مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔
اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔
اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔
یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔
یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔
۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔
ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔
دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔
یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔
اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔
آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔
بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔
مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔
تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔
چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔
پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔