مئی ۲۰۲۳

فہرست مضامین

انتخابات ۲۰۲۳ء اور جماعت اسلامی کا منشور

پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۲۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

جماعت اسلامی پاکستان محض ایک سیاسی جماعت نہیں۔ وہ پورے اسلامی نظام کو زندگی کے ہر شعبے میں قائم کرنے اور جاری وساری رکھنے والی عالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ اور روح رواں ہے۔ ۲۰۲۳ء کے دوران پاکستان میں صوبائی اور قومی انتخابات کے انعقاد پر مثبت اور منفی رویوں کے ماحول میں یہ اعزاز جماعت اسلامی کو حاصل ہورہا ہے کہ اس نے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیاہے۔ جماعت اسلامی پہلی جماعت ہے جس نے پوری ذمہ داری اور سنجیدگی سے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس منشور میں تصورِ پاکستان اور تعمیروتشکیل پاکستان کا مکمل نقشہ موجود ہے۔

جماعت اسلامی کی اوّلین ترجیح ملک میں مکمل اسلامی نظام کا نفاذ ہے جس کے لیے شریعت کے تمام احکام و اقدار کو ملک کی اجتماعی زندگی میں جاری و ساری کرنا اس کا ہدف ہے۔ اس کے ساتھ جماعت ملک میں جمہوری نظام قائم کرنا چاہتی ہے، اور خود دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی تقاضا یہی ہے، تاکہ اقتدار کا مرکز اور محور محض کوئی ذات یا طبقہ نہ ہو بلکہ عوام اس میں فیصلہ کن قوت کی حیثیت رکھیں۔ نیز جماعت اسلامی ایک حقیقی عوامی فلاحی ریاست و معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ غربت کا مکمل خاتمہ ہو اور ملک میں ایک فلاحی ریاست قائم ہو، جو سب کی حقیقی ضروریات کو مارکیٹ اور ریاست، دونوں کے ذریعے کے طور پر پورا کرسکے۔

جماعت اسلامی ملک میں انصاف کی مکمل حکمرانی کی داعی ہے، تاکہ ظلم و استحصال کی ہرشکل کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ جماعت چاہتی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں میں تعاون اور اشتراک کی فضا ہو، جس میں عوام اور عوامی و قومی ادارے ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں۔

جماعت اسلامی پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتی ہے، جس کے تمام علاقوں میں زرعی،صنعتی ، تجارتی اور فنی، ٹکنالوجیکل ترقی جاری و ساری ہو، جس کے نتیجے میں ملک کے تمام علاقوں میں حقیقی خوش حالی رُونما ہوسکے ، اور ملک قرضوں کے جال سے نکل کر خود انحصاری کی بنیاد پر مسلسل ترقی کرسکے۔

نیز جماعت اسلامی ایک مکمل طور پر آزاد خارجہ پالیسی کی داعی ہے۔ وہ کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر اور اپنی مکمل آزادی کے ساتھ، پاکستان کے تعلقات دُنیا کے ہرملک سے برابری کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے، تاکہ پاکستان اور دُنیا کے تمام انسانوں کے حقوق ادا ہوسکیں، اور ملک اور عالمی سطح پر عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے مکمل تحفظ اور فلاح پر مبنی نظام قائم ہوسکے۔

یہی وہ مطلوبہ نظام کا نقشۂ کار ہے، جو جماعت اسلامی پاکستان کے انتخابی منشور میں دیکھا جاسکتا ہے۔جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بڑی محنت اور وژن کے ساتھ اپنا کام انجام دیا ہے، لیکن اب ضرورت ہے متعلقہ شعبہ جات اور میدانوں میں تحریکی کارکنوں اور ماہرین کی ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں، جو اُوپر بیان کردہ ہرہر معاملے پر مستقل ورکنگ پیپر تیار کریں، اور جماعت کے مطلوبہ پاکستان کا ایک تفصیلی نقشۂ کار فراہم کریں۔ یہ ایک جاری رکھے جانے والا کام ہے۔

۝

جماعت اسلامی پاکستان کا وژن

 

  • پاکستان کو اسلامی، جمہوری، خوش حال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا،
    • قرآن و سنت ؐ کی بالادستی ،
    • آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی،
    • پاکستان کےعوام کی خوش حالی و ترقی،
    • خوش حال صوبے اور خوش حال معاشرہ،
    • خواتین کو اسلامی حدود میں تعلیم و ترقی کے تمام مواقع فراہم کرنا،
    • عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے آزاد غیر سُودی مضبوط معیشت استوار کرنا،
    • انصاف،امن ،روزگار،تعلیم،علاج اور چھت سب کے لیے،
    • قومی سلامتی ، مضبوط دفاع اور آزاد خارجہ پالیسی،

۱-​اسلامی پاکستان

  • دستور پاکستان کے مطابق قرآن وسنت کی بالادستی قائم کی جائے گی۔
  • حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ کا ہر قیمت پرتحفظ کیا جائے گا اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔تاہم، توہینِ رسالت ؐ اور توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا تدارک کیا جائے گا۔
  • بنیادی انسانی حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
  • خواتین کے شرعی اور قانونی حقوق کا تحفظ کیا جائے گااور خواتین کے معاشی ،سیاسی اور سماجی استحصال کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
  • پارلیمنٹ کے ذریعے تمام غیر اسلامی قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔
  • ’ اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی تشکیلِ نو کی جائے گی اور کوئی قانون اس کی پیشگی سفارش کے بغیر پارلیمنٹ سے منظور نہ کیا جائے گا۔
  • دستورپاکستان اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے مطابق سُودی نظامِ معیشت کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • کھاتہ داروں کے ذمے کمرشل بنکوں کا سُود ختم کرنے کے لیے پالیسی بنائی جائے گی۔
  • یتیموں ، معذوروں ، بیواؤں اور بزرگ شہریوں کی خوراک، لباس، چھت، علاج او رتعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔
  • حصول رزقِ حلال کی ترغیب دی جائے گی اور حرام اور ناجائز دولت کمانے اور خرچ کرنے کے تمام راستے بند کیے جائیں گے ۔
  • عوام الناس کو اسلامی عقائد ، عبادات، اخلاقیات اور رواداری کی تعلیم وترغیب دی جائے گی۔
  • فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے علمائے کرام کی مشاورت سے ضابطۂ اخلاق نافذ کیا جائے گا۔
  • دولت کی نمایش، جہیز، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اسراف پر پابندی عائد کی جائے گی ۔
  • گداگری کے سدباب کے لیے متبادل روزگار کانظام بنایا جائے گااور محنت سےکمانے کے لیے ہنرمند بنایا جائے گا۔
  • فحاشی، عُریانی ، بدکاری کی وجوہ کے خاتمے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور اقدامات کیےجائیں گے۔
  • پروٹوکول وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور سادگی کو رواج دینے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • تعلیمی اداروں میں ہر مسلمان بچے /بچی کے لیے ناظرہ و ترجمہ قران مجید سیکھنا لازمی ہو گا۔
  • مساجد ومدارس کے ائمہ ومدرسین کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے گی۔
  • مسجد کو کمیونٹی کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔ نئی مساجد میں خواتین کے لیے الگ حصہ مختص کرنا ضروری ہوگا۔
  • غیر مسلم پاکستانی برادری (اقلیتوں)کو اپنے مذہب کے مطابق تمام آزادیاں حاصل ہوں گی ۔
  • غیرمسلم پاکستانیوں اور تمام کمیونیٹیوں کو وہ تمام آئینی ،معاشی اور شہری حقوق حاصل ہوں گے، جو مسلم پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔
  • جمعۃ المبارک کی ہفتہ وار چھٹی بحال کی جائے گی۔

۲-​جمہوری پاکستان

​مضبوط پارلیمان

  • قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کےمطابق آئین،جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔
  • آئین اور پارلیمان کی عملاً بالادستی قائم کرنے کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں سنجیدہ ، بامعنی اور باوقارماحول بنایا جائے گا ۔
  • پارلیمانی نظام کو موروثی سیاسی خاندانوں کے مفادات اور جاگیردارانہ سیاست سےآزاد کروایا جائے گا۔
  • پارلیمنٹ میں متوسط اورغریب طبقات کی قیادت سامنے لائی جائے گی۔
  • ارکانِ پارلیمنٹ اور قانون سازوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ایک ’تربیتی اکیڈمی‘ قائم کی جائے گی۔
  • قانون سازی میں نادیدہ قوتوں اور مخصوص غیرحکومتی تنظیموں کا اثرورسوخ اورمداخلت روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
  • تمام قومی و ریاستی اداروں کو اُن کے دائرۂ کار تک محدود رکھنے اورماورائے آئین اقدامات  کی پیش بندی کی جائے گی۔

​انتخابی اصلاحات

  • آزادانہ، منصفانہ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتوں کی مشاورت سےانتخابی نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
  • متناسب نمائندگی کا طریقِ انتخاب اپنانے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ عوام کا ہرووٹ ضائع ہونے سے بچایا جاسکے، اور ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سےقومی اسمبلی ، سینیٹ(پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوںمیں نمائندگی مل سکے۔
  • انتخابی عمل اور انتخابات میں سرمائے اور نادیدہ قوتوں کا عمل دخل اوراثر و رسوخ ختم کیا جائے گا۔
  • بااثر انتخابی شخصیات کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ ختم کی جائے گی۔
  • قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت ،دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے ایک آزاد ،غیر جانب دار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے گا،جو اُمیدواروں کی آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق جانچ پڑتال کرے گا۔
  • الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی ،مالی اورعدالتی خودمختاری دی جائے گی۔
  • حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں، انتخابی عملے کی تربیت و تعیناتی کے لیے آئین کے مطابق واضح قواعدوضوابط بنائے جائیں گے۔
  • تمام شعبوں کے باصلاحیت افراد کی اسمبلیوں میں موجودگی کے لیے سیاسی ،دینی اور پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی۔
  • سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اورپارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔

​آئینی اصلاحات

  • اُردو کو سرکاری زبان اوربنیادی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائےگا[جب کہ صوبائی اور علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے]۔
  • اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات اُردو اور انگریزی میں ہوں گے۔
  • آئین کے مطابق بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے لیےمؤثر احتسابی نظام قائم کیا جائے گا۔
  • ’قومی احتساب بیورو‘ کو متوازی عدالتی نظام بنانے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے ماتحت لایا جائے گا۔
  • وی آئی پی کلچر اور غیرضروری پروٹوکول کے خاتمے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات کیے جائیں گے ۔
  • پارلیمنٹ میں بیرونی دباؤ کے نتیجے میں کی جانے والی قانون سازی پر نظرثانی کی جائےگی۔
  • انتظامی اور مالی اختیارات کی نچلی سطح (بلدیات اور مقامی حکومتوں) تک منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگی اور تشدد کے سدِباب کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ماتحت عدلیہ میں اچھی کارکردگی ، تجربہ اور شہرت کے حامل ججوں اوروکلا کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا جائےگا۔
  • آئین کی تمام دفعات پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے طریق کار وضع کیا جائے گا۔
  • وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور اسے بدنیتی سےچیلنج نہ کیا جاسکے گا۔

​بلدیاتی ادارے مضبوط

  • بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے آئین میں ایک نیاباب اورشیڈول شامل کیا جائے گا۔
  • صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مالیاتی اختیارات منتقل کیے جائیں گے۔
  • بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دی جائے گی۔
  • بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی ترقیاتی فنڈز کی براہِ راست منتقلی کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • بلدیاتی اداروں کی معطلی اور بالائی حکومتوں کی مداخلت کےسدباب کامؤثر انتظام کیاجائے گا۔
  • بلدیاتی اداروں کے تحت مقامی سطح پر مؤثرمصالحتی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

​آزاد میڈیا

  • آزادیِ اظہار رائے کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرنے کے قانون کومؤثربنایا جائے گا۔
  • میڈیا کوناجائز حکومتی اور غیر حکومتی دباؤ سے آزاد رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔
  • میڈیا میں کام کرنے والےتمام ملازمین کو بلا امتیاز تحفظ دیا جائے گا۔
  • جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے صحافتی انجمنوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے حکمت عملی وضع کی جائےگی۔
  • قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملات کے حوالے سےصحافیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
  • میڈیا کو اسلامی تہذیب وثقافت کا علَم برداربنانے کے لیےترغیب دی جائے گی۔ مغربی اور بھارتی تہذیب و ثقافت کے حملوں کو روکا جائے گا۔
  • عریانی ،فحاشی اورمخرب اخلاق پروگراموں، ڈراموں اور اشتہاروں کی روک تھام کے لیے سیاسی و دینی جماعتوں ،میڈیا ،پیمرااور وزارت اطلاعات و نشریات کی مشاورت کے ساتھ ضابطۂ اخلاق بنایا جائے گااور قوانین پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔
  • نئی نسل کی نظریاتی، علمی و اخلاقی تربیت کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی کے ماہرین کی مشاورت سے ’ڈیجیٹل میڈیا پالیسی‘ بنائی جائے گی۔

۳- ​مضبوط معیشت اور گورننس

جوہری اقدامات

  • سیاسی جماعتوں ، ماہرین معاشیات اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ’میثاقِ معیشت‘ تیار کیا جائے گا۔
  • پاکستان کاطویل المیعاد معاشی منصوبہ ’پاکستان وژن ۲۰۵۰ء ‘تیار کیا جائے گا۔
  • سودی معیشت اور سُودی بنکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • معیشت کی بنیاد حلال آمدن اور بہترین مالی نظم و نسق پر ہو گی۔
  • حکومتی تعیشات کا کلچر ختم کیا جائے گا اور سادہ طرز حکمرانی متعارف کروایا جائے گا۔
  • ناجائز منافع خور مافیا ز اور کارٹیلزکا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • اشیائے خور و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا۔
  • وفاق اور صوبوں میں ٹیکس اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی اورجنرل سیلز ٹیکس کو پانچ فی صد سے کم کیا جائے گا۔
  • سرکاری اہل کاروں کی بے جا مداخلت سے بچنے کے لیے ون ونڈو بزنس پراجیکٹ قائم کیا جائے گا۔
  • اندرون و بیرون ملک سے’ ترسیلاتِ زر پر بنک فیس‘ کم کی جائے گی۔
  • دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گااورمختلف طبقوں کے مابین غیر معمولی معاشی تفاوت کم کیا جائے گا۔
  • غربت کےخاتمےکے لیے۱۰کروڑ عوام سے زکوٰۃ و عشر اکٹھا کیا جائے گا،جس سے ہر غریب گھرانے کی اندازاً اڑھائی لاکھ روپے سالانہ مدد کی جا سکے گی۔
  • زرعی بنیاد پر صنعتوں، گھریلو صنعتوں اور چھوٹی و درمیانی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا خصوصی پیکج تیار کیا جائے گا۔
  • عالمی بنک ،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
  • بیرون ملک پاکستانیوں کو ترقیاتی منصوبوں میں حصہ دار بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔
  • برآمدات میں اضافے کو فروغ دیا جائے گا اورغیر ضروری درآمدات کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • درآمد کیے جانے والے خام مال کو ملک کے اندر ہی بنانے والی انڈسٹری کو ۱۰ سال کے لیے خصوصی ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
  • زر مبادلہ میں ادائیگی کی شرط پرسمندر پارپاکستانیوں کو سرکاری قیمتی کمرشل اراضی پُر کشش قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی جائے گی۔
  • بنیادی، نفع بخش اور زرمبادلہ بچانے والی فصلوں اور صنعتی پیداواری علاقوں میں دس سال کے لیے ٹیکس فری انڈسٹریل زونز قائم کیے جائیں گے، جہاں برآمدات کے لیےویلیوایڈڈ پروڈکٹس تیار ہوں گی۔
  • سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ پرنظرثانی کر کے ’’گورنربنک دولت پاکستان‘‘کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جواب دہ بنایاجائے گا۔
  • ملازمت کے بجائے ذاتی کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی اور’چھوٹا کاروبار معاشی بہار‘ مہم شروع کی جائے گی۔
  • آئی ٹی، میٹ ایکسپورٹ اور زرعی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے گا۔

قومی آمدن میں اضافہ

  • سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، صنعت کاروں اور مال دار ترین اشرافیہ سے اُن کی آمدن کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
  • ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ، جب کہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی۔
  • براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا منصفانہ تناسب مقرر کیاجائے گا۔
  • فکس ٹیکس اسکیم کےاجرا کا جائزہ لیا جائےگا اور اگر یہ قابلِ عمل ہوا تو اسے نافذ کیا جائے گا۔
  • معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے پُرکشش اسکیم شروع کی جائے گی اور ریونیو ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس میں منتقل کیا جائے گا۔
  • پاکستانی روپے کے استحکام کے لیے منی لانڈرنگ اور سٹہ بازی کو روکنے کے لیےسخت اقدامات کیے جائیں گے۔
  • سالانہ معاشی شرح نمو کو آبادی میں سالانہ اضافے سے کم از کم دوگنا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
  • زرعی ٹیکس بتدریج نافذ کیا جائے گا، جب کہ ای آبیانہ اورای مالیہ سکیموں کا اِجرا کیا جائے گا۔
  • ٹیکس افسران کے اختیارات پر نظرثانی کی جائے گی۔

حکومتی اخراجات میں کمی

  • غیر ترقیاتی اخراجات میں ۳۰فی صد کمی کی جائے گی۔
  • غیر ضروری سرکاری اخراجات ختم کیے جائیں گے۔ سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ اور سادگی وقناعت کی روش اختیارکی جائے گی۔
  • پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور پی آئی اے سمیت قومی اداروں کے فروخت یانج کاری کے بجائے اُنھیں منافع بخش ادارےبنانے کے لیے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے گا۔
  • صدر، وزیراعظم ، وزرائے اعلیٰ ،وفاقی و صوبائی وزراء،سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو  قیمتی لگژری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔
  • سابق وفاقی و صوبائی وزرائے کرام ،ریٹائرڈ افسروں ،بیوروکریٹس ،ججوں اور جرنیلوں کوسرکاری گاڑیاں اور مفت پٹرول کی سہولیات واپس لی جائیں گی ۔
  • سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما ل دار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے گی،  جس سے ۲۰۰؍ ارب روپے سالانہ بچت ہو گی۔
  • ارکانِ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات پر نظر ثانی کی جائے گی۔
  • سرکاری دفاتر کو متبادل بجلی (سولر) پر منتقل کیا جائے گا، جس سے بجلی اور سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی۔
  • اعلیٰ حکومتی عہدے دارن اور ملازمین میں سادگی کو رواج دیا جائے گا۔
  • سرکاری ملازمین کی پنشن سے سرمایہ کاری کی جائے گی، جس سے سرکاری خزانہ کا بوجھ کم ہو گا۔

قرضوں سے نجات

  • تمام اندرونی و بیرونی قرضوں کو بتدریج ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خود انحصاری پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
  • بیرونی و مقامی قرضوں کی جلد ادائیگی کا شیڈول اور طریق کار وضع کیا جائے گا  ۔
  • مہنگی گاڑیوں، زیبائش اور غیرضروری تعیشاتی اشیا کی درآمد بند کرکے قیمتی زرمبادلہ بچایا جائے گا۔

توانائی پالیسی

  • بجلی پیدا کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی۔
  • بہترین مالی نظم و ضبط سے گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے گا۔
  • سرکاری ، کاروباری اور خوشی کی تقریبات دن کی روشنی میں کرنے کی پالیسی اپنائی جائے گی۔
  • بجلی اورگیس کے رائج الوقت ظالمانہ سلیب ریٹ ختم کریں گے۔
  • لوڈشیڈنگ اور لائن لاسز سمیت بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا۔
  • توانائی کے سستے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں گے۔
  • درآمدی ایندھن کی بجائے قدرتی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دیا جائے گا۔
  • بھاشا اور اکھوڑی ڈیم سمیت تمام چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیرپر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔
  • ہائیڈروپاور ،شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی تیاری میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے صنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔
  • پاک ایران گیس پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام جلد مکمل کریں گے۔
  • ہوا سےتوانائی (ونڈ انرجی)کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔
  • بلوں کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کا نیانظام متعارف کروایا جائے گا۔
  • عالمی دباؤ نظر انداز کرکےتیل ، گیس اور معدنیات کے نئے ذخائر تلاش کیے جائیں گے۔

ماحولیاتی و سیاحتی پالیسی

  • شمالی علاقہ جات، اپردیر،سوات، گلگت بلتستان، چترال نیز سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور آزادکشمیر کے سیاحتی مقامات کو ترقی دی جائے گی۔
  • سیاحت کے فروغ کے لیے شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔
  • سیاحتی مقامات پر موجود مقامی آبادیوں اور مکینوں کی ترقی و خوش حالی کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
  • سیاحتی مقامات کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے مؤثراقدامات کیے جائیں گے۔
  • سیاحتی علاقوں تک جدید ٹرانسپورٹ کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔
  • سیاحتی مقامات پر سیکورٹی اورمناسب قیمتوں کے تعین و کنٹرول کا نظام قائم کیا جائے گا۔
  • ہوٹل انڈسٹری کو ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
  • صوبہ خیبرپختونخوا میں سوات،چترال،دیر اور مانسہرہ، جب کہ صوبہ سندھ میں ’گورکھ ہل‘کو عالمی معیار کے سیاحتی مراکز بنایا جائے گا۔
  • ماحولیاتی آلودگی کے سد باب ، کنٹرول اور تحفظِ ماحول کے لیے سخت قوانین سازی اور ان پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے گا۔
  • گاڑیوں اور صنعتوں سے زہریلی گیسوں اور صنعتی فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • الیکٹرک انجنوں والی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • نئے جنگلات لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات چلائی جائیں گی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
  • جنگلات کو آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنا نے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔

احتساب سب کا

  • سخت قوانین پر مشتمل ’احتسابی نظام ‘ تشکیل دیاجائے گا تاکہ رشوت ، کمیشن اور کک بیکس سمیت ہر قسم کی بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔
  • قومی احتساب بیورو (نیب)کا سربراہ ایسے فرد کو مقرر کیا جائے گا، جس کی قابلیت ،اہلیت اور امانت و دیانت مسلمہ ہو۔
  • نیب ،ایف آئی اےسمیت تمام تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کی جائے گی اور اس میں سیاسی مداخلت اور انتقامی کارروائیوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔
  • پلی بارگین ختم کی جائے گی، اورکرپشن ثابت ہونے پر مجرم کی تمام جائیداد بحقِ سرکار ضبط کی جائے گی ۔
  • لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں واپس لانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ہر قسم کے بدعنوان عناصر کو شرعی قوانین کے مطابق عبرت ناک سزا ئیں دی جائیں گی۔

۴-​خوش حال اور ترقی یافتہ پاکستان

انصاف سب کے لیـے

  • عدالتی فیصلے قرآن وسنتؐ کے مطابق ہوں گےاورکوئی عدالت قرآن و سنتؐ کے خلاف فیصلہ نہیں دے گی۔
  • اعلیٰ عدلیہ اور وکلا کی مشاورت سے عدلیہ کے بروقت اور فوری فیصلوں کے لیے عدالتی نظام کی تنظیمِ نو کی جائے گی۔
  • نچلی سطح پر عدالتی نظام کی مکمل اصلاح کے لیے مؤثر و متحرک حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
  • بچیوں اور بچوں کو انصاف کی فوری فراہمی کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گے۔
  • عدالتی تحقیقات کا مؤثر نظام وضع کیا جائے گا۔
  • دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے بالترتیب چھے اور تین ماہ کے اندر کیے جائیں گے۔
  • عدلیہ کے موبائل یونٹس کے ذریعے دُوردراز علاقوں تک انصاف پہنچایا جائے گا۔
  • عدالتی فیصلوں پر بروقت عمل درآمد کے لیے ’آن لائن مانٹیرنگ‘ کا نظام بنایا جائے گا۔
  • فاسٹ ٹریک بزنس کورٹس قائم کی جائیں گی۔

اَمن سب کے لیـے

  • پولیس سٹیشن کو ’خوف کے بجائے تحفظ کی آما جگاہ‘ بنایا جائے گا۔
  • جدید خطوط پر پولیس کی پیشہ وارانہ ، دینی واخلاقی تربیت کی جائے گی، جسے دیکھتے ہی شہریوں کو ’احساس ِ تحفظ‘ ہوگا۔
  • خواتین،بچوں اور بچیوں کی عزت وعصمت کی حفاظت کے لیے پولیس ’’ریپڈ ریسپانس یونٹ‘‘ قائم کیا جائے گا۔
  • پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرکے رشوت ستانی کو ختم کیا جائے گا۔
  • رشوت ستانی میں ملوث سرکاری اہل کاروں کے خلاف فوری انضباطی کارروائی کی جائے گی اور ملوث اہل کاروں کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔
  • ماورائے آئین گرفتاریوں ، شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے، جعلی پولیس مقابلوں، ماورائے عدالت قتل اور دورانِ حراست پولیس تشدد کا خاتمہ کیا جائے گا۔

تعلیم سب کے لیے

  • تعلیم کوانسان کا بنیادی حق قرار دیا جائے گا ۔
  • مسلم و غیر مسلم ،امیروغریب اورشہری و دیہاتی کو بلا تفریق ہر سطح کی تعلیم کا موقع دیا جائے گا۔
  • مختلف نظام ہائے تعلیم اورطبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کر کے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کیا جائے گا۔
  • نصابِ تعلیم قرآن و سُنت کے مطابق تیار کیا جائے گا۔
  • آئینی ترمیم کے ذریعے تعلیم کےشعبہ کو وفاق کے تحت لاکر اسلامی نظریۂ حیات اور نظریۂ پاکستان کونصابِ تعلیم کا محور بنایاجائے گا۔
  • فنی تعلیم ، شہری شعور،روڈ سیفٹی، حفظانِ صحت اور کردار سازی کے موضوعات کونصاب تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
  • تعلیمی اداروں میں بنیادی سطح پر ہی انٹرپرنیور شِپ (کاروباری مہارت)کی تعلیم دی جائے گی۔
  • شرح خواندگی کو سو فیصد کیا جائے گااور میٹرک تک تعلیم مفت اورلازمی ہو گی۔
  • تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے ۲کروڑ سے زائد بچوں اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کرکے  زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا۔
  • عربی ، انگریزی اور دوسری عالمی زبانوں کونصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے گا۔
  • جدید خطوط پر نظامِ تعلیم کو استوار کیا جائے گا اور تحقیق و تصنیف کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
  • سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں قرآن وسنت کی بنیادی تعلیم لازمی ہو گی۔
  • طلبہ اور طالبات کے لیے ۵۰ نئی یونی ورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج بنائے جائیں گے ۔
  • طالبات کے لیے اعلیٰ معیاری تعلیمی ادارےقائم کرکے مخلوط نظامِ تعلیم کا خاتمہ کیا جائے گا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
  • وزارت سائنس وٹکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ تعلیم کے لیےتحقیق وترقی پروگرام کے بجٹ میں اضافہ کیا جائےگا۔
  • بجٹ میں تعلیم کے لیےجی ڈی پی کا کم از کم ۵ فی صد مختص کیا جائے گا،اور اس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
  • سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو خصوصی احترام اور معقول تنخواہیں دی جائیں گی۔
  • طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بلاسُود قرضے دیےجائیں گے۔
  • تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔

صحت سب کے لیے

  • تمام ہسپتالوں میں ۲۴ گھنٹے آؤٹ ڈور علاج اورمفت ایمرجنسی سروس مہیا کی جائے گی۔
  • شہری اور دیہی علاقوں میں خواتین کی زچگی اور حادثاتی طبی سہولیات کے لیے گھر کے قریب انتظام کیا جائے گا۔
  • اندرون ملک معیاری اور سستی ادویات اور آلات کی تیاری کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔
  • ادویات کی جنرک (Generic)ناموں سے فروخت کے لیے قانون سازی کی جائے گی ۔
  • مستحق افراد کاسرکاری سطح پر ڈیٹا بیس تیار کر کے دل، گردہ ، ہیپاٹائٹس ، کینسر، ایڈز، ٹی بی اور منشیات کے مریضوں کامفت علاج کیا جائے گا۔
  • تمام ہسپتالوں میں امراضِ دل ، ذیابیطس ، گردہ ، جلد، ہیپاٹائٹس ، کینسر، ایڈز، ٹی بی ، منشیات اور نفسیات کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا تقررکیا جائے گا۔
  • اضلاع کی سطح تک ’برن یونٹس‘ قائم کیے جائیں گے۔
  • ہرڈاکٹر کو تعلیم کی تکمیل پر ملازمت فراہم کی جائے گی اور معقول معاوضہ دیا جائے گا۔
  • وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے صحت کے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • وفاق و صوبوں کے سالانہ بجٹ میں شعبہ صحت عامہ میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے لیے خصوصی بجٹ مختص کیا جائے گا۔
  • ہر ہسپتال میں متبادل طریقہ علاج (ہومیوپیتھک ، طبّ ِ مشرق وغیرہ)کےالگ یونٹ قائم کیے جائیں گے، اور ان طریقہ ہائے علاج کی سرپرستی کی جائے گی۔
  • موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے فوری علاج فراہم کرنے کے لیےاقدامات کیے جائیں گے۔
  • پانچ ہزار کی دیہی آبادی کے لیے ’’رورل ہیلتھ ڈسپنسری‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائےگا۔
  • اتفاقی حادثات میں زخمیوں کی جان بچانے کے لیے نیشنل ہائی ویز پر ہر ۵۰ کلومیٹر کےبعد اورموٹرویز کے ہر انٹر چینج پر ایمرجنسی ٹراماسنٹرز قائم کیے جائیں گے۔
  • زخمیوں کی فوری طبی امداد کے لیے ایمرجنسی ہیلی کاپٹر سروس  شروع کی جائے گی۔
  • بوڑھوں اور معذوروں کے علاج کے لیے ہربڑے ہسپتال میں خصوصی ڈیسک اور سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
  • پیرامیڈیکل سٹاف کی جدید طرز پرپیشہ وارانہ اور اخلاقی تربیت کی جائے گی۔
  • وبائی امراض سے بچاؤ اور علاج کے لیے بڑے ہسپتالوں میں خصوصی سنٹر اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
  • مریضوں کی نجی ہسپتالوں سےبڑے سرکاری ہسپتالوں میں منتقلی کے لیے ان ہسپتالوں کے درمیان سہولت وہم آہنگی کے لیے قانونی اورعملی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • ہر خاندان میں ماں اور بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا شعور پیدا کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
  • یونیورسل ہیلتھ کیئر کے عملی نفاذ کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔

چھت سب کے لیے

  • بے آباد زمینوں کو آباد کرنے کی شرط پر مستحق افراد میں زمین تقسیم کی جائے گی۔
  • کم آمدن والے افراد کو سستی زمین خریدنے اورمکانات کی تعمیر کے لیے آسان اقساط پربلا سود قرضے دیے جائیں گے۔