کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے نئے چیلنج سامنے لے کر آتا ہے، لیکن اس بار یورپ اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال میں یہ دورہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اس امکانی دورے کو خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ’ذرا مختلف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ’اب یا کبھی نہیں‘ والی سوچ کارفرما ہے۔
اس ارضی خطے کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور امریکا بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔
روسی فیڈریشن ایک نئے دور کی ابتدا کرچکی ہے، جس کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کا بچنا آسان نہیں ہے۔ چین کی اقتصادی میدان میں عالمی پیش رفت کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر بھی آگے بڑھنے کے رجحانات براہ راست امریکی پریشانی کا اہم سبب ہے۔
افغانستان سے جس ڈھب سے امریکی فوجی انخلا پچھلے سال مکمل ہوا تھا، اس کا بھی دبائو ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکی اثر ورسوخ کو کم ہونے سے روکنے کے لیے نئے بندوبست کو ممکن بنانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کریں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس میں ضروری سرعت نہیں دکھائی جا سکی۔ افغانستان سے اس انداز میں نکلنے کے بعد جو دھچکا امریکا کو سہنا پڑا ہے، اس کے ازالے کی کوشش کے علاوہ خود جو بائیڈن کی اور ان کی جماعت کی ساکھ اور صلاحیت ِ کار پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔
اس پس منظر میں برطانیہ کے نئے فوجی سربراہ جنرل پیٹرک سینڈر کا یہ بیان: ’’۲۴ فروری کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘‘، صرف برطانیہ کے لیے ایک بڑے انتباہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ امریکا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
جوبائیڈن اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کو مزید نیچے آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہے ہیں۔ رواں برس ماہ نومبر میں امریکا میں وسط مدتی انتخابات ان کی جماعت کے لیے ایک اندرونی، فوری اور بڑے چیلنج کے طور پر سامنے ہیں۔ ان انتخابات میں بُرے نتائج سے جوبائیڈن کی صدارت کے معنی ہی بدل جائیں گے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس میں داخلے سے قریب تر ہو جائیں گے۔
ان حالات میں بائیڈن چاہتے کہ ہیں کچھ فوری نوعیت کے ’مفید‘ کام ممکن ہو جائیں یا ان میں نظر آنے والی پیش قدمی ہو۔ اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انھیں اچھے لگتے تھے، یا نہیں، مگر اس وقت وہ ان کے لیے اتنے ہی اہم ہو چکے ہیں، جتنے کہ محمد بن سلمان کے لیے خود صدر بائیڈن اہم ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کو ہر طرح سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے سعودی ولی عہد سہ ملکی دورے پر نکلے، جس میں مصر، اردن اور ترکیہ میں اہم ملاقاتیں اور مشاورتیں پیش نظر ہیں، تاکہ بڑے فیصلوں میں اکیلے آگے نہ بڑھیں، دوسروں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔
اسی دوران میں سعودی ولی عہد کے سہ ملکی دورے سے ایک روز قبل سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیونی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے سعودی شاہی خاندان کی اہم شخصیت شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل ماضی میں اسرائیل کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران سے اُبھرنے والے ’خطرات‘ پر بھی ان کی نظر ہے۔ ایرانی جوہری اور ڈرون پروگرام کو سمجھنے اور اس پر رائے کے حوالے سے شہزادہ فیصل، امریکا اور اسرائیلی خدشات میں یکسانیت کا پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں، جب کہ یمن، لبنان، عراق اورشام میں ایرانی اثرات کے مظاہر بھی روز افزوں ہوں۔
لہٰذا، بعض اہل الرائے اس تصویر کے بنائے جانے اور سامنے لانے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے۔ اس تصویر کے ٹویٹ ہونے کے فوری بعد میڈیا نے اسے جتنی اہمیت دی ہے، وہ بھی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ گویا دو اہم سعودی واسرائیلی شخصیات کی یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی چغلی کھاتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک: ’’یہ ایک تصویر نہیں ہے، بلکہ جوبائیڈن کے دورے کا عنوان ہے‘‘۔
یہ ’مفروضاتی عنوان‘ اس حقیقت کے باوجود بڑا اہم ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، عبوری حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے اور اکتوبر تک نئے انتخابات یقینی نظر آرہے ہیں۔
لیکن دو باتیں اور بھی بہت اہم ہیں۔ جس طرح امریکا کے بارے میں یہ معروف بات ہے کہ اس کی حکمت عملی ریاستی نوعیت کی ہوتی ہے، حکومتی انداز کی نہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف بھی ایسے ہی ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت یا فرد کی ہو، اسرائیلی اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا، امریکا کی داخلی ضرورتوں اور عالمی مسائل کے ساتھ اسرائیل، مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکیہ کے بڑے ایوانوں کی درون خانہ سرگرمیوں کو نکتے ملانے والی ایک سرگرمی کے طور پر ہی لے لیا جائے تو یہ کھیل کافی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کھیل کئی ممالک اور ان کے موجودہ حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کا بھی تقاضا ہے۔
ایک دو حوالے خود وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بھی دستیاب ہیں:
ایک تو یہ کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ایک صحافی کا حالیہ دورۂ اسرائیل، اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کے زیرکمان ان کی سیاسی جماعت کے ایک اہم اور کاروباری شخصیت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا تفصیلی بیان۔ پاکستان کی مخلوط حکومت کی طرح اسرائیل میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس کی اکثریت نقش بر آب کی طرح ہے۔ بدترین معاشی صورت حال میں امریکا اور آئی ایم ایف سے تقاضے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے توقعات بھی ایک مشترکہ منظر پیش کرتی ہیں۔
پاکستان میں کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہی نہیں، ماہ نومبر میں ’اہم فیصلوں‘ کی ایک عرصے سے جاری بحث بھی موجود ہے۔ اگر اس سب کچھ کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کے رجحانات اور حالات کا بننے والا ہیولا مذکورہ بالا منظر نامے سے قریب تر نظر آتا ہے۔
’گلوبل ویلیج‘ کا حصہ ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کو تعاون دینا تو لازم ہوتا ہی ہے، خصوصاً جب حالات یہ بن چکے ہوں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مشکلات میں گھرا ہوا اور فطری طور پر کمزور بھی سمجھنے لگا ہو۔ ایسے میں سب ایک دوسرے کے تعاون کے متلاشی بھی ہوتے ہیں اور تعاون ’بارٹر‘ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا دُور کی کوڑی لانا ہر گز نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اہم فیصلوں کا امکان غالب ہے، جو صرف سعودی عرب یا عرب دُنیا کے حوالے سے نہیں، بلکہ بعض دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فیصلے حتمی نوعیت کو نہ چھو پائیں، مگر اصولی فیصلوں یا ابتدائی فیصلوں کے درجے میں ضرور شمار ہوں گے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سب فریق ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر چلنے پر بھی متفق ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں اسی سمت بڑھنے کے لیے بڑے فیصلوں کی خاطر مقامی سطحوں پر مزید تبدیلیوں کے امکانات پیدا کر کے مشرق وسطیٰ کو بھی بدلنے کی راہ مزید ہموار کریں گے۔
مشرق وسطیٰ پہلے ہی ’تبدیلیوں‘ کے اس راستے کا راہی بن چکا ہے۔ ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کے اشاروں سے بات آگے نکل چکی ہے جسے یہاں تک لانے میں ’لالچ اور دھمکی‘ کی امریکی حکمت عملی کو گہرا دخل حاصل ہے۔ یہ پالیسی نئے حالات میں کبھی ایک ملک کے لیے اور کبھی دوسرے ملک یا کسی شخصیت کے لیے بروئے کار رہ سکتی ہے۔