انتظامی صلاحیتوں کی مہارت بڑھانے کے موضوع پر ڈاکٹر باب مورہیڈ کی کتاب Developing Management Skillsکا مطالعہ کرتے ہوئے ایک اقتباس دلچسپ اور فکرانگیز محسوس ہوا، جس میں جدید دنیا کی متضاد یا خلافِ قیاس (پیراڈاکسیکل) نوعیت پر گفتگو کی گئی تھی۔ یہ اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے، تاکہ وہ اُس خاموش تنازعے کو حل کرنے پر سوچ بچار کریں،جو انسانی فطرت اور مادّی ترقی کے درمیان جاری ہے۔ تاہم، ا سے پڑھ کر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جدیدیت روکی جا سکتی ہے یا اس کو روک دینا چاہیے یا یہ کہ اس کشیدگی کو کبھی آسانی کے ساتھ حل کیا بھی جا سکتا ہے۔ یہاں مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جس وجہ سے کرتے ہیں، اس کی اچھی طرح سمجھ بوجھ ہمیں حاصل ہو۔ ہم کسی مقبولِ عام رجحان یا فیشن کی اندھا دھند پیروی کرکے یا بڑے اہتمام سے اس کو اپنی روز مرہ زندگی میں جگہ دے کر، لیکن اس کے دُور رس نتائج نظرانداز کر کے اپنی ذات اور شخصیت کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر سکتے ہیں!
اب ڈاکٹر باب کا اقتباس پڑھیے: ’’طویل تاریخ میں ہمارے اِس دور کا تضاد یہ ہے کہ ہماری عمارتیں بلندوبالا ہیں، لیکن صبروتحمل بہت کم۔ ہماری راہیں بہت کشادہ ہیں، لیکن نقطۂ نظر بہت تنگ۔ ہم خرچ بہت کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس ہوتا بہت کم ہے۔ ہم خریدتے بہت کچھ ہیں، لیکن ان چیزوں سے لطف اندوز کم ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر بڑے بڑے ہیں، لیکن گھروالے بہت کم۔ ہمیں بے شمار سہولتیں مل گئی ہیں، لیکن پھر بھی ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہماری ڈگریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن حس، شعور یا سمجھ بوجھ کم ہے۔ ہمارے پاس ماہرین بہت سارے ہیں، لیکن مسائل پھر بھی کم نہیں ہو رہے۔ ہمارے پاس معلومات کا سمندر ہے، لیکن ہماری رائے کوئی بھی نہیں۔ دواؤں کی افراط ہے، لیکن صحت سے پھر بھی محروم ہیں۔ ہم بلانوش ہیں، تمباکونوش ہیں، بے محابہ خرچ کرتے ہیں، لیکن ہنستے کم ہیں۔ گاڑی بہت تیز چلاتے ہیں، لیکن بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں۔ رات دیر تک جاگنے کے عادی ہیں، جلدی تھک جاتے ہیں اور مطالعہ شاذونادر ہی کرتے ہیں۔ ٹی وی بہت دیکھتے ہیں اور عبادت بہت کم کرتے ہیں۔
’’ہم نے اپنی املاک اور اشیا خوب بڑھا لی ہیں، لیکن اپنی اقدار کو گھٹا لیا ہے۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں ، محبت کبھی کبھار کرتے ہیں لیکن نفرت اکثروبیشتر کرتے ہیں۔ ہم نے رہن سہن سیکھ لیا ہے، لیکن زندگی گزارنا نہیں سیکھ سکے۔ ہم نے اوسط عمر میں کئی برسوں کا اضافہ کر لیا، لیکن ان برسوں میں زندگی کی رمق نہیں لا پائے۔ ہم سفر کرتے کرتے چاند تک پہنچ گئے اور وہاں سے واپس بھی آ گئے ہیں، لیکن یہ المیہ ہے کہ گلی پار کر کے کسی نئے ہمسائے سے ملاقات کے لیے جانا ہمارے لیے دوبھر ہے۔ ہم نے خلا کو تسخیر کر لیا ہے، لیکن اندرونی خلا کو پُر نہ کر پائے۔ ہم نے بڑے بڑے کام تو کیے، لیکن اچھے اچھے کام نہیں کر سکے۔ ہم نے بڑے جتن کر کے فضا کی آلودگی تو ختم کر دی لیکن اپنی روح کو آلودہ کر بیٹھے۔ حتیٰ کہ ہم نے ایٹم کو بھی توڑ لیا، لیکن اپنے تعصبات کی زنجیروں کو نہ توڑ سکے۔ ہم لکھتے بہت ہیں، لیکن سیکھتے کم ہیں۔
’’ہم منصوبے زیادہ بناتے ہیں، انھیں مکمل کم ہی کرتے ہیں۔ ہم نے عجلت اور بھاگ دوڑ سیکھ لی، لیکن انتظار کرنا نہیں سیکھا۔ ہم زیادہ سے زیادہ معلومات کو جمع کرنے کے لیے زیادہ کمپیوٹر بناتے ہیں تاکہ ان معلومات کی مزید نقول تیار کر سکیں، اتنی زیادہ نقول کہ جوپہلے کبھی تیار نہ کی گئی ہوں، لیکن ہمارا ابلاغ بہت کم ہے۔ یہ دور فاسٹ فوڈ (چالو کھانے) کا ہے اور سست ہضم کرنے کا۔ لوگ بلند قامت ہیں، لیکن کردار بُونے۔ منافع کی رقم بڑھتی ہی جا رہی ہے، لیکن تعلقات سطحی ہیں۔ یہ دور بظاہر عالمی امن کا ہے، لیکن عملاً خانہ جنگیوں کا ہے۔ تفریح زیادہ سے زیادہ ہے، لیکن لطف کم سے کم ملتا ہے۔ غذائیں انواع و اقسام کی اور بے شمار ہیں، لیکن غذائیت کم ہے۔ آج کے دور میں گھروں میں دو دو تنخواہیں (شوہر اور بیوی کی)آ رہی ہیں، لیکن طلاقیں زیادہ ہو رہی ہیں۔ مکانات عالی شان ہیں، لیکن گھر ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ یہ دور تیز رفتار دوروں کا ، پھینکے جانے والے ڈائپرز، سستی اخلاقیات، وقتی وعارضی جنسی تعلقات، فربہ جسموں اور ایسی گولیوں کا ہے، جو آپ میں ہرطرح کے جذبات اُبھار سکتی ہیں، سرخوشی، خاموشی، حتیٰ کہ موت۔ یہ وہ دور ہے جس میں سب کچھ شیشے والی کھڑکیوں میں سجا ہوا ہوتا ہے اور اسٹور روم خالی پڑے ہوتے ہیں‘‘۔
اوپر کی سطروں میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں کسی اہم چیزکی کمی ہے۔ میری رائے میں وہ چیز مادّی ترقی اور تعلقات میں ، جدیدیت اور اخلاقیات میں، تسلسل اور تبدیلی میں، ایک ’توازن‘ ہے جسے برقرار نہیں رکھا جا رہا۔ آج کی انسانیت کی تکلیفوں کی وجہ اُس کی اپنی ذات سے اور دوسروں سے ’بیگانگی ‘ہے! پائیدار تعلقات بنانے کے لیے ثقافتی انقلاب کے ذریعے کچھ اقدار کو ازسرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، جیسے آزادی، احترام، بھروسا، محبت اور دیانت داری۔ ٹکنالوجی کی ترقی ہوتی رہے، لیکن اخلاقی بندشیں موجود نہ ہوں تو ایسی ترقی انسانیت کے لیے تباہی لا کر رہے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ایٹمی توانائی کی دریافت نے انسانیت کے ساتھ کیا۔
بدی جو طاقت اور املاک کی حرص کی شکل میں ہے اور جس کا اظہار رعونت، تکبر، دھونس اور گھمنڈ کی صورت میں ہوتا ہے، دنیا میں بڑے ہوش ربا اور وبائی مسائل پیدا کرتی ہے۔ اگر اس کا علاج عقل و دلیل اور روحانیت کی ’اینٹی بایوٹکس‘ سے نہ کیا گیا تو انسانی قلب میں موجود بدی دراصل جنگوں اور تشدد تک لے جائے گی۔ تب انسانی تکلیف ایک فطری مظہر بن جائے گی، جس میں ہرایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، ہر ایک صرف اپنا فائدہ دیکھے گا، بجائے اس کے کہ پوری انسانیت کو ایک بڑا خاندان سمجھا جائے ، اور کرۂ ارض کو ایک مشترکہ خزانہ۔ ہر ایک چاہے گا کہ قومی ریاستوں کی محدود سرحدوں میں اپنے لیے پناہ تلاش کرے، اور مصیبت کے وقت نجات کے لیے عقیدے کی طرف رجوع کرے۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں، جہاں ، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے بقول، ہمارے پاس گائیڈڈ میزائل تو ہیں، لیکن انسان رہنمائی سے محروم ہیں۔