی قربانی اور داہنی ران اٹھانے والی قربانی کے طور پر پیش کی گئی ہے وہ تم اور تمھارے بیٹے بیٹیاں کھاسکتے ہیں۔ انھیں مقدس جگہ پر کھانا ہے۔ اسرائیلیوں کی سلامتی کی قربانیوں میں سے یہ ٹکڑے تمھارا حصہ ہیں۔ لیکن پہلے امام ران اور سینے کو جلنے والی قربانیوں کی چربی کے ساتھ پیش کریں۔ وہ انھیں ہلانے والی قربانی کے طور پر رب کے سامنے ہلائیں۔ رب فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑے ابد تک تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہیں‘‘۔(ایضاً، آیت ۱۲-۱۶)
بنی اسرائیل کے امام قوم کی طرف سے قربانی کرتے تھے اور اس قربانی میں ان کا حصہ مقرر تھا۔ قرآن میں قربانی کرنے کے لیے امام یا مذہبی رہنما کی قید نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ ہر وہ مسلمان جو خداترس ہے اور قربانی کی دعا واحکام سے واقف ہے قربانی کرسکتاہے۔ قربانی کے جانور میں قربان کرنے والے اماموں کاحصہ بھی مقرر نہیں کیا گیاہے۔
بائبل کے مطابق قربانی کا مخصوص حصہ اللہ کو پیش کیا جائے اور اس کی شکل یہ ہے کہ اسے آگ میں جلادیا جائے کیوں کہ جلتے ہوئے گوشت کی خوشبو اللہ کو پسند ہے۔ توریت میں حضرت ہارونؑ کے بارے میں کہا گیا ہے:’’پھر اس نے اس کی چربی ، گردوں اور جوڑ کلیجی کو قربان گاہ پر جلادیا، جیسے ربّ نے موسٰی کو حکم دیا تھا ویسے ہی ہارونؑ نے کیا۔ بچھڑے کا گوشت اور کھال اس نے خیمہ گاہ کے باہر لے جاکر جلادی‘‘۔(ایضاً، باب ۹، آیت ۱۰-۱۲)
قرآن پاک میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہیں ہے بلکہ فرمایا: قربانی کے جانور کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا، البتہ تمھارا تقویٰ اللہ کو پہنچتاہے۔ اللہ نے اس کو تمھارے لیے اسی طرح مسخر کیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو اور احسان کرنے والوں کو خوش خبری سنادو۔(الحج ۲۲:۳۷)
توریت میں قربانی کی اقسام اور احکام جس تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، وہ انجیل میں مفقود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مواعظ میں قربانی کرنے کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے بلکہ ایک جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بیان کیاگیاہے:’’پہلے جاؤ اورکلام مقدس کی اس بات کا مطلب جان لو کہ ’’میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں‘‘ کیوں کہ میں راست بازوں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو بلانے آیا ہوں‘‘۔ (عہد نامہ جدید، انجیل متی، باب۹، آیت ۱۳)
اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے قربانی کا حکم نہیں دیا، بلکہ وہ اخلاقی اور روحانی اعمال اور مذہبی اصلاح پر زور دیتے تھے۔ حضرت موسٰی کی شریعت پر دل وجان سے عمل کرنے کی تبلیغ کرتے تھے۔ توریت میں قربانی کے جو احکام تفصیلاً موجود ہیں، انھی کے نفاذ کو کافی سمجھتے تھے۔ ان کا مشہور قول انجیل میں موجود ہے:’’یہ نہ سمجھنا کہ میں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ ان کی تکمیل کرنے آیا ہوں‘‘۔(ایضاً، باب ۵، آیت ۱۷)
قرآن میں قربانی کے احکام اجمالاً بیان کیے گئے ہیں، جب کہ قربانی کے تفصیلی احکام، فضیلت، شرائط اور عملی مسائل حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔
رمضان المبارک کی فضیلت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ماہِ صیام ہے۔ اس ماہ میں مسلمان تسلسل کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اللہ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں: فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۰ۭ (البقرہ۲:۱۸۵)’’تم میں سے جو شخص ماہ رمضان کو پائے اس میں روزے رکھے‘‘۔ چنانچہ دنیا کے تمام خطوں میں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، اہلِ ایمان اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح روزہ مسلمانوں کی روحانی پاکیزگی اور تقویٰ و طہارت کا ذریعہ بنتاہے اور عالمی وحدت کا اسلامی شعور عطا کرتاہے۔
رمضان المبارک کی فضیلت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قرآن پاک کے نازل ہونے کا مہینہ ہے۔ یوں تو قرآن کریم تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت ۲۳ سال میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ تاہم، اس کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان المبارک میں ہوئی۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے باہر جبل نور کے غارحرا میں گوشہ نشین تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ (البقرہ۲: ۱۸۵)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت نامہ ہے اور ہدایت اور حق وباطل میں فرق کرنے والے واضح دلائل پر مشتمل ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ،روزہ اور قرآن قیامت کے دن مومن کی شفاعت کریں گے۔ (احمد، من مسند بنی ہاشم، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص، حدیث: ۶۴۵۴)
اسی لیے مسلمان، رمضان المبارک میں کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ انفرادی طور پر دن اوررات میںکسی بھی وقت حسب سہولت تلاوت کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر رات میں تراویح کی شکل میں قرآن کریم کی تلاوت وسماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ گویا نزول قرآن کا مہینہ قرآن کریم کی حفاظت کا بھی مہینہ ہے۔ مسلمانوں کے کسی محلہ میں جائیے جہاں مسجد ہوگی، وہاں اوّل شب میں تلاوت قرآن کی صدا بلند ہوگی۔ یہ روحانی منظر پوری دنیا کے طول وعرض میں دکھائی دے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری خودلی ہے، کسی انسان پر نہیں ڈالی ہے اور ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ۹ (الحجر۱۵:۹)بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اگرچہ توریت وانجیل کو بھی ذکر کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ۙ (النحل ۱۶:۴۳) اہلِ ذکر، یعنی اہلِ کتاب سے پوچھو اگر تم لوگ نہیں جانتے۔
مگر ’ذکر‘ کی حفاظت سے مراد صرف قرآن کریم کی حفاظت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی قاعدہ کے مطابق نزلنا کا مصدر تنزیل ہے جو باب تفعیل سے آتاہے۔ اس کے معنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے ہیں۔ یہ خصوصیت صرف قرآن کریم کی ہے کہ وہ تھوڑا تھوڑا ۲۳ برسوں میں نازل ہوا۔ توریت وانجیل کی یہ خصوصیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ توریت وانجیل میں لفظی اور معنوی تحریف ہوئی۔ عبارتوں میں کمی اور زیادتی کی گئی۔ مدلول اور مصداق بدلے گئے۔ ترجمے اور مفاہیم میں تبدیلی ہوئی۔ لیکن یہ صفت صرف قرآن کریم کی ہے کہ آج تک چودہ سو سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود قرآن میں معمولی ترمیم و اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی آیت، الفاظ اور حروف تک محفوظ رہے۔حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ وہ اپنی شریعت کو قیامت تک باقی رکھے، اس لیے اس نے قرآن کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی‘‘۔ (محمود بن عبداللہ الآلوسی، روح المعانی، جلد۱۲،ص ۴۰۹)
قرآن کریم کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ و ہ عربی زبان میں نازل ہوا۔ عربی زبان کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ تقریباً پندرہ سو سال سے آج تک اس زبان کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو عربی بولی،پڑھی اور سمجھی جاتی تھی وہ آج بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کی لسانی بناوٹ اور گرامر میں بہت کم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن کو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے لوگوں نے سنا اور سمجھا، آج بھی اسی طرح لوگ پڑھ اور سمجھ رہے ہیں، جب کہ دوسری زبانوں میں عہد بعہد تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ہزار سال بعد تو زبانوں کی بنیادی ساخت بدل جاتی ہے ۔ اس عہدکی کتابوں کا مابعد کی نسل کے لیے پڑھنا اور سمجھنا مشکل ہوجاتاہے۔ اس کو ماہرین زبان ہی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن ہر عہد کے لوگوں کے لیے اعلان کرتا ہے:
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۲۲(القمر۵۴:۲۲) ہم نے ذکر کے لیے قرآن کو آسان کردیا ہے تو کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟
قرآن کریم کے محفوظ ہونے کی شہادت وہ مستشرقین بھی دیتے ہیں، جو قرآن کریم کو کلامِ الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام کہتے ہیں۔ چنانچہ فلپ کے ہٹی نے لکھا ہے: ’’جدید نقاد اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن کے نسخے ٹھیک اسی نسخے کے مطابق ہیں، جسے زید بن ثابتؓ نے اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔ اور یہ کہ آج کا قرآن وہی ہے جسے محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] نے پیش کیا تھا‘‘۔(History of the Arabs، ص ۱۲۳)
پٹنہ یونی ورسٹی میں ایک مسلمان پروفیسر عمرہ کے لیے خانہ کعبہ گئے۔ نماز کی صف بندی ہوئی تو ان کے برابر میں ایک لمبا گورا آدمی کھڑا ہوا۔ امام حرم نے تلاوت شروع کی تو وہ آدمی زاروقطار رونے لگا۔ نماز ختم ہوئی تو پروفیسر صاحب نے اس سے سلام ومصافحہ کیا اور ان کا تعارف حاصل کرنا چاہا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’میں آسٹریلیا کا رہنے والا ہوں۔ میں پہلے پادری تھا، قرآن پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور اب بیت اللہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میں توریت وانجیل کا عالم ہوں۔ ان کتابوں میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اصل انجیل تو یہ قرآن کریم ہے کیوں کہ انجیل میں نازل شدہ تعلیمات قرآن پاک میں موجو د ہیں۔ مجھے قرآن میں حضرت عیسیٰؑ کا اصل پیغام ملتاہے‘‘۔
ایسے حق شناس اہلِ کتاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھے، اور انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓي اَعْيُنَہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِـمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۰ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِيْنَ۸۳ (المائدہ ۵:۸۳)جب یہ (نصاریٰ) اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول کریم ؐپر نازل کیاگیا تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں، کیوں کہ وہ حق کو پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ، ہم ایمان لائے تو ہمارا نام لکھ لیجیے ایمان کی گواہی دینے والوں کے ساتھ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے جو پیغامِ ہدایت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کو دیا تھا، وہی پیغام قرآن کریم بھی پیش کرتاہے۔ ایمان اور اصولِ دین جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئے، وہی قرآن کریم میں موجود ہیں۔ نجات کی جو شرطیں اور رضائے الٰہی کی جو بشارتیں انجیل میں آئی تھیں، وہی قرآن کریم میں بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ انجیل میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوئی، مگر قرآن اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور اصولِ دین کا محافظ ہے۔ تقریباً اسی طرح کا خیال معاصر مستشرق تھامس کلیری نے بھی اپنی کتاب The Essential Koran میں ظاہر کیا ہے، اور قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ کی سیرت اور پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
عیسیٰ ؑ کے لیے انتہائی احترام کے القاب (مثلاً اللہ کا کلمہ اور اللہ کی روح) کا استعمال کرنے کے باوجود قرآن نے اللہ کی وحدانیت کو اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ ؑ کی بنیادی تعلیمات کی تصدیق بھی کی ہے اور خود قرآن کوگذشتہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کے مصداق اور محافظ کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔(ص۱۸۱-۱۸۹)
نامور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ نے لکھا ہے:’’ جرمنی میں میونخ یونی ورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا: ’’قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے، خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو، جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ ۱۹۳۳ء میں جب مَیں پیرس یونی ورسٹی میں تھا، تو اس ادارے کا تیسرا ڈائرکٹر پریتسل پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں، ان کے فوٹو حاصل کرے۔
اس پروفیسر صاحب نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا، اور عمارت ، کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا، لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافات روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوںمیں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخہ میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی‘‘۔(ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاول پور، بیکن بکس،لاہور،ص ۳۲، ۳۳)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اگرچہ خود لی ہے، مگر اہلِ ایمان کو اس کی حفاظت کا وسیلہ بنایا ہے۔ اس طرح کہ مسلمان روزانہ اس کی تلاوت کریں، اسے خود یاد کریں اور اپنے بچوں کو یاد کرائیں۔ پانچ وقت کی نمازوں میں قرآن کی قرأت کریں۔ خوشی اور غم کے مواقع پر قرآن کو پڑھیں اور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کی تلاوت وتحفیظ کا اہتمام کریں۔ علما اس کی تفسیر کریں، قاری اسے حسین آواز سے مزین کریں۔ کاتب اسے روشن حروف سے لکھیں اور حفاظ اسے اپنے سینوں میں محفوظ کریں۔ قرآن کریم کے حافظ جس کثرت سے پائے جاتے ہیں دنیا کی کسی بھی کتاب کے حافظ اس تعداد کا کروڑواں حصہ بھی نہیں پائے جاتے۔
رمضان المبارک میں حفاظ تراویح کی نماز میں قرآن کریم زبانی سناتے ہیں۔ اگر امام سے قرآن کی تلاوت میں غلطی ہوتی ہے تو دوسرا حافظ اسے لقمہ دیتا ہے اور قرآن سنانے والا اپنی غلطی کی اصلاح کرلیتاہے، قطعی بُرا نہیں مانتا بلکہ اسے کارِ ثواب سمجھتاہے۔ اس طرح قرآن کی قرأت صحت کے ساتھ جاری رہتی ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
ہر زمانے میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہا کہ جس نے قرآن کے علوم ومطالب اور غیرمنقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ وعبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہوسکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمارکیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی، حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کوشمار کرڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی، جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔(تفسیرعثمانی، سورۃ الحجر، آیت ۹)
یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ عباسی خلیفہ مامون الرشید [م:۷؍اگست ۸۳۳ء ]نے ایک علمی مجلس بنائی تھی، جس میں تمام مذاہب کے نمایندے شریک ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی مجلس میں ایک یہودی عالم آیا۔ وہ بہت خوش شکل اور خوش لباس تھا اور خوشبو لگائے ہوئے تھا۔ بادشاہ کی مجلس میں اس نے بھی گفتگو کی اور بہت ہی عمدہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون الرشید نے اسے الگ بلایا اور پوچھا کیا تم اسرائیلی ہو؟ اس نے کہا ہاں، میں اسرائیلی ہوں۔ مامون نے کہا کہ تم اسلام قبول کرلو تو تم کو عہدہ اور منصب عطا کروں گا۔ اس نے کہا کہ میرا مذہب وہی ہے جو میرے آباواجداد کا ہے۔یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔
ایک سال کے بعد وہ شخص پھر مامون کی اس مجلس میں شریک ہوا، مگر اب وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ اس دن اس شخص نے اس مجلس میں فقہ کے موضوع پر گفتگو کی اور بہت عالمانہ گفتگو کی۔ جب مجلس ختم ہوگئی تو خلیفہ مامون نے اسے الگ بلایا اور پوچھا: ’’کیا تم وہی آدمی تو نہیں ہو، جو پچھلے سال اس مجلس میں شریک ہوئے تھے؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں میں وہی آدمی ہوں‘‘۔ مامون نے پوچھا : ’’تمھارے مسلمان ہوجانے کا سبب کیاہے؟ ‘‘انھوں نے کہا:’’ جب میں آپ کی مجلس سے واپس گیا تو مجھے خیال آیا کہ موجودہ مذاہب کو آزمایا جائے کہ کون سا مذہب سچا ہے؟ میں خوش نویس ہوں اور اچھی تحریر لکھتا ہوں۔ میں نے توریت کو لیا اور اس کے تین نسخے عمدہ خط میں تیار کیے۔ لیکن میں نے توریت کی عبارتوں میں کچھ کمی بیشی کردی۔ میں ان نسخوں کو لے کر یہودیوں کی عبادت گاہ میں گیا۔ وہاں لوگوں نے توریت کے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے انجیل کو لیا اور اس کے تین نسخے خوش خط تیار کیے۔ اور ان میں بھی کمی اور زیادتی کردی۔ پھر ان کو لے کر میں چرچ گیا۔ عیسائیوں نے وہ نسخے مجھ سے خرید لیے۔ پھرمیں نے قرآن کو لیا اور اس کے بھی تین خوب صورت نسخے تیار کیے اور ان میں بھی کمی وزیادتی کردی۔ پھر میں نے ان نسخوں کو وراقوں کے حوالہ کیا (قرآن کی کتابت کرکے ہدیہ کرنے والے لوگ)۔ ان لوگوں نے ا ن میں کمی اور زیادتی پائی تو ان کو پھینک دیا اور کسی نے بھی نہیں خریدا۔ تب میں سمجھ گیا کہ قرآن اللہ کا محفوظ کلام ہے اور میں نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔(ابوعبداللہ محمدبن احمد انصاری، الجامع لاحکام القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، جلد۱۰، ص ۵،۶)
آج بھی دشمنانِ اسلام یہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں، آیتوں اور الفاظ میں ردوبدل کردیں، تاکہ مسلمان گمراہ ہوجائیں۔ چنانچہ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے ایسے نسخے بھی معاندین نے لوڈ کیے ہیں، جن میں من گھڑٹ سورتیں اور آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً ’سورۃ الایمان‘، ’سورۃ المسلمون‘ اور’ سورۃ الوصایا‘ وغیرہ جیسی من گھڑت عربی عبارات۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ قرآن کی سورتیں ہوںگی، مگر درحقیقت یہ قرآن میں تحریف کی شیطانی حرکت ہے۔ الحمدللہ، قرآن اپنی مکمل اور محفوظ شکل میں مسلمانوں کے گھروں میں اور حافظوں کے سینوں میں موجود ہے۔ چنانچہ اس طرح کی ناپاک کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ تاہم، ہر صاحب ِایمان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت اور اس کے فہم کو پھیلانے کی سعادت حاصل کرکے اپنی آخرت کو سنوارے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی یا ان کے نظامِ سیاست پر گفتگو کی جاتی ہے تولوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توایک روحانی پیشوا اور رسولِؐ خداتھے۔ عبادت اور تعلق باللہ کے داعی تھے۔ ان سے پہلے جو رسول دنیا میں تشریف لائے، وہ بھی روحانی پیشوا تھے۔ سیاست سے ان کاکیا تعلق ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مطلب کیاہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں سیاست کی جو شکل وصورت ہمارے سامنے موجود ہے، وہ ظلم وزیادتی، جھوٹ، فریب، دھوکا اور وعدہ شکنی پر قائم ہے۔ اس میں بدعنوانی اور انسانوں کا استحصال بھی شامل ہے۔ اس سیاست میں جولوگ شامل ہیں خواہ انتخابی سیاست ہو یا آمرانہ سیاست، ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں ہے۔ لہٰذا، ایسی سیاست سے نبی اور رسول کا تعلق کیسے ہوسکتاہے!
’سیاست‘ عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں: اَلْقِیَامُ عَلَی الشَّیْ ءِ بِـمَا یَصْلُحُہٗ (الزبیدی، تاج العروس، ج۱۶،ص ۱۵۷)
سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے ۔ معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ (صحیح البخاری، کتاب الانبیاء: ۳۲۸۶) نبی اسرائیل کی سیاست، یعنی قیادت انبیاء کرام فرماتے تھے۔ جب کوئی نبی انتقال کرجاتے تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے، اورمیرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا البتہ خلفاء ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میںدو طرح کے مذاہب اور نظریے تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر آپ روحانیت چاہتے ہیں تو ’رہبانیت‘ اختیارکریں، یعنی دنیاسے کنارہ کشی کریں۔ اور اگر آپ سیاست کو دیکھناچاہتے ہیں تو ملوکیت کی طرف دیکھیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف یہ جملہ منسوب ہے کہ جو ’’خدا کاہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کودو‘‘۔ یعنی خدا کے حقوق الگ تھے اور قیصر کے حقوق الگ تھے۔ یہ تقسیم خدا اور قیصر کے حقوق کے درمیان تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ؐ نے اس تفریق کو مٹایا اور دنیا کو یہ نظریۂ حکومت دیا کہ انسان زمین کا’مالک‘ نہیں بلکہ ’امین‘ ہے۔کوئی چیز انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے بلکہ ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ انسان اس کا امانت دار ہے۔ اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ صرف اللہ کے لیے ہے، باقی سارے انسان اس کے بندے اورغلام ہیں۔ آپ ؐ نے اللہ کا یہ پیغام انسانوں تک پہنچایا:
وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۸۴ (الزخرف ۴۳ : ۸۴) وہی خدا جوآسمان میں معبود ہے وہی زمین میں بھی معبود ہے او روہ حکمت اور علم والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو حکومت سازی کایہ نظریہ دیا:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۵۴ (الاعراف ۷: ۵۴)جس نے پیدا کیا ہے، اس کی مخلوق پر حکم اسی کا چلے گا۔بابرکت ہے اللہ تمام جہانوں کا ربّ۔
چوںکہ انسانوں کو پیدا اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیاہے، اس لیے اس کی مخلوق پر کسی اورکا حکم نہیں چلے گا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی حکم چلے گا۔
lمستشرقین کی غلط فہمی: بیسویں صدی میں مشہور برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھیں: Mohammad at Mecca اور Mohammad at Madeena پھر ان دونوں کتب کو ایک مجموعے Mohammad Prophet and Statesman کے نام سے شائع کیا۔ موصوف نے یہ فتنہ پھیلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مکہ مکرمہ میں تو ایک داعی ، ایک روحانی پیشوا اور ایک پیغامبر تھے، لیکن جب وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں نعوذباللہ وہ ایک حکمران تھے، ایک آمر تھے(محمد پرافٹ اینڈ سٹیٹسمین، ۲۰۱۰ء)۔یہ فتنہ انھوں نے اس لیے پھیلایا کہ ان کی تعلیم و تربیت میں مذہب اورسیاست کی دوئی شامل ہے۔ ان کے سامنے عیسائیت کی تاریخ ہے۔ وہاں خدا کا اقتدار اور اختیار الگ ہے اور قیصر کااقتدار واختیار الگ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیںکرسکتے۔ اسی تناظر میں واٹ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کودیکھا۔
اسی طرح ٹائن بی (۱۸۸۹ء- ۱۹۷۵ء) بھی معروف عیسائی تاریخ نویس نے ریاست مدینہ کے قیام کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا:’’اس میں شک نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں حکومت قائم کرنے کی دعوت قبول کی تو انھوں نے اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیا کہ وہ اللہ کی راہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ گامزن ہیں.... [حالانکہ] وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے تھے‘‘ (A Study of History ،ج۳، ص ۴۷۱، ۱۹۶۱ء)۔اس طرح ٹائن بی کم فہمی اور بدترین تعصب کا شکار ہوکر، رسولِ کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اور قرآنِ عظیم کے پیغام کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے۔
اس ڈگر میں استثناء مائیکل، ایچ ہارٹ کاہے کہ جب اس نے انسانی ’تاریخ کے سو عظیم رہنماؤں‘ کے حالات لکھے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست رکھا اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’وہ واحد انسان ہیں جو مذہب اور سیاست دونوں سطح پر یکساں طور پر کامیاب قائد ہیں‘‘۔(The 100، ص۳۳)
lدین و دُنیا کی یکجائی: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت دی تو پہلے دن سے یہ بات ظاہر کردی تھی: سجدہ بھی خداہی کو کیاجائے گا اور حکم بھی خدا ہی کامانا جائے گا، اور اقتدار بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کاتسلیم کیاجائے گا۔ جواب میں کفار نے آپ کی شدید مخالفت کی۔ پتھر برسائے، گالیاں دیں، جان لیوا حملے کیے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جاری رکھی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت ان کفار نے حضرت ابوطالب سے کی جو آپ کے چچاجان تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا اور کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں ورنہ یہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کو ایک جواب دیا اور فرمایا:
کَلِمَۃٌ وَاحِدَۃٌ تُعْـــطُوْنِیْہَا تَمْـــلِکُوْنَ بِہَا الْــعَرَبَ وَتُدِیْنُ لَکُمْ بِہَا الْعَـجَمُ (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۳، ص۲۷، دارالفکر) میں تم سے ایک کلمہ کہلوانا چاہتا ہوں۔ اگر اس کو کہہ دوگے تو تم عرب کے اقتدار کے مالک ہوجاؤگے اور تمھاری باج گزاری عجم کے لوگ بھی کریں گے۔
یعنی جو کلمہ میں تم سے کہلوانا چاہتا ہوں اس کلمے میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار عرب کا ہو یا عجم کا ہو وہ تمھارے قبضے میں آجائے گا۔ کفار کی نمائندگی ابوجہل کررہاتھا۔ ابوجہل نے کہا کہ اے بھتیجے! ایسا وہ کون سا کلمہ ہے جو تم ہم سے کہلوانا چاہتے ہو؟ ایسا ایک نہیں ہم دس کلمہ کہنے کے لیے تیار ہیں۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو لاالٰہ الااللّٰہ اوراس کے علاوہ تمام بتوں کی پرستش چھوڑ دو۔ کفار یہ سنتے ہی مشتعل ہوگئے۔ ابوجہل نے کہا :
اَتُرِیْدُ یَا مُحَمَّدُ اَنْ تَجْعَلِ اْلآلِہَۃَ اِلٰــــہًا وَاحِدًا اِنَّ اَمْرَکَ لَعَـجَبٌ (ایضاً) اے محمدؐ! کیسی بات کرتے ہو، ہم لوگ متفرق بتوں کوپوجنے والے ہیں، کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارے دیوتاؤں کوچھوڑ کر ایک خدا کومان لیں؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔
کفار مکہ کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کی دعوت دی وہ یہ تھی کہ اگر تم ایک خدا کومان لوگے، تو صرف آخرت میں جنت ہی نہیں ملے گی بلکہ دنیا کا اقتدار بھی تمھارے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا کااقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں تھاجو ظالم تھے، اور کمزوروں کا استحصال کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین کے ساتھ بھیجا اس میں نہ صرف آخرت کی کامیابی اور سعادت شامل تھی بلکہ انسانوں کی دنیاوی راحت اور سعادت بھی شامل تھی۔ مگر کفار نے اپنا عناد جاری رکھا۔ کفار کی مخالفت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت پر قائم رہے یہاں تک کہ آپؐ کو مکہ چھوڑنا پڑا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی توکفار مکہ نے اعلان کیا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے لائے گا، اس کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر ہے۔ بہت سے لوگ آپؐ کے تعاقب میں دوڑے۔ دوڑنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا نام سراقہ بن مالک تھا اور وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا۔ اس وقت آپ غارثور میں تھے۔ پتھریلی زمین میں اس کا گھوڑا دھنس گیا۔ اس نے محمدؐ سے دعا کی درخواست کی، آپؐ کی دعا سے اسے مصیبت سے نجات ملی۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کَیْفَ بِکَ یَاسُرَاقَۃُ اِذَا تَسَوَّرْتَ بِسِوَارَیْ کِسْرٰی، سراقہ وہ دن کیسا ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے؟ اس کویقین نہیں آیا۔ انھوں نے کہاکہ کیا کسریٰ بن ہرمز کا کنگن میرے ہاتھوں میںہوگا؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ ہاں کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے(السیرۃ الحلبیہ، از علی بن الحلبی،ج۲، ص۴۵، بیروت)۔
حضرت عمر فاروقؓ کے زمانۂ خلافت میں ایران فتح ہوا۔ مالِ غنیمت خلیفہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مالِ غنیمت میں کسریٰ کا کنگن بھی تھا۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ بن مالک کو بلایا اور کسریٰ کا کنگن ان کے ہاتھ میں پہنایا اور ان سے فرمایا: کہو:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَہُمَا مِنْ کِسْرٰی بْنِ ھُرْمُزَ الَّذِیْ کَانَ یَقُوْلُ اَنَـا رَبُّ النَّاسِ (السیرۃ الحلبیہ) تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے یہ کنگن کسریٰ سے چھین لیے جو یہ کہتاتھا کہ میں لوگوں کا پروردگار ہوں۔
عَصَیْبَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَفَتَتِحُوْنَ اَلْبَیْتَ الْاَبْیَضَ بَیْتَ کِسْریٰ (مسلم، کتاب الامارۃ: ۳۴۸۶) مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے دارالحکومت کو فتح کرلے گی۔
کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور رستم کی جگہ ایک مسلم حکمراں وہاں حکومت کرے گا۔ جس طرح لوگوں کو سورج کے نکلنے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح صحابہ کرامؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پر یقین تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی کہ وہ کلمہ طیبہ جس کے لیے ہمیں مکہ مکرمہ سے نکالا جارہا ہے، ہمارے اصحاب کو گھروں سے نکالا جارہا ہے اور ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کیاجارہا ہے،ایک وقت آئے گا کہ صرف مکہ ہی فتح نہیں ہوگا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی شہنشاہیت ایران یا عجم یاکسریٰ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوگی۔ ہجرت پر روانگی کے وقت آپ ؐ نے دعا فرمائی :
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) اے رب! اگر تو داخل کرے تو سچائی کے ساتھ اور اگر مکہ سے نکال رہا ہے تو سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت اور ہجرت سے واضح کردیا کہ اقتدار اللہ کا ہے اوراس کے صالح بندے اس اقتدار کے حق دار ہیں۔ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۱۰۵ (الانبیاء۲۱:۱۰۵) ’’زمین کے اقتدار کے وارث نیک بندے ہوں گے‘‘۔ مکہ میں مومنوں کو ایک طرف بہت مارا گیا اور دوسری طرف مداہنت کی کوششیں بھی کی گئیں۔ کفار چاہتے تھے کہ کچھ آپؐ جھک جائیں اورکچھ ہم جھک جائیں، لیکن آپ ؐ نے شرک کی آمیزش کوقبول نہیں کیا۔
اس نظام کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر جس ریاست کی بناڈالی اس کی بنیادی خصوصیات کے بارے میں پروفیسر یاسین مظہر صدیقی لکھتے ہیں: ’’۱۲؍ربیع الاول پہلی ہجری،۱۴ستمبر ۶۳۳ء کو جس اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑی تھی، وہ دوسری دنیاوی سلطنتوں اور حکومتوں اور ریاستوں کی مانند ایک اور دنیاوی ریاست یا حکومت نہ تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مثالی ریاست اور قابل تقلید حکومت تھی، جس کی بنیادیں خدائے قادر مطلق کی حاکمیت اعلیٰ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت خداوندی، امت مسلمہ کی اخوت و مساوات اور احترام ومحبت،بنی آدم کے عظیم اصولوں اور عملی نمونوں پر قائم کی گئی تھیں۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اسلامی ریاست وحکومت کو اپنی تمام تر پیش رو اور جانشین حکومتوں اور ریاستوں میں ممتاز کرتی ہیں‘‘(عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، محمد یاسین مظہر صدیقی، ص ۲۱)۔
l سیاسی حکمت عملی:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کے چار پہلو تھے:
l پہلا یہ کہ مشرکوں کی مخالفت کے اس طوفان میں عفو ودرگزر کیجیے، وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْـرِکِیْنَ۔ جتنی پریشانیاں آتی ہیں، جتنے طنز کے تیر چلتے ہیں ان کو نظر انداز کیجیے، ان کی دشنام طرازیوں کو نظرانداز کیجیے۔ کفار جو اذیتیں آپ کودیتے ہیں ان کو نظر انداز نہ کرسکیں تو پھر اس دعوت کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنے آپ کو مومن کہناسود مند نہیں ہوگا۔
l رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مشرکوںکے ظلم پر صبر کیجیے۔ پتھر کے جواب میں پتھر نہیں برسانابلکہ اولوالعزم رسولوںؑ کی طرح صبر کرناہے:
فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۰ۭ (الاحقاف۴۶: ۳۵) آپ صبر کیجیے جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کیجیے۔
چنانچہ آپ ؐ نے خود بھی صبر کیا اور صحابہ کرام ؓ کو بھی صبر کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اوران کی والدہ سمیہؓ کو ایذا دی جارہی تھی۔ آپؐ وہاں سے گزرے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپ ؐ نے ان مظلوموں کو دیکھااور فرمایا: آلِ یاسر صبر کرو، جنت کاوعدہ ہے (سیرۃ النبی، ابن ہشام، ج۱،ص ۳۴۲)۔کفار مکہ کے ہاتھ میں تلوار تھی، اور خون مسلمانوں کابہہ رہا تھا۔ آپ ؐ نے تلوار کامقابلہ صبرسے کیا۔
l آپؐ کی سیاسی حکمت کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرو، اگر مکہ کی زمین تنگ ہوگئی ہے تو اللہ کی دوسری زمین کشادہ موجود ہے:
وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً۰ۭ (النساء۴: ۱۰۰) جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ منفعت اور وسعت پائے گا۔
l چنانچہ صحابہ کرامؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور نجاشی کے ملک میں جاکر پناہ لی۔ پھر دوسری مرتبہ مسلمانوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور وہاں جاکر زندگی بسر کی۔ اس کے بعد بھی جب کفار نے مسلمانوں کو نہیں بخشااور مدینہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اب مسلمانوں کو ہاتھ اُٹھانے کا حق مل گیا ہے اور ان کو اپنا دفاع کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکمت عملی کا چوتھا پہلو تھا:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ (الحج ۲۲:۳۹)جن لوگوں پر ظلم کیا گیا، جن لوگوں کو ان کے گھروںسے نکالا گیا ہے، جن کو ماراپیٹا گیا ہے صرف اس لیے کہ وہ خدائے وحدہٗ لاشریک پر یقین رکھتے ہیں، ان کو آج اجازت دی جارہی ہے کہ وہ بھی ہتھیار اُٹھالیں اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب کے یہ چار پہلو تھے، جن کے ذریعے آپ ؐ نے دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کیا، جس میں اللہ کی حکومت، اللہ کی عبادت اور اس کی حاکمیت کو نافذ کیا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظریۂ حکومت دیا، اس میں قانون سازی کاحق صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہے۔ انسان اس کا اتباع کرنے کامجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۸ (الجاثیہ۴۵: ۱۸) ہم نے ایک ایسا نظامِ قانون، ایک ایسی شریعت اور ایک ایسا دستور آپ کو دیا ہے جس کا اتباع کرنا ہے اور نادانوں کے اتباع سے پرہیز کرنا ہے۔
قرآن کی شکل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے دستور حیات لے کرآئے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے قوانین ہیں وہ خواہشات ، تجربات اور امیدوں پر مبنی ہیں۔ یہ غلطیوں کامجموعہ بھی ہوسکتے ہیں اور اچھائیاں بھی جزوی طور پر شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کریم ایسا نظام قانون ہے جواللہ کی طرف سے منزل ہے اور جس کا کوئی جز غلط نہیں ہوسکتا اور انسانوں کے لیے مضر نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی کاحق اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کونہیں دیا بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھا۔ یہ اس سیاست نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بنیاد تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ پیغام بھی آپ ؐ نے لوگوں کو پہنچایا :
وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ (الطلاق۶۵:۱) اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اگر پابندی نہیں کروگے تو تم اپنے آپ پر ظلم کروگے۔
اللہ کی شریعت اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کرکے آج کا انسان ایک ظالمانہ نظام قانون کے اندر جکڑ گیاہے۔ جوقانون اللہ کے قانون سے ٹکراتا ہے وہ انسان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَـا اَحَبَّ وَکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلَا سَمْعَ وَلَاطَاعَۃَ (صحیح البخاری، کتاب الاحکام) ہر مسلمان پر اپنے حاکم کی بات سننا اور ماننالازم ہے بشرطیکہ وہ گناہ کا حکم نہ دے۔ اگر وہ گناہ کاحکم دیتا ہے تو سننا اور ماننا واجب نہیں۔
یعنی اللہ کی نافرمانی میںکسی انسان کی فرماں برداری نہیںکی جاسکتی۔ قانون سازی کا اختیار صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے مخصوص ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بعد اس کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیاردیا گیا ۔ یہی اصل قانون ساز اور شارع ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ ۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۷ (الحشر۵۹: ۷) اللہ کے رسول جو کچھ دیں اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کردیں اس سے تم رُک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو حکومت کرنے کا کوئی اختیار نہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ انسان نائب ہے۔ حضرت آدم کے متعلق فرشتوں سے کہا: اِنِّیْ جِاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً (البقرہ ۲:۳۰) ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والے ہوں‘‘۔خلیفہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قانون کو رد کرکے اپناقانون نہ چلائے بلکہ اپنے مالک کے قانون کودنیا کے اندر نافذ کرے۔ لہٰذا انسان کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، اس مالک کاحکم مانے اور اس کے حکم کو زمین میں نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱ (الحج ۲۲: ۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ حکمران اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپناحکم چلانے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیا کے اندر نافذ کرے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۴۴ (المائدہ ۵: ۴۴)جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۴۵ (المائدہ ۵: ۴۵) جولوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ فاسق ہیں۔
گویا، اللہ کے قانون کے برخلاف اپنا قانون چلانا۔ اللہ کے نظام کوچھوڑ کر اپنا نظام چلانا، ظلم وزیادتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دیا اس کے اندر شخصی خواہشات اور شخصی حکم کی جگہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کواور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کونافذ کرنے کابنیادی طور پر فلسفہ موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ (النساء۴: ۵۹)اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکمراں کی اطاعت کرو۔
حکمراں کی اطاعت اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہے۔ یہی وجہ ہے جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو، وہاں حکمراں کوقانون سازی کا اختیار دیاگیاہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کویمن کاگورنر بنایا تو ان کورخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤتوکیاکروگے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ؐنے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤتوکیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروںگا اور اس میں کوتاہی نہیں کروںگا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ)
l مشاورت و شورائیت:اس نظام میں ’شورائیت‘ کو حکومت کرنے کا اصول قرار دیاگیاہے۔ آمریت کی جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شورائیت کوپسندفرمایا۔ مسلمانوں کا نظام حکومت آمریت پر مبنی نہیں ہوگا، شورائیت پر مبنی ہوگا۔ قرآن میں ہے، وَاَمْرُھُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ (الشوریٰ۴۲:۳۸) ’’مسلمانوں کے معاملات شوریٰ سے طے ہوں گے، مشورے سے چلیں گے‘‘۔ یعنی حکومت سازی کے اندر اورکاروبار حکومت کوچلانے کے لیے تمام اہل الرائے کی شرکت ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق حکم چلائے، باقی سب لوگ سرجھکاکر اس کی اطاعت کرنے لگیں۔ دوسرا اصول آزادی پر مبنی ہے۔ اس نظام میں ایسا نہیں ہوگا کہ کچھ لوگ غلام ہوں گے اور کچھ لوگ آزاد ہوںگے بلکہ تمام انسان مساوی ہیں، کسی کوکسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اللہ نے تمام انسانوں سے فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ (الحجرات ۴۹: ۱۳) لوگو تم کوہم نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمھارے قبیلے بنائے، تمھاری برادریاں بنائیں تاکہ تم باہم متعارف ہوسکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں بہتر وہ ہیں جو خدا ترس ہیں۔
اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر افضل ہیں اورکچھ لوگ پیدائشی طور پر ارذل۔ حقیقی عزت والے اللہ کی نظر میں وہ لوگ ہیں، جن کے اندر خداترسی اورخشیت اور انابت ہے، جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ گویا فضیلت کا معیار تقویٰ ہے، ذات اور برادری نہیں۔ انسانوں کے مابین مساوات کاآخری مرتبہ اعلان آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَـجَمِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ (فتح المنعم بشرح صحیح المسلم) تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کوکسی گورے پر، نہ کسی گورے کوکسی کالے پر سوائے تقویٰ کے۔
جن لوگوں میںخداترسی زیادہ ہے، وہ اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ بلند ہیںاور جن میں خداترسی نہیں ہے، جو خدا سے نہیں ڈرے ان سے انسانوں کوڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر سارے انسان برابر ہیں تو سب کو آزادی ملنی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی، عمل کی آزادی،فکر کی آزادی ملنی چاہیے۔ ایک موقع تھا کہ مصر کے گورنر کی شکایت ایک بدو نے حضرت عمرؓ کے سامنے کی کہ انھوں نے ناحق ان کومارا ہے۔ آپ نے انھیںبلایا اور بہت تاریخی جملہ فرمایا، آپ نے فرمایا:
مُذکَمْ تعَبَّدْتُمْ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْہُمْ أُمَّھَاتُھُمْ اَحْرَارًا؟ (کنزالعمال، ج۱۲،ص ۶۶۱) کب سے تم نے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے۔ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا۔
یہ آزادی انسان کابنیادی حق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کو مجمع عام میں ایک شخص ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ یہ بتادیں کہ سب کو مال غنیمت میںایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کودوچادریں کیوں ملیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بیٹے عبداللہ کی چادر حاصل کی ہے۔ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے گواہی دی (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرہ، ج۲،ص ۵۶، مصر)۔یہ نظام قانون، یہ مساوات، یہ آزادی اورحریت دنیا کونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی۔
l عدل و انصاف:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کا تیسرا اصول یہ تھا کہ کسی انسان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہ کی جائے، خواہ وہ دوست ہو یا دشمن۔ انصاف وہ قدر ہے کہ جس کے اوپر آسمان وزمین قائم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام سیاست کا یہ آفاقی اصول دیا:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا ۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ (المائدہ۵: ۸)کسی قوم کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ سے قریب ہے۔
اسلام انسانوں کے درمیان منصفانہ نظام قائم کرنے کے لیے اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کے لیے آیا ہے۔ جو نظام حکومت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا، اس کی اساس مساوات ، آزادی اور انصاف پر قائم ہے۔ جہاں بھی اسلامی حکومت ہوگی اس کابنیادی فرض ہوگا کہ وہ انسانوں کوانصاف عطاکرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کے زمانے میں انصاف کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔
l انسانی حقوق کا تحفظ:اللہ کے رسول نے جو نظام سیاست دنیا کو دیا اس کا چوتھا اصول یہ تھا کہ انسانی حقوق کی پاسبانی کی جائے۔ انسانی حقوق کوضائع نہ ہونے دیاجائے۔ جس کاجو حق ہے وہ حق اس کو عطا کیا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ بَیْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا، لِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (صحیح البخاری، کتاب العلم:۶۷) تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسرے کے اوپر حرام ہے اور ان کی حرمت کیسی ہے؟ جیسے آج کادن،آج کا شہر اورآج کا مہینہ۔ جولوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم دوسروں تک پہنچادیں۔
مکہ مکرمہ ، ذی الحجہ کا مہینہ اور یوم النہر کا جو تقدس ہے، اسی طرح انسانی جانوں اور مالوں کاتقدس ہے اور انسانی عزتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ دنیا میں ناحق نہ کسی کا خون بہایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کامال کھایا جاسکتا ہے اور نہ ناحق کسی کی عزت لی جاسکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام حکومت دنیا کودیا وہ ایک رفاہی نظام تھا۔ آمریت کانظام نہیں تھا اور ظلم واستحصال سے پاک تھا۔ اس میں ہر شخص خواہ وہ عورت ہو ، مرد ہو، غلام ہو، غریب ہو، نادار ہو، ان کے حقوق کی رعایت کی جاتی تھی۔ آپ ؐ نے فرمایا:
السَّاعِیْ عَلَی الْاَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (صحیح البخاری، کتاب النفقات: ۵۰۴۴) بیواؤں اور ناداروں کی خدمت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
یہ تو زندہ انسانوں کی خدمت وراحت کے بارے میں فرمایا۔ مُردہ انسان کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دِیْنٌ وَلَمْ یَتْرُکْ وَفَائً فَعَلَیْنَا قَضَاؤُہٗ وَمَنْ تَرَکَ مَالًا مَلِوَرَثَتِہٖ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض: ۶۳۶۲) جوشخص مرگیا اوروہ قرض دار تھا تو اس کا قرض میں ادا کروںگا، اورجوشخص مال چھوڑ کر مرا تواس کا مال اس کے وارثوں کو ملے گا۔
کیا دنیا میں کوئی مثال اس حکومت کی ملے گی کہ مرنے والا اگر قرض دار ہو تو اس کے قرض کی ادایگی حکومت کرے گی؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رفاہی حکومت قائم کرنے کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان کواسلام لانے کی دعوت دی اور اسلامی حکومت کو تسلیم کرنے اور اس کی تابع داری کرنے کی نصیحت کی۔ کیوںکہ یہ ایک مثالی حکومت تھی اور دنیا کی تمام حکومتوں کے لیے قابل تقلید نمونہ تھی۔ چنانچہ حسب ذیل بادشاہوں کے پاس اپنے سفیروں کوبھیجا۔ قیصرروم ہرقل کے پاس حضرت دحیہ کلبیؓ کو بھیجا۔ ایرانی شہنشاہ کسریٰ کے پاس عبداللہ ابن حذافہ السہمیؓ کوبھیجا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر و بن امیۃ الضمریؓ کوبھیجا۔ غسان کے بادشاہ حارث بن شمر کے پاس شجاع بن وھب الاسلمیؓ کوبھیجا۔ یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کے پاس سلیط بن عمرو العامریؓ کوبھیجا۔ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس العلاء بن حضرمی ؓ کوبھیجا۔ عمان کے بادشاہ جیفر اور عبد (دونوں بھائی) کے پاس عمرو بن العاصؓ کو بھیجا۔(سیرۃ النبی ؐ، ابن ہشام، ج۴، ص ۲۷۸)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سفیروں نے نہایت جرأت، حکمت اور بصیرت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان بادشاہوں کے سامنے رکھا، اور ان کو دین اسلامی اور اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے کی دعوت دی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیروںکا یہ پیغام بین الاقوامی سفارت کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی میں رقم طراز ہیں:
جس ملک میں کبھی کوئی حکومت ہی قائم نہیں ہوئی تھی اس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دستور مملکت مرتب کیا اور جونظامِ حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی عظیم الشان مملکت کے لیے نہ صرف ہرطرح کارآمد و کافی ثابت ہوا بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی (ص۱۵)۔
l جواب دہی کا احساس:اس نظام حکومت کوقائم کرنے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمہ داری اور جواب دہی کا تصور پیدا کیا۔ آپ نے فرمایا:
اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ(صحیح البخاری،کتاب الاحکام) یاد رکھنا تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص کو اپنی زیر نگرانی رعیت کے بارے میں اللہ کے یہاں جواب دینا ہے۔
امت مسلمہ کواللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ اعزاز دیا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔
جولوگ صاحب ِاختیار اورصاحب ِاقتدار ہیں، وہ خود کو اس دنیا کا مالک نہ جانیں، بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ امانت دارہیں اور اللہ کے حضور جواب دہ ہیں۔ اگر حکمرانوں میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے تو دنیا کے اندر امن قائم ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جلوہ دنیا کو نظر آجائے۔
آج لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کی بات نہیں کرتے۔ ہرشخص کواس کا حق چاہیے لیکن اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے آدمی کتراتا ہے۔ اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر انسان نظر رکھے۔ یعنی حکمراں ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے، اگر وہ رعایا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر نظر رکھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جنگیں بھی ہیں، معاہدے بھی ہیں، امن بھی ہے، بین الاقوامی تعلقات بھی ہیں، ان کو پڑھیے اور دیکھیے کہ آپ ؐ نے غیرمسلم دنیا کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا، کن اصولوں پر معاملہ کیاتھا؟ آج دنیا میں بے اصولی پائی جاتی ہے۔ نہ جنگ میں اصول ہے، نہ صلح میں اصول ہے، نہ امن میں اصول ہے اور نہ معاہدوں میں اصول ہے۔ کسی چیز میں اصول کی پابندی نہیںکی جاتی ہے،پابندی جس چیز کی کی جاتی ہے وہ اپنا مفاد ہے۔ اگر مفاد ہو تو امن کی بات آدمی کرتا ہے اور اگر مفاد نہ ہو تو جنگ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مفاد کی خاطر معاہدے توڑ دئیے جاتے ہیں، غداری کی جاتی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایسا نظام دیاجس میں ذاتی مفاد کی جگہ عام انسانوں کا مفاد اور اس سے بڑھ کر اللہ کی مرضی کو سربلند کرنے کی کوشش کی گئی۔
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’سیاست کومفاد اور اغراض کے بجائے اخلاق کے تابع کرنا اوراسے خداترسی وپرہیزگاری کے ساتھ چلانا اس ریاست کی اصل روح ہے۔ اس میں فضیلت کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ اس کے کارفرماؤں اور اہلِ حل و عقد کے انتخاب میں بھی ذہنی وجسمانی صلاحیت کے ساتھ اخلاقی پاکیزگی سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اس کے داخلی نظام کا بھی، ہر شعبہ دیانت وامانت اور بے لاگ عدل و انصاف پر چلنا چاہیے اور اس کی خارجی سیاست کوبھی پوری راست بازی، قول وقرار کی پابندی، امن پسندی اوربین الاقوامی عدل اورحسن سلوک پر قائم ہونا چاہیے‘‘۔(خلافت و ملوکیت، ص۵۴)
اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنالیں، ان کے حکمران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کواپنائیں اور ان کے علما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں، ان کے تجار رسولؐ کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے طلبہ ، اورعوام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور ان کے پیغام کو دنیا تک پھیلانے کی کوشش کریں، تو یقین سے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا سے بدامنی کم ہوگی، جہالت کی تاریکی دور ہوگی اور ظلم کے اندھیرے چھٹ جائیںگے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکمران مطلق نہیں بنایا بلکہ اس کو امین بنایا، اس کوقانون کا پابند بنایا۔ اللہ کی خشیت اور ذمہ داری اور جواب دہی سے جوڑا۔ اگر انسان جواب دہی اور اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت شامل ہوجاتی ہے اور جو شخص خواہش کی بنیاد پر حکومت طلب کرے تو وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کبھی حکومت کی تمنا نہ کرنا ،اگر تمنا کرنے سے یا خواہش کرنے سے تم کو اقتدار ملے گا تو تم اس کے حوالے کردیے جاؤگے، اور اگر تمھاری خواہش کے علی الرغم تم کو دی جائے تو اللہ کی مدد تمھارے اوپر آتی ہے(صحیح البخاری)۔چنانچہ جولوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت کرتے ہیں اللہ کے بندوں کواللہ سے جوڑنے کے لیے، اللہ کے حقوق پہنچانے کے لیے، انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے حکمرانی کرتے ہیں وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وشریعت کی پابندی کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنا حکم چلاتے ہیں، اپنی خواہشات کا اتباع کرواتے ہیں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوسوں دُور ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روحانیت بھی ہے اور اخلاق بھی، عبادت بھی ہے اور سیاست بھی،معاشرت بھی ہے اور معیشت بھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کو دنیامیں نافذ کرنے کی جدوجہد بھی ہے۔ یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی گزارنے کا اسوہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دعا سکھائی ہے :
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِـمَّنْ تَشَاۗءُ۰ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۲۶ (اٰل عمرٰن۳: ۲۶) اے اللہ حکومت کامالک! تو جسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے، جسے چاہے عزت بخشے اورجسے چاہے ذلت دے، بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کی رضا کا حصول روحانیت کا سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مضبوط قلبی تعلق مطلوب ہے اور یہی عبادت کی روح ہے۔ جبریل امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے ، آنجنابؐ نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الجامع الصحیح مسلم) اللہ کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اتنی کیفیت پیدا کیجیے کہ خد اآپ کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رُوبرو ہونا بندگی کا کمال ہے، مگر اس کیفیت کا دل میں پیدا ہونا پاکیزگیِ قلب اور انابت کی گہرائی چاہتا ہے۔خدا کو دیکھنے کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اعضاو جوارح کی تربیت کے ساتھ نفس کا تزکیہ اور دل کی خشیت ضروری ہے ۔ اس سے نیچے کی منزل یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور بھی انسان کے دل کو بدل دیتا ہے اور نفس کے شروروفتن کوزائل کر دتیا ہے۔ یہی اخلاص ہے۔
ایک مزدور کو اگریہ معلوم ہو کہ اس کا مالک موقعے پر موجود نہیں ہے تو وہ کام میں سستی کرتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے اور کام کرتا بھی ہے تو بے دلی سے کرتا ہے، کام کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ لیکن اگر کسی مزدور کو یہ معلوم ہو کہ اس کا مالک اس کے سامنے کھڑا ہے تو کام میں چستی دکھاتا ہے ، جی لگا کر کام کرتا ہے اور وقت گذاری سے پرہیز کرتا ہے۔ اسی طرح بندے کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل کی کیفیت اور جسمانی عمل کی حالت بدل جاتی ہے۔اس کی عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سے اخلاص پیدا ہوتا ہے۔
عبادت سے مراد صرف نماز نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی عبادت ہے اور ہر عبادت اپنی قبولیت کے لیے اخلاص چاہتی ہے۔ اللہ کی رضا جوئی ، بے لوث بندگی ، اللہ سے خوف وامید کے ساتھ طلب، قبولیت کے دروازے کھولتی ہے۔ کسی عمل میں نام ونمود اور ریا کاری شامل ہو جاتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ عمل مقبول نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اللہ کا حکم ہے:
فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲-۳) اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے دین کو خالص کر کے، آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ کے لیے ہے۔
صدقہ ،زکوٰۃ ، خیرات ، غربا پروری اور ناداروں کی حاجت روائی سب انسانیت کی بھلائی اور روحانیت کی ترقی کا عمل ہے ،مگر اس کی شرط بھی اللہ کی رضا جوئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ (الدھر ۷۶:۸۔۱۰) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیںنہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے ا س دن کے عذاب کا خوف ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔
اخلاص کے لیے اللہ کے حاضرو ناظر ہونے کا احساس ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا استحضار اور اس کا ذکر کرتے رہنا روحانیت کی شاہِ کلید ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۱۴ۙ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۱۵ۭ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۱۷ۭ اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۱۸ۙ صُحُفِ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى۱۹ۧ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۹) بے شک وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کیا، اپنے رب کے اسم گرامی کا ذکر کیا اور نماز ادا کی ، بلکہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، جب کہ آخرت باقی رہنے والی اور بہترہے۔ یہ بات گذشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہے، صحیفہ ابراہیم ؑاور صحیفہ موسیٰ ؑ میں۔
اللہ کے ذکر سے روحانیت جِلا پاتی ہے اور روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ بات پہلے بھی تمام آسمانی صحیفوں میں بیا ن کی گئی ہے اور اس قرآن میں بھی اس کی تائید کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۴۱ۙ وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۴۲ (الاحزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان والو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔
دل میں اللہ کی یاد اور زبان سے اس کا ذکر قلب انسانی کو تروتازہ رکھتا ہے۔ ذکر الٰہی روح کی غذا ہے۔جس دل میں خدا کی یاد ہو وہ زندہ ہے اور جو دل یادِ خدا سے غافل ہو وہ مُردہ ہے۔ قرآن نے یہ راز اس طرح عیاں کیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ ۰ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۲۸ۭ (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے طمانیت پاتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ اللہ کے ذکرہی سے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روحانی نکتے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ (الجامع الصحیح بخاری ) اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد کرتا ہے زندہ کی ہے، اور اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد نہیں کرتا مُردہ کی ہے۔
قرآن کی نظر میں ہر سانس لینے والا انسان زندہ نہیں ہے بلکہ ذکر کرنے والا انسان زندہ ہے۔ جسمانی زندگی کھانے سے اور سانس لینے سے قائم رہ سکتی ہے مگر روحانی زندگی یادِخدا کے بغیر قائم نہیںرہ سکتی۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا۔اسلام کے احکام تو بہت سے ہیں مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے جسے میں لازم پکڑلوں۔رسولؐ پاک نے ارشاد فرمایا :
لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ (سنن ترمذی ) تمھاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہے۔
اللہ کے ذکر کی ایک تو عمومی شکل ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، صبح وشام اللہ کے نام کا ورد کیجیے ، اس کی تسبیح کیجیے ، جس کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۲۰۵ (الاعراف ۷:۲۰۵) اپنے جی میں اپنے رب کا ذکر کرو،عاجزی اور خاموشی اور کم آواز سے صبح وشام اور غافلوں میںنہ ہوجائو۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۱۷ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۱۸ (الروم۳۰:۱۷-۱۸) اللہ سزا وارۂ تسبیح ہے،جب تمھاری شام ہو اور جب تمھاری صبح ہو،اسی کے لیے آسمان وزمین میں حمد ہے، رات میں بھی اور جب تمھارا دن ہو۔
اللہ کا ذکر انسان کے میل کچیل کو دھو دیتا ہے، دل کی سختی کو دور کر کے خشیت وانابت پیدا کر دیتا ہے، اور اسے بارگاہِ رب العزت میں نذر کے قابل بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۲ۚۖ (الانفال ۸:۲)سچّے اہل دل تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمومی ذکر کے لیے بہت سے وظائف کی تعلیم فرمائی ہے۔ اس میں سب سے آسان ا ور مقبول ذکر ہے ـ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ ،حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ (الجامع الصحیح بخاری) دو جملے رحمن کو بہت بہت پسند ہیں، وہ جملے زبان پر ہلکے اور میزان میںبھاری اور رحمن کو محبوب ہیں۔ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ۔
اللہ کے ذکر کی دوسری شکل خاص اور ضابطۂ بند ہے اور وہ نماز ہے جو پانچ وقتوں میں فرض ہے اور بقیہ اوقات میں نفل ہے۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۲۰:۱۴) نماز قائم کرمیری یاد کے لیے ۔
ذکر کی منظم اور مکمل صورت نماز ہے۔اسی لیے نماز کو مو من کی معراج فرمایا گیا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی یُنَاجِیْ رَبَّہُ ،’’جب تم میں سے کوئی نماز ادا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے‘‘۔
بندہ کا خدا سے ،حبیب سے مکالمہ وجدانگیز ، روح پرور اور حاصل زندگی ہوتا ہے۔ یہ مقام انسان کو نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۱۱۴ (ھود ۱۱:۱۱۴) نماز قائم کرو دن کے کناروں میںاور رات کے حصے میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ذکر کرنے والوں کے لیے۔
عمومی ذکر کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے جب انسان ذکر خصوصی، یعنی نمازکااہتمام کرتا ہو۔ جو شخص فرض نمازوں کا پابند نہیں وہ لاکھ ذکر الٰہی کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ معتبر نہیں، کیوں کہ ایمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل نماز ہے۔ جو شخص خدا کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتاہے وہ اس کے آگے سر جھکانے سے اور اس کے حکم کی تعمیل کرنے سے کیسے روگردانی کرسکتا ہے۔
نماز کے علاوہ دوسری تمام عبادات کا اہتمام کرنا،جیسے صدقہ، زکوٰۃ ، خیرات، روزہ ،حج ، جہاداور ان عبادات کے علاوہ تمام اعمالِ صالحہ کا التزام کرنا روحانیت کے لیے لازم ہے۔ صرف کلمۂ توحید کا اقرار کرنا اور شرک وکفر سے پرہیز کرنا روحانی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ نیک عمل کو زندگی کا طریقہ اور وظیفہ بنا لینا ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے لکھا ہے:
ــ’’عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا دارومدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے ، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام نے انسانیت کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح ) کو ملا کر قرار دیا ہے، یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں ، پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو،یہ عمل صالح ہے۔ ہر قسم کی کامیابیوں کا انحصار انھی دوباتوں پرہے۔کوئی مریض صرف اصول طبی کوصحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا ، جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز وفلاح کے لیے کافی نہیںہے جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے‘‘۔(سیّد سلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، ج۵، اعظم گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص۱۱)
عمل صالح کا اہتمام کرنے سے انسان اللہ کی نظر میںبھی محبوب ہو جاتا ہے اور دوسرے انسان بھی اس سے محبت اور اس کی عزت کرنے لگتے ہیں،یعنی جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶ (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کا اہتما م کیا عنقریب رحمٰن ان کو دوست بنائے گا۔
اعمالِ صالحہ کا فائدہ انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بُرے اعمال ، بُرے خیالات اور بُری باتوں سے اجتناب کرے۔ اعمالِ صالحہ روحانی امراض کے لیے دوا ہیں اور بری باتوں سے دُور رہنا پرہیز کے درجے میں ہے۔جب تک مریض پرہیز نہیں کرتا دوا کارگر نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ۰ۭ (الانعام ۶:۱۲۰) ظاہری اور باطنی ہر قسم کی برائی ترک کر دو۔
بُرے اعمال اور بُرے خیالات کا اثر انسان کے قلب وذہن پر پڑتا ہے اور اسے روحانی کیفیات کا حامل بننے سے روکتا ہے۔ قرآن پاک میںہے:
كَلَّآ بَلْ ۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۴ (المطففین ۸۳:۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ بن جاتا ہے۔اگر وہ اس سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہو جاتی ہے، اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے توسیاہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
اس لیے روحانیت کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اوصاف رزیلہ انسان کے دل سے نکل جائیں اوردوسری منزل یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ کادل خوگرہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۳۱ (النور ۲۴:۳۱) اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ فلاح پائو۔
انسان سے دانستہ خطائیں سر زد ہوتی ہیں۔توبہ ان خطائوںسے معافی کادروازہ کھولتی ہے اور اللہ کی رحمت کومتوجہ کرتی ہے۔اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو غلطی کرے تو اللہ سے توبہ واستغفار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت آدم ؑ اور ابلیس دونوں سے غلطی سرزد ہوئی۔ حضرت آدمؑ کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے حکم دینے کے باوجود حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کیا۔ دونوں خطا کار تھے مگر ایک راندۂ دربار ہوا اور دوسرے نے معافی اور محبت پائی،اس لیے کہ دونوں کے رویے میں بڑا فرق تھا۔
پہلا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑنے اپنی غلطی کا اقرار کیا مگر ابلیس نے اپنی غلطی کا اقرار نہیں کیا ۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑاپنی غلطی پر نادم ہوئے اور ابلیس کو اپنی غلطی پر ندامت نہیں ہوئی۔ تیسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑ نے اپنی غلطی کو اپنے نفس کی خطا قرار دیا اور ابلیس نے اپنی غلطی کو خد ا سے منسوب کیا اور کہا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ(الحجر۱۵:۳۹)’’اے رب تو نے مجھے گمراہ کیا‘‘۔ چوتھا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑنے گڑگڑا کر توبہ کی اور کہا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنفُسَنَا وَ اِن لَّمْ تَغفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے تو ہم خسارے میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اور ابلیس توبہ کرنے کے بجاے گناہ پہ قائم رہا۔ابلیس کا یہ رویہ غلطی پر اصرار اور سر کشی کا تھا۔ حضرت آدمؑ کا رویہ عاجزی کا تھا۔ ابلیس نے استکبار کیا،حضرت آدم ؑنے استغفار کیا۔ اسی فرق نے دونوں کے انجام کو جدا کیا۔ ابلیس ملعون ہوا اور حضرت آدمؑ محبوب ہوئے۔
روحانی اعمال ووظائف کی پابندی کرنا اور منکرات وخواہشات سے اجتناب کرنا صبر چاہتا ہے۔ اس راہ میں مشکلات وموانعات ہیں، تکالیف اور شدائد ہیں اور ان کو انگیز کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو صبر کی تلقین کی ہے اور صبر ہی پر آخرت کا اجر ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(الزمر۳۹:۱۰) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔
صبر انسان کو حرص وہوس سے بچاتا ہے اور گناہ اور شہوت سے بھی دُور رکھتا ہے۔ صبر وقتی بھی ہوتا ہے اور دائمی بھی۔ روحانی زندگی دائمی زندگی ہے۔ اس لیے صبر کو ہمیشہ اختیار کرنا مومن کی شان ہے۔ اس کے لیے نمونہ انبیا علیہم السلام ہیں خصوصاً محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس کے اتباع کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(الاحقاف ۴۶:۳۵) جس طرح عالی ہمت رسولوںؑ نے صبر کیا اس طرح صبر کرو۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا ۔ انھوں نے پھر سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔یہاں تک کہ آپؐ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال ان کو دینے کے بعد فرمایا کہ میرے پاس جو مال آتا ہے وہ تم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اب جو شخص اللہ سے عفت چاہتا ہے اللہ اس کو عفیف بنا دیتا ہے، اور جو استغناء طلب کرتا ہے اس کو مستغنی بنا دیتا ہے، اور جو کوشش کر کے صبر اختیار کرتا ہے اللہ اس کو صابر بنادیتا ہے اور کسی شخص کو صبر سے بہتر وسیع عطیہ نہیں دیا گیا ۔(الجامع الصحیح بخاری )
انسانی اذیتوں ، آسمانی بلائوں اور دنیوی مشکلات ومصائب پر صبر کرنے کے ساتھ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے۔اسباب ووسائل سے بھی کام لے مگر ان پر بھروسا نہ کرے، بلکہ بھروسا صرف اللہ پر کرے ، کیوںکہ مشکلات اللہ کی طرف سے آتی ہیں، وسائل واسباب کو اللہ پیدا کرنے والا ہے اور وہی وسائل سے ماورا ہو کر انسان کی مدد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۳ (الطلاق ۶۵:۳) جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے، اللہ اپنا کام انجام تک پہنچاتا ہے، ہر چیز کے لیے اس نے پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب رسولوں کو توکّل کی تفہیم اس طرح دی ہے:
وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ۰ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَـا۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۱۲ۧ (ابراہیم۱۴:۱۲) اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ کریں ،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں دکھائیں ، اور ہم تمھاری اذیتوںپر صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
فقر ودرویشی روحانیت کے لیے موزوں ہے مگر لازمی نہیں ہے۔ مال ودولت روحانیت کے منافی نہیں ہے بشر طیکہ حلال طریقے سے کمایا جائے اور اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ اگر حقوق اللہ ادا کرتے ہوئے مال ودولت حاصل کیا جائے تو یہ مذموم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: رِجَالٌ۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الــزَّ کٰــوۃِ ۰۠ۙ (النور ۲۴:۳۷) یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور بیع اللہ کے ذکرسے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے نہیں روکتی ۔ غریبوں ، ناداروں اور محتاجوں پر مال ودولت خرچ کرنا روحانیت کا طریقہ ہے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کے پاس مال ودولت ہو۔ مال داروں پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور ان کو صدقات کی تعلیم دی ہے۔ارشاد فرمایا: اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۲۷۴ؔ (البقرہ ۲:۲۷۴) جو لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں ، پوشیدہ اور ظاہری طور پر ، ان کے لیے ان کا اجر ہے، ان کے رب کے پاس، نہ ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا تزکیہ نفس کا بڑا ذریعہ ہے۔ غریبوں پر مال خرچ کرنے سے دولت بھی پاک ہوتی ہے اور انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ میںبہت سے نادار تھے اور بہت سے مال دار ۔ مال دار صحابہ ،نادار صحابہ سے کسی طرح بھی روحانیت میں کم نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ کے تمام احکام بجالاتے تھے اور جو دولت ان کے پاس تھی اسے ناداروں ،محتاجوں اور جہاد میں خرچ کرتے تھے۔ اگر مال داری روحانیت کے منافی ہوتی تو یہ حضرات ہرگز اسے گھر میں آنے نہ دیتے ، کیوں کہ یہ حضرات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور ان کے جانشین تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ جیسے صحابہ وولت وثروت میںممتاز تھے، تو انفاق فی سبیل اللہ اور غربا پروری میںبھی بے مثال تھے،چنانچہ ان کا روحانی مقام بھی بہت بلند تھا۔
دولت کی طرح حکومت اور قیادت بھی روحانیت کے منافی نہیںہے، بشرطیکہ خواہش نفس کی تکمیل کے لیے اور عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے نہ کی جائے۔ حکومت اور قیادت کو دُنیا داری کا کام سمجھا جاتاہے اور روحانیت کو اس سے دور خیال کیا جاتا ہے، مگر قرآن کی نظر میںحکومت اور روحانیت میں تضاد نہیں ہے۔ اگر حکومت اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے کی جائے، انصاف اور خیر خواہی کے ساتھ کی جائے اور اللہ کے احکام کو اللہ کی زمین میں نافذ کرنے کے لیے کی جائے تو یہی روحانیت کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱(الحج ۲۲:۴۱) ان لوگوں کوجب ہم زمین میں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا اور نیکی کی اشاعت کرنا خالص روحانی عمل ہے اور یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں تو مسند حکومت پر سرفراز ہونے کے باوجود وہ روحانی ہستیاں ہیں۔ انبیا علیہ السلام سے زیادہ روحانی شخصیت دنیا میں کس کی ہوسکتی ہے۔غور کیجیے کہ حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے عظیم الشان باد شاہ ہیں اور ایسے صاحب شوکت وحشمت کہ چرند پرند اور ہوائوں پر بھی حکومت ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ اللہ کے جلیل القدر نبی بھی ہیں اور روحانیت کے امام بھی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی ہے:
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میںکوئی روحانی ہستی نہیںپیداہوئی،مگر آپؐ کا اقتدار کے لیے دعا کرنا اور پھر مدینہ پہنچ کر اسلامی ریاست قائم کرنا روحانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ روحانیت کو مضبوط اوروسیع کرنے کے لیے ہے،تا کہ زمین پر شیطان کی حکومت ختم ہو اور رحمٰن کی حکومت جاری وساری ہو۔اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کی بندگی کا ماحول ساز گار ہو،نفسانیت کا خاتمہ ہو، روحانیت کا بول بالا ہو۔
جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین ،حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓاور حضرت علی ؓ مثالی حکمران تھے۔دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے اسوہ اور رہنما تھے اوراسی کے ساتھ وہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔آج کی روحانی ہستیوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ان خلفاے راشدین کے نقش قدم تک پہنچ جائیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی میں جس اعتدال وتوازن کی ضرورت ہے وہ ان پاک ہستیوں سے سیکھیں ۔
قرآن نے روحانیت کی جو تعلیم دی ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد، یعنی اللہ اور بندوں کے حقوق کی یکساں ادایگی کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے انسان سماج میں رہ کر دنیا کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی روحانی پاکیزگی کا اہتمام کرے۔سماج سے کٹ جانا، گوشہ نشینی اختیار کرلینا ، لوگوں کی حاجت روائی سے رو گردانی کرنا اور انسانی حقوق کی ادایگی سے غفلت برتنا روحانیت کے منافی ہے ۔ انسانوں کی فیض رسانی کرنا اور ان کی تکالیف پر صبر کرنا روحانیت کا تقاضا ہے، جب کہ رہبانیت ترکِ دنیا کی تعلیم دیتی ہے،انسانی سماج سے علیحدہ ہوجانے اور گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر یاد ِخدا میں زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہے۔ رہبانیت اللہ کو مطلوب نہیں ہے اور اسلام اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادایگی کو روحانی زندگی کا مشن قرار دیتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
اکثر مذاہب نے دین داری اور خدا پرستی کا کمال یہ سمجھا تھا کہ انسان کسی غار،کھوہ یا جنگل میں بیٹھ جائے اور تمام دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ اسلام نے اس کو عبادت کا صحیح طریقہ قرار نہیں دیا ہے۔ عبادت در حقیقت خدا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کانام ہے۔ اس بنا پر وہ شخص جو اپنے تمام ہم جنسوں سے الگ ہوکر ایک گوشے میں بیٹھ جاتا ہے، وہ در حقیقت ابناے جنس کے حقوق کی ادایگی سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے وہ کسی تعریف کا مستحق نہیں۔ (سیرت النبیؐ، ج۵، ص۳۱)
روحانیت کی راہ عبادت ہے اور عبادت کے لیے انسان یکسوئی چاہتا ہے ۔اس یکسوئی کے لیے کبھی وہ تجرد کی زندگی اختیار کر لیتا ہے،یعنی ازواج واولاد کی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے، اگرچہ تجرد کی زندگی اسلام کی کی نظر میں حرام نہیںہے مگر مطلوب بھی نہیں ہے۔ انبیا علیہم السلام کی روحانی ہستیاں ازواج واولاد کی حامل تھیں۔ ان انبیا ؑمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررحضرت یحییٰ علیہ السلام نے گو کہ شادی نہیں کی اور ان کے بال بچے نہیں تھے مگر انبیا علیہ السلام کی عظیم اکثریت اُن پر مشتمل تھی جنھوں نے شادی کی اور ازواج واولاد کے حامل ہوئے۔ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کیں اور صاحب ِاولاد ہوئے، اس لیے کہ روحانیت کے لیے تجرد کی زندگی مطلوب نہیں ہے بلکہ بال بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ روحانی زندگی مطلوب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہ دعا کرنے کی تعلیم دی ہے:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۷۴ (الفرقان ۲۵:۷۴) اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔
روحانیت کی علامت صرف تقویٰ اورخدا ترسی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی ہے۔ اس کے برعکس آج کے عہد میں روحانیت کے لیے مخصوص علامتیں اور رسمیں وضع کر لی گئی ہیں۔ اس ظاہرداری کا روحانیت سے تعلق نہیں ہے، بلکہ بعض رسمیں روحانیت کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہیں۔ان ہی میں ایک رسم بزرگوں اور نیک بندوں کی قبروں کو مزین کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کو حاجت روائی کے وسیلے کے طور پر اختیار کرنا اور ان کو مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لیے دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم تو دی ہے مگر قبروں کوسجدہ گاہ بنانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنْبِیَاءِ ھِمْ وَصَالِحِیْھِمْ مَسَاجِدً ا فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدًا اِنِّیْ اَنْھٰکُمْ عَنْ ذٰلِکَ (الجامع الصحیح مسلم ) تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، تم لوگ قبروں کو مسجد نہ بنا لینا۔ میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ اور ام حبیبہ ؓ نے حبشہ کے ایک گرجے کا تذکرہ کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کے یہاں جب کسی نیک انسان کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں اس کی تصویر لٹکا دیتے۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں قیامت تک ۔ (الجامع الصحیح مسلم )
قبریں خواہ انبیا ؑکی ہوں یا بزرگوں کی، وہ حاجت روائی کا ذریعہ نہیں ہیں اور نہ عبادت کا مرکز ہیں، بلکہ وہ صرف موت کو یاد کرنے کا مقام ہیں۔ ان کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے اور ان کی روحانی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
قبروں کے مقابلے میں مسجدیں حاجت روائی کا وسیلہ اور روحانیت کا مرکز ہیں۔ چوں کہ مسجدمیں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور عبادت کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے، اس سے فریاد کی جاتی ہے، اس سے حاجت روائی کی دعا مانگی جاتی ہے اور خدا اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے روحانیت کا اس سے بہتر اور کوئی مرکز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ ۰ۙ يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۳۶ۙ (النور ۲۴:۳۶) اللہ کا نور ان گھروں میںپایا جاتا ہے جس میں اپنے نام کا ذکر کرنے اور اسے بلند کرنے کا حکم دیا ، ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح بیان کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ سات لوگ جو قیامت کے دن اللہ کے سایے میں ہوں گے ان میں ایک شخص وہ ہے جس کا دل مسجد میںلگا ہوا ہو ۔(الجامع الصحیح بخاری )۔ یعنی جس شخص نے مسجد میں پابندی سے نماز ادا کرنے کو وظیفۂ زندگی بنا لیا ہے وہی سایۂ خدا وندی کا مستحق ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور بندگی روحانیت ہے۔ اللہ کے حکم پر عمل کرنا اور غیر اللہ سے کنارہ کشی کرنا روحانیت کی شاہ کلید ہے۔
اللہ کی رضا کا حصول روحانیت کا سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مضبوط قلبی تعلق مطلوب ہے اور یہی عبادت کی روح ہے۔ جبریل امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے ، آنجنابؐ نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الجامع الصحیح مسلم) اللہ کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اتنی کیفیت پیدا کیجیے کہ خد اآپ کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رُوبرو ہونا بندگی کا کمال ہے، مگر اس کیفیت کا دل میں پیدا ہونا پاکیزگیِ قلب اور انابت کی گہرائی چاہتا ہے۔خدا کو دیکھنے کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اعضاو جوارح کی تربیت کے ساتھ نفس کا تزکیہ اور دل کی خشیت ضروری ہے ۔ اس سے نیچے کی منزل یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور بھی انسان کے دل کو بدل دیتا ہے اور نفس کے شروروفتن کوزائل کر دتیا ہے۔ یہی اخلاص ہے۔
ایک مزدور کو اگریہ معلوم ہو کہ اس کا مالک موقعے پر موجود نہیں ہے تو وہ کام میں سستی کرتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے اور کام کرتا بھی ہے تو بے دلی سے کرتا ہے، کام کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ لیکن اگر کسی مزدور کو یہ معلوم ہو کہ اس کا مالک اس کے سامنے کھڑا ہے تو کام میں چستی دکھاتا ہے ، جی لگا کر کام کرتا ہے اور وقت گذاری سے پرہیز کرتا ہے۔ اسی طرح بندے کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل کی کیفیت اور جسمانی عمل کی حالت بدل جاتی ہے۔اس کی عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سے اخلاص پیدا ہوتا ہے۔
عبادت سے مراد صرف نماز نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی عبادت ہے اور ہر عبادت اپنی قبولیت کے لیے اخلاص چاہتی ہے۔ اللہ کی رضا جوئی ، بے لوث بندگی ، اللہ سے خوف وامید کے ساتھ طلب، قبولیت کے دروازے کھولتی ہے۔ کسی عمل میں نام ونمود اور ریا کاری شامل ہو جاتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ عمل مقبول نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اللہ کا حکم ہے:
فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲-۳) اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے دین کو خالص کر کے، آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ کے لیے ہے۔
صدقہ ،زکوٰۃ ، خیرات ، غربا پروری اور ناداروں کی حاجت روائی سب انسانیت کی بھلائی اور روحانیت کی ترقی کا عمل ہے ،مگر اس کی شرط بھی اللہ کی رضا جوئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ (الدھر ۷۶:۸۔۱۰) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیںنہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے ا س دن کے عذاب کا خوف ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔
اخلاص کے لیے اللہ کے حاضرو ناظر ہونے کا احساس ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا استحضار اور اس کا ذکر کرتے رہنا روحانیت کی شاہِ کلید ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۱۴ۙ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۱۵ۭ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۱۷ۭ اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۱۸ۙ صُحُفِ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى۱۹ۧ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۹) بے شک وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کیا، اپنے رب کے اسم گرامی کا ذکر کیا اور نماز ادا کی ، بلکہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، جب کہ آخرت باقی رہنے والی اور بہترہے۔ یہ بات گذشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہے، صحیفہ ابراہیم ؑاور صحیفہ موسیٰ ؑ میں۔
اللہ کے ذکر سے روحانیت جِلا پاتی ہے اور روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ بات پہلے بھی تمام آسمانی صحیفوں میں بیا ن کی گئی ہے اور اس قرآن میں بھی اس کی تائید کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۴۱ۙ وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۴۲ (الاحزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان والو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔
دل میں اللہ کی یاد اور زبان سے اس کا ذکر قلب انسانی کو تروتازہ رکھتا ہے۔ ذکر الٰہی روح کی غذا ہے۔جس دل میں خدا کی یاد ہو وہ زندہ ہے اور جو دل یادِ خدا سے غافل ہو وہ مُردہ ہے۔ قرآن نے یہ راز اس طرح عیاں کیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ ۰ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۲۸ۭ (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے طمانیت پاتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ اللہ کے ذکرہی سے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روحانی نکتے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ (الجامع الصحیح بخاری ) اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد کرتا ہے زندہ کی ہے، اور اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد نہیں کرتا مُردہ کی ہے۔
قرآن کی نظر میں ہر سانس لینے والا انسان زندہ نہیں ہے بلکہ ذکر کرنے والا انسان زندہ ہے۔ جسمانی زندگی کھانے سے اور سانس لینے سے قائم رہ سکتی ہے مگر روحانی زندگی یادِخدا کے بغیر قائم نہیںرہ سکتی۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا۔اسلام کے احکام تو بہت سے ہیں مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے جسے میں لازم پکڑلوں۔رسولؐ پاک نے ارشاد فرمایا :
لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ (سنن ترمذی ) تمھاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہے۔
اللہ کے ذکر کی ایک تو عمومی شکل ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، صبح وشام اللہ کے نام کا ورد کیجیے ، اس کی تسبیح کیجیے ، جس کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۲۰۵ (الاعراف ۷:۲۰۵) اپنے جی میں اپنے رب کا ذکر کرو،عاجزی اور خاموشی اور کم آواز سے صبح وشام اور غافلوں میںنہ ہوجائو۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۱۷ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۱۸ (الروم۳۰:۱۷-۱۸) اللہ سزا وارۂ تسبیح ہے،جب تمھاری شام ہو اور جب تمھاری صبح ہو،اسی کے لیے آسمان وزمین میں حمد ہے، رات میں بھی اور جب تمھارا دن ہو۔
اللہ کا ذکر انسان کے میل کچیل کو دھو دیتا ہے، دل کی سختی کو دور کر کے خشیت وانابت پیدا کر دیتا ہے، اور اسے بارگاہِ رب العزت میں نذر کے قابل بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۲ۚۖ (الانفال ۸:۲)سچّے اہل دل تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمومی ذکر کے لیے بہت سے وظائف کی تعلیم فرمائی ہے۔ اس میں سب سے آسان ا ور مقبول ذکر ہے ـ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ ،حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ (الجامع الصحیح بخاری) دو جملے رحمن کو بہت بہت پسند ہیں، وہ جملے زبان پر ہلکے اور میزان میںبھاری اور رحمن کو محبوب ہیں۔ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ۔
اللہ کے ذکر کی دوسری شکل خاص اور ضابطۂ بند ہے اور وہ نماز ہے جو پانچ وقتوں میں فرض ہے اور بقیہ اوقات میں نفل ہے۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۲۰:۱۴) نماز قائم کرمیری یاد کے لیے ۔
ذکر کی منظم اور مکمل صورت نماز ہے۔اسی لیے نماز کو مو من کی معراج فرمایا گیا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی یُنَاجِیْ رَبَّہُ ،’’جب تم میں سے کوئی نماز ادا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے‘‘۔
بندہ کا خدا سے ،حبیب سے مکالمہ وجدانگیز ، روح پرور اور حاصل زندگی ہوتا ہے۔ یہ مقام انسان کو نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۱۱۴ (ھود ۱۱:۱۱۴) نماز قائم کرو دن کے کناروں میںاور رات کے حصے میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ذکر کرنے والوں کے لیے۔
عمومی ذکر کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے جب انسان ذکر خصوصی، یعنی نمازکااہتمام کرتا ہو۔ جو شخص فرض نمازوں کا پابند نہیں وہ لاکھ ذکر الٰہی کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ معتبر نہیں، کیوں کہ ایمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل نماز ہے۔ جو شخص خدا کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتاہے وہ اس کے آگے سر جھکانے سے اور اس کے حکم کی تعمیل کرنے سے کیسے روگردانی کرسکتا ہے۔
نماز کے علاوہ دوسری تمام عبادات کا اہتمام کرنا،جیسے صدقہ، زکوٰۃ ، خیرات، روزہ ،حج ، جہاداور ان عبادات کے علاوہ تمام اعمالِ صالحہ کا التزام کرنا روحانیت کے لیے لازم ہے۔ صرف کلمۂ توحید کا اقرار کرنا اور شرک وکفر سے پرہیز کرنا روحانی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ نیک عمل کو زندگی کا طریقہ اور وظیفہ بنا لینا ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے لکھا ہے:
ــ’’عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا دارومدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے ، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام ننے انسانیت کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح ) کو ملا کر قرار دیا ہے، یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں ، پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو،یہ عمل صالح ہے۔ ہر قسم کی کامیابیوں کا انحصار انھی دوباتوں پرہے۔کوئی مریض صرف اصول طبی کوصحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا ، جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز وفلاح کے لیے کافی نہیںہے جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے‘‘۔۶
عمل صالح کا اہتمام کرنے سے انسان اللہ کی نظر میںبھی محبوب ہو جاتا ہے اور دوسرے انسان بھی اس سے محبت اور اس کی عزت کرنے لگتے ہیں،یعنی جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶ (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کا اہتما م کیا عنقریب رحمٰن ان کو دوست بنائے گا۔
اعمالِ صالحہ کا فائدہ انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بُرے اعمال ، بُرے خیالات اور بُری باتوں سے اجتناب کرے۔ اعمالِ صالحہ روحانی امراض کے لیے دوا ہیں اور بری باتوں سے دُور رہنا پرہیز کے درجے میں ہے۔جب تک مریض پرہیز نہیں کرتا دوا کارگر نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ۰ۭ (الانعام ۶:۱۲۰) ظاہری اور باطنی ہر قسم کی برائی ترک کر دو۔
بُرے اعمال اور برے خیالات کا اثر انسان کے قلب وذہن پر پڑتا ہے اور اسے روحانی کیفیات کا حامل بننے سے روکتا ہے۔ قرآن پاک میںہے:
كَلَّآ بَلْ ۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۴ (المطففین ۸۳:۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ بن جاتا ہے۔اگر وہ اس سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہو جاتی ہے، اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے توسیاہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
اس لیے روحانیت کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اوصاف رزیلہ انسان کے دل سے نکل جائیں اوردوسری منزل یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ کادل خوگرہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۳۱ (النور ۲۴:۳۱) اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ فلاح پائو۔
انسان سے دانستہ خطائیں سر زد ہوتی ہیں۔توبہ ان خطائوںسے معافی کادروازہ کھولتی ہے اور اللہ کی رحمت کومتوجہ کرتی ہے۔اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو غلطی کرے تو اللہ سے توبہ واستغفار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت آدم ؑ اور ابلیس دونوں سے غلطی سرزد ہوئی۔ حضرت آدمؑ کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے حکم دینے کے باوجود حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کیا۔ دونوں خطا کار تھے مگر ایک راندۂ دربار ہوا اور دوسرے نے معافی اور محبت پائی،اس لیے کہ دونوں کے رویے میں بڑا فرق تھا۔
پہلا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑنے اپنی غلطی کا اقرار کیا مگر ابلیس نے اپنی غلطی کا اقرار نہیں کیا ۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑاپنی غلطی پر نادم ہوئے اور ابلیس کو اپنی غلطی پر ندامت نہیں ہوئی۔ تیسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑ نے اپنی غلطی کو اپنے نفس کی خطا قرار دیا اور ابلیس نے اپنی غلطی کو خد ا سے منسوب کیا اور کہا:رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ(الحجر۱۵:۳۹)’’اے رب تو نے مجھے گمراہ کیا‘‘۔ چوتھا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑنے گڑگڑا کر توبہ کی اور کہا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنفُسَنَا وَ اِن لَّمْ تَغفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے تو ہم خسارے میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اور ابلیس توبہ کرنے کے بجاے گناہ پہ قائم رہا۔ابلیس کا یہ رویہ غلطی پر اصرار اور سر کشی کا تھا۔ حضرت آدمؑ کا رویہ عاجزی کا تھا۔ ابلیس نے استکبار کیا،حضرت آدم ؑنے استغفار کیا۔ اسی فرق نے دونوں کے انجام کو جدا کیا۔ ابلیس ملعون ہوا اور حضرت آدمؑ محبوب ہوئے۔
روحانی اعمال ووظائف کی پابندی کرنا اور منکرات وخواہشات سے اجتناب کرنا صبر چاہتا ہے۔ اس راہ میں مشکلات وموانعات ہیں، تکالیف اور شدائد ہیں اور ان کو انگیز کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو صبر کی تلقین کی ہے اور صبر ہی پر آخرت کا اجر ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(الزمر۳۹:۱۰) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔
صبر انسان کو حرص وہوس سے بچاتا ہے اور گناہ اور شہوت سے بھی دُور رکھتا ہے۔ صبر وقتی بھی ہوتا ہے اور دائمی بھی۔ روحانی زندگی دائمی زندگی ہے۔ اس لیے صبر کو ہمیشہ اختیار کرنا مومن کی شان ہے۔ اس کے لیے نمونہ انبیا علیہم السلام ہیں خصوصاً محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس کے اتباع کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل(الاحقاف ۴۶:۳۵) جس طرح عالی ہمت رسولوںؑ نے صبر کیا اس طرح صبر کرو۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا ۔ انھوں نے پھر سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔یہاں تک کہ آپؐ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال ان کو دینے کے بعد فرمایا کہ میرے پاس جو مال آتا ہے وہ تم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اب جو شخص اللہ سے عفت چاہتا ہے اللہ اس کو عفیف بنا دیتا ہے اور جو استغناء طلب کرتا ہے اس کو مستغنی بنا دیتا ہے، اور جو کوشش کر کے صبر اختیار کرتا ہے اللہ اس کو صابر بنادیتا ہے اور کسی شخص کو صبر سے بہتر وسیع عطیہ نہیں دیا گیا ۔(الجامع الصحیح بخاری )
انسانی اذیتوں ، آسمانی بلائوں اور دنیوی مشکلات ومصائب پر صبر کرنے کے ساتھ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے۔اسباب ووسائل سے بھی کام لے مگر ان پر بھروسا نہ کرے، بلکہ بھروسا صرف اللہ پر کرے ، کیوںکہ مشکلات اللہ کی طرف سے آتی ہیں، وسائل واسباب کو اللہ پیدا کرنے والا ہے اور وہی وسائل سے ماورا ہو کر انسان کی مدد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۳ (الطلاق ۶۵:۳) جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے، اللہ اپنا کام انجام تک پہنچاتا ہے، ہر چیز کے لیے اس نے پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب رسولوں کو توکّل کی تفہیم اس طرح دی ہے:
وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ۰ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَـا۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۱۲ۧ (ابراہیم۱۴:۱۲) اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ کریں ،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں دکھائیں ، اور ہم تمھاری اذیتوںپر صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
فقر ودرویشی روحانیت کے لیے موزوں ہے مگر لازمی نہیں ہے۔ مال ودولت روحانیت کے منافی نہیں ہے بشر طیکہ حلال طریقے سے کمایا جائے اور اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ اگر حقوق اللہ ادا کرتے ہوئے مال ودولت حاصل کیا جائے تو یہ مذموم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
رِجَالٌ۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ
الــزَّ کٰــوۃِ ۰۠ۙ (النور ۲۴:۳۷) یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور بیع اللہ کے ذکرسے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے نہیں روکتی ۔
غریبوں ، ناداروں اور محتاجوں پر مال ودولت خرچ کرنا روحانیت کا طریقہ ہے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کے پاس مال ودولت ہو۔ مال داروں پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور ان کو صدقات کی تعلیم دی ہے۔ارشاد فرمایا:
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۲۷۴ؔ (البقرہ ۲:۲۷۴) جو لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں ، پوشیدہ اور ظاہری طور پر ، ان کے لیے ان کا اجر ہے، ان کے رب کے پاس، نہ ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا تزکیہ نفس کا بڑا ذریعہ ہے۔ غریبوں پر مال خرچ کرنے سے دولت بھی پاک ہوتی ہے اور انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ میںبہت سے نادار تھے اور بہت سے مال دار ۔ مال دار صحابہ ،نادار صحابہ سے کسی طرح بھی روحانیت میں کم نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ کے تمام احکام بجالاتے تھے اور جو دولت ان کے پاس تھی اسے ناداروں ،محتاجوں اور جہاد میں خرچ کرتے تھے۔ اگر مال داری روحانیت کے منافی ہوتی تو یہ حضرات ہرگز اسے گھر میں آنے نہ دیتے ، کیوں کہ یہ حضرات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور ان کے جانشین تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ جیسے صحابہ وولت وثروت میںممتاز تھے، تو انفاق فی سبیل اللہ اور غربا پروری میںبھی بے مثال تھے،چنانچہ ان کا روحانی مقام بھی بہت بلند تھا۔
دولت کی طرح حکومت اور قیادت بھی روحانیت کے منافی نہیںہے، بشرطیکہ خواہش نفس کی تکمیل کے لیے اور عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے نہ کی جائے۔ حکومت اور قیادت کو دُنیا داری کا کام سمجھا جاتاہے اور روحانیت کو اس سے دور خیال کیا جاتا ہے، مگر قرآن کی نظر میںحکومت اور روحانیت میں تضاد نہیں ہے۔ اگر حکومت اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے کی جائے، انصاف اور خیر خواہی کے ساتھ کی جائے اور اللہ کے احکام کو اللہ کی زمین میں نافذ کرنے کے لیے کی جائے تو یہی روحانیت کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱(الحج ۲۲:۴۱) ان لوگوں کوجب ہم زمین میں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا اور نیکی کی اشاعت کرنا خالص روحانی عمل ہے اور یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں تو مسند حکومت پر سرفراز ہونے کے باوجود وہ روحانی ہستیاں ہیں۔ انبیا علیہ السلام سے زیادہ روحانی شخصیت دنیا میں کس کی ہوسکتی ہے۔غور کیجیے کہ حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے عظیم الشان باد شاہ ہیں اور ایسے صاحب شوکت وحشمت کہ چرند پرند اور ہوائوں پر بھی حکومت ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ اللہ کے جلیل القدر نبی بھی ہیں اور روحانیت کے امام بھی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی ہے:
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میںکوئی روحانی ہستی نہیںپیداہوئی،مگر آپؐ کا اقتدار کے لیے دعا کرنا اور پھر مدینہ پہنچ کر اسلامی ریاست قائم کرنا روحانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ روحانیت کو مضبوط اوروسیع کرنے کے لیے ہے،تا کہ زمین پر شیطان کی حکومت ختم ہو اور رحمٰن کی حکومت جاری وساری ہو۔اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کی بندگی کا ماحول ساز گار ہو،نفسانیت کا خاتمہ ہو، روحانیت کا بول بالا ہو۔
جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین ،حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓاور حضرت علی ؓ مثالی حکمران تھے۔دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے اسوہ اور رہنما تھے اوراسی کے ساتھ وہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔آج کی روحانی ہستیوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ان خلفاے راشدین کے نقش قدم تک پہنچ جائیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں جس اعتدال وتوازن کی ضرورت ہے وہ ان پاک ہستیوں سے سیکھیں ۔
قرآن نے روحانیت کی جو تعلیم دی ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد، یعنی اللہ اور بندوں کے حقوق کی یکساں ادایگی کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے انسان سماج میں رہ کر دنیا کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی روحانی پاکیزگی کا اہتمام کرے۔سماج سے کٹ جانا، گوشہ نشینی اختیار کرلینا ، لوگوں کی حاجت روائی سے رو گردانی کرنا اور انسانی حقوق کی ادایگی سے غفلت برتنا روحانیت کے منافی ہے ۔ انسانوں کی فیض رسانی کرنا اور ان کی تکالیف پر صبر کرنا روحانیت کا تقاضا ہے، جب کہ رہبانیت ترکِ دنیا کی تعلیم دیتی ہے،انسانی سماج سے علیحدہ ہوجانے اور گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر یاد ِخدا میں زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہے۔ رہبانیت اللہ کو مطلوب نہیں ہے اور اسلام اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادایگی کو روحانی زندگی کا مشن قرار دیتا ہے۔
اکثر مذاہب نے دین داری اور خدا پرستی کا کمال یہ سمجھا تھا کہ انسان کسی غار،کھوہ یا جنگل میں بیٹھ جائے اور تمام دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔، اسلام نے اس کو عبادت کا صحیح طریقہ نہیں قرار دیا ہے۔ عبادت در حقیقت خدا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کانام ہے۔ اس بنا پر وہ شخص جو اپنے تمام ہم جنسوں سے الگ ہوکر ایک گوشے میں بیٹھ جاتا ہے، وہ در حقیقت ابناے جنس کے حقوق سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے وہ کسی تعریف کا مستحق نہیں۔ ۷
روحانیت کی راہ عبادت ہے اور عبادت کے لیے انسان یکسوئی چاہتا ہے ۔اس یکسوئی کے لیے کبھی وہ تجرد کی زندگی اختیار کر لیتا ہے،یعنی ازواج واولاد کی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے، اگرچہ تجرد کی زندگی اسلام کی کی نظر میں حرام نہیںہے مگر مطلوب بھی نہیں ہے۔ انبیا علیہم السلام کی روحانی ہستیاں ازواج واولاد کی حامل تھیں۔ ان انبیا ؑمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررحضرت یحییٰ علیہ السلام نے گو کہ شادی نہیں کی اور ان کے بال بچے نہیں تھے مگر انبیا علیہ السلام کی عظیم اکثریت اُن پر مشتمل تھی جنھوں نے شادی کی اور ازواج واولاد کے حامل ہوئے۔ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کیں اور صاحب ِاولاد ہوئے، اس لیے کہ روحانیت کے لیے تجرد کی زندگی مطلوب نہیں ہے بلکہ بال بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ روحانی زندگی مطلوب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہ دعا کرنے کی تعلیم دی ہے:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۷۴ (الفرقان ۲۵:۷۴) اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔
روحانیت کی علامت صرف تقویٰ اورخدا ترسی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی ہے۔ اس کے برعکس آج کے عہد میں روحانیت کے لیے مخصوص علامتیں اور رسمیں وضع کر لی گئی ہیں۔ اس ظاہرداری کا روحانیت سے تعلق نہیں ہے، بلکہ بعض رسمیں روحانیت کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہیں۔ان ہی میں ایک رسم بزرگوں اور نیک بندوں کی قبروں کو مزین کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کو حاجت روائی کے وسیلے کے طور پر اختیار کرنا اور ان کو مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لیے دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم تو دی ہے مگر قبروں کوسجدہ گاہ بنانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنْبِیَاءِ ھِمْ وَصَالِحِیْھِمْ مَسَاجِدً ا فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدًا اِنِّیْ اَنْھٰکُمْ عَنْ ذٰلِکَ (الجامع الصحیح مسلم ) تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، تم لوگ قبروں کو مسجد نہ بنا لینا۔ میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ اور ام حبیبہ ؓ نے حبشہ کے ایک گرجے کا تذکرہ کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کے یہاں جب کسی نیک انسان کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں اس کی تصویر لٹکا دیتے۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں قیامت تک ۔ (الجامع الصحیح مسلم )
قبریں خواہ انبیا ؑکی ہوں یا بزرگوں کی، وہ حاجت روائی کا ذریعہ نہیں ہیں اور نہ عبادت کا مرکز ہیں، بلکہ وہ صرف موت کو یاد کرنے کا مقام ہیں۔ ان کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے اور ان کی روحانی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
قبروں کے مقابلے میں مسجدیں حاجت روائی کا وسیلہ اور روحانیت کا مرکز ہیں۔ چوں کہ مسجدمیں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور عبادت کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے، اس سے فریاد کی جاتی ہے، اس سے حاجت روائی کی دعا مانگی جاتی ہے اور خدا اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے روحانیت کا اس سے بہتر اور کوئی مرکز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ ۰ۙ يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۳۶ۙ (النور ۲۴:۳۶) اللہ کا نور ان گھروں میںپایا جاتا ہے جس میں اپنے نام کا ذکر کرنے اور اسے بلند کرنے کا حکم دیا ، ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح بیان کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ سات لوگ جو قیامت کے دن اللہ کے سایے میں ہوں گے ان میں ایک شخص وہ ہے جس کا دل مسجد میںلگا ہوا ہو ۔(الجامع الصحیح بخاری )۔ یعنی جس شخص نے مسجد میں پابندی سے نماز ادا کرنے کو وظیفۂ زندگی بنا لیا ہے وہی سایۂ خدا وندی کا مستحق ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور بندگی روحانیت ہے۔ اللہ کے حکم پر عمل کرنا اور غیر اللہ سے کنارہ کشی کرنا روحانیت کی شاہ کلید ہے۔
قرآن تمام معاملات میں دین کی رہنمائی کوضروری قرار دیتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے قرآن دنیا و آخرت دونوں کے معاملات میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: وَہُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰہٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰہٌ ۰ۭ (الزخرف ۴۳:۸۴ ) ’’اور وہ اللہ وہی ہے جو آسمان کا معبودہے اور زمین کا بھی معبود ہے‘‘۔
قرآن پاک علم کو نافع اور غیر نافع کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر وہ علم جو دنیا و آخرت کے لحاظ سے مفید ہو، اس کو حاصل کرنا انسان کی سعادت ، ترقی اور نجات کا ذریعہ ہے، اور جو علم دنیا و آخرت کے لحاظ سے غیر مفید ہو اس کو ترک کرنا بہتر ہے۔ کیوں کہ جو علم نفع بخش نہ ہو اس میں وقت لگانا اپنی عزیز عمر کو برباد کرنا ہے۔ قرآن کی نظر میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو انسانوں کے لیے مفید نہیں بلکہ مضر ہیں، مثلاً جادو، کہانت اور سفلی علوم۔ قرآن نے یہودیوں کے ایک طبقے کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ وہ ایسے ہی نقصان دہ علوم کو حاصل کرکے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرتے تھے۔ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ۰ۭ (البقرہ۲:۱۰۲) ’’وہ لوگ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے نقصان دہ ہے، نفع بخش نہیں ہے‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اِنَّ مَثَلَ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ کَمَثَلِ کَنْزٍ لَا یُنْفَقُ فِیْ سَبِیْلِ ﷲ ِ(مسند احمد ، ج۲، ص۴۹۶)’’جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے کی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے‘‘۔
جس طرح مال ضرورت کے وقت خرچ کرنے کے لیے اور حاجت پوری کرنے کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح علم جہالت دُور کرنے، روشنی پھیلانے اور منفعت عطا کرنے کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر علم نفع بخش نہ ہو تو انسانوں کو اس کی کیا حاجت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم سے پناہ مانگی ہے جو نفع بخش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا یَسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ (ترمذی، ج:۲، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی جمیع الدعوات)’’اے اللہ میں ایسے دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں خشیت نہ ہو اور ایسی دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو تیرے حضور قابل قبول نہ ہو اور ایسے نفس سے پناہ مانگتا ہوں جو آسودہ نہ ہو، اور ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو‘‘۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں :
مَا اَکْـثَرَ الْعِلْمَ وَمَا اَوْ سَعَہٗ
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَقْدِرُ أَنْ یَجْمَعَہٗ
اِنْ کُنْتَ لَا بُدَّلَہٗ طَالِبًا
مُحَاوِلًا فَالْتَمِسْ اَنْفَعَہٗ
علم کی کتنی کثرت اور وسعت ہے، کون ہے جو سارے علوم کو جمع کرلے۔ اگر تم علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو زیادہ نفع بخش علم حاصل کرو۔(ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضلہ، ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی، ص ۱۸۲، دہلی ۱۹۵۳ء)
مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ۰ۭ (الجمعۃ ۶۲:۵ )جو لوگ تورا ت کے حامل ہوئے پھر اس سے نفع نہیں اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی ہے جو اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھاتا ہے۔
مثال کا حاصل یہ ہے کہ علم کا مقصد دل و دماغ کو منور کرنا اور اخلاق و کردار کو سنوارنا ہے، اگر یہ حاصل نہ ہوا تو کتابوں کا بوجھ اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسے گدھا اپنی پیٹھ پر لدی ہوئی کتابوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا، کتنی ہی کتابیں اس پر لادو اس کی خر دماغی نہیں جاتی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
جس علم سے انسان میں صحیح اور غلط کی تمیز پیدا نہ ہو، دل و دماغ روشن نہ ہو، اعمال قبیح کو چھوڑنے اور اعمالِ صالح کو قبول کرنے پر انسان مائل نہ ہو، حلال و حرام کی پہچان حاصل نہ ہو، غریبوں، ناداروں اور قرابت داروں کے حقوق سے واقفیت پیدا نہ ہو، مظلوموں، بے کسوں اور درمندوں کی آہ و بکا سے سروکار نہ ہو، عفت و پاکدامنی اور اخلاق و کردار سے آراستہ نہ ہو، تو اس علم سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ انسانی کمالات حاصل نہیں ہوسکتے، ایسے علم سے انسان کو کیا فائدہ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعضا و جوارح اور عقل و خرد اس لیے عطا کیے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے، علم حاصل کرے اور زمین پر ذمہ دار اور باشعور مخلوق بن کر زندگی گزارے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللہُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـيْـــًٔـا ۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَۃَ ۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۷۸ (النحل۱۶: ۷۸)اور اللہ نے تم کو تمھاری مائوں کے بطن سے نکالا، تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ا ور اس نے تم کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے علم نافع عطا کرنے کی دعا مانگی ہے: اَللّٰہُمَّ انْفَعْنِیْ بِـمَا عَلَّمْتَنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ ( ابن ماجہ، باب دعاء رسول ؐ) ’’اے اللہ جو علم تو نے مجھے عطا کیا ہے اس کو نفع بخش بنا اور مجھے وہ علم عطا کر جو میرے لیے نفع بخش ہو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بڑی جامع اور معنی خیز دعا ہے۔ اس دعا کی حکمت یہ ہے کہ دنیا میں وہی چیز باقی رہتی ہے جو نفع بخش ہو اور جو چیز نفع بخش نہیں ہوتی وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ یعنی بقا کا راز مفید ہونا ہے اور غیر نفع بخش ہونے کا انجام ضائع ہونا ہے۔قرآن پاک میں ایک خوب صورت مثال کے ذریعے نفع رسانی کے نکتے کو سمجھایا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا ۰ۭ وَمِمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً ۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۱۷ۭ (الرعد۱۳: ۱۷) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہرندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسان کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
بقاءِ انفع (نفع بخش چیز کا باقی رہنا)
اس دنیا میں بقاء انفع کااصول رائج ہے، یعنی جو چیز نفع بخش ہے وہ تو باقی رہتی ہے اور جو نافع نہیں ہے وہ اپنی جگہ خالی کردیتی ہے۔ جس طرح موتی سمندر میں باقی رہ جاتا ہے اور جھاگ ضائع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں نافع چیز اپنے بقا کا سامان رکھتی ہے اور غیر نافع چیز اپنے وجود کا جواز کھودیتی ہے۔ بے کار چیز کی حفاظت کوئی نہیںکرتا۔ کار آمد چیز کی ہرشخص حفاظت کرتا ہے۔
یہ اصول ہر شعبۂ حیات میں جاری ہے۔ علم کے ساتھ انسان کے اعمال اور اخلاق سب کچھ اس میں شامل ہیں۔نفع بخش شے کی حفاظت قدرت خود کرتی ہے، جب کہ غیر نفع بخش چیزوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ اسی لیے غیر نفع بخش چیزوں کا وجود وقتی اور عارضی ہوتا ہے اور نفع بخش چیزوں کا وجود پایدار اور دائمی ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ جبریلؑ امین جب پہلی مرتبہ اللہ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں تشریف لائے اور آپؐ کو قرآن کی ابتدائی آیات پڑھائیں تو آپؐ کے اوپر خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ آپؐ واپس گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ حضرت خدیجۃ الکبر یٰ ؓسے فرمایا کہ مجھے چادر اُوڑھا دو، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے آپ کی یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا :
ہرگزنہیں! اللہ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا، کیوں کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور آپؐ لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت کے دن میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ (بخاری، باب کیف کان بدء الوحی)
یعنی جو شخص انسانی معاشرے کے لیے اتنا مفید اور نفع بخش ہو اللہ اس کو ضائع نہیں کرے گا۔ ایسے شخص کو ضائع کرنے کا مطلب انسانی آبادی کو ضائع کرنا ہے۔ مہربان پروردگار ایسا نہیں کرسکتا کہ جس کو اپنی محبت اور رحمت سے آباد کیا ہے اسے برباد کردے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے سماج کے لیے آپؐ کی مفید خدمات کا حوالہ دیا اور آپؐ کی افادیت کو آپؐ کی بقا کی ضمانت قرار دیا۔ جس معاشرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے خدمت کرنے والے اور نفع پہنچانے والے لوگ موجود ہوں اس میں اللہ کی رحمت آتی ہے اور ایسے لوگ معاشرے کا حوالہ اور خلاصہ ہوتے ہیں، ان کا وجود معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کی لائی ہوئی شریعت اور عطا کی ہوئی ہدایت بھی نفع بخش ہے۔ رسول پاکؐ نے اس کی مثال بارانِ رحمت سے دی ہے۔ چنانچہ بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ رسول کریم ؐ نے فرمایا ’’ اللہ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی ہے جوزمین کو سیراب کرتی ہے۔ ایک زمین اچھی ہے جو پانی قبول کرتی ہے اور خوب سبزہ اور ترکاریاں اُگاتی ہے۔ دوسری زمین اجادب، یعنی پستی ہے جو پانی کو جمع کرلیتی ہے۔ اس سے اللہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے، لوگ خود سیراب ہوتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، زراعت کرتے ہیں۔ تیسری زمین قیعان، یعنی سنگلاخ ہے، نہ تو پانی کو روک پاتی ہے اور نہ گھاس اُگاتی ہے۔ یہ مثال ہے اس کی جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور میرے لائے ہوئے علم سے فائدہ اٹھایا، خود علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم دی، اور اس کی مثال ہے جو اس کی طرف متوجہ نہ ہو اور اللہ نے میرے ذریعے جو ہدایت بھیجی ہے اسے قبول نہ کیا۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم، باب فضل من علم و علّم)
علم نافع انسان کی دنیاوی زندگی میں بھی باقی رہتا ہے اور انسان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ انسان خود تو مر جاتا ہے مگر اس کا فیض جاری رہتا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بھی منقطع ہوجاتا ہے، سواے تین عمل کے۔ ایسا علم جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسا صدقہ جس کا فیض جاری رہے یا ایسی نیک صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرتی رہے‘‘۔(الصحیح المسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ)
علم نافع دونوں طرح کے ہیں۔ ایک وہ علم جو آخرت کے لحاظ سے نفع بخش ہو، نجات کا ذریعہ بنے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ دکھائے، ہدایت اور سعادت کی منزل آسان کرے۔ یہ علم وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور انبیا علیہم السلام اس کے حامل ہوتے ہیں۔ قرآن کریم اس کا آخری سرچشمہ ہے۔
دوسرا علم نافع وہ ہے جو دنیا میں زندگی گزارنے کے کام آتا ہے اور انسانی زندگی کی تعمیر و ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ علم بالسعی ہے جو انسان کو مشاہدہ، تجربہ اور کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ انسانی تلاش و تحقیق کی پیداوار ہے۔دینی علوم کی افادیت دائمی ہے، جب کہ عصری علوم کی افادیت زمانے اور ملکی ضرورت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔
علم ریاضی، علم کیمیا، ارضیات، حیوانیات، طبیعیات، سماجیات، صحت، نفسیات، بحریات، فلکیات، شماریات اور اپلائیڈ سائنس و ٹکنالوجی سب مفید علوم کا حصہ ہیں اور انسانی کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ انسانی تمدن اور کائنات کی ترقی ان علوم سے وابستہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۰ۭ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ۲۷ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ۰ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۲۸ (فاطر۳۵:۲۷-۲۸) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھرہم نے اس سے رنگ برنگے پھل نکالے اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں، سفید اور سرخ رنگ کی، ان کے رنگ طرح طرح کے ہیں اور کالے بھجنگ ہیں اور آدمیوں اور کیڑوں میں اور حیوانات میں بھی اسی طرح مختلف رنگ ہیں، بے شک اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں وہ ہیں جو علما ہیں، بے شک اللہ غالب اور بخشنے والا ہے۔
مذکورہ آیت میں جن مضامین کا تذکرہ ہے وہ آج کے تعلیمی ماحول میں دنیاوی علوم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں تذکرہ ہے موسم کا، پھل پھول اور ان کے رنگ کا، پہاڑ اور ان کی اقسام کا، حشرات الارض اور حیوانات کا، انسان اور اس کے رنگ و روپ کا، یہ سب موسمیات، ارضیات، زراعت، حیوانیات اور عمرانیات کے علوم ہیں۔
ان علوم سے جو لوگ اللہ کی معرفت اور خشیت حاصل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے ’علما‘کے لقب سے نوازا ہے، کیوں کہ یہ سب علوم انسانی تمدن کو آگے بڑھاتے ہیں اور خالق کائنات کی معرفت کا حوالہ ہیں۔ ان علوم کی افادیت کا ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان علوم کو حاصل کرنے میں دنیا اور آخرت کی سعادت پوشیدہ ہے۔ ڈاکٹرمحمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کو کچھ تو بنیادی تعلیم دی جائے جو لازمی ہو اور دیگر علوم کے بارے میں بھی اس کے پاس کچھ نہ کچھ معلومات ہوں، جو کسی بھی وقت اس کے کام آسکتی ہیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ قرآن مجید کو پڑھو، کیوں کہ اس میں تقریباً تمام علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔(خطبات بہاول پور، ص ۳۱۹)
ان مفید علوم میں زمانے کے گزرنے کے ساتھ اور انسانی دریافت کے آگے بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کو ان کے عہد کی انسانی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی علم سے نوازا گیا، مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کو جہاز رانی کے لیے، حضرت موسٰی کو جادوگری کا مقابلہ کرنے کے لیے، حضرت عیسیٰ ؑکو بیماروں کو شفایاب کرنے کے لیے، حضرت دائود ؑ کو آلات حرب و ضرب بنانے کے لیے، حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی زبان سمجھنے کے لیے خصوصی علم سے نوازا گیا۔
حضرت یوسف ؑ جلیل القدر نبی تھے۔ ان کو آخرت کے علم کے علاوہ انسانوں کی مادی نفع رسانی کا بھی علم دیا گیا۔ انھوں نے ایمان داری، وفاداری اور عفت و پاک دامنی کی پاداش میں ظلم و ستم کا سا منا کیا اور طویل عرصے تک قید و بند کی مشقت برداشت کی۔
ایک مرتبہ مصر کے بادشاہ نے حیران کن خواب دیکھا اور اس کی تعبیر وزیروں، مشیروں اور دانش وَروں سے پوچھی مگر کوئی نہ بتا سکا۔ جیل کے اندر سے حضرت یوسف ؑ نے اس خواب کی تعبیر بتائی۔ بادشاہ نے خواب کی برمحل تعبیر سن کر حضرت یوسف ؑ کو اپنا محرم راز اور ندیم خاص بنالیا۔ اس تعبیرکے مطابق سات سال کے بعد ملک مصر میں طویل قحط سالی آئی تو حضرت یوسف ؑ نے ملکی خزانے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے علم و امانت سے پورے ملک میں رسد رسانی اور غلے کی فراہمی کا نظم کیا، جس سے سات سالوں تک خوفناک قحط اور خشک سالی کا اثر کم ہوگیا، مصیبت کے مارے ہوئے انسانوں کو زندگی مل گئی اور وہ موت کا لقمہ بننے سے بچ گئے۔(یوسف۱۲: ۵۴-۵۵ )
حضرت یوسف ؑ خود قید و بند کے ستم رسیدہ تھے اور اپنے کرم فرمائوں سے زخم کھائے ہوئے تھے، مگر انسانوں کو مصیبت میں مبتلا دیکھا تو اپنا غم بھلا دیا اور اپنے علم سے لوگوں کو راحت رسانی کا کام کیا، اپنے وجود اور اپنے علم کو لوگوں کے لیے سراپا رحمت بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کو خواب کی تعبیر کے ساتھ، کھانے پینے کی اشیا کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے یعنیFood Preservationکا علم عطا کیا تھا۔ آپ ؑ نے ان علوم کے ذریعے ملک کو بربادی اور ہلاکت سے بچا لیا۔یہ علم نافع کی بہترین مثال ہے۔درس گاہ نبوت کی یہ تعلیم انسانوں کو روشنی بخشتی ہے کہ وہ ان علوم کو حاصل کریں جن سے انسانوں کی مشکلات دور کی جاسکتی ہیں اور ان کو زندگی، صحت اور راحت عطا کی جاسکتی ہے، نیز اپنی صلاحیت اور لیاقت کو لوگوں کی نفع رسانی کے کام میں لگائیں۔
علم نافع کے ساتھ عمل نافع کی بھی قرآن کی نظر میں یکساں ضرورت ہے۔ دوسرے انسان کی خدمت کرنا، ان کے دُکھ درد میں کام آنا، ان کی ضرورت پوری کرنا اور ان کی بیماری و تکلیف سے شفاپانے میں مدد کرنا انسان کا مشن ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے، فرمایا:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ (الدھر۷۶:۸-۱۰)وہ لوگ اس کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اورزبان حال سے کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں، تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے، ہم تو اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت سخت اور اُداسی کا ہوگا۔
آخرت کی سختی اور مصیبت سے بچنے کا راستہ انسانوں کی مدد اور نفع رسانی ہے۔ جو لوگ بندوں کی نفع رسانی کا اہتمام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی نفع رسانی کا انتظام کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ (الصحیح المسلم، کتاب السلام، باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ والحمۃ والنظرۃ) جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ ضرور نفع پہنچائے۔
انبیا علیہم السلام خاص طور پر نبی آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ کی زندگیاں دوسرے کے لیے نفع رساں تھیں۔ آج بھی بڑے بڑے مدارس، یتیم خانے، شفا خانے اور اوقاف کے ادارے مسلمانوں کی نفع رسانی کے عمل سے قائم ہیں۔ماضی قریب میں کویت کے ایک تاجر شیخ عبداللہ علی المطوع نے اپنی وفات سے پہلے اپنی جایداد کا بڑا حصہ فلسطین اور چیچنیا کے یتیموں اور بیوائوں کے لیے وقف کردیا۔ وہ پوری زندگی خیرات کرتے رہے اور اموال صدقات سے دنیا بھر کے اداروں اور تنظیموں کی مدد کرتے رہے۔
نفع رسانی کا تیسرا پہلو دعوت دین ہے۔ انسانوں کو دنیا کی مشکلات کے ساتھ آخرت کی مشکلات سے بچانا اور ان کو نجات کا راستہ دکھانا، نار جہنم سے بچانا اور رضاے الٰہی سے ہم کنار کرانا سب سے بڑی نفع رسانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف۱۲: ۱۰۸)آپ کہہ دیجیے کہ یہ میری راہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
ایسا شخص جو دوسروں کو عذاب جہنم سے نجات کی دعوت دیتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہے وہ سماج کا بہترین انسان ہے۔ قرآن پاک میں اس کے بارے میں کہا گیا ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۳ (حٰم سجدہ ۴۱:۳۳) اس شخص سے بہترکس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں۔