اللہ کی رضا کا حصول روحانیت کا سب سے بلند مرتبہ ہے۔ اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مضبوط قلبی تعلق مطلوب ہے اور یہی عبادت کی روح ہے۔ جبریل امینؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے ، آنجنابؐ نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الجامع الصحیح مسلم) اللہ کی عبادت اس طرح کیجیے کہ گویا آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو اتنی کیفیت پیدا کیجیے کہ خد اآپ کو دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رُوبرو ہونا بندگی کا کمال ہے، مگر اس کیفیت کا دل میں پیدا ہونا پاکیزگیِ قلب اور انابت کی گہرائی چاہتا ہے۔خدا کو دیکھنے کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اعضاو جوارح کی تربیت کے ساتھ نفس کا تزکیہ اور دل کی خشیت ضروری ہے ۔ اس سے نیچے کی منزل یہ ہے کہ یہ کیفیت پیدا ہوجائے کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تصور بھی انسان کے دل کو بدل دیتا ہے اور نفس کے شروروفتن کوزائل کر دتیا ہے۔ یہی اخلاص ہے۔
ایک مزدور کو اگریہ معلوم ہو کہ اس کا مالک موقعے پر موجود نہیں ہے تو وہ کام میں سستی کرتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے اور کام کرتا بھی ہے تو بے دلی سے کرتا ہے، کام کا مطلوبہ نتیجہ نہیں نکلتا ۔ لیکن اگر کسی مزدور کو یہ معلوم ہو کہ اس کا مالک اس کے سامنے کھڑا ہے تو کام میں چستی دکھاتا ہے ، جی لگا کر کام کرتا ہے اور وقت گذاری سے پرہیز کرتا ہے۔ اسی طرح بندے کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے دل کی کیفیت اور جسمانی عمل کی حالت بدل جاتی ہے۔اس کی عبادت میں یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور اسی سے اخلاص پیدا ہوتا ہے۔
عبادت سے مراد صرف نماز نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی عبادت ہے اور ہر عبادت اپنی قبولیت کے لیے اخلاص چاہتی ہے۔ اللہ کی رضا جوئی ، بے لوث بندگی ، اللہ سے خوف وامید کے ساتھ طلب، قبولیت کے دروازے کھولتی ہے۔ کسی عمل میں نام ونمود اور ریا کاری شامل ہو جاتی ہے تو اللہ اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے اور وہ عمل مقبول نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اللہ کا حکم ہے:
فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۰ۭ (الزمر ۳۹:۲-۳) اللہ کی عبادت کرو اس کے لیے دین کو خالص کر کے، آگاہ رہو کہ دین خالص اللہ کے لیے ہے۔
صدقہ ،زکوٰۃ ، خیرات ، غربا پروری اور ناداروں کی حاجت روائی سب انسانیت کی بھلائی اور روحانیت کی ترقی کا عمل ہے ،مگر اس کی شرط بھی اللہ کی رضا جوئی ہے۔ ارشاد ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ (الدھر ۷۶:۸۔۱۰) اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیںنہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے ا س دن کے عذاب کا خوف ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا۔
اخلاص کے لیے اللہ کے حاضرو ناظر ہونے کا احساس ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا استحضار اور اس کا ذکر کرتے رہنا روحانیت کی شاہِ کلید ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۱۴ۙ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۱۵ۭ بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۱۷ۭ اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۱۸ۙ صُحُفِ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى۱۹ۧ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۹) بے شک وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کیا، اپنے رب کے اسم گرامی کا ذکر کیا اور نماز ادا کی ، بلکہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، جب کہ آخرت باقی رہنے والی اور بہترہے۔ یہ بات گذشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہے، صحیفہ ابراہیم ؑاور صحیفہ موسیٰ ؑ میں۔
اللہ کے ذکر سے روحانیت جِلا پاتی ہے اور روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ بات پہلے بھی تمام آسمانی صحیفوں میں بیا ن کی گئی ہے اور اس قرآن میں بھی اس کی تائید کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللہَ ذِكْرًا كَثِيْرًا۴۱ۙ وَّسَبِّحُــوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۴۲ (الاحزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان والو! اللہ کا کثرت سے ذکر کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرو۔
دل میں اللہ کی یاد اور زبان سے اس کا ذکر قلب انسانی کو تروتازہ رکھتا ہے۔ ذکر الٰہی روح کی غذا ہے۔جس دل میں خدا کی یاد ہو وہ زندہ ہے اور جو دل یادِ خدا سے غافل ہو وہ مُردہ ہے۔ قرآن نے یہ راز اس طرح عیاں کیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِكْرِ اللہِ ۰ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۲۸ۭ (الرعد ۱۳:۲۸) جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے طمانیت پاتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ اللہ کے ذکرہی سے دلوں کو تسکین ملتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روحانی نکتے کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ (الجامع الصحیح بخاری ) اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد کرتا ہے زندہ کی ہے، اور اس شخص کی مثال جو خدا کو یاد نہیں کرتا مُردہ کی ہے۔
قرآن کی نظر میں ہر سانس لینے والا انسان زندہ نہیں ہے بلکہ ذکر کرنے والا انسان زندہ ہے۔ جسمانی زندگی کھانے سے اور سانس لینے سے قائم رہ سکتی ہے مگر روحانی زندگی یادِخدا کے بغیر قائم نہیںرہ سکتی۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا۔اسلام کے احکام تو بہت سے ہیں مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے جسے میں لازم پکڑلوں۔رسولؐ پاک نے ارشاد فرمایا :
لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللہِ (سنن ترمذی ) تمھاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہے۔
اللہ کے ذکر کی ایک تو عمومی شکل ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، صبح وشام اللہ کے نام کا ورد کیجیے ، اس کی تسبیح کیجیے ، جس کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۲۰۵ (الاعراف ۷:۲۰۵) اپنے جی میں اپنے رب کا ذکر کرو،عاجزی اور خاموشی اور کم آواز سے صبح وشام اور غافلوں میںنہ ہوجائو۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۱۷ وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۱۸ (الروم۳۰:۱۷-۱۸) اللہ سزا وارۂ تسبیح ہے،جب تمھاری شام ہو اور جب تمھاری صبح ہو،اسی کے لیے آسمان وزمین میں حمد ہے، رات میں بھی اور جب تمھارا دن ہو۔
اللہ کا ذکر انسان کے میل کچیل کو دھو دیتا ہے، دل کی سختی کو دور کر کے خشیت وانابت پیدا کر دیتا ہے، اور اسے بارگاہِ رب العزت میں نذر کے قابل بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۲ۚۖ (الانفال ۸:۲)سچّے اہل دل تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمومی ذکر کے لیے بہت سے وظائف کی تعلیم فرمائی ہے۔ اس میں سب سے آسان ا ور مقبول ذکر ہے ـ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ ،حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحمٰنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ (الجامع الصحیح بخاری) دو جملے رحمن کو بہت بہت پسند ہیں، وہ جملے زبان پر ہلکے اور میزان میںبھاری اور رحمن کو محبوب ہیں۔ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ ۔
اللہ کے ذکر کی دوسری شکل خاص اور ضابطۂ بند ہے اور وہ نماز ہے جو پانچ وقتوں میں فرض ہے اور بقیہ اوقات میں نفل ہے۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۲۰:۱۴) نماز قائم کرمیری یاد کے لیے ۔
ذکر کی منظم اور مکمل صورت نماز ہے۔اسی لیے نماز کو مو من کی معراج فرمایا گیا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی یُنَاجِیْ رَبَّہُ ،’’جب تم میں سے کوئی نماز ادا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے‘‘۔
بندہ کا خدا سے ،حبیب سے مکالمہ وجدانگیز ، روح پرور اور حاصل زندگی ہوتا ہے۔ یہ مقام انسان کو نماز سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۰ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۰ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ۱۱۴ (ھود ۱۱:۱۱۴) نماز قائم کرو دن کے کناروں میںاور رات کے حصے میں، بے شک نیکیاں برائیوں کو زائل کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے ذکر کرنے والوں کے لیے۔
عمومی ذکر کا اعتبار اسی وقت ہوتا ہے جب انسان ذکر خصوصی، یعنی نمازکااہتمام کرتا ہو۔ جو شخص فرض نمازوں کا پابند نہیں وہ لاکھ ذکر الٰہی کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ معتبر نہیں، کیوں کہ ایمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل نماز ہے۔ جو شخص خدا کا دوست ہونے کا دعویٰ کرتاہے وہ اس کے آگے سر جھکانے سے اور اس کے حکم کی تعمیل کرنے سے کیسے روگردانی کرسکتا ہے۔
نماز کے علاوہ دوسری تمام عبادات کا اہتمام کرنا،جیسے صدقہ، زکوٰۃ ، خیرات، روزہ ،حج ، جہاداور ان عبادات کے علاوہ تمام اعمالِ صالحہ کا التزام کرنا روحانیت کے لیے لازم ہے۔ صرف کلمۂ توحید کا اقرار کرنا اور شرک وکفر سے پرہیز کرنا روحانی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ نیک عمل کو زندگی کا طریقہ اور وظیفہ بنا لینا ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے لکھا ہے:
ــ’’عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا دارومدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے ، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام نے انسانیت کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح ) کو ملا کر قرار دیا ہے، یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں ، پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو،یہ عمل صالح ہے۔ ہر قسم کی کامیابیوں کا انحصار انھی دوباتوں پرہے۔کوئی مریض صرف اصول طبی کوصحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا ، جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز وفلاح کے لیے کافی نہیںہے جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے‘‘۔(سیّد سلیمان ندوی، سیرت النبیؐ، ج۵، اعظم گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص۱۱)
عمل صالح کا اہتمام کرنے سے انسان اللہ کی نظر میںبھی محبوب ہو جاتا ہے اور دوسرے انسان بھی اس سے محبت اور اس کی عزت کرنے لگتے ہیں،یعنی جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶ (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کا اہتما م کیا عنقریب رحمٰن ان کو دوست بنائے گا۔
اعمالِ صالحہ کا فائدہ انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بُرے اعمال ، بُرے خیالات اور بُری باتوں سے اجتناب کرے۔ اعمالِ صالحہ روحانی امراض کے لیے دوا ہیں اور بری باتوں سے دُور رہنا پرہیز کے درجے میں ہے۔جب تک مریض پرہیز نہیں کرتا دوا کارگر نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ۰ۭ (الانعام ۶:۱۲۰) ظاہری اور باطنی ہر قسم کی برائی ترک کر دو۔
بُرے اعمال اور بُرے خیالات کا اثر انسان کے قلب وذہن پر پڑتا ہے اور اسے روحانی کیفیات کا حامل بننے سے روکتا ہے۔ قرآن پاک میںہے:
كَلَّآ بَلْ ۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۴ (المطففین ۸۳:۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ بن جاتا ہے۔اگر وہ اس سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہو جاتی ہے، اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے توسیاہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
اس لیے روحانیت کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اوصاف رزیلہ انسان کے دل سے نکل جائیں اوردوسری منزل یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ کادل خوگرہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۳۱ (النور ۲۴:۳۱) اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ فلاح پائو۔
انسان سے دانستہ خطائیں سر زد ہوتی ہیں۔توبہ ان خطائوںسے معافی کادروازہ کھولتی ہے اور اللہ کی رحمت کومتوجہ کرتی ہے۔اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو غلطی کرے تو اللہ سے توبہ واستغفار کرے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حضرت آدم ؑ اور ابلیس دونوں سے غلطی سرزد ہوئی۔ حضرت آدمؑ کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ اللہ کے حکم دینے کے باوجود حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کیا۔ دونوں خطا کار تھے مگر ایک راندۂ دربار ہوا اور دوسرے نے معافی اور محبت پائی،اس لیے کہ دونوں کے رویے میں بڑا فرق تھا۔
پہلا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑنے اپنی غلطی کا اقرار کیا مگر ابلیس نے اپنی غلطی کا اقرار نہیں کیا ۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدم ؑاپنی غلطی پر نادم ہوئے اور ابلیس کو اپنی غلطی پر ندامت نہیں ہوئی۔ تیسرا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑ نے اپنی غلطی کو اپنے نفس کی خطا قرار دیا اور ابلیس نے اپنی غلطی کو خد ا سے منسوب کیا اور کہا: رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ(الحجر۱۵:۳۹)’’اے رب تو نے مجھے گمراہ کیا‘‘۔ چوتھا فرق یہ تھا کہ حضرت آدمؑنے گڑگڑا کر توبہ کی اور کہا:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنفُسَنَا وَ اِن لَّمْ تَغفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الخٰسِرِینَ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے تو ہم خسارے میں مبتلا ہو جائیں گے۔
اور ابلیس توبہ کرنے کے بجاے گناہ پہ قائم رہا۔ابلیس کا یہ رویہ غلطی پر اصرار اور سر کشی کا تھا۔ حضرت آدمؑ کا رویہ عاجزی کا تھا۔ ابلیس نے استکبار کیا،حضرت آدم ؑنے استغفار کیا۔ اسی فرق نے دونوں کے انجام کو جدا کیا۔ ابلیس ملعون ہوا اور حضرت آدمؑ محبوب ہوئے۔
روحانی اعمال ووظائف کی پابندی کرنا اور منکرات وخواہشات سے اجتناب کرنا صبر چاہتا ہے۔ اس راہ میں مشکلات وموانعات ہیں، تکالیف اور شدائد ہیں اور ان کو انگیز کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو صبر کی تلقین کی ہے اور صبر ہی پر آخرت کا اجر ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(الزمر۳۹:۱۰) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔
صبر انسان کو حرص وہوس سے بچاتا ہے اور گناہ اور شہوت سے بھی دُور رکھتا ہے۔ صبر وقتی بھی ہوتا ہے اور دائمی بھی۔ روحانی زندگی دائمی زندگی ہے۔ اس لیے صبر کو ہمیشہ اختیار کرنا مومن کی شان ہے۔ اس کے لیے نمونہ انبیا علیہم السلام ہیں خصوصاً محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے جس کے اتباع کا حکم قرآن پاک میں اس طرح دیا گیا ہے:
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(الاحقاف ۴۶:۳۵) جس طرح عالی ہمت رسولوںؑ نے صبر کیا اس طرح صبر کرو۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ انصار کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عطا فرمایا ۔ انھوں نے پھر سوال کیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔یہاں تک کہ آپؐ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مال ان کو دینے کے بعد فرمایا کہ میرے پاس جو مال آتا ہے وہ تم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اب جو شخص اللہ سے عفت چاہتا ہے اللہ اس کو عفیف بنا دیتا ہے، اور جو استغناء طلب کرتا ہے اس کو مستغنی بنا دیتا ہے، اور جو کوشش کر کے صبر اختیار کرتا ہے اللہ اس کو صابر بنادیتا ہے اور کسی شخص کو صبر سے بہتر وسیع عطیہ نہیں دیا گیا ۔(الجامع الصحیح بخاری )
انسانی اذیتوں ، آسمانی بلائوں اور دنیوی مشکلات ومصائب پر صبر کرنے کے ساتھ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے۔اسباب ووسائل سے بھی کام لے مگر ان پر بھروسا نہ کرے، بلکہ بھروسا صرف اللہ پر کرے ، کیوںکہ مشکلات اللہ کی طرف سے آتی ہیں، وسائل واسباب کو اللہ پیدا کرنے والا ہے اور وہی وسائل سے ماورا ہو کر انسان کی مدد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ۰ۭ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۳ (الطلاق ۶۵:۳) جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے، اللہ اپنا کام انجام تک پہنچاتا ہے، ہر چیز کے لیے اس نے پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب رسولوں کو توکّل کی تفہیم اس طرح دی ہے:
وَمَا لَنَآ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا ۰ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَـا۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۱۲ۧ (ابراہیم۱۴:۱۲) اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر بھروسا نہ کریں ،جب کہ اس نے ہمیں ہماری راہیں دکھائیں ، اور ہم تمھاری اذیتوںپر صبر کریں گے اور بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔
فقر ودرویشی روحانیت کے لیے موزوں ہے مگر لازمی نہیں ہے۔ مال ودولت روحانیت کے منافی نہیں ہے بشر طیکہ حلال طریقے سے کمایا جائے اور اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں۔ اگر حقوق اللہ ادا کرتے ہوئے مال ودولت حاصل کیا جائے تو یہ مذموم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: رِجَالٌ۰ۙ لَّا تُلْہِيْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِيْتَاۗءِ الــزَّ کٰــوۃِ ۰۠ۙ (النور ۲۴:۳۷) یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور بیع اللہ کے ذکرسے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے نہیں روکتی ۔ غریبوں ، ناداروں اور محتاجوں پر مال ودولت خرچ کرنا روحانیت کا طریقہ ہے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کے پاس مال ودولت ہو۔ مال داروں پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور ان کو صدقات کی تعلیم دی ہے۔ارشاد فرمایا: اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۲۷۴ؔ (البقرہ ۲:۲۷۴) جو لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں ، پوشیدہ اور ظاہری طور پر ، ان کے لیے ان کا اجر ہے، ان کے رب کے پاس، نہ ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا تزکیہ نفس کا بڑا ذریعہ ہے۔ غریبوں پر مال خرچ کرنے سے دولت بھی پاک ہوتی ہے اور انسان کا نفس بھی پاک ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ میںبہت سے نادار تھے اور بہت سے مال دار ۔ مال دار صحابہ ،نادار صحابہ سے کسی طرح بھی روحانیت میں کم نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ کے تمام احکام بجالاتے تھے اور جو دولت ان کے پاس تھی اسے ناداروں ،محتاجوں اور جہاد میں خرچ کرتے تھے۔ اگر مال داری روحانیت کے منافی ہوتی تو یہ حضرات ہرگز اسے گھر میں آنے نہ دیتے ، کیوں کہ یہ حضرات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور ان کے جانشین تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ جیسے صحابہ وولت وثروت میںممتاز تھے، تو انفاق فی سبیل اللہ اور غربا پروری میںبھی بے مثال تھے،چنانچہ ان کا روحانی مقام بھی بہت بلند تھا۔
دولت کی طرح حکومت اور قیادت بھی روحانیت کے منافی نہیںہے، بشرطیکہ خواہش نفس کی تکمیل کے لیے اور عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے نہ کی جائے۔ حکومت اور قیادت کو دُنیا داری کا کام سمجھا جاتاہے اور روحانیت کو اس سے دور خیال کیا جاتا ہے، مگر قرآن کی نظر میںحکومت اور روحانیت میں تضاد نہیں ہے۔ اگر حکومت اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے کی جائے، انصاف اور خیر خواہی کے ساتھ کی جائے اور اللہ کے احکام کو اللہ کی زمین میں نافذ کرنے کے لیے کی جائے تو یہی روحانیت کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۴۱(الحج ۲۲:۴۱) ان لوگوں کوجب ہم زمین میں اقتدار عطا کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں،زکوٰۃ دیتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
نماز قائم کرنا،زکوٰۃ ادا کرنا اور نیکی کی اشاعت کرنا خالص روحانی عمل ہے اور یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو نبھائیں تو مسند حکومت پر سرفراز ہونے کے باوجود وہ روحانی ہستیاں ہیں۔ انبیا علیہ السلام سے زیادہ روحانی شخصیت دنیا میں کس کی ہوسکتی ہے۔غور کیجیے کہ حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے عظیم الشان باد شاہ ہیں اور ایسے صاحب شوکت وحشمت کہ چرند پرند اور ہوائوں پر بھی حکومت ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ اللہ کے جلیل القدر نبی بھی ہیں اور روحانیت کے امام بھی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی ہے:
رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا۸۰ (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰) پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میںکوئی روحانی ہستی نہیںپیداہوئی،مگر آپؐ کا اقتدار کے لیے دعا کرنا اور پھر مدینہ پہنچ کر اسلامی ریاست قائم کرنا روحانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ روحانیت کو مضبوط اوروسیع کرنے کے لیے ہے،تا کہ زمین پر شیطان کی حکومت ختم ہو اور رحمٰن کی حکومت جاری وساری ہو۔اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کی بندگی کا ماحول ساز گار ہو،نفسانیت کا خاتمہ ہو، روحانیت کا بول بالا ہو۔
جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاے راشدین ،حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓاور حضرت علی ؓ مثالی حکمران تھے۔دنیا کے تمام حکمرانوں کے لیے اسوہ اور رہنما تھے اوراسی کے ساتھ وہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔آج کی روحانی ہستیوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ان خلفاے راشدین کے نقش قدم تک پہنچ جائیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی میں جس اعتدال وتوازن کی ضرورت ہے وہ ان پاک ہستیوں سے سیکھیں ۔
قرآن نے روحانیت کی جو تعلیم دی ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد، یعنی اللہ اور بندوں کے حقوق کی یکساں ادایگی کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے انسان سماج میں رہ کر دنیا کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی روحانی پاکیزگی کا اہتمام کرے۔سماج سے کٹ جانا، گوشہ نشینی اختیار کرلینا ، لوگوں کی حاجت روائی سے رو گردانی کرنا اور انسانی حقوق کی ادایگی سے غفلت برتنا روحانیت کے منافی ہے ۔ انسانوں کی فیض رسانی کرنا اور ان کی تکالیف پر صبر کرنا روحانیت کا تقاضا ہے، جب کہ رہبانیت ترکِ دنیا کی تعلیم دیتی ہے،انسانی سماج سے علیحدہ ہوجانے اور گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر یاد ِخدا میں زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہے۔ رہبانیت اللہ کو مطلوب نہیں ہے اور اسلام اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادایگی کو روحانی زندگی کا مشن قرار دیتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
اکثر مذاہب نے دین داری اور خدا پرستی کا کمال یہ سمجھا تھا کہ انسان کسی غار،کھوہ یا جنگل میں بیٹھ جائے اور تمام دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ اسلام نے اس کو عبادت کا صحیح طریقہ قرار نہیں دیا ہے۔ عبادت در حقیقت خدا اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کانام ہے۔ اس بنا پر وہ شخص جو اپنے تمام ہم جنسوں سے الگ ہوکر ایک گوشے میں بیٹھ جاتا ہے، وہ در حقیقت ابناے جنس کے حقوق کی ادایگی سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے وہ کسی تعریف کا مستحق نہیں۔ (سیرت النبیؐ، ج۵، ص۳۱)
روحانیت کی راہ عبادت ہے اور عبادت کے لیے انسان یکسوئی چاہتا ہے ۔اس یکسوئی کے لیے کبھی وہ تجرد کی زندگی اختیار کر لیتا ہے،یعنی ازواج واولاد کی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے، اگرچہ تجرد کی زندگی اسلام کی کی نظر میں حرام نہیںہے مگر مطلوب بھی نہیں ہے۔ انبیا علیہم السلام کی روحانی ہستیاں ازواج واولاد کی حامل تھیں۔ ان انبیا ؑمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوررحضرت یحییٰ علیہ السلام نے گو کہ شادی نہیں کی اور ان کے بال بچے نہیں تھے مگر انبیا علیہ السلام کی عظیم اکثریت اُن پر مشتمل تھی جنھوں نے شادی کی اور ازواج واولاد کے حامل ہوئے۔ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کیں اور صاحب ِاولاد ہوئے، اس لیے کہ روحانیت کے لیے تجرد کی زندگی مطلوب نہیں ہے بلکہ بال بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ روحانی زندگی مطلوب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہ دعا کرنے کی تعلیم دی ہے:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۷۴ (الفرقان ۲۵:۷۴) اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اوراپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔
روحانیت کی علامت صرف تقویٰ اورخدا ترسی ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی ہے۔ اس کے برعکس آج کے عہد میں روحانیت کے لیے مخصوص علامتیں اور رسمیں وضع کر لی گئی ہیں۔ اس ظاہرداری کا روحانیت سے تعلق نہیں ہے، بلکہ بعض رسمیں روحانیت کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہیں۔ان ہی میں ایک رسم بزرگوں اور نیک بندوں کی قبروں کو مزین کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کو حاجت روائی کے وسیلے کے طور پر اختیار کرنا اور ان کو مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بنانا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لیے دعاے مغفرت کرنے کی تعلیم تو دی ہے مگر قبروں کوسجدہ گاہ بنانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ اَنْبِیَاءِ ھِمْ وَصَالِحِیْھِمْ مَسَاجِدً ا فَلَا تَتَّخِذُوْا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدًا اِنِّیْ اَنْھٰکُمْ عَنْ ذٰلِکَ (الجامع الصحیح مسلم ) تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے، تم لوگ قبروں کو مسجد نہ بنا لینا۔ میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ اور ام حبیبہ ؓ نے حبشہ کے ایک گرجے کا تذکرہ کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تھی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کے یہاں جب کسی نیک انسان کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں اس کی تصویر لٹکا دیتے۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں قیامت تک ۔ (الجامع الصحیح مسلم )
قبریں خواہ انبیا ؑکی ہوں یا بزرگوں کی، وہ حاجت روائی کا ذریعہ نہیں ہیں اور نہ عبادت کا مرکز ہیں، بلکہ وہ صرف موت کو یاد کرنے کا مقام ہیں۔ ان کے اسوہ پر چلنے کی ضرورت ہے اور ان کی روحانی تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
قبروں کے مقابلے میں مسجدیں حاجت روائی کا وسیلہ اور روحانیت کا مرکز ہیں۔ چوں کہ مسجدمیں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے اور عبادت کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے، اس سے فریاد کی جاتی ہے، اس سے حاجت روائی کی دعا مانگی جاتی ہے اور خدا اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے۔اس لیے روحانیت کا اس سے بہتر اور کوئی مرکز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْہَا اسْمُہٗ ۰ۙ يُسَبِّــحُ لَہٗ فِيْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۳۶ۙ (النور ۲۴:۳۶) اللہ کا نور ان گھروں میںپایا جاتا ہے جس میں اپنے نام کا ذکر کرنے اور اسے بلند کرنے کا حکم دیا ، ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح بیان کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ سات لوگ جو قیامت کے دن اللہ کے سایے میں ہوں گے ان میں ایک شخص وہ ہے جس کا دل مسجد میںلگا ہوا ہو ۔(الجامع الصحیح بخاری )۔ یعنی جس شخص نے مسجد میں پابندی سے نماز ادا کرنے کو وظیفۂ زندگی بنا لیا ہے وہی سایۂ خدا وندی کا مستحق ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت اور بندگی روحانیت ہے۔ اللہ کے حکم پر عمل کرنا اور غیر اللہ سے کنارہ کشی کرنا روحانیت کی شاہ کلید ہے۔