تعارف: دنیا میں عقائد اور شناخت کے لحاظ سے چھ بڑی تہذیبیں ہیں، جن میں سے تین عالم گیر اور تین مقامی یا علاقائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تین عالم گیر تہذیبیں مل کر پوری دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ۷۰ فی صد انسانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں عددی ترتیب کے لحاظ سے عیسائیت ۳۰٪ فی صد، اسلام ۲۵ فی صد اور لادینیت ۱۵ فی صد ہیں۔ یہ تینوں تہذیبیں مختلف براعظموں میں مرتکز ہونے کے باوجود بین البراعظمی ہیں۔ اسی بنا پر ہم انھیں ’عالم گیر ‘کہہ رہے ہیں۔ بقیہ ۳۰ فی صد میں سے ۲۷ فی صد کا تعلق تین دیگر بڑی تہذیبوں سے ہے، ہندومت ۱۵ فی صد، بودھ مت ۶ فی صد اور مقامی متفرق تہذیبیں ۶ فی صد۔ ان چھ تہذیبوں کے علاوہ دُنیا میں ایسے مذاہب اور تہذیبیں پائی جاتی ہیں، جو اپنی سطح پر بہت اہم اور بعض صورتوں میں عالم گیر ہیں۔ تاہم، ان کے پیروکاروں کی تعداد انتہائی محدود ہے، مثلاً یہودی، سکھ، پارسی ودیگر۔ یہ تمام مل کر دُنیا کی آبادی کا ۳ فی صد بنتے ہیں۔
تہذیبیں انسانی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا، ہم سب سے پہلے انفرادی اور گروہی شناخت کا ایک عمومی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
انفرادی اور گروہی شناخت کا مطالعہ ایک دل چسپ، مگر پیچیدہ موضوع ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایک ایسا پیمانہ نہیں ہے، جو محدود حواس کی گرفت میں اس کی حقیقت کو لاکر پیمائش کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شناخت کن اسباب سے تشکیل پاتی ہے: مذہب کی محبت سے، ریاست کے جبر سے، مادی مفاد کی رغبت سے، یا جبلی فطرت سے؟ کیا فرد کی ذات سے خارج کوئی قوت یا ادارہ اُسے تشکیل دے سکتا ہے؟ ایسا کرنا صحت مند اور مطلوب ہوگا یا نہیں؟ ان خارجی اسباب میں تعلیم اور تعلیمی نظام کے کردار کو کیسے پرکھا جائے؟ وغیرہ۔
قدیم زمانے سے افراد اور گروہوں کی شناخت کی تشکیل میں مذاہب نے، خواہ وہ عالم گیر ہوں یا مقامی، الہامی ہوں یا انسانی تخیل پر مبنی، ایک نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مذاہب کے اس کردار میں گذشتہ صدی کے دوران کچھ اہم تبدیلیاں آئی ہیں، جنھیں درج ذیل دو نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:
سولھویں صدی کے یورپی براعظم سے عالم گیر عیسائیت نے چند اہم قومی بادشاہتیں پیدا کیں۔ اسی دوران عیسائیت کے اندر ایک مذہبی بغاوت کے نتیجے میں پروٹسٹنٹ مذہب پیدا ہو گیا۔ قومی بادشا ہتوں نے اس تفریق کے نتیجے میں اپنے آپ کو عیسائیت کے ایک یا دوسرے گروہ سے منسلک کر کے اسے اپنی شناخت بنا لیا۔ اس طرح عالم گیر عیسائی شناخت، قومی شناختوں میں بکھر گئی۔ گویا ابتدا میں مذہب کی قومی شناخت ایک یورپی تصور تھا، لیکن جلد ہی قومی بادشاہتوں نے اپنے دین کو اپنا ماتحت بنا لیا۔ رفتہ رفتہ یہ نئی شناخت انسانوں کی طویل المدت دینی شناخت کی ایک اہم حریف بن گئی۔
یورپ کے دورِ استعمار میں یہ تصور نو آبادیاتی علاقوں میں متعارف ہوا اور جب استعمار رخصت ہوا تو نئے سیاسی ادارے اسی بنیاد پر قائم ہوئے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کی بیش تر آبادی میں قومی شناخت اول اور مذہبی شناخت ما تحت شناخت میں تبدیل ہوگئی۔
مختصراً یہ کہ اس نئی شناخت میں قومی ریاست کی اوّلیت کا تصور ابتدا ًایک یورپی مذہب بیزار تصور تھا۔ جو رفتہ رفتہ دنیا بھر میں ایک انتظامی حقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ اس انتظامی ادارے نے قوت کے تمام مراکز پر اجارہ داری حاصل کر کے لادینیت کو ایک عالم گیر تہذیب بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ تحقیق کے مطابق لادینیت کی عالم گیر تہذیب میں قومی ریاست کا تصور ایک بنیادی اور غیر متنازع تصور ہے۔ اس موضوع پر معروضی اعداد و شمار مضمون کے متعلقہ حصے میں درج کر دیئے گئے ہیں۔
الہامی ادیان یعنی عیسائیت اور اسلام کے ایک بے نام حریف کی پذیرائی، اور قوت کے اداروں پر اس کی اجارہ داری نے قومی ریاست کی شناخت کی اوّلیت اور الحاد کے فلسفے کے مرکب سے جدید لادینی تہذیب کا نیا اضافہ کر دیاہے۔ عیسائیت اور اسلام دونوں بہت کثیر التعداد اور طاقت ور تہذیبیں ہونے کے باوجود دُنیا کے نظامِ جبر (coercive power) میں وہ حیثیت حاصل نہ کرسکی تھیں، جو اس نئی تہذیب نے حاصل کی ہے۔ اس کی رکنیت کرۂ ارض کے تمام انسانوں کے لیے، چاہنے یا نہ چاہنےکے باوجود لازمی قرار پائی ہے۔ اس کے پیروکار بالعموم اس مذہبی فکر اور پہچان کو ثانوی حیثیت دے کربیک وقت کسی اور مذہب کے پیروکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے یہ تہذیب مذاہب کے اس سلسلے میں شمار کی جائے گی، جس میں ایک سے زیادہ دیوتائوں (gods) کی اجازت ہے۔
اس تیسری عالم گیر تہذیب نے تعلیمی نظام پر ایک مخفی یا نیم مخفی اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ اس کا تعلق نظامِ عدل کے ایک خاص عالم گیر نظام اور اطلاق سے ہے۔ ’عالم گیر انسانی حقوق‘ (Universal Human Rights) کی تعریف، حقوق سے زیادہ اُن اخلاقی معاملات سے منسلک ہوگئی ہے، جو تاریخی طور پر عیسائیت اور اسلام یا دیگر بہت سے پیروکاروں والے مذاہب کے دائرئہ کار میں شامل تھے۔
اس مضمون میں ہم باری باری ان تینوں تہذیبوں کا بنیادی تعارف اور تجزیہ کریں گے۔
پس منظر: بعض عمومی باتیں جن سے ہم اکثر واقف ہیں،یادداشت کے لیے انھیں دُہرا دینا مناسب ہوگا۔ عیسائیت کی عمر ۲ہزار سال ہے۔پہلے تقریباً۱۰۰سال تک یہ اپنے آپ کو یہودیت ہی کا ایک فرقہ کہتی تھی اور یہودیوں کے علاوہ دیگر آبادیوں میں تبلیغ نہیں کرتی تھی اور نہ اُنھیں اپنے میں شامل کرتی تھی۔ اس کی اُٹھان میں بغاوت کا پہلو بہت زیادہ نمایاں تھا۔ یہ اپنی مذہبی قیادت یعنی یہودی پیشوائوں سے باغی تھی۔ رومی سلطنت بھی اسے بادشاہ کے اُوپر ایک بادشاہ کا تصور رکھنے کے سبب باغی گروہ سمجھتی تھی۔ ان اسباب سے عیسائیت کے پیروکار ظلم و ستم کا شکار رہتے تھے۔ یہ کیفیت ۳۰۰سال تک رہی۔ حتیٰ کہ روم کے ایک شہنشاہ کانسٹنٹائن اوّل (۲۷۲ء-۳۳۷ء) نے عیسائیت قبول کرکے اسے اپنی بادشاہت کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔ اسی بادشاہ کی نسبت سے اُس کی بادشاہت کا صدر مقام قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) کہلایا۔
عالم گیر عیسائیت میں اپنی ابتدا ہی سے شدید فرقہ واریت پائی جاتی ہے۔ فرقہ واریت کی بنیاد حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات میں خدائے بزرگ و برتر کی ذات کے حلول ہونے یا نہ ہونے سے متعلق عقائد تھے۔ دوسرے یہ کہ عیسائیت کے پیروکاروں میں رسمی تنظیم سازی بہت اہم سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس میں شمولیت اور اس سے اخراج، ایک تنظیمی کارروائی تھی۔ اخراج کے نتیجے میں خارج شدہ افراد اپنا علیحدہ فرقہ بنا لیتے تھے۔ تیسرا یہ کہ اخراج کی بنیاد عمل سے زیادہ عقیدے کے اختلاف پر تھی۔ اس لیے عقیدے کی باریکیاں اور موشگافیاں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ عیسائیت میں یہ فرقے رفتہ رفتہ علیحدہ مذاہب کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات کے بارے میں عقائد کے اختلاف کے علاوہ عیسائیت کی تاریخ میں علاقہ جاتی یا جغرافیائی اختلاف بھی نہایت اہم ہے۔ چنانچہ مغربی اور مشرقی عیسائیت، مسیحی اُمت کی نمایاں تفریق ہے۔ اس اختلاف کا تیسرا سبب ایک عالم گیر اُمت کے اندر متعدد قومی اُمتوں کے ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ سولھویں صدی کے آغاز میں ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ایک جرمن عیسائی پیشوا مارٹن لوتھر(۱۴۸۳ء-۱۵۴۶ء) نے پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح مغربی عیسائیت دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ کیتھولک جو ایک عالم گیر پیشوا کو مانتے ہیں اور پروٹسٹنٹ جو ہر قومی ریاست میں اپنا اپنا قومی مذہبی پیشوا متعین کرتے ہیں اور اُن کے ہاں کسی مشترکہ عالم گیر پیشوا کا کوئی تصور نہیں۔
یہ پس منظر یہاں بیان کردہ اعدادو شمار کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ اعداد و شمار میں دُنیا بھر کی عیسائیت چار اقسام کا مجموعہ ہے، جن میں: کیتھولک جو کُل عیسائیوں کا ۵۰ فی صد ہے، پروٹسٹنٹ ۳۸ فی صد ہیں، آرتھوڈاکس (مشرقی چرچ) اور ان کے ہمراہ وہ تمام فرقے جو ان تینوں کے علاوہ اپنی اپنی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، وہ ۱۲ فی صد ہیں۔
عوامی سطح پر ان بڑے عیسائی فرقوں کا کوئی مشترکہ اجتماع نہیں ہوتا۔ ان کی عبادات کے طریقے (Liturgy)مختلف ہیں۔ ایک تہذیب کے طور پر جدید زمانے میں عیسائیت کو ایک تہذیب کہا جائے یا کم از کم تین منفرد تہذیبیں، یہ ایک بڑا غورطلب معاملہ ہے۔اسی سبب سے پروفیسر سموئیل پی ہن ٹنگٹن (م:۲۰۰۸ء)نے تہذیبوں پر اپنی کتاب The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (۱۹۹۶ء) میں عیسائیت کو تین مختلف تہذیبیں شمار کیا ہے۔ خود پروفیسر موصوف امریکی پروٹسٹنٹ عیسائیت سے تعلق رکھتے تھے۔
شدید فرقہ وارانہ رجحانات کے باوجود عیسائیت کے تمام فرقوں میں بعض اہم چیزیں مشترک بھی ہیں،مثلاً بائبل سے تعلق، حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام سے تعلق اور تمام تر موشگافیوں کے باوجود اپنے آپ کو ایک موحدین (Monotheism) کا پیروکار کہنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنا رشتہ جوڑنا ان کے اہم مشترکات ہیں۔
عیسائیت میں فرقہ وارانہ تقسیم کی طرح دیگر دونوں عالم گیر تہذیبوں یعنی اسلام اور لادینیت میں بھی گروہی تقسیم موجود ہے۔
۱۹۶۰ء میں دُنیا کی کُل آبادی کا ۳۴ فی صد اپنے آپ کو عیسائیت کا پیروکار کہتا تھا۔ ۶۰برس بعد ۲۰۲۰ء میں یہ شرح ۳۱فی صد رہ گئی ہے۔ بعض علاقوں میں آبادیوں نے عیسائیت سے تعلق توڑا، جب کہ دیگر علاقوں میں اپنے قدیمی مذاہب کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی ہے۔ یہاں پر اُن اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے، جو گذشتہ ایک صدی میں عیسائی تہذیب کی جغرافیائی ساخت میں ظہور پذیر ہوئی ہیں:
پہلی تبدیلی یہ ہے کہ عیسائیت، یورپ اور امریکا کی تہذیب سے آگے بڑھ کر جغرافیائی طور پر ایک عالم گیر تہذیب بن گئی۔ ایک سو سال پہلے تک عیسائیت یورو امریکا تک محدود تھی اور اس کے ۹۳ فی صد پیروکار یورو امریکا ہی میں مقیم تھے اورصرف ۷ فی صد عیسائی ایفرو ایشیا میں۔ گذشتہ سو سال کے دوران افریقا اور ایشیا میں بڑھوتری اور یورو امریکا میں کمی کے سبب یہ تناسب بدل گیا ہے۔ اب ۶۰ فی صد یورو امریکا میں اور ۴۰فی صد ایفرو ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ایک صدی کے اندر اتنی بڑی تبدیلی کو جغرافیائی انقلاب کہا جاسکتا ہے، جس کے اسباب اور مضمرات دونوں اہم ہیں۔
دوسری تبدیلی یہ ہے کہ عیسائیت کے تاریخی مرکز یعنی یورپ و امریکا میں ۲۵کروڑ ۴۰لاکھ افراد نے ۲۰۲۰ء تک پہنچتے پہنچتے عیسائیت کو رسمی طور پر ترک کرکے ’لادینی تہذیب‘ کا پیروکار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مزید یہ کہ۶۰سال پہلے یورو امریکی لادینیت کا مرکز روس اور مشرقی یورپ تھا۔ ۶۳ فی صد لادینی یورو امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔اب یہ صورتِ حال بالکل پلٹ گئی ہے، اور یورو امریکی لادینیت کا مرکز مغربی یورپ اور امریکاہیں۔ یورو امریکی لادین افراد میں سے ۸۱ فی صد اب مغربی یورپ یا امریکا میں ہیں۔
تیسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ یورو امریکا کے عیسائی، عیسائیت کے مشترکہ عقائد میں یقین رکھنے کے بارے میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ماضی میں وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ذات کی حقیقت اور صفات پر تقسیم تھے۔ اب اس سے آگے بڑھ کر خدا، آخرت، جزا اور سزا کے مشترکہ عقائد پر بھی تقسیم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ یورو امریکا کے عیسائی پیروکاروں میں سے ۲۲ فی صد جزا یعنی جنّت کا اور ۴۰ فی صد سزا یعنی دوزخ کا انکار کرتے ہیں۔ ۲۹ فی صد ایسی روح کا بھی انکار کرتے ہیں جو موت کے بعد اپنا وجود رکھتی ہو۔
چوتھی تبدیلی یہ آئی ہے کہ ایک صدی پہلے تک دُنیا کے عیسائی پیروکاروں میں ’ایک عالم گیر عیسائی اُمت‘ (Christendom) کا تصور معروف تھا۔ یہ تصور اس کے باوجود معروف تھا کہ اس کے تینوں بڑے فرقے، اپنے فرقے کے علاوہ دیگر عیسائی فرقوں کو عیسائی تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھے۔ لیکن ہر فرقہ اپنی سماجی اور سیاسی شناخت میں عیسائیت کو اوّل مقام دیتا تھا۔ ۲۰۲۰ء تک پہنچتے پہنچتے عیسائیت کے پیروکاروں میں ’عالم گیر عیسائی اُمت‘ کا تصور غیرمعروف ہوگیا ہے اور باعث ِ افتخار نہیں رہا۔ دُنیا کے ۱۷۵ ممالک میں سے تقریباً ۱۰۰ میں عیسائیت آبادی کا اکثریتی مذہب ہے، لیکن بین الاقوامی گفت و شنید میں ’عیسائی دُنیا‘ کی اصطلاح اس طرح سے استعمال نہیں ہوتی، جیسے ’مسلم دُنیا‘ کی اصطلاح۔ حالانکہ صرف۵۰ ممالک ایسے ہیں، جہاں اسلام اکثریتی مذہب ہے۔
دُنیا بھر کے عیسائی پیروکاروں میں سے صرف ۲۱ فی صد اپنی شناخت میں عیسائی اُمت سے وابستگی کو اولیت دیتے ہیں ، جب کہ عالم گیر مسلمانوں میں یہ شرح ۴۹ فی صد ہے۔
پس منظر: یاد رہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام کا ظہور شمسی برسوں کے حساب سے تقریباً۱۴سو سال قبل ہوا۔ ۶۲۲ء سے ہجری سال شروع کیا جائے تو گذشتہ برس ۱۴۰۰ سال مکمل ہوتے ہیں۔
محتاط تخمینے کے مطابق دُنیا کی ۸؍ارب آبادی میں سے قریباً ایک چوتھائی مسلمان ہیں۔ اس ۲؍ارب میں سے اندازاً ۸۰ فی صد اُن ۵۰ملکوں میں رہتے ہیں، جہاں اُن کی اکثریت ہے، بقیہ ۲۰ فی صد کی حیثیت اپنے اپنے ملکوں میں غیراکثریتی ہے (واضح رہے کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے۶ ممبر ممالک مسلم اکثریتی نہیں ہیں)۔
۲؍ارب مسلمانوں کی کُل آبادی کا ۹۷ فی صد افریقا اور ایشیا میں رہتا ہے اور صرف ۳ فی صد یورو امریکا میں۔ ’عالم گیر عیسائیت‘ کے برعکس گذشتہ ایک صدی میں ’عالم گیر اسلام‘ کی جغرافیائی ساخت میں کوئی نمایاں فرق واقع نہیں ہوا۔ اس دوران عیسائی تہذیب کی جغرافیائی ساخت میں تبدیلی واقع ہوگئی جس کا بیان پہلے آچکا ہے، چنانچہ معاصر دور میں عالم گیر عیسائی تہذیب کا ایک بہت بڑا حصہ ۴۰ فی صد افریقا اور ایشیا میں مسلم تہذیب کے پہلو بہ پہلو رہتا ہے، واضح رہے کہ ایک صدی پہلے مٹھی بھر نوآبادیاتی حاکم طبقے کے علاوہ افریقا اور ایشیا میں عیسائی آبادی کا وجود ہی نہیں تھا۔ گویا بڑے پیمانے پر مسلم عیسائی عوامی رابطہ حالیہ صدی کی پیداوار ہے۔
ایک چھوٹے پیمانے پر مسلم عیسائی رابطہ یورو امریکا میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں اندازاً ۵کروڑ مسلم آباد ہیں۔ اس ۵ کروڑ آبادی میں سے قریباً ایک کروڑ ۸۰لاکھ ، یعنی۳۶ فی صد یوروامریکا کے رکن ملک روس میں رہتے ہیں۔روسی مسلمانوں کی بیش تر آبادیاں کئی صدیاں پہلے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی تھیں اور علاقے کی قدیمی آبادیاں ہیں۔ اس کے برعکس مغربی یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمان ان تارکین وطن یا اقتصادی مہاجرین پر مشتمل ہیں، جو وہاں ایک سو سال میں منتقل ہوئے۔ اس میں ایک استثناء امریکا کے مقامی سیاہ فام مسلمان ہیں، جنھوں نے گذشتہ ایک صدی میں اسلام کی جانب رجوع کیا، البتہ وہ وہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔
عالم گیر اسلامی تہذیب میں اس کی جغرافیائی تقسیم، عیسائیت کی جغرافیائی تقسیم سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کی جغرافیائی کثرت یا تفریق گذشتہ ایک صدی میں واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس عالم گیر مسلم تہذیب نے اپنی متفرق شکلیں پہلی چند صدیوں ہی میں اختیار کر لی تھیں۔ مسلمانوں کی یہ تہذیبی شکلیں پہلی چند صدیوں کے دوران: عرب، ایرانی، تورانی، شمالی افریقی، مشرقی افریقی، وسطی ایشیائی، مغربی ایشیائی ، مشرقی ایشیائی شکل وضع کرچکی تھیں۔
گویا مسلم تہذیب میں رنگ، نسل اور جغرافیے کی کثرت کی تاریخ عیسائیت کی نسبت کہیں زیادہ طویل، بھرپور یا پیچیدہ ہے۔ عیسائیت کے برعکس ’عالم گیر مسلم تہذیب‘ کا کوئی جغرافیائی، نسلی مرکزثقل کبھی واقع ہی نہیں ہوا:
مسلمانوں کی جغرافیائی اور تاریخی تفریق کا سبب یہ ہے کہ مسلم تہذیب کے پانچ بڑے حصوں میں اسلام مختلف اوقات میں اور مختلف راستوں سے پہنچا۔ وہ جس علاقے میں پہنچا وہاں اُس کی مقامی آبادیاں معدوم نہ ہوئیں بلکہ وہی قدیمی آبادیاں رفتہ رفتہ اسلامی تہذیب میں جذب ہوگئیں۔ یہ عمل صدیوں پر پھیلا ہوا ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ صرف دو حصے ایسے ہیں، جہاں وہ مقامی آبادی کا ۸۰ فی صد یا زائد ہیں، یعنی عرب اور ترکی فارسی علاقے ۔ بقیہ میں اپنے اپنے خطے کے لحاظ سے مسلمان آبادیاں غیراکثریتی یا نیم اکثریتی ہیں۔ ملائی علاقے میں ۴۳ فی صد، ہندی علاقے میں ۳۰ فی صد، زیرصحرا افریقی علاقے میں ۳۰ فی صد ہیں۔ گویا وہ ان خطوں میں دیگر تہذیبوںکے پہلو بہ پہلو رہتے ہیں۔ زیرصحرا افریقا میں عیسائیت کے ساتھ، ہندی خطے میں ہندومت کے ساتھ، ملائی خطے میں بودھ مت اور عیسائیت کے ساتھ ۔
عیسائیت کے مقابلے میں مسلم تہذیب میں عقیدے کی بنیاد پر فرقہ بندی غیرمعمولی طور پر کم ہے۔ مسلم تہذیب مجموعی طور پر اپنے پیروکاروں کو ان کے اعمال سے جانچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں دو ہی اہم یا کثیر تعداد رکھنےوالے فرقے ہیں : اہل سنت اور اہل تشیع۔ مگر یہ دونوں حج کے موقعے پر مل کر حج کرتے ہیں اور دیگر عبادات و ارکانِ اسلام پر اُن کا عمل ایک دوسرے سے مماثل ہے۔ گویا ان کا دینی مرکز ثقل ایک ہے۔ مگر مقابلے میں یہ بات عیسائیت کے تین اہم فرقوں کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی۔ اُن تینوں کے اپنے اپنے اور متفرق دینی مراکز ثقل ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے مستند سمجھے جانے والے تخمینوں کے تحت ۲؍ارب مسلمانوں میں سے ۸۵ فی صد سُنّی ، ۱۲ فی صد شیعہ اور ۳ فی صد دیگر چھوٹے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد فارسی اور ترکی بولنے والے خطے میں پائی جاتی ہے، جو عالم گیر شیعہ آبادی کا ۴۲ فی صد ہے۔ پھر ہندی خطے میں جو شیعہ آبادی کا ۲۷ فی صد ہیں۔ اس کے بعد عرب خطے میں جو کُل شیعہ آبادی کا ۲۱ فی صد ہے۔ ملائی زبان بولنے والے علاقوں اور زیرصحرا افریقا میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد نسبتاً قلیل ہے۔ ان دونوں جگہوں پر ملا کر دُنیا میں شیعہ مسلمانوں کا اندازاً ۱۰فی صد ہیں۔
ایران کے ایک شیعہ محقق اور سیاسیات کے ثقہ استاد ڈاکٹر حامد عنایت (۱۹۳۲ء- ۱۹۸۲ء) نے اپنے گہرے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ : ۲۰ویں صدی میں شیعہ اور سُنّی مسالک میں عقائد کا فرق کم ہوگیا ہے، اور اب اس فرق کی شدت عقیدے سے زیادہ سیاست خصوصاً علاقائی سیاست کے میدان تک محدود ہے۔ مجموعی طور پر مسلم تہذیب میں دین کے بنیادی تصورات پر ایک ٹھیراؤ ہے، اگر انحراف ہے تو اُس کا تعلق عقیدے کی فرقہ واریت سے دل برداشتہ ہونا نہیں، جیساکہ یورو امریکا کی تاریخ میں ہوا۔ مسلم تہذیب میں اس انحراف کا تعلق یورپی نوآبادیاتی زمانے کے سماجی جبر بالخصوص اشتراکی روس (سوویت یونین) کے کمیونسٹ نوآبادیاتی سیاسی جبر کے زمانے (۹۱-۱۹۱۷ء) سے ہے۔ جس میں انحراف کرنے والوں نے حکمرانوں کی لادینی تہذیب میں داخل ہونا اپنے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا اور بعض صورتوں میں وہ اس جبر میں کمی کے بعد کے زمانے میں اُسی روش پر قائم رہے۔ البتہ بھرپور مسلم معاشروں میں آج بھی یہ ایک اجنبی سماجی اقلیت کی طرح ہیں۔
l پس منظر: ایک عالم گیر ’لادینی تہذیب‘ کا چرچا تو قریباً ۲سو سال اوربعض لحاظ سے اس سے بھی قدیم ہے، لیکن اس کے بارے میں اعداد و شمار گذشتہ دس برسوں میں زیادہ واضح ہوکر سامنے آئے ہیں۔ لادینیت سمیت تمام بڑی تہذیبوں پر معلومات کی کمی یا ابہام بجائے خود معنی خیز ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں لادینیت حکومتی نظام میں اہمیت اختیار کرگئی ہے، وہاں انھوں نے ’دین‘ یا ’مذہب‘ کے سوال کو اپنی مردم شماری سے خارج کر دیا ہے۔
گذشتہ دو سو سال میں مردم شماری پر اختیار قومی ریاستوں کو حاصل رہا ہے۔ اُنھیں یہ اختیار اپنی قوم کے علاوہ اپنی محکوم قوموں کی مردم شماری پر بھی حاصل ہے۔ مردم شماری کے ذریعے انسانوں کی ایسی بنیادی شناختوں کی پیمائش کی جاتی ہے، جو ان کے روزمرہ معاملات پراثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ سوال غور طلب ہے کہ خود یورو امریکی آبادیوں کے روزمرہ کے معاملات میں مذاہب کے گہرے اثرات ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کی جدید قومی ریاستوں نے اپنی آبادیوں کی مردم شماری میں مذہبی شناخت کو کیوں خارج کردیا ہے؟
یہ رجحان یورو امریکا کے باہر ایفروایشیا کی جدید ریاستوں میں بھی نمایاں ہے۔ ہم نے دُنیا کے قریباً ۱۰۰ بڑے ممالک کی حالیہ (۲۰-۲۰۱۹ء) مردم شماری کے سوالات کا جائزہ لیا ہے۔ ان ممالک میں سے بمشکل نصف کی مردم شماری میں دین یا لادینیت کا سوال موجود ہے۔ چنانچہ یورو امریکا کے ۵۲ممالک میں سے صرف۲۵ ممالک میں مذہب کا سوال شامل ہے۔ عیسائی اکثریت رکھنے والے ۷۶ممالک میں سے ۴۳ میں مذہب کا سوال موجود ہے اور دوسری طرف مسلم اکثریت رکھنے والے ۳۶ ممالک میں سے ۱۷ میں یہ سوال موجود ہے۔
یہ سوال بحث طلب ہے کہ جدید زمانے میں جب ایک اقلیت حاکم ہو تو وہ اکثریتی شناخت کے بعض پہلوئوں کو تاریکی میں رکھنا پسند کرتی ہے۔ بظاہر عالم گیر ’لادینی تہذیب‘ دیگر عالم گیر دینی تہذیبوں کی شناخت کی پیمائش کو پسند نہیں کرتی اور نہ اپنے آپ کو ایک دین کے طور پر متعارف کرواکر اپنے پیروکاروں کی تعداد کی پیمائش کرتی ہے ۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ لادینیت کی اپنی ’ایمانیات‘ اور اقدار ہیں، اس کے اپنے معبود ہیں، اس نے انسانوں کے درمیان معاملات حتیٰ کہ خاندانی نظام کے بارے میں اپنے جدا طور اطوار کا ڈھانچا تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ اس بات کی خواہش مند ہے کہ تمام انسانوں کو اپنے دین پر لا کر اپنی تعریف کے مطابق انھیں ’فلاح‘ سے ہمکنار کردے۔
لادینیت اپنے حریف الہامی ادیان کا گہرا تجزیہ کرتی ہے، جب کہ خود اس کے اپنے دین کا معروضی تجزیہ، حتیٰ کہ اس کی بنیادی جغرافیائی ساخت اور مسالک تک میں بھی معلومات کا ایک خلا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم نے اس خلا کو پُر کرنے کی ایک ابتدائی کوشش کی ہے۔ اسلام کی تحقیقی روایت میں اس نوعیت کے تقابلی مطالعے کی ایک طویل تاریخ ہے، لہٰذا اس تحریر کو اس روایت کا ایک ادنیٰ تسلسل تصور کیا جا سکتا ہے۔
بعض لحاظ سے جدید لادینی تہذیب، معاصر دُنیا کی سب سے زیادہ سرایت کی ہوئی اور دُنیاوی لحاظ سے سب سے طاقت ور تہذیب ہے۔ معاشی وسائل اور ریاستی و سیاسی جبر کے وسائل پر اس کی گرفت غیرمعمولی ہے۔ تعداد کے لحاظ سے اس کے براہِ راست پیروکار دُنیا کی آبادی کا ۱۵فی صد ہیں، لیکن معاش اور جبر کی قوت (coercive power) کے لحاظ سے اُس کا تناسب اپنی تعداد کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ عالم گیر لادینی تہذیب کو ایک تہذیب ہونے کے باوجود اس طرح سےایک اُمت کہنا درست نہ ہوگا کہ جس طرح سے ہم نے عیسائی اُمت اور مسلم اُمت کو بیان کیا ہے۔ عالم گیر لادینی تہذیب ،زندگی بعد موت کے تصور کو نہیں مانتی، اور جزا اور سزا کے تصور کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس تہذیب کے پیروکار مادی زندگی کے اقرار اور ابدی روحانی زندگی کے انکار کے گرد جمع ہیں۔ چنانچہ ان کے باہمی تعلقات میں وہ ’روح‘ شامل نہیں ہے، جو غیرمحسوس محبت اور اُلفت سے جغرافیے، معاش اور سماج کی طبقاتی تقسیم اور بسااوقات انفرادی مادی مفادات کے علی الرغم منتشرافراد کو ایک اُمت بنا دیتی ہے۔ ایک مشترکہ روحانی اُمت نہ ہونے کے باوجود جدید لادینی تہذیب میں ایک عالم گیر گروہی تعصب اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔
البتہ ہر بڑے گروہ کی طرح اس میں مختلف فرقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔اس تہذیب میں فرقوں کی باہمی تمیز جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر ہے، عقائد کے اختلاف پر نہیں۔
ہم نے عالم گیر لادینی تہذیب کو تین جغرافیائی حصوں یا فرقوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو فرقے یورو امریکا سے تعلق رکھتے ہیں ، جب کہ تیسرا فرقہ ایفروایشیا سے ہے۔ یہ تین فرقے مل کر کُل ’لادینی تہذیب‘ کا ۹۴ فی صد ہے۔ باقی ماندہ ۶ فی صد، متفرق گروہوں پر مشتمل ہیں۔ تین گروہوں یا فرقوں کی تفصیل یہ ہے:
فرقہ نمبر ایک، یوروامریکا کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر عیسائی پس منظر رکھتے ہیں اور ان ممالک میں مقیم ہیں جو کبھی کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط نہیں رہے۔ کُل عالم گیر لادین تہذیب میں ان کی شرح ۱۸ فی صد ہے۔
فرقہ نمبر دو، یورو امریکا کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر تو فرقہ نمبر ایک کی طرح عیسائی پس منظر ہی رکھتے ہیں، البتہ اُن ممالک میں مقیم ہیں، جو ماضی میں کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہے ہیں۔ کُل عالم گیر لادین تہذیب میں ان کی شرح ۴ فی صد ہے۔
فرقہ نمبرتین، چینی تہذیب (شمال مشرقی ایشیا) کے اُن پیروکاروں پر مشتمل ہے، جو مذہبی طور پر بودھ مت یا دیگر چینی ، جاپانی، کوریائی مقامی مذاہب کا پس منظر رکھتے ہیں، خواہ وہ کبھی کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہے ہوں یا نہ رہے ہوں۔ کُل عالم گیر لادینی تہذیب میں ان کی شرح ۷۲ فی صد ہے۔ اس لحاظ سے جدید لادینی تہذیب کی بھاری اکثریت اس فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ باقی ماندہ ۶ فی صدکا تعلق ایفروایشیا کے تمام دیگر پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ عالم گیر لادینی تہذیب میں اس کی حیثیت معمولی ہے۔
لادینیت کا جغرافیائی فرقہ نمبر ایک (غیر کمیونسٹ مغربی یورپ اور شمالی امریکا) اس دین کا ہراول دستہ ہے۔ تاریخی طور پر جدید لادینیت اسی خطے سے ابھری۔ دینی عقائد اور دینی معاشرتی زندگی میں اپنی منفرد منہج وضع کرنے میں یہ فرقہ سب سے زیادہ پختہ کار اور پُرجوش ہے۔ تینوں فرقوں میں یہ سب سے زیادہ مال دار، اور جبری قوتوں کا مالک ہے۔ یہ جن ملکوں کا شہری ہے اُن کی اوسط فی کس آمدنی ۳۲ہزار ڈالر بنتی ہے۔ اُن کے شہری جبری قوت حاصل کرنے کے لیے اندازاً ۱۲۰۰ بلین ڈالر سالانہ ادا کرتے ہیں۔ یوروامریکا لادینی تہذیب کا یہ فرقہ اپنے جغرافیائی خطے میں آبادی کی ایک اقلیت ۱۴ فی صد ہیں ، جب کہ عیسائی دین کے ماننے والے بھاری اکثریت۸۱ فی صد ہیں۔
فرقہ نمبر ایک کی امتیازی تاریخ، عالم گیر نوآبادیاتی حکمرانی سے متعلق ہے۔ دُنیا کی تمام بڑی عالم گیر نوآبادیاتی حکومتیں اسی مرکز سے اُبھری ہیں، مثلاًبرطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بلجیم، اسپین، پرتگال، اٹلی اور جرمنی وغیرہ میں ۔ لادینیت کی تحریک کی پیدایش اور اس کی عالم گیر توسیع اس مرکز ثقل کے نوآبادیاتی دور، یعنی ۱۷۰۰ء سے لے کر ۱۹۵۰ء تک کے دوران ۲۵۰ برسوں ہی میں ہوئی۔ اس دور میں عالم گیر لادینی تہذیب کا فلسفہ وضع ہوا اور اس کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی منہج تشکیل پائی۔ لادینیت کے اس فرقے کی عالمی لادینیت میں تعداد تو محض ۲۶ فی صد ہے، لیکن یہی اس کا ہراول دستہ ہے، بالخصوص شمالی اوقیانوس دستہ جو مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے حاکم طبقے پر مشتمل ہے۔
یہ طبقہ اپنے ممالک میں قریباً ۲۰ فی صد اوراپنے خطے میں اور دُنیا کی آبادی میں محض ۴ فی صد ہے۔ لیکن یہ ایسے طاقت ور ممالک پر حاکم ہے، جو دُنیا کی آبادی کا محض ۱۰فی صد ہے ، لیکن سالانہ آمدنی میں قریباً ۳۵ فی صد اور اسلحے کی سالانہ خریداری میں ان کا حصہ ۷۰فی صد ہے۔
یورپ کے دونوں لادینی فرقوں میں بعض خصوصیات مشترک ہیں اور بعض میں تفریق ہے۔ پہلی تہذیبی تفریق کا تعلق دونوں کے مذہبی پس منظر سے ہے۔ فرقہ نمبر ایک کے ممالک کی عیسائی آبادی زیادہ تر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں عقیدے مل کر خطے کی عیسائی آبادی کا ۹۸ فی صد ہیں، جب کہ فرقہ نمبردو کے ممالک میں آرتھوڈوکس عیسائیت غالب ہے، اور خطے کے۷۳ فی صد آرتھوڈوکس عیسائی عقیدے سے منسلک ہیں۔ دوسری تہذیبی تفریق کا تعلق دونوں میں لادینیت کو نافذ کرنے کے لیے سیاسی اور سماجی جبر کی شدت میں فرق سے متعلق ہے۔
فرقہ نمبر ایک یعنی مغربی یورپ نے لادینی تہذیب کو فوقیت دینے کے باوجود عیسائیت اور کسی حد تک دیگر مذاہب کے بارے میں شدت اختیار نہیں کی۔ فرقہ نمبردو جس کی سربراہی روس کے پاس تھی اپنے ممالک میں لادینیت کی انتہائی شکل یعنی اشتراکی لادینیت کو جبری طور پر نافذکیا۔ اس علاقے میں یہ نظام ۵۰ سے لے کر ۷۰سال تک قائم رہا۔ ۱۹۹۱ء میں جبر کے اس نظام کے انہدام کے بعد سے روس اور مشرقی یورپ میں لادینیت کی تحریک کو روس اور مشرقی یورپ میں ضعف پہنچا ہے، جب کہ مغربی یورپ میں اس تحریک کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اول الذکر میں لادینیت کے پیروکاروں کی تعداد اور جوش و خروش میں کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ ثانی الذکر میں پیروکاروں کی تعداد اور ان کے جوش و خروش دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جدید لادینیت کی عالم گیر تہذیب کا تیسرا اور تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا فرقہ چین، جاپان، کوریا، ویت نام اور ہند چینی علاقے پر مشتمل ہے۔ لادینیت کی پیروکاری سے قبل وہ بودھ مت کے پیروکار تھے یا ایک سے زائد مقامی مذاہب اور عقائد کے۔اس گروہ کی بیش تر آبادی ۷۲فی صد چین اور ۳فی صد ہند چینی ملکوں میں رہتی ہے، جن میں ایک طویل عرصہ سخت گیر کمیونسٹ حکومت قائم رہی۔ مغربی یورپ کی عالم گیر نوآبادیاتی یلغار سے قبل یہ خطہ دُنیا کا متمول ترین اور مہذب ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا، لیکن گذشتہ ۲۰۰ سال میں یہ علاقہ امیر سے غریب ہوگیا اور انتہائی فاخرانہ تہذیب سے گر کر ان کی اشرافیہ یورپی تہذیب کی جانب راغب ہوگئی۔ اُنھوں نے مشرقی یورپ بالخصوص روس کے تیار کردہ راستے یعنی کمیونسٹ پارٹی کے طریق کار کو اختیار کرلیا۔ ان کی یہ برادری ۱۹۲۰ء سے لے کر اگلے پچاس سال یعنی ۱۹۷۰ء تک بڑے استقلال کے ساتھ قائم رہی۔ اس سے قبل ان کے تعلقات کبھی پُرجوش نہیں تھے۔
ایشیائی فرقے کی لادینیت یورپی لادینی فرقے سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ایشیائی فرقے کا کسی الہامی دین کے ساتھ تعلق قائم نہیں رہا۔ وہ کسی الہامی دین سے انحراف کرکے لادینیت کی جدید تہذیب میں داخل نہیں ہوئے بلکہ اپنی چینی تہذیب کے ضعف کے زمانے میں جدیدیت سے مرعوب ہوکر اُنھوں نے جدیدیت کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی تہذیبی عظمت حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ چونکہ ان کو شکست و ریخت مغربی یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں دیکھنا پڑی تھی، لہٰذا اُنھوں نے مغربی یورپ کے حریف کمیونسٹ نظام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
ان کا اپنا قدیم تہذیبی تعصب اُن کے لادینی تعصب پر حاوی ہے۔ ان کی لادینیت کا تعلق ایک سیاسی یا تہذیبی ریاست کے دفاع سے متعلق ہے۔ چینی تہذیب کے علاقے میں اگر کسی مذہب نے اثرونفوذ حاصل کیا تو وہ بودھ مت تھا، اور بودھ مت کے پیروکار خدا اور مابعد الدنیا کے تصور سے آزاد ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے وہ چینی تہذیب میں زیادہ آسانی سے گڈمڈ ہوگئے۔
ایشیا کے اس لادینی فرقے کے تہذیبی عقائد، افکار اور اعمال بالخصوص تبلیغ دین کے بارے میں رویے اوّل الذکر یورپی فرقوں سے اتنے مختلف ہیں کہ اُسے اس تہذیب کے کُل میں شامل کرنے سے غلط فہمی پیداہوتی ہے۔چینی تہذیب میں سے اُبھری ہوئی لادینیت کو ایک علیحدہ گروہ مانا جائے تو عالم گیر لادینی تہذیب کی عددی حیثیت ایک دم کم ہوجاتی ہے۔ وہ دُنیا کی کُل آبادی کا بمشکل ۴فی صد رہ جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عالم گیر لادینیت کا وہ وزن جو دُنیا میں مال اور جبر کے نظام پر موجود ہے وہ بھی اسی تناسب سے کم رہ جائے گا۔کئی وجوہ سے وہ وزن برقرار رہتا ہے، کیوں کہ چینی علاقے کی لادینی تہذیب یورپی لادینی تہذیب کے ساتھ اپنا مفاداتی تعلق برقرار رکھ کر اپنے طویل المدت مقاصد حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔
چینی لادینیت کے برعکس یورو امریکن لادینی گروہ اپنے مفکرین کے افکار پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ اپنے افکار و اعمال کی عالم گیر تبلیغ کرتے ہیں، اپنے بزرگوں کی روایت میں ادیان کے تعلق سے پُرجوش ہوتے ہیں۔ اپنے سے قبل کے زمانے کو زمانۂ جاہلیت کہتے ہیں اور اپنی روش کو دُنیا کے لیے ’روشن خیالی‘ (Enlightenment) تصور کرتے ہیں۔ اسی لیے ۱۹۹۱ء میں جب لادینیت کے روسی اور مشرقی یورپی فرقے کو شکست ہوئی تو مغربی یورپی اور امریکی فرقے نے اس فتح کو ’تاریخ کے اختتام‘ (End of History) کے طور پر پیش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
گذشتہ ۶۰ برسوں میں دُنیا میں مسلم آبادی کا حصہ ۱۵ فی صد سے بڑھ کر ۲۵ فی صد ہوگیا ہے۔ دوسری طرف دُنیا کی آبادی میں عیسائیت کا حصہ ۳۴ فی صد سے کم ہوکر ۳۱ فی صد ہوگیا ہے، جب کہ عالم گیر لادینی تہذیب بھی آبادی کی شرح کے لحاظ سے گری ہے، اندازاً ۲۰ فی صد سے۱۵فی صد۔ اس تہذیب کی شرح میں کمی کی ایک اہم وجہ اس کی افزائش نسل میں کمی ہے۔
پانچ میں سے چار خطّوں میں مسلمان آبادی کا اضافہ افزائش نسل سے ہوا ہے۔ لیکن خطّہ زیرصحرائے افریقا میں یہ اضافہ مقامی مذاہب سے اسلام کی جانب رجوع کے ذریعے ہوا ہے۔ گذشتہ ۶۰برس میں زیرصحرا افریقا میں مسلم آبادی کُل آبادی کا ۲۳ فی صد سے بڑھ کر ۳۰ فی صد ہوگئی ہے۔ عیسائیت کی شرح کُل آبادی کا ۴۶ فی صد سے بڑھ کر ۵۷ فی صدہوگئی ہے، جب کہ مقامی مذاہب کی شرح۳۱ فی صد سے گر کر ۱۱فی صد رہ گئی ہے۔ عیسائیت اور اسلام کی جانب رجوع میں بعض عوامل مشترکہ بھی ہوں گے، لیکن ایک پہلو نمایاں طور پر مختلف ہے۔ عیسائیت کی جانب رجوع ایک نہایت منظم اداراتی شکل اور سرمایے کی مدد سے ہوا ہے، مگر اسلام کی جانب ایسی اداراتی یا سرمایے سے لیس کوششوں کا بظاہر کوئی وجود نہیں ہے۔
عالم گیر عیسائیت کی تاریخ میں زیرصحرا ئے افریقا میں ان کی کامیابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ کیونکہ اس اضافے نے کسی حد تک اس اضمحلال پر پردہ ڈال دیا ہے، جس کا سامنا پوری عیسائیت کو ہے۔ اوّلاً تو یورپی علاقے میں گذشتہ کئی عشروں سے افزائش نسل بہت قلیل ہے۔ قدیم عیسائی اخلاق سے خاندانی نظام کے دُور ہوجانے کی وجہ سے افزائش نسل کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف یورپ میں قریباً ایک فی صد، شمالی امریکا میں ۸ فی صد اور جنوبی امریکا میں ۳ فی صد عیسائی پیروکاروں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر لادینیت کو اختیار کرلیا ہے۔
پورے یورو امریکا میں ۶۰برس پر پھیلے اعداد وشمار کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مغربی یورپ اور امریکا یعنی شمالی اوقیانوس میں عیسائیت کے پیروکاروں میں ۱۵ فی صد کمی واقع ہوئی ہے، جب کہ مشرقی یورپ میں ۱۷ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق تبدیلیٔ افکار یا مذہب سے ہے، افزائش نسل میں اضافے یا کمی سے نہیں۔
دنیا کی تین بڑی عالم گیر تہذیبوں کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کے بعد ہم چند بنیادی اُمور پر ان کے حالیہ افکار کا تقابل کرتے ہیں۔ تقابل کی بنیاد ایک شماریاتی سروے ہے، جو دنیا کے ۱۰۰ سے زائد ممالک میں چار لاکھ بالغ افراد سے انٹرویو کے ذریعے کیا گیا۔
درجہ ذیل جدول سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ لادینیت کے پیروکار اپنے مخصوص عقائد رکھتے ہیں۔ یہ عقائد دُنیا کے دو اکثریتی الہامی ادیان سے واضح طور پر مختلف ہیں۔ اس سروے کے نتائج سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ لادینیت کی تہذیب نے عیسائی تہذیب کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے، جب کہ اسلامی تہذیب پر اس کے اثرات نسبتاً کم ہیں۔ اور بڑی حد تک ان مسلم آبادیوں تک محدود ہے جو کئی عشروں تک کمیونسٹ حکومتوں کے زیرتسلط رہیں ۔
موضوع | عالم گیر مسلم تہذیب | عالم گیر عیسائی تہذیب | عالم گیر لادینی تہذیب |
(خالق) خدا کے وجود پر یقین نہیں | ۱فی صد | ۴ فی صد | ۷۵ فی صد |
روح(جس کا نُشُوز ہونا ہے) میں یقین نہیں ہے | ۶ فی صد | ۱۰ فی صد | ۸۳ فی صد |
اُخروی زندگی کے وجود میں یقین نہیں ہے | ۱۸ فی صد | ۲۷ فی صد | ۷۹ فی صد |
جہنم (یعنی دُنیوی زندگی کی گمراہی کی سزا) میں یقین نہیں ہے |
۱۲ فی صد |
۳۴ فی صد | ۸۴فی صد |
جنّت (یعنی دُنیوی زندگی کی بھلائی کی جزا) میں یقین نہیں ہے | ۷ فی صد | ۱۷ فی صد | ۸۰ فی صد |
مسلم تہذیب میں دین کے بنیادی عقائد سے انکار کرنے والے بیش تر پیروکاروں کا تعلق سابقہ کمیونسٹ ملکوں سے ہے۔
افکار کی دنیا میں لادینیت نے عیسائی تہذیب کو مسلم تہذیب کے مقابلے میں کہیں زیادہ متاثر کیا ہے، جب کہ مسلم تہذیب مدافعت کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس فرق کے ممکنہ اسباب کا جائزہ پیش ہے:
عیسائی تہذیب کے دینی بنیادوں سے دُور ہوکر لادینیت کی جانب سفر طے کرنے میں تین معاملات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے:اوّلاً:اتباع دین کے لیے سلطانی (بادشاہت و حکومت) سے مماثل اداراتی نظام کا بنانا۔ دوم:عقیدے کی تشریح میں فلسفے کا بے جا استعمال کرنا، اور سوم: ارکانِ دین اور فروعِ دین میں واضح تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم رہنا۔
ان تینوں محرومیوں کے سبب ۱۵۰۰ء میں عیسائیت میں اصلاح کے خواہش مند طبقوں نے روایت کی پابند عیسائیت کے خلاف بغاوت کرکے اِتباع ریاست و حکومت کو اِتباع دین و کلیسا پر فوقیت دے ڈالی۔ اس انحراف کے نتیجے میں پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آگیا۔ اِتباع دین کو ریاست و حکومت کے تابع کرنے کے بعد پروٹسٹنٹ یورپ نے مطلق العنان بادشاہت (Absolutist Kingship) کا راستہ اختیار کیا ،جو رفتہ رفتہ جدید قومی ریاست پر منتج ہوا، اور اسی دراڑ کے نتیجے میں عیسائیت کی کوکھ سے جدید عالم گیر لادینی تہذیب پیدا ہوئی۔
عالم گیر لادینی تہذیب، اِتباع فلسفہ کو اِتباع الہام پر مقدم قرار دیتی ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے، جسے یورپی مفکرین یونانی اور رومی علمی تہذیب کا احیا (Renaissance) بھی کہتے ہیں۔ دین کے بنیادی عقائد یا ارکان کے معاملے میں فلسفے کی اِتباع کو الہام کے اِتباع پر مقدم کرنے کے دروازے سے عیسائی تہذیب کا ایک چھوٹا حصہ تو برملا بے دین ہوگیا اور بقیہ میں ایک قابلِ ذکر حصہ دین کی بنیادوں پر شک و شبہے میں مبتلا ہوگیا۔ چنانچہ معاصر عیسائی تہذیب کے پیروکاروں کی ایک قابلِ ذکر تعداد خالق، آخرت، جزا و سزا اور روح کے بارے میں وہی تصورات رکھتی ہے، جو عالم گیر لادینی تہذیب کی پہچان ہیں۔
ہم جن تین تہذیبوں کا جائزہ لے رہے ہیں وہ اپنے پیروکاروں اور فلسفۂ حیات کے لحاظ سے تمام انسانیت کو دعوت دیتے ہیں۔ ان کے پیروکار بین البراعظمی وجود رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی شناخت اور جذباتی وابستگیوں میں اوّلیت اپنی مقامی قومی ریاست یا قومیت کو دیتے ہیں یا کسی عالم گیر اکائی کو؟ سروے کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی ریاست سے بالاتر ایک عالم گیر امت کے تصور کی اوّلیت صرف مسلم تہذیب میں باقی ہے اور دوسرے نمبر پر عیسائیت میں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عالم گیر انسانیت کی مادی اور انسان پرست فکر عوامی سطح پر وسیع جذباتی ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصرہے۔ یہاں تک کہ کسی متبادل کی عدم موجودگی میں بعض لوگ اپنی اجتماعی شناخت بھی اپنی ذات ہی میں تلاش کرتے ہیں ۔ یہ گفتگو تہذیبوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس مضمون میں پیش کی جاچکی ہے۔ سروے کے نتائج اس پر مزید روشنی ڈال رہے ہیں۔
جدول: ۲
عالم گیر لادینی تہذیب | عالم گیر عیسائی تہذیب | عالم گیر مسلم تہذیب | موضوع |
۱فی صد | ۲۱فی صد | ۴۹ فی صد | میری شناخت میں دین کو دیگر شناختوں پر فوقیت حاصل ہے |
۶۸ فی صد | ۳۵ فی صد | ۲۷ فی صد | میری شناخت میں قومی ریاست کو فوقیت حاصل ہے |
۲۳فی صد | ۲۶فی صد | ۱۴ فی صد | میری شناخت میں زیر ریاست قومیتوں کو فوقیت حاصل ہے |
۵ فی صد | ۱۰ فی صد | ۲فی صد | میری شناخت کا محور میں ’خود ہوں‘ اسے تمام اجتماعی شناخوں پر فوقیت حاصل ہے |
۴فی صد | ۸ فی صد |
۸ فی صد |
میری شناخت کا محور میرے براعظم کی شناخت ہے |
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رائج الوقت دنیا کی تین عالم گیر تہذیبوں میں باہمی تعلقات کن بنیادوں پر اور کس نوعیت کے ہوں؟ یہ بجائے خود ایک بھرپور موضوع ہے۔ چنانچہ فی الوقت ہم نے یہ جانچنے پر اکتفا کیا ہے کہ زندگی کی بنیادی سماجی اقدار میں سے کن اقدار پر ان میں قربت اور کن اقدار پر دُوری ہے۔ ذیل میں ہم نے اس تحقیق کا خلاصہ پیش کرکے چند نتائج اخذ کیے ہیں۔
باہمی قربت اور دُوری کا پیمانہ :یہاں مختصراً صرف ایک مسئلے پر روشنی ڈالیں گے اور وہ ہے بچوں کی تعلیم۔ ہم نے دُنیا بھر کے والدین سے ایک سوال پوچھا۔ ان والدین میں قریباً دو لاکھ عیسائی والدین، قریباً ایک لاکھ مسلم والدین اور ۷۵ہزار کے قریب ایسے والدین تھے جو اپنے آپ کو لادین کہتے ہیں۔
سوال یہ تھا: ’’آپ اپنے بچوں میں کس طرح کی اقدار کی پرورش کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
ہم نے دس اقدار پر ان کی خواہشات کی پیمایش کی، اور پھر اس پیمایش کی روشنی میں تہذیبوں کی باہمی رغبت کا ایک انڈیکس یا پیمانہ بنایا۔ یہ پیمانہ بتاتا ہے کہ عالم گیر عیسائی تہذیب اور مسلم تہذیب کے درمیان ’پیمانۂ رغبت‘ کا سکور کتنا ہے۔ زیر پیمایش اقدار درج ذیل ہیں: lاپنے مذہب پر کاربند ہونا lوالدین اور بزرگوں کی اطاعت کرنا
جدول: ۳
لادین والدین | عیسائی والدین | مسلم والدین | والدین کی شرح جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچے |
۴فی صد | ۴۴ فی صد | ۷۰ فی صد | دین دار ہوں |
۱۵ فی صد | ۴۳ فی صد | ۴۷ فی صد | والدین کی اطاعت کریں |
https://sq.docworkspace.com/d/sAPPee7PA=z5qvAYqmzSupxQ
متعلقہ سروے میں دس اقدار پر رائے لی گئی ہے۔ جوابات کی روشنی میں دو اقدار پر واضح طور پر اختلاف دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دو اقدار دیندار ہونا اوار والدین کی اطاعت ہیں ۔ جوابات سے ظاہر ہے کہ یہاں الہامی ادیان اور ان سے انحرافی دین کی اقدار میں نمایاں فرق ہے۔ باقی آٹھ اقدار میں سے زیادہ تر کا تعلق عقائد سے زیادہ روزمرہ کے معاملات سے ہے۔ ان پر تہذیبی فرق معمولی ہے۔ چنانچہ وہ اقدار کے مشترکات کی فہرست میں آئیں گی۔
رائے عامہ کے اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ ’عالم گیر مسلم اور عیسائی تہذیب اپنے بچوں کی مطلوبہ اقدار کے معاملے میں باہمی طور پر زیادہ رغبت رکھتی ہیں، بہ نسبت اس رغبت سے جو اُنھیں اپنے اپنے طور پر لادینی تہذیب کی اقدار سے ہے۔ دونوں تہذیبیں اپنے اپنے طور پر عالم گیر لادینی تہذیب سے دُور یا نالاں ہیں۔
مسلم والدین اور عیسائی والدین بمقابلہ لادین والدین کے نزدیک اقدار کی اس باہمی رغبت اور عدم رغبت کا اطلاق نہ صرف عالم گیر طور پر ہوتا ہے بلکہ اپنے اپنے خطوں کے اندر بھی ایسا ہی ہے۔مثال کے طور پر یہ کہ امریکا میں رہنے والے ان تینوں گروہوں کے والدین سے جب بچوں کی مطلوبہ اقدار کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسے والدین جو اپنے آپ کو برملا عیسائی کہتے ہیں، ان کے خیالات اپنی ہی نسل اور رنگ کے لادین امریکی مسلم والدین کی بہ نسبت اُن مسلم والدین کے خیالات سے زیادہ قریب ہیں، جو نسلاً اور دیگر امور پر اُن سے کافی مختلف ہیں۔ یہی رویے افریقا میں رہنے والی تینوں اقسام کے والدین کے جواب میں بھی سامنے آئے بلکہ وہاں مسلم عیسائی خیالات میں قربت کی شرح اُس سے بھی زیادہ پائی گئی جو امریکا میں تھی۔
۱- دُنیا میں عقائد اور شناخت کے لحاظ سےچھ بڑی تہذیبیں ہیں، جن میں سے تین عالم گیر اور تین مقامی یا علاقائی اہمیت کی حامل ہیں۔ تین عالم گیر تہذیبیں یعنی اسلام، عیسائیت اور لادینیت دنیا کی ۷۰ فی صد اور بقیہ تمام تہذیبیں ۳۰٪ فی صد نفوس پر مشتمل ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ہم نے تین بڑی عالم گیر تہذیبوں کے ایمانیات اور سماجی اخلاقیات پر اجمالی گفتگو کی ہے۔
۲- تمام انسان کبھی ایک گروہ نہیں بن سکتے اور غالباً حکمت الٰہی بھی یہی ہے۔ وہ ہمیشہ گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ جس میں مقامی قومیتیں (nationalities) بھی ہیں اور جدیدیت کے دور کی قومی ریاستیں بھی ہیں۔ مزید کئی دیگر بنیادوں پر بھی ایک قابلِ قبول گروہ بندی ہے۔ اپنے حجم اور وجود کی تاریخ کی طوالت کے لحاظ سے چھ تہذیبی گروہ ایک نمایاں، منفرد اور اہم حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ دیگر تمام گروہوں کی نسبت حجم میں بڑے اور تاریخ میں گہرائی رکھتے ہیں۔ جدید قومی ریاست پر مبنی عالم گیر نظام (World Order) اپنی مالی اور جبری فوقیت کے بل بوتے پر دوسرے تہذیبی گروہوں کے اس اہم کردار کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ دُنیا کے کسی اہم فورم پر اُن کو اپنے ہم پلّہ رکھنے کے بجائے نہ صرف زیرتسلط رکھتا ہے، بلکہ اگر قبول بھی کرتا ہے تو انتہائی حقیر استثنائی حیثیت میں۔ اس نے ایک منظم کوشش اور مختلف توجیہات کے تحت دُنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔ وہ بڑی تہذیبوں کی شناخت تک کو ممنوع قرار دیتا ہے، حتیٰ کہ ان کی شناخت کو مردم شماری سے باہر رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔عالم گیر لادینی تہذیب نے اپنے اداراتی جبر (Institutional Coercion)سے بقیہ تمام تہذیبوں کو اپنے جائز مقام سے محروم کردیا ہے۔ لادینیت کی تہذیب انتہائی قلیل التعداد یا غیر متعلقہ گروہی عناصر کی منفرد تہذیبی شناختوں کو اُجاگر کرکے اپنے علاوہ بقیہ پانچ بڑی تہذیبوں کو ان کے مقام سے محروم کرنے کی منظم کوشش کرتی رہتی ہے۔
۳- موجودہ حالات میں جب تہذیبوں کے مکالمے کی بات ہوتی ہے تو عالم گیر لادینی تہذیب اپنے آپ کو انسانیت کا محور (Humanist ) کہہ کر تمام دیگر تہذیبوں کو اپنے اخلاقی معیارات کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے اور قومی ریاستوں کے عالم گیر اداروں سے ان کی توثیق کروالیتی ہے۔ در اندازی کے اس دروازے سے عالم گیر لادینی تہذیب کا سماجی نفوذ اور سیاسی غلبہ دیگر بڑی تہذیبوں بالخصوص عیسائیت پر اسلام کے لیے بنیادی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ تمام انسانوں کے نام پر انسانیت کو ایک تہذیب کہنے سے لادینیت کی عالم گیر تہذیب کی اجارہ داری کا راستہ کھل جاتا ہے۔
۴- تاریخ کے اس مرحلے پر عالم گیر انسانی برادری کی تنظیم میں جدید قومی ریاست اور اس کے بین الاقوامی تنظیمی ڈھانچے کے ایک جائز اور اہم مقام کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، البتہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے عقائد اور معاشرتی اقدار کو مال اور جبر کے زور پر پوری انسانیت پر نافذ کرنے کی روش کو ترک کردے۔
۵- تہذیبوں کی اس جائز اور فطری کش مکش میں اُن تہذیبوں کو باہمی اشتراک کرنا چاہیے، جو عالم گیر لادینی تہذیب کی تہذیبی اجارہ داری کو قبول نہیں کرتی۔