مغرب میں اسلام کی جو تصویر ہے، اس کا مطالعہ کیا جائے تو شاید بیش تر واقعات و حوادث کی حقیقت کو واضح کرنے کی بنیاد مل جائے اور ہمیں اس بات کا مزید ادراک بھی حاصل ہو جائے کہ رائے عامہ پر کس طرح اثر انداز ہوا جاتا ہے اور عوام کے جذبات سے کس طرح کھیلا جاتا ہے؟ دنیا میں تصویر یا تشخص کی جنگ جاری ہے، جس میں ہر ملک اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ [دنیا کے سامنے]اپنی تصویر بنانے اور اپنے دشمنوں کی گھسی پٹی تصویر قائم کرنے کا ملکہ حاصل کر لے۔
تصویر کی اس جنگ میں امریکی سنیما انڈسٹری نے اہم کردار ادا کیا ہے، اور اس نے ایسی بہت ساری فلمیں بنائی ہیں، جن کا مقصد دوسروں یا دشمن [ممالک]کے بالمقابل امریکا کے تشخص کو مثبت تصویر کےچوکھٹے میں پیش کرنا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکی تحقیقاتی مراکز نے صرف ہدف کو چُنا ہے کہ اسلام کو امریکا اور یورپ کے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے۔ ان مراکز کی ملی بھگت نے مسلمانوں کی مطلوبہ منفی تصویر کُشی کے لیے بہت سی فلمیں منظر عام پر لانے کی بنیاد فراہم کی ہے۔
تہذیبی تصادم کے نظریے نے دنیا کو تقسیم کرکے مغرب اور اسلام کے درمیان گہری کش مکش پیدا کی ہے۔اس نظریئے کو دنیا کے اوپر تھوپنے کے لیے ذرائع ابلاغ ، خاص طور سے سنیما کو استعمال کیا گیا ہے، جس نے اہلِ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز و اختلاف کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔اسی لیے امریکی سنیما نے اسلام کو ایک مذہب (دین) کی حیثیت سے لیا ہی نہیں، اور تعصب و جانب داری سے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو چوٹ پہنچائی ہے۔
اسی لیے چاروں محققین نےاپنے سروے میں اس انڈسٹری کو آکٹوپس سے تشبیہ دی ہے جس نے دنیا کو اپنے بازؤں کی گرفت میں لے رکھا ہے۔دنیا کے بازارِ تفریح (Entertainment Market ) پر ہالی وُڈ کی حاکمیت ہے۔ کروڑوں لوگ اس کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھتے ہیں۔ ان فلموں کی وجہ سے ہالی وُڈ نوجوانوں کا سب سے طاقت ور استاد بن چکا ہے، کیوں کہ سب سے زیادہ فلموں سے جڑنے والا طبقہ نوجوانوں کا ہی ہے۔
دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہالی وُڈ میں کام کرنے والے پرڈیوسرز، ڈائرکٹرز، قلم کار اور اداکار سب کے سب امریکا کے اشرافیہ (Elite) طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا کا وہی تصور پیش کرتے ہیں جو یہ طبقہ رکھتا ہے۔
اسلام کی روایتی منفی تصویر جو ہالی وُڈ نے گھڑی ہے، اس کا استعمال امریکا نے فلم بیں حضرات کو اس بات کا یقین دلانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمان ’انتہاپسند‘، ’دہشت گرد‘ اور ’متعصب‘ ہوتے ہیں۔
سنیما کے اس سیاسی و تشہیری کردار سے واضح ہوتا ہے کہ ہالی وُڈ صرف تفریح کا ایک وسیلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ذہنوں میں ایک مخصوص تصویر قائم کرنے کی فیکٹری بھی ہے۔ یہ سنیما ہی تصویری و اصطلاحاتی جنگ اور تہذیبوں کے مابین کش مکش کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اسی طرح یہ سنیما ہی امریکی اشرافیہ کے نقطۂ نظر کو عام کرکے اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے لوگ دنیا کو ہالی وُڈ کے اسی کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، جو حقائق کو پیش نہیں کرتا، بلکہ تصویروں، اور خواص کی مدد سے من پسند اور مذموم واقعات کو جنم دیتا ہے اور پھر عوام کے جذبات کو ان کے خلاف اُبھارتا ہے جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
اسی طرح ہالی وُڈ نے اسلام کی ایسی تصویرکو دنیا میں عام کرنے کا کام بھی کیا ہے کہ مسلمانوں کو دُنیا کے لیے خطرہ بتا کر ان سے لوگوں کو خوف زدہ کیا جا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ دینِ اسلام کے خلاف دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔مثال کے طور پر امریکا، کینیڈا، یورپ اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں مساجد کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
امریکی فلم سازوں نے تہذیبی تصادم کے نظریے، سبز خطرے (Green Danger)، نظریاتی کش مکش، اور قدیم صلیبی جنگوں کے نظریات کو فلموں میں استعمال کیا ہے، اور یہ وہ نظریات ہیں، جو بین الاقوامی کش مکش کے لیے فکری اساس کی حیثیت سے وضع کیے گئے ہیں۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ سنیما، عالمی کش مکش کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لیے سنیما کا استعمال اس فکر کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا کہ ’’امریکی جمہوریت خطرے میں ہے اور امریکا دہشت گردی کی زد میں ہے‘‘ ، اس لیے ضروری ہے کہ مسلم دُنیا کے خلاف عسکری جنگ کا سلسلہ جاری رکھا جائے‘‘۔
اس حقیقت کی روشنی میں فوال یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ ’’اسلام کی جو روایتی انداز کی تصویر امریکی سنیما نے گھڑی ہے، وہ نہایت تباہ کن اور سخت خطرناک ہے۔ یہ تصویر مستقل طور پر اسلام دشمنی کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔یہ تصویری جنگ حقیقی جنگ کے لیے راہ ہموار کرنے والی ہے، جس کا مقصد ملکوں پر قبضہ جمانا اور انسانیت کو برباد کرنا ہے۔ مغربی فوجیوں کو اپنے دشمن پر میزائل چلانے سے پہلے ایک ذہنی تصویر کی ضرورت ہوتی ہے، جو امریکی فوج کی سرگرمیوں کو احترام دینے والی ہو اور امریکی فوجیوں کو ہیرو کا رُوپ دے سکتی ہو۔ اسی طرح انھیں ایک ایسی روایتی تصویر کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے دشمن کی صورت کو بگاڑ کر پیش کرتی ہو اور انھیں بدمعاش، دہشت گرد اور جمہوریت وترقی کے دشمن کے طور پر پیش کرتی ہو‘‘۔
امریکی سنیما اپنے طویل تاریخی تجربات کو بروئے کار لا رہا ہے اور تصویری جنگ میں اپنے کردار کو انجام دینے کے لیے ٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو کام میں لا رہا ہے۔ اس کی نظر میں یہ تصویری جنگ ہی دنیا کے مستقبل کی تشکیل اور استعماری غلبے کے نئے دور کے لیے راہ ہموار کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس تصویری جنگ کا مقابلہ کیسے کریں اور کیسے ایک ایسی میڈیا انڈسٹری کی تشکیل کریں، جو مسلمانوں کو [درست]معلومات فراہم کر سکے، ان کے فہم و شعور کی تشکیل کر سکےاور اکیسویں صدی کے چیلنجوں کے مقابلے کی قوت امت کے اندر پیدا کر سکے؟
مستقبل کی تعمیر وتشکیل ایسے اصحابِ علم اور محققین کی ضرورت مند ہے، جو اپنے ممالک کو ذہنی تصویر سازی کے قابل بنا سکیں اور اس قابل بنا سکیں کہ وہ ان روایتی اورگھسی پٹی، آلودہ اور بیہودہ تصویروں کا مقابلہ کر یں، جو امت کے خلاف دشمنی کی بنیاد بن رہی ہیں اور امریکا جو کہ سنیما کو اسلام کی منفی تصویر بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، وہ ان بنی بنائی تصویروں کازیادہ دن تک سہارا نہ لے سکے۔
ذہنی و روایتی تصویر اس بنیاد کی تشکیل کرتی ہے جس پر مغرب کے پالیسی ساز اپنی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں اعتماد کرتے ہیں، جب کہ استعماری سوچ آج بھی ہالی وُڈ کے پروڈیوسرز کے لیے بنیادی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔