اسلامی دُنیا میں سود سے ناپسندیدگی ایک طے شدہ امر ہے کیونکہ دین میں سودی کاروبار کی ممانعت انتہا درجے کی ہے ، یعنی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ۔ نظریاتی طور پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا متمنی رہتا ہے، مگر عملی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ سودی کاروبار عام زندگی کا لازمی جزو ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد سودی نظام کا خاتمہ ہرحکومتی اور غیرحکومتی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے، جس کا آغاز بانی ٔپاکستان کی اس تقریر سے ہوا جو انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی۔ اس کے بعد آنے والے ہردستور میں اس کا اعادہ کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء سے عملی طور پر سودی کاروبار کے خاتمے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جب کبھی سودی کاروبار کے بارے میں عوامی رائے جاننے کے لیے سروے وغیرہ کیے گئے تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں نے سود سےجان چھڑانے کی بھرپور خواہش کا اظہار کیا۔ پچھلے ۳۰ برسوں سے یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں زیربحث ہے۔ دینی جماعتوں کے ایجنڈے کی یہ پہلی ترجیح ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود سود کا کاروبار ملک میں سکّہ رائج الوقت ہے۔ دو عشروں سے اعلان کردہ ’اسلامی بنک‘ کام کررہے ہیں، مگر سود پر کام کرنے والے بنکوں کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ۔ کیونکہ کاروبار کا ۸۰فی صد حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے والے بنکوں کے پاس ہے۔
تاجر برادری اکثرو بیش تر سودی نظام کے خاتمے کے لیے جلسے کرتی ہے، حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں تاجر علانیہ سود کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن ان سب کو نظرانداز کرکے مذہبی جماعتوں کا سارا زور صرف بنکوں کے سودپر مرکوز ہے۔ اس صورتِ حال میں سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا ہمارا موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی نظام اس سلسلے میں ممدومعاون ہے یا رکاوٹ کا باعث؟ کیا ہماری موجودہ حکمت عملی اس طریق کار سے ہم آہنگ ہے یا متصادم، جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں سود کے خاتمے کے لیے اختیار فرمائی تھی؟ کیا اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور عدالت ِ عالیہ سود کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا یہ کارِعظیم کچھ اور اداروں کے ہاتھوں سرانجام پائے گا؟ ان بنیادی سوالات کے جوابات زمینی حقائق کی روشنی میں درج ہیں:
۱- سود کا خاتمہ ممکن ہـے: انسانی تاریخ میں تین اَدوار ایسے گزرے ہیں، جن میں معیشت سود کے بغیر تھی۔ اوّل: ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے چار سو سال۔ دوم: قرونِ وسطیٰ کا یورپ۔ سوم: بیسویں صدی کے اشتراکی روس کے ۷۵سال۔ ہم صرف قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی بات کریں گے۔ اس دور میں سودی کاروبار قانوناً جرم تھا۔ اگر کسی تاجر کے بارے میں سودی کاروبار کا شک ہوتا تو لوگ عدالت میں مقدمہ درج کروا دیتے جس میں عدالت، چرچ کی معاونت سے کارروائی کرتی۔ عدالت سے سودی کاروبار پر سزا یافتہ شخص عوامی نفرت اور غیظ و غضب کا شکار رہتا۔ محلے میں لوگ اُسے کرایہ پر مکان دینے سے انکار کر دیتے۔ عدالت میں اس کی گواہی تسلیم نہ کی جاتی اور موت کی صورت میں اسے مسیحی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ملتی۔ معروف انگریز ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے Merchent of Venice [۱۵۹۸ء: وینس کا تاجر] کے مطابق لوگ سود پر کاروبار کرنے والے لوگوں کے منہ پر تھوکتے تھے۔ اس عوامی اور اداراتی مخالفت کے باعث قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بڑے عرصے تک، تجارت سود کے بغیر رہی۔
درج بالا تناظر میں پاکستان کے معاشرے کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱) مذہبی لوگ اور تاجر (۲) یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم (۳) حکومت اور سرکاری ادارے بشمول عدلیہ ___ پہلے طبقے میں سود کی شدید مخالفت ہے مگر بیش تر صورت میں یہ صرف بیان کی حد تک ہے کیونکہ ان کے پاس سود کے مضر اثرات کی عملی تحقیق نہیں ہے۔ سود کی بحث حرام اور حلال سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسی لیے یہ طبقہ سود کے خاتمے کے لیے اسٹیٹ بنک اور عدالتوں سے مطالبات کرتا رہتا ہے۔ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور ان کے ہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں سود کی افادیت کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں پائی جاتی،کیونکہ معاشیات کی ساری تعلیم سود کے اردگرد گھومتی ہے۔ چند جگہوں پر اسلامی بنکاری کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے جس کا عملی معاشیات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ تیسرے طبقےمیں بھی یہی سردمہری اور بے اعتنائی ہے۔ اسٹیٹ بنک بنیادی طور پر ملک میں سودی کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔
پچھلے ۳۰سال سے حکومت سود پر کام کرنے والے تجارتی بنکوں سے حاصل کردہ قرضہ جات پر چل رہی ہے۔ اس وقت قرضہ جات کا حجم ۵۰ کھرب روپے سے زیادہ ہے، جن میں صرف ۴ فی صد قرض اسلامی بنکوں کا ہے۔ ۲۰سال سے زائد عرصہ کے بعد سود کے خاتمے کے مقدمے کا فیصلہ ہوا مگر کچھ بنک اس کے خلاف اپیل میں چلے گئے۔ مذہبی جماعتوں نے اس پر جلوس نکالے مگر کھاتہ داروں نے (چند افراد کے سوا) ان بنکوں سے اپنے پیسے نہیں نکلوائے۔ ان سب حقائق کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سود کے خاتمے کے لیے درکار سنجیدگی اور مضبوط ارادے کی شدت سے کمی موجود ہے۔
۲- سودی کاروبار کے دو دَور : سود کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود غالباً ۱۰ہزار سال پہلے ایک کسان نے دوسرے کسان کو فصل کی کاشت کے موقعے پر بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کٹائی پر کاشت کے وقت دیئے گئے بیج سے زیادہ وصول کیا۔ یہ بارٹر دور (اشیا کا اشیا سے تبادلہ) تھا۔ سود کے کاروبار میں اضافہ زری ایجاد (کرنسی) سے ہوا۔ اس سے زَر کے دواستعمال ہوئے: ایک تو وسیلۂ تبادلہ اور دوسرے زَر کی اشیا کی طرح معین عرصہ اور طے شدہ اضافے پر فروخت۔ سود کی یہ شکل پندرھویں صدی تک رہی کیونکہ اس وقت بنک کی صنعت وجود میں نہیں آئی تھی۔ یہ سود، بنکاری کے دور سے مختلف تھا۔اوّل اس کی نوعیت انفرادی تھی اور مارکیٹ میں کچھ تاجر سود پر کام کرتے تھے۔ دوسرے، یہ یک طرفہ (One Window) تھا، کیونکہ لوگ ساہوکاروں سے سود پر قرض تو لیتے مگر اپنی بچتیں ان مہاجنوں کو سود پر اُدھار نہیں دیتے تھے۔ تیسرے سود پر کام کرنے والوں کی معاشرے میں کوئی عزّت اور توقیر نہیں تھی۔
بنکوں کے قیام سے سودی کاروبار کو وسعت اور استحکام ملا۔ اوّل یہ انفرادی صورت سے نکل کر اداراتی شکل میں آگیا۔ دوم: یہ دوطرفہ (Two Window) کاروبار بن گیا۔ فاضل سرمایہ والے لوگ بنکوں کے پاس اپنا سرمایہ سود پر رکھنے لگے اور سرمایے کے طلب گار لوگ بنک سے سود پر رقوم لینے لگے۔ تیسرے، ایسے کاروبار کو عزّت اور پذیرائی نصیب ہوئی۔پچھلے پانچ سوسال سے سود، اداراتی حیثیت میں موجود ہے اور ہر۵۰،۶۰سال بعد مالیاتی بحران کی وجہ بن جاتا ہے۔ دراصل سودی کاروبار میں ایک طرح کی شُتربے مُہاری ہے۔ یہ نفع کی تلاش میں ہروقت، ہرطرف اور ہرشکل میں سرگرداں رہنا چاہتا ہے۔ چونکہ سارے معاشرے کی بچتیں کھاتوں کی شکل میں بنکوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں، اس سے بنکوں میں زری طاقت (Money Might) آجاتی ہے۔ بنک زیادہ سے زیادہ سود کمانےکے لالچ میں زیادہ سے زیادہ قرضہ جات دیتے ہیں، جس سے بنک مالیاتی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں ٹیکس دہندگان کی رقوم سے bail out کیا جاتا ہے۔ اداراتی سود، فردِواحد کے سود سے زیادہ خطرناک ہے۔ ۲۰۰۸ء کا گلوبل فنانشل بحران اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۳- سود میں ہلاکت اور بیع میں فلاح ہـے : ساتویں صدی میں جب قرآن نے ’بیع کو حلال اور سود کو حرام‘ قرار دیا تو مدینہ کے یہودیوں نے سوال اُٹھایا کہ بیع اور ربا، تجارت کی دوصورتیں ہیں، تو بیع کو ربا پر ترجیح کیوں؟ قرآن نے واضح کر دیا کہ سود میں ہلاکت ہے اور بیع میں فلاح۔ ساتویں صدی ایمان کا دور (Age of Faith) تھا۔ مسلمانوں نے سوال جواب کرنے کے بجائے قرآنی احکامات کی پیروی میں سود کو چھوڑ دیا۔ سولھویں صدی سے عقلیت کے دور (Age of Reason) کا آغاز ہوا، جس میں سودی کاروبار کی افادیت کا عقلی جواز نکالا گیا۔ اُس وقت ضروری تھا کہ مسلمان بھی سودی کاروبار میں ہلاکت کا عقلی جواز معاشی اعداد و شمار کی روشنی میں تلاش کرتے مگر ایسا نہ ہوا۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے سود کے بارے میںقرآنی نظریے کو ایک شعر کی شکل میں پیش کیا کہ ’’سودی کاروبارظاہر میں تجارت ہے مگر حقیقت میں جوا ہے‘‘۔ دوسرے ’’ایک فرد کا سود لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ مگر یہ بھی ایک بیانیہ ہی تھا، جسے اعداد و شمار کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت تھی۔
سودی کاروبار میں شُتر بے مُہاری کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی آدم خوریت بھی موجود ہے، جس کی قرآن نے نشان دہی کی تھی۔ ۱۹۳۰ء کی عالمی کساد بازاری (Great Depression) نے اس کا پہلا ثبوت فراہم کیا۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے کو مغربی معاشی تاریخ میں بھرپور ترقی کا زمانہ (The Roaring Twenties) کہا جاتا ہے۔ مالیاتی اداروں اور تجارتی بنکوں نے اس دور میں سود پر مبنی قرضہ جات دیئے اور شروع میں خوب منافع کمایا، مگر انجام کساد بازاری پر ہوا۔ حقیقی شعبہ میں کاروبار تباہ ہونے کے باعث بے روزگاری اور غربت عام ہوئی۔ بحران کی بڑی وجہ بنکوں کی غیردانش مندانہ کارکردگی قرار پائی اور گلاس سٹیگل ایکٹ پاس ہوا، جس کے تحت سرمایہ کار بنکوں کو تجارتی بنکوں سے الگ کردیا گیا۔ ۶۰سال تک بنک اس ایکٹ کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔
۱۹۸۰ء سے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب روسی اشتراکیت اپنے وجود کے بحران سے دوچار تھی۔ ۱۹۹۰ء کے شروع میں کارل مارکس کا نظریۂ اشتراکیت، روسی بلاک میں ۷۵سال تک نافذ رہنے کے بعد ختم ہوگیا، سوائے چین کے سارے اشتراکی بلاک نے دوبارہ سرمایہ داری نظام کو اپنا لیا۔ سرمایہ داری کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب ساری دُنیا ایک آزاد مارکیٹ تھی۔ چنانچہ مغربی معاشی ادب میں سود کے خلاف علمی یلغار شروع ہوئی۔ اس بحران کی وجہ بے روزگاری اور غربت و افلاس تھا، جس کی نشان دہی قرآن نے ساتویں صدی میں ہی کردی تھی۔
۲۰۱۳ء میں مارکسی اکانومسٹ تھامس پکٹی نے تو کمال کر دیا۔ حالانکہ یہ کام تو کسی مسلمان مذہبی اسکالر یا معاشیات دان کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے ۲۵۰سال کے معاشی اعدادوشمار کے تجزیے سے ثابت کیا کہ ’’پیداواری عمل میں سرمایہ کا معاوضہ بطور سود دوسرے عاملین پیداوار کے معاوضہ سے بہت زیادہ ہے، جس سے معاشرے میں دولت کی تقسیم انتہائی غیرہموار ہوجاتی ہے‘‘۔ یقینا اسی وجہ سے قرآن، سرمایہ کے معاوضہ کو کاروبار کے نفع و نقصان سے مشروط کرتا ہے۔ گویا قرآنی نظریے کو اغیار نے ایک طرح کی عددی شہادت فراہم کردی۔ بقول اقبال: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
اہلِ مغرب بھی سودی کاروبار میں پوشیدہ ہلاکت (آدم خوریت) سے آگاہ ہوچکے ہیں مگر اس کا برملا اظہار نہیں کرتے کیونکہ اس سے سرمایہ داری کا سفینہ مکمل طور پر ڈوب جائے گا۔ دراصل سرمایہ داری کی جان سود کے طوطے میں قید ہے۔
یہاں ان نقائص کی بات کی جائے گی جو سود کے خاتمے کی حکمت عملی میں پوشیدہ ہیں، مگر پالیسی ساز اور ادارے ان کے بارے میں عجیب قسم کی بے خبری کا شکار ہیں:
۱- اسلامی معاشی نظام کا نفاذ یا صرف اسلامی بنکاری : یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم محمدعلی جناح نے واضح طور پر فرمایا تھا: ’’مغربی معاشی نظام کی تقلید میں ہمارے مسائل کا حل موجود نہیں ہے‘‘، بلکہ انھوں نے کہا تھا: ’’ہمیں اپنے مقدر کو اپنے انداز میں سنوارتے ہوئے اقوامِ عالم کو ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے، جس کی بنیاد امن کا ایسا پیغام دینا ہے جس میں نہ صرف انسانیت کی بقا ہوگی بلکہ اس سے فلاح، مسرت اور خوش حالی بھی حاصل ہوگی‘‘۔ اس تقریر میں بانیٔ پاکستان نے اسلامی معاشی نظام کا عالم گیر تصور پیش کیا تھا، جسے نہ صرف پاکستان میں نافذ کرنا تھا بلکہ پورے عالم کو اس سے روشناس بھی کروانا تھا۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم الشان روڈمیپ کو یکسر بھلا دیا گیا۔ غالباً ۲۰سال بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اسلامک اکنامک ڈویژن قائم کیا، جس کے ذمہ اتنی بڑی ذمہ داری تھی، مگر ۱۵سال تک اس ڈویژن نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ ۱۹۸۵ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ہدایت پر ’اسلامی معاشی نظام‘ کے بجائے ’اسلامی بنکاری کا ماڈل‘ بنایا گیا۔ اس وقت ملک میں لوٹ کھسوٹ، اقرباپروری اور بدعنوانی عروج پر تھی مگر اسٹیٹ بنک نے ان مسائل پر کوئی توجہ نہ دی۔ اگر اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی تو یہ یونی ورسٹیوں کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ اور مذہبی جماعتوں کے مدارس کے نصاب کا حصہ ہوتا۔ یوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ سوائے سود کے سارا نظامِ زندگی، اعلیٰ اسلامی اقدار سے ہم آہنگ ہوچکا، صرف سود کا مسئلہ باقی ہے۔ یہ ایک ایسا مغالطہ ہے جس کی شکار ملک کی عدلیہ بھی ہے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت سود کا فیصلہ کرتے وقت ملک میں رائج رشوت، کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں خاموش رہتی ہے۔ فرض کریں کہ اگر ملک سے سود کا خاتمہ ہو بھی جائے تو کیا ہم اسے اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟
۲- تجارتی بنک نفع و نقصان پر اور اسٹیٹ بنک سود پر : ۱۹۸۵ء کی پہلی کوشش میں یہ تجویز بھی زیرغور تھی کہ اسٹیٹ بنک کے بنک ریٹ جو کہ سود پر مبنی تھا، اسے نفع و نقصان کے بنچ مارک سے تبدیل کیا جائے۔ سودی بنکاری کے نظام میں مرکزی بنک کے ’بنک نرخ‘ کو ’گرفت کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے تجارتی بنک اپنی شرحِ سود وضع کرتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ’’تجارتی بنکوں سے پہلے حکومتی قرضہ جات کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے‘‘۔ اگر یہ کرلیا جاتا تو حقیقی شعبے کے منافع پر مبنی بنچ مارک وجود میں آجاتا، جسے اسلامی تجارتی بنک بھی اپنی پراڈکٹس پر منافع طے کرنے کے لیے استعمال کرتے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے نفع و نقصان کی بنیاد پر ہوتی۔ پالیسی سازوں کی یہ دوسری غلطی تھی کہ اسلامی بنکوں کو تو نفع و نقصان پر بنکاری کرنے کی اجازت دے دی مگر اسٹیٹ بنک کا سودی تشخص قائم رکھا۔ ۲۰سال کام کرنے کے بعد اسلامی بنک۲ فی صد کاروباری حصص حاصل کرسکے ہیں، یعنی ایک سال میں ایک فی صد۔ اسی رفتار سے ۸۰سال مزید چاہئیں جس میں سارا بنکاری نظام، اسلامی بنکوں کے پاس آجائے گا مگر اس وقت تک اسٹیٹ بنک تو بدستور سود پر کام کر رہا ہوگا۔ کیا مزید ایک سو سال اسٹیٹ بنک کی اسلامائزیشن میں لگ جائیں گے؟ اگر حکومتی قرضہ کو نفع و نقصان کی بنیاد پر کرلیا جاتا تو ۵۰کھرب کا حکومتی قرضہ سودی چنگل سے نکل چکا ہوتا۔
۳- سود کے خاتمے کے لیے اسوہ رسولؐ کی پیروی: حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو شہر کی معیشت پر یہودی قابض تھے اور تین بڑی معاشی خرابیاں تھیں: اوّل، مارکیٹ میں فروخت کی اشیا لانے والوں کو ان کی اشیا کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا، یعنی مارکیٹ کی رسد میں استحصال تھا کیونکہ جن لوگوں کی اشیا سے مارکیٹ چلتی تھی وہ اپنی اشیا کے مناسب معاوضے سے محروم رہتے۔ دوسرا، استحصال خریداروں کا تھا جنھیں تاجر مہنگی اور ناقص اشیا بیچتے، یعنی مارکیٹ کی طلب میں خرابی۔ تیسری خرابی سارے معاشرے کا استحصال سود کا کاروبار تھا۔
سود کی ممانعت کا حکم جنگ ِ اُحد کے وقت آگیا تھا، مگر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبرانہ بصیرت کے تحت پہلے مارکیٹ کی طلب اور رسد کو درست کیا اور سب سے آخر میں ۹ ذوالحج ۱۰ہجری کو معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کیا۔ چونکہ سیرتِ نبیؐ ہر زمان و مکاں میں ہمارے لیے زادِ راہ ہے، اسی لیے جب بھی استحصالی معاشی نظام کی درستی درکار ہوگی، اسی ترتیب و ترکیب پر کام کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔
پاکستان کے موجودہ معاشی نظام میں بھی تین بنیادی نقائص وہی ہیں جو ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں آمد ِ رسولؐ کے وقت تھے، مگر ہمارے ہاں تشخیص یہ ہے کہ سب سے پہلے سود کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ اسی مغالطے کی مانند ہے جس طرح سود پر مبنی اسٹیٹ بنک کی موجودگی میں اسلامی بنک زیادہ فعال نہیں ہوسکتے۔ اس لیے لوٹ کھسوٹ اور چوری پر مبنی تجارت کی موجودگی میں سود کے خاتمے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ بات کرنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ سود کے خاتمے کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ نہیں، بلکہ دراصل ایک مکمل اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں ان تینوں معاشی پہلوئوں پر بیک وقت کام کیا جائے۔ یاد رہے کہ سود، معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اصل ضرورت اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بھی صرف سود کے خاتمے کے بجائے پورے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جانا ضروری ہے۔
یہاں پر ہم ان اقدامات کا ذکر کریں گے جو سود کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہیں:
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ پرمبنی مکمل معاشی نظام نافذ کیا تھا۔ہماری کتاب ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس اُس دور کی معاشیات کو آج کے دور کی اکنامکس کی زبان میں بیان کرتی ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے خدوخال آج کی زبان میں بیان کیے جائیں اور اس معاشی نظام سے اسلامی بنکاری کی تشکیل کی جائے۔ یہ کام یونی ورسٹی کے اکانومسٹ اور مذہبی اسکالر اور علما مل کر کرسکتے ہیں۔ اکانومسٹ، جدید معاشیات کے طور طریقوں سے بخوبی واقف ہیں اور مذہبی اسکالر اور علما درخشندہ اسلامی روایات کے وارث اور امین۔
یہ دونوں طبقے مل کر اسلامی معاشی نظام وضع کریں، مثلاً مارکیٹ کی ساخت، مارکیٹ میں کام کرنے والے لوگوں کے حقوق و فرائض، مختلف ذرائع پیداوار کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کے اصول اور معاشرے میں دولت کی گردش کے بارے میں اسلامی نظریہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں جن کو معاشیات کی زبان میں ضبط ِ تحریر میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اسلامی معاشی نظام کو کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس سے طالب علموں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں متبادل نظریہ ملے گا اور سود کے خاتمے کے سلسلے میں یہ پہلا کامیاب قدم ہوگا۔
حقیقی اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے نفع کی بنیاد پر بنچ مارک کی تیاری نہایت ضروری ہے۔ اس کے بہت زیادہ فوائدحاصل ہوں گے۔ اوّل:اسلامی بنک اپنے کھاتہ داروں کو سود سے بہتر منافع دے سکیں گے۔ دوسرے، اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے حقیقی کاروبار کے نفع کی بنیاد پر استوار ہوجائے گی۔ مالیاتی دُنیا میں یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا، کیونکہ ابھی تک ساری دُنیا کے مرکزی بنکوں کی مانٹیری پالیسی سود پر قائم ہے۔ تیسرے، اسلامی بنک، زراعت اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے قرضے دے سکیں گے، جہاں سودی بنک زیادہ تر کام نہیں کرتے۔
اس سلسلے میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اسٹیٹ بنک کے ڈاکٹر حسن الزماں نے انڈسٹری اوسط پرافٹ کی بات کی تھی۔ حال ہی میں اسٹیٹ بنک کے سابق ڈپٹی گورنر ریاض ریاض الدین نے بھی یہی بات کی ہے۔ کچھ سال پہلے رفاہ یونی ورسٹی، اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد ایوب نے اسی سلسلے میں مکالمے کا آغاز کیا تھا۔ عوام الناس کی طرف سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’’سودی اور اسلامی بنکوں میں کیا فرق ہے؟‘‘ اس درست وضاحت سے اسلامی بنکوں کونیا تشخص اور انفرادیت ملے گی جس کے باعث عوام ان کی طرف جوق در جوق رجوع کریں گے۔
اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کو تیز تر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں یونی ورسٹی سنٹروں کے ساتھ علاقے کے معروف دینی مدارس کو منسلک کیا جائے اور انھیں سالانہ اہداف دیئے جائیں اور ان کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ شائع کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس سلسلے میں سال کے آخر میں سیمی نار منعقد کرے اور تینوں سنٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لے۔تینوں یونی ورسٹی سنٹروں اور مدارس کے درمیان تقسیم کار بھی کی جاسکتی ہے، مثلاً IBA کراچی اور جامعہ دارالعلوم، کراچی کے ذمہ نفع کی بنیاد پر بنچ مار ک کی تیاری لگا دی جائے۔ LUMS لاہور اور جامعہ اشرفیہ، لاہور مل کر اسلامی معاشی ماڈل تیار کریں، اور IMS پشاور اپنے علاقائی مدرسہ کے ساتھ مل کر زکوٰۃ کے نظام کی جدید خطوط پر تشکیل کا ماڈل تیار کریں۔ اسلامی معاشی نظامِ میں زکوٰۃ اور عشر دوبڑے اہداف ہیں۔ ان اقدام سے ملک میں ایک جذبہ اور جنون پیدا ہوگا اور سب لوگ مل کر اس معاشی نظام (بشمول اسلامی بنکاری) کے قیام کی کوشش کریں گے، جس کا قائداعظم محمدعلی جناح نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو ذکر کیا تھا۔
شریعہ کورٹ کا سود کے بارے میں حالیہ فیصلہ موجودہ اسلامی بنکاری کے بارے میں خاموش ہے۔ عدالتی سماعت کےدوران مذہبی جماعتوں کے نمایندگان نے اس بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا کہ موجودہ ڈھیلی ڈھالی اسلامی بنکاری، منزلِ مقصود تک پہنچانے سے قاصر ہوگی۔ جب ساتویں صدی میں یہودی سردار کعب بن اشرف نے اس خیمہ کی رسیاں کاٹیں جس کے نیچے اسلامی مارکیٹ کام کررہی تھی تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا میدان مارکیٹ کے لیے منتخب کرتے وقت دوچیزوں کا خیال رکھنے کا ارشاد فرمایا:
اوّل یہ کہ یہ جگہ یہودیوں کی مارکیٹ سے دُور ہو اور دوم: مسجد نبویؐ سے قریب۔
حقیقی اسلامی معاشی نظام اور اسلامی بنکاری کے خدوخال طے کرتے وقت ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ موجودہ سرمایہ داری او ر اس پر مبنی سودی بنکاری سے مختلف ہو اور مقاصد ِ شریعہ کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہو۔ یہ کارِعظیم دشوار تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر متحد ہوکر مضبوط ارادے سے کام کا آغازکیا جائے تو اسلامی معاشی گم شدہ جنّت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے ؎
آج بھی جو ہو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا