ڈاکٹر عشرت حسین اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر تھے، آٹھ سال تک پاکستان کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے ڈین رہے۔ پاکستان میں بدانتظامی کے بحران پر ان کی کتابGoverning the Ungovernable سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ انھوں نے پاکستانی سیاست کے چار سے پانچ قابل منتظمین کا ذکر کرتے ہوئے کراچی کے سابق سٹی ناظم [۲۰۰۱ء-۲۰۰۵ء] نعمت اللہ خان کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :’’جماعت اسلامی کے بزرگ میئر نعمت اللہ خان ایک ايسے ایماندار فرد تھے جو مستعدی اور باقاعدگی سے زیرتکمیل کاموں کی نگرانی کرتے تھے۔ ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے میں دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے‘‘۔
۱۷دسمبر۲۰۰۴ءکو صدر جنرل پرویز مشرف نے گواہی دی:’’کراچی میں ترقیاتی کاموں کا کريڈٹ نعمت اللہ خان کو جاتا ہے۔ان کی قیادت میں شہر کا نقشہ بدل رہا ہے، ۲۹؍ارب روپے کا ’تعمیر کراچی پروگرام‘ ان ہی کا تصور ہے ، وہی اصل ہيرو ہیں۔ (جنگ،ڈان)
خوش قسمتی سے ہم نے نعمت اللہ خان کی قیادت میں ان کے چار سالہ دور (۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۵ء) کو بہت قریب سے دیکھا ہے، جس کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں :
۱-صوبائی حکومت ان کے سخت ترین مخالفین کے پاس تھی مگر نعمت اللہ خان فنڈز و اختيارات کی کمی کا رونا رونے، کسی سازش یا ماضی پر ملبہ ڈالنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ ايک انتہائی تجربہ کاراور حقیقت پسند انسان تھے،جن کی نظریں مستقبل پر تھیں۔ وہ تخریب کے بجائے تعمیر و تدبیر پر یقین رکھتے تھے۔ ساری توجہ اس بات پر تھی کہ چار سالہ دور میں ڈليور کرکے دکھانا ہے ، نظام میں رہتے ہوئے راستہ نکالنا ہے اور دستیاب سرکاري افسران سے کام لینا ہے تاکہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
۲-نعمت اللہ خان تو ۷۰ سال کی عمر میں میئر بنے، مگر جماعت اسلامی نے مختلف شعبوں کے ليے مشیروں کی جو ٹيم انھیں فراہم کی وہ ۳۵سے۴۰سال عمر کے ديانت دار اور اعلیٰ تعلیم يافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ یہی معاملہ ٹاؤن ناظمین اور یونین کونسل ناظمین کا تھا ۔ اس طرح نعمت اللہ خان نچلی سطح تک مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔
۳-ايک اچھے منتظم کی طرح انھیں کراچی کے تمام مسائل کا ادراک تھا۔ پھر مسائل کا حل اور اہل افراد کی ٹیم ان کے پاس موجود تھی مگر اصل چیلنج یہ تھا کہ وسائل کس طرح حاصل کرنے ہیں؟
یہ بات چند مثالوں کے ساتھ دیکھیے کہ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما اور سٹی ناظم نے کس طرح وسائل حاصل کیے؟ گڈ گورننس کی مثال قائم کی اور کرپشن کا خاتمہ کردیا۔
پہلی مثال:کراچی کے ٹرانسپورٹ مسائل کے حل کے لیے شہری حکومت کے پاس اربوں روپے کی میٹرو بس کا بجٹ نہیں تھا۔ انھوں نے اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغاز کیا۔ بسوں کی خریداری پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے سرمایہ کاروں کو شہر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور شہر میں۱۵سےزائد روٹس پر ۳۶۴ بڑی،کشادہ اور آرام دہ بسیں رواں ہوگئیں۔ کراچی میں پہلی بار گرین بس انھی کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ یہ تدبیر اور حسن انتظام کی ایک عمدہ مثال ہے کہ نہ قرض لینا پڑا، نہ حکومت کا سرمایہ خرچ ہوا اور عوام کو ایئر کنڈیشنڈ بسیں بھی مل گئیں۔
دوسری مثال:جماعت اسلامی کی شہری حکومت نے اس دور میں پٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی ماہانہ۷۰لاکھ روپے اور سالانہ ۸کروڑ۴۰ لاکھ کی کرپشن کا خاتمہ کیا، جس سے شہری حکومت کی آمدنی میں نماياں اضافہ ہوا اور نئے منصوبوں کی گنجایش پیدا ہوئی (۲۰۰۱ء میں پٹرول ۲۰روپے ليٹر تھا، جب کہ آج ۲۳۴روپے ليٹر ہے)۔ سوال یہ ہے کہ نچلی سطح پر یہ کرپشن کس طرح ختم ہوئی؟سابق ناظم گلبرگ ٹاؤن فاروق نعمت اللہ کے مطابق: ’’گلبرگ ٹاؤن کے حصے میں کچرا اُٹھانے کی ۱۱۰گاڑیاں آئیں، ۹۰ گاڑیاں بالکل خراب تھیں، ان کے ٹائر تک نہیں تھے۔ ان گاڑیوں کا ماہانہ بل ۲۴لاکھ روپے تھا۔ ہم نے روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنے سامنے ڈیزل بھروانا شروع کیا ،کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اس سے قبل گاڑی میں ۵لیٹر ڈالا جاتا تھا اور پرچی پر ۴۰لیٹر لکھ دیا جاتا، باقی رقم حصے داروں میں بٹ جاتی۔ صرف ۶ماہ بعد صورت حال یہ تھی کہ تمام ۱۱۰ گاڑیاں کچرا اٹھانے کے قابل تھیں اور ڈیزل کا بل ۲۴لاکھ سے کم ہوکر ۸لاکھ پر آگیا تھا۔
تیسری مثال:جب خان صاحب سٹی ناظم بنے تو بل بورڈز یا آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے سالانہ آمدنی صرف سوا دو کروڑ روپے تھی۔ بیش تر بل بورڈز کی آمدنی طاقت ور وزرا کے اکاؤنٹس میں چلی جاتی اور شہري حکومت کےہاتھ کچھ نہ آتا۔ سٹی ناظم نے آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کا شعبہ اپنے ايک ایک قابل اعتماد مشير زاہد سعید کو اس ہدایت کے ساتھ سونپ دیا کہ یہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے شہر میں ہر سال ایک فلائی اوور کا اضافہ کیا جائے گا۔ سابق یوسی ناظم اور معروف تاجر زاہد سعید کے مطابق: ’’صرف ايک سال میں آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ سوا دو کروڑ سے بڑھ کر سالانہ ۲۵کروڑ تک پہنچ گئی اور اسی آمدنی سے ایف ٹی سی کا فلائی اوور بنا اور اگلے سال پھر ۲۵کروڑ روپے جمع ہوئے۔
چوتھی مثال:کراچی میں سرکاری شعبے میں دل کا صرف ایک اسپتال تھا، اور جناح اسپتال پہنچتے پہنچتے روزانہ چھے افراد راستے میں ہی فوت ہوجاتے۔ اسی زمانے میں فیڈرل بی ایریا میں واقع کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج نارتھ ناظم آباد میں ایک بالکل نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ نعمت اللہ خان نے میڈیکل کالج کی پرانی عمارت میں ضروری تبدیلیوں اور نئی تعمیرات کے بعد جدید سہولیات سے آراستہ امراض قلب کا بڑا اسپتال کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کم خرچ اور قلیل مدت میں میں قائم کردیا۔ ۱۷۰بستروں پر مشتمل یہ اسپتال آج بھی ضلع وسطی اور شرقی کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، اگر سندھ حکومت مناسب توجہ دے۔
پانچویں مثال: پاکستان انفارمیشن ٹکنالوجی ایکسپورٹ میں اضافہ چاہتا ہے مگر انجینئرز کی تعداد کم ہے۔ماضی میں جب نجی یونی ورسٹیوں میں نہایت مہنگے بی سی ایس پروگرام شروع ہوئے تو نعمت اللہ خان نے کراچی کے چھے بڑے بوائز اور گرلز سرکاری کالجز میں جامعہ کراچی سے منظور شدہ بی سی ایس کمپیوٹر سائنس پروگرام کا آغاز کیا۔ اس طرح بلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو کم فیس پر بہترین ڈگری ملی اور یہ ہزاروں افراد ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔
چھٹی مثال:سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے بقول: ’کے تھری واٹر پراجیکٹ‘ نعمت اللہ خان نے ۶؍ارب۸۰کروڑ کے بجائے ۶؍ارب میں مکمل کیا تھا اور ۸۰کروڑ روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بچت کس طرح ممکن ہوئی؟ تب خان صاحب کے مشیر ڈاکٹر فیاض عالم صاحب نے بتایا:’کے تھری پراجیکٹ‘ کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے رقم سٹی گورنمنٹ کے پاس آچکی تھی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی ادارہ سرکاری منصوبوں پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ نعمت اللہ خان نے اس ادارے سے منسلک دو انجینئرز کو بلایا اور کہا کہ ’’یہ ہمارا پہلا میگا پراجیکٹ ہے، آپ ٹینڈر طلب کرنے کے عمل میں شامل ہوجائیں‘‘۔ ان کے انجینئرز نے جواب دیا کہ ’’ہم تو واچ ڈاگ (یعنی نگران) ہیں، ہمارا کام تو آپ پر چیک رکھنا ہے‘‘۔ سٹی ناظم نے جواب دیا: ’’اگر آپ ٹرانسپیرنسی چاہتے ہیں تو ہمارا ساتھ دیں‘‘۔ یوں خان صاحب تقریباً ایک ارب روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ منصوبہ مکمل ہوا تو کراچی کو روزانہ ۱۰۰ملین گیلن پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ ’کے تھری‘ کے بعد ’کے فور‘ آج تک نہیں بن سکا۔
ساتویں مثال: ۲۰۰۳ء میں کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں۔ نعمت اللہ خان نے کہا: ’’انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ کراچی کو ۲۰؍ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے۔ صدر مشرف نے جواب دیا: ’’آپ لینڈ سے محصول حاصل کریں‘‘۔ نعمت اللہ خان نے جواب دیا: ’’ہم شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے، ہاں ایک آئیڈیا ہمارے پاس موجود ہے‘‘۔ نعمت اللہ خان نے تجویز دی کہ کراچی میں قائم وفاقی ادارے جیسے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم اتھارٹی، پی آئی اے وغیرہ کراچی کے وسائل استعمال کرتے ہیں مگر شہر پر خرچ نہیں کرتے۔ میں منصوبوں کی نشاندہی کرتا ہوں آپ ان اداروں کو پابند کریں کہ وہ یہ منصوبے اسپانسر کریں گے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف اس تجویز پر بہت حیران ہوئے۔اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلایا گیا اور نعمت اللہ خان نے ۲۹؍ارب روپے کے پیکج کی پوری تفصیلات اور منصوبے شرکا کے سامنے رکھے۔ پیکج کے تحت ۱۴؍ارب روپے وفاقی اداروں،۶،۶؍ ارب روپے شہری اور سندھ حکومت، جب کہ تقریباً ۲؍ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے ۔ یہ پروگرام کراچی کے لیے تبدیلی کا انجن ثابت ہوا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ایک انقلاب آگیا۔ کراچی میں انڈرپاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری کوریڈورز بنے تو ٹریفک جام کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوگیا ۔
آٹھویں مثال: تعلیم کے شعبے میں لائی گئی اصلاحات کا فائدہ یہ ہوا کہ چار سال کی مدت میں اے ون اور اے گریڈ میں میٹرک کرنے والے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی تعداد ۱۵۰سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی،جب کہ ۳۲کالجوں کی تعمیر بھی مکمل ہوئی۔
مندرجہ بالا مثالیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک باصلاحیت ایڈمنسٹریٹر کی قیادت میں کس طرح اہل اور دیانت دار ٹیم تمام تر رکاوٹوں کے باوجود، شور شرابے اور ہنگامے کے بجائے تدبیر کے ذریعے راستے بناتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس طرح چار سال میں کراچی کا بجٹ ۶؍ارب روپے سے ۴۳؍ ارب روپے تک پہنچایا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں انقلاب لے آئی۔
نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم نے اس دور میں ثابت کیا کہ صرف کرپشن میں کمی لے آئیں تو آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے بلکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ چار سال میں سیکڑوں پارکس بنائے مگر کسی پر انٹری فیس نہ رکھی۔ سٹی گورنمنٹ کے ماتحت تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم رائج تھی جو آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی۔ نعمت اللہ خان نے سیلف فنانس اسکیم ختم کرکے اوپن میرٹ کا نظام قائم کردیا۔ وہ چار سال میئر کراچی رہے مگر ایک دن بھی سرکاری رہائش گاہ میں نہ رہے… ان کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اپنی تنخواہ نہیں نکلواتے تھے اور بلدیہ کی نظامت ختم ہونے کے بعد چار سالہ تنخواہ زلزلہ متاثرین فنڈز میں جمع کرا گئے تھے۔
درحقیقت، نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم کی کامیابی کی بنیادیں بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی رکھ کر گئے تھے، جنھوں نے لکھا ہے: ’’اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوؤں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا ۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں‘ اور ’ صالح انفرادی سيرتیں‘ موجود ہیں يا نہیں ۔ کاغذی نقشوں کی غلطی تو اللہ کی توفیق سے ’علم‘ اور ’تجربہ‘ ہر وقت رفع کرسکتا ہے لیکن ’صلاحیت‘ اور’صالحیت کا فقدان‘ سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا‘‘۔