اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ کہتے ہیں:’’میں بوجھل دل کے ساتھ [اسرائیلی وزیراعظم] نتن یاہوکے ہمراہ سیکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سدِ جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی‘‘۔
کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ’ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘
یائر لاپیڈ کے فکر انگیز موقف کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں: پہلا یہ کہ اسرائیل کیا واقعتاً اپنی سدِجارحیت کی حیثیت کھو رہا ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امریکا کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟
ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔
یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکا کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے،جب کہ مغربی ممالک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔لیکن اب یہ ممالک بھی سمجھ چکے ہیں کہ امریکا، مشرق وسطیٰ سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا آغاز ۲۰۱۲ء میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا ارتکاز مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ ۲۰۱۲ء سے صدر اوباما نے Pivot to Asia پالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں خاص طور پر اس وقت تیزی آئی، جب فروری ۲۰۲۲ء میں روس- یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔
دکھائی دیتا ہے کہ عرب دُنیا کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ یہاں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے میں نہیں جتنی واشنگٹن نے ۲۰۰۳ءمیں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی تھی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے۔
اب ہم پہلے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سدِجارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقت ور ضرور ہے، جتنا وہ مئی ۲۰۲۱ء میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت تھا۔دراصل یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔ غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا، مگر اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیونکہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر ابھر رہا ہے۔
حزب اللہ، اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری جانب حالات معمول پر لانے کے شوروغل میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی(اسلامی تعاون تنظیم)، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ اس تبدیلی کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، مسلم اور مغربی ممالک خاموش نہ رہ سکے۔
قبلۂ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ ردعمل بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔یاد رہے کہ اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ۹۰ فلسطینی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہادت پاچکے ہیں، مگر مزاحمت میں کچھ کمی نہیں آرہی۔
اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ بدحواسی میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح فخریہ انداز سے امریکا خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔
عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کا نیا آہنگ اور نغمہ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر ۶؍ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔
چین، اب مشرق وسطیٰ میں امن کا نیا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ اسرائیل کے لیے محال ہے کہ اس جال سے جلد نکل آئے کیونکہ امریکانے اسرائیل نوازی کی رفتار میں کچھ ٹھیرائو پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں خود امریکا سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔