منصور جعفر‎


 اب تک۳۲ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں دو تہائی تعداد میں فلسطینی خواتین اور بچے شامل ہیں۔اسرائیل کو مغربی دنیا میں ہونے والے مظاہروں کی پروا ہے نہ ۵۷رکنی ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا کوئی دبائو۔ وہ پوری طرح دولت و ثروت اور قوت و سلطنت کے حاملین سے بےنیاز ہے۔ اسی سبب رمضان المبارک کے دوران بھی اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کرنے سے انکار اور رفح پر جنگی یلغار کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ صرف یہی نہیں غزہ کے ۲۳لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے لیے رمضان المبارک میں بھی خوراک اور ادویات تک کی فراہمی میں حائل بے رحمانہ رکاوٹوں کو ہٹانے تک کے لیے تیار نہیں ہوا۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس حد تک کہہ کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ ’غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے،‘ مگر تاحال سلامتی کونسل کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے۔

نہ صرف یہ کہ غزہ میں اسرائیل نے اشیائے خورد و نوش کی ترسیل رمضان المبارک میں بھی روکے رکھی بلکہ فلسطینیوں کو سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران کسی بھی وقت بمباری کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی میزائل اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور سنائپرز کا استعمال بھی جاری رکھا اور غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بناکر رکھ دیا ہے۔ واضح طور پر اسرائیل کا اعلان ہے ’کر لو جو کرنا ہے، میں اسرائیل ہوں! جو چاہوں گا کروں گا‘۔اس بہیمانہ طرزِ ریاست نے پورے خطے ہی نہیں عرب و عجم میں پھیلی مسلم دُنیا کو ایک سانپ کی طرح سونگھ کر چھوڑ دیا ہے۔

بات غزہ میں ملبے کے ڈھیراور چند بچے کھچے بے چراغ گھروں کی ہو رہی تھی۔ یہ درمیان میں ’راکھ کے پرانے چلے آ رہے ڈھیر‘ کا ذکر آ گیا۔ واپس اسی بےچراغ اور تاراج غزہ کی گلیوں کی طرف چلتے ہیں جہاں موت و حیات کی کش مکش جاری ہے، مگر اہل غزہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ رہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ نہ ان کے عزم کو کمزور کر سکی ہے اور نہ اُمید کو مایوسی میں بدل سکی ہے۔اس عزم اور امید کا تازہ اظہار رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ غزہ اور اس سے جڑے فلسطینی علاقوں، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس بشمول مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی جبر کے سائے گہرے اور سنگین پہرے ہیں، اس کے باوجود غزہ میں گھروں کے ملبے پر بھی اہل غزہ نے علامتی طور پر ہی سہی رمضان المبارک کا استقبال کیا۔

روایتی انداز میں غزہ کے فلسطینیوں نے رمضان کی آمد پر اپنے اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیروں پر بھی سجاوٹی جھنڈیاں لگائیں اور چراغاں کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہہ یہ جھنڈیاں اور یہ چراغاں وسیع پیمانے پر نہیں، مگر یہ ان کی اللّٰہ کی رحمت و نصرت اور برکت سے اُمید کا غیر معمولی اظہار ضرور ہے۔

ایک ایسا اظہار جس سے صاف لگ رہا ہے کہ جس طرح فلسطینی روایتی طور پر اپنی اگلی نسلوں کو اپنے ’حق وطن واپسی‘ کی علامت کے طور پر ’کنجیاں‘ منتقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس رمضان المبارک کی آمد کے موقعے پر بھی اپنے پُرجوش جذبے کا حتی المقدور اور روایتی اظہار کرکے انھوں نے اپنی اگلی نسلوں کو رحمتِ خداوندی سے جڑے رہنے کا سبق اور بےرحم دنیا کو پیغام دیا ہے: ’مایوس نہیں، پُرامید اور پرعزم ہیں ہم‘۔

غزہ کے فلسطینی بدترین جنگ میں اپنے بہت سے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ چھتوں سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیا تک سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ امید اور حوصلے کا دامن چھوڑ دینا ان کا شعار نہیں ہے۔

ان فلسطینیوں کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کے قبلہ اول کے امین اور متولی ہونے کے ناتے وہ مسجد اقصیٰ کے لیے بھی تمام تر مشکلات کے باوجود بلا کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ آج بھی ارضِ فلسطین کو معراج کی سرزمین کے طور پر عقیدت و محبت سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اس کے تحفظ اور مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے اپنی زندگیوں کی ہی نہیں بچوں کی جانیں تک قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے گرد لگے اسرائیلی فوجی پہروں کو بار بار توڑتے ہیں۔ خصوصاً رمضان المبارک میں یہاں جوق در جوق پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ خود آتے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کو ساتھ لاتے ہیں۔ فلسطینی خواتین اس سلسلے میں مردوں سے کسی بھی طرح پیچھے رہنے والی نہیں ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے غزہ کی چھٹے ماہ میں داخل اسرائیلی جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں جانیں پیش کر کے بھی ثابت کیا ہے۔

یہ فلسطینی خواتین ’المرابطات‘ کی صورت رمضان المبارک میں مسجد اقصیٰ آ کر تلاوت و نوافل کا اہتمام کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ افطاری کے اوقات میں حرمِ اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے لیے سامان افطار کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔گویا تمام تر اسرائیلی پابندیوں کے باوجود رمضان المبارک میں بطور خاص مسجد اقصیٰ کا آنگن رحمتوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ فلسطینیوں کے پورے پورے گھرانے رحمت و برکت اور اسرائیلی عذاب سے نجات کی تمناؤں کے ساتھ اپنی جانوں پر کھیل کر یہاں پہنچ کر تلاوت و تراویح اور اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں۔

فلسطینی عوام اپنی اس روایت کو اس رمضان المبارک میں بھی تمام تر اسرائیلی رکاوٹوں اور جنگی قہر سامانیوں کے باوجود جاری رکھنے کے لیے تیار رہے۔ وہ مسجد اقصیٰ جسے اسرائیل کھنڈر میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے، آباد رکھنے کی کوشش میں رہتے ہیں، اس پر چراغاں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسرائیل ایک عرصے سے مسجد اقصیٰ میں ۴۰ سال سے کم عمر کے فلسطینیوں کے داخل ہونے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں کو اجازت بھی انتہائی محدود تعداد میں دی جاتی ہے۔ جگہ جگہ ناکے، چوکیاں، جامہ تلاشیاں اور پہرے اسرائیلی ریاست کی سالہا سال سے امتیازی شناخت بن چکے ہیں تاکہ مسلمان مسجد اقصیٰ میں نہ جا سکیں۔

رمضان المبارک سے پہلے بھی یہ پابندیاں اور رکاوٹیں پورا سال موجود رہتی ہیں، لیکن رمضان المبارک میں مزید سخت کر دی جاتی ہیں۔ یہودی بستیوں میں گھرے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج، پولیس اور یہودی آبادکاروں کو مسجد اقصیٰ کی طرف آنے والے مسلمانوں کو روکنے کے لیے بےرحمی سے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سال نتن یاہو کے انتہا پسند اتحادی بن گویر نے بیان دیا ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت دینے کا رسک نہیں لے سکتے۔لیکن حقائق نے بتایا یہ سوچ غلط ہے کہ اہل فلسطین بھی ہماری طرح کے دیگر مسلمانوں کی طرح تذبذب میں پڑ کر رُک جائیں گے، چپ ہو کر بیٹھ جائیں گے، خوفزدہ ہو جائیں گے یا سمجھوتہ کر لیں گے۔ صیہونیوں کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا، اور مسلمان مردوزن پروانوں کی طرح، مسجد اقصیٰ کی طرف کھچے چلے آئے۔

غزہ میں اتنی وسیع پیمانے پر تباہی اور بڑے پیمانے پر اموات کے بعد بھی اگر فلسطینی بھائی رمضان المبارک کی آمد پر اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر جھنڈیاں لگاتے اور چراغاں کرتے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ مسجد اقصیٰ کے لیے اسرائیلی ایجنڈے کی راہ ہموار کرنے میں وہ بھی دوسروں کی طرح سہولت کار اور معاون بننے کے الزام کی کالک اپنے منہ پر ملیں؟ رمضان المبارک تو رحمت، برکت و نصرت کا مہینہ ہے۔ اس میں قرآن نازل ہوا تھا۔ اس میں تو اللّٰہ کے فرشتوں اور روح الامین کی آمد ہوتی ہے۔ فرشتے نصرت لے لے کر آتے ہیں، اس لیے کوئی تیل بھیجے نہ بھیجے، وہ تو اپنے خون سے بھی مسجد اقصیٰ کے چراغوں کو روشن رکھیں گے۔

خواہ ان کے سحر وافطار کے دستر خوان، ان کے اڑوس پڑوس اور دور و نزدیک کے آسودہ حال مسلمانوں کے دستر خوان انواع واقسام کے کھانوں سے محروم رہیں، کہ وہ اب پرندوں کی خوراک اور جانوروں کے چارے یا درختوں کے پتوں پر گزارا کرنے کے عادی ہورہے ہیں۔

جنگ بندی کا نہ ہونا اور ناکہ بندیوں کا ہونا، اب ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ انھیں یقین کی دولت مل چکی ہے کہ اصل روشنی تو خونِ جگر سے جلائے جانے والے چراغوں سے ہوتی ہے، کہ جنھیں حق نے دیئے ہیں اندازِ خسروانہ!

ایران اور امریکا نے حالیہ دنوں میں طے پانے والے ایک پیچیدہ معاہدے کے تحت اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدی شہریوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاہدے پر یہ اتفاق رائے دونوں ملکوں کے درمیان بالواسطہ (indirect) مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ جس کے تحت تہران کو امریکی ایما پر منجمد کیے جانے والے چھ ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں تک دوبارہ رسائی ملنے کا امکان بھی پیدا ہوا ہے۔ امریکا اور ایران اپنی سطح پر محدود مقاصد کے حامل’ قیدیوں کے معاہدے‘ کو تبدیلی کے ایک بڑے قدم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہیں۔

معاہدے کی خبر شائع ہوتے ہی تہران میں قید پانچ امریکی شہریوں کو ’ایون جیل‘ سے نکال کر نامعلوم مقام پر ہوٹل کے الگ الگ کمروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔جیل سے رہائی کے بعد ہوٹل میں نظربند کیے جانے والوں میں تاجر صیامک نمازی، عماد شرجی اور ماہر ماحولیات مرادطہباز شامل ہیں، جو برطانوی شہری بھی ہیں۔ اسی طرح امریکا میں قید ایرانیوں کو بھی رہائی کا پروانہ جلد ملنے والا ہے۔

اس پیش رفت کے باوجود ایران پر امریکی پابندیاں اور فریقوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پہلے کی طرح برقرار ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ اہم سیاسی پیش رفت ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار اسے ۲۰۱۵ء میں امریکا اور ایران کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے پر نظرثانی کے لیے بنیادی کام قرار دے رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے دُور رس نتائج کا حامل کوئی نیا معاہدہ سامنے آنے والا ہے؟ کیا یہ معاہدہ دیرینہ دشمن ملک سے تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے؟

یاد رہے ’قیدیوں کا معاہدہ ‘ تہران اور واشنگٹن کے درمیان خلیج کے علاقے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں طے پایا۔خلیج میں تجارتی جہازوں کی نقل وحمل کی نگرانی کے لیے امریکا نے اپنے ہزاروں فوجی خطے میں تعینات کر رکھے ہیں، تاکہ ایران کو بین الاقوامی تجارتی جہازوں کو ہراساں کرنے سے باز رکھا جا سکے۔

ایران کو قطر اور عمان جیسے اہم علاقائی ملکوں کا اعتماد بھی حاصل ہے، جو منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی کے لیے بطور چینل استعمال ہوں گے۔ ایران کو روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔سعودی عرب کے ساتھ ایران کے دیرینہ کشیدہ تعلقات، چین کی ثالثی کے بعد کافی حد تک معمول پر آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اپنے مستقل سفارتی رابطے کو یقینی بنا لیا ہے۔

تاہم، امریکی وزیرخارجہ اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں:’’امریکا میں ایران کے غیر منجمد اثاثوں کو صرف انسانی ضروریات یعنی ادویہ اور خوراک کی خریداری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ حالانکہ ادویہ اور خوراک کی خریداری پہلے بھی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ تھی۔

اس صورت حال کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان ۲۰۱۵ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کا امکان پیدا ہوا ہے، تاہم امریکی حکومت ردعمل اور خجالت کے ڈر سے بار بار اس امر کی تردید کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔

امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کے بقول: ’جوہری معاہدے کی طرف واپسی یا اس سے متعلق مذاکرات نہ امریکا کی ترجیح ہیں اور نہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کی شرائط میں یہ بات شامل تھی۔‘

تہران نے ’مشترکہ جامع منصوبۂ عمل معاہدے‘ کے تحت اس شرط پر جوہری پروگرام میں کمی لانے پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ ’’اگر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں‘‘۔  مگر ۲۰۱۸ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جوہری معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اگرچہ اُن کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی میں دلچسپی تو ظاہر کی ہے، تاہم اس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں فریقوں کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

  • معاہدے کا زمانہ:امریکا اور ایران کے درمیان قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدہ راتوں رات وجود میں نہیں آیا۔ ایک مدت سے دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر مذاکرات جاری تھے، تاہم، بائیڈن حکومت بوجوہ اسے حتمی شکل دینے میں تاخیری حربوں سے کام لیتی رہی۔ معاہدے کے حتمی اعلان کے بعد ایک طرف ایران کے امریکا اور امریکا کے ایران میں قید شہریوں کے اہل خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دوسری جانب اس معاہدے سے جنوبی کوریا اور عراق بھی خوش دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ انھیں اس طرح تہران کو واجب الادا رقوم کی ادائیگی کا ایک راستہ مل رہا ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے دونوں ملک یہ رقم ایران کو فراہم کرنے سے قاصر چلے آ رہے تھے۔

قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق لائحہ عمل میں کچھ دوسرے ملک بھی ملوث ہیں۔ معاہدے کے لیے کئی برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو جاری تھی، لیکن اسی دوران میں تہران نے ایک اور امریکی شہری کو یرغمال بنا کر واشنگٹن کا اعتماد مجروح کیا۔

اس پیش رفت نے امریکا کو تذبدب کا شکار کر دیا کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کے ذریعے تہران کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ واشنگٹن کو خدشہ تھا کہ تہران منجمد اثاثے واپس ملنے کے بعد انھیں ’سپاہ پاسداران انقلاب‘ کے لیے ہتھیار خریدنے میں استعمال کرے گا، جس سے خطے میں تہران کے خفیہ پروگراموں کو قوت ملے گی۔

دوسری جانب امریکا کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو جوہری معاہدے سے متعلق گفتگو کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دراصل علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا کو کم کرنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ کسی بڑی جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہے۔ایران کو اپنی معیشت بچانا تھی اور امریکا کو جنگ سے گریز کی پالیسی میں عافیت دکھائی دیتی تھی۔ ایران نے چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے مذاکرات کا ڈول ڈالا، تو اس کے بعد تہران کے پاس امریکا کے ساتھ مذکرات سے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں تھا۔

  • ایران میں فوجی بغاوت:ماہ رواں کے دوسرے عشرے کے اختتام پر ایران میں محمد مصدق حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سی آئی اے کی واردات کو ۷۰ برس مکمل ہو جائیں گے۔ اس بدنامِ زمانہ بغاوت کو کامیاب بنانے میں ایرانی شہریوں نے امریکی سی آئی اے کو مدد فراہم کی تھی۔ سی آئی اے کی جاری کی گئی دستاویزات میں اس بات کا باضابطہ اعتراف ریکارڈ کا حصہ ہے:’’ ۱۹۵۳ء میں سی آئی اے نے مصدق حکومت کا تختہ اُلٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا‘‘۔ ان دستاویزات میں لکھا ہے: ’’ایران میں فوجی بغاوت، امریکی خارجہ پالیسی کے ایک عمل کے طور پر سی آئی اے کی ہدایت پر کی گئی تھی‘‘۔

امریکی جاسوس دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن کی ایران دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس وقت ایرانی ہوٹل میں نظر بند امریکی شہریوں میں کتنے جاسوس ہیں یا نہیں؟ اس بحث میں اُلجھے بغیر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے روس، ایران اور چین کو کئی برسوں سے اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔

ماضی میں بھی حکومتی تبدیلی کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تہران مشتبہ غیرملکیوں کو ’یرغمال‘ بنانے کی پالیسی پر عمل کرتا چلا آیا ہے۔ ایران کے پانچ شہری بھی امریکی جیلوں میں قید ہیں۔ سی آئی اے کا الزام ہے کہ ان گرفتار ایرانیوں نے امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔

ایران سے ’جوہری معاہدے‘ کو معطل کر کے امریکا نے ایران پر جن پابندیوں کا دوبارہ احیا کروایا، امریکی فہم کے مطابق آج تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ دُنیا کے سامنے نہیں آیا ہے۔ تہران کی پالیسیاں جوں کی توں برقرار ہیں اور ان پابندیوں نے ساڑھے آٹھ کروڑ ایرانیوں کو گوناگوں مسائل سے دوچار کیا ہے۔

قیدیوں کی رہائی اور ’جوہری معاہدے‘ سے متعلق مذاکرات کا آغاز حالیہ دنوں میں طے پانے والے ’قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ‘ کا ایک انتہائی چھوٹا حصہ ہے، جس پر اذیت پسند امریکا نے تہران پر اپنی اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا اعلان کر کے ایران کی خوش گمانی کو ایک مرتبہ پھر گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ کہتے ہیں:’’میں بوجھل دل کے ساتھ [اسرائیلی وزیراعظم] نتن یاہوکے ہمراہ سیکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سدِ جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔

کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ’ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘

یائر لاپیڈ کے فکر انگیز موقف کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں: پہلا یہ کہ اسرائیل کیا واقعتاً اپنی سدِجارحیت کی حیثیت کھو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امریکا کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟

ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔

یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکا کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے،جب کہ مغربی ممالک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔لیکن اب یہ ممالک بھی سمجھ چکے ہیں کہ امریکا، مشرق وسطیٰ سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز ۲۰۱۲ء میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔

سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ارتکاز مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ ۲۰۱۲ء سے صدر اوباما نے Pivot to Asia پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں  خاص طور پر اس وقت تیزی آئی، جب فروری ۲۰۲۲ء میں روس- یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔

دکھائی دیتا ہے کہ عرب دُنیا کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہاں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے میں نہیں جتنی واشنگٹن نے ۲۰۰۳ءمیں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی تھی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔

اب ہم پہلے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سدِجارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقت ور ضرور ہے، جتنا وہ مئی ۲۰۲۱ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت تھا۔دراصل یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔

گذشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا، مگر اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیونکہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر ابھر رہا ہے۔

حزب اللہ، اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری جانب حالات معمول پر لانے کے شوروغل میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔

رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی(اسلامی تعاون تنظیم)، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اس تبدیلی کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، مسلم اور مغربی ممالک خاموش نہ رہ سکے۔

قبلۂ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ ردعمل بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔یاد رہے کہ اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ۹۰ فلسطینی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہادت پاچکے ہیں، مگر مزاحمت میں کچھ کمی نہیں آرہی۔

اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ بدحواسی میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح فخریہ انداز سے امریکا خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔

عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔

ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کا نیا آہنگ اور نغمہ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر ۶؍ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔

چین، اب مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے لیے محال ہے کہ اس جال سے جلد نکل آئے کیونکہ امریکانے اسرائیل نوازی کی رفتار میں کچھ ٹھیرائو پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں خود امریکا سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔

گذشتہ ماہ سے فلسطین کے قدیمی، تاریخی اور مزاحمتی روایات کے حامل شہر نابلس میں اسرائیلی قابض فوج نے سنگین ترین محاصرے کا آغاز کیا ہے۔رومی حکمرانوں کے دور میں قائم کیے گئے فلسطینی شہر نابلس کی کئی حوالوں سے شناخت ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان آباد ہے۔ ایک زرعی شہر ہے۔ زیتون کے باغوں سے سرسبز و شاداب ہے۔ ڈیڑھ دو لاکھ کی آبادی کے اس شہر کی ایک شناخت یہ بھی رہی ہے کہ یہ بیرون ملک سے لا کر مسلط کردہ قوتوں کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنتا رہا ہے۔

 نابلس کے آزادی پسند فلسطینیوں سے برطانوی قبضہ کاروں کو بھی مسائل رہے ہیں۔ آج امریکی سہولت کاری سے قائم ناجائز اسرائیلی قابض حکومت کے فوجی بھی اس شہر کے لوگوں سے خوش نہیں۔ اس لیے نابلس کے باسیوں کو اسرائیلی قابض فوج نے اور اس کے باغوں کو بیرونِ ممالک سے اکٹھے کیے گئے یہودی آباد کاروں نے ہمیشہ نشانے پر رکھا ہے۔

اسی سبب گذشتہ ماہ کے پہلے عشرے سے نابلس کا محاصرہ جاری ہے۔ اس دوران کئی فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے اور نابلس شہر کے باسیوں کے خلاف اسرائیلی قابض فوج کی کارروائیاں ہیں کہ مسلسل جاری ہیں۔گھروں سے نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ چوک چوراہوں پر گولی چلائی جاتی ہے۔ زہریلی آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا جاتا ہے۔ بے گناہوں کو جیلوں میں نظر بند کیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی ذرائع ابلاغ اور عالمی ضمیر دونوں ہیں کہ چین کی نیند سو رہے ہیں۔ جیسے یہ ’گلوبل ویلج‘[عالمی گائوں] کے نہیں ایک عالمی قبرستان کے مکین ہوں۔

نابلس سے ۱۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ کی پٹی ہے۔ ۲۰ لاکھ کی آبادی کی یہ بستی، بستے بستے بسنے والی اور بس بس کر اُجڑنے والی ایک فلسطینی بستی اسرائیلی قابض فوج کے ظالمانہ اور معلوم تاریخ کے طویل ترین محاصرے کی ایک مثال ہے۔ غزہ کے فوجی محاصرے کو ساڑھے ۱۵سال ہونے کو آئے ہیں۔ غزہ کے تین اطراف میں خشکی پر اسرائیلی فوجی ناکوں اور چیک پوسٹوں میں ہمہ وقتی گشت اور پہروں کی صورت موجود ہوتے ہیں، جب کہ چوتھی جانب سمندر میں اسرائیلی بحریہ کا محاصرہ موجود ہے۔ پھر فضائی نگرانی کے ہمہ وقت اہتمام کے علاوہ اسرائیل جب دل چاہے بم باری بھی کر لیتا ہے، تاکہ خوف کی کیفیت یہاں کے بچوں اور عورتوں پر ہروقت مسلط رہے۔

محاصرے کے ان مسلسل ساڑھے پندرہ برسوں نے غزہ کو دنیا کی ایک بدترین کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اس کھلی جیل کا کسی ایک آدھے حوالے سے اگر کوئی تقابل ہو سکتا ہے تو وہ جنت نظیر وادیٔ کشمیر ہے۔ جنت ارضی کشمیرپر بھی پچھلے کئی عشروں سے سات لاکھ سے زیادہ بھارتی افواج نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہ بھی ایک کھلی جیل ہے۔

حالیہ برسوں کی ایک مثال برما کے روہنگیا مسلمانوں کی صوبہ اراکان بھی رہی ہے کہ انھیں بھی اسی طرح گھیر کر مارا گیا اور ان کے حالات میں ابھی تک کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تاہم، غزہ کا معاملہ کئی حوالوں سے دیگر سب محاصروں سے زیادہ خوفناک اور المناک ہے۔ یہ ایک ہی بستی ہے۔ اس بستی کا رابطہ ہر دوسری بستی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ اس میں خوراک کی ضروریات سے لے کر لباس، رہایشی حاجات اور ادویات سمیت تقریباً ہر چیز کا انحصار دوسری جگہوں سے آنے پر ہے، جو مکمل ’بلاکیڈ‘ (محاصرے)کی وجہ سے ممکن نہیں رہا ہے۔

اس متواتر ’محاصرے‘ کی وجہ سے ۲۰ لاکھ کی آبادی میں سے کم از کم ۱۰ لاکھ کی آبادی کو صبح و شام سادہ سی خوراک بھی میسر آنا آسان نہیں رہا ہے۔ بھوک و افلاس اور خوراک کی قلت کے شکار ان اہل غزہ کے لیے ان کے اڑوس پڑوس کے لوگوں سمیت دنیا بھر کے انسانی حقوق اور عالمی برادری کے سب نعرہ باز، ظالمانہ حد تک خاموش ہیں۔

غزہ کے مسلسل اسرائیلی فوجی محاصرے کی وجہ سے یہ بستی عملاً بیروزگاروں کی غالب اکثریت کی بستی بن چکی ہے۔ غزہ سے باہر مزدوری کے لیے جانے کے حق سے بھی اہل غزہ کومحروم کر دیا گیا ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے بھی غزہ سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علاج معالجے کے لیے کسی ہسپتال اور مناسب علاج گاہ تک پہنچنا غزہ کے مکینوں کے لیے ناممکن ہے۔

صرف یہی نہیں، ان ساڑھے پندرہ برسوں کے دوران پانچ مرتبہ اسرائیل کی طرف سے دنیا کی اس کھلی جیل پر جنگی جارحیت مسلط کی جا چکی ہے۔ بار بار غزہ کے ٹوٹے پھوٹے ہسپتالوں اور ادھورے تعلیمی اداروں کو بمباری کا نشا نہ بنایا جا چکا ہے۔ گویا مہذب دنیا کی قیادت کرنے والی  نام نہاد ’مہذب‘ اور ’انسان دوست‘ عالمی طاقتوں کے سامنے ان فلسطینیوں کو باندھ کر مارا جا رہا ہے۔ دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے کہ اسرائیل اس محاصرے کو ختم کر دے گا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ رفاہ کی راہداری ان اہل غزہ کے لیے اس محاصراتی زندگی میں سانس لینے کی واحد صورت ہے۔ اسے بھی مصر کے آمرمطلق جنرل سیسی جب چاہے بند کر دیتا ہے۔ بلاشبہہ اسرائیل سے دوستی اور محبت و سفارت کا بانی ہونے کی وجہ سے مصر کو اپنے دوست اسرائیل کے لیے وفا شعاری کا تقاضا نبھانا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے ادارے ’انروا‘ کی دو سال سے سرگرمیاں مالی مشکلات کی وجہ سے محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ’انروا‘ غزہ میں زیر محاصرہ انسانوں کے لیے ایک سہارا بن گیا تھا۔ یہ تعلیم و صحت کے معاملات میں بھی متحرک ہو گیا تھا۔ اس لیے غزہ پر جنگی جارحیت کے دوران غزہ کے تمام شہریوں کی طرح یہ ’انروا‘ بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

امریکا نے اقوام متحدہ کی امداد بند کر کے اس کا گلا بھی گھونٹ دیا ہے۔ اسرائیل کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی موجودگی بھی تکلیف دیتی ہے، جب کہ ’انروا‘ ان فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے لگا تھا۔

غزہ کی آبادی پر مسلسل فوجی محاصرہ ہونے کی وجہ سے اس کی پندرہ سال تک کی تقریباً ۴۵فی صد آبادی نے اسی محاصرے کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔ یہ ۴۵ فیصد آبادی نہیں جانتی کہ غزہ کے باہر کی فلسطینی بستیاں اور دُنیا کیسی ہے؟ اگر یہ اسرائیلی محاصرہ اگلے پندرہ سال بھی جاری رہتا ہے تو بلاشبہہ غزہ کی آبادی کا ۶۰فی صد سے زیادہ حصہ وہ ہو سکتا ہے، جسے غزہ کی اس جیل سے باہر نکلنے ہی نہ دیا گیا ہو گا۔

اسرائیل کا منصوبہ پورے فلسطین کو جیل بنا دینے اور سارے ہی فلسطینی عوام کو اس طرح قید کر رکھنے کا ہے۔ اسی مقصد کے لیے ۲۰۰۲ء میں اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقے میں ایک دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ ۷۰۸کلومیٹر تک پھیلی دیوار ہے، جس نے مغربی کنارے اور یروشلم کے درمیان بھی رخنہ و رکاوٹ پیدا کی ہے اور خود مغربی کنارے میں آباد بستیاں بھی اسرائیل کی قائم کردہ اس دیوار کی زد میں ہیں۔شروع میں ۶۷ شہروں، قصبوں اور دیہات کو اس دیوار کی زد میں لانے کا منصوبہ تھا تاکہ انھیں اس دیوار کے ذریعے محاصرے میں لیا جا سکے۔

اسرائیل کی بنائی گئی اس دیوار کی لمبائی اس کی زد میں آنے والے بستیوں کے محاصرے کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی بلندی نو فٹ سے لے کر ۳۰ فٹ تک ہے۔ بلاشبہہ یہ فلسطینیوں کے ہرطرح کے معاشی، سماجی، سیاسی اور تعلیمی مقاطعے کے جملہ مقاصد پورے کرتی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر میں اسرائیلی بدنیتی کا دائرہ اس سے بھی وسیع تر ہے۔

اسرائیل نے یہ بھی اہتمام کیا کہ جہاں بھی کسی فلسطینی بستی کے نزدیک کنواں، چشمہ، ندی یا پانی کسی بھی دوسرے امکان اور ذخیرے کی صورت موجود تھا۔ اسرائیل نے اس دیوار کے ذریعے اس بستی کو کاٹ کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے تاکہ فلسطینی اور ان کی سرزمین پانی کو ترستی رہے۔

مگر فلسطینیوں نے اسرائیل کی اس دیوار کو اپنے لیے ’دیوار گریہ‘ نہیں بنایا کہ صدیوں سے روتے رہنے والی قوم کہلائیں۔ فلسطینیوں نے اسی دیوار کو اپنی آواز بلند کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور جگہ جگہ اس دیوار پر احتجاجی آرٹ کے نقوش و نگار بنا کر اس دیوار کو اسرائیل کے خلاف احتجاج کی گواہی بنا دیا ہے۔

اسی اسرائیلی دیوار پر فلسطینی نژاد امریکی صحافی خاتون شیریں ابو عاقلہ کی تصویر بنا دی گئی ہے کہ ابو عاقلہ نے اپنی جان پیش کر کے اپنی قوم کی آزادی کے لیے جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ اس کی تصویر بنانے والے فلسطینی مصور نے اسرائیلی دیوار پر بنائی گئی تصویر کے ساتھ لکھا ہے:

Live News, Still Alive۔ انگریزی میں لکھی گئی یہ تحریر درحقیقت فلسطینی جدوجہد کا وہ نوشتۂ دیوار ہے کہ جو بلند آہنگ سے کہہ رہا ہے کہ میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، نہ میری منزل کھوٹی کی جاسکتی ہے اور نہ مجھے جھکایا جاسکتا ہے، اور ان شاء اللہ یہ ستم کی دیوار گرا دوں گا!

گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’غیر ریاستی عناصر‘ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) جانے آنے کی اُوپر تلے اطلاعات، بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر مختلف ممالک کے ’ریاستی عناصر‘ متحرک ہوچکے ہیں، تو دوسری طرف ’غیر ریاستی عناصر‘ بھی میدان میں اتارے جا چکے ہیں۔

ماضی میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی اصطلاح صرف مسلح جنگجوؤں کے لیے استعمال ہوتی تھی جنھیں جنگی نوعیت کی ’پراکسیز‘ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ان کی جگہ ’غیر جنگی پراکسیز‘ کے لیے غیر مسلح ’غیر ریاستی عناصر‘ کو متحرک کیے جانے کا رجحان غالب آ رہا ہے۔ یقیناً یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ بعض ریاستوں کے لیے وہ کام کر دکھاتے ہیں جو ریاستیں خود کریں تو انھیں کئی طرح کے رد عمل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں کافی زیادہ تعداد میں انسانی وسائل اور افرادی قوت کے علاوہ غیر حکومتی تنظیموں (NGO's)کی دستیابی ممکن ہو گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سرگرم ہونے والے یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ کون ہیں؟ انھیں کون متحرک کرتا ہے؟ اس بارے میں ذکر ذرا بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے اس غیر معمولی پیش رفت کا تذکرہ ضروری ہے جو مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے پس منظر میں ۲۰ برس کے بعد سعودی عرب نے اَز سر نو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء] نے مشرق وسطیٰ میں ’امن‘ کی غرض سے ۲۰۰۲ء میں جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے تمام عرب دنیا اور مسلم دنیا سمیت فلسطینیوں نے بھی اسی وقت تسلیم کیا تھا۔ جس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس سے مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی مداخلت کا امکان کم کیا جاسکتا تھا۔

یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے ہم نوا دیگر یورپی ممالک ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ (مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر) ہیں، بلکہ خود اسرائیل بھی ایسا ایک عنصر ہے، جس نے اس علاقے ہی کو نہیں، بلکہ پوری دُنیا کے امن کو دائو پر لگارکھا ہے۔ اس منظرنامے میں اسرائیل ایک اجنبی کاشت شدہ پودا ہے۔ اسے یورپی ممالک کی تلچھٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی قبضے کو یقینی بنانے کے لیے یہودی تنظیمیں، جنھیں آج کی اصطلاحات میں ’دہشت گرد‘ سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا، ان سے لے کر ناجائز قابض اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے والے ابتدائی برسوں کے تقریباً سارے لوگ نہ صرف دہشت گرد یہودی تنظیموں کے عہدے دار تھے بلکہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے اجنبی بھی تھے۔

اسرائیل کی موجودہ آبادی میں ایک بڑی تعداد انھی یہودیوں پر مبنی ہے، جن کا آبائی علاقہ تو کوئی اور ہے، مگر قابض اسرائیلی اتھارٹی نے انھیں محض اس لیے لا کر فلسطین کی زمین میں بسا دیا کہ فلسطینی آبادی کا تناسب تبدیل کر سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ فلسطینیوں کی شناخت بھی بدل سکے۔ رہی بات امریکا اور یورپی ممالک کی، تو وہ بھی اسرائیلی یہودیوں کی طرح ہی ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ ہیں۔ اس منظر نامے میں سعودی مملکت کا پیش کردہ ۲۰۰۲ء کا عرب امن منصوبہ ایک بہتر راستہ تلاش کرنے کی طرف لے جاسکتا ہے۔

مذکورہ سعودی امن فارمولے پر ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ کے علاوہ دوسرے تقریباً سبھی متعلقہ حلقوں کا کسی نہ کسی درجے میں اتفاق ہے، حتیٰ کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے رکن ممالک کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ صرف امریکا، یورپ اور اسرائیل کا اس پر اتفاق نہیں تھا، اس لیے امریکا نے اپنا منصوبہ پیش کیا، جسے آج ’معاہدہ ابراہم‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ امریکا نے سعودی عرب کا پیش کردہ ایک قسم کا امن منصوبہ اختیار کرنے یا اس کو آگے بڑھانے کے بجائے اپنا فارمولا پیش کر دیا، تو فطری سی بات ہے، اسے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی عزائم اور اسرائیل نوازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکے گا۔

اس کی ایک وجہ اس سے پہلے امریکی نگرانی میں ہونے والے ’کیمپ ڈیوڈ‘ اور ’اوسلو معاہدے‘ بھی ہیں کہ دونوں میں پیش نظر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل یا مشرق وسطیٰ میں پائے دار امن ہرگز نہ تھا بلکہ اسرائیل کا بچاؤ اور تحفظ تھا اور اسرائیلی بالادستی قائم کرنا تھی۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی سرگرمیاں دیکھ کر ہر ذی شعور کا ماتھا ضرور ٹھنکتا ہے۔سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر اور ناراض کر کے خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جسے امریکا اور اسرائیل ’نارملائزیشن‘ کا نام دے رہے ہیں، اس سے کوئی بڑا تنازع اس خطے کے لیے جنم لے سکتا ہے۔

 خطے کے ممالک کی غالب آبادی بشمول فلسطینی، جنھوں نے ۷۵ برس مشکلات ومصائب  دیکھے ہیں، وہ بھی نارمل زندگی کی طرف آنے کا راستہ دیکھتے ہیں، جسے امریکی پشت پناہ نسل پرست صہیونیت حکومت باربار برباد کردیتی ہے۔ بلاشبہہ نارملائزیشن کی اگر کسی کے لیے ضرورت ہے تو وہ فلسطینی عوام ہیں، جنھیں ان کی سرزمین پر معمول کی زندگی کا حق ملنا چاہیے۔

صرف عربوں کو نہیں بلکہ پوری دُنیا کے دیگر ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطینی اگر مضطرب اور پریشان ہیں تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں اضطرابی ماحول کو جنم دیں گے۔ دُنیا بھر کے نقشے پر اسرائیل ایک ’ابنارمل‘ شناخت کا غاصب ملک ہے۔ اس کی آبادی کا بڑا حصہ غیرفطری طریقے سے جبری طور پر آباد کیا گیا ہے، جس سے نارملائزیشن کا مطالبہ تعجب انگیز ہے۔

اس دوران الجزائر نے بھی فلسطینی تنظیموں کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اکتوبر کے شروع میں ایک بار پھر فلسطینی باہمی اختلاف کے خاتمے کے لیے بیٹھیں گے۔

پھر دلچسپ یا حیران کن پیش رفت اور بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں پاکستان اور انڈونیشیا کا ذکر ہے اور اس اطلاع یا پیش رفت کا انکشاف اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے جن امور، واقعات یا اقدامات کا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے، وہ خبریں عام طور پر غیر ملکی میڈیا میں پہلے آتی ہیں۔ بعدازاں پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ان خبروں کی جگالی کرتا ہے۔

پاکستان کا دفتر خارجہ اور حکومت ہمیشہ اس کی گول مول سی روایتی تردید کرتے نظر آتے ہیں، ایک رٹی رٹائی طوطا کہانی کی طرح۔ جس پر اعتبار کریں تو نقصان، نہ کریں تو نقصان۔ اگرچہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی اسرائیلیوں سے ملاقاتوں کا فیض پا چکے ہیں۔

یروشلم پوسٹ کا انکشاف انڈونیشیا اور پاکستان کے شہریوں کے وفود کے حوالے سے ہے، جنھوں نے ستمبر ۲۰۲۲ء میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ انڈونیشیا اور پاکستان میں کئی شعبوں میں مماثلت ہے اور کئی باتیں مختلف ہیں۔ دونوں مسلم آبادی کے اعتبار سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر جکارتہ اور اسلام آباد، سعودی عرب کے علاوہ امریکا کے بھی بہت قریب ہیں۔ دونوں کے ہاں اپنے اپنے معاشی و دیگر مسائل رہتے ہیں۔ دونوں کے عوام سڑکوں پر قبلہ اوّل سے محبت کا اظہار فلک شگاف نعرے لگا کر کرتے ہیں۔

اس لیے ان دونوں کے ’وفود‘ کا ایک ہی وقت میں اسرائیل میں موجود ہونا اہم ہے۔ انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کس حد تک جا سکتا ہے؟  اس سوال سے زیادہ اہم پاکستان کا معاملہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان اور اس کے رہنے والوں کی سوچ کئی پہلوؤں سے اہم تر ہے۔ اور یہ ایک جوہری مسلم ملک بھی ہے۔ کیا یہ بھی فلسطینیوں کے لیے ’بروٹس‘ بننے جا رہا ہے؟

بار بار پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی عناصر کے اسرائیل جانے آنے کی اطلاعات اور نت نئی باتیں اس معاملے میں مسلسل بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا محمد اجمل قادری صاحب سے لے کر میڈیا سے تعلق رکھنے والے احمد قریشی اور اب مشرف دور کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والے نسیم اشرف کے ایک بڑے وفد کے ساتھ اسرائیل جانے کی خبر اہم ہے۔ افراد کے علاوہ ’بین المذاہب مکالمے‘ اور ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ جیسے فورم بھی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے غیر ریاستی عناصر کے طور پر کُود چکے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب کی کوششوں کا انتساب امریکا سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ سب براستہ امریکا ہی کیوں اسرائیل پہنچتے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسرائیل میں انھیں کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خود پاکستان کی حکومت، ریاست اور ادارے ان کے بارے میں کبھی تشویش میں مبتلا نظر نہیں آتے ہیں، اور نہ کسی شک و شبہے میں پڑتے ہیں۔ کبھی کسی سے بازپُرس کی گئی اور نہ ڈی بریفنگ کے عمل سے گزارا گیا۔

سچ پوچھیں تو بدلے ہوئے زمانے میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی صورت میں یہ لوگ سفارتی رابطہ کاری اور برف پگھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا میڈیا بھی ایک بڑے ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کے طور پر اپنا ہوش ربا کام کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین میڈیا ہاوسز پاکستانی عوام کے اعتقادات، نظریات، تصورات، رجحانات، معاملات اور مفادات سے الگ راستے پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی ان ’مین سٹریم‘ میڈیا ہاوسز کے خیالات اور معاملات کو اپنے سے دور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ابلاغی ادارے اور ان میں اہم قرار پانے والی کئی شخصیات سب غیر ریاستی عناصر کا رُوپ دھار چکے ہیں۔اس لیے یہ اسرائیل جائیں یا بھارت کے ساتھ ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کی چھاؤں میں کردار ادا کریں۔ مقصد اور منزل ان کی ایک ہی ہے کہ جو کام حکومت اور اس کے ادارے نہ کر سکیں، اس کام کے لیے یہ لوگ دستیاب ہیں۔

۵؍اگست ۲۰۲۲ء فلسطینیوں کے لیے سخت آزمایش کا دن تھا کہ اس روز ان پر اسرائیلی آتش و آہن کی بارش ہوئی۔ جس طرح ایسی آزمایشوں میں فلسطینی بھائی پہلے کامیاب ہوئے، اسی طرح اب بھی اللہ نے ان کے جذبۂ آزادی کی لاج رکھ لی۔

دوسری آزمایش یہ تھی کہ دُنیا بھر میں پھیلے ملّی برادارن اس مشکل اور آزمایش کی گھڑی میں کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

تیسری آزمایش بین الاقوامی سطح پرانسانی آزادیوں، حقوق اور بین الاقوامی قراردادوں، بین الاقوامی معاہدات، اقوام متحدہ کی طے شدہ پالیسیوں اور بلندو بالا عالمی اداروں اور ایوانوں کے دعووں اور وعدوں کی بھی تھی۔ آزمایا یہ جانا تھا کہ عالمی ادارے اسرائیل کی اس نسل کشی اور فلسطین دشمنی کو اس بار بھی نظر انداز کر جاتے ہیں یا وہ اپنے ضمیر کی آواز پر جاگتے ہیں۔

فلسطینی عوام تو اپنے محاذ پر سرخرو ہوئے کہ وہ ڈٹے رہے، کھڑے رہے۔ لیکن دوسری دو آزمایشوں کا فیصلہ تاریخ کے حوالے کرتے ہیں کہ تاریخ انھیں سرخرو قرار دیتی ہے یا سیاہ رو ثابت کرتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ تین روزہ جنگی جارحیت بظاہر جمعے سے شروع ہو کر اتوار کی شب ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوئی۔ مصر کی مدد سے ہونے والی اس جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہم غزہ پر زیادہ وسیع اہداف کو سامنے رکھ کر پھر حملہ کریں گے‘‘۔

گویا فلسطینیوں کو موت اور خون کے اس دریا کے پار ایک اور دریا کا سامنا ایک بار پھر کرنا ہوگا۔ سہ روزہ اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران چھ کم سن فلسطینی بچوں، بچیوں اور کئی خواتین سمیت مجموعی طور پر ۴۶ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۵۰۰گھروں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ دو درجن کے قریب گھر مکمل تباہ ہوئے اور ۷۱ کو ایسا نقصان پہنچا کہ اب رہایش کے قابل نہیں رہے۔ تقریباً دو درجن دیگر کئی منزلہ عمارات بھی تباہ ہوئی ہیں۔

بجلی و پانی کا نظام متاثر اور ادویات کی فراہمی معطل ہونے سے ہسپتالوں میں علاج معالجہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ گویا زخمی فلسطینیوں کے زخموں پر جس طرح سفارتی اور انسانی حوالے سے مرہم رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے میدان میں کوئی موجود نہ تھا، اسی طرح ہسپتال کے معالجین بھی نظام کے تعطل کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہ رہے۔ یہ سب تو غزہ اور اہل فلسطین کے لیے ایک معمول کے درجے میں پہنچ چکا ہے۔ ان کے اغوا، گرفتاریاں، شہادتیں اور گھروں کی مسماری معروف معنوں میں دُنیا کے لیے کوئی خبر نہیں بلکہ معمول کا ایک کام ہے۔

اس بار اسرائیل نے برطانیہ کی مدد سے تیار کردہ ڈرون طیاروں کا استعمال فلسطینیوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے کیا۔ وہی ڈرون جن کے پرزوں کی فیکٹری پر برطانیہ میں فلسطینی احتجاج کر چکے ہیں کہ یہ پرزے اسرائیل کو ملنے سے فلسطینیوں کی ناحق جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں۔ احتجاج اپنی جگہ اور برطانوی کاشتہ صیہونی راج اپنی جگہ۔ جب امریکی صدر جو بائیڈن خود کو ’صیہونی‘ کہہ کر اسرائیل میں اپنا تعارف کرا رہے ہوں تو پھر اسرائیل کو فلسطینیوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے ڈرون اسی صیہونی سوچ کے تحت دیے جانے میں کوئی کیونکر رکاوٹ پیدا کر سکے گا۔

غزہ میں اس بار اسرائیل نے اپنے حملے کا بطور خاص ہدف ’اسلامی جہاد‘ کے نام سے سرگرم گروپ کو بنایا، اور یہ گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے پچھلے ماہ جولائی میں مشرق وسطیٰ کے دورے پر آنے سے تقریباً تین چار ہفتے پہلے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ارکان کانگریس نے ایک مشترکہ بل کانگریس میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو فضائی دفاع کو اجتماعی چھتری کے نیچے لانے کی تجویز تھی۔ اجتماعی دفاعی چھتری کے دو مقاصد بیان کیے گئے۔ ایک یہ کہ اسرائیل اور عرب دنیا کو ایران کے حملوں خصوصاً ڈرون حملوں اور میزائل حملوں سے بچانا۔ دوم یہ کہ خطے میں موجود امریکی فوجی اہلکاروں کو واپس اپنے گھروں کو جانے میں مدد دینا، کہ ان کی قیمتی جانوں کو خطرناک ماحول سے نکال لیا جائے ،کیونکہ امریکی کی جان ’قیمتی‘ اور ’مقدم‘ سمجھی جاتی ہے۔

بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے تو بھی ان کے دورے کی اصل ’کاروباری مہم‘ ایران اور ایران کی وجہ سے خطے کے ممالک کو درپیش خطرات سے منسوب تھی۔ ان کے کلام و بیان میں ایرانی خطرے کی ایسی تکرار تھی کہ صاف لگتا تھا کہ یہ ترکیب کارگر رہے گی اور جو بائیڈن کامیاب دورے کے بعد واپس جائیں گے۔ ان کی کامیابی میں اسرائیل کے حوالے سے معاہدے کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا عمل آگے بڑھانا اور خود امریکا کے لیے توانائی یا مالیاتی اعتبار سے وسائل اور امکانات کو ممکن بنانا تھا کہ نومبر میں ہونے والے امریکی درمیانی مدت کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت کا امکان پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ بصورتِ دیگر ۳۷ فی صد تک گر جانے والے مقبولیت کے گراف کے بعد جو بائیڈن اپنی جماعت کے لیے ’خطرناک‘ ہو چکے ہیں۔

صدر جو بائیڈن کے دورے سے پہلے اور اس دورے کے دوران جو فضا بنائی گئی تھی، اس میں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ خطے میں جنگی ماحول اب زیادہ دور نہیں ہے کہ اسی صورت امریکی اسلحے کی فروخت کے امکانات بڑھیں گے اور امریکی مالیاتی مسائل میں کمی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

مبصرین اس اسرائیلی جارحیت سے مقابلتاً زیادہ پھیلی ہوئی جنگ کا ماحول دیکھ رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں اسلامی جہاد کو بطور خاص نشانہ بنا کر بقول اسرائیل ’ایرانی پراکسی جنگ‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں قائم ہوئے اسلامی جہاد گروپ کو فلسطین میں ایران کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ یہ گروپ اگرچہ حماس کے مقابلے میں ایک چھوٹا مزاحمتی گروپ ہے، مگر تصور یہ ہے کہ اسلحے کے اعتبار سے یہ کافی مضبوط گروپ ہے۔البتہ حماس کی راکٹ ٹکنالوجی زیادہ دور تک مار کرنے والی ہے۔

اسرائیل نے اس ایرانی حمایت یافتہ گروپ کے سیاسی شعبے کے رہنما سعد السعدی کو چند دن قبل مقبوضہ مغربی کنارے سے گرفتار کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس گرفتاری میں فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کی سہولت کاری کا بھی دخل تھا۔ یہ سہولت کاری انھوں نے جو بائیڈن کے اسرائیل آنے سے پہلے اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ اسی ملاقات میں طے کر دی تھی کہ نہ صرف جوبائیڈن کے دورے کے موقعے پر امن کو بحال رکھا جائے گا بلکہ سکیورٹی کے سلسلے میں دوطرفہ تعاون بھی برقرار رکھا جائے گا۔ اسی دو طرفہ تعاون کی تجدید نے اسرائیل کو اسلامی جہاد کے سیاسی شعبے کے اہم رہنما سعد السعدی کی گرفتاری کا موقع دیا تھا۔

اسرائیل نے ایک جانب یہ اہم گرفتاری کی اور دوسری طرف خود غزہ پر چڑھائی کر دی کہ اس گرفتاری کے بعد اسے خطرہ تھا کہ اسلامی جہاد گروپ اسرائیل پر حملہ کردے گا۔ اس حملے میں اگرچہ عام فلسطینی شہید، زخمی اور بےگھر ہوئے، مگر اسرائیل نے اسے صرف ’اسلامی جہاد‘ کے خلاف حملہ قرار دیا کہ یہ ایرانی حمایت یافتہ گروپ ہے۔

اسرائیل کی یہ کوشش کامیاب رہنے کا امکان نسبتاً زیادہ تھا کہ ایران کے بارے میں اس طرح کی بات مشرق وسطیٰ میں آسانی سے فروخت کی جا سکتی تھی، جیسا کہ جو بائیڈن نے بھی ایران کو ہی اپنا ’کاروباری ہدف‘ بنایا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران کی طرف سے سب اچھا قرار دیا جارہا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خطے کی ترقی و استحکام کے لیے ان مسلم ممالک کے درمیان تعلق کو سیاسی بہتری کے برعکس ان میں تصادم اور ٹکراؤ کو بڑھاوا دے کر امریکا نے اسرائیل کے لیے گنجایش اور سہولت پیدا کرنے کا موقع بنا لیا ہے۔

اسرائیل کی ناجائز ریاست کو اس وقت نسبتاً زیادہ قبولیت کے قابل بنا کر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا اور ایران کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے بجائے انھیں مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔یقیناً اس صورت حال میں خطے میں حقیقی امن و استحکام کا امکان بڑھانے کے بجائے کم کیا جا رہا ہے۔ یہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی مشرق وسطیٰ کے وسائل پر نظر رکھنے اور اپنے لیے ایک اچھی خرچیلی مارکیٹ پیدا کرنے کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔

  اسی کو اسرائیل نے بروئے کار لاتے ہوئے ’ایرانی پراکسی جنگ‘ میں جوابی حملے کا نام دیا۔ ابھی زیادہ بڑے حملے کی دھمکی اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات ہونے والی جنگ بندی کے فوری بعد دے دی ہے۔گویا امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی سرپرستی میں اسرائیل غزہ کو کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، اور یہ ان حالات میں کیا جاتا رہے گا کہ جب ایک طرف خطے میں اسرائیل کے لیے ’نارملائزیشن‘ کی مہم جاری ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

کسی بھی امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے نئے چیلنج سامنے لے کر آتا ہے، لیکن اس بار یورپ اور مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال میں یہ دورہ خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی اس امکانی دورے کو خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے ’ذرا مختلف‘ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر ’اب یا کبھی نہیں‘ والی سوچ کارفرما ہے۔

اس ارضی خطے کے لیے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام آگے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور امریکا بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔

روسی فیڈریشن ایک نئے دور کی ابتدا کرچکی ہے، جس کے اثرات سے مشرقِ وسطیٰ کا بچنا آسان نہیں ہے۔ چین کی اقتصادی میدان میں عالمی پیش رفت کے ساتھ سفارتی وسیاسی محاذ پر بھی آگے بڑھنے کے رجحانات براہ راست امریکی پریشانی کا اہم سبب ہے۔

افغانستان سے جس ڈھب سے امریکی فوجی انخلا پچھلے سال مکمل ہوا تھا، اس کا بھی دبائو ہے کہ صدر جو بائیڈن امریکی اثر ورسوخ کو کم ہونے سے روکنے کے لیے نئے بندوبست کو ممکن بنانے کے ایجنڈے پر عمل شروع کریں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اس میں ضروری سرعت نہیں دکھائی جا سکی۔ افغانستان سے اس انداز میں نکلنے کے بعد جو دھچکا امریکا کو سہنا پڑا ہے، اس کے ازالے کی کوشش کے علاوہ خود جو بائیڈن کی اور ان کی جماعت کی ساکھ اور صلاحیت ِ کار پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں برطانیہ کے نئے فوجی سربراہ جنرل پیٹرک سینڈر کا یہ بیان: ’’۲۴ فروری کے بعد دنیا تبدیل ہو چکی ہے‘‘، صرف برطانیہ کے لیے ایک بڑے انتباہ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ امریکا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

جوبائیڈن اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کو مزید نیچے آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ پائوں ما ررہے ہیں۔ رواں برس ماہ نومبر میں امریکا میں وسط مدتی انتخابات ان کی جماعت کے لیے ایک اندرونی، فوری اور بڑے چیلنج کے طور پر سامنے ہیں۔ ان انتخابات میں بُرے نتائج سے جوبائیڈن کی صدارت کے معنی ہی بدل جائیں گے بلکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس میں داخلے سے قریب تر ہو جائیں گے۔

ان حالات میں بائیڈن چاہتے کہ ہیں کچھ فوری نوعیت کے ’مفید‘ کام ممکن ہو جائیں یا ان میں نظر آنے والی پیش قدمی ہو۔ اس لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انھیں اچھے لگتے تھے، یا نہیں، مگر اس وقت وہ ان کے لیے اتنے ہی اہم ہو چکے ہیں، جتنے کہ محمد بن سلمان کے لیے خود  صدر بائیڈن اہم ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد کو ہر طرح سے زیادہ بامعنی بنانے کے لیے سعودی ولی عہد سہ ملکی دورے پر نکلے، جس میں مصر، اردن اور ترکیہ میں اہم ملاقاتیں اور مشاورتیں پیش نظر ہیں، تاکہ بڑے فیصلوں میں اکیلے آگے نہ بڑھیں، دوسروں کو بھی اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔

اسی دوران میں سعودی ولی عہد کے سہ ملکی دورے سے ایک روز قبل سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زپی لیونی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے سعودی شاہی خاندان کی اہم شخصیت شہزادہ ترکی الفیصل کے ساتھ ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل ماضی میں اسرائیل کے سخت ناقدین میں شامل رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران سے اُبھرنے والے ’خطرات‘ پر بھی ان کی نظر ہے۔ ایرانی جوہری اور ڈرون پروگرام کو سمجھنے اور اس پر رائے کے حوالے سے شہزادہ فیصل، امریکا اور اسرائیلی خدشات میں یکسانیت کا پایا جانا کچھ عجیب بات نہیں، جب کہ یمن، لبنان، عراق اورشام میں ایرانی اثرات کے مظاہر بھی روز افزوں ہوں۔

لہٰذا، بعض اہل الرائے اس تصویر کے بنائے جانے اور سامنے لانے کی ٹائمنگ کو محض اتفاق قرار نہیں دیتے۔ اس تصویر کے ٹویٹ ہونے کے فوری بعد میڈیا نے اسے جتنی اہمیت دی ہے، وہ بھی اہمیت کا اعلان کرتی ہے۔ گویا دو اہم سعودی واسرائیلی شخصیات کی یہ محض ایک تصویر نہیں، بلکہ ایک نئے دور کی چغلی کھاتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک: ’’یہ ایک تصویر نہیں ہے، بلکہ جوبائیڈن کے دورے کا عنوان ہے‘‘۔

یہ ’مفروضاتی عنوان‘ اس حقیقت کے باوجود بڑا اہم ہے کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت اپنے اقتدار کی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، عبوری حکومت کی تشکیل ہو رہی ہے اور اکتوبر تک نئے انتخابات یقینی نظر آرہے ہیں۔

لیکن دو باتیں اور بھی بہت اہم ہیں۔ جس طرح امریکا کے بارے میں یہ معروف بات ہے کہ اس کی حکمت عملی ریاستی نوعیت کی ہوتی ہے، حکومتی انداز کی نہیں۔ بالکل اسی طرح امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہداف بھی ایسے ہی ہیں کہ حکومت خواہ کسی بھی جماعت یا فرد کی ہو، اسرائیلی اہداف تبدیل نہیں ہوتے۔ لہٰذا، امریکا کی داخلی ضرورتوں اور عالمی مسائل کے ساتھ اسرائیل، مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکیہ کے بڑے ایوانوں کی درون خانہ سرگرمیوں کو نکتے ملانے والی ایک سرگرمی کے طور پر ہی لے لیا جائے تو یہ کھیل کافی سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ کھیل کئی ممالک اور ان کے موجودہ حکمرانوں کے مشترکہ مفادات کا بھی تقاضا ہے۔

ایک دو حوالے خود وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بھی دستیاب ہیں:

ایک تو یہ کہ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر کام کرنے والے ایک صحافی کا حالیہ دورۂ اسرائیل، اور پھر پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری کے زیرکمان ان کی سیاسی جماعت کے ایک اہم اور کاروباری شخصیت سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا تفصیلی بیان۔ پاکستان کی مخلوط حکومت کی طرح اسرائیل میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، جس کی اکثریت نقش بر آب کی طرح ہے۔ بدترین معاشی صورت حال میں امریکا اور آئی ایم ایف سے تقاضے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے توقعات بھی ایک مشترکہ منظر پیش کرتی ہیں۔

پاکستان میں کمزور بنیادوں پر کھڑی کی گئی مخلوط حکومت کے ہوتے ہوئے بدترین سیاسی ومعاشی عدم استحکام ہی نہیں، ماہ نومبر میں ’اہم فیصلوں‘ کی ایک عرصے سے جاری بحث بھی موجود ہے۔ اگر اس سب کچھ کو ملا کر دیکھا جائے تو پاکستانی حکومت کے رجحانات اور حالات کا بننے والا ہیولا مذکورہ بالا منظر نامے سے قریب تر نظر آتا ہے۔

 ’گلوبل ویلیج‘ کا حصہ ہونے کے ناطے ایک دوسرے سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کو تعاون دینا تو لازم ہوتا ہی ہے، خصوصاً جب حالات یہ بن چکے ہوں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو مشکلات میں گھرا ہوا اور فطری طور پر کمزور بھی سمجھنے لگا ہو۔ ایسے میں سب ایک دوسرے کے تعاون کے متلاشی بھی ہوتے ہیں اور تعاون ’بارٹر‘ کرنے کے لیے تیار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا دُور کی کوڑی لانا ہر گز نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران اہم فیصلوں کا امکان غالب ہے، جو صرف سعودی عرب یا عرب دُنیا کے حوالے سے نہیں، بلکہ بعض دیگر مسلم ممالک کو بھی اپنے گھیرے میں لے سکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بعض فیصلے حتمی نوعیت کو نہ چھو پائیں، مگر اصولی فیصلوں یا ابتدائی فیصلوں کے درجے میں ضرور شمار ہوں گے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں سب فریق ایک دوسرے کے دست وبازو بن کر چلنے پر بھی متفق ہو جائیں گے اور آنے والے دنوں میں اسی سمت بڑھنے کے لیے بڑے فیصلوں کی خاطر مقامی سطحوں پر مزید تبدیلیوں کے امکانات پیدا کر کے مشرق وسطیٰ کو بھی بدلنے کی راہ مزید ہموار کریں گے۔

مشرق وسطیٰ پہلے ہی ’تبدیلیوں‘ کے اس راستے کا راہی بن چکا ہے۔ ترکیہ، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کی سوچ میں تبدیلی کے اشاروں سے بات آگے نکل چکی ہے جسے یہاں تک لانے میں ’لالچ اور دھمکی‘ کی امریکی حکمت عملی کو گہرا دخل حاصل ہے۔ یہ پالیسی نئے حالات میں کبھی ایک ملک کے لیے اور کبھی دوسرے ملک یا کسی شخصیت کے لیے بروئے کار رہ سکتی ہے۔

اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے مسلسل سوچ بچار کے بعد اپنا ترمیم شدہ پروگرام اور پالیسی، ایک دستاویز کی صورت میں جاری کی ہے۔ ۴۲نکات پر مشتمل اس پروگرام اور لائحۂ عمل کو تنظیم کے ۳۰برس قبل جاری کیے جانے والے منشور کا نظرثانی شدہ متبادل قرار دیا جا رہا ہے۔

اہمیت

’حماس‘ کی حالیہ دستاویز کئی حوالوں سے اہم ہے۔ پہلے نکتے میں واضح کیا گیا ہے:

اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) فلسطین کی قومی، اسلامی اور مزاحمتی تحریکِ آزادی ہے۔ اس کا مقصد فلسطین کو آزاد کرانا اور صہیونی منصوبے کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کی پہچان اسلام ہے۔ اسی سے اس کے طریق کار، مقاصد اور ذرائع اخذ کیے جاتے ہیں۔

 یہ تنظیم اپنی تاسیس کے تین عشروں کے بعد بھی اس بات پر ثابت قدم ہے کہ جن اصولوں پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی، الحمدللہ آج تک ان پر کاربند ہے۔ اس کے طریق کار، فکری بنیاد اور اصولوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی فلسطین کو فلسطینیوں کا اصل اور حقیقی وطن سمجھتی ہے۔ دریاے اُردن سے لے کر بحرمتوسط (Mediterranean) تک کا علاقہ عرب علاقہ ہے اور اسلامی فلسطین کی سرزمین ہے۔ دستاویز میں پیشہ وارانہ انداز میں مسلّمہ سیاسی بیانیہ واضح کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ فلسطینیوں کی آزادی، وطن واپسی اور مزاحمت جیسے تمام بنیادی اصول آج بھی حماس کے لیے مشعل راہ ہیں۔ تنظیم نے ۳۰ سالہ سفر کے دوران پیش آنے والے تمام دباؤ، مصائب اور آلام کے باوجود اپنے اصل پیغام کو تحریف سے بچائے رکھا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ حالیہ دستاویز کے ذریعے حماس نے خود کو ایک زیرک تنظیم کے طور پر منوایا ہے۔ اس نے ۳۰برسوں کے دوران پیش آنے والے متعدد کٹھن مراحل کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے۔ تنظیم نے مسلّمہ اصولوں پرکسی قسم کی سودے بازی کیےبغیر اپنی جدت پسند سوچ اور فکر کو واضح کیا ہے۔

اس دستاویز کے ذریعے تیسرا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ’حماس‘ بدلتی ہوئی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں اور صورتِ حال کو سمجھنے اور راستہ نکالنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔ حصولِ منزل کے لیے لچک پیدا کرنے اور صہیونی دشمن کے ساتھ اپنی جنگ کو پیشہ وارانہ انداز میں منظم کرنے کی بھی  اہلیت رکھتی ہے۔

فلسطینی سرزمین کی تعریف

دستاویز کے مطابق: ’’فلسطین کی سرزمین مشرق میں دریاے اُردن سے مغرب میں بحرمتوسط اور شمال میں راس الناقورہ سے جنوب میں ام الرشراش تک ہے۔ یہ ایک باہم مربوط علاقائی یونٹ ہے۔ یہ فلسطینی عوام کی سرزمین اور ان کا وطن ہے‘‘۔ بعض حلقے اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ فلسطینی علاقے کی اس تشریح کا مقصد ہے کہ حماس کا مقصد اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے ، جب کہ دستاویز کے ۲۰ ویں نکتہ میں بیان کردہ موقف مختلف صورت پیش کرتا ہے۔ ریکارڈ کی درستی اور قارئین کے استفادے کے لیےدستاویز کا ۲۰ واں نکتہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے:

حماس اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ فلسطینی سرزمین کے کسی حصے پر: کسی بھی سبب،  حالات اور دباؤ کی بنا پر کوئی سمجھوتا کیا جائے گا اور نہ اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قبضہ کتنی زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے۔ حماس [دریاے اُردن سے بحر متوسط تک] فلسطین کی مکمل آزادی کے سوا کسی بھی متبادل حل کو مسترد کرتی ہے۔ تاہم، صہیونی ریاست کے استرداد اور فلسطینیوں کے کسی حق سے دست بردار ہوئے بغیر، ۴جون ۱۹۶۷ء کی حدود کے اندر حماس ایک مکمل خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کرے گی۔ القدس اس کا دارالحکومت ہوگا۔ وہ مہاجرین اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی قومی اتفاق راے کے فارمولے کے مطابق واپسی کی حمایت کرتی ہے۔

اس دستاویز سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی میں ’تنظیم آزادی فلسطین‘ (PLO) یا دیگر فلسطینی جماعتوں نے فلسطین کے کسی حصے میں آزاد ریاست کے قیام کے حوالے سے جو باتیں کیں، وہ کسی باقاعدہ ہوم ورک کے بغیر تھیں۔ اسی لیے آج تک اسرائیل نے مذاکرات کا ڈول ڈالنے والے فلسطینی فریق کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور یک طرفہ طور پر من مانے فیصلے کر رہا ہے۔ ’حماس‘ کی دستاویز میں بیان کردہ شق۲۰ کے دوسرے حصے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ: ’’صہیونی ریاست کے استرداد اور فلسطینیوں کے کسی حق سے دست بردار ہوئے بغیر،۴جون ۱۹۶۷ء  کی حدود کے اندر حماس ایک مکمل خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کرے گی۔ القدس اس کا دارالحکومت ہوگا۔ وہ مہاجرین اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی قومی اتفاق راے کے فارمولے کے مطابق واپسی کی حمایت کرتی ہے‘‘۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حقیقت

شہ سرخیاں پڑھ کر تبصرہ کرنے والوں نے اس شق کی حقیقی روح کو سمجھے بغیر اسے ’’حماس کی جانب سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے‘‘ کا بالواسطہ اعلان قرار دے دیا ہے۔حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ حماس کی دستاویز کی شق ۲۰میں دو اُمور بیان کیے گئے ہیں:

 پہلے حصے میں حماس نے فلسطین کو فلسطینیوں کاوطن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔اس کے کسی بھی حصے سے کسی صورت میں دست بردار نہیں ہوا جاسکتا۔ ۳۰ برس قبل حماس کی تاسیس سے لے کر آج تک تمام بین الاقوامی ، عرب اور فلسطینی فورمز پر دو ریاستی منصوبے کو قضیے کے مجوزہ حل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔

حماس اور اس کی قیادت نے دو ریاستی حل کے علَم برداروں سے ہمیشہ ایک ہی سوال کیا کہ: ’’آپ اپنی تجویز کوعملی جامہ کیسے پہنائیں گے؟‘‘ اب حماس نے اس ضمن میں پائے جانے والے ابہام کو اپنی دستاویز میں یہ جواب دے کر دُور کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی ایسی تجویز پر عمل صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب مسلّمہ اصولوں سے دست برداری سے باز رہا جائے۔

حماس نے دو ریاستی حل کے تجویز کنندگان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر آپ کے پاس کوئی قابلِ عمل مثبت منصوبہ ہے کہ جس کے ذریعے فلسطین کے کسی حصے کی آزادی ممکن نظر آتی ہو، تو ہم آزادی کے اس عمل میں آپ کے ساتھ ہوں گے۔ اگر فلسطین کا حصہ اسرائیل کو بغیر کسی بھاری سیاسی قیمت ادا کیے آزاد کرا لیا جائے تو اس کے لیے حماس کا تعاون حاضر ہے۔ فلسطین کے کسی حصے کی اسرائیلی تسلط سے آزادی پر حماس مثبت تعاون کرے گی۔

’حماس‘ نے اپنی دستاویز کے ۲۰ویں نکتے میں واضح کیا ہے کہ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم سے اس آزادی کے عوض کوئی ایسا سیاسی خراج نہ مانگا جائے، جو فلسطین کی  قومی وحدت کی نفی پر منتج ہوتا ہو۔ کوئی بھی ذی عقل نہیں چاہے گا کہ فلسطین کے کسی حصے کو آزاد کرائے اور پھر وہاں اپنی حکومت قائم نہ کرے۔ فلسطین میں ’دو ریاستی حل‘ کی مخالفت کے الزام کا جواب دیتے ہوئے حماس کا کہنا ہے: ’’اگر فلسطین کے کسی حصے پرآزاد ریاست، جارح اسرائیل کو سیاسی قیمت ادا کیے بغیر قائم ہوتی ہے توہم اس کا خیر مقدم کریں گے‘‘۔

اس مقصد کے لیے ’حماس‘ نے فلسطین میں قومی وحدت کی فضا قائم کرنے کے لیے  مشترکات پر مبنی فارمولا پیش کیا، جس میں تمام گروپوں کو ’تنظیم آزادی فلسطین‘ میں شرکت کا موقع دینا سر فہرست ہے، تاکہ داخلی سیاسی انتشار کی کیفیت سے اسرائیل فائدہ نہ اٹھا سکے۔ حماس نے واضح کردیا ہے کہ ہم جن مشترکات کی بنا پر ۱۹۶۷ءکی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں، وہ غیر مشروط ہے۔ قومی امور میں شراکت کے لیے ہمارا یہ معیار ہے کہ ہم آزادی کے عوض اسرائیل سے سیاسی سودے بازی نہیں کر سکتے۔

سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ: ’’اگر فلسطینی قیادت عرب امن فارمولے پر عمل کرنے کی خواہش ظاہر کرے تو حماس اس کا جواب کیسے دے گی، کیوںکہ یقیناً یہ 'زمین کے بدلے امن کے اصول پر آگے بڑھے گا‘‘۔ حماس دستاویز کے ۲۲ویں نکتے میں بیان کرتی ہے کہ: 

’حماس‘ ان تمام سمجھوتوں، اقدامات اور معاملہ کاری کے منصوبوں کو بھی مسترد کرتی ہے، جن کا مقصد فلسطینی نصب العین اور ہمارے فلسطینی عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس ضمن میں کوئی بھی موقف، اقدام یا سیاسی پروگرام ان حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔نیز وہ ان حقوق سے متصادم یا منافی بھی نہیں ہونا چاہیے۔

 اس نکتے میں حماس نے  انتہائی اہم اصول وضع کر دیا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق صرف عرب امن منصوبے پر نہیں ہوتا بلکہ تنظیم نے فلسطینی عرب عوام کے حقوق کو بنیاد بنا کر یہ اصول تشکیل دیا ہے۔ نیز تنظیم کی یہ سوچ فلسطین کے حوالے سے عرب اور ملت اسلامیہ کے موقف کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ’مصالحت‘ (compromise) کے نام پر اگر فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی گئی، تو حماس اسے یکسر مسترد کر دے گی، چاہے وہ منصوبہ عربوں، امریکا، اسرائیل، روس اور چین کسی نے بھی پیش کیا ہو ۔ حماس نے اپنی دستاویز میں کسی امن منصوبے کا نام نہیں لیا ہے بلکہ اس ضمن میں عمومی اصول اور پالیسی وضع کی ہے۔اس لیے کوئی بھی فلسطینی، عرب یا مسلمان ان اصولوں کی روشنی میں حماس کے نقطۂ نظر کو بخوبی جان سکتا ہے۔ عرب امن منصوبے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست سے تعلقات معمول پر لانے کی بات کی گئی ہے۔ یاد رہے، حماس اور اس کی قیادت اس بات کو ماضی میں کئی بار مسترد کر چکی ہے۔

دوحہ، قطر سے جاری ہونے والی حماس کی اہم پالیسی دستاویز کے حوالے سے ایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ: ’’تنظیم نے ۱۹۸۸ء میں جاری کردہ اپنے بنیادی منشور میں اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بات اور یہودیوں کے خلاف جنگ کا پرچار کیا تھا۔ کیا دوحہ میں جاری کی جانے والی اصولوں اور پالیسی کی دستاویز، بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو سکے گی کہ تنظیم سے دہشت گردی کا نشان(tag) اُتار دیں، کیوںکہ حالیہ دستاویز میں حماس نے واضح کیا ہے کہ: ’’اسرائیلیوں سے مخاصمت کی بنیاد ان کا مذہب نہیں بلکہ ان کی لڑائی دراصل ارض فلسطین پر قابض ان صہیونیوں کے خلاف ہے کہ جنھوں نے فلسطینیوں کو اپنے حقیقی وطن سے بے خانماں کیا ہے‘‘۔

حماس کی حالیہ دستاویز میں جگہ جگہ اس بات کا اعلان اور اظہار ملتا ہےکہ وہ فلسطین سے صہیونی منصوبے کا خاتمہ چاہتی ہے اور پورے مقبوضہ علاقے میں فلسطینی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے، جس کی سرحدیں دریاے اردن سے بحر متوسط تک پھیلی ہوں۔ اسرائیل کا وجود دراصل ایک باطل مفروضے پر قائم ہے۔ ’اعلان بالفور‘ (نومبر ۱۹۱۷ء) ایک باطل معاہدہ ہے۔ فلسطینیوں سے ان کا حق چھیننے والا ہرمعاہدہ باطل ہے اوراس کا خاتمہ حماس کی ذمہ داری ہے۔

حماس کا ہدف یہودی مذہب نہیں

یہودیوں کو ہدف بنانے کے حوالے سے جن شکوک و شبہات کا پرچار کیا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس نے ۱۹۸۸ءمیں اپنا منشور جاری کیا تو اس میں یہودیوں کا لفظ استعمال کیا گیا تھا، کیوںکہ وہ اس کے ذریعےپورے اسرائیل کا حوالہ دینا چاہتے تھے، جہاں یہودیوں کو آباد کیا جارہا تھا۔

’حماس‘ یہودیوں کو یہودی مذہب کے پیروکار کے طور پر نشانہ نہیں بنانا چاہتی بلکہ ان کا نشانہ توسیع پسندانہ عزائم کے حامل صہیونی ہیں۔ اگر ’حماس‘ کے نزدیک تمام یہودیوں کو نشانہ بنانا ہوتا تو پھر اُس کے اہداف دنیا بھر میں پھیلے ہوتے، جب کہ ایسا نہیں کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے  علَم برداروں اور فلسطین دشمنوں نے اس ابہام کو پروپیگنڈے کے ایک آلے کے طورپر استعمال کیاکہ حماس یہودیوںکا قتل چاہتی ہےاور یہودی مذہب کی وجہ سے ان کے خلاف ہے۔ دستاویز میں اس معاملے کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ توسیع پسندانہ صہیونی منصوبے پر عمل درآمد کرنے والے دراصل فلسطینیوں کو ان کے دیس سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مقصد ان صہیونی منصوبے کے پیروکاروں سے فلسطین کو پاک کرنا ہے۔ یہ اقدام ان کے یہودی ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ ہماری زمین پر غاصبانہ اور توسیع پسندانہ قبضے کی وجہ سے ہے۔ اگر کل کلاں کو ہندو، بدھ مت اور عیسائی ہماری زمین پر قبضہ کرتے ہیں تو فلسطینی ان کے خلاف بھی اسی طرح علَمِ مزاحمت بلند کریں گے،  جیسا کہ وہ آج صہیونی منصوبے کے پیروکاروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی زمین ان سے واگزار کرائیں گے۔حماس کی سوچی سمجھی راے ہے کہ علماے کرام کے فرمودات اور اسلامی تعلیمات میں یہودیوں کے حوالے سے الگ احکام موجود ہیں۔ ان پر وہ تمام حکم لاگو ہوتےہیں جو اسلام نے تمام اہل کتاب کے لیے مقرر کر رکھے ہیں۔

تنظیم آزادی فلسطین کے موقف سے ہم آہنگی کا الزام

حالیہ دستاویز پرایک اعتراض یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ:’’ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حماس کا دستاویز میں بیان کردہ نقطۂ نظر ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کے موقف سے ہم آہنگ ہے۔ اگر ایسا ہے تو حماس کو ’الفتح‘ تنظیم 'سے معافی مانگنی چاہیے کہ اس نے فلسطینی قوم کے کئی سال ضائع کر دیے اور غزہ کو تین ہولناک اسرائیلی جنگوں میں دھکیلا‘‘۔

’حماس‘ اپنی تاسیس کے دن سے ہی ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ اور تیار رہی ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس، پی ایل او کو خاندانی کلب بنانے کے بجاے اسے فلسطینیوں کی حقیقی نمایندہ تنظیم بنانےکے لیے اصلاحات کا مطالبہ کرتی چلی آئی ہے۔ دستاویز میں اسی روح کی از سرِ نو تجدید کی گئی ہے، جس پرحماس کے بعض ناقدین یہ کہہ کر اعتراض کررہے ہیں کہ تنظیم نے اپنی حالیہ دستاویز میں پی ایل او کے سیاسی فریم ورک کو تسلیم کر لیا ہے ۔ یہاں اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دستاویز میں پی ایل او کے ڈھانچے میں تبدیلی کا جو مطالبہ شدومد سے کیا گیا ہے، اس کا مقصد پی ایل او کو حقیقی معنوں میں فعال ادارہ بنانا ہے تاکہ تمام فلسطینی دھڑے اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ پی ایل او کی روحِ رواں ’الفتح‘ ' تنظیم کی قیادت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قومی شراکت کے اصول اور براہ راست انتخابات کے ذریعے پی ایل اوکی صفوں میں وسعت لائی جائے۔ جس سے اس میں فلسطین کے اندر اور باہر، موجود تمام فلسطینیوں کی نمایندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حماس نے دستاویز میں اپنے اسی مسلّمہ موقف کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کیا ہے۔

’تنظیم آزادی فلسطین‘ کی سیاسی میراث اور اس کی جانب سے مسلّمہ اصولوں سے دست برداری کے یکے بعد دیگرے اعلانات کو ۱۰ نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے، جن کا اعلان پی ایل او نے اکتوبر ۱۹۷۳ء کی جنگ کے بعد کیا تھا۔ ان نکات میں اسرائیلی دشمن سے واگزار کرائی گئی سرزمین پر فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، تاہم بعد میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد ۲۴۲کو تسلیم کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کو ۱۹۶۷ء کے مقبوضہ علاقوں تک محدود  کردیا گیا۔ بات بڑھتے بڑھتے ’میڈرڈ امن مذکرات‘ اور پھر ’معاہدہ اوسلو‘ تک جا پہنچی۔

’اوسلو معاہدہ‘ [۱۳ستمبر ۱۹۹۳ء]پر دستخط کے بعد ’تنظیم آزادی فلسطین‘ کو اپنی سیاسی تنہائی کم کرنے کا موقع ملا کیوںکہ اگست ۱۹۹۰ء میں عراق کے کویت پر حملے کی وجہ سے اس کے مالی سوتے خشک ہو گئے تھے۔ ہزیمت کا نیا باب رقم کرتے ہوئے پی ایل او نے ’اوسلو معاہدے‘ کے تحت مقبوضہ فلسطین کے علاقے غرب اُردن اور القدس میں لا کر بسائے گئے آٹھ لاکھ آبادکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ’ڈیٹن فورس‘ تشکیل دی، جس نے آزاد فلسطینی ریاست کا خواب دل میں بسائے یاسرعرفات کو منوں مٹی تلے ابدی نیند سلا دیا۔

افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت تحریک ’الفتح‘ تنظیم جو’تنظیم آزادی فلسطین‘ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، اس نے میڈرڈ کانفرنس کے راستے ’اوسلو معاہدے‘ کی ذلت پر دستخط کر کے اپنے اصل راستے سے ہٹنے کا ارتکاب کیا ۔ یوں فلسطین کے قومی مقصد کو ’بلدیاتی سطح کے اختیار‘ جیسی دلدل میں اتار لیا اور فلسطین کے اہم مسلّمہ اصولوں سے دست برداری کا اعلان کیا۔ اب وہ فلسطین کے ۷۷ فی صد حصے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انجامِ کار اس طرح اس علاقے پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر چکے ہیں۔

اخوان سے لاتعلقی: حقیقت کیا ہے؟

حماس کی دستاویز کے اعلان سے بہت پہلے اس کے مندرجات کی میڈیا میں لیکس کے ذریعے یہ کہہ کر پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ: ’’حماس نے الاخوان المسلمون سے لاتعلقی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس ضمن میں تنظیم جلد ہی اپنے ترمیم شدہ سیاسی منشور میں باقاعدہ اعلان کرنے والی ہے‘‘۔ دستاویز کی ۴۲ شقوں میں کسی ایک میں بھی الاخوان المسلمون کا ذکر نہیں ملتا۔ تحریک کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ خالد مشعل سے پریس کانفرنس میں بھی یہ سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہماری سرگرمیوں کا مرکز و محور فلسطینی سرزمین ہے۔ الاخوان المسلمون سے اگرچہ ہمارا تنظیمی تعلق نہیں، تاہم ان کی فکری سوچ ، جہد مسلسل اور قربانیوں سے عبارت تاریخ حماس کے لیے ہمیشہ منارۂ نور کا کام کرتی رہے گی۔ حماس اور اخوان کو باہم لڑا کر مذموم مقاصد حاصل کرنے اور سازشوں کے جال بننے والے دوست نما دشمن کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے‘‘