شروع سے میری عادت ہے کہ جہاز یا بس کے سفر پر ہوں یا کسی تقریب یا دفتر میں، کوشش کرتا ہوں کہ ساتھ بیٹھے ہوئے یا ملاقاتی سے بات چیت کروں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوتین سوالات اور ان کے جوابات سے کسی مشترکہ تعلق کا علم ہو جاتا ہے اور پھر اگر ایک دوسرے کے مزاج اور خیالات میں کچھ ہم آہنگی ہو تو یہ ملاقات دوستی میں بھی بدل جاتی ہے۔مارچ ۲۰۱۸ء کے آخری ہفتے ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے عمرے کی سعادت بخشی۔
دوبئی کے راستے امریکا واپسی کا سفر شروع ہوا تو جہاز میں میری ملاقات ساتھ والی نشستوں پر بیٹھے پاکستان سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی سے ہوئی۔معلوم کرنے پر انھوں نے اپنا نام شعیب لاری بتایا۔ پھر چند سوالات پر جان پہچان کا تعلق قائم ہو گیا۔ اسی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ امریکا کی مشہور یونی ورسٹی سٹن فورڈ سے پی ایچ ڈی ہیں ۔ ہمارا سان فرانسسکو تک یہ تقریباً ۱۴گھنٹے کا سفر تھا۔ایک آدھ گھنٹے بعد ہم زیادہ بے تکلفی سے گفتگو کررہےتھے۔ اسی گفتگو کے دوران میری نگاہ ان کے ذرا بڑی اسکرین والے موبائل فون پر پڑی، جس کی اسکرین پر تفہیم القرآن کا صفحہ صاف نظر آرہا تھا۔میں نے دل میں سوچا کہ کہ بندہ تو اپنا ہم خیال بھی ہے، جس سے والہانہ پن محسوس ہوا۔اب ان سے بات چیت کا موضوع یہ صفحہ بن گیا۔ میں نے اپنے بارے میں کچھ بتائے بغیر پوچھا: ’’یہ فون کی اسکرین پر کیا عبارت ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’یہ قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن ہے، جس کا میں مطالعہ کرتا رہتا ہوں‘‘۔ میں نے مختصراً کہا کہ: ’’یہ میری بھی پسندیدہ تفسیر ہے، اور یہ میرے زیر مطالعہ رہتی ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔اب ہمارے درمیان اجنبیت ختم ہوچکی تھی۔ انھوں نے پاکستان میں اپنی تعلیم اور امریکا آمد اور مزید تعلیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
کچھ دیر کے بعد انھوں نے ایک اہم ذاتی معاملے پر مشاورت کے سے انداز میں کہا: ’’میں ان شاء اللہ اپنے بیٹے ظافر کا آیندہ ماہ نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ستمبر میں ولیمہ ہوگا، جس میں آپ کو آنا ہو گا۔ یہ چاہتا ہوں کہ ولیمہ کے موقعے پر شرکا کو ایسا تحفہ دوں، جس نے میری زندگی بدل دی تھی اور اب میں چاہتا ہوں کہ ان مہمانوں کو بھی وہی تحفہ دوں، تا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آپ کیا تحفہ دینا چاہتے ہیں؟‘‘ ان کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا: ’’میں اپنے مہمانوں کو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی مشہور کتاب خطبات تحفے کے طور پر دینا چاہتا ہوں‘‘۔
حیرانی اس بات پر نہیں تھی کہ وہ خطبات کا تحفہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی اس ہمت،جرأت اور حوصلے پر تھی کہ وہ یہ کام امریکا میں ولیمے کی ایک بڑی تقریب میں علانیہ کرنا چاہتے ہیں۔میں نے سوچا کہ اس شخص میں کتنا حوصلہ اور جذبہ ہے،حالاں کہ لوگ نام اور تعلق چھپانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی تاہم، یہ مشورہ ضرور دیا کہ: ’’آپ یہ کام اس کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے کر کریں‘‘۔ یہ خیال بھی گزرا کہ ممکن ہے وہ اس وقت کسی خاص جذباتی کیفیت میں ہوں مگر شاید عملی طور پر وہ ایسا نہ کر سکیں گے۔ امریکا پہنچنے کے بعد دوچار بار فون پر ان سے بات ہوئی، مگر انھوں نے پھر دوبارہ اس بات کا ذکر نہیں کیا، جس سے میرے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ اب ان کا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں۔
کچھ عرصے بعد ان کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا کہ ۳ ستمبر کو شہرسانتا کلارا (کیلے فورنیا) کے چاندنی شادی ہال میں بیٹے کی تقریب ولیمہ ہے اور مجھے اس میں لازمی شرکت کرنا ہے ۔چنانچہ میں اپنے بیٹے اعجاز عارف کے ساتھ ولیمے کی تقریب میں شریک ہوا۔ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔میرا بیٹا چوںکہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۲ءتک اسی شہر میں رہ چکا تھا، اس لیے وہ بہت سے شرکا کو جانتا تھا۔ اس کے مطابق اس تقریب میں جدید ٹکنالوجی کے ماہرین، پروفیسر اور بڑی بڑی کمپنیوں کے چیف ،ڈاکٹر اور انجینیر موجود تھے۔مغرب کی اذان تک تمام مہمان آ چکے تھے۔ نماز مغرب کی ادایگی کے بعد پروگرام کا اعلان کیا گیا کہ پہلے امام احسن سید سہرا پیش کریں گے اور اس کے بعد دولہا کے والد ڈاکٹر شعیب مختصر تقریر کریں گے۔ میں اس سے قبل امریکا میں شادی کی درجنوں تقریبات میں دولھا اور دلھن اور ان کے والدین اور بہن بھائیوں کی ایسی تقاریر سن چکا تھا، اس لیے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔لیکن ان کی تقریر سنی تو احساس ہوا کہ یہ تو شادیوں میں کی جانے والی مختصر تقاریر سے بڑی مختلف تھی۔ ڈاکٹر شعیب لاری کی یہ اپنی نوعیت کی وہ تقریر تھی، جس نے تمام شرکا کو حیران کر دیا تھا۔ انھوں نے خوشی کی اس تقریب کو بھی اسلام کا پیغام، اس کے شرکا تک پہنچانے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔
ڈاکٹر شعیب لاری نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کا آغاز اس طرح کیا کہ: ’’میں اس موقعے پر آپ کو چند ایسے مشورے دینا چاہوں گا، جن کا مجھے اور میرے خاندان کو بڑا فائدہ ہوا، اور چاہتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میں شریک کروں، تا کہ آپ اور آپ کی نئی نسل بھی ان سے استفادہ کرے۔ یہ گفتگو چار نکات کی صورت میں پیش خدمت ہے:
۱- Always Tell the Truth (ہمیشہ سچ بولیں): اپنی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ بنا لیں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ اس لیے کہ : ¤ جھوٹ بولنا اللہ تعالی کو پسند نہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے صاف ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنے والا اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے، جس سے ہرایک مسلمان کو ہر حالت میں پناہ مانگنی چاہیے۔ ¤ سچ اعتماد کی بنیاد ہے اور اعتماد ذاتی تعلقات اور ہر اچھے کام کو مضبوط کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اگر ایک شخص۹۹ء۹ فی صد جھوٹ نہیں بولتا تو اس کا صرف ایک فی صد جھوٹ بھی آپ کے باہمی تعلقات اور کام میں فرق ڈال دے گا اور اعتماد کی پوری عمارت متزلزل ہو جائے گی۔¤ ہر وقت اور ہرمعاملے میں سچ بولنے کی کوشش ہمیشہ غلط کاموں سے رُکنے میں معاون ہو گی اور آپ زندگی بھر تمام دنیاوی اور دینی امور میں بھی دیانت داری کا مظاہرہ کریں گے۔¤ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی بُرائی نہیں کریں گے،جو بجاے خود بہت بڑا گناہ ہے۔ ¤ آپ جس ملک میں رہ رہے ہیں اس میں تو سب سے بڑا جرم ہی جھوٹ بولنا ہے۔ اس لیے یہاں اس اصول پر عمل کرنا وقت کی بھی ضرورت ہے۔
۲- Pray Five Times (پانچ وقت کی نماز پڑھیے): ¤ کبھی نماز کی ادایگی سے غفلت نہ برتیں، اور کوشش کر کے با جماعت ادا کریں۔ ¤ ہمارے دین میں نماز وقت پر پابندی سے ادا کرنا فرض ہے،جو ہمارے ایمان کی بنیاد بھی ہے۔¤ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ہرچیز کا انحصار اللہ اور آخرت پر ایمان ہے۔اگر ایمان ہمارے دین کا دل ہے تو نماز اس دل کی سانس اور دھڑکن ہے۔ ¤جب ہم دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ایمان کے عہد کو تازہ کرتے ہیں۔ ¤ نماز بے حیا ئی اور فحاشی سے روکتی ہے۔ ¤ نماز سے زندگی میں ڈسپلن اور احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے، جو زندگی کے ہر کام میں مدد اور قناعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ¤ نماز زندگی کو گھڑی کی طرح وقت کا پابند بناتی ہے۔ ¤ نماز کی ادایگی سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ¤ دعا نماز کا اہم حصہ ہے۔ دعا میں ہم اللہ تعالیٰ سے براہِ راست بات کرتے اور جو چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ نماز ہی اللہ تعالیٰ سے ہمارا براہِ راست تعلق قائم کرتی ہے۔ ¤ سب سے اہم نمازِ جمعہ ہے۔ جمعہ کے خطبے کو سننا کبھی نہ بھولیں کہ یہ نمازِ جمعہ ہی کا لازمی حصہ اور فرض ہے۔ اس لیے خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد آئیں۔ ¤ کوشش کریں کہ ہماری تمام نمازیں مسجد میں باجماعت ادا ہوں۔مسجد میں آنے سے جہاں بروقت ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا موقع ملے گا، وہیں ہمیں دوسرے نمازیوں سے ملنے اور تعلقات قائم کرنے،ایک دوسرے کے حالات جاننے اور باہم اخوت اور بھائی چارے کے تعلقات قائم کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ ¤ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ تصور کرتے ہوئے پڑھیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور یہ ہماری آخری نماز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تصور ہماری کیفیت کو بدل دے گا،اور نماز میں خشوع و خضوع اور گریہ و زاری کی کیفیت پیدا ہو گی۔¤ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کا ترجمہ اس طرح سمجھ لیں کہ جب نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کے ہرلفظ کا مفہوم ہماری سمجھ میں آرہا ہو۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری توجہ صرف نماز پر اور اس میں ادا کیے جانے والے الفاظ پر مرکوز رہے گی۔ ¤ اگر کسی وجہ سے مسجد جانا ممکن نہ ہو تو دفتر یا گھر میں جہاں بھی ہوں با جماعت نماز کا ضرور اہتمام کریں، اور گھر کے افراد کے ساتھ تو ایک یا دونمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا معمول بنالیں۔ اس طرح بچوں کو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ہو جائے گی۔نماز کے اختتام کے بعد گھر کا ہر فرد کوئی ایک دعا بلندآواز میں مانگے اور باقی سب بلند آواز ہی میں آمین کہیں۔ ¤ نماز کے بعد یہ بھی معمول بنائیں کہ پانچ یا ۱۰ منٹ کے لیے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث کو پڑھ کر اس کا مفہوم بیان کیا جائے۔
۳- Be Likeable (پسندیدہ بنیے) : دوسروں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت بننے کو لازم سمجھیں۔ ¤ میں نے پیشہ ورانہ زندگی کی ترقی میں اس کے بڑے فائدے دیکھے ہیں، اور یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ بڑے بڑے ذہین انجینیر بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ نہیں پاتے، اگر ان کے اخلاق اچھے نہ ہوں اور ان کی فرم یا ادارے میں انتظامیہ اور دوسرا عملہ انھیں پسند نہ کرتا ہو ۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ بہت جلد آگے کے عہدوں پر ترقی پا جاتے ہیں، جو ذہین اور اسمارٹ ہونے کے ساتھ سب کی نظروں میں پسندیدہ شخصیت کے بھی مالک ہو تے ہیں۔ یہی لوگ آگے جا کر اپنی کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدوں تک جا پہنچتے ہیں۔ اس میں استثنا ہو سکتا ہے، لیکن زیادہ تر با اخلاق لوگ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ یہی لوگ نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی میں، بلکہ عام زندگی میں بھی مقبول اور مطمئن رہتے ہیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ اور اچھے اخلاق کی تعلیم ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔ ہمارے لیے اچھے اخلاق کا مالک ہونا اتنا ہی لازم ہے، جتنا کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ،صدقہ،حج اور دیگر اچھے کام کرنا۔ ¤ میں گھر میں اکثر کہتا ہوں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک ’چوزی‘ (Choosy) ہیں کہ جن کو لوگ پسند کرتے ہیں اور دوسرے ’موذی‘ ہیں جن سے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے، یا جو پسند نہیں کیے جاتے۔ آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کے بارے میں آپ کو کہنا پڑتا ہے کہ کاش! ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوتے۔اور بعض اچھے اور خوش اخلاق افراد سے مل کر آپ کو خوشی ہوتی ہے،اور پھر وہ زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔ ¤ اچھے اور پسندیدہ بننے کے لیے ضروری کہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ خیال رہے کہ مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ ¤ ہمیشہ دوسروں سے ان کی اچھی بات کہیں۔ آپ دفتر جائیں یا گھر آئیں، کسی سے ملیں یا کوئی آپ سے ملے، ہمیشہ مسکراہٹ سے ملیں۔ یہ مسکراہٹ پہلی سیڑھی ہے، جو آپ کی شخصیت کو دوسروں سے ممتاز کر کے بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ پھر ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ نرم اور مہذب لہجے میں بات کریں۔ ¤ صبر اور توجہ کے ساتھ دوسروں کی بات سنیں اور ان کی مدد کریں۔ ¤ اپنی زندگی سے غصے کو ختم کر دیں کہ غصہ اسلام میں حرام ہے۔ ¤ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرنے کی کوشش کریں اور کبھی ان پر احسان نہ جتائیں۔ ¤ پسندیدہ فرد بننے کا مطلب ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اپنے اصولوں یا عقیدے پر سمجھوتا کیا جائے۔ ¤ اگر آپ کسی سے کسی وجہ سے کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہے کہ چپ رہیں۔ یہ کہ کسی کو بھی اپنے سے کم تر نہ سمجھیں اور نہ کبھی کسی پر طنز کریں اور نہ کسی کا مذاق اڑائیں۔ ¤ اگر آپ کسی اچھے عہدے پر ہیں تو ہمیشہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں، ان کے غم اور خوشی میں ان کا ساتھ دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ¤ گھر میں بیوی اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔
۴- Read and understand the book Khutbat( خطبات پڑھیںاور سمجھیں): آخری گزارش کے طور پر میں آپ کو ایک ایسی کتاب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس نے میری زندگی پر نہایت گہرے اور مثبت اثرات مرتب کیے۔ اس کتاب نے مجھے اسلام کی صحیح روح اور عقیدے سے روشناس کرایا۔جسے میں نے سب سے پہلے۱۴ یا ۱۵ سال کی عمر میں پڑھا تھا اور اس کے بعد آج تک بار بار پڑھتا رہتا ہوں۔ ¤ قرآن کریم ہماری الہامی کتاب ہے اور ہمیں اس کو اچھے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہیے۔ قرآن میں بیان کیے گئے عقیدے اور تعلیمات اور عبادات کو مَیں نے بہتر انداز اور آسان اردو میں جس کتاب سے سمجھا وہ کتاب خطبات ہے، جس کے مصنف عالم اسلام اور دنیا کے مشہور اسکالر اور مصنف مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ ہیں۔ ¤ اس کتاب میں مولانا نے عقیدے اور ساری عبادات نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ضرورت کو نہایت عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔آپ اس کتاب کو تسلسل کے ساتھ پڑھتے جائیے، آپ اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس کریں گے۔ چوں کہ مجھے اس سے بڑا فائدہ پہنچا ہے، اس لیے چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کو پڑھیں۔ ¤ اس کتاب کے انگریزی میں دو ترجمے ہوئے ہیں۔ ایک قدیم ہے جو Fundamentals of Islam کے نام سے ملتا ہے، اور دوسرا برطانیہ سے شائع ہوا ہے اور پہلے سے بہتر ہے، اور Let us be Muslims کے نام سے موجود ہے۔ میں خطبات اور اس کا ترجمہ اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں آپ سب شرکا کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جب یہاں سے جائیں تو دروازے کے قریب میز سے یہ تحفہ لے جانا نہ بھولیں۔ ¤ مولا نا نے اپنی سیکڑوں کتب کے ساتھ ساتھ توحید،رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت کے نام سے بھی ایک مختصر کتابچہ لکھا ہے، جس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو چکا ہےاور اس کا مطالعہ وقت کی ضرورت ہے۔ ¤ مولانا مودودی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ان کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن ہے، جو انگریزی کے علاوہ دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے، اور بلاشبہہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی قرآن کی ایک تفسیر ہے۔ مجھے تفہیم القرآن کے مسلسل مطالعے سے بھی بڑا فائدہ ہوا ہے اورآپ سے بھی کہوں گا کہ اس کو پڑھیں۔اس کا مقدمہ تو مصنف کی شاہ کار تحریر ہے، جس کا انگریزی ترجمہ Introduction to the Understanding of the Quran (قرآن فہمی کے بنیادی اصول)کے نام سے موجود ہے۔
¤ انھوں نے تقریب میں موجود غیر مسلم مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے سفارش کی کہ : ’’آپ مولانا کی کتاب رسالہ دینیات کا انگریزی ترجمہ Towards Understanding Islam کے نام سے ضرور پڑھیے ۔ آپ کے لیے بھی شادی کا یہ تحفہ شادی ہال کے دروازے کے پاس میز پر رکھا ہوا ہے‘‘۔
جاتے وقت تمام مہمان ایک ایک پیکٹ اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے گھر آکر پیکٹ کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں خطبات کے علاوہ سلامتی کا راستہ ، شہادت حق، فضائل نماز اور مولانا مودودی کا تعارف بھی موجود تھا۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹر شعیب لاری نے امریکا کے ایک بڑے اہم شہر میں کس طرح اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب کو با مقصد بنا دیا تھا اور اس طرح انھوں نے ہم سب کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ شادی بیاہ کی خوشی کی تقریبات کو اس طرح بھی منعقد کیا جا سکتا ہے۔