غالب نے ایک موقع پر کہا تھا ع ’’میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘۔ پاکستانی معیشت کی بنیاد میں بھی ایک خرابی آئینی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ اس خرابی کو سمجھنے کے لیے ہمیں آئین پاکستان کی ان شقوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو ملک کے مالیاتی امور کو بیان کرتی ہیں۔
آئینِ پاکستان ہمیں دو طرح کی قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ ایک قانون سازی وہ ہے جو کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے اور دوسری قانون سازی وہ ہے جو صرف مالیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اس قانون سازی کو ’مالیاتی بل‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے، باقی تمام قانون سازی دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے شروع ہوسکتی ہے، اوردونوں سے اس کی منظوری کے بعد بل، قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جب کہ اختلاف کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس مسئلے کو حل کرتا ہے۔
اس کے برعکس ’مالیاتی بل‘ کی منظوری کا کام براہِ راست منتخب عوامی نمایندوں، یعنی ارکانِ قومی اسمبلی ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے،اور یہ منظوری دینا انھی کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی بل کو ’مالیاتی بل‘ قرار دینے یا قرار نہ دینے کا اختیار صرف اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے، جسے نہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ صدرِ مملکت اس میں کوئی دخل دے سکتے ہیں۔ آئین کے اندر یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کون سے معاملات اس اختیار میں آتے ہیں۔ یہاں ہم ان آرٹیکلوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں:
آرٹیکل ۷۷ یہ پابندی لگاتا ہے کہ کوئی بھی ٹیکس صرف اور صرف قومی اسمبلی کی منظوری اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے تحت لگایا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل ۷۸ یہ کہتا ہے کہ تمام محصولات اور قرضوں سے حاصل شدہ اور ان سے واپس شدہ رقوم وفاقی مجتمع فنڈ (Federal Consolidated Fund) میں جمع کرائی جائیں گی اور دیگر رقوم ایک پبلک اکاونٹ میں جمع کرائی جائیں گی۔
آرٹیکل ۷۹ یہ پابندی لگاتا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اکاونٹس سے رقوم صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کے تحت لی جاسکتی ہیں۔ اور جب تک یہ قانون بنے تو صدر مملکت کی طرف سے بنائے گئے ضوابط کے تحت لی جاسکتی ہیں۔
آرٹیکل ۸۰ تا ۸۴ میں اس طریق کار کا تفصیلی بیان ہے، جس کے تحت بجٹ (میزانیہ) پیش کیا جائے گا اور قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ آرٹیکل ۸۰سب سے پہلے پابند کرتا ہے کہ وفاقی حکومت ہر مالی سال کے لیے ایک گوشوارہ ، جسے ’سالانہ بجٹ اعلامیہ‘ (Annaul Budget Statement) کہا جائے گا، اس میں صراحت سے یہ علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے گا کہ کون سے اخراجات ہیں، جو آئین پاکستان کے مطابق وفاقی مجتمع فنڈ پر charged (مطلوبہ) اخراجات ہیں اور کون سے ایسے نہیں ہیں۔
آرٹیکل ۸۱ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سے اخراجات ہیں جو ’مطلوبہ‘ کہلائیں گے: ا- صدرمملکت کی تنخواہ اور ان کے دفتر سے متعلق اخراجات؛ ۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات؛ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں اور اخراجات، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تنخواہیں اور اخراجات؛ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تنخواہ اور ان کے دفتر کے اخراجات؛ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قرضوں کی ادائیگی اور ان پر سود کی ادائیگی۔ اس تفریق میں اصل بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی چارجڈ ’اخراجات‘ پر بحث کر سکتی ہے، لیکن ان اخراجات پر ووٹنگ نہیں ہوگی، یعنی ان تجاویز پر کٹوتی کی تحریکیں نہیں لائی جا سکتیں۔ دیگر تمام اخراجات کی تجاویز قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی اور ہر تجویز پر کٹوتی کی تحریک بھی لائی جاسکتی ہے اور بحث کے بعد ان پر ووٹنگ کی جائے گی اور کثرت رائے سے منظور یا نا منظور کی جائے گی۔
تمام تجاویز کا اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وزیر اعظم اپنے دستخط کے ساتھ اخراجات کا ایک جدول قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اس میں شامل تمام اخراجات قومی اسمبلی سے منظور تصور کیے جائیں گے۔ مگر اس جدول پر اس کے بعد کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوگا۔
آرٹیکل ۸۴ وفاقی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی سہولت بھی ہے اور مالیاتی نظام میں بگاڑ کی بہت بڑی اور بنیادی وجہ بھی۔ اسمبلی سے منظور شدہ بجٹ میں حکومت تین تبدیلیاں کرسکتی ہے: lاوّل یہ کہ اگر کسی مد میں ضرورت سے کم بجٹ ہو اور دوسری مد ضرورت سے زائد ہو تو زائد بجٹ کو کم مد میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ lدوم یہ کہ اگر منظور شدہ خرچ سے زیادہ خرچ کرنا پڑے تو وہ ضمنی گرانٹ کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ lسوم، اگر کسی مد میں زیادہ اخراجات ہوجائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ عموماً اگلے مالی سال کے بجٹ کے ساتھ ایک اور بجٹ پیش ہوتا ہے، جس کو ضمنی بجٹ کہا جاتا ہے۔ اصل بجٹ کی منظوری کے بعد اس ضمنی بجٹ کو انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو آئین میں درج ہیں اور جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن بجٹ اجلاس کا یہ مرحلہ صرف ایک آئینی کارروائی کو مکمل کرنا ہوتا ہے ورنہ اصلی بجٹ میں جوممبران کی دلچسپی ہوتی ہے، اس موقعے پر بالکل مفقود نظرآتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو اس کا دفاع کرنے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔ کبھی کبھار یہ ضمنی بجٹ صرف گزرتے مالی سال کا نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے ہونے والے اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔
تو یہ ہے وہ آئینی فریم ورک، جو ہمارے پاکستانی مالیاتی نظام کا احاطہ کر رہا ہے۔ قارئین اس اہم بات کو مدنظر رکھیں کہ جس بجٹ کی قومی اسمبلی منظوری دیتی ہے، وہ صرف اخراجات تک محدود ہے۔ آمدنی کے اندازوں کو بیان ضرور کیا جاتا ہے، لیکن آئین کے تحت یہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ آمدنی کے ذرائع اور مقدار کی منظوری بھی لی جائے۔
بجٹ سیشن میں ایک اہم مرحلہ ’فنانس بل‘ کا پیش ہونا اور اس کی منظوری ہے، جس میں سینیٹ کی سفارشات بھی زیر غور آتی ہیں۔ یہ سلسلہ درحقیقت قومی اسمبلی کے اس اختیار کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ ٹیکسوں کو لگا سکتی اور ان میں رَد وبدل کرسکتی ہے۔
مندرجہ بالا بیان کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ حکومت آمدنی سے زیادہ اخراجات کرسکتی ہے، جس کو بجٹ خسارہ یا fiscal deficit کہتے ہیں۔ اس خسارے کو سال در سال اختیار کرتے چلے جانے سے قومی قرضہ وجود میں آتا ہے اور اس پر ادائیگیوں کا بوجھ اور شرح سود کا ردوبدل معیشت کے دوسرے شعبوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
بجٹ خسارہ اعداد و شمار میں شامل ہوتا ہے، لیکن کیونکہ یہ قومی اسمبلی کا منظور شدہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک عام طرز عمل ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر اور مختلف گوشواروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں اور عموماً اس کو کم از کم سطح پر بیان کرتے ہیں۔ اور پھر آرٹیکل ۸۴ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زائد اخراجات کرتے ہیں یا بجٹ میں آمدنی کے جو اندازے لگائے گئے ہیں، اس سے کم آمدنی (خصوصاً ٹیکسوں کی مد میں)حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں امکانات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ بڑھ جاتا ہے اور یوں قومی قرضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ہم نے گذشتہ پانچ سالوں کے اندر بجٹ میں بیان کردہ خسارے کا اندازہ بمقابلہ واقعی خسارے سے کیا ہے۔ تجزیہ بتاتا ہے کہ اوسطاً تقریباً واقعی خسارہ، بجٹ میں بیان کردہ خسارے سے قومی آمدنی کا کوئی دو فی صد زیادہ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ تفاوت اور بڑھ گیا ہے اور خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے قومی آمدنی کا اندازہ۶۷ ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔ اس کا ایک فی صد ۶۷۰ ارب روپے بنتا ہے اور دو فی صد ۱۳۴۰ ؍ارب روپے ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خسارے میں اضافہ کتنے بڑے پیمانے پر حکومتی اخراجات کا باعث بنتا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں نہ کوئی گفتگو ہوتی ہے اور نہ کوئی منظوری۔ انھی وجوہ سے قومی قرضہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اس سال جنوری میں قومی آمدنی کا نیا اندازہ (re-basing) لگایا گیا، جس کی وجہ سے تقریباً دس ٹریلین سے آمدنی بڑھ گئی اور جس کی وجہ سے قومی آمدنی کی نسبت خسارہ اور قومی قرضہ کچھ کم نظر آرہا ہے، لیکن اگر یہ اضافہ نہ ہوا ہو تا تو ہمارا قرضہ قومی آمدنی کا سو فی صد سے زائد ہوجاتا۔ لیکن اگر ہم اپنے مالیاتی اُمور اسی انداز سے چلاتے رہے تو بہت جلد اس زائد آمدنی کے باوجود ہم اس حد کو پار کرلیں گے۔