گذشتہ تین عشروں کے دوران میں عالمی معاشی نظام وقفہ وقفہ سے بحران کا شکار ہوتا رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بحران ۲۰ویں صدی کے شروع میں آیا تھا، جس نے دنیا کی تقریباً تمام معیشتوں کو بے پناہ مصیبتوں سے دوچار کردیا تھا۔ دو عالمی جنگوں نے بھی اس بحرانی کیفیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ان جنگوں کے بعد دنیا میں معاشی استحکام اور ترقی کا ایک طویل دور بھی آیا، جہاں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہوا، اور دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہوا۔
اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ معاشی بحران کیوںکر پیدا ہوتے ہیں اور، چند بڑے بحرانوں کا تذکرہ کرکے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ماہرین کی راے میں اگلا بحران کب متوقع ہے؟ علاوہ ازیں پاکستان جیسے ملک پراس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
ان بحرانوں کی اصل وجہ مالی نظام اور اس سے وابستہ محرکات ہیں، جو احساسات اور نفسیات سے ترکیب پاتے ہیں۔ اس مالی نظام کی تنظیم ایسے عناصر پر مبنی ہے جو ’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘ کے مصداق مکروہ ترغیبات دے کر، اس میں ناگزیرعدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ جدید معاشی نظام ایک ایسے نظامِ زر پر مبنی ہے، جہاں زر کی رسد اور پھیلاؤ پر کسی مقتدر ریاستی ادارے کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہے۔ بظاہر زر [یعنی نوٹوں]کی اشاعت مرکزی بنک ایک قانون کے تحت کرتا ہے۔ لیکن ایک مخصوص شائع شدہ مقدار جاری ہونے کے بعد جب وہ رسد کسی کے ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کو بنک میں رکھواتا ہے۔
اب بنکنگ نظام کی تنظیم ایسی ہے کہ وہ بھی اس زر کے پھیلاؤ کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے ۔ بنک اس بات کے پابند نہیں ہوتے کہ وہ جمع شدہ رقم (deposits) کے سامنے اسی مقدار میں ریزروز (تحفیظ) رکھیں، بلکہ صرف ایک حصہ، مثلاً ۲۰فی صد ریزرو نقد کی صورت یا مرکزی بنک میں ڈپازٹ کی شکل میں رکھنا ہوتا ہے۔ باقی رقم کے معاملے میں بنک آزاد ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے گاہک کو قرض کی صورت میں یا کچھ صورتوں میں شراکتی سطح پر کسی کاروبار میں لگانے کے لیے دے دے اور اس سے منافع کمائے۔ یہ عمل تواتر سے ظہور پذیر ہوتا ہے کیونکہ اس قرضہ کی رقم کو بھی بالآخر کسی دوسرے بنک ہی میں جمع کرایا جاتا ہے اور پھر ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس نظام کو فریکشنل ریزرو بنکنگ (Fractional Reserves Banking) کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مرکزی بنک کی طرف سے ایک مقدار میں شائع کی ہوئی رسدِ زر بالآخر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
بظاہر یہ ایک سود مند عمل نظر آتا ہے کیونکہ زر کے اس اضافی پھیلاؤ سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے کھاتہ دار، بنک اور سرمایہ دار سب مستفید ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ اس وقت تک درست ہے، جب تک معیشت میں غیر استعمال شدہ پیداواری صلاحیت موجود ہے اور یہ اضافی رسدِ زر ثمرآور معاشی عمل میں لگائی جارہی ہو۔ لیکن اس کے بیچ میں وہ مکروہ ترغیبات دَر آتی ہیں، جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا۔ بنک کی آمدنی قرضوں کے اجرا سے منسلک ہے، لہٰذا بنک ان کی مقدار بڑھانے کے لیےبے چین رہتا ہے۔ اس عمل میں بسا اوقات وہ دانش مندی کا دامن چھوڑ کر حرص کا شکار ہوجاتا ہے، اور پھر مطلوبہ معیار پر پورا نہ اُترنے والے گاہکوں کو بھی قرض دینا شروع کردیتا ہے جو اہل نہیں ہوتے، یا جہاں خطرات کی نوعیت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاتا یا اس سے جان بوجھ کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کوتاہی کے تباہ کن اثرات اس وقت عیاں ہوتے ہیں، جب کاروباری چکر (business cycle) میں مندی کا مرحلہ پیش آتا ہے۔
اس موقعے پر کاروبار کمزور پڑتا ہے، مقروض قرض کی ادایگی نہیں کر پاتا اور بنک قرض کی عدم وصولی کی وجہ سے یا تو اپنے سرمایے کو استعمال کرتا ہے، جو کہ بنک کے اثاثوں کا بمشکل ۱۰سے ۱۵ فی صد ہوتا ہے، یا پھر وہ خود دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ اس بکھرنے کے عمل میں اس وقت شدت پیدا ہوجاتی ہے، جب کھاتے دار اپنی جمع شدہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ بنک کے پاس ریزرو صرف اتنے ہوتے ہیں کہ وہ روزہ مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ لہٰذا، کھاتے داروں کی ادایگیوں کے لیے وہ اپنے مقروضوں (debtors)سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ رقم واپس کردیں۔ لیکن مقروضوں کے پاس بھی رقم موجود نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو صرف اپنے ایسے اثاثے پیش کرسکتے ہیں جو قرٖض کی رقم سے بنائے گئے تھے اور قرضوں کے عوض رہن (mortgage) کے طور پر رکھوائے گئے تھے، لیکن اگر ان اثاثوں کو اضطراری حالت میں فروخت کیا جائے گا تو ان کی مالیت وہ نہیں ہوگی، جو حقیقی مالیت یا کتابوں میں درج مالیت کے برابر ہوتی ہے، لہٰذا یہ مالیت قرض کی ادایگی کو پورا نہیں کرسکے گی اور یوں ایک دیوالیہ پن کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ فریکشنل بنکنگ کا نظام زر کے پھیلاؤ کا ایک ’الٹا اہرام‘ (inverted pyramid) کھڑا کرتا ہے۔ جب یہ تار و پود بکھرتا ہے تو اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اُلٹے اہرام کی نوک ہی اصل سرمایہ ہوتی ہے اور اس پر کھڑی عمارت بے بنیاد ہوتی ہے۔
بد قسمتی سے بنکوں کو اس بات کی بھی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں۔ یہاں سٹہ بازی کی زبردست ترغیبیں ہوتی ہیں۔ سٹہ بازی، بنک کے اثاثوں کو پُرخطر بنادیتی ہے۔ جب اسٹاک مارکیٹ میں مندی آتی ہے تو ان اثاثوں کی مالیت میں زبردست کمی واقع ہوجاتی ہے، جس سے وہی عمل شروع ہوجاتا ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔
علاوہ ازیں شرح سود جو ہمیشہ متعین اور غیر متغیر ہوا کرتی تھی، اس میں ردوبدل اب معمول بن گیا ہے۔ تمام مرکزی بنک جب زر کی رسد میں کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں تو وہ شرح سود کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ٹرژری بلز (Treasury Bills) اور بانڈز (Bonds) کی ہر دوہفتے اور ایک ماہ کے بعد نیلامی ہوتی ہے، جو زر کی رسد میں کمی بیشی کا طریقہ ہے، تو اس میں متعین ہونے والی شرح سود مارکیٹ پر لاگو ہوجاتی ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی اب متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کو اسی نیلامی میں متعین ہونے والی شرح سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی بھی زر کی مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بنی ہے۔
ایک اور اہم عنصر جس نے اس نظام کو غیر مستحکم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، وہ سرمایے کی دنیا بھر میں آزادانہ اور برق رفتاری سے آمد و رفت ہے۔ اس برق رفتار اور تازہ دم سرمایے کا اصل ہدف وہ ممالک رہے ہیں، جن کی معیشتوں کو ابھرتی ہوئی مارکیٹیں (emerging markets) کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ جب صنعت و حرفت میں لگتا ہے تو اس کی آزادی محدود ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ اسٹاک مارکیٹ میں لگا ہے یا قرضوں کی شکل میں آیا ہے، جیسا کہ یورو بانڈز وغیرہ تو اسے نکالنے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ عموماً سرمایہ ترقی یافتہ ممالک سے ابھرتی معیشتوں میں آرہا تھا، جو زیادہ تر ڈالر اور کچھ یورو میں ہوتا ہے۔ یہاں ڈالر اور مقامی کرنسی میں شرح تبادلہ اس سارے عمل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مقامی کرنسی کی شرح تبادلہ میں گراوٹ، جو اکثر ڈالر اور یورو کی مضبوطی کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ سرمایے کو واپسی کی طرف مائل کرتی ہے یا اگر قرضوں کی شکل میں ہے تو پھر مقامی کرنسی میں اس کی واپسی مشکل ہوجاتی ہے اور مقامی کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
۲۰۰۸ء کے شروع میں جرمنی میں ایک چھوٹے سے قصبے کے بلدیاتی ادارے کے ناظم کو اس کے اکاؤٹنٹ نے ایک دن خبر دی کہ ادارے نے جو ایک بانڈ میں سرمایہ کاری کی ہے اور جس سے مستقل آمدنی موصول ہوتی رہتی تھی وہ بنک میں نہیں آئی اور کافی عرصے سے وہ کوشش کررہا ہے کہ بنک یہ بات بتائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن اسے کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا ہے ۔
یہ کہانی ۲۰۰۸ء کے عالمی بحران کا نقطۂ آغاز تھا۔ بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بڑے پیمانے پر قرض خواہان (creditors)،مقروضوں (debtors) سے اپنا اصل اور سود وصول نہ کرسکیں، یعنی مقروضوں کا دیوالیہ نکل گیا ہو۔ علاوہ ازیں اسٹاک مارکیٹ میں جو سٹہ کھیلا جاتا ہے اس میں بھی ایک عنصر دیوالیہ ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ عموماً لوگ مستقبل کے سودے کرتے ہیں جیسا یہ کہنا کہ:’’میں ایک ماہ کے بعد تمھیں فلاں کمپنی کے اتنے حصص (shares)، فلاں قیمت پر فروخت کروں گا‘‘۔ ایسا سودا کرنے کے لیے قانوناً یہ ضروری نہیں ہے (جیسا کہ اسلامی شریعت میں ضروری ہے) کہ سودا کرتے وقت حصص آپ کی ملکیت میں موجود ہوں۔ اب ایک ماہ بعد ہوسکتا ہے کہ قیمت اس سے مختلف ہو، جس پر سودا کیا گیا ہے۔ اگر کم ہوئی تو فروخت کرنے والے کو نفع ہوجائے گا اور اگر بڑھ گئی تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور کبھی یہ نقصان اتنی بڑی مقدار میں ہوگا کہ فروخت کرنے والا اپنے دیوالیہ پن کا اعلان کردے گا۔
لیہمین برادرز دنیا کا ایک نام ور ترین سرمایہ کاری بنک تھا، جو ۱۵۰ سال کامیابی سے منافع بخش کام کرتا رہا اور اس کی قابلیت اور صلاحیتوں کی ایک دنیا معترف تھی۔ ا۲ ویں صدی کے آغاز میں اس بنک نے ایک ایسا کام شروع کردیا جو ماضی میں اس کی پہچان نہیں تھی: گھروں کے لیے رہن پر قرضے دینا۔ در حقیقت لیہمین وال اسٹریٹ کی اشرافیہ کا کلیدی رکن تھا اور یہ ادارے پرچون کا کاروبار نہیں کرتے بلکہ یہ تو پرچون والوں کا سامان زیب و زینت سے آراستہ کرکے بڑے سرمایہ کاروں کو بیچتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا وقت تھا جب امریکا میں شرح سود کم ترین تھی اور زر کی رسد بے پناہ تھی، کیونکہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک اپنے زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے ذخائر کم ترین شرح پر امریکی حکومت کے بانڈز خرید کر قرض کی شکل میں فراہم کر رہے تھے، جس سے دو جنگوں پر بڑھتے دفاعی اخراجات اٹھانے کے باوجود امریکا میں افراط زر قابو میں تھا۔ رہن بردار قرضہ نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا ہے کیونکہ رہن کی مالیت عام طور پر قرض سے زیادہ ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے، لہٰذا ڈیفالٹ کی صورت میں رہن بیچ کر قرض وصول کرلیا جاتا ہے، بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جتنی مالیت رہن کی قرض ادایگی سے چھوٹتی رہتی ہے، اس کی جگہ بھی ایک اضافی قرضہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔
اس پُرکشش پرچون کاروبار کو شروع کرنے کے لیے لیہمین نے دو ایسے مالیاتی اداروں کو خرید لیا، جو رہن بردار قرضے جاری کرتے تھے ۔ لیہمین نے کم شرح پر ملنے والے قرضوں کی ایک بڑی مقدار کو حاصل کرکے ان سے اپنے ذیلی اداروں کے توسط سے رہن بردار قرضے جاری کرنے کا عمل تیز تر کردیا۔ یہ کیوںکہ سرمایہ کار بنک تھا، اس لیے ان اداروں کے جاری کردہ رہن بردار قرضوں کو ان سے خرید کر اور ان کو بنیاد بنا کر نئے بانڈز تشکیل دینے اور انھیں فروخت کرنے لگا، جن کی آمدنی ان خریداروں کو دیے گئے قرضوں پر ملنے والی سود کی ادایگی سے ہوتی تھی۔ یہ بانڈز ساری دنیا میں فروخت ہوتے تھے اور ان کی زبردست طلب ہوتی تھی۔ ایسا ہی بانڈ جرمنی کے اس چھوٹے بلدیاتی ادارے نے بھی خرید رکھا تھا اور اس پر ابتدا میں مسلسل آمدنی ہورہی تھی جو بعد ازاں منقطع ہوگئی۔
یہاں ذرا ٹھیر کر ہم اس عمل کو مزید سمجھ لیں۔ عموماً ہم ایک بنک سے قرضہ لیتے ہیں تو اس کی ایک طے شدہ برانچ ہوتی ہے جس سے ہمارا لین دین ہوتا ہے۔ امریکا میں بھی یہی نظام ہوتا تھا۔ لیکن قرض کے کاروبار میں پھیلاؤ کی خاطر نت نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو نے یہ ستم ڈھایا کہ عام صارفین کے قرضے بھی فروخت ہونے لگے۔ قرض کی قسطوں کی ادایگیوں کے لیے یہ ضروری نہیں رہا کہ وہ اسی برانچ میں داخل کی جائیں بلکہ اس کے لیے ایک ٹرسٹی کی تعیناتی ہوجاتی ہے، جو وصولیاں کرکے قرض خواہ کے رجسٹر میں درج تازہ ترین مالک کو یہ وصولیاں پہنچا دیتا ہے۔ جب لیہمین برادرز نے یہ قرضے خریدے تو ساتھ ہی یہ اہتمام بھی کرلیا کہ اب ٹرسٹی وصولیاں اس کو پہنچائے گا۔ پھر اس نے جس کو نو تشکیل شدہ بانڈز فروخت کیے ان کو بھی یہ سہولت مہیا کردی باوجودیہ کہ نیا بانڈ کئی قرضوں کے امتزاج سے نکلا ہوتا تھا۔ اس سارے عمل میں ایک عام صارف جس نے پہلے قرضہ لیا تھا اور ایک بانڈ ہولڈر جس نے لیہمین برادرز کا نو تشکیل شدہ بانڈ خریدا ہے، کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فلوریڈا کا رہایشی جس نے مقامی بنک سے رہن بردار قرض لیا تھا بالآخر اس کا قرض خواہ جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا بلدیاتی ادارہ بن گیا مگر ہر دو افراد ایک دوسرے سے مکمل لا تعلق ہیں۔
لیہمین کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ ۲۰۰۰ء میں شروع کیے گئے اس کاروبار میں ۲۰۰۳ء تک اس کے اثاثوں کی مالیت ۱۸ ؍ارب ڈالر ہوگئی تھی اور وہ امریکا میں رہن بردار قرضوں کو جاری کرنے والوں میں تیسرے نمبر پر آگیا۔ ۲۰۰۷ء کی آمد تک یہ کاروبار اس قدر پھیلا کے وہ ۵۰؍ ارب ڈالر کے قرضے ماہانہ جاری کررہا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں اس کے اثاثوں کی مالیت ۶۸۰؍ارب ڈالر ہوگئی تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے اپنے سرمایے کی مالیت فقط ۲۳؍ ارب ڈالر تھی،جب کہ بقیہ اثاثے قرضے حاصل کرکے بنائے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اثاثوں اور سرمایہ کا تناسب ۳۰:۱ کا تھا۔ اگر اس کے اثاثوں کی مالیت میں کسی حادثے کی صورت میں ۴فی صد کی کمی واقع ہوجائے تو سارا سرمایہ ختم ہوجائے گا اور ان بقیہ اثاثوں کے سامنے صرف وہ قرضے رہ جائیں گے، جن کے ذریعے یہ اثاثے بنائے گئے تھے۔ لیکن اضطراری فروخت میں ان کی مالیت اتنی نہیں ملے گی جس سے قرضوں کی مکمل ادایگی ممکن ہوسکے۔ اور یوں قرض سے بنائے گئے اثاثوں کی عمارت زمیں بوس ہوجائے گی۔
ہم نے ابتدا میں ان مکروہ ترغیبات کا ذکر کیا تھا جو جدید اور مروجہ مالیاتی نظام اِس کے منتظمین کو فراہم کرتا ہے۔ لیہمین برادرز کا خاتمہ اسی راستے پر چلنے سے ہوا۔ جب رہن بردار قرضوں کا سلسلہ تیز کرنے کا مرحلہ آیا تو لیہمین نے بھی نسبتاً کم کوالٹی کے قرضہ داروں کو قرضہ دینے کا کام شروع کردیا، جس کو سب پرائم (Sub-Prime) کہتے ہیں۔ عموماً بنک صرف پرائم کسٹمرز کو قرضے دیتے ہیں، جن کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ گھر کی بنیاد پر قرض دینے میں رہن موجود ہوتا ہے تو یہ فکر پیدا کی گئی کہ صارف کی نسبتاً کم کوالٹی کو رہن کی موجودگی پورا کرسکتی ہے۔ مغربی مالیاتی نظام کے تحت یہ مفروضہ بُرا نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر اس کو بے حد و حساب بڑھا دیا جائے تو شاہد یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوسکتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہی حالات نے بالآخر جنم لیا، جس نے سارے مالیاتی نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔
۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۸ء تک رہن بردار قرض اس بڑے پیمانے پر جاری کیے گئے، جن کا ماضی میں تصور ممکن نہیں تھا۔ خود لیہمین بردارز نے جس رفتار سے قرضوں کو جاری کیا اس کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں۔ بنکاروں نے ان قرضوں کو جاری کرنے کے لیے نہایت جارحانہ مہمات کا اہتمام کیا۔ اتوار بازار لگائے جاتے تھے جہاں سارا دن مفت سیر اور تفریح اور کھانا پینا ہوتا تھا اور سادہ لوح لوگوں کو گھر خریدنے کی ترغیب دی جاتی تھی اور وسائل کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ: ’’فکر نہ کریں، اس کے لیے ہم آپ کو قرض دیں گے‘‘۔ گھر کے مالک کا اپنا سرمایہ کم سے کم کردیا کیونکہ مفروضہ یہ تھا کہ مستقبل میں گھر کی مالیت میں اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔ دوسری طرف بڑے پیمانے پر گھروں کے کمپلیکس تیار تھے، جہاں صرف مکینوں نے داخل ہونا تھا۔ درخواست میں مقروض کی معاشی حالت کے پس منظر اور آمدنی سے متعلق کوائف دینے کی ضرورت تھی، وہ اس طرح درج کردیے جاتے تھے جو قرض کی منظوری کا باعث ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ حقیقتاً درست ہوں یا نہ ہوں۔ لوگ اپنی حیثیت سے کہیں بڑے گھروں میں داخل ہونے لگے، اگر حیثیت تھی بھی تو آمدنی میں وہ تسلسل نہیں تھا، جو عموماً رہن بردار قرض کا جواز پیدا کرتا، یا کم از کم اتنا بوجھ ڈالتا جو کسی حد تک پورا کیا جاسکتا۔
۲۰۰۸ء میں وہ واقعہ رُونما ہوگیا، جس کے بارے میں گمان تھا کہ وہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ نہیں ہوتا: گھروں کی مالیت گرنے لگی۔ گھروں کی رسد میں بے محابہ اضافہ، کم شرح سود پر ملنے والے قرضے تھے۔ جب شرح سود میں اضافہ ہوا تو گھر کی مالیت گرنے لگی، کیوںکہ رہن بردار قرضوں کی شرح سود میں بھی اضافہ ہوگیا اور قرضوں کی ادایگی میں دقت پیش آنے لگی لہٰذا ڈیفالٹ کا آغاز ہوگیا، کیونکہ گھر کی مالیت قرض کی ادایگی کے لیے نا کافی تھی۔ لوگ گھروں سے بے دخل ہونے لگے، خالی کیے گئے گھروں کا کوئی خریدار نہ تھا، ان کی تعمیر میں لگے سرمایے کا نقصان کسی بنک نے تو اٹھانا تھا، جیسے لیہمین برادرز، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کسی کے پاس موجود نہیں تھا، لہٰذا بنک ڈوبنے لگے۔
ستمبر ۲۰۰۸ میں جب یہ خبر عام ہوئی کہ لیہمین برادرز دیوالیہ ہو گیا ہے تو یہ ایک سونامی کا آغاز تھا۔ وال اسٹریٹ میں ایک بھونچال آگیا تھا، جونائن الیون کے بعد پہلا بڑا حادثہ تھا۔ قریب تھا کہ سارا مالیاتی نظام درہم برہم ہوجائے کیوںکہ بنکوں نے قرضے جاری کرنے بند کردیے تھے اور کچھ ایسے کاروبار جو سرمایہ کاری کی انشورنس فراہم کرتے تھے وہ بھی ڈوبنے والے تھے۔ امریکی حکومت کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اگر اس ڈوبنے کے سلسلے کو نہ روکا گیا تو ساری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا، انھوں نے ان بنکوں اور مالیاتی اداروں کو قومی خزانے سے نہایت کم شرح پر سرمایہ فراہم کردیا، اور یوں یہ ادارے بچ گئے اور تباہی محدود ہوگئی۔ لیکن جو کچھ ختم ہوگیا وہ بھی ہولناک تھا: امریکا میں ۹۰ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے؛ گھریلو دولت میں ۱۳ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا؛ ایک مختصر سی مدت میں گھروں کی مالیت میں ۳۰ فی صد کمی واقع ہوئی اور اسٹاک مارکیٹ کی مالیت ۵۰ فی صد گر گئی؛ ایک اندازے کے مطابق امریکا کی سالانہ آمدنی کا ۴۰ فی صد اس بحران میں برباد ہوگیا۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے اور کھلے آسمان کے نیچے کیمپوں میں رہنے لگے۔ یورپ، جاپان اور ایشیا کی دوسری معیشتیں بھی اس سے متاثر ہوئیں اور ’مالیاتی سونامی‘ ساری دنیا پر اپنے بُرے اثرات چھوڑ گیا۔
۲۰۰۸ء کے ’مالیاتی سونامی‘ نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے مکروہ ترغیبات کے حامل بنکاری اور مالیاتی نظام کا پردہ چاک کردیا۔ چوں کہ اس نظام کے پشتیبان اثر و رسوخ کے حامل اور طاقت کے مراکز پر قابض ہیں، اور بزعم خویش اتنے بڑے ہیں کہ انھیں گرنے نہیں دیا جا سکتا (too big to fail) لہٰذا، ان کو کھڑا رکھنے کے لیے ریاست نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ دوسری جانب اس میں گرنے والے وہ کمزور اور بے اثر افراد جن کی زندگی بھر کی کمائی خاک میں مل گئی، جو اپنے گھروں سے بے دخل ہوکر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، سرمایہ دارانہ معیشت کی سرخیل ریاست ِ امریکا ان کی کفالت کو نہیں آئی۔ گھروں سے بے دخل ہونے والوں کو اگر کسی بھی درجے میں دیوالیہ ہونے سے بچایا جاتا، اس خیال سے کہ ان کے گھروں کی مالیت اس سونامی کے بعد اپنی حقیقی مالیت کی طرف واپس آجاتی، تو یہ تباہی سے بچ سکتے تھے جیسا کہ بڑوں کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ لیکن امریکی صدر اوباما نے اس طرح کی کسی تجویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
جب یہ سونامی گزر گیا تو اس کے بعد کوئی احتسابی عمل شروع نہیں ہوا۔ کچھ افراد کو فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ بہت معمولی سزاؤں کے بعد چھوٹ گئے۔ زیادہ وقت اس بات پر صرف ہوا کہ آیندہ اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان اقدامات کو سمجھنے کے لیے ایک اور نام نہاد کاروبار سمجھنا ضروری ہے، جو سودی کاروبار سے آگے بڑھ کر صاف اور صریحاً قمار یا جوا ہے اور جو حقیقتاً اس سونامی کا اصل باعث بنا تھا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا معاہدہ ہے، جو Derivative (ڈیریویٹو، جس کا ترجمہ ہم’متبدّل‘ کررہے ہیں) کہلاتا ہے، جس کے مطابق مستقبل میں پیش آنے والے ایسے واقعے سے بچائو کے لیے ایک قیمت ادا کرکے خریدار اپنا تحفظ کرسکتا ہے۔ مثلاً رہن بردار قرض خواہ، جس کو مقروض کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہو وہ ایک متبدّل خریدے گا کہ اگر مقروض نے قرض ادا نہیں کیا تو متبدّل فراہم کرنے والا ادا کردے گا۔ یقیناً یہ معاہدہ ایک طرح کا بیمہ یا انشورنس ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کاروبار ان تمام قوانین اور نگرانیوں سے آزاد تھا جو انشورنس کے کاروبار پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس کو فروخت کرنے والا انشورنس کے معروف کاروبار کے لیے لائسنس کا نہ حامل تھا اور نہ اس نے اس کے لیے ضروری سرمایہ فراہمی کی پابندی تھی۔ متبدّل ضروری نہیں کہ صرف مالی اُمور تک محدود رہے۔ یہ اشیا کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ، شرح سود میں تبدیلی، متعین شرح کو غیر متعین سے تبادلہ کرنے وغیرہ سب میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ بس ایک قیمت کی ادایگی سے، ایک خاص مدت کے لیے، ایک ناپسندیدہ نتیجے سے بچنے کے لیے متبدّل خرید کر تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
گذشتہ سال ۵۰۰ ٹریلین ڈالر سے زائد ’متصّور مالیت‘ (Notional Value) کے ۲۵؍ارب متبدّل فروخت ہوئے ہیں۔ یہ مالیت ان معاہدوں کی ہے جن کے لیے متبدّلات خریدے گئے ہیں، مثلاً شرح تبادلہ یا کریڈٹ ڈیفالٹ وغیرہ۔ یہ واضح رہے کہ یہاں ایک معاہدہ کئی مرتبہ گنا جاتا ہے کیونکہ متبدّل فروخت کرنے والا خود اپنے تحفظ کے لیے بھی کسی دوسرے سے متبدّل خریدتا ہے، لہٰذا یہ ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے۔ متبدّلات کی خرید و فروخت دو طرح سے ہوتی ہے: باہمی طور پر دو افراد یا کمپنیوں کے درمیان یا پھر کسی ایکسچینج میں۔ یہ ۹۵ فی صد تو باہمی طور پر ہوتی ہے۔ دو قسم کے متبدّل سب سے زیادہ فروخت ہوئے: ایک کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ (تبادلہ) اور دوسرا رہن بردار قرض ادایگیاں (CDO - Collarrized Debt Obligations)۔ آخرالذکر اصل میں مالیاتی سونامی کا باعث بنا۔
رہن بردار قرضوں کا زور یوں اور بڑھ گیا کہ مارکیٹ میں اس کا متبدّل بکنے لگا، اور امریکا کا ایک معتبر نام امریکا انٹرنیشنل گروپ (AIG) اس کام میں لیڈر تھا۔ لیکن جب شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ڈیفالٹ کا آغاز ہوا تو CDO نے ابتدا میں ادایگیاں کرنا شروع کردیں، لیکن جلد اسے یہ احساس ہوگیا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ادایگیاں کرنے کے قابل نہیں ہے۔ قریب تھا کہ سارا نظام دھڑام سے گر جاتا کہ اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ ہیری پالسن، گولڈ مین ساچس (Goldman Sachs)، جو سب سے بڑا بنک تھا اور اس کاروبار میں بھی چار بڑے اداروں میں شامل تھا، کے سابق سربراہ تھے۔ ان کی سربراہی میں ان اداروں کو بچانے کے لیے ایک اجلاس اکتوبر ۲۰۰۸ء میں منعقد ہوا، جس میں مرکزی بنک اور مرکزی انشورنس کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حکومت ان اداروں کو سیکڑوں ارب ڈالر کے قرضے براہ راست اور مرکزی بنک کے ذریعے فراہم کرے گی تاکہ یہ اس ڈیفالٹ سے بچ جائیں۔ مرکزی بنک نے تقریباً صفر شرح سود پر اتنی بڑی مقدار میں قرضے جاری کیے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس کی بیلنس شیٹ دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔
متبدّل کا کاروبار بلا روک ٹوک اور بغیر کسی قانونی عمل کے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۰ء امریکی صدر بل کلنٹن کی حکومت کا آخری سال تھا اور اس سال دسمبر تک کا ان کا بجٹ کانگریس سے پاس نہیں ہورہا تھا۔ اس کے حصول میں جو چیز مانع تھی، وہ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ز کا یہ اصرار تھا کہ بجٹ قانون کے اندر ایک اور قانون کی منظوری دی جائے جس کی صدر کلنٹن مخالفت کررہے تھے۔ یہ قانون متبدّل کے کاروبار کو ایک مستقبل (فیوچرز) کے سودوں کی مارکیٹ، جو ایک منظم مارکیٹ ہے اور تبادلۂ اشیا ایکٹ ۱۹۳۶ء کے تحت کام کرتی ہے، اس سےجدا ایک کاروبار تسلیم کروانا تھا ۔ یہ کاروبار باہمی سودوں کی بنیاد پر ماہر سرمایہ کاروں کے درمیان ہو اور اس پر کسی قسم کی کوئی نگرانی کا عمل نہ ہو خصوصاً ۱۹۳۶ء کا ایکٹ اس پر لاگو نہ ہو۔ بالآخر مجبوری میں بل کلنٹن نے بجٹ منظوری کی خاطر اس قانون کو منظور کرلیا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نگران ادارے جو بنکوں، غیربنک مالی اداروں، انشورنس وغیرہ کی نگرانی کرتے ہیں، اس کاروبار کے معاملات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مزید برآں ’وال اسٹریٹ‘ اور کوئی دوسرا اسٹاک ایکسچینج بھی یہ کام دیکھنے کا مجاز نہیں تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ متبدّل فروخت کرنے والوں کو کسی قسم کے ذاتی سرمایے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئے کاروبار کی تشکیل نے ایک اور مکروہ ترغیب فراہم کردی، جو اس کی تباہی کا باعث بنی۔ متبدّل اتنی بڑی تعداد میں فروخت کیے گئے جتنی بڑی تعداد میں رہن بردار قرضے جاری کیے جارہے تھے۔ جب بڑے پیمانے پر رہن بردار قرضوں کا ڈیفالٹ شروع ہوا تو متبدّل بیچنے والوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اپنے سارے وعدے پورے کرسکتے۔ یہ نوبت جب AIG اور گولڈمین ساچس تک پہنچی تو’آپ کی زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی‘ کے مصداق بڑی سرکار حرکت میں آگئی۔
ایک اور دل چسپ بات ہم یہاں بتاتے چلیں۔ جب لیہمین برادرز اپنے ذیلی اداروں کے جاری کردہ رہن بردار قرضوں پر مبنی بانڈز بنا کر وال اسٹریٹ میں فروخت کرتا تھا، تو اس کے لیے کسی نامور ریٹینگ ایجنسی سے ریٹنگ کروانی لازم ہوتی تھی۔ یہ تمام ریٹنگ عموماً AAA ہوتی تھیں، جس کا مطلب تھا کہ اس میں ڈیفالٹ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈ پور اور فیٹچ یہ تینوں ایجنسیز اس کام میں ملوث پائی گئی ہیں۔ موڈیز نے تو کمال کردیا۔ ۲۰۰۶ء میں اس نے تقریباً ۸۶۹؍ ارب ڈالر کے رہن بردار بانڈز کو AAA ریٹینگ جاری کی تھی۔ پھر ’مالیاتی سونامی‘ کی آمد سے ذرا پہلے اس میں سے ۸۳ فی صد بانڈز کی ریٹنگ گھٹا دی، مگر اس وقت تک بہت تاخیر ہوگئی تھی۔ سونامی کے ذمہ داروں میں ان ایجنسیوں کا نام بھی سامنے آیا اور ان پر مقدمات قائم ہوئے۔ لیکن پھر جرمانے ادا کرکے فارغ ہوگئے اور آج بھی یہ اسی آن بان سے کام کررہے ہیں، اگرچہ موڈیز کو جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ایک تحقیقات کا سامنا ہے۔
ہم یہاں سود کی تباہ کاریوں کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سود کے کاروبار میں ایک عدم استحکام قدرتی طور پر پنہاں ہے۔ سود کا سودا طے شدہ مدت کے بعد مقروض سے سود کی ادایگی کا مطالبہ کرتا ہے، اگر یہ ادایگی نہیں ہوگی تو وہ رہن کو بیچ کر اپنا سود اور اصل سرمایہ پورا کرسکتا ہے۔ اگر یہ ناکافی ہے اور مزید کوئی اثاثہ بطور ضمانت موجود نہیں ہے تو قرض خواہ کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر یہ کاروبار شراکت کی بنیاد پر کیا جائے تو یہ عدم استحکام دور ہو جاتا ہے۔ کیوںکہ شراکت کی وجہ سے سرمایہ فراہم کرنے والے کے لیے یہ ترغیب نہیں رہتی کہ مندی کے حالات میں اگر اس نے رہن جلد فروخت نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا، بلکہ شریک کی حیثیت سے اس کا حصہ ہمیشہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور مندی کے حالات میں بیچنا مالیت کو خراب کرے گا۔ یوں سارے نظام سے وہ مکروہ ترغیب جو لوگوں میں اضطراب اور بے چینی (panic) کا باعث ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
متبدّل کا کاروبار جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں صاف جوا ہے جس کا اسلامی شریعت میں حرام ہونا واضح ہے۔ علاوہ ازیں شریعت یہ بھی پابندی لگاتی ہے کہ آپ وہ اشیا نہیں بیچ سکتے جو آپ کی ملکیت میں نہ ہوں یا جن کی بوقت ضرورت موجودگی میں کسی قسم کا شبہہ ہو۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ اسلامی نظام مالیات ان مکروہ ترغیبات کو مٹا کر ایک ایسا نظام فراہم کرتا ہے، جو اس عدم استحکام سے پاک ہے، جو سود اور متبدّل پر مبنی نظام میں بنیادی طور پر پایا جاتا ہے۔
[اگلی قسط میں ہم بتائیں گے کہ کس طرح یہ عدم استحکام ایک بار پھر دنیا کے مالیاتی نظام کو تہہ و بالا کرنے والا ہے۔]