بنگلہ دیش میں فاشزم (فسطائیت)اپنی تمام وحشیانہ خصوصیات کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ جمہوریت اور بنیادی شہری حقوق کی جگہ اب صرف قبرستان کا سا ماحول ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو حکومت کے لیے کافی وقت، طاقت اور مواقع ملے، مگر انھوں نے عوام کے خلاف مجرمانہ عزائم کا مظاہرہ کیا اور بھارتی سرپرستی میں فاشسٹ حکمرانوں کی بدترین شکل بن کر اُبھریں۔ ان کی حکومت سفاکیت، آمریت، بدعنوانی اور بدانتظامی کا ’منفرد نمونہ‘ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام ۱۴ سال کی طویل حکمرانی کے دوران ایسے ریاستی جرائم کا قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ ریاستی ادارے عوام کو دبانے اور جبر پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔
حسینہ واجد، عوام، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کی دشمن کے طور پر پوری طرح جم کر کھڑی ہیں۔ اس لیے عوام اس حکومت سے مایوس ہیں۔ خود شیخ حسینہ کو اپنے جرائم اور عوام کے غصے کا پوری طرح اندازہ ہے۔ لہٰذا، لوگوں کے خلاف انھوں نےایک مخصوص حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ لوگوں کے ووٹ کے اختیار کو چھین کر ان کو بے اختیار بنانا یہ کلیدی حکمت عملی ہے۔ جس کے لیے انتخابی عمل کا مکمل اختیار سنبھال لیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حکومت عوام کے ووٹوں پر ڈاکا ڈال کر خود کو منتخب کروا سکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی اور ڈکیتی ۲۰۱۴ء اور پھر ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں بھی ہوئی۔ یوں بنگلہ دیش کے عوام اپنے نمایندے خود منتخب کرنے کے آئینی حقوق سے محروم ہوگئے ہیں۔
l ووٹوں پر ڈاکا:آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو روکنے کے لیے حسینہ واجد نے نگراں حکومت (CTG) فارمولے کو ختم کر دیا ہے۔ یہ فارمولا پروفیسر غلام اعظم نے پیش کیا تھا، جس کی ۱۹۹۱ء میں تمام جماعتوں نے توثیق کی تھی۔ یہ ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس سے پہلے انتخابات اقتدار میں آنے والی پارٹی منعقد کراتی تھی۔ اس طرح حکمران پارٹی اپنے حق میں انتخابات میں دھاندلی کے تمام مواقع سے لطف اندوز ہوتی تھی۔لیکن جب حسینہ واجد ۲۰۰۸ء میں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے تمام اپوزیشن سیاسی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اسے ختم کردیا۔ اس اقدام نے حسینہ کے لیے انتخابی دھاندلی کی راہیں کھول دیں۔
حسینہ واجد سمجھتی ہیں کہ کسی بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں ان کی جیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پچھلے انتخابات میں، وہ دو حلقوں میں اپوزیشن کے دو عام نمایندوں سے بھی شکست کھا گئی تھیں۔ تب سے، وہ زبردست انتخابی فوبیا کا شکار ہیں۔ الیکشن کمیشن اسے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب قرار دینے کے لیے تیار ہے۔ ملک کی پولیس اور عدلیہ خاموش تماشائی ہیں۔
انتخابی دھاندلی کی تاریخ میں حسینہ نے مصر کے ابوالفتح السیسی اور شام کے بشار الاسد جیسے سفاک آمروں کے ریکارڈ کو بھی مات دے دی ہے ۔ ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو، اس کی پولیس نے الیکشن کے دن سے ایک رات پہلے جگہ جگہ ووٹ ڈالے۔ چونکہ پولیس خود ایک ادارہ ہونے کے ناتے اس جرم میں شریک تھی، اس لیے اس طرح کی بھیانک ڈکیتی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انتخاب کے دن پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے والے حقیقی ووٹروں سے کہا گیا کہ وہ گھر واپس چلے جائیں کیونکہ ان کے ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ یہ حسینہ کے تکبر اور عوام کے خلاف دھوکا دہی کا عالم تھا۔ اس طرح کی لوٹ مار کے ذریعے، ۳۰۰ میں سے ۲۹۳ پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ درحقیقت اس طرح وہ تمام ۳۰۰ پارلیمانی نشستیں آسانی سے لے سکتی تھیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں تو ۱۵۳ نشستوں پر عوامی لیگ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ یہاں تک کہ ۱۰ فی صد ووٹروں سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ حسینہ کا طرز انتخاب ہے۔ ایسی انتخابی دھاندلی کی توثیق سے بچنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے ۲۰۱۴ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
l اداروں کی تباہی:شیخ حسینہ نے۲۰۰۸ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد جمہوریت کے بنیادی ادارے اور انتخابی نظام کو بآسانی تباہ کر دیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک حاصل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ پُرامن احتجاج کرنے پر بھی لوگوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ حفاظت ِ اسلام پارٹی کے سیکڑوں اسلام پسندوں کو ۵ مئی ۲۰۱۳ء کو ڈھاکہ میں ایک پُرامن احتجاجی ریلی منعقد کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ شیخ حسینہ نے عدلیہ پر بھی کامیابی سے تسلط حاصل کر لیا ہے۔ وہ چاہے تو کسی کو پھانسی دے سکتی ہے یا جیل بھیج سکتی ہے۔ اس نے جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے کئی رہنماؤں کو پھانسی دے دی ۔
فوج اور پولیس کے اہلکاروں کا مقام ان کے پرائیویٹ ملازموں سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ صرف اس کی حکمرانی کا تحفظ کرتے ہیں، نہ کہ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے آئینی حقوق کا تحفظ۔ میڈیا اب مکمل طور پر قابو میں ہے۔ حسینہ واجد نے اپنی حکومت پر کسی بھی طرح تنقید کرنے والے کو جیل میں ڈالنے کے لیے ’ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ‘ متعارف کرایا ہے۔ اس کی حکومت پر تنقید کو ’ریاست مخالف عمل‘ قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا انھیں گرفتار کر کے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارتی فاشسٹ وزیراعظم مودی کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے پر مشرقی ضلع برہمن باڑیا میں پولیس کے ہاتھوں ۱۶؍ افراد ہلاک ہوگئے ۔ اس قتل کے جرم میں نہ کسی کو گرفتار کیا گیا اور نہ سزا ہی دی گئی اور اس قتل عام کی خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔
l ریاست __ دہشت گردی کا ادارہ:بنگلہ دیش کی ریاست جو فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیتی ہے، اسے RAB (The Rapid Action Batalion ) کہتے ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لوگوں کو حسینہ کی فاشسٹ حکمرانی کے تابع رکھنے اور خاموش رہنے کے لیے دہشت زدہ کر رہے ہیں ۔ وہ سیکڑوں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا نشانہ حکومت مخالف سیاسی کارکن، صحافی اور دانشور ہیں۔ RAB بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے رات کی تاریکی میں لوگوں کو اغوا کرتا ہے۔ پورا ملک ایسے ڈیتھ اسکواڈز کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ وہ ڈھاکہ چھاؤنی کے اندر دہشت ناک ٹارچر سیل چلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کرنا حکومتی سرپرستی میں ایک اداراتی عمل بن چکا ہے۔ کچھ بین الاقوامی میڈیا نیٹ ورکس جیسے ڈوئچے ویلے ، الجزیرہ، نیٹرو نیوز نے حکومتی سرپرستی پر مبنی ایسے اداروں پر دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔
اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں جھوٹے مقدمات درج ہیں۔ اس لیے گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ زیر زمین چلے جانے یا ملک چھوڑ کر غیر ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلینے پر مجبور ہیں۔ گرفتار ہونے والے برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتے رہتے ہیں۔
l حسینہ: ہندستان کی وائسرائے:حسینہ نہ صرف فاشسٹ، بدعنوان اور اسلام دشمن ٹھگ کی سی بدترین شکل ہے، بلکہ انھوں نے بنگلہ دیش کو بھی ہندستان کی ایک کالونی بنا دیا ہے۔ اس نے سات مشرقی ریاستوں تک رسائی کے لیے ہندستان کو مفت گزرگاہ فراہم کردی ہے، اور بنگلہ دیشی بندرگاہوں تک رسائی دی ہے۔ ملک کی مارکیٹوں پر ہندستان کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی دکانوں اور گھروں میں زیادہ تر سامان ہندستان کا بنا ہوا دستیاب ہے۔ زیادہ تر گاڑیاں، بسیں، ٹرک، سکوٹر اور سائیکل بھارت سے آتے ہیں۔ چونکہ تقریباً ۱۰ ملین بنگلہ دیشی بیرون ملک مقیم ہیں، اس لیے ایک بنگلہ دیشی کی فی کس آمدنی اور قوت خرید ایک ہندستانی سے زیادہ ہے۔ ہندستان مسابقت سے پاک زیرقبضہ مارکیٹ نہیں چھوڑ سکتا۔ بنگلہ دیش میں ہندستانی سامان کی مارکیٹ ہندستانی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار اور اڑیسہ کی مشترکہ مارکیٹ سے بڑی ہے۔ ایسے ہندستانی اقتصادی اور سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے حسینہ دہلی کے حکمران گروہ کی وائسرائے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس لیے بھارت اس حکمرانی کا ہر ممکن اقدام سے تحفظ کر رہا ہے۔ ان حالات میں حسینہ کے خلاف کھڑے ہونا درحقیقت ہندستانی سامراجیت کے خلاف لڑنا ہے۔
حسینہ کو ۲۰۰۸ء میں دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے امریکا، برطانیہ اور بھارت کی مشترکہ سازش کے ذریعے۱۸کروڑکی آبادی والے ملک میں اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کو غیرمنصفانہ عدالتی کارروائیوں اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا تو ان سازشی طاقتوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب اسے بھارت، چین اور روس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بھارتی، چینی اور روسی کمپنیاں حسینہ اور اس کے ساتھیوں کو ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر کک بیک کے طور پر دیتی ہیں۔
اگلا پارلیمانی الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہے۔ حسینہ واجد عوام کے ووٹوں پر ایک اور ڈاکا ڈالنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ اس موقع کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اگر وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اپنے بے شمار قاتلانہ جرائم کی سزا سے نہیں بچ سکتی۔ درحقیقت بنگلہ دیش کے ۱۸کروڑ عوام کے لیے یہ واقعی ایک بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ دشمن نما حکمران کو کب تک برداشت کریں گے؟