ایریک بلیچ، اے ماورٹس وان ڈروین | جولائی ۲۰۲۲ | مغرب اور مسلم دُنیا
امریکیوں اور یورپیوں نے ۲۰۲۲ ء میں یوکرائنیوں کے لیے جس ہمدردی اور گرم جوشی کا اظہار کیا، وہ ۲۰۱۰ء کے عشرے میں شامی مہاجرین کے ساتھ روا رکھی جانے والی بے ربط اور اکثرو بیش تر معاندانہ پالیسیوں کے بالکل اُلٹ تھا۔ماہر سیاسیات ڈیوڈ لیٹن نے اس معاملے میں مذہبی شناخت کا کردار واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’دراصل شامی مہاجرین زیادہ تر مسلمان تھے، اس لیے ان کو عیسائی پس منظر رکھنے والے یوکرائنیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔
میڈیا ایسی معلومات فراہم کرتا ہے، جن سے مسلمانوں کے بارے میں اس طرح کے رویے جنم لیتے ہیں۔ پیو (PEW) ریسرچ سنٹر کے ۲۰۰۷ء میں امریکیوں سے کیے گئے سروے میں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے بالعموم میڈیا میں آنے والے مواد کو پڑھ کر یا سن کر قائم ہوئی۔ ماہرابلاغیات منیبہ سلیم اور ان کے رفقائے کار نے میڈیا کی فراہم کردہ معلومات اور ’’لگے بندھے خیالات، منفی جذبات اور نقصان دہ پالیسوں کی حمایت‘‘ کے مابین براہِ راست تعلق ثابت کیا ہے۔
زیادہ بہتر طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ میڈیا مسلمانوں اور اسلام کو کس طرح پیش کرتا ہے، ۲۰۲۲ء میں مسلمانوں کی نمایندگی کے بارے میں امریکی اخباروں کا تقابلی جائزہ پیش کرنے والی ہماری کتاب American Newspapers in Comparative: Covering Muslims Perspecitve میں کئی عشروں پر پھیلے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں مضامین کو پرکھا گیا ہے۔ ہم نے امریکا میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی بہت زیادہ منفی انداز دیکھا۔
تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منفی نمایندگی میڈیامیں عام ہے۔ ماہرین ابلاغیات سیف الدین احمد اور جورگ ماتھس کی ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۵ء تک کی گئی تحقیق اور جائزوں پر نظر ڈالنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ مسلمانوں کو میڈیا میں منفی طور پر ظاہر کیا گیا اور اسلام کو بہ کثرت دہشت پھیلانے والے مذہب کے طور پر دکھایا گیا۔مگر جس تحقیق کا انھوں نے جائزہ لیا، اس میں دو اہم سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے، تاہم ہماری تحقیق ان کا احاطہ کرتی ہے:
اول، کیا مسلمانوں اور اسلام پر مضامین اخبارات کے عام اوسط مضامین سے زیادہ منفی ہوتے ہیں ؟
دوم، کیا میڈیا میں مسلمانوں کو دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں دکھایا جاتا ہے ؟
اگر اقلیتی مذہبی گروہوں کے متعلق خبر اس وقت بنتی ہے جب وہ کسی تنازعے میں کسی نہ کسی شکل میں شریک ہوں، تو خبر کا منفی انداز ان کے مسلمان ہونے کی وجہ تک محدود نہیں ہوتا۔
ان سوالات کے جواب کے لیے ہم میڈیا ڈیٹا بیس ،جیسے LexisNexis, NexisUni, ProQuest اور فیکٹیواسے رجوع کر کے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق ۲لاکھ ۵۶ہزار نوسو ۶۳ مضامین تک پہنچے۔ اس کے لیے ہم نے ’مسلم مضامین‘(Muslim Articles ) کے عنوان سے امریکا کے یکم جنوری ۱۹۹۶ء سے ۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ ء تک کے ۲۱ سال کے عرصے کے دوران شائع ہونے والے ۱۷ قومی ، علاقائی اور چھوٹے مقامی اخبارات کا احاطہ کیا۔
ہم نے مثبت یا منفی رجحان ماپنے کے لیے ایک قابل بھروسا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اس کا مقابلہ مختلف اخبارات میں بغیر ترتیب دیے ہوئے ۴۸ہزار دوسو ۸۳ مضامین کے لب ولہجہ سے کیا۔ یہاں ’منفی‘ ہونے کا مطلب اس مضمون یا خبر کا ایک اوسط درجے کےعام مضمون، یا خبر سے زیادہ منفی ہونا تھا۔
اس طریق کار نے کئی مزید تقابلی جائزوں کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ہم نے امریکی اخباروں سے نہ صرف مسلمانوں سے متعلق مضامین جمع کیے بلکہ امریکا میں موجودمختلف حجم اور حیثیت کے تین اقلیتی مذہبی گروہوں، یعنی: کیتھولک عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے متعلق بھی مضامین اکٹھے کیے۔ پھر ہم نے برطانیہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے مختلف قسم کے اخبارات سے بھی مسلمانوں سے متعلق مضامین حاصل کیے۔
ہماری تحقیق کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ’’امریکا میں مسلمانوں اور اسلام پر اوسط مضامین عام اور بے ترتیب دیکھے جانے والے ۸۴ فی صد مضامین سے زیادہ منفی ہوتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک عام مضمون کے مقابلے میں امریکی اخبارات میں اسلام اور مسلمانوں پر ’منفی‘ مضامین زیادہ ہوتے ہیں‘‘۔
واضح طور پر یہ سمجھنے کے لیے کہ مضامین کتنے منفی ہوتے ہیں، ذرا اس جملے پر توجہ کیجیے جس کا لب و لہجہ ایک عام مضمون جیسا ہے:’’روسی شخص کو خفیہ اہلکار نے یہ باور کرایا کہ تابکاری مواد ایک مسلم تنظیم کے حوالے کرنا ہے‘‘۔ اس ایک جملے میں دو انتہائی منفی الفاظ ’خفیہ‘ اور ’تابکاری‘ کے استعمال سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مسلم تنظیم ناپاک مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے۔
جن مضامین میں مسلمانوں کا ذکر تھا وہ زیادہ منفی تھے ، بہ نسبت ان مضامین کے، جن میں دیگر گروہوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ کیتھولک عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے لیے مثبت اور منفی مضامین کا تناسب ۵۰:۵۰ تھا، مگر اس کے برعکس مسلمانوں سے متعلق مضامین ۸۰ فی صد منفی تھے۔ یہ فرق چونکا دینے والا ہے۔ ہماری تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ میڈیا دیگر مذہبی گروہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے منفی انداز نہیں اپناتا، مگر جب بات مسلمانوں کی ہو تو ایسا کرنے پر خود بخود مائل ہو جاتاہے ۔
مختلف گروہوں کی نمایندگی کے تقابلی مطالعے کے ساتھ ساتھ ہماری دلچسپی مختلف ممالک میں روا رکھے جانےوالے انداز میں بھی تھی۔ یہ جاننے کے لیے کہ شاید مسلمانوں کو منفی انداز میں دکھانے میں امریکا نمایاں طور پر منفرد حیثیت رکھتا ہے، ہم نے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے، اسی دورانیے کے مختلف اخبارات سے۵لاکھ ۲۸ہزار ۴سو ۴۴ مضامین جمع کیے۔ ہم نے دیکھا کہ ان ممالک میں بھی منفی اور مثبت مضامین کا تناسب تقریباً وہی تھا، جو امریکا میں پایا گیا تھا، یعنی تقریباً ۸۰ فی صد۔
مسلمانوں اور اسلام سے متعلق منفی مضامین بلحاظ ملک
۲۱ سال پر محیط۵لاکھ ۲۸ہزار۴ سو ۴۴ مضامین کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ’منفی‘ مضامین کا تناسب امریکا، برطانیہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں تقریباً یکساں ہے:
امریکا ۸۰ فی صد برطانیہ ۷۹ فی صد
کینیڈا ۷۹ فی صد آسٹریلیا ۷۷ فی صد
(۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۶ء تک مختلف اخبارات میں شائع شدہ مضامین)
متعدد ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’منفی مضامین سے مسلمانوں کے خلاف جذبات کو ہوا ملتی ہے‘‘۔ منفی معلومات کے اثرات پرکئی مطالعوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’’اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کرنے کی حمایت میں اضافہ ہوتا ہے ، جیسے مسلمانوں کی مخبری یا مسلم ممالک پر ڈرون حملے وغیرہ‘‘۔
مزید برآں، نوجوان امریکی مسلمانوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ منفی سلوک کی وجہ سے امریکی شناخت ظاہر کرنے اور امریکی حکومت پر اعتماد کرنے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی منافرت کے تدارک کےلیے ضروری ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں اور اسلام کی منفی نمایندگی کی موجودگی کا اقرار کیا جائے اور اس کا حل ڈھونڈا جائے۔ اس طرح بلاتفریق مذہب سب کے لیے قابلِ قبول انسانیت پسند اقدامات کے مواقع کھلیں گے۔