یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ بلکہ معجزہ ہے کہ آٹھ برس کی مختصر سی مدت میں ایک قصبے کی چھوٹی سی ریاست، جو چند مربع میل اور چند ہزار انسانوں پر مشتمل تھی، پورے عرب پر چھا گئی۔ صرف آٹھ برس کے اندر۱۰، ۱۲ لاکھ مربع میل کا پورا ملک مسخر ہوگیا، اور مسخر بھی اس طرح ہواکہ لوگ محض ایک سیاسی نظام ہی کے تابع نہیں ہوگئےبلکہ ان کے نظریات تبدیل ہوگئے، ان کی قدریں بدل گئیں، ان کے اخلاق بدل گئے، ان کے معاشرتی طورطریقوں میں عظیم الشان اصولی تغیر رُونما ہوگیا۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی روح اور شکل دونوں میں ایک ایسی انقلابی تبدیلی واقع ہوئی، جس نے عرب ہی کی نہیں بلکہ دُنیا کی تاریخ کا رُخ بدل ڈالا۔ ان کے افرادنے فرداً فرداً اور ان کی قوم نے بحیثیت مجموعی سوچنے کا ایک نیا انداز، برتائو کا ایک نیا طریقہ اور زندگی کا ایک نیا مقصد اختیار کرلیا، جس سے وہ اپنی صدہابرس کی تاریخ میں کبھی آشنا نہ ہوئے تھے۔
اگرچہ صدیوں کی طوائف الملوکی ختم کرکے اس ملک کوایک سیاسی نظام کے تحت لے آنا بھی کوئی چھوٹا کارنامہ نہ تھا، مگر اس سے ہزاروں درجہ زیادہ بڑا کارنامہ یہ فکری و اخلاقی اور تہذیبی و تمدنی انقلاب تھا۔
افسوس ہے کہ تاریخ نگاری کے ایک غلط طریقے نے اس عظیم تغیر کو محض غزوات کے نتیجے کی حیثیت سے پیش کر دیا ، اور فرنگی مستشرقین نے اس پر خوب ڈھول پیٹا کہ ’اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے‘، حالانکہ وہ تمام لڑائیاں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئیں، ان میں مجموعی طور پر دونوں طرف کے بمشکل ۱۴سو آدمی مارے گئے تھے۔ کسی کے پاس عقل ہو تو وہ خود غور کرے کہ اتنی کم خوںریزی کے ساتھ اتنا بڑا انقلاب کہیں تلوار کے بل پر بھی ہوسکتا ہے؟ (’اسلام عصرِحاضر میں‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۲، مئی ۱۹۶۳ء، ص۳۵