میں دنیا سے بے زارہوچکا ہوں،اس سے دور کہیں بھی بھاگ جانا چاہتا ہوں، لیکن کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ملازمت بدلوں، گھر بدلوں، محلہ اور شہر بدلوں، یا ملک چھوڑ دوں، آخر کیسے جیتے جی اس دنیا سے پیچھا چھڑاؤں، کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ دنیا میرے ساتھ سایے کی طرح لگی رہتی ہے، اور میرے ہر فیصلے پر حاوی رہتی ہے۔ میرے مسائل اور پریشانیوں کی جڑ یہی دنیا نظر آتی ہے۔
دل میں اکثر خیال آتا کہ کسی طرح یہ دنیا میرے سامنے اس طرح آجاتی کہ میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا اور اس کا گلا گھونٹ کر اس سے چھٹکارا پالیتا۔ آخر ایک دن تنہائی میں بیٹھاہوا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے دنیا میرے سامنے کھڑی ہے:
دنیا: تمھیں مجھ سے کس بات کا گلہ ہے، بولو، میں تمھارے سامنے ہوں؟
مـیں : مجھے غم اس بات کا ہے کہ تم سے چھٹکارا پانے کا مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
دنیا: دیکھو، مجھ سے تعلق رکھنا تمھاری ایک فطری ضرورت ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے بغیر جی سکتا ہے۔ میں اللہ کی مخلوق ہوں، اور میرے اندر دل موہ لینے کی صفت رکھی گئی ہے۔
مـیں: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم سے تعلق رکھنا ضروری ہو؟
دنیا: ہاں، ایسا ہی ہے۔ اس زندگی میں کوئی مجھ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، میں زندگی کی ضرورت ہوں، یہ فطرت کا قانون ہے۔ دراصل مجھ سے تعلق ہونا غلطی نہیں ہے، غلطی یہ ہے کہ مجھ کو آخرت پر ترجیح دے دی جائے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا ارتکاب اکثر لوگ کرتے ہیں۔
مـیں: تمھاری حقیقت کیسے معلوم ہوسکتی ہے؟
دنیا: میری حقیقت اللہ کے رسول ﷺ نے بہت اچھی طرح سمجھائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا حلاوت سے بھرپور اور سرسبزوشاداب ہے‘‘۔ البتہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی آپؐ نے بتایا کہ: ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے‘‘۔
مـیں: لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ بہت سے اہل ایمان بھی اس دنیا میں بڑی آسایشوں اور راحتوں میں رہتے ہیں۔
دنیا: قید خانے سے مراد کوئی آ ہنی قفس یا تعذیب خانہ نہیں ہے، کہ جہاں وحشیانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ قید خانے سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے آپ کو اللہ کے احکام کا پابند بنا کر رکھتا ہے، اور نفس کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا ہے۔ ویسے دیکھو تو دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی طرح پابندیوں میں گھرا ہوا ہے۔ شیخ محمد بن سماک رحمۃ اللہ علیہ کی بات پر غور کرو، انھوں نے فرمایا: ’’ اے آدم کے بیٹے! تم ہمیشہ سے قید میں ہو۔ پہلے پیٹھ کی قید میں ، پھر پیٹ کی قید میں، پھراس کپڑے کی قید میں جس سے بچوں کو کس کر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ پھر مکتب کی قید میں، پھر گھریلو ذمہ داریوں کی قید میں، پس کوشش کرلو کہ موت کے بعد آرام مل جائے، ورنہ پھر ایک انتہائی تکلیف دہ قید تمھاری منتظر ہے‘‘۔
مـیں: یہ بہت سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمھارا نام دنیا کیوں پڑا ہے؟
دنیا: اگر میرے نام کا مطلب لوگ سمجھ لیں، تو میری چمک دمک کے دام میں نہ آئیں۔ میرے نام کے دو مطلب ہیں: l ایک مطلب یہ ہے کہ میں عارضی ہوں، میری عمر بہت کم ہے، بہت جلدی فنا ہوجانے والی ہوں۔ lدوسرا مطلب یہ ہے کہ میں ایک معمولی اور بے وقعت چیز ہوں، آخرت کے مقابلے میں میری کوئی قیمت نہیں ہے۔
مـیں: میں تمھارے دام سے بچ کر زندگی گزاروں، اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟
دنیا: یہ بہت خطرناک سوال ہے۔ تم مجھ سے میرا راز اُگلوانا چاہتے ہو۔ میں لوگوں کو مختلف طرح سے اپنے جال میں پھنساتی ہوں۔ کسی کو مال ودولت کے جال میں، تو کسی کو جاہ ومنصب کے جال میں، اور یہ سب میری آرایش و زیبایش کا کمال ہے۔ پھر یہ بات تو تم بھی جانتے ہو کہ آرایش و زیبایش کتنی ہی دل کش ہو، وہ عارضی ہی ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی کسی دلہن کی آرایش، یا کسی شادی کے گھر کی سجاوٹ کو دیکھا ہے؟ کیا وہ کبھی ہمیشہ کے لیے باقی رہی ہے؟
مـیں: اے دنیا! تم میرے سوال سے فرار مت اختیار کرو، میرے سوال کا جواب دو۔
دنیا: جلدی مت مچاؤ، میں ضرور جواب دوں گی۔ دیکھو تمھیں یہاں میرے ساتھ ہی جینا ہے، لیکن میرے فتنوں سے بچتے ہوئے جینا ہے۔ یہی تمھاری نجات کا راستہ ہے۔ اس کے لیے سب سے ضروری صفت ہے ، ہوشیاری اور بیداری۔ میں لذتوں اور شہوتوں کے جلو میں رہتی ہوں، جو مجھے آخرت کی گزرگاہ سمجھ کر آخرت کی طرف چلتا رہتا ہے، وہ بچ نکلتا ہے اور منزل کو پالیتا ہے، اور جو مجھے مستقل ٹھکانہ سمجھتا ہے، وہ میرے جال میں پھنس جاتا ہے اور نامراد ہوجاتا ہے۔ میں منزل نہیں گزر گاہ ہوں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے خبردار کیا تھا:
دیکھو ان چیزوں سے پرہیز کرو جو تمھیں دنیا میں مصروف کردیں، کیونکہ دنیا کی مصروفیتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان مصروفیت کا ایک دروازہ اپنے لیے کھولتا ہے، اور اس دروازے سے دس دروازے اور کھل جاتے ہیں۔
مـیں: تب تو میں تم سے بالکل قطع تعلق کرلوں گا،جبھی تو مجھے تم سے نجات مل سکے گی۔
دنیا: یہ نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب ہے، البتہ ہوشیار ضرور رہو۔ جب بھی دنیا کی مصروفیت کا کوئی دروازہ تمھارے لیے کھلے، تم آگے بڑھ کر آخرت کی مصروفیت کا ایک دروازہ بھی اپنے لیے کھول لو، تاکہ آخرت کے سفر پر بھی گامزن رہو اور دنیا میں جو تمھارے حصے کا ہے وہ بھی تمھیں مل جائے۔ اس طرح اعتدال اور توازن کے ساتھ زندگی گزارو۔ یہی خالق کی ہدایت اور منشا ہے۔
مـیں: لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔
دنیا: ڈرو نہیں، بس اس کا خیال ہمیشہ رکھو کہ دنیا کی زندگی کس طرح ہوشیاری کے ساتھ گزارنی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک بات ہمیشہ یاد رکھو۔
مـیں: وہ کیا بات ہے؟
دنیا: حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا:’’ تم میں سے کسی کو میں ہرگز اس طرح نہیں پاؤں کہ گویا رات میں مُردہ لاش ہے، اور دن میں پھدکنے والا کیڑا ہے‘‘۔
یہ حال بہت سے لوگوں کا ہے، راتیں غفلت بھری نیند کی نذر ہوجاتی ہیں، اور دن غفلت بھری بھاگ دوڑ میں گزرتے ہیں۔ آخرت کی تیاری کا خیال نہ دن میں آتا ہے اور نہ رات میں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے: ’’آدم کا بیٹا مسکین ہے، وہ جتنا فقر وفاقے سے ڈرتا ہے، اگر وہ اتنا ہی دوزخ کی آگ سے بھی ڈر جائے، تو جنت میں داخل ہوجائے‘‘۔
مـیں: تمھاری باتیں دل پر اثر کر رہی ہیں، مجھے کچھ اور نصیحت کرو۔
دنیا: اللہ کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھو:
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۴۵ (الکہف۱۸: ۴۵) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کرو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اُس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر وہ چُورا چُورا ہو گئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اور دیکھو اگر پہلے تم مجھ سے ایک بار ہوشیار رہتے تھے تو آج کے بعد ہزار بار ہوشیار رہو۔
مـیں: کیا اتنی صاف صاف باتیں ہونے کے بعد بھی تم مجھے اپنے دام میں پھنساؤ گی؟ کیا مجھے تمھارے بارے میں مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے؟
دنیا: دیکھو ایک کہاوت ہے کہ لوگوں نے کوّے سے پوچھا کہ تم آخر صابن کیوں اُچک لیتے ہو؟ کوّے نے جواب دیا: ’’کیونکہ ستانا میری فطرت ہے‘‘۔ میں بھی تم سے کہتی ہوں کہ دیکھو، پھنسانا میری فطرت ہے۔ اس لیے دنیا کے عاشق کبھی مت بننا، دنیا تمھاری وفادار نہیں ہوسکتی ہے۔
پھر دنیا اچانک غائب ہوگئی۔میں پکارتا رہ گیا، اس کے بعد میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے دنیا کی حقیقت سمجھنے کا موقع دیا۔
واقعی دنیا کی زندگی محض گھڑی بھر کی ہے۔ کیوں نہ اسے سنبھال کر نیکی کی راہ میں گزار دیا جائے۔