ارشادِاِلٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۳ ( الصفّ ۶۱: ۲- ۳) اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے)۔
اس آیت میں اہلِ ایمان کو قول و فعل میں تضاد جیسی انتہائی ناپسندیدہ حرکت پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ رب العزت کی سخت ناراضی کا موجب بنے اس کے انجام کے اعتبار سے مہلک ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ اس میں بری روش پر تنبیہ کے ساتھ اس سے باز آجانے کی ہدایت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل میں مطابقت انسان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ رہے اہلِ ایمان تو یہ مطابقت ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ صدقِ ایمان کی علامت ہے ،اسی سے ایمان کی پختگی ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں مومنین صادقین کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۱۵ (الحجرات۴۹:۱۵) حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے،پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن اہلِ ایمان کو ’ صادقون‘ کے خطاب سے نوازا ہے، جو زبانی طور پر ایمان کے اظہار کے بعد اسے پورے یقین کے ساتھ دل میں جمائے ر کھیں اور عملی طور پر دین کی خاطر جانی و مالی قربانی کے لیے ہر آن تیار رہیں۔ مومن صادق وہ ہے جو زبان سے کلمۂ طیّبہ کی ادائیگی کے ساتھ اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرے اور زبانی اقرار کو سچ کر دکھائے۔ اس آیت کے حوالے سے مولانا سید سلیمان ندویؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’ یہ سچے اس لیے ٹھیرے کہ ان کا یہ عمل ان کی دلی کیفیت کا سچا ترجمان ہوا۔ زبان ا ور دل سے جس ایمان کا اقرار کیا تھا ،عمل سے اس کی تصدیق کردی‘‘ (سیرۃالنبیؐ، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، ج۶، ص ۲۳۸)۔
مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ تشریح کرتے ہیں :’’ ان کے دلوں میں ایمان کی جو حقیقی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے زبان سے کیا، اور اپنے عمل سے برابر اس کی تصدیق کرتے رہے۔ دراصل زبان، دل اور عمل کی کامل ہم آہنگی کا نام ہی سچائی ہے اور اسی ہم آہنگی پر تمام اخلاق و معاملات کی درستی کا مدار ہے‘‘( قرآنی تعلیمات، مکتبۂ ذکریٰ،نئی دہلی،۲۰۰۳ء،ص۳۱۱)۔
ان توضیحات کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنینِ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اللہ و رسولؐ پر ایمان لا کر یہ عہد کیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت بجا لائیں گے اور پھر انھوں نے و اقعتاً اپنے اعمال سے اس عہد کو پورا کر دکھایا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قول و عمل میں مطابقت کے بڑے فیوض و برکات ہوتے ہیں ، جن کے دیرپا و خوش گوار اثرات سب سے پہلے صاحبِ صفت پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بہت بڑا فیض یہ ہے کہ اس خوبی والے کی باتیں اپنا وزن رکھتی ہیں جو دوسروں کو متاثر کرتی ہیں۔ اس کی تقریر و تحریر میں ایسا گہرا اثر ہوتا ہے کہ سننے والے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں نقش کرجاتی ہے۔ اس ضمن میں ممتاز عالمِ دین اور ایک طویل عرصہ تک ندوۃ العلماء میں تدریسی خدمت انجام دینے والے مولانا شہباز اصلاحیؒ (م:۸ نومبر ۲۰۰۲ء) نے اپنے ایک قریبی عزیز کے نام خط میں جو ناصحانہ کلمات رقم فرمائے تھے ان کا ذ کر بہت اہم معلوم ہو تا ہے : ’’ عزیزم! یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تقریروں اور خطبوں کا حقیقی اثر الفاظ کی جادو گری اور لہجہ کے زیر و بم میں نہیں پوشیدہ ہے....زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ زبان سکھاتی ہے،لیکن دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جاتی ہے اور سیرت و کردار تبدیل کر دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ بات صرف زبان سے نکل رہی ہے یا دل بھی اس میں شامل ہے؟ اس کے معلوم کرنے کی آسان کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ جس بات کی تلقین ہم دوسروں کو کر رہے ہیں اس پر خود ہمارا کتنا عمل ہے۔اگر ہماری بات خود ہم پر اثر نہ ڈال سکے تو دوسروں پر کیا اثر ڈالے گی؟‘‘ ( مکتو با تِ شہباز، مرتبہ: محمد ناصر سعید اکرمی، معہد الامام حسن البنّا،بھٹکل،۲۰۲۲ء،ص۱۰۵۔۱۰۶) ۔
یعنی فارسی قول ’ از دل خیزد بر دل ریزد‘ [ جو دل سے اٹھتا ہے وہ(دوسروں کے) دل میں سرایت کرجاتا ہے] اسی وقت صادق ہو گا جب کسی کو کسی خیر کی طرف رہنمائی کرنے والا یا نصیحت کرنے والا خوداس پر عمل کر چکا ہو،اور اس پر پوری طرح کاربند ہو۔ قول و عمل میں مطابقت یا اپنی کہی ہوئی بات پر عمل آوری ایسی پسندیدہ و با برکت صفت ہے کہ یہ خود صاحبِ صفت کے لیے موجب سکون و طمانیت بنتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی راحت و مسرت کا باعث ہو تی ہے، اس لیے کہ سچائی و اخلاص کے بڑے فیوض و برکات ہیں جن کے اثرات بہت دُور دُور تک پہنچتے ہیں۔
اس کے برخلاف قول و فعل میں تضاد سے لوگوں کو بڑی اذیت پہنچتی ہے اور اس کی وجہ سے انھیں طرح طرح کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات اس کی تلافی بھی نہیں ہو پاتی۔ اس بری روش کے وبال سے تو اسے اختیار کرنے والا ،یعنی دوسروں کے ساتھ فریب و دھوکے کا معاملہ کرنے والا بچ ہی نہیں سکتا، اور سب سے بڑے خسار ے کی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کی ناراضی مول لیتا ہے ، اور جس سے مالک الملک ناراض ہو جائے، اس کے لیے پھر سکون و اطمینان کہاں ؟
قول و فعل میں عدم مطابقت نفاق کا مظہر یا منافقین کا خاصّہ ہے،اس لیے کہ منافقین زبان سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے عمل سے کچھ اور ظاہر ہو تا ہے، و ہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اللہ علیم و خبیر کے نزدیک ان کا دعویٰ نا قابلِ قبول قرار پاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اقرار محض زبانی ہوتا ہے، ا ن کے اعمال زبانی اقرار کی سچائی کی تردید کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر منافقین کے قول وفعل میں تضاد کی واضح مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی طور پر یہ گواہی دیتے تھے کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، اس پر قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ارشادِربّانی ہے:
اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللہِ۰ۘ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُہٗ۰ۭ وَاللہُ يَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ۱ۚ (المنافقون۶۳ :۱) جب منافقین آپؐ کے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں: آپ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ ہاں، اللہ جانتا ہے کہ آپؐ ضرور اس کے رسولؐ ہیں، مگر اللہ گواہی دے رہا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔
لاریب اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کی گواہی سچّی ہو سکتی ہے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ وہ زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا اظہار کر رہے تھے ا ور دل میں کفر و انکار کو چھپائے ہوئے تھے۔ دراصل یہی نفاق کی خاصیت ہے کہ دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور قرآن و حدیث دونوں سے نفاق اور سچائی اور نفاق و اخلاص کا ایک دوسرے کی ضدہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ قرآن نے منا فقین کی سب سے بڑی پہچان یہ بتائی ہے:
يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۱۶۷ۚ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۷) اوروہ[منافقین ] اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے،اللہ خوب جانتا ہے اس بات کو جسے وہ چھپا رہے ہیں۔
یعنی نفاق والے اصلیت کو دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، ان کی زبان ان کے دل کی کیفیت کے خلاف بولتی ہے اور اسی کا نام کذب یا جھوٹ ہے۔ قول وفعل کی دُوئی اسی کو کہتے ہیں، اور یہ رویہ اللہ رب العزت کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اس بدترین خصلت وا لا شخص معاشرے میں اپنا وقار و اعتماد کھو بیٹھتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
اس میں کسی شبہ کی گنجایش نہیں کہ نفاق اور کذب میں بہت گہرا تعلق ہے ، دونوں برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ نفاق کی جڑ سے جھوٹ کا پودا اُگتا ہے اور اگر اس کی جڑ کو کاٹا نہیں گیا تو یہ پودا سرسبز وشاداب ہوتا رہتا ہے ۔ اور جھوٹ، نفاق کا لازمہ اورمنا فق کی علامت ہے۔ وہ حدیث بہت مشہور ہے جس میں منافق کی پہلی خاص علامت یہ بتائی گئے ہے کہ وہ جھوٹ کا عادی ہوتا ہے:
عَن اَبِیْ ھُرَیْرَہ انَّ رَسُوْلَ اللہِ قَالَ: آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ ، اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ( صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب علامات المنافق) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
دوسری حدیث (مروی از حضرت عبداللہ ابن عمروؓ ) کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چوتھی خصلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو فحش کلای پر اُتر آتا ہے [وَاِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ] (صحیح مسلم،کتاب ا لایمان، باب بیان خصال المنافق)۔
اس حدیث کی تشریح میں محمد فاروق خاں تحریر فرماتے ہیں:’’ نفاق کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے ظاہر اور باطن میں موافقت اور یگانگت نہ پائی جائے۔آدمی گفتگو تو ایسی کرے کہ محسوس ہو کہ وہ سچ بول رہا ہے،لیکن وہ کذبِ بیانی سے کام لے۔ وعدہ کر کے وہ یقین تو یہ دلائے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرے گا،لیکن وہ اپنے وعدہ کا کچھ بھی پاس و لحاظ نہ رکھے۔ اسی طرح اسے اپنے عہد وپیمان کو توڑنے میں بھی کوئی باک نہ ہو اور اگر اس کا کسی سے جھگڑا ہو تو وہ[اخلاقی] حدود کا احترام نہ کرے ،نازیبا حرکتیں کرنے لگے اورغصّہ میں ایسا بے قابو ہوجائے کہ فحش کلامی اور بد زبانی سے بھی اسے کوئی عار نہ ہو۔ یہ خصائل اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ایسا شخص قابل اعتماد اور بھروسے کے لائق نہیں ہے‘‘( محمد فاروق خاں،کلامِ نبوت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ، ۲۰۱۲ء،جلددوم،ص ۴۱۷- ۴۱۸)۔
مزید برآں ایمان اور نفاق یا ایمان اور جھوٹ میں تضاد اُ س ارشادِ نبویؐ سے مزید کھل کر سامنے آتا ہے، جس کی اردو ترجمانی یہ ہے کہ مومن میں دوسری بُری خصلتیں ہوسکتی ہیں،لیکن اس میں جھوٹ کی خصلت نہیں سکتی( موطّا امام مالک،کتاب الجامع، باب ماجاء فی الصدق و الکذب)۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منافق کی تینوں بنیادی خصلتوں: جھوٹ بولنا،وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیا نت کرنا کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت سے ہوتا ہے۔ ان تینوں کی عملی مثالوں: بات کرتے ہوئے جھوٹ بولنے ، کسی سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرنے، کسی کی سپرد کردہ امانت میں خیانت کرنے پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو ان سب میں قول و فعل میں صاف تضاد نظرآ ئے گا۔
ایک حدیث سے یہ نکتہ منکشف ہو تا ہے کہ کیسے ایک شخص بات چیت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ خیانت دھوکے بازی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ یہ ہے :’’ یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے( بنا سنوار کر) ایسی بات کہو جس کو وہ سچ سمجھے اور تم اس سے جھوٹ کہو (سنن ابو داؤد، کتاب الادب،باب فی المعاریض )۔
اس حدیث کی تشریح میں مؤلفِ کلامِ نبوت تحریر فرما تے ہیں :’’ معلوم ہوا کہ خیانت کا تعلق صرف مال و دولت اور امانتوں ہی سے نہیں ہے،اپنے غلط طرزِ عمل سےآدمی کسی بھی معاملے میں اپنے خا ئن ہونے کا ثبوت بہم پہنچاسکتا ہے۔ اس حدیث میں ایک مثال گفتگو کی دی گئی ہے۔ اپنی بات چیت میں کوئی شخص خیانت کا مرتکب ہو سکتا ہے۔خیانت در حقیقت ایک طرح کی دھوکے بازی ہے۔آدمی بات چیت ایسے انداز سے کرے کہ سننے والا اسے سچ سمجھے، حالانکہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہو تو یہ بھی خیانت ہے اور بڑی خیانت ہے۔اپنے بھائی کو کسی فریب میں مبتلا کرنا کسی صورت میں روا نہیں ہے‘‘( کلامِ نبوت ،جلددوم،ص ۴۲۳- ۴۲۴)۔
اسی طرح ’دل میں کچھ،زبان پر کچھ‘ کا رویہ اختیار کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے(یا اس خام خیالی میں مبتلا رہتا ہے) کہ اس طرح وہ دوسروں کو بے وقوف بنا کر یا دھوکا دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرلے گا یا اپنا مطلب حاصل کرلے گا، لیکن واقعہ یہ کہ یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے یا وہ خود فریبی میں مبتلا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے مکّاروں و دھوکے بازوں کو بہت ہی صاف لفظوں میں متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی اور کو نہیں خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں،گرچہ انھیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ارشادِربّانی ہے:
وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۹ۭ (البقرہ۲:۹) اور دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں اور وہ ا سے محسوس نہیں کرپاتے۔
اس لیے کہ ان کی فریب دہی یا دوسروں کو بے وقوف بنانے یا سمجھنے کی خصلت بہت دنوں تک چھپی نہیں رہ پاتی، ان کے دل کا یہ روگ کسی نہ کسی طرح باہر آہی جاتا ہے۔ کردار میں نفاق کی آمیزش یا دُہری پالیسی ایسا خطر ناک مرض ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور اس کے کردار و اعمال کو داغدار بنا دیتا ہے، جسے دوسرا دیکھ کر یا محسوس کر کے ہی گھن کھاتا ہے اور اس سے دُور رہنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس پر بھی اس کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کا سایہ نہ پڑ جائے۔
یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ نفاق کے مرض میں مبتلا یا قول وفعل میں تضاد کے عادی لوگ اپنی ڈگر پر چلتے ہوئے خوب مگن رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی خفیہ تدبیریں یا’’ دل میں کچھ اور، زبان پر کچھ اور‘‘ کی پالیسی کار گر ہو رہی ہے، حالانکہ اللہ کی جانب سے انھیں سنبھلنے کی مہلت ملتی ہے جسے وہ سمجھ نہیں پاتے،آخر کار ان کے اس مرض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بالآخر انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آیتِ کریمہ اسی حقیقت کی ترجمان ہے:
فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ۲: ۱۰) ان کے دلوں میں ایک بیماری[ نفاق کی کھوٹ ]ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ،اور ان کے لیے بڑا درد ناک عذاب ہے ان کے جھوٹ کی پاداش میں۔
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے،اور اللہ کے ا س بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا،بلکہ انھیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں‘‘ ( تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۵۳)۔
لوگوں کو اپنے مکر و فریب کا شکار بنا نے والے یا دھوکا دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ علیم و خبیر ہے، سب کا باطن و ظاہر اس کے سامنے کھلا رہتا ہے ۔ پھر یہ نکتہ بھی ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اللہ رب العالمین نے ایسا انتظام فرما رکھا ہے کہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی بات اور عمل ریکارڈ میں آجاتا ہے۔ بد کار و غلط کار لوگ کہاں تک اپنی بری حرکتوں کو چھپائیں گے یا اپنے سینے کے راز وہ کیسے مخفی رکھ سکتے ہیں،جب کہ قرآن کریم نے قادرِ مطلق کا یہ نظم بھی بیان کردیا ہے :
وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْہُ فِي الزُّبُرِ۵۲ وَكُلُّ صَغِيْرٍ وَّكَبِيْرٍ مُّسْـتَطَرٌ۵۳ (القمر۵۴: ۵۲-۵۳) اور جو کچھ بھی انھوں نے کیا ہے وہ سب دفتروں میں محفوظ ہے، ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی موجود ہے۔
یہی حقیقت سورۂ یونس کی آیت ۶۱ میں بھی بیان کی گئی ہے۔اس کے مخاطب اصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،لیکن پوری امت،بلکہ جملہ انسانیت سے خطاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ ملاحظہ ہو:’’ اور جس حالت میں بھی تم رہتے ہو،جس قدر بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہو،اور جو کام بھی تم لوگ کرتے ہو،اس وقت ہم تمھارے پاس ہی موجود رہتے ہیں جب تم لوگ اس میںلگے رہتے ہو۔اور [یہ بھی یقین کرلو کہ] تیرے رب سے کوئی ذر ّ ہ برابر چیز بھی زمین میں یا آسمان میں پوشیدہ نہیں [رہ سکتی] ہے،نہ چھوٹی اور نہ بڑی،مگر وہ صاف کھلی ہوئی کتاب میںدرج ہے‘‘ ۔
یہاں یہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۂ یونس اور سورۃ القمر کی مذکورہ آیات کے بعد کی آیت میں ایمان و نیک عمل کی پونجی والوں کو یہ مژ دہ سناکر انھیں اطمینان دلایا گیا ہے کہ عالم الغیب کا یہ نظام ( ہر چھوٹی بڑی چیز کا ریکارڈ میں درج یا محفوظ ہوجانا) سب کے لیے ہے، لیکن اللہ کے فرماں بردار بندے ( جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور گناہوں سے اپنے کو بچاتے ہیں) مطمئن رہیں، ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں ان کے لیے چین ہی چین ہے،وہاںانھیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ وہ کسی غم سے دوچار ہوں گے۔ وہ اللہ کے محبوب و مقرب بندے ہیں، وہ راحت و سکون سے مشرف ہوں گے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ۚۖ (یونس ۱۰:۶۲ ) اللہ کے مطیع و محبوب بندوں کو نہ کسی چیز کا خوف ہوگا اور نہ انھیں کسی رنج وغم سے سابقہ ہوگا (یعنی وہ ہر طرح سے مامون و محفوظ ہوںگے)۔
رہا یہ معاملہ کہ اللہ کے محبوب بندے کون ہیں،یا رب العالمین کن لوگوں کو دوست رکھتا ہے ؟ اسے اس کے بعد والی آیت میں واضح کردیا گیا ہے: اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ’’ جو ایمان سے مشرف ہوئے اور اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی یا گناہ کے کاموں سے بچاتےرہے‘‘۔ مزید یہ کہ سورۃ القمر کی مذکورہ بالا آیات ( جس میں ہر چھوٹے بڑے عمل کے ریکارڈ میں آجانے کا ذکر ہے) کے بعد کی آیات میں بھی اللہ کے محبوب بندوں کو’الْمُتَّقِیْنَ‘ ( اپنے خالق و مالک کی اطاعت و بندگی بجا لانے میں سرگرم رہنے والوں اور گناہوں سے پرہیز کرنے والوں) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور انھیں یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ وہ دائمی ز ندگی میں گھنیرے و لہلہاتے باغات میں ہوں گے،ایک سچی عزت والی مجلس میں ہوں گے، جہاں خوشیاں و مسرتیں ہوں گی،انعام و اکرام کی بارش ہوگی ، اور ( اس سے بڑی نعمت یہ کہ) وہ با اختیار و بااقتدار بادشاہ کے پاس ہوں گے جو اپنے بندوں پر بہت شفیق و مہربان ہے (آسان تفسیرِ قرآن، عائض القرنی؍اردو ترجمانی:محمدطارق ایوبی ندوی،ہدایت پبلشرز ،۲۰۲۲ء،ص۱۰۱۵)۔ حقیقت یہ کہ یہ کتنا بڑا رتبہ اور اعزاز و اکرام ہے جس سے ایمان و یقین کو اپنے اعمال سے سچ کر دکھانے والے، یعنی قلب کی سچی آواز پر لبّیک کہنے والے اور قول و فعل میں مطابقت کا عملی ثبوت دینے والے نوازے جائیں گے۔
دوسری جانب قرآن کریم میں قول و فعل میں عدمِ مطابقت یعنی نفاق کی بیماری میں مبتلا رہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا گیا ہے کہ اس برائی سے چھٹکارا پانے کی ہر ممکن کوشش کریں، ورنہ وہ بڑے خسارے میں ہوں گے، اور اس کی وجہ سے سب سے بڑا خسارہ اللہ رب العزت کی ناراضی اور اس کے نتیجے میں ابدی زندگی میں ناکامی ودرد ناک عذاب سے دوچار ہو نا ہے۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۱۰ (البقرہ:۲:۱۰)’’ان کے لیے(آخرت میں) بڑا درد ناک عذاب (تیار رکھا ہے ) ان کے جھوٹ (یا دوغلے پن) کی سزا میں‘‘۔
سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص ربِّ کریم کی نا راضی مول لے لے، کیا وہ چین وسکون سے شب وروز بسر کرسکتا ہے؟، جو پاک پروردگار کی نگاہ میں انتہائی ناپسندیدہ و مبغوض قرار پائے کیا وہ اس کے بندوں کی نظر میں محبوب قرار پا سکتا ہے؟ ، جو انسان اپنے دل کی بھلی سوچ یا خیر کے ارادہ کے مطابق اپنے عمل کو نہ ڈھال سکے کیا وہ حقیقی فلاح سے شاد کام ہوسکتا ہے؟، جس فریبی و مکّار بندہ سے ربِّ رحیم کی رحمت رُوٹھ جائے کیا ا سے دنیا و آخرت میں کہیں آرام کا ٹھکانا مل سکتا ہے؟
نیکی یا بھلی بات کی دعوت دینے والے اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے دنیا میں جس ذلت و رُسوائی سے دوچار ہوں گے، وہ اپنی جگہ ہے۔ بعض احادیث میں ایسے لوگوں کو آخرت میں انتہائی تکلیف دہ و ذلت آمیز عذاب دیئے جانے کا جو عبرت ناک منظر بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صحیح بخاری میں مروی اس حدیث کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا تو اس کی آنتیں آگ میں نکل پڑیں گی، وہ اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا اپنی چکّی کو لے کر گھومتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے :اے فلاں! یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم نہیں دیتا تھا اور بُری باتوں سے ہمیں روکتا نہیں تھا؟ وہ کہے گا کہ میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا، مگر خود ان پر عمل نہ کرتا تھا، اور تمھیں بُری باتوں سے روکتا تھا، مگر خود ان میں مبتلا رہتا تھا‘‘ ( صحیح مسلم ، کتاب الزہد، باب عقوبۃ من یامر بالمعروف ولا یفعلہ وینھیٰ عن المنکرِ و یفعلہ)۔
اس حدیث کا عربی متن اوراردو ترجمہ ’’ قول و عمل میں تضاد‘‘ کی سرخی کے تحت نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح میں مولانا محمد فاروق خاں تحریر کر تے ہیں: ’’خود را فضیحت، دیگراں را نصیحت کا انجام کتنا عبرت ناک ہوگا۔ قول و عمل کا تضاد آدمی کو قیامت میں بر سرِعام رسوا کرے گا۔جہنم کا الم ناک عذاب الگ اس کے حصے میں آئے گا‘‘ (کلامِ نبوت، جلددوم، ص ۴۲۲، حاشیہ۱ )۔
مختصر یہ کہ جس کا قول خود اس کے دل میں جگہ نہ بنا سکے یا جس کی نصیحت آمیز باتیں خود اس کے عمل کی دنیا کو نہ بدل سکیں ،دوسروں پر یہ باتیں کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ یا جس کی دعوت الی الخیر خود اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکے، اس کی دعوت پر دوسرے کیسے لبّیک کہیں گے؟ قرآن نے استفہامیہ پیرایہ میں اس نکتے پر غور وفکر کی دعوت خاص طور سے ا ن لوگوںکو د ی ہے، جو دوسروں کو نیک باتیں بتانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور خود ان پر عمل کرنے میں پیچھے رہتے ہیں یااور و ں کو خیر کی دعوت دیتے پھرتے ہیں، لیکن اپنی عملی زندگی میں اسے جاری و ساری کرنے سے غافل رہتے ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے :
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۴۴ (البقرہ ۲:۴۴) کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ۔
یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ خیر کی جس بات کو تم خود اپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، تو پھر کیسے توقع رکھتے ہو کہ دوسرے اسے دل وجان سے قبول کریں گے یا تمھاری باتوں پر دھیان دیں گے؟ کیا تم لوگوں نے اللہ کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ہدایات اس میں دی گئی ہیں وہ عمل کے لیے ہیں ؟ کیا اللہ کی کتاب میں بار بار لوگوں کو ا س حقیقت کی جانب متوجہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات اسی صورت میں ان کے لیے موجبِ برکت و باعثِ رحمت ثابت ہوں گی، جب ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں خطاب اصلاً بنی اسرائیل سے ہے، تاہم اس میں ہر دور کی اُمتِ مسلمہ ( جس کا ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق اپنی جگہ دین کا داعی ہے) کے لیے بھی بڑا قیمتی سبق ہے۔
لہٰذا ضرورت،بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جوکچھ اچھی و بھلی باتیں اور قیمتی و کارگر نصیحتیں ہمیں یاد ہوں اور دوسروں کو بتا نا چاہیں تو پہلے خود ان پر سنجیدگی و پابندی سے عمل کر کے ان کے فیوض و برکات کا اپنے کو مستحق بنالیں، پھر دوسروں کو انھیں بتا کر یاان کی راہ دکھا کر انھیں بھی مستفیض کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ، انھیں دلوں میں اتارنے اور دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کرنے کی توفیق نصیب ہو، آمین ثمّ آمین۔
پیشِ نظر تحریر کو درج ذیل دعائے مسنونہ پر ختم کرنا زیادہ بر محل معلوم ہوتا ہے:
اللّٰھُمَ طَھِّر قَلْبِی مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکِذبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَالْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ (احمدابن الحسین البیہقی، الدعوات الکبیر، الکویت،۲۰۰۹ء،۱؍۳۵۰ ؛محمد منظور نعمانی، معارف الحدیث، کتب خانہ الفرقان، لکھنؤ، ۱۹۶۹ء، ۵؍۲۷۱) اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔بے شک تو آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور دل میں چھپے ہوئے رازوں سے بھی با خبر ہے۔