اس مضمون کے پہلے حصے (عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۲۲ء)میں ’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی اُن شقوں کا تجزیہ پیش کیا گیا تھا،جو بنیادی مالیاتی امور اور حکومتی میزانیہ یا بجٹ سے متعلق ہیں، اور جن کا مربوط ذکر ایک ساتھ وارد ہوا ہے۔ لیکن آئین میں دو او ر شقیں ایسی ہیں، جن کا مالیاتی اُمور سے گہرا تعلق ہے، اگرچہ اِن کا بیان آئین کے ایک دوسرے باب میں کیا گیا ہے۔ یہ شقیں ۱۶۰ اور ۱۶۱ ہیں۔ پہلی شق حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ وفاقی مجتمع کھاتے کی ضمانت پر قرضے حاصل کرسکتی ہے اور ضمانتیں بھی جاری کر سکتی ہے، اُن حدود کے اندر جو مجلس شوریٰ کے بنائے قانون میں درج ہوں۔ شق ۱۶۱، قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل، مدت اور اس کے وظائف کو بیان کرتی ہے۔ یہ کمیشن وفاق کی سطح پر حاصل کیے گئے وسائل کی وفاق اور صوبوں کے درمیان ان کی تقسیم کے لیے سفارشات بتاتا ہے۔
ہم یہاں پر اپنی گفتگو شق ۱۶۰ پر مرکوز رکھیں گے، کیونکہ اس کے اثرات معیشت کے اوپر بہت گہرے ہیں۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے ایک اہم حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے، جس کو مدنظر رکھنا، آگے آنے والی گفتگو کو سہل بنا دے گا۔ وہ یہ ہے کہ قومی قرضہ سال بہ سال بجٹ کا جو خسارہ ہے اس کی جمع ہے۔ لہٰذا قومی قرضہ ہمیں اس مقدار کی نشاندہی کرتا ہے، جو مجموعی طور پر ہم نے اپنے ذاتی وسائل سے زیادہ اخراجات کرنے کی وجہ سے پیدا کیا ہے اور جس پر سود کی ادائیگی ہمارے بجٹ کا سب زیادہ بڑا خرچہ ہے جو اس وقت دفاعی اخراجات سے دُگنا ہے۔ یہ اتنا بڑا بوجھ بن گیا ہے، جو نہ صرف اٹھانا مشکل ہے بلکہ اس کی وجہ سے معیشت کے اُوپر سخت بُرے اثرات پڑتے ہیں اور وہ مزید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب حکومت ہر سال اتنے قرضے مارکیٹ سے اٹھائے گی تو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے ضروری وسائل نہ صرف کم ہوں گے بلکہ ان کی لاگت، یعنی شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا اور یوں ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول خرابی کا شکار ہوجائے گا، جیسا کہ فی الوقت ہورہا ہے۔
علاوہ ازیں اس شق کو جس انداز میں استعمال کیا گیا ہے، وہ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی اصل جڑ ہے۔ دستوری طور پر بجٹ کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ اخراجات کی منظوری کے ساتھ ہی اس کے لیے ضروری وسائل کی صراحتاً منظوری حاصل کرے۔ جس کی وجہ سے حکومت آزاد ہوتی ہے کہ وہ وسائل سے زیادہ اخراجات کرے اور اضافی وسائل یا بجٹ کا خسارہ قرضہ لے کر پورا کر لے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو درحقیقت ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے۔ آئین جس طرح ٹیکس کے حصول کے لیے سخت پابندی لگاتا ہے، ویسی سختی قرض کے حصول میں نہیں پائی جاتی۔ ہم نے یہ بات بھی واضح کی تھی کہ سارے محصولات اور قرضے سے حاصل کی گئی رقوم مجتمع کھاتےمیں جمع کیے جاتے ہیں اور کیونکہ کھاتے میں موجود روپوں کا یہ تعین نہیں ہوسکتا کہ وہ ٹیکس سے یا قرض سے حاصل ہوئے ہیں، لہٰذا خرچ کرتے وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ٹیکس کا پیسہ ہے یا قرض کا؟
اس تناظر میں یہ واضح ہے کہ آئین نے حکومت کو یہ کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس قدر بھی اخراجات کرنا چاہتی ہے کرسکتی ہے، جس کا بڑا ذریعہ قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ آئین نے یہ بھی کہا ہے کہ قرضوں کو اس حد کے اندر رکھا جائے گا، جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں طے کی گئی ہو۔ یہ قانون ۵۸ سال کے بعد بالآخر ۲۰۰۵ء میں بنایا گیا، جس کا عنوان ہے: ’مالیاتی ذمہ داری اور تحدید قرضہ ایکٹ۲۰۰۵ ‘ (Fiscal Responsibility and Debt limitation Act 2005) ۔ اس میں اہم ترین شق یہ تھی کہ قومی قرضہ بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی ۶۰ فی صد سے زیادہ نہیں دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے سامنے ایک بیان رکھے گا، جس میں اس حد سے نکلنے کی وجوہ بتائی جائیں گی اور وہ عرصہ بھی بتایا جائے گا، جس میں جلد از جلد قرضے کو متعین حد کے اندر واپس لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس قانون میں یہ بھی ذمہ داری حکومت پر رکھی کہ وہ دو رپورٹیں بھی پارلیمنٹ کے سامنے رکھے: ایک مالیاتی امور سے متعلق اور دوسری قرضے کی حالت پر اور ان دونوں میں حکومت کی پالیسیوں کا بیان ہوگا۔
یہ قانون کچھ عرصے تک بخوبی چلتا رہا کیونکہ صدر مشرف صاحب اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورِ حکومت میں مالیاتی نظام نسبتاً منظم تھا اور نائن الیون کے بعد وسائل کی فراوانی بھی تھی۔ لیکن بعد ازاں اس میں بگاڑ پیدا ہوگیا ،لہٰذا اس قانون کا توڑنا معمول بن گیا۔ پھر ایک اور عجیب معاملہ سامنے آیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام کامیابی سے پائے تکمیل کو پہنچ رہا تھا، ایک نئی شرط متعارف کرائی گئی، جس میں قومی قرضے کی حد کو ۶۰ فی صد بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی سے کم کرکے ۵۰ فی صد پر کرنا تھا۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کے ضرورت تھی، جو کردی گئی۔ یہ کم تر حد ۱۵ سال کے عرصے میں حاصل کرنی تھی۔ اب یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک ۶۰فی صد کی حد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اور اس کے برعکس اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ۔ اس وقت ملکی قرضہ ۱۰۰ فی صد کے قریب ہوتا، لیکن جنوری میں مجموعی قومی پیداوار کا اَز سر نو اندازہ لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے سال کے شروع میں ۵۳ ٹریلین کی قومی پیداوار ۶۷ ٹریلین ہوگئی، جو کہ ۲۶فی صد اضافہ ہے۔ جس سے اس نسبت میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ ۷۰ فی صد کے اطراف میں ہے اور ہر دو نسبتوں، یعنی ۶۰ اور ۵۰ سے بہت زیادہ ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے زبردستی اس حد کو کم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے، سوائے اس کے کہ پاکستان کی کارکردگی مزید خراب نظر آئے۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ آج بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل کررہا ہے اور اس کے اہداف میں کہیں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ اس حد کے اندر رہا جائے اور کم تر حد کی طرف پیش رفت کی جائے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے گذشتہ پانچ برسوں (جن کی مکمل معلومات موجود ہیں) میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مجموعی بجٹوں میں موجود قرضوں کے تناسب کا جائزہ لیا ہے۔ ۲۰۱۶ء تا ۲۰۲۱ء کہ پانچ برسوں میں اوسطاً ۳۰ فی صد اخراجات قرضوں کے ذریعے پورے کیے گئے ہیں۔ کئی برسوں میں یہ تناسب ۴۰ فی صد تک رہا ہے۔ کیونکہ صوبے خود کو اپنے وسائل کے اندر رکھتے ہیں۔ لہٰذا، اگر ہم یہ تجزیہ وفاقی حکومت تک محدود رکھیں تو یہ تناسب ۵۳ فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں بجٹ کے خسارے میں اضافہ اور روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کی وجہ سے (جس سے بیرونی قرضے کی مالیت میں اضافہ ہوجاتا ہے) قومی قرضے میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو قرضے کی مالیت ۲۵ ٹریلین تھی، وہ اس مارچ ۲۰۲۲ء تک ۴۵ ٹریلین تک پہنچ گیا ہے، جو قرضےکی مالیت میں ۸۰ فی صد اضافہ ہے۔
ایک عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ حکومتی عمال اکثر اس خبط میں مبتلا ہوتے ہیں کہ قرضے کی موجودگی میں خرچہ کرنا مفت کے مترادف ہے، خصوصاً جب یہ بیرونی قرضے کا معاملہ ہو۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ قرضہ ہو یا ٹیکس کی آمدنی، ہر دو صورتوں میں خرچہ اخراجات کو بڑھاتا ہے اور قومی قرضہ میں شامل ہوکر اس کی واپسی اور سووکی ادائیگی کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اس طرح اگلی نسلوں کے لیے ہم بھاری ذمہ داری چھوڑ جاتے ہیں، جس کے بہرحال وہ ذمہ دار تو نہیں ہوتے، مگر ان کو جبری طور پر یہ بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔
ملک کے مالیاتی نظام کی جو بدحالی ہم نے پہلے حصے میں بیان کی ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرضوں میں اضافے کی رفتار میں تیزی آئے گی اور بجٹ میں سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی بڑھتا جائے گا۔ خصوصاً جب شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جیسا کے حال میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اس شرح کو ۱۵ فی صد تک بڑھا دیا ہے۔ اگر یہ کم از کم سود کی شرح ہوگی تو نجی شعبے کو سرمایہ ۲۰ فی صد پر مشکل سے حاصل ہوگا، اور وہ اس شرح پر سرمایہ حاصل کرکے کسی ایسے منافع بخش کاروبار میں نہیں لگا سکتا جو ۲۰ فی صد سے زیادہ منافع کماسکے۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تحدید قرضہ کا قانون اس قابل نہیں رہا کہ وہ قرضے میں اضافے کو محدود کر سکے۔ ہمیں بہ حیثیت قوم اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی معیشت کو مقروض کرکے ترقی دینا چاہتے ہیں یا کم ترقی ہم کو قبول ہے؟ لیکن اس کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا ضروری ہے۔ قرض ہماری معاشی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔ ایک اسلامی اور ایٹمی قوت اپنی معاشی خود مختاری کو کمزور کرکے اپنی اسلامی اور ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
غالب نے ایک موقع پر کہا تھا ع ’’میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘۔ پاکستانی معیشت کی بنیاد میں بھی ایک خرابی آئینی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ اس خرابی کو سمجھنے کے لیے ہمیں آئین پاکستان کی ان شقوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو ملک کے مالیاتی امور کو بیان کرتی ہیں۔
آئینِ پاکستان ہمیں دو طرح کی قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ ایک قانون سازی وہ ہے جو کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے اور دوسری قانون سازی وہ ہے جو صرف مالیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اس قانون سازی کو ’مالیاتی بل‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے، باقی تمام قانون سازی دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے شروع ہوسکتی ہے، اوردونوں سے اس کی منظوری کے بعد بل، قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جب کہ اختلاف کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس مسئلے کو حل کرتا ہے۔
اس کے برعکس ’مالیاتی بل‘ کی منظوری کا کام براہِ راست منتخب عوامی نمایندوں، یعنی ارکانِ قومی اسمبلی ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے،اور یہ منظوری دینا انھی کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی بل کو ’مالیاتی بل‘ قرار دینے یا قرار نہ دینے کا اختیار صرف اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے، جسے نہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ صدرِ مملکت اس میں کوئی دخل دے سکتے ہیں۔ آئین کے اندر یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کون سے معاملات اس اختیار میں آتے ہیں۔ یہاں ہم ان آرٹیکلوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں:
آرٹیکل ۷۷ یہ پابندی لگاتا ہے کہ کوئی بھی ٹیکس صرف اور صرف قومی اسمبلی کی منظوری اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے تحت لگایا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل ۷۸ یہ کہتا ہے کہ تمام محصولات اور قرضوں سے حاصل شدہ اور ان سے واپس شدہ رقوم وفاقی مجتمع فنڈ (Federal Consolidated Fund) میں جمع کرائی جائیں گی اور دیگر رقوم ایک پبلک اکاونٹ میں جمع کرائی جائیں گی۔
آرٹیکل ۷۹ یہ پابندی لگاتا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اکاونٹس سے رقوم صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کے تحت لی جاسکتی ہیں۔ اور جب تک یہ قانون بنے تو صدر مملکت کی طرف سے بنائے گئے ضوابط کے تحت لی جاسکتی ہیں۔
آرٹیکل ۸۰ تا ۸۴ میں اس طریق کار کا تفصیلی بیان ہے، جس کے تحت بجٹ (میزانیہ) پیش کیا جائے گا اور قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ آرٹیکل ۸۰سب سے پہلے پابند کرتا ہے کہ وفاقی حکومت ہر مالی سال کے لیے ایک گوشوارہ ، جسے ’سالانہ بجٹ اعلامیہ‘ (Annaul Budget Statement) کہا جائے گا، اس میں صراحت سے یہ علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے گا کہ کون سے اخراجات ہیں، جو آئین پاکستان کے مطابق وفاقی مجتمع فنڈ پر charged (مطلوبہ) اخراجات ہیں اور کون سے ایسے نہیں ہیں۔
آرٹیکل ۸۱ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سے اخراجات ہیں جو ’مطلوبہ‘ کہلائیں گے: ا- صدرمملکت کی تنخواہ اور ان کے دفتر سے متعلق اخراجات؛ ۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات؛ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں اور اخراجات، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تنخواہیں اور اخراجات؛ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تنخواہ اور ان کے دفتر کے اخراجات؛ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قرضوں کی ادائیگی اور ان پر سود کی ادائیگی۔ اس تفریق میں اصل بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی چارجڈ ’اخراجات‘ پر بحث کر سکتی ہے، لیکن ان اخراجات پر ووٹنگ نہیں ہوگی، یعنی ان تجاویز پر کٹوتی کی تحریکیں نہیں لائی جا سکتیں۔ دیگر تمام اخراجات کی تجاویز قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی اور ہر تجویز پر کٹوتی کی تحریک بھی لائی جاسکتی ہے اور بحث کے بعد ان پر ووٹنگ کی جائے گی اور کثرت رائے سے منظور یا نا منظور کی جائے گی۔
تمام تجاویز کا اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وزیر اعظم اپنے دستخط کے ساتھ اخراجات کا ایک جدول قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اس میں شامل تمام اخراجات قومی اسمبلی سے منظور تصور کیے جائیں گے۔ مگر اس جدول پر اس کے بعد کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوگا۔
آرٹیکل ۸۴ وفاقی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی سہولت بھی ہے اور مالیاتی نظام میں بگاڑ کی بہت بڑی اور بنیادی وجہ بھی۔ اسمبلی سے منظور شدہ بجٹ میں حکومت تین تبدیلیاں کرسکتی ہے: lاوّل یہ کہ اگر کسی مد میں ضرورت سے کم بجٹ ہو اور دوسری مد ضرورت سے زائد ہو تو زائد بجٹ کو کم مد میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ lدوم یہ کہ اگر منظور شدہ خرچ سے زیادہ خرچ کرنا پڑے تو وہ ضمنی گرانٹ کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ lسوم، اگر کسی مد میں زیادہ اخراجات ہوجائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ عموماً اگلے مالی سال کے بجٹ کے ساتھ ایک اور بجٹ پیش ہوتا ہے، جس کو ضمنی بجٹ کہا جاتا ہے۔ اصل بجٹ کی منظوری کے بعد اس ضمنی بجٹ کو انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو آئین میں درج ہیں اور جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن بجٹ اجلاس کا یہ مرحلہ صرف ایک آئینی کارروائی کو مکمل کرنا ہوتا ہے ورنہ اصلی بجٹ میں جوممبران کی دلچسپی ہوتی ہے، اس موقعے پر بالکل مفقود نظرآتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو اس کا دفاع کرنے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔ کبھی کبھار یہ ضمنی بجٹ صرف گزرتے مالی سال کا نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے ہونے والے اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔
تو یہ ہے وہ آئینی فریم ورک، جو ہمارے پاکستانی مالیاتی نظام کا احاطہ کر رہا ہے۔ قارئین اس اہم بات کو مدنظر رکھیں کہ جس بجٹ کی قومی اسمبلی منظوری دیتی ہے، وہ صرف اخراجات تک محدود ہے۔ آمدنی کے اندازوں کو بیان ضرور کیا جاتا ہے، لیکن آئین کے تحت یہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ آمدنی کے ذرائع اور مقدار کی منظوری بھی لی جائے۔
بجٹ سیشن میں ایک اہم مرحلہ ’فنانس بل‘ کا پیش ہونا اور اس کی منظوری ہے، جس میں سینیٹ کی سفارشات بھی زیر غور آتی ہیں۔ یہ سلسلہ درحقیقت قومی اسمبلی کے اس اختیار کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ ٹیکسوں کو لگا سکتی اور ان میں رَد وبدل کرسکتی ہے۔
مندرجہ بالا بیان کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ حکومت آمدنی سے زیادہ اخراجات کرسکتی ہے، جس کو بجٹ خسارہ یا fiscal deficit کہتے ہیں۔ اس خسارے کو سال در سال اختیار کرتے چلے جانے سے قومی قرضہ وجود میں آتا ہے اور اس پر ادائیگیوں کا بوجھ اور شرح سود کا ردوبدل معیشت کے دوسرے شعبوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
بجٹ خسارہ اعداد و شمار میں شامل ہوتا ہے، لیکن کیونکہ یہ قومی اسمبلی کا منظور شدہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک عام طرز عمل ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر اور مختلف گوشواروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں اور عموماً اس کو کم از کم سطح پر بیان کرتے ہیں۔ اور پھر آرٹیکل ۸۴ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زائد اخراجات کرتے ہیں یا بجٹ میں آمدنی کے جو اندازے لگائے گئے ہیں، اس سے کم آمدنی (خصوصاً ٹیکسوں کی مد میں)حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں امکانات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ بڑھ جاتا ہے اور یوں قومی قرضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ہم نے گذشتہ پانچ سالوں کے اندر بجٹ میں بیان کردہ خسارے کا اندازہ بمقابلہ واقعی خسارے سے کیا ہے۔ تجزیہ بتاتا ہے کہ اوسطاً تقریباً واقعی خسارہ، بجٹ میں بیان کردہ خسارے سے قومی آمدنی کا کوئی دو فی صد زیادہ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ تفاوت اور بڑھ گیا ہے اور خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے قومی آمدنی کا اندازہ۶۷ ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔ اس کا ایک فی صد ۶۷۰ ارب روپے بنتا ہے اور دو فی صد ۱۳۴۰ ؍ارب روپے ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خسارے میں اضافہ کتنے بڑے پیمانے پر حکومتی اخراجات کا باعث بنتا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں نہ کوئی گفتگو ہوتی ہے اور نہ کوئی منظوری۔ انھی وجوہ سے قومی قرضہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اس سال جنوری میں قومی آمدنی کا نیا اندازہ (re-basing) لگایا گیا، جس کی وجہ سے تقریباً دس ٹریلین سے آمدنی بڑھ گئی اور جس کی وجہ سے قومی آمدنی کی نسبت خسارہ اور قومی قرضہ کچھ کم نظر آرہا ہے، لیکن اگر یہ اضافہ نہ ہوا ہو تا تو ہمارا قرضہ قومی آمدنی کا سو فی صد سے زائد ہوجاتا۔ لیکن اگر ہم اپنے مالیاتی اُمور اسی انداز سے چلاتے رہے تو بہت جلد اس زائد آمدنی کے باوجود ہم اس حد کو پار کرلیں گے۔
پاکستان کو بالآخر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) سے اُسی کی شرائط پر معاملہ کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کیا ہے؟ معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ اور ان کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ ان کو علمی اور معروضی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برادرم وقار مسعود نے نہایت سادہ اور عام فہم زبان اور معروضی انداز میں ان پہلوئوں کی وضاحت کی ہے اور معیشت کی اس زبوں حالی پر بھی مختصراً روشنی ڈالی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی ہے اور قوم کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں عام قاری کو صورتِ حال سمجھنے میں مدد ملے گی۔ البتہ یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ نئے عالمی سامراجی معاشی نظام کا حصہ ہیں۔ جہاں یہ ادارے متاثرہ ممالک کو ان کی معاشی مشکلات میں کچھ ریلیف اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہیں عالمی استحصال کے نظام کی گرفت بھی مضبوط تر بناتے ہیں۔اصل مسئلہ انصاف اور حقوق و فرائض کی مؤثر ادایگی کی ضمانت دینے والے ایک معاشی نظام کے قیام کا ہے اور ہم اس سے دُور کیے جارہے ہیں۔ ملک کی متوازن معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا انحصار ایک حقیقی اسلامی فلاحی معیشت اور ریاست کے قیام پر ہے ، صدافسوس اس کی طرف پیش قدمی دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔ پہلے بھی ۲۱معاہدے آئی ایم ایف سے ہوچکے ہیں۔ اب یہ بائیسواں معاہدہ وقتی ریلیف سے زیاد کیا اثرات ڈالے گا، اس پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ پھر یہ بھی غورطلب بات ہے کہ یہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں منی لانڈرنگ اور FATF کا ذکر ہے، جو خالص سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا بلاواسطہ کوئی تعلق آئی ایم ایف کے دائرۂ کار سے نہیں۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ (ادارہ)
مئی ۲۰۱۹ء میں حکومت اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی توثیق آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ کرےگا۔ امید ہے یہ پروگرام جون کے آخر تک قابلِ استفادہ (operational) ہوجائے گا۔ اس مضمون میں ہم اس پروگرام کا پس منظر، آئی ایم ایف کے طریق کار، پروگرام کے ممکنہ اہداف اور ان پر عمل درآمد سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔
نئی حکومت کی آمد کے ساتھ ایک گرم بحث اس پروگرام کے حوالے سے جاری تھی۔ ماہرین معاشیات کی ایک بڑی تعداد اس خیال کی حامل تھی کہ معیشت کی بگڑتی صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ:’’پاکستان فوراً آئی ایم ایف سے رابط کرے اور جلد از جلد ایک پروگرام میں شامل ہوجائے‘‘۔ اس کے برخلاف حکومت کے لیڈر حضرات اپنی انتخابی مہم کے دوران کی جانی والی نعرہ بازیوں (rhetoric) کے اسیر بنے ہوئے تھے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے اور قرضوں پر چلنے والی معیشت کو بُرا بھلا کہتے رہتے تھے۔ حکومت کا بار سنبھالنے کے بعد اس کے بوجھ کی حقیقت کے لازمی تقاضوں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں انھیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی اور وقت کا بہائو تیزی سے گھائو لگا رہا تھا۔ اس ذہنی انتشار میں وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔ آئی ایم ایف سے گریز کی حکمت عملی پہلے انھیں دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کی طرف لے گئی۔جس سے کچھ عرصہ کے لیے معیشت کو لا حق دیوالیہ پن (default) کا خطرہ ٹل گیا۔ اس دوران معیشت انھی خطوط پر چلتی رہی جن پر وہ چلتی آرہی تھی۔ لہٰذا، یہ وسائل بھی استعمال ہوگئے اور ملک پھر دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچنے لگا۔
بالآخر حکومت کو احساس ہوا کہ خوف ناک معاشی دبائو سے نبٹنے کے لیے وہ صحیح راستے پر نہیں چل رہی اور دوسری مشکل یہ کہ اس کی معاشی ٹیم بھی مطلوبہ استعداد کی حامل نہیں ہے۔ بیچ منجدھار، حکومت نے بڑے پیمانے پر اس ٹیم میں تبدیلی کرکے نئے کھلاڑیوں کو شامل کردیا۔ جس انداز میں یہ تبدیلیاں کی گئیں اور بعد ازاں ان ساتھیوں کی جو درگت بنائی گئی اس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے پارٹی میں موجود گروہ بندی اور باہمی رقابت کا بھی کردار ہے۔مزید برآں یہ تبدیلی ایسے موقعے پر کی گئی، جب کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہورہے تھے۔ یوں یہ تبدیلی حکومتی ٹیم میں انتشار اور افتراق کی عکاسی کررہی تھی۔ مذاکرات میں شامل ہونے والی ٹیم کس قدر اس نئے پروگرام سے متفق ہے اور کس وابستگی کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوگی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
قبل اس کے ہم آئی ایف پروگرام کا جائزہ لیں یہ ضروری ہے کہ اس ادارے کا مختصراً تعارف پیش کیا جائے۔ آئی ایم ایف درحقیقت امداد باہمی کے اصول پر وجود میں آنے والا ایک ادارہ ہے۔ اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹-۱۹۴۵ء)کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس کو قائم کیا تھا۔ نئی دنیا میں جنگ سے بچنے اور معاشی ترقی کو باہمی تعاون سے فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے ایک پورے خاندان کو تشکیل دیا گیا۔ جس میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک شامل ہیں، وجود میں لایا گیا۔
آئی ایم ایف کا فرضِ منصبی یہ رکھا گیا کہ: ’’ممبر ممالک میں اگر بیرونی ادایگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو ان کی معاونت کی جائے کیونکہ ایک مربوط دنیا میں ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے معاشی عدم استحکام کی وبا پھوٹ سکتی ہے اور ساری دنیا کو اس کے بُرے اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف کا چارٹر اس کو یہ ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ :’’اگر کوئی ملک ایسی پریشانی میں درخواست کرتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے تو وہ یہ مدد فراہم کرے گا‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدد کا یہ سلسلہ ایک باقاعدہ پروگرام کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب مدد مانگی جائے تو آئی ایم ایف ان عوامل کا بغور جائزہ لے، جو اس صورتِ حال کو پیدا کرنے کا باعث بنے اور ان کی درستی اور اصلاح کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ مدد مانگنے والا اس کا پابند ہوگا کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جن نظریات پر مبنی ہے، وہ دنیا میں غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز نے جو سفارشات مرتب کی ہیں اور جن کو بورڈ آف گورنرز نے منظور کرلیا ہے، وہی اب پروگرام کو منظم کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک رکن ملک کو ان شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس مروجہ طریق کار کے تحت آئی ایم ایف یہ تصور کرتا ہے کہ: ’’بیرونی ادایگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کررہا ہوتا ہے اور ایک حد کے بعد اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس تفاوت کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور نہ اس کے لیے بیرونی ذرائع سے مزید قرضوں کے حصول کا کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس تصور کے بعد اصلاح کا ذریعہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یا تو فوری طور پر برآمدات کو بڑھایا جائے یا پھر درآمدات کی مانگ (ڈیمانڈ) کو کم کیا جائے۔ برآمدات کو بڑھانے کا عمل طویل المدت اور صبر آزما ہوتا ہے، جس کے اثرات فوری طور پر مرتب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کے لیے ملک میں نئی پیداواری صلاحیت کو شروع کرنا اور پھر بیرونی منڈیوں میں فوری کھپت کے مواقع تلاش کرنا فوراً ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں درآمدات کی مانگ کو کم کرنا نسبتاً آسان کام ہے، جو ان کی قیمت کو بڑھا کر کیا جاسکتا ہے، یعنی کسی حد تک شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کو کم کرکے (غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی )۔ علاوہ ازیں اس مانگ میں اس طرح بھی کمی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے اخراجات کو کم کیا جائے۔ درحقیقت بیرونی ادایگیوں کا خسارہ ، بجٹ کے خسارے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا خسارہ، جب کہ وہ ایک مناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر درآمدات کو بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہٰذا، اس کو قابو میں لا کر درآمدات کی مانگ کو کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
مختصر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دراصل: ’معیشت میں موجود وسائل سے بڑھی ہوئی مانگ یا اخراجات کو کم کرنے کا نسخہ ہے‘۔ یہ صورتِ حال مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو بجٹ خسارے کی وجہ سے ہے، جو محصولات میں کمی اور اخراجات کی زیادتی سے پیدا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے بجٹ کے علاوہ بھی معیشت میں قابل قدر اضافی مانگ کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائز زکی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، لیکن حکومت ان کے خسارے کو فوری طور پر اپنے بجٹ میں قبول نہیں کرتی ہے۔مزید برآں اس میں ایک بڑا تفاوت اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حکومت گیس، بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں کرتی جتنا کہ ان کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فرق کو بصورت مالی رعایت (subsidy) بجٹ سے ادانہیں کی جاتی، جس سے معیشت میں کم قیمتوں پر رسد تو فراہم ہوجاتی ہے، لیکن اس کی قیمت حکومت پر اُدھار رہ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یا تو قیمتوں کو حقیقی سطح پر رکھا جائے یا اس طرح کے معاملات کو شفاف طریقے سے بجٹ میں دکھایا جائے اور مالی نظم و ضبط کا بلا استثنا لحاظ رکھا جائے۔ دوسری جانب نجی شعبہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کا کردار خصوصاً اس حوالے سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ ملک میں شرح تبادلہ اس کی حقیقی قدر سے زائد رکھی ہوئی ہو۔ علاوہ ازیں یہ مانگ شرح مارک اپ کی کمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اس کمی کی وجہ سے قرضوں کی لاگت کم ہوتی ہے اور ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
یہ تو پروگرام کے تقاضے ہوگئے۔ اس کے ذریعے جو مدد حاصل ہوتی ہے اس کو بھی سمجھ لیا جائے۔ اپنی شرائط کی موجودگی میں آئی ایم ایف ملکی معیشت کا ایک تین سالہ خاکہ بناتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے وسائل کی کمی کا اندازہ لگاتا ہے، جس کو مالیاتی شگاف (Financing Gap) کہا جاتا ہے۔ اس کمی کو آئی ایم ایف اپنے اور اپنے ساتھی اداروں، یعنی عالمی بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ذریعے پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ ان بگڑے ہوئے معاشی حالات میں یہ مدد زرمبادلہ کی گرتی شکل کا بہرحال خاتمہ کردیتی ہے اور معیشت پر اعتبار قائم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو بالآخر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کا عمل شروع ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، جو ایسی نمو پیداوار کا باعث بنتا ہے جو قابل انحصار وسائل سے حاصل ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں ہم موجودہ پروگرام کے ممکنہ خدوخال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔اس پروگرام کے بڑے اہداف میں چار عناصر شامل ہوں گے:
زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے پروگرام یہ شرط عائد کرے گا کہ: ’’اسٹیٹ بنک، مارکیٹ سے زرمبادلہ خریدے‘‘ جو اس کی قیمت پر اثر انداز ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ بجٹ خسارے میں کمی، درآمدات میں مطلوبہ کمی فراہم کردے اور خریدنے کا عمل محدود رہے۔ پروگرام کی ایک شرط جس کا بڑا چرچا ہے وہ شرح تبادلہ کو آزاد چھوڑنے کا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ: ’’اسٹیٹ بنک پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا، جس میں روپے کی آزادانہ حرکت پر اثر انداز ہوا جائے، ما سواے اس کے کہ کوئی غیرمعمولی واقعات ہورہے ہوں اور نظم کو بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ ایک معقول شرط ہے، جو معیشت کو نظم و ضبط سے چلانے کے لیے ضروری ہے۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس پروگرام کے فوری طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی ،وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اس سال ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تمام مراعات اور چھوٹ جو حاصل ہیں اور خصوصاً وہ جو گذشتہ حکومت نے انفرادی ٹیکس گزاروں کو دی تھیں، واپس لینا پڑیں گی۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دوسری جانب سواے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے، کسی اور خرچے کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا، جب کہ آئی ایم ایف یہ تقاضا کررہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو قائم رکھا جائے اور دیگر کو کاٹا جائے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ ان مالی رعایتوں (سبسڈی) کا ہے، جو ریلوے ،بجلی، گیس، برآمدات وغیرہ پر دی جاری ہے، اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت کو بہت سے محکموں کو ختم کرنا پڑے گا۔ دفاتر کے دیگر اخراجات اور تزئین و آرایش کے خرچوں کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بنک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بنکوں اور قومی بچت کے ذرائع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی، جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا صورتِ حال ایک مخدوش و شکستہ معیشت کی عکاسی کررہی ہے۔ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔’پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘ کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں ۔ نئے مشیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ہماری گزارش ہوگی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے اس مخدوش و شکستہ صورتِ حال کو بلاکم و کاست بیان کردیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کی درستی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشکل ترین اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے لیے تیا ر ہوجائیں۔ اس میں شارٹ کٹ کی کوئی گنجایش باقی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور انھیں پارلیمنٹ کا تعاون ناگزیر طور پر لینا ہوگا۔ کیونکہ پروگرام میں کیے جانے والے اقدامات سے عوام سخت متاثر ہوں گے۔ لہٰذا، حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر قومی اتفاق راے ممکن نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی کسی قدر تشویش کا باعث ہے کہ پروگرام کے حصول کے موقعے پر ماضی میں جو گرم جوشی کا سماں ہوتا تھا، وہ اس دفعہ مفقود تھا۔ اسی طرح مارکیٹ نے بھی اس کا استقبال کسی مثبت ردعمل سے نہیں کیا ہے۔ وہ بے یقینی جو اس پروگرام کے بعد ختم ہوجانی تھی وہ ابھی تک باقی ہے۔ اس میں بڑا کردار معلومات کی کمی ہے۔ مشیر خزانہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک مختصر انٹرویو دیا اور آئی ایم ایف نے واشنگٹن سے ایک پریس ریلیز جاری کی، جو عمومی معلومات کی حامل تھی اور اس میں پروگرام کی جملہ تفصیلات موجود نہیں تھیں۔ عموماً ایسے موقعوں پر پریس کانفرنس کی جاتی ہے، جو ضروری معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پروگرام سے متعلق معلومات جلد از جلد عوام تک پہنچائی جائیں تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہو۔
آخری بات یہ ہے کہ اس پروگرام کی موجودگی میں یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ ہماری بگڑتی معاشی صورتِ حال سنبھل جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دل جمعی سے ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ کیوں کہ پروگرام کے حصول سے زیادہ مشکل کام اس کو لے کر آگے چلنا ہے، جو تین سال کی طویل مدت پر محیط ہے، اور جس میں ہر سہ ماہی میں ایک جائزہ لیا جائے گا جس کو پاس کرنا ضروری ہوگا۔ کیا یہ حکومت اتنا بڑا کام مستقل مزاجی سے کرسکے گی؟
اسلامی نظام میں سود کی بنیاد پر بنکنگ نہیں کی جاسکتی اور نہ فریکشنل ریزرو بنکنگ ہی کی کوئی گنجایش ہے۔ یہاں صرف امانتاً رقوم رکھوائی جاسکتی ہیں۔ اگر لوگ اپنی بچتوں پر منافع حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں سرمایہ کاری کھاتوں (Investment Accounts) کی سہولت ہوگی، جس کی بنیاد نفع و نقصان پر ہوگی۔ ایسے نظام میں عدم استحکام کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اثاثوں اور ذمہ داریوں کے درمیان شفاف طور پر برابری ہوتی اور اضطراب کے محرکات کا سدّباب ہوجاتا ہے۔
اس پس منظر میں اب ہم قارئین کو اس اُبھرتے بحران سے آگاہ کریں گے، جس کی پیش گوئی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کررہی ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز قرضوں کی مقدار میں بے تحاشا اضافہ ہے، جو اس سطح سے بہت زیادہ ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے پہلے تھی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: عالمی قرضہ کی سطح ۲۴۱ کھرب ڈالر پر پہنچ گئی ہے، جو دنیا کی مجموعی آمدنی (۷۷ کھرب ڈالر) کی نسبت سے ۳۱۵ فی صد سے زیادہ ہے۔ اس میں سے کارپوریٹ سیکٹر (یا غیر مالیاتی سیکٹر) کا حصہ ۱۸۶ کھرب ڈالر ہے۔ یہ سطح اس سے تقریباً دو گنی ہے جو پچھلے بحران کے موقعے پر تھی۔ اس قرضے کی تشکیل بھی ماضی کی طرز پر ہوئی ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی وزات خزانہ نے ریاست کے سارے خزانے اس نظام کو بچانے کے لیے وقف کردیے تھے۔ اس میں سب سے بڑی مدد مرکزی بنک نے کی تھی، جس نے قریباً صفر شرح سود پر معمولی نوعیت کی سکیورٹیرز کے عوض بڑی مقدار میں قرض جاری کیے جس سے ’مالیاتی خشک سالی‘ (Lack of Liquidity ) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ یہ کم شرح سود ماضی قریب تک جاری رہی۔
’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کے سینیر ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکڑ ڈیوڈ لپٹن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ’’قرضوں کی زیادتی اور کم شرح سود، مارکیٹ کے لیے بڑے خطرات کا باعث ہیں‘‘۔ دوسری طرف خود امریکا کا اپنا قرضہ ۲۱ کھرب ڈالر کو پہنچ گیا ہے، جو اس کی مجموعی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹرڈین کوٹس کا کہنا ہے کہ’’امریکی قرضے کی بڑھتی ہوئی سطح سے ہماری معاشی اور قومی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
ان خطرات میں اس وقت اضافہ کرنے کے لیے مزید عناصر میدان میں آگئے ہیں:
اوّل: مرکزی بنک نے شرح سود بڑھانا شروع کردی، جس سے مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو معیشت کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔ لیکن مرکزی بنک کا بورڈ اس قسم کے بیانات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ تو افراط زر یا قیمتوں میں اضافے کو روکنا چاہتا ہے، جو صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب اشیا کی مجموعی مانگ میں کمی واقع ہو جس کے لیے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بہرحال اس سے اُٹھنے والے خطرات کی نوعیت وہی ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران کا باعث بنے تھے۔ لیکن آج رہن بردار قرضوں کا سلسلہ تباہی کا باعث نہیں بنے گا۔ اس کا ذریعۂ انتقال کا معاملہ، شرح تبادلہ پر اس کے منفی اثرات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ شرح سود بڑھنے سے ڈالر کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی برآمدات کو شدید دھچکا لگا ہے اور اس کا تجارتی توازن مزید خراب ہوگیا ہے۔
دوم: یہ سب اس موقعے پر ہورہا ہے، جب امریکا نے چین کے ساتھ ایک نامعقول تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی توازن میں چین کی طرف جھکاؤ کا بہانہ بناکر امریکا نے چین سے آنے والی درآمدات پر ٹیرف نافذ کردیے ہیں، جو ’بین الاقوامی تجارتی تنظیم‘ (WTO) کے ضابطوں سے متصادم ہے۔
شرح سود میں اضافہ اور چین امریکا تجارتی جنگ ایسے حالات پیدا کررہے ہیں، جہاں عالمی معیشت کو انجانے خوف و خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور دنیا ایک نئے معاشی بحران کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بحران شرح تبادلہ میں ہیجانی ردوبدل کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اور اس کے ابتدائی اثرات ابھرتی معیشتوں کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں زبردست کمی کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ارجنٹائن، ترکی، برازیل، جنوبی افریقہ، بھارت اور روس کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں علی الترتیب ۱۰۷فی صد، ۶۱فی صد، ۲۲فی صد، ۱۵فی صد، ۱۴ فی صد اور ۱۴ فی صد گراوٹ آچکی تھی۔ ایران پر پابندیوں کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں حیران کن کمی کی وجہ سے ان ممالک کی شرح تبادلہ حالیہ دنوں میں کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں ترقی کی رفتار میں کمی بلکہ تنزلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
شرح تبادلہ میں اس بڑی کمی کی وجہ سے در حقیقت ان ملکوں میں ایک بحرانی کیفیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ سارے ممالک مغربی بنکوں کے مقروض ہیں اور ان کے قرضوں کی مالیت کا تعین ڈالر ($) یا یورو ( €€) میں ہوتا ہے۔ شرح تبادلہ میں اس قدر کمی کے باعث مقامی کرنسی میں ان کا بوجھ اسی تناسب سے بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا، قرضوں کی ایک خاطر خواہ مقدار اس قابل نہیں رہی کہ ان کے مقروض قرض کی ادایگیوں کو پورا کرسکیں، جس کا نتیجہ دیوالیہ پن کی طرف تیزی سے بڑھنا ہے۔
اگر یہ قرضے ناکارہ ہوجاتے ہیں تو مغربی بنکوں کو اس کے عوض اپنے سرمایے کو بڑھانا پڑے گا، جو ایک معاشی بدحالی کے دور میں بآسانی دوسرے سرمایہ کاروں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکی مرکزی بنک نے بھی آسان قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ، جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے نمٹنے کے لیے شروع کیا تھا، منقطع کردیا ہے، کیوںکہ وہ تو افراط زر سے نمٹنے کے لیے شرح سود کو متواتر بڑھا رہاہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مجموعی طلب کو کم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا، بنکوں کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ موجودہ اثاثوں میں سے مطلوبہ مالیت کا ایک حصہ فروخت کرکے اس سرمایے کو حاصل کریں۔ لیکن یہ فروخت ایک اضطراری اقدام ہوگا، کیونکہ یہ سرمایے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا جارہاہے نہ کہ کسی طے شدہ حکمت عملی کے تحت کاروباری تقاضوں کے مطابق۔ ان حالات میں اثاثوں کی وہ مالیت نہیں ملے گی، جو کتابوں میں درج کی گئی ہوگی۔ یوں یہ عمل بذاتِ خود ایک مزید نقصان اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ اس کےعوض سرمایے کو بڑھانے کا عمل شروع کرے گا۔ یہ سلسلہ بالآخر بنکوں کے دیوالیہ ہونے پر منتج ہوگا۔
دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار بنکوں کو جو ابتدائی طور پر نقصانات ہوئے ہیں، انھوں نے نقصانات کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی محدود ہے اور فی الحال اس سے کوئی اضطراب نہیں پھیلا ہے، جب کہ حکومتیں بھی اس عمل کو محدود رکھنے میں مدد کررہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں یہ نظام ’اُلٹے اہرام‘ پر مبنی ہے جہاں زر کا پھیلاؤ اس کی حقیقی مالیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کا انہدام اسی انداز میں ہوتا ہے جیسے ’اُلٹے اہرام‘ کا ہوگا۔
ایک اور ذریعہ جہاں سے بحران اُٹھ سکتا ہے، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں کمی ہے۔ چین اور امریکا میں چھڑنے والی حالیہ ٹیرف جنگ، جو کسی حد تک صدر ٹرمپ نے یورپ میں بھی پھیلادی ہے اور جو برطانیہ کی یورپی یونین سے نکلنے کے بعد مزید خراب ہوگی، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں نہ صرف کمی کا باعث ہوگی، بلکہ اس نے دیوار برلن کے انہدام سے شروع ہونے والی عالم گیریت (Globalization) کی تیز رفتار پیش قدمی کو روک دیا ہے۔ دنیا اب پھر ’قومیت‘ اور ’قومی ریاستوں‘ کے بت کی پوجا کرنے نکلی ہے، اور یورپ میں ایک بار پھر اس عفریت کے سیاہ بادل منڈلانے لگے ہیں۔
لیکن تجارت میں کمی سے مرتب ہونے والے اثرات کا سلسلہ بھی بالآخر مالی ترسیلات سے جڑا ہوا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے اُبھرتی معیشتوں میں ترقی یافتہ ممالک سے اوسطاً ایک کھرب ڈالر کی سالانہ سرمایہ کاری آئی ہے، جو ان ممالک کی آمدنی کا اندازاً ۵۰ فی صد ہے اور جس کی بنیادی وجہ مرکزی بنکوں کی ضرورت کے مطابق آسان مالیاتی پالیسی رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان اور چین کے بنک اس کام میں سرگرم ہیں۔ لہٰذا ،تجارت کی کمی سے بھی اس بحران کے امکانات میں ابھرتی معیشتوں پر پڑنے والے منفی اثرات سے مزید اضافہ ہوگا۔
بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں، جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس وقت عالمی قرضہ عالمی آمدنی کا ۳۰۷ فی صد ہوگیا ہے، اور یہ سطح ۲۰۰۸ءکے بحران سے دو گنا زیادہ ہے۔ لیکن ماہرین کو اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر نیا بحران آتا ہے، تو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کون سا ہتھیار استعمال کیا جائے گا؟ کیوںکہ ماضی میں تو مرکزی بنک اور وزرات خزانہ نے تقریباً صفر شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ( Quantative Easing )شروع کیا تھا، جو اَب منقطع ہوچکا ہے اور اس کی وجہ افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے۔ لہٰذا، اس کو دوبارہ شروع کریں گے تو انجامِ کار ایک نئی مصیبت درآئے گی۔
دوسری جانب اُبھرتی معیشتوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر، جس میں شرح تبادلہ کی گراوٹ بھی شامل ہے، بنکوں کے پاس موجود ’بیماری زدہ قرضوں‘ کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان قرضوں کی تنظیم نو (restructuring ) ناگزیر ہوگئی ہے، لیکن اس کے لیے دست یاب وسائل ناکافی ہیں، کیوںکہ ان معیشتوں میں مالیاتی اور بیرونی ادایگیوں کے توازن پہلے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ اس تنظیم نو کے لیے وسائل مہیا کرنے سے یہ توازن مزید بگڑ جائیں گے۔ لہٰذا، عافیت اسی میں ہے کہ فی الحال اسے التوا میں رکھا جائے۔ ان معیشتوں کو تیل کی قیمتوں سے بھی شدید خدشات لاحق ہیں، جو حالیہ دنوں میں کچھ کم ہوگئے ہیں۔
اس بحران کے پاکستان جیسی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟ مختصراً ہم یہ عرض کریں گے کہ پاکستان نسبتاً اس بحران کے بھنور میں نہیں ہوگا (ہم بدقسمتی سے پہلے ہی دہشت گردی کے طوفان میں دو عشروں سے پِس رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں پر بیرونی سرمایہ کاری کا فقدان رہا ہے)۔ اس مالیاتی بحران کے پاکستان پر محدود اثرات ہوں گے، کیوںکہ ہم دنیا کے مالیاتی نظام میں کسی قابل ذکر مقام کے حامل نہیں ہیں۔ یہاں بیرونی سرمایہ بہت محدود مقدار میں آیا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں تو جو آیا تھا اس کا بڑا حصہ گذشتہ دو برسوں کے دوران واپس جا چکا ہے۔ ہم نے کچھ بانڈز اور سکوک فروخت کیے ہیں، جن کی مالیت میں بڑی گراوٹ آچکی ہے کیونکہ ہماری اقتصادی پالیسیاں اس دوران زبردست بگاڑ کا شکار رہی ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے ان میں دل چسپی لینا چھوڑ دی ہے۔
ہمیں سب سے بڑا خطرہ تیل کی قیمت سے ہے، جس کے بُرے اثرات پہلے ہی مرتب ہورہے ہیں۔ خوش قسمتی سے تیل کی مارکیٹ میں قیمتوں میں حالیہ گراوٹ کچھ ڈھارس بندھا رہی ہے، لیکن اس کی پاےداری مشتبہ ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیندہ یہ قیمت کس سمت میں سفر کرے گی۔ ایک دوسرا خطرہ جو ہمارے سر پر کھڑا ہے وہ ایک ارب ڈالر کے پانچ سالہ بانڈز اور سکوک ہیں، جن کا اجرا اپریل ۲۰۱۴ء میں ہوا تھا اور جو اس سال اپریل میں ادا کرنا ہوںگے۔ عموماً ان بانڈز کو ادا کرنے کے لیے نئے بانڈز جاری کردیے جاتے ہیں، جب کہ سرمایہ دار بھی اس طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن آج ہماری معیشت جس مخدوش حالت سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام اور اس کی طرف سے جاری شدہ ’صحت مندی کا سرٹیفکیٹ‘ بھی ہمارے پاس نہیں ہے، تو ہمیں اس عمل میں دشواری کا سامنا ضرور ہوگا، خصوصاً ایسے موقعے پر جب عالمی بحران کے آثار نمایاں ہورہے ہوں۔
اسی طرح بحران کا ایک دوسرا امکان دیکھیے: ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان عوامل کا امتزاج ابھرتی معیشتوں سے ہٹ کر خود امریکا کے اپنے اندر سے پیدا ہوگا۔ ریمنڈ ڈالیو، جو ایک ارب ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہیں، ان کی شہرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ممتاز فنڈ مینیجر ہیں جو دنیا کے ۱۰۰ امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ۲۰۰۸ء کے بحران کی قبل از وقت پیش گوئی کردی تھی۔
ڈالیو نے حال میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ:’’ امریکا ایک بڑے مالی بحران سے دو سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کرے گا کیوںکہ امریکا اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا، جب کہ اس کی عالمی مانگ میں زبردست کمی ہونے والی ہے‘‘۔ جب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہو تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں گرنی شروع ہوجائے گی۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکا میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائے گا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Power Parity) کا قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔
یہ سب کچھ کیوںکر ہوگا؟ گذشتہ سال صدر ٹرمپ نے ٹیکسوں میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس چھوٹ (tax cut) کا اعلان کیا تھا۔ اس چھوٹ سے ٹیکس دہندگان کو آیندہ دس سال میں ۵ء۵ کھرب ڈالر یا، کچھ اور اندازوں کے مطابق، اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ چھوٹ بجٹ خسارے کا باعث بنے گی۔ ان مراعات کے عوض صدر ٹرمپ نے ایسی کوئی تجاویز نہیں دیں جو بجٹ کے اس خسارے کو پورا کردیں۔ ان کی پارٹی کا موقف یہ رہاہے کہ ٹیکسوں کی کٹوتی سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی، جس سے ترقی ہوگی، جو بالآخر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہوگی۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ سے ہونے والی بچت اس قدر معاشی ترقی کو فروغ نہیں دے گی کہ اس سے ہونے والی ٹیکسوں کی آمدنی میں اتنا اضافہ ہو، جو نقصان کو پورا کردے۔ ایک ایسے ٹیکس نظام میں جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہو کہ ایک متمول ٹیکس گزار اپنی بڑھتی آمدنی کا ایک بڑھتا حصہ بصورت ٹیکس ادا کرے گا،جب کہ ٹیکسوں کی آمدنی عوامی فلاح و بہبود پر لگائی جائے گی، وہاں اتنی بڑی چھوٹ متمول ٹیکس گزاروں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی اور ملک میں تقسیم دولت کو ان کے حق میں کردے گی۔
ڈالیو کو یہ بھی کہنا ہے کہ: صدر ٹرمپ کی دی ہوئی ٹیکس چھوٹ کے اثرات ۱۸ مہینوں میں زائل ہوجائیں گے، جب کہ سوشل سیکیورٹی اور پنشن کی بڑھتی ذمہ داریوں کے سامنے ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہوگی۔ دوسری جانب شرح سود میں اضافہ ہونے سے مجموعی قرضے اور اس پر سود کی ادایگی میں اضافہ ہوگا اور یوں بجٹ کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ جائے گا (واضح رہے کہ امریکا کا مجموعی قرضہ پہلے ہی اس کی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہوچکا ہے)۔ ایسی صورت میں ترقی کے عمل میں زبردست کمی واقع ہوگی۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’حکومت کو بڑی مقدار میں بانڈز فروخت کرنا پڑیں گے اور امریکی عوام اتنی بڑی مقدار میں بانڈز نہیں خرید سکتے۔ لہٰذا مرکزی بنک کو (بانڈز خریدنے کے لیے) نوٹ چھاپنا پڑیں گے تاکہ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن یہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کا باعث ہوگا‘‘۔
در حقیقت یہ ایک بڑا خوف ناک منظرنامہ ہے۔ جس بات کا ذکر یہاں ڈالیو نے نہیں کیا وہ یہ ہے کہ نہ صرف امریکی عوام بانڈز نہیں خرید سکیں گے بلکہ دنیا میں امریکا کے بانڈز کے خریدار بھی نہیں ہوں گے۔ جس کی وجہ سے مرکزی بنک کو نوٹ چھاپ کر حکومت کو قرضے دینے پڑیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی ریزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کرے گا۔ لیکن جب ۱۹۷۱ء میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور ’ڈالر سونا تبادلے‘ کا وعدہ ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا، کیوںکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بنکوں میں رکھنا محفوظ تصور کیا ہے۔ اشتراکی روس کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی مزید خطرہ باقی نہ رہا۔ دیوار برلن کے انہدام اورعالم گیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو چار چاند لگا دیے۔
لیکن گذشتہ دو عشروں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے، جب کہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکا کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ پھر یورپ نے بھی خود کو امریکا سے دُور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔
اس پس منظر میں ڈالیوکا کہنا ہے کہ: ’’انھیں دو باتوں کا خوف ہے: ایک یہ کہ دولت کی تقسیم میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی موجودگی سے معاشرے میں تناؤ بڑھ گیا ہے، لہٰذا اگلا بحران ۲۰۰۸ءکے مقابلے میں ایک بڑے سماجی تصادم کا باعث بنے گا۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں کے پاس بحران سے نمٹنے کے لیے کم طریقے اور محدود اختیارات ہوں گے کیوںکہ شرح سود ابھی بھی کم ہے، لہٰذا ماضی کی طرح کوئی حل بھی میسر نہیں ہوگا‘‘۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’وہ پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ’کاروباری چکر‘ (Business Cycle) ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ قرضوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ ’کاروباری چکّر ‘میں جب سمٹنے یا مندی کا مرحلہ آتا ہے تو دیوالیہ پن ہر طرف پھیلنے لگتا ہے اور مالیاتی ادارے ڈوبنے لگتے ہیں‘‘۔ ایسے موقعوں پر مجموعی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کی کوششیں جیساکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیکس کی چھوٹ دے کر کیا ہے وہ ناگزیر نتائج کو مؤخر ضرور کرتے ہیں، لیکن آخرکار ابتری کا باعث ہوتے ہیں۔
ڈالیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ: ’’قرضوں کا بحران کیا اثرات مرتب کرے گا؟ اس کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے کیا طریق کار اپنایا جارہا ہے؟‘‘ انھوں نے تجویز دی ہے کہ: ’’اگلے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، جس میں ایک صدارتی کونسل قائم کی جائے، جو صدر، اسپیکر، سینیٹ کے قائد اکثریت اور مرکزی بنک کے چیئرمین پر مشتمل ہو اور جس کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لیے مکمل اختیارات ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ قانونی ڈھانچا آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ گنجایش فراہم نہیں کرتا‘‘۔
اس بحث کے اختتام پر ہم چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیساکہ کہہ چکے ہیں کہ قرض کا معاہدہ اپنی تعمیر میں ایک خرابی کا باعث ہے اور اس سے بہر صورت تباہ کن نتائج مرتب ہوتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں سرمایہ داری کا نظام بھی اپنے اندر خرابیِ صورت کا حامل ہے۔ جب تک معاشرے میں باہمی اعتماد، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے احساسات پیدا نہیں ہوں گے، انسانی معاشرہ جنگل کے مناظر پیش کرتا رہے گا۔ ترقی کی ہوس، ذاتی منفعت کی فوقیت، غیر ضروری مقابلے کا رجحان، اجارہ داری کے حصول کی کوششیں، اور کمزوروں کو دبانے کی تیزخواہش وہ شیطانی جذبے اور محرکات ہیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ نہیں بنائیں گے اور بد امنی، جنگیں اور معاشی بحران وقتاً فوقتاً دنیا کو بے چین رکھیں گے۔
گذشتہ تین عشروں کے دوران میں عالمی معاشی نظام وقفہ وقفہ سے بحران کا شکار ہوتا رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا بحران ۲۰ویں صدی کے شروع میں آیا تھا، جس نے دنیا کی تقریباً تمام معیشتوں کو بے پناہ مصیبتوں سے دوچار کردیا تھا۔ دو عالمی جنگوں نے بھی اس بحرانی کیفیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ان جنگوں کے بعد دنیا میں معاشی استحکام اور ترقی کا ایک طویل دور بھی آیا، جہاں کوئی بڑا بحران پیدا نہیں ہوا، اور دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ترقی کے ثمرات سے فیض یاب ہوا۔
اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ معاشی بحران کیوںکر پیدا ہوتے ہیں اور، چند بڑے بحرانوں کا تذکرہ کرکے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ماہرین کی راے میں اگلا بحران کب متوقع ہے؟ علاوہ ازیں پاکستان جیسے ملک پراس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
ان بحرانوں کی اصل وجہ مالی نظام اور اس سے وابستہ محرکات ہیں، جو احساسات اور نفسیات سے ترکیب پاتے ہیں۔ اس مالی نظام کی تنظیم ایسے عناصر پر مبنی ہے جو ’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘ کے مصداق مکروہ ترغیبات دے کر، اس میں ناگزیرعدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ جدید معاشی نظام ایک ایسے نظامِ زر پر مبنی ہے، جہاں زر کی رسد اور پھیلاؤ پر کسی مقتدر ریاستی ادارے کو مکمل اختیار حاصل نہیں ہے۔ بظاہر زر [یعنی نوٹوں]کی اشاعت مرکزی بنک ایک قانون کے تحت کرتا ہے۔ لیکن ایک مخصوص شائع شدہ مقدار جاری ہونے کے بعد جب وہ رسد کسی کے ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کو بنک میں رکھواتا ہے۔
اب بنکنگ نظام کی تنظیم ایسی ہے کہ وہ بھی اس زر کے پھیلاؤ کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے ۔ بنک اس بات کے پابند نہیں ہوتے کہ وہ جمع شدہ رقم (deposits) کے سامنے اسی مقدار میں ریزروز (تحفیظ) رکھیں، بلکہ صرف ایک حصہ، مثلاً ۲۰فی صد ریزرو نقد کی صورت یا مرکزی بنک میں ڈپازٹ کی شکل میں رکھنا ہوتا ہے۔ باقی رقم کے معاملے میں بنک آزاد ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے گاہک کو قرض کی صورت میں یا کچھ صورتوں میں شراکتی سطح پر کسی کاروبار میں لگانے کے لیے دے دے اور اس سے منافع کمائے۔ یہ عمل تواتر سے ظہور پذیر ہوتا ہے کیونکہ اس قرضہ کی رقم کو بھی بالآخر کسی دوسرے بنک ہی میں جمع کرایا جاتا ہے اور پھر ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس نظام کو فریکشنل ریزرو بنکنگ (Fractional Reserves Banking) کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مرکزی بنک کی طرف سے ایک مقدار میں شائع کی ہوئی رسدِ زر بالآخر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
بظاہر یہ ایک سود مند عمل نظر آتا ہے کیونکہ زر کے اس اضافی پھیلاؤ سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے کھاتہ دار، بنک اور سرمایہ دار سب مستفید ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ نتیجہ اس وقت تک درست ہے، جب تک معیشت میں غیر استعمال شدہ پیداواری صلاحیت موجود ہے اور یہ اضافی رسدِ زر ثمرآور معاشی عمل میں لگائی جارہی ہو۔ لیکن اس کے بیچ میں وہ مکروہ ترغیبات دَر آتی ہیں، جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا۔ بنک کی آمدنی قرضوں کے اجرا سے منسلک ہے، لہٰذا بنک ان کی مقدار بڑھانے کے لیےبے چین رہتا ہے۔ اس عمل میں بسا اوقات وہ دانش مندی کا دامن چھوڑ کر حرص کا شکار ہوجاتا ہے، اور پھر مطلوبہ معیار پر پورا نہ اُترنے والے گاہکوں کو بھی قرض دینا شروع کردیتا ہے جو اہل نہیں ہوتے، یا جہاں خطرات کی نوعیت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاتا یا اس سے جان بوجھ کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کوتاہی کے تباہ کن اثرات اس وقت عیاں ہوتے ہیں، جب کاروباری چکر (business cycle) میں مندی کا مرحلہ پیش آتا ہے۔
اس موقعے پر کاروبار کمزور پڑتا ہے، مقروض قرض کی ادایگی نہیں کر پاتا اور بنک قرض کی عدم وصولی کی وجہ سے یا تو اپنے سرمایے کو استعمال کرتا ہے، جو کہ بنک کے اثاثوں کا بمشکل ۱۰سے ۱۵ فی صد ہوتا ہے، یا پھر وہ خود دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ اس بکھرنے کے عمل میں اس وقت شدت پیدا ہوجاتی ہے، جب کھاتے دار اپنی جمع شدہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ بنک کے پاس ریزرو صرف اتنے ہوتے ہیں کہ وہ روزہ مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ لہٰذا، کھاتے داروں کی ادایگیوں کے لیے وہ اپنے مقروضوں (debtors)سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ رقم واپس کردیں۔ لیکن مقروضوں کے پاس بھی رقم موجود نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو صرف اپنے ایسے اثاثے پیش کرسکتے ہیں جو قرٖض کی رقم سے بنائے گئے تھے اور قرضوں کے عوض رہن (mortgage) کے طور پر رکھوائے گئے تھے، لیکن اگر ان اثاثوں کو اضطراری حالت میں فروخت کیا جائے گا تو ان کی مالیت وہ نہیں ہوگی، جو حقیقی مالیت یا کتابوں میں درج مالیت کے برابر ہوتی ہے، لہٰذا یہ مالیت قرض کی ادایگی کو پورا نہیں کرسکے گی اور یوں ایک دیوالیہ پن کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ فریکشنل بنکنگ کا نظام زر کے پھیلاؤ کا ایک ’الٹا اہرام‘ (inverted pyramid) کھڑا کرتا ہے۔ جب یہ تار و پود بکھرتا ہے تو اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اُلٹے اہرام کی نوک ہی اصل سرمایہ ہوتی ہے اور اس پر کھڑی عمارت بے بنیاد ہوتی ہے۔
بد قسمتی سے بنکوں کو اس بات کی بھی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں۔ یہاں سٹہ بازی کی زبردست ترغیبیں ہوتی ہیں۔ سٹہ بازی، بنک کے اثاثوں کو پُرخطر بنادیتی ہے۔ جب اسٹاک مارکیٹ میں مندی آتی ہے تو ان اثاثوں کی مالیت میں زبردست کمی واقع ہوجاتی ہے، جس سے وہی عمل شروع ہوجاتا ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔
علاوہ ازیں شرح سود جو ہمیشہ متعین اور غیر متغیر ہوا کرتی تھی، اس میں ردوبدل اب معمول بن گیا ہے۔ تمام مرکزی بنک جب زر کی رسد میں کمی بیشی کرنا چاہتے ہیں تو وہ شرح سود کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ٹرژری بلز (Treasury Bills) اور بانڈز (Bonds) کی ہر دوہفتے اور ایک ماہ کے بعد نیلامی ہوتی ہے، جو زر کی رسد میں کمی بیشی کا طریقہ ہے، تو اس میں متعین ہونے والی شرح سود مارکیٹ پر لاگو ہوجاتی ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی اب متعین نہیں ہوتی بلکہ اس کو اسی نیلامی میں متعین ہونے والی شرح سے منسلک کردیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی بھی زر کی مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بنی ہے۔
ایک اور اہم عنصر جس نے اس نظام کو غیر مستحکم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، وہ سرمایے کی دنیا بھر میں آزادانہ اور برق رفتاری سے آمد و رفت ہے۔ اس برق رفتار اور تازہ دم سرمایے کا اصل ہدف وہ ممالک رہے ہیں، جن کی معیشتوں کو ابھرتی ہوئی مارکیٹیں (emerging markets) کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ جب صنعت و حرفت میں لگتا ہے تو اس کی آزادی محدود ہوجاتی ہے لیکن اگر یہ اسٹاک مارکیٹ میں لگا ہے یا قرضوں کی شکل میں آیا ہے، جیسا کہ یورو بانڈز وغیرہ تو اسے نکالنے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ عموماً سرمایہ ترقی یافتہ ممالک سے ابھرتی معیشتوں میں آرہا تھا، جو زیادہ تر ڈالر اور کچھ یورو میں ہوتا ہے۔ یہاں ڈالر اور مقامی کرنسی میں شرح تبادلہ اس سارے عمل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مقامی کرنسی کی شرح تبادلہ میں گراوٹ، جو اکثر ڈالر اور یورو کی مضبوطی کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ سرمایے کو واپسی کی طرف مائل کرتی ہے یا اگر قرضوں کی شکل میں ہے تو پھر مقامی کرنسی میں اس کی واپسی مشکل ہوجاتی ہے اور مقامی کاروبار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
۲۰۰۸ء کے شروع میں جرمنی میں ایک چھوٹے سے قصبے کے بلدیاتی ادارے کے ناظم کو اس کے اکاؤٹنٹ نے ایک دن خبر دی کہ ادارے نے جو ایک بانڈ میں سرمایہ کاری کی ہے اور جس سے مستقل آمدنی موصول ہوتی رہتی تھی وہ بنک میں نہیں آئی اور کافی عرصے سے وہ کوشش کررہا ہے کہ بنک یہ بات بتائے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، لیکن اسے کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا ہے ۔
یہ کہانی ۲۰۰۸ء کے عالمی بحران کا نقطۂ آغاز تھا۔ بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بڑے پیمانے پر قرض خواہان (creditors)،مقروضوں (debtors) سے اپنا اصل اور سود وصول نہ کرسکیں، یعنی مقروضوں کا دیوالیہ نکل گیا ہو۔ علاوہ ازیں اسٹاک مارکیٹ میں جو سٹہ کھیلا جاتا ہے اس میں بھی ایک عنصر دیوالیہ ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ عموماً لوگ مستقبل کے سودے کرتے ہیں جیسا یہ کہنا کہ:’’میں ایک ماہ کے بعد تمھیں فلاں کمپنی کے اتنے حصص (shares)، فلاں قیمت پر فروخت کروں گا‘‘۔ ایسا سودا کرنے کے لیے قانوناً یہ ضروری نہیں ہے (جیسا کہ اسلامی شریعت میں ضروری ہے) کہ سودا کرتے وقت حصص آپ کی ملکیت میں موجود ہوں۔ اب ایک ماہ بعد ہوسکتا ہے کہ قیمت اس سے مختلف ہو، جس پر سودا کیا گیا ہے۔ اگر کم ہوئی تو فروخت کرنے والے کو نفع ہوجائے گا اور اگر بڑھ گئی تو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور کبھی یہ نقصان اتنی بڑی مقدار میں ہوگا کہ فروخت کرنے والا اپنے دیوالیہ پن کا اعلان کردے گا۔
لیہمین برادرز دنیا کا ایک نام ور ترین سرمایہ کاری بنک تھا، جو ۱۵۰ سال کامیابی سے منافع بخش کام کرتا رہا اور اس کی قابلیت اور صلاحیتوں کی ایک دنیا معترف تھی۔ ا۲ ویں صدی کے آغاز میں اس بنک نے ایک ایسا کام شروع کردیا جو ماضی میں اس کی پہچان نہیں تھی: گھروں کے لیے رہن پر قرضے دینا۔ در حقیقت لیہمین وال اسٹریٹ کی اشرافیہ کا کلیدی رکن تھا اور یہ ادارے پرچون کا کاروبار نہیں کرتے بلکہ یہ تو پرچون والوں کا سامان زیب و زینت سے آراستہ کرکے بڑے سرمایہ کاروں کو بیچتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا وقت تھا جب امریکا میں شرح سود کم ترین تھی اور زر کی رسد بے پناہ تھی، کیونکہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک اپنے زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے ذخائر کم ترین شرح پر امریکی حکومت کے بانڈز خرید کر قرض کی شکل میں فراہم کر رہے تھے، جس سے دو جنگوں پر بڑھتے دفاعی اخراجات اٹھانے کے باوجود امریکا میں افراط زر قابو میں تھا۔ رہن بردار قرضہ نسبتاً محفوظ سمجھا جاتا ہے کیونکہ رہن کی مالیت عام طور پر قرض سے زیادہ ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے، لہٰذا ڈیفالٹ کی صورت میں رہن بیچ کر قرض وصول کرلیا جاتا ہے، بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جتنی مالیت رہن کی قرض ادایگی سے چھوٹتی رہتی ہے، اس کی جگہ بھی ایک اضافی قرضہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔
اس پُرکشش پرچون کاروبار کو شروع کرنے کے لیے لیہمین نے دو ایسے مالیاتی اداروں کو خرید لیا، جو رہن بردار قرضے جاری کرتے تھے ۔ لیہمین نے کم شرح پر ملنے والے قرضوں کی ایک بڑی مقدار کو حاصل کرکے ان سے اپنے ذیلی اداروں کے توسط سے رہن بردار قرضے جاری کرنے کا عمل تیز تر کردیا۔ یہ کیوںکہ سرمایہ کار بنک تھا، اس لیے ان اداروں کے جاری کردہ رہن بردار قرضوں کو ان سے خرید کر اور ان کو بنیاد بنا کر نئے بانڈز تشکیل دینے اور انھیں فروخت کرنے لگا، جن کی آمدنی ان خریداروں کو دیے گئے قرضوں پر ملنے والی سود کی ادایگی سے ہوتی تھی۔ یہ بانڈز ساری دنیا میں فروخت ہوتے تھے اور ان کی زبردست طلب ہوتی تھی۔ ایسا ہی بانڈ جرمنی کے اس چھوٹے بلدیاتی ادارے نے بھی خرید رکھا تھا اور اس پر ابتدا میں مسلسل آمدنی ہورہی تھی جو بعد ازاں منقطع ہوگئی۔
یہاں ذرا ٹھیر کر ہم اس عمل کو مزید سمجھ لیں۔ عموماً ہم ایک بنک سے قرضہ لیتے ہیں تو اس کی ایک طے شدہ برانچ ہوتی ہے جس سے ہمارا لین دین ہوتا ہے۔ امریکا میں بھی یہی نظام ہوتا تھا۔ لیکن قرض کے کاروبار میں پھیلاؤ کی خاطر نت نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو نے یہ ستم ڈھایا کہ عام صارفین کے قرضے بھی فروخت ہونے لگے۔ قرض کی قسطوں کی ادایگیوں کے لیے یہ ضروری نہیں رہا کہ وہ اسی برانچ میں داخل کی جائیں بلکہ اس کے لیے ایک ٹرسٹی کی تعیناتی ہوجاتی ہے، جو وصولیاں کرکے قرض خواہ کے رجسٹر میں درج تازہ ترین مالک کو یہ وصولیاں پہنچا دیتا ہے۔ جب لیہمین برادرز نے یہ قرضے خریدے تو ساتھ ہی یہ اہتمام بھی کرلیا کہ اب ٹرسٹی وصولیاں اس کو پہنچائے گا۔ پھر اس نے جس کو نو تشکیل شدہ بانڈز فروخت کیے ان کو بھی یہ سہولت مہیا کردی باوجودیہ کہ نیا بانڈ کئی قرضوں کے امتزاج سے نکلا ہوتا تھا۔ اس سارے عمل میں ایک عام صارف جس نے پہلے قرضہ لیا تھا اور ایک بانڈ ہولڈر جس نے لیہمین برادرز کا نو تشکیل شدہ بانڈ خریدا ہے، کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فلوریڈا کا رہایشی جس نے مقامی بنک سے رہن بردار قرض لیا تھا بالآخر اس کا قرض خواہ جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا بلدیاتی ادارہ بن گیا مگر ہر دو افراد ایک دوسرے سے مکمل لا تعلق ہیں۔
لیہمین کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ ۲۰۰۰ء میں شروع کیے گئے اس کاروبار میں ۲۰۰۳ء تک اس کے اثاثوں کی مالیت ۱۸ ؍ارب ڈالر ہوگئی تھی اور وہ امریکا میں رہن بردار قرضوں کو جاری کرنے والوں میں تیسرے نمبر پر آگیا۔ ۲۰۰۷ء کی آمد تک یہ کاروبار اس قدر پھیلا کے وہ ۵۰؍ ارب ڈالر کے قرضے ماہانہ جاری کررہا تھا۔ ۲۰۰۸ء میں اس کے اثاثوں کی مالیت ۶۸۰؍ارب ڈالر ہوگئی تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے اپنے سرمایے کی مالیت فقط ۲۳؍ ارب ڈالر تھی،جب کہ بقیہ اثاثے قرضے حاصل کرکے بنائے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اثاثوں اور سرمایہ کا تناسب ۳۰:۱ کا تھا۔ اگر اس کے اثاثوں کی مالیت میں کسی حادثے کی صورت میں ۴فی صد کی کمی واقع ہوجائے تو سارا سرمایہ ختم ہوجائے گا اور ان بقیہ اثاثوں کے سامنے صرف وہ قرضے رہ جائیں گے، جن کے ذریعے یہ اثاثے بنائے گئے تھے۔ لیکن اضطراری فروخت میں ان کی مالیت اتنی نہیں ملے گی جس سے قرضوں کی مکمل ادایگی ممکن ہوسکے۔ اور یوں قرض سے بنائے گئے اثاثوں کی عمارت زمیں بوس ہوجائے گی۔
ہم نے ابتدا میں ان مکروہ ترغیبات کا ذکر کیا تھا جو جدید اور مروجہ مالیاتی نظام اِس کے منتظمین کو فراہم کرتا ہے۔ لیہمین برادرز کا خاتمہ اسی راستے پر چلنے سے ہوا۔ جب رہن بردار قرضوں کا سلسلہ تیز کرنے کا مرحلہ آیا تو لیہمین نے بھی نسبتاً کم کوالٹی کے قرضہ داروں کو قرضہ دینے کا کام شروع کردیا، جس کو سب پرائم (Sub-Prime) کہتے ہیں۔ عموماً بنک صرف پرائم کسٹمرز کو قرضے دیتے ہیں، جن کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ گھر کی بنیاد پر قرض دینے میں رہن موجود ہوتا ہے تو یہ فکر پیدا کی گئی کہ صارف کی نسبتاً کم کوالٹی کو رہن کی موجودگی پورا کرسکتی ہے۔ مغربی مالیاتی نظام کے تحت یہ مفروضہ بُرا نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر اس کو بے حد و حساب بڑھا دیا جائے تو شاہد یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوسکتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہی حالات نے بالآخر جنم لیا، جس نے سارے مالیاتی نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔
۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۸ء تک رہن بردار قرض اس بڑے پیمانے پر جاری کیے گئے، جن کا ماضی میں تصور ممکن نہیں تھا۔ خود لیہمین بردارز نے جس رفتار سے قرضوں کو جاری کیا اس کا ذکر ہم اُوپر کرچکے ہیں۔ بنکاروں نے ان قرضوں کو جاری کرنے کے لیے نہایت جارحانہ مہمات کا اہتمام کیا۔ اتوار بازار لگائے جاتے تھے جہاں سارا دن مفت سیر اور تفریح اور کھانا پینا ہوتا تھا اور سادہ لوح لوگوں کو گھر خریدنے کی ترغیب دی جاتی تھی اور وسائل کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ: ’’فکر نہ کریں، اس کے لیے ہم آپ کو قرض دیں گے‘‘۔ گھر کے مالک کا اپنا سرمایہ کم سے کم کردیا کیونکہ مفروضہ یہ تھا کہ مستقبل میں گھر کی مالیت میں اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔ دوسری طرف بڑے پیمانے پر گھروں کے کمپلیکس تیار تھے، جہاں صرف مکینوں نے داخل ہونا تھا۔ درخواست میں مقروض کی معاشی حالت کے پس منظر اور آمدنی سے متعلق کوائف دینے کی ضرورت تھی، وہ اس طرح درج کردیے جاتے تھے جو قرض کی منظوری کا باعث ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ حقیقتاً درست ہوں یا نہ ہوں۔ لوگ اپنی حیثیت سے کہیں بڑے گھروں میں داخل ہونے لگے، اگر حیثیت تھی بھی تو آمدنی میں وہ تسلسل نہیں تھا، جو عموماً رہن بردار قرض کا جواز پیدا کرتا، یا کم از کم اتنا بوجھ ڈالتا جو کسی حد تک پورا کیا جاسکتا۔
۲۰۰۸ء میں وہ واقعہ رُونما ہوگیا، جس کے بارے میں گمان تھا کہ وہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ نہیں ہوتا: گھروں کی مالیت گرنے لگی۔ گھروں کی رسد میں بے محابہ اضافہ، کم شرح سود پر ملنے والے قرضے تھے۔ جب شرح سود میں اضافہ ہوا تو گھر کی مالیت گرنے لگی، کیوںکہ رہن بردار قرضوں کی شرح سود میں بھی اضافہ ہوگیا اور قرضوں کی ادایگی میں دقت پیش آنے لگی لہٰذا ڈیفالٹ کا آغاز ہوگیا، کیونکہ گھر کی مالیت قرض کی ادایگی کے لیے نا کافی تھی۔ لوگ گھروں سے بے دخل ہونے لگے، خالی کیے گئے گھروں کا کوئی خریدار نہ تھا، ان کی تعمیر میں لگے سرمایے کا نقصان کسی بنک نے تو اٹھانا تھا، جیسے لیہمین برادرز، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کسی کے پاس موجود نہیں تھا، لہٰذا بنک ڈوبنے لگے۔
ستمبر ۲۰۰۸ میں جب یہ خبر عام ہوئی کہ لیہمین برادرز دیوالیہ ہو گیا ہے تو یہ ایک سونامی کا آغاز تھا۔ وال اسٹریٹ میں ایک بھونچال آگیا تھا، جونائن الیون کے بعد پہلا بڑا حادثہ تھا۔ قریب تھا کہ سارا مالیاتی نظام درہم برہم ہوجائے کیوںکہ بنکوں نے قرضے جاری کرنے بند کردیے تھے اور کچھ ایسے کاروبار جو سرمایہ کاری کی انشورنس فراہم کرتے تھے وہ بھی ڈوبنے والے تھے۔ امریکی حکومت کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اگر اس ڈوبنے کے سلسلے کو نہ روکا گیا تو ساری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہٰذا، انھوں نے ان بنکوں اور مالیاتی اداروں کو قومی خزانے سے نہایت کم شرح پر سرمایہ فراہم کردیا، اور یوں یہ ادارے بچ گئے اور تباہی محدود ہوگئی۔ لیکن جو کچھ ختم ہوگیا وہ بھی ہولناک تھا: امریکا میں ۹۰ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے؛ گھریلو دولت میں ۱۳ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا؛ ایک مختصر سی مدت میں گھروں کی مالیت میں ۳۰ فی صد کمی واقع ہوئی اور اسٹاک مارکیٹ کی مالیت ۵۰ فی صد گر گئی؛ ایک اندازے کے مطابق امریکا کی سالانہ آمدنی کا ۴۰ فی صد اس بحران میں برباد ہوگیا۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے اور کھلے آسمان کے نیچے کیمپوں میں رہنے لگے۔ یورپ، جاپان اور ایشیا کی دوسری معیشتیں بھی اس سے متاثر ہوئیں اور ’مالیاتی سونامی‘ ساری دنیا پر اپنے بُرے اثرات چھوڑ گیا۔
۲۰۰۸ء کے ’مالیاتی سونامی‘ نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے مکروہ ترغیبات کے حامل بنکاری اور مالیاتی نظام کا پردہ چاک کردیا۔ چوں کہ اس نظام کے پشتیبان اثر و رسوخ کے حامل اور طاقت کے مراکز پر قابض ہیں، اور بزعم خویش اتنے بڑے ہیں کہ انھیں گرنے نہیں دیا جا سکتا (too big to fail) لہٰذا، ان کو کھڑا رکھنے کے لیے ریاست نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ دوسری جانب اس میں گرنے والے وہ کمزور اور بے اثر افراد جن کی زندگی بھر کی کمائی خاک میں مل گئی، جو اپنے گھروں سے بے دخل ہوکر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، سرمایہ دارانہ معیشت کی سرخیل ریاست ِ امریکا ان کی کفالت کو نہیں آئی۔ گھروں سے بے دخل ہونے والوں کو اگر کسی بھی درجے میں دیوالیہ ہونے سے بچایا جاتا، اس خیال سے کہ ان کے گھروں کی مالیت اس سونامی کے بعد اپنی حقیقی مالیت کی طرف واپس آجاتی، تو یہ تباہی سے بچ سکتے تھے جیسا کہ بڑوں کو بچانے کے لیے کیا گیا۔ لیکن امریکی صدر اوباما نے اس طرح کی کسی تجویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
جب یہ سونامی گزر گیا تو اس کے بعد کوئی احتسابی عمل شروع نہیں ہوا۔ کچھ افراد کو فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ بہت معمولی سزاؤں کے بعد چھوٹ گئے۔ زیادہ وقت اس بات پر صرف ہوا کہ آیندہ اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان اقدامات کو سمجھنے کے لیے ایک اور نام نہاد کاروبار سمجھنا ضروری ہے، جو سودی کاروبار سے آگے بڑھ کر صاف اور صریحاً قمار یا جوا ہے اور جو حقیقتاً اس سونامی کا اصل باعث بنا تھا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا معاہدہ ہے، جو Derivative (ڈیریویٹو، جس کا ترجمہ ہم’متبدّل‘ کررہے ہیں) کہلاتا ہے، جس کے مطابق مستقبل میں پیش آنے والے ایسے واقعے سے بچائو کے لیے ایک قیمت ادا کرکے خریدار اپنا تحفظ کرسکتا ہے۔ مثلاً رہن بردار قرض خواہ، جس کو مقروض کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہو وہ ایک متبدّل خریدے گا کہ اگر مقروض نے قرض ادا نہیں کیا تو متبدّل فراہم کرنے والا ادا کردے گا۔ یقیناً یہ معاہدہ ایک طرح کا بیمہ یا انشورنس ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کاروبار ان تمام قوانین اور نگرانیوں سے آزاد تھا جو انشورنس کے کاروبار پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس کو فروخت کرنے والا انشورنس کے معروف کاروبار کے لیے لائسنس کا نہ حامل تھا اور نہ اس نے اس کے لیے ضروری سرمایہ فراہمی کی پابندی تھی۔ متبدّل ضروری نہیں کہ صرف مالی اُمور تک محدود رہے۔ یہ اشیا کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ، شرح سود میں تبدیلی، متعین شرح کو غیر متعین سے تبادلہ کرنے وغیرہ سب میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ بس ایک قیمت کی ادایگی سے، ایک خاص مدت کے لیے، ایک ناپسندیدہ نتیجے سے بچنے کے لیے متبدّل خرید کر تحفظ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
گذشتہ سال ۵۰۰ ٹریلین ڈالر سے زائد ’متصّور مالیت‘ (Notional Value) کے ۲۵؍ارب متبدّل فروخت ہوئے ہیں۔ یہ مالیت ان معاہدوں کی ہے جن کے لیے متبدّلات خریدے گئے ہیں، مثلاً شرح تبادلہ یا کریڈٹ ڈیفالٹ وغیرہ۔ یہ واضح رہے کہ یہاں ایک معاہدہ کئی مرتبہ گنا جاتا ہے کیونکہ متبدّل فروخت کرنے والا خود اپنے تحفظ کے لیے بھی کسی دوسرے سے متبدّل خریدتا ہے، لہٰذا یہ ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے۔ متبدّلات کی خرید و فروخت دو طرح سے ہوتی ہے: باہمی طور پر دو افراد یا کمپنیوں کے درمیان یا پھر کسی ایکسچینج میں۔ یہ ۹۵ فی صد تو باہمی طور پر ہوتی ہے۔ دو قسم کے متبدّل سب سے زیادہ فروخت ہوئے: ایک کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ (تبادلہ) اور دوسرا رہن بردار قرض ادایگیاں (CDO - Collarrized Debt Obligations)۔ آخرالذکر اصل میں مالیاتی سونامی کا باعث بنا۔
رہن بردار قرضوں کا زور یوں اور بڑھ گیا کہ مارکیٹ میں اس کا متبدّل بکنے لگا، اور امریکا کا ایک معتبر نام امریکا انٹرنیشنل گروپ (AIG) اس کام میں لیڈر تھا۔ لیکن جب شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ڈیفالٹ کا آغاز ہوا تو CDO نے ابتدا میں ادایگیاں کرنا شروع کردیں، لیکن جلد اسے یہ احساس ہوگیا کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ادایگیاں کرنے کے قابل نہیں ہے۔ قریب تھا کہ سارا نظام دھڑام سے گر جاتا کہ اس وقت کے امریکی وزیر خزانہ ہیری پالسن، گولڈ مین ساچس (Goldman Sachs)، جو سب سے بڑا بنک تھا اور اس کاروبار میں بھی چار بڑے اداروں میں شامل تھا، کے سابق سربراہ تھے۔ ان کی سربراہی میں ان اداروں کو بچانے کے لیے ایک اجلاس اکتوبر ۲۰۰۸ء میں منعقد ہوا، جس میں مرکزی بنک اور مرکزی انشورنس کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حکومت ان اداروں کو سیکڑوں ارب ڈالر کے قرضے براہ راست اور مرکزی بنک کے ذریعے فراہم کرے گی تاکہ یہ اس ڈیفالٹ سے بچ جائیں۔ مرکزی بنک نے تقریباً صفر شرح سود پر اتنی بڑی مقدار میں قرضے جاری کیے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس کی بیلنس شیٹ دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔
متبدّل کا کاروبار بلا روک ٹوک اور بغیر کسی قانونی عمل کے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۰ء امریکی صدر بل کلنٹن کی حکومت کا آخری سال تھا اور اس سال دسمبر تک کا ان کا بجٹ کانگریس سے پاس نہیں ہورہا تھا۔ اس کے حصول میں جو چیز مانع تھی، وہ ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ز کا یہ اصرار تھا کہ بجٹ قانون کے اندر ایک اور قانون کی منظوری دی جائے جس کی صدر کلنٹن مخالفت کررہے تھے۔ یہ قانون متبدّل کے کاروبار کو ایک مستقبل (فیوچرز) کے سودوں کی مارکیٹ، جو ایک منظم مارکیٹ ہے اور تبادلۂ اشیا ایکٹ ۱۹۳۶ء کے تحت کام کرتی ہے، اس سےجدا ایک کاروبار تسلیم کروانا تھا ۔ یہ کاروبار باہمی سودوں کی بنیاد پر ماہر سرمایہ کاروں کے درمیان ہو اور اس پر کسی قسم کی کوئی نگرانی کا عمل نہ ہو خصوصاً ۱۹۳۶ء کا ایکٹ اس پر لاگو نہ ہو۔ بالآخر مجبوری میں بل کلنٹن نے بجٹ منظوری کی خاطر اس قانون کو منظور کرلیا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نگران ادارے جو بنکوں، غیربنک مالی اداروں، انشورنس وغیرہ کی نگرانی کرتے ہیں، اس کاروبار کے معاملات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مزید برآں ’وال اسٹریٹ‘ اور کوئی دوسرا اسٹاک ایکسچینج بھی یہ کام دیکھنے کا مجاز نہیں تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ متبدّل فروخت کرنے والوں کو کسی قسم کے ذاتی سرمایے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نئے کاروبار کی تشکیل نے ایک اور مکروہ ترغیب فراہم کردی، جو اس کی تباہی کا باعث بنی۔ متبدّل اتنی بڑی تعداد میں فروخت کیے گئے جتنی بڑی تعداد میں رہن بردار قرضے جاری کیے جارہے تھے۔ جب بڑے پیمانے پر رہن بردار قرضوں کا ڈیفالٹ شروع ہوا تو متبدّل بیچنے والوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ اپنے سارے وعدے پورے کرسکتے۔ یہ نوبت جب AIG اور گولڈمین ساچس تک پہنچی تو’آپ کی زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی‘ کے مصداق بڑی سرکار حرکت میں آگئی۔
ایک اور دل چسپ بات ہم یہاں بتاتے چلیں۔ جب لیہمین برادرز اپنے ذیلی اداروں کے جاری کردہ رہن بردار قرضوں پر مبنی بانڈز بنا کر وال اسٹریٹ میں فروخت کرتا تھا، تو اس کے لیے کسی نامور ریٹینگ ایجنسی سے ریٹنگ کروانی لازم ہوتی تھی۔ یہ تمام ریٹنگ عموماً AAA ہوتی تھیں، جس کا مطلب تھا کہ اس میں ڈیفالٹ کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈ پور اور فیٹچ یہ تینوں ایجنسیز اس کام میں ملوث پائی گئی ہیں۔ موڈیز نے تو کمال کردیا۔ ۲۰۰۶ء میں اس نے تقریباً ۸۶۹؍ ارب ڈالر کے رہن بردار بانڈز کو AAA ریٹینگ جاری کی تھی۔ پھر ’مالیاتی سونامی‘ کی آمد سے ذرا پہلے اس میں سے ۸۳ فی صد بانڈز کی ریٹنگ گھٹا دی، مگر اس وقت تک بہت تاخیر ہوگئی تھی۔ سونامی کے ذمہ داروں میں ان ایجنسیوں کا نام بھی سامنے آیا اور ان پر مقدمات قائم ہوئے۔ لیکن پھر جرمانے ادا کرکے فارغ ہوگئے اور آج بھی یہ اسی آن بان سے کام کررہے ہیں، اگرچہ موڈیز کو جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ایک تحقیقات کا سامنا ہے۔
ہم یہاں سود کی تباہ کاریوں کا ذکر بھی کرنا چاہتے ہیں۔ سود کے کاروبار میں ایک عدم استحکام قدرتی طور پر پنہاں ہے۔ سود کا سودا طے شدہ مدت کے بعد مقروض سے سود کی ادایگی کا مطالبہ کرتا ہے، اگر یہ ادایگی نہیں ہوگی تو وہ رہن کو بیچ کر اپنا سود اور اصل سرمایہ پورا کرسکتا ہے۔ اگر یہ ناکافی ہے اور مزید کوئی اثاثہ بطور ضمانت موجود نہیں ہے تو قرض خواہ کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر یہ کاروبار شراکت کی بنیاد پر کیا جائے تو یہ عدم استحکام دور ہو جاتا ہے۔ کیوںکہ شراکت کی وجہ سے سرمایہ فراہم کرنے والے کے لیے یہ ترغیب نہیں رہتی کہ مندی کے حالات میں اگر اس نے رہن جلد فروخت نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا، بلکہ شریک کی حیثیت سے اس کا حصہ ہمیشہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور مندی کے حالات میں بیچنا مالیت کو خراب کرے گا۔ یوں سارے نظام سے وہ مکروہ ترغیب جو لوگوں میں اضطراب اور بے چینی (panic) کا باعث ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔
متبدّل کا کاروبار جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں صاف جوا ہے جس کا اسلامی شریعت میں حرام ہونا واضح ہے۔ علاوہ ازیں شریعت یہ بھی پابندی لگاتی ہے کہ آپ وہ اشیا نہیں بیچ سکتے جو آپ کی ملکیت میں نہ ہوں یا جن کی بوقت ضرورت موجودگی میں کسی قسم کا شبہہ ہو۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ اسلامی نظام مالیات ان مکروہ ترغیبات کو مٹا کر ایک ایسا نظام فراہم کرتا ہے، جو اس عدم استحکام سے پاک ہے، جو سود اور متبدّل پر مبنی نظام میں بنیادی طور پر پایا جاتا ہے۔
[اگلی قسط میں ہم بتائیں گے کہ کس طرح یہ عدم استحکام ایک بار پھر دنیا کے مالیاتی نظام کو تہہ و بالا کرنے والا ہے۔]