محمد منیر احمد


انسانی زندگی جب شکارچی دور (Hunter Gatherer Age) سے زرعی دور میں تبدیل ہوئی تو حکومت کے ادارے اور ذاتی ملکیت کے تصوّر نے جنم لیا۔ حکومتی ادارے کا آغاز قبائلی سردار کی شکل میں ہوا جو سارے قبیلے کی حفاظت کا ذمہ دار تھا۔ سارے ذائع پیداوار سردار کی ملکیت تھے۔ لوگ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں کام کرتے۔ فصل کی کٹائی کے موقع پر سردار سب لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق گندم اور دوسری اشیا فراہم کردیتے۔ چونکہ ساری ملکیت (زمین اور پیداوار) سردارکی تھی اس لیے قبائلی انتظامی اُمور کے لیے قبیلے کے لوگوں سے کسی قسم کی وصولی (ٹیکس وغیرہ کی شکل میں) نہ کی جاتی۔ معاشرتی زندگی کی یہ پہلی شکل دراصل ایک قسم کا ’فطری سوشلزم‘ (Natural Socialism) تھا، جس میں لوگ اپنی استعداد کے مطابق کام کرتے اور ضرورت کے مطابق ضروریاتِ زندگی حاصل کرلیتے۔

جب معاشرتی زندگی زیادہ منظّم ہوئی تو ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا۔ افراد بڑے بڑے قطعاتِ اراضی پر قابض ہوئے اور اس زمین کی پیداوار کے مالک ٹھہرے۔ حکومت کا ادارہ اب قبائلی سردار سے بادشاہت میں تبدیل ہوا۔ بہت سے قبائلی سردار ایک طاقت ور بادشاہ کے وفادار ہوئے۔ معاشرہ تین قسم کے طبقات میں تقسیم ہوگیا: اوّل: شاہی خاندان، دوم: حکومتی مشینری کے کارندے، شاہ کے مصاحب اور فوج کے لوگ، سوم:عام لوگ، کسان، تاجر اور غلام وغیرہ۔ اُمورِ حکومت اور شاہی اخراجات پورے کرنے کے لیے زرعی ٹیکس لگایا گیا۔ اوّلین دور کی حکومتوں  کا بڑا ذریعۂ آمدن زرعی پیداوار پر ٹیکس تھا۔ بادشاہ رعایا کو پُرامن ماحول مہیا کرتے اور اس کے عوض ان سے ٹیکس وصول کرتے ۔ کچھ عرصہ بعد تجارت پر بھی ٹیکس لگادیا گیا۔ کہا جاتا ہےکہ پہلا تجارتی ٹیکس رومن شہنشاہ جولیس سیزر نے لگایا تھا، جو شروع میں ایک فی صد تھا۔ ساتویں صدی کے آغاز میں دو بڑی عالمی طاقتوں (ایران اور روم) میں زراعت اور تجارت پر ٹیکس تھا۔ یہ محصولات کسی ضابطے اور قانون کے مطابق نہیں تھے کیونکہ شاہی اخراجات میں اضافہ اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کی شرح میں اضافہ ہوجاتا تھا اور یہ وصولیاں طاقت کے زور پر کی جاتی تھیں۔

۶۲۲ء میں جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی تو شہر میں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ البتہ شہر میں معاشیات کی بنا پرطبقاتی تقسیم موجود تھی۔ اوس و خزرج کے دوبڑے قبیلے زراعت پیشہ تھے، جب کہ تجارت تمام تر یہودیوں کے پاس تھی۔ شہر میں چار تجارتی منڈیاں یہودیوں کی ملکیت تھیں اور تجارت پر ٹیکس تھا جو تاجروں سے یہودی وصول کرتے۔ تاجر ٹیکس کی رقوم اشیا کی قیمتوں میں شامل کرکے صارفین سے وصول کرلیتے۔ اس کے علاوہ یہودی سود پر لین دین بھی کرتے تھے۔ ’بیع‘ کا کاروبار (اشیا کی خریدوفروخت) میں یہودیوں کے خریدنے کے برتن اور تھے اور فروخت کرنے کے اور۔ سادہ الفاظ میں جب رسولؐ اللہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو یہ ریاست منظم سیاسی نظام کے بغیر تھی، جب کہ اس کا معاشی نظام استحصال پر مبنی تھا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ دورِ حکومت کو عام طور پر یہودیوں کی اندرونی سازشوں اور قریش مکہ کی جارحیت کے حوالے سے ہی بیان کیا جاتاہے۔

درحقیقت ان جنگی مہمات کے ساتھ ساتھ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی اور معاشی نظام بھی نافذ کیا تھا، جس کی ہدایات قرآن میں نازل ہوئی تھیں۔ اس معاشی نظام میں تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔ حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ اور عُشر کا نظام دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صدقات کی ترغیب بھی تھی۔ مسلم تہذیب کے زوال کے بعد دین کا ذکر صرف عبادات اور اخلاقیات کے بیان تک محدود ہوگیا۔ آج اکیسویں صدی کی دُنیا مختلف قسموں کے ٹیکس کی زد میں ہے، جس سے عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مضمون میں ہم اسلامی نظامِ محصولات (زکوٰۃ، عُشر  اور صدقات) کی بات کریں گے جو آج بھی مشترکہ خوش حالی (shared prosperity) کی ضمانت دیتا ہے۔

قرآن کے معاشی احکامات کا جائزہ

اگرچہ معاشیات کے بارے میں ذکر قرآن کی کئی صورتوں میں ملتا ہے، مگر سب سے زیادہ تفصیل سورئہ بقرہ کی آخری آیات (۲۶۱ سے ۲۸۴ تک) میں درج ہے، جن سے اسلامی معاشی نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ معاشی نظام سادہ الفاظ میں تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: اوّل، پیداوار کا عمل (production process)۔ دوم،اس پیداواری عمل کے ماحصل (نفع یانقصان) کی عاملین پیداوار میں تقسیم (distribution process)۔ سوم، کمائے ہوئے منافع میں سے خرچ۔ دورِحاضر کی اکنامکس میں خرچ کرنے پر بہت زور ہے کیونکہ اس سے اکانومی میں طلب پیدا ہوتی ہے اور کاروبار کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے۔ قرآن بھی معاشی نظام کے بیان کا آغاز خرچ کرنے سے کرتا ہے۔

سورئہ بقرہ کی ۲۶۱ سے لے کر ۲۷۴ آیت تک ایک ہی مفہوم کی باربار اور نئے نئے انداز سے خرچ کرنے کی تلقین اور تاکید ہے۔ یُنْفِقُوْنَ کا یہ تواتر اور تسلسل شاید ہی قرآن میں کسی اور جگہ آیا ہو۔ اس کا ایک خاص مقصد ہے کیونکہ معاشی نظام کا سب سے اہم پہلو اپنے زورِبازو سے کمائی ہوئی دولت کے خرچ کرنے کے بارے میں ہے۔ نظامِ سرمایہ داری میں دولت کے کمانے پر بہت زور ہے مگر کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ جب معاشرہ یُنْفِقُوْنَ کے تصور سے بے خبر اور ناآشنا ہوجاتا ہے، تو غریب اور امیر کی خلیج گہری ہوتی جاتی ہے جیساکہ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ہوا ہے۔ ان ممالک میں پیداواری عمل تو بہت زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں بے تحاشا دولت پیدا ہوئی ہے مگر وہ صرف سرمایہ رکھنے والے کی ذات کے لیے ہے۔

اگرچہ آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ’مشترکہ خوش حالی‘ کا بہت شوروغوغا ہے، مگر اس کے لیے کوئی نظامِ فکر اور پیمانۂ عمل موجود نہیں۔یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ معاشی نظام کے آغاز ہی سے افراد کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ دولت جو تم بڑی محنت اور جانفشانی سے کماتے ہو، اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس بات کا یقین کروانے کے لیے قرآن ایک اور دلیل بیان کرتا ہے کہ ’’دوسروں پر خرچ کرنے سے مال بڑھتا ہے‘‘۔ مروجہ عقل و دانش کے مطابق خرچ کرنے سے مال کم ہوتا ہے، مگر دانش بُرہانی اس کے برعکس ہے۔ پیداوار کے عمل میں مصروف افراد جب اس معاشی دانائی سے آگاہ ہوجائیں تو تجارت فلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ساتویں صدی کی ریاست مدینہ میں یہی ہوا تھا۔

یُنْفِقُوْنَ کی بصیرت سے افراد کو مزین کرنے کے بعد قرآن پیداواری عمل کی بات کرتا ہے، یعنی تجارت میں سرمایے کا استعمال۔ تجارت میں دولت پیدا کرنے کے لیے سرمایے کا دوطرح سے استعمال ہوتا ہے: پہلی صورت اشیا و خدمات (goods and services) کی تیاری اور مارکیٹ میں تبادلے کے سلسلے میں سرمایے کا استعمال ہے۔ اکنامکس کی زبان میں اسے use of money as medium of exchange کہتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ ’بیع‘ کا کاروبار ہے، جس کا ماحصل نفع یا نقصان ہے۔ سرمایے کا دوسرا استعمال اسے دوسرے لوگوں کو معینہ عرصےاور پہلے سے طے شدہ اضافی قیمت پر بیچ دینا ہے، یعنی سرمایے کو سود پر اُدھار دے دینا۔اکنامکس کی زبان میں یہ use of money as commodity ہے، جسے عربی زبان میں ’ربا‘کہتے ہیں۔

سورئہ بقرہ کی ۹ آیات (۲۷۵ تا ۲۸۳) میں ’ربا‘ اور اس سے وابستہ معاملات کی وضاحت ہے۔ قرآن نے پہلے ’بیع ‘کو حلال اورساتھ ہی ’ربا‘ کو حرام قرار دیا۔ اس کے بعد تجارتی لین دین کا ذکر ہے۔ اُدھار قرض کی صورت میں (چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ) اسے بطورِ خاص ضابطۂ تحریر میں لانا اور اس پر گواہ قائم کرنا ضروری ہے۔ براہِ راست لین دین کو بطورِ خاص لکھنے کا حکم نہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے والے اور گواہ بننے والے افراد پر ہرقسم کے دبائو سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح قرآن،سارے پیداواری عمل (production process) سے سود کو مکمل طور پر نکال دیتا ہے۔ افراد کے یقین کو پختہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سود سے حاصل ہونے والی کمائی اللہ کی رحمت و برکت سے خالی ہوکر کم ہوجاتی ہے، جب کہ صدقات والی رقوم کو اللہ بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی سخت الفاظ میں خبردار کردیا گیا، اگر سود سے باز نہیں آئو گے تو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیارہوجائو۔ سادہ الفاظ میں اسلام کا معاشی پیداواری عمل تمام تر ’بیع‘ کے کاروبار پر مشتمل ہے۔

یہاں پر اس حقیقت سے آگاہ رہنا بہت ضروری ہے کہ ہجرت کے بعد حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں قرآنی احکام کی روشنی میں بیع پر مبنی معاشی نظام نافذ کرنے کے لیے مارکیٹ (منڈی) بنائی تھی۔ اُس وقت مدینہ میں یہودیوں کی چار مارکیٹیں تھیں، جن میں ’بیع‘ اور ’ربا‘ کے کاروبار موجود تھے۔ جب قرآن نے ’بیع‘ کو حلال اور ’ربا‘ کو حرام قرار دیا تو یہودیوں نے سوال اُٹھایا:’’ ’بیع‘ اور ’ربا‘ تو ایک دوسرے کی مانند ہیں‘‘۔ جس پر قرآن نے وضاحت فرمائی کہ ’بیع‘ میں فلاح اور سود میں ہلاکت ہے۔ یہودیوں کا سوال (’بیع‘ اور ’ربا‘ میں مماثلت) دراصل تجارت میں پوشیدہ ایک بہت بڑی حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ہدایت ِ ربانی کی غیرموجودگی میں ’بیع‘ کا کاروبار بھی آخرکار دھوکا دہی، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کی طرف لے جاتاہے۔ مدینہ میں یہودیوں کا ’بیع‘ کا کاروبار بھی جھوٹ اور دھوکادہی پر مبنی تھا۔ ان کے اشیا خریدنے اور بیچنے کے پیمانے (برتن) مختلف تھے۔ جن سے خرید کے وقت زیادہ اجناس لیتے اور فروخت کے وقت کم اجناس دیتے۔ اس استحصال کو ختم کرنے کے لیے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی مارکیٹ میں سچی تجارت اور سچے تاجر کی اہمیت پر زور دیا، جس کے باعث تجارت لوٹ کھسوٹ کے بجائے معاشرتی فلاح کا ذریعہ بن گئی۔

یہاں پھر سورئہ بقرہ کا ذکر ضروری ہے کہ جس میں دومرتبہ (آیت ۲۱۵ اور ۲۱۹) ایک ایسا سوال پوچھا گیا تھا، جس کا اس سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔  مَاذَا یُنْفِقُوْنَ  (ہم کیا خرچ کریں؟)۔ قرآن کے دونوں جواب ایک دوسرے کی تکمیل کرتے تھے۔ پہلا ارشاد (آیت ۲۱۵) ’والدین، رشتہ دار، یتیم، ضرورت مند اور مسافروں پر خرچ‘ کرنے کا ہے۔ دوسرے جواب (آیت ۲۱۹) میں ’مشترکہ خوش حالی‘ کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ’جو ضرورت سے زیادہ ہے، وہ دوسروں کو دے دو‘۔ اس مختصر آیت میں اشتراکیت کے طریق کار کی نفی موجود ہے، جس کے تحت روسی حکومت فاضل سرمایہ رکھنے والے لوگوں سے زبردستی چھین کر غریب لوگوں میں تقسیم کرتی تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ قرآن نے ساتویں صدی میں ہی بعد میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کی نشان دہی کرکے ان کی پیش بندی کا ضابطہ بیان کردیا تھا۔

اسلامی مالیاتی نظام

اُمورِ حکومت کو چلانے کے لیے اسلام دو بڑے محاصل کی اجازت دیتا ہے۔ تجارت سے آمدنی پر ۲ء۵ فی صد زکوٰۃ اور زمین سے پیداوار پر۱۰ فی صد کے حساب سے عُشر ہے۔عُشر فصل کی کٹائی کے وقت ادا کرنا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی ہدایات اور اس کے مصارف کی تفصیل سورئہ توبہ (۹:۶۰) اور عُشر کے احکامات سورئہ بقرہ (۲:۲۶۴) میں اور سورئہ انعام (۶: ۱۴۱) میں نازل ہوئے۔ انھی احکامات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کی جانے والی پہلی اسلامی مارکیٹ میں مقامی تجارت پر ہرقسم کا ٹیکس ختم کردیا تھا۔ اس انقلابی قدم نے یہودیوں کی مستحکم اور بڑی دیر سے کام کرنے والی چاروں منڈیوں کو چاروں شانے چت کردیا۔

ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں یہ معاشی انقلاب سہ طرفہ تھا۔ اوّل: اشیا کے پیدا کرنے والے لوگ اب اسلامی مارکیٹ میں اپنی اشیا لانے لگے، کیونکہ یہودیوں کی منڈیوں میں ان لوگوں کی اشیا پر ٹیکس تھے۔ دوم:یہودی تاجروں سے بھی ٹیکس وصول کرتے تھے۔ تاجروں کے لیے کاروبار میں آسانی اب ٹیکس فری اسلامی مارکیٹ میں تھی۔ اس لیے تاجر بھی اسلامی مارکیٹ میں آگئے۔ سوم: ٹیکس کے باعث اشیا کی قیمت یہودیوں کی مارکیٹ میں زیادہ تھی اور اسلامی مارکیٹ میں کم۔ کیونکہ تاجر ادا شدہ ٹیکس کو اشیا کی قیمتوں میں شامل کرلیتے تھے۔ اس طرح صارفین کی ترجیح بھی خیمے کے نیچے قائم کی جانے والی اسلامی مارکیٹ تھی۔ یہاں پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ’’اسلام میں مقامی تجارت پر ٹیکس ختم کرنے کی عقلی توجیہہ کیا ہے؟ حالانکہ اسلام سے پہلے بھی تجارت پر ٹیکس تھا۔ آج کی دُنیا میں تو تاجر اور عوام تجارت پر طرح طرح کے ٹیکسوں (خاص طور پر پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس) سے عاجز ہیں‘‘۔

ٹیکسوں کے نظام کا نظریاتی جائزہ

ٹیکس لگانے کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ’’جب کسی معاشی عمل کے نتیجے میں آمدن ہو تو اس پر ٹیکس کا نفاذ حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے زرعی پیداوار پر ٹیکس کا آغاز ہوا تھا۔ جب آمدنی کے دوسرے ذرائع وجود میں آئے تو بالکل فطری طور پر ان پہ بھی ٹیکس وصول ہونا شروع ہوا۔ تجارت پر ٹیکس کے بارے میں کوئی دلیل اور جواز تاریخ میں نہیں ملتا۔ تجارت میں آخرکار آمدن تو تاجر کوہوتی ہے۔ خریدار تو اپنی آمدنی سے اشیاخریدتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کی آمدن کم ہوجاتی ہے۔ جب تاجر پر ٹیکس لگایا جاتا ہے تو وہ اسے اشیا کی قیمتوں میں شامل کرکے صارفین سے وصول کرلیتا ہے۔ بادشاہ جنگی اخراجات کے لیے ٹیکس میں اضافہ کردیتے، اور عوام سے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ڈھونڈلیتے تھے۔ جولیس سیزر سے منسوب ایک فی صد سیلز ٹیکس کی اختراع بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے۔ درحقیقت تجارت پر ٹیکس (سیلز ٹیکس) غیرفطری اور غیر حقیقی ہے کیونکہ عام طور پر یہ جنگی اخراجات اور انتظامیہ (بادشاہت ہو یا آمریت یا نام نہاد جمہوریت یا حکومتی انتظامی مشینری) ہی کے عیش و آرام کے لیے لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے۔

جب قرآن نے زکوٰۃ اور عُشر کی اجازت دے دی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت پر استحصالی ٹیکس مکمل طور پر ختم کردیا۔ مسنداحمد میں ہے کہ صَاحِبُ الْمَکْسِ فِی النَّارِ: ’’ٹیکس وصول کرنے والا جہنم میں ہوگا‘‘۔ (مسنداحمد، مسندالشامین، حدیث رُویفیع الانصاری، حدیث: ۱۶۶۹۵)۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلابی قدم ایک بہت بڑی معاشی دانائی کا حامل تھا، جس نے یہودیوں سے مدینہ کی معاشیات بھی چھین لی تھی۔ یہودی سردار کعب بن اشرف کا مدینہ کی خیمہ والی اسلامی مارکیٹ کی رسیاں کاٹنا صرف جذباتی عمل نہیں تھا بلکہ ان کی دیرینہ معاشی برتری بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی۔

زکوٰۃ، عُشر اور صدقات کی دورِحاضر سے مطابقت

مسلم دُنیا کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے مطالعے اور اس سے وابستگی کو صرف عبادات اور اخلاقیات کی حد تک ہی محدود رکھا ہے، جس کے باعث قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے آفاقی پہلوئوں سے نہ ہم خود آگاہ ہوسکے اور نہ دوسری اقوام ہی کو اس کے بارے میں بتاسکے۔ یہی حال اسلام کے نظامِ ٹیکس کے ساتھ ہے۔

قرآن ہرقسم کے سرکاری اور ذاتی خرچ کو (غریبوں اور دوسرے لوگوں کے لیے) صدقات کے نام سے بیان کرتا ہے۔ زکوٰۃ کے مصارف (سورئہ توبہ) بھی قرآن کے مطابق صدقات ہی ہیں۔ یہ صدقات دو قسم کے ہیں: اوّل، صدقاتِ واجبہ جو زکوٰۃاور عُشر پر مشتمل ہیں۔ یہ لازمی طور پر حکومت ِ وقت کو ادا کرنے ہیں، جن سے اُمورِ حکومت پر مختلف اخراجات ہوں گے۔ سورئہ توبہ میں زکوٰۃ کے بیان کردہ آٹھ مصارف دورِحاضر کی زبان میں حکومت کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) ہے، جسے نجی شعبے (پرائیویٹ سیکٹر) کو سونپا نہیں جاسکتا۔ اس طرح اسلام مضبوط پبلک سیکٹر کا تصور دیتا ہے جس سے حکومت کا ادارہ مضبوط ہوتا ہے۔ دوسرے صدقاتِ نافلہ ہیں جو اہلِ ثروت اپنی مرضی سے ان لوگوں پر خرچ کرتے ہیں، جو زندگی کی معاشی دوڑ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان صدقات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، کیونکہ یہ زکوٰۃ اور عُشر کی لازمی ادائیگی کے بعد بچ جانے والی رقم ہے۔ حکومت ِ وقت ایسے اخراجات پر لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی۔

یہ غورطلب بات ہے کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت میں ایسا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ ’سرمایہ داری‘ میں سودی سرمایے کے باعث دولت کو جمع کرنا اور صرف اپنی ذات پر خرچ کرنا ہی زندگی کا نصب العین ہے۔ اور ’اشتراکیت‘ میں کوئی ٹیکس کا نظام نہیں کیونکہ ذاتی ملکیت کی نفی ہے۔ حکومت لوگوں کو صرف ان کی ضروریات کے مطابق ہی دیتی ہے۔ اس لیے ضرورت سے زائد رقوم دوسروں پر خرچ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اکیسویں صدی کی دُکھی انسانیت ’مشترکہ خوش حالی‘ کے لیے تڑپ رہی ہے۔ مگر موجودہ نظامِ سرمایہ داری میں یہ اہلیت موجود ہی نہیں کیونکہ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ جیسا سوال سرمایہ داری میں نہ کبھی پوچھا گیا اور نہ کبھی پوچھا جائے گا۔

ایک بنیادی غلط فہمی کا ازالہ

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں طرح طرح کے ٹیکسوں کے باوجود ترقی پذیر ممالک (خاص طور پر پاکستان) کے حکومتی اخراجات پورے نہیں ہوتے تو صرف ڈھائی فی صد زکوٰۃ اور ۵ یا ۱۰ فی صد عُشر سے اُمورِ حکومت کیسے چلائے جائیں گے؟ ایڈم سمتھ نے ٹیکسوں کے حوالے سے چار اصول بیان کیے تھے۔ انصاف(fairness)، یقینیت (certainity)، آسانی (convenience) اور کارکردگی (efficiency) ۔ بڑی دل چسپ بات ہے کہ زکوٰۃ انکم ٹیکس کے مقابلے میں درج بالا چاروں اُصولوں کے زیادہ مطابق ہے:

اوّل، اس میں انصاف ہے کیونکہ اس کا نصاب موجود ہے اور سارے سال کی آمدنی سے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم پر زکوٰۃ واجب ہے۔ دوم اس میں یقینیت ہے کیونکہ اس کی شرح (۲ء۵ فی صد) ہرحال میں طے شدہ ہے۔ تیسرے اس میں آسانی ہے کیونکہ اس کی شرح انتہائی کم اور سال میں ایک بار ادا کی جاتی ہے۔ چوتھے، یہ بوجھ نہیں ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کو ایک خوش گوار احساس ہوتا ہے کہ اس کا مال پاک ہوگیا جس سے زیادہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے کیونکہ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور بڑھوتری کے ہیں۔ علاوہ اَزیں زکوٰۃ حاضرسال کی آمدنی (flow of income) اور پچھلے برسوں کی جمع شدہ دولت (stock of wealth) پر بھی ہے، جب کہ انکم ٹیکس رواں سال کی آمدنی پر ہی ہے۔

زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ، جب کہ عُشر سال میں کئی بارہرفصل کی کٹائی کے وقت ادا کرنا ہوتا ہے۔ تیسرے اس کی شرح زکوٰۃ سے خاصی زیادہ ہے، یعنی چاہی زمین (کنویں سے سیراب ہونے والی) پر ۵ فی صد اور نہری زمین پر ۱۰فی صد ہے۔ آج کے دور میں صنعتی پیداوار بھی زمین پر قائم کی ہوئی فیکٹریوں سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ بعض فقہا تو اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ صنعتی پیداوار پر بھی عُشر لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کے نفاذ کے وقت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں پر زکوٰۃ نہیں لگائی تھی کیونکہ وہ سامانِ حرب (جنگ) میں شمار ہوتے تھے اور جنگ ِ بدر کےوقت مسلمان فوج میں صرف دو گھوڑے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں جب بہت زیادہ گھوڑے مالِ غنیمت میں آئے تو اُن پر بھی زکوٰۃ لگادی گئی۔ آج کے دور میں یہی صورتِ حال ہیرےجواہرات کے زیورات کی ہے جن پر زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت عوام کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوجائے تو اربوں روپے کے ذاتی صدقات بھی بیت المال میں جمع کروائے جاسکتے ہیں، لہٰذا یہ صرف خام خیالی ہے کہ زکوٰۃ اور عُشر کے نظام سے اُمورِ حکومت نہیں چلائے جاسکتے۔ اسی نکتے کی مزید وضاحت پاکستان کے حوالے سے پیش ہے۔

پاکستان کا نظامِ ٹیکس

ہمارا موجودہ ٹیکس کا نظام استحصال اورظلم پر مبنی ہے، جس کا ۴۰ فی صد سے زیادہ حصہ تجارت پرٹیکس سے آتا ہے۔ ۲۳-۲۰۲۲ء کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف ۷۶۴۰ ؍ ارب روپے تھا، مگر عملی وصولی اس سے بہت کم ہوتی ہے۔

 جیساکہ پچھلے دو سال کے اعداد و شمار سے واضح ہے:

                                

  ۲۱-۲۰۲۰ء ۲۲  -۲۰۲۱ء
انکم ٹیکس ۱۷۳۱     ارب روپے ۲۲۷۸     ارب روپے
سیلزٹیکس ۱۹۸۳        " ۲۵۲۵         "
کسٹم ڈیوٹی ۷۴۷           " ۱۰۰۰         "
وفاقی ایکسائز ڈیوٹی ۲۸۴           " ۳۲۲           "
کُل وصولیاں ۴۷۴۵      ارب روپے ۶۱۲۵   ارب روپے

 

درج بالا اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ وصولی سیلزٹیکس (تجارت پر ٹیکس) سے ہوتی ہے، جو اپنی فطرت میں بالکل غیراسلامی ہے۔ اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) دوبڑے مسائل سے دوچارہے: اوّل یہ کہ بڑے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ دوم یہ کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ زکوٰۃ سے کس قدر وصولی ہوسکتی ہے اس کی ہم صرف ایک مثال دیتے ہیں۔۲۵کروڑ کی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً ۵۰ فی صد ہے، یعنی ساڑھے بارہ کروڑ کے لگ بھگ۔ ان میں ایک کروڑ عورتیں ایسی ہیں جن کے پاس ۲۰تولے یا اس سے زیادہ سونا ہے۔ دو لاکھ روپیہ فی تولہ کی قیمت سے ایسی ہرعورت پر ایک لاکھ روپے زکوٰۃ واجب ہے۔ اس طرح ایک ہزار ارب روپے صرف سونا، چاندی کی زکوٰۃ سے اکٹھا ہوگا اور ایف بی آر کو نئے ایک کروڑ ٹیکس فائلرز مل جائیں گے۔ مالِ تجارت، ذاتی گھر کے علاوہ خریدے ہوئے پلاٹ، مویشی اور اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز پر بھی ’زکوٰۃ‘ واجب ہے۔ زرعی پیداوار، صنعتی پیداوار اور سروسز سیکٹر کے شعبے کی خدمات پر ’عُشر‘ ہے۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کے ذاتی ’صدقات‘ ہیں۔ اگر ان سب ادائیگیوں کو منظم کرلیا جائے تو پاکستان ہرسال نہ صرف ۷۶۴۰ ارب روپے سے زیادہ محصولات اکٹھا کرسکتا ہے بلکہ تجارت پر بے جا بوجھ اور مہنگائی سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ یہ کام آئی ایم ایف کی شرائط کے اندر رہتے ہوئے کیاجاسکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں راہِ نجات تو موجود ہے، صرف ہمت اور ارادے سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشیات سیاسیات کے تابع ہـے

معاشی نظام کا نفاذ سیاسی حکومت کرتی ہے۔ اسی لیے شروع میں مغرب میں معاشیات کے مضمون کو ’پولیٹیکل اکانومی‘ کہا جاتا تھا۔ اسلام میں یہ ترتیب صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام سے ہے جس کا ذکر باربار قرآن میں آتا ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد جو سیاسی نظام قائم کیا تھا، اس میں حکمرانوں کے لیے سادگی اور ذمہ داری انتہائی ضروری تھی۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ حاکم مدینہ، حکومتی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لی اور اپنی محدود آمدنی سے خود اور آپؐ کے اہل خانہ نے انتہائی سادہ طرزِ زندگی اپنایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حکومتی وظیفہ (چھ ہزار درہم سالانہ) مدینہ کے عام شہری کی سالانہ آمدنی کے برابر تھا۔ تجارت پر ٹیکس ختم کرنے کا بڑا مقصد تجارت کا فروغ اور غریب لوگوں کو سستی اشیا فراہم کرنا تھا۔ دراصل معاشی نظام سے پہلے گڈگورننس ماڈل کی ضرورت ہے، جو فلاح پر مبنی معاشی نظام نافذ کرسکے۔ اسی لیے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے صلوٰۃ کا نظام اور اس کے بعد زکوٰۃ (معاشیات) کا نظام دیا تھا۔

پاکستان کا موجودہ سیاسی اور معاشی نظام ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے فلاحی معاشرے کے بالکل برعکس اور انتہائی ظلم پر مبنی ہے۔ تجارت پر طرح طرح کے ٹیکس لگاکر غریب کی زندگی عذاب بنادی گئی ہے۔ بڑے ستم کی بات یہ ہے کہ ایک شوگر مل کا مالک اور اُس شوگر مل کے گیٹ پرکھڑا سیکورٹی گارڈ، پٹرول ، دودھ، گھی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی ایک ہی قیمت ادا کرتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، مگر یہاں زرعی ٹیکس یا عُشر نہیں لگایا گیا، کیونکہ بڑے بڑے زمیندار (جو اَب سیاست دان بھی ہیں) اس کے مخالف ہیں۔ افسرشاہی کے اخراجات بے تحاشا ہیں۔ آج پاکستان کے بااختیار طبقے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں، جس سے غرب کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔

موجودہ معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے درج بالا بیان کردہ زکوٰۃ، عُشر اور صدقات کے نظام میں ہی راہِ نجات ہے۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ عوام کو سیاست دانوں کی صداقت اور ایمان داری کا یقین ہوجائے اور وہ خوشی خوشی زکوٰۃ، عشر اور صدقات بیت المال میں جمع کروا دیں۔ اس کے لیے تاجر کو سچا، سرکاری آفیسر کو ذمہ دار اور عالمِ دین کو حقیقی رہنما بننا ہوگا، تاکہ پہلے ہم خود اسلامی نظامِ ٹیکس کو نافذ کریں اور کامیاب تجربے کے بعد اقوامِ عالم کو اسے پیش کرسکیں اور یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالم ہونے کی عملی دلیل ہوگا۔

حرفِ آخر

پچھلے پانچ سو سال سے جاری زوال کے باعث ہم دینِ اسلام کی حقیقت اور فعالیت سے بڑی حد تک غافل اور بے خبر ہوچکے ہیں۔ آج کل مغرب میں ایک فی صد اور ۹۹ فی صد کی بحث کا بڑا شور ہے، کیونکہ معاشی ترقی کے ثمرات کا بڑا حصہ ایک فی صد لوگ لے جاتے ہیں۔ نظامِ سرمایہ داری میں اصلاح کی باتیں ہورہی ہیں، مگر ہمارے ملک کے اکانومسٹ، دانشِ افرنگ سے اس قدر مرعوب ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل زبوں حال سرمایہ داری میں ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان اس وقت اخلاقی، سماجی اور معاشری ابتری سے دوچار ہے، مگر علمائے دین کی طرف سے کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آرہا، کیونکہ ان کے بیان اور مباحث علمی اور نظریاتی نوعیت کے ہیں، جن کا ملک کے موجودہ مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ زکوٰۃ، عُشر، صدقات کا نظام بنیادی طور پر قرآنی نظریہ ہے جس پر خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عمل درآمد کام کرکے انسانیت کے پہلے فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ موجودہ گھٹاٹوپ اندھیرے اور مایوسی کے عالم میں ہمیں دانش افرنگ کے بجائے سیرتِ نبیؐ کے درخشاں پہلوئوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے تو اس راز سے ۱۹۳۰ء کے عشرے ہی میں ہمیں آگاہ کردیا تھا:

تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری

اسلامی دُنیا میں سود سے ناپسندیدگی ایک طے شدہ امر ہے کیونکہ دین میں سودی کاروبار کی ممانعت انتہا درجے کی ہے ، یعنی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ۔ نظریاتی طور پر مسلمان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا متمنی رہتا ہے، مگر عملی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ سودی کاروبار عام زندگی کا لازمی جزو ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سودی نظام کا خاتمہ ہرحکومتی اور غیرحکومتی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے، جس کا آغاز بانی ٔپاکستان کی اس تقریر سے ہوا جو انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی تھی۔ اس کے بعد آنے والے ہردستور میں اس کا اعادہ کیا گیا۔ ۱۹۸۰ء سے عملی طور پر سودی کاروبار کے خاتمے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جب کبھی سودی کاروبار کے بارے میں عوامی رائے جاننے کے لیے سروے وغیرہ کیے گئے تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں نے سود سےجان چھڑانے کی بھرپور خواہش کا اظہار کیا۔ پچھلے ۳۰ برسوں سے یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں زیربحث ہے۔ دینی جماعتوں کے ایجنڈے کی یہ پہلی ترجیح ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود سود کا کاروبار ملک میں سکّہ رائج الوقت ہے۔ دو عشروں سے اعلان کردہ ’اسلامی بنک‘ کام کررہے ہیں، مگر سود پر کام کرنے والے بنکوں کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ۔ کیونکہ کاروبار کا ۸۰فی صد حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے والے بنکوں کے پاس ہے۔

تاجر برادری اکثرو بیش تر سودی نظام کے خاتمے کے لیے جلسے کرتی ہے، حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر ہر شہر کی ہر مارکیٹ میں تاجر علانیہ سود کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن ان سب کو نظرانداز کرکے مذہبی جماعتوں کا سارا زور صرف بنکوں کے سودپر مرکوز ہے۔ اس صورتِ حال میں سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا ہمارا موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی نظام اس سلسلے میں ممدومعاون ہے یا رکاوٹ کا باعث؟ کیا ہماری موجودہ حکمت عملی اس طریق کار سے    ہم آہنگ ہے یا متصادم، جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں سود کے خاتمے کے لیے اختیار فرمائی تھی؟ کیا اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور عدالت ِ عالیہ سود کا خاتمہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا یہ کارِعظیم کچھ اور اداروں کے ہاتھوں سرانجام پائے گا؟ ان بنیادی سوالات کے جوابات زمینی حقائق کی روشنی میں درج ہیں:

چند حقائق

۱- سود کا خاتمہ ممکن ہـے: انسانی تاریخ میں تین اَدوار ایسے گزرے ہیں، جن میں معیشت سود کے بغیر تھی۔ اوّل: ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے چار سو سال۔ دوم: قرونِ وسطیٰ کا یورپ۔ سوم: بیسویں صدی کے اشتراکی روس کے ۷۵سال۔ ہم صرف قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی بات کریں گے۔ اس دور میں سودی کاروبار قانوناً جرم تھا۔ اگر کسی تاجر کے بارے میں سودی کاروبار کا شک ہوتا تو لوگ عدالت میں مقدمہ درج کروا دیتے جس میں عدالت، چرچ کی معاونت سے کارروائی کرتی۔ عدالت سے سودی کاروبار پر سزا یافتہ شخص عوامی نفرت اور غیظ و غضب کا شکار رہتا۔ محلے میں لوگ اُسے کرایہ پر مکان دینے سے انکار کر دیتے۔ عدالت میں اس کی گواہی تسلیم نہ کی جاتی اور موت کی صورت میں اسے مسیحی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ملتی۔  معروف انگریز ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے Merchent of Venice  [۱۵۹۸ء: وینس کا تاجر] کے مطابق لوگ سود پر کاروبار کرنے والے لوگوں کے منہ پر تھوکتے تھے۔ اس عوامی اور اداراتی مخالفت کے باعث قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بڑے عرصے تک، تجارت سود کے بغیر رہی۔

درج بالا تناظر میں پاکستان کے معاشرے کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

(۱) مذہبی لوگ اور تاجر (۲) یونی ورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم (۳) حکومت اور سرکاری ادارے بشمول عدلیہ ___ پہلے طبقے میں سود کی شدید مخالفت ہے مگر بیش تر صورت میں  یہ صرف بیان کی حد تک ہے کیونکہ ان کے پاس سود کے مضر اثرات کی عملی تحقیق نہیں ہے۔ سود کی بحث حرام اور حلال سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسی لیے یہ طبقہ سود کے خاتمے کے لیے اسٹیٹ بنک اور عدالتوں سے مطالبات کرتا رہتا ہے۔ یونی ورسٹی کے پروفیسر اور ان کے ہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں سود کی افادیت کے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں پائی جاتی،کیونکہ معاشیات کی ساری تعلیم سود کے اردگرد گھومتی ہے۔ چند جگہوں پر اسلامی بنکاری کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے جس کا عملی معاشیات میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ تیسرے طبقےمیں بھی یہی سردمہری اور بے اعتنائی ہے۔ اسٹیٹ بنک بنیادی طور پر ملک میں سودی کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔

پچھلے ۳۰سال سے حکومت سود پر کام کرنے والے تجارتی بنکوں سے حاصل کردہ قرضہ جات پر چل رہی ہے۔ اس وقت قرضہ جات کا حجم ۵۰ کھرب روپے سے زیادہ ہے، جن میں صرف ۴ فی صد قرض اسلامی بنکوں کا ہے۔ ۲۰سال سے زائد عرصہ کے بعد سود کے خاتمے کے مقدمے کا فیصلہ ہوا مگر کچھ بنک اس کے خلاف اپیل میں چلے گئے۔ مذہبی جماعتوں نے اس پر جلوس نکالے مگر کھاتہ داروں نے (چند افراد کے سوا) ان بنکوں سے اپنے پیسے نہیں نکلوائے۔ ان سب حقائق کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سود کے خاتمے کے لیے درکار سنجیدگی اور مضبوط ارادے کی شدت سے کمی موجود ہے۔

۲- سودی کاروبار کے دو دَور : سود کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود غالباً ۱۰ہزار سال پہلے ایک کسان نے دوسرے کسان کو فصل کی کاشت کے موقعے پر بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کٹائی پر کاشت کے وقت دیئے گئے بیج سے زیادہ وصول کیا۔ یہ بارٹر دور (اشیا کا اشیا سے تبادلہ) تھا۔ سود کے کاروبار میں اضافہ زری ایجاد (کرنسی) سے ہوا۔ اس سے زَر کے دواستعمال ہوئے: ایک تو وسیلۂ تبادلہ اور دوسرے زَر کی اشیا کی طرح معین عرصہ اور طے شدہ اضافے پر فروخت۔ سود کی یہ شکل پندرھویں صدی تک رہی کیونکہ اس وقت بنک کی صنعت وجود میں نہیں آئی تھی۔ یہ سود، بنکاری کے دور سے مختلف تھا۔اوّل اس کی نوعیت انفرادی تھی اور مارکیٹ میں کچھ تاجر سود پر کام کرتے تھے۔ دوسرے، یہ یک طرفہ (One Window) تھا، کیونکہ لوگ ساہوکاروں سے سود پر قرض تو لیتے مگر اپنی بچتیں ان مہاجنوں کو سود پر اُدھار نہیں دیتے تھے۔ تیسرے سود پر کام کرنے والوں کی معاشرے میں کوئی عزّت اور توقیر نہیں تھی۔

 بنکوں کے قیام سے سودی کاروبار کو وسعت اور استحکام ملا۔ اوّل یہ انفرادی صورت سے نکل کر اداراتی شکل میں آگیا۔ دوم: یہ دوطرفہ (Two Window) کاروبار بن گیا۔ فاضل سرمایہ والے لوگ بنکوں کے پاس اپنا سرمایہ سود پر رکھنے لگے اور سرمایے کے طلب گار لوگ بنک سے سود پر رقوم لینے لگے۔ تیسرے، ایسے کاروبار کو عزّت اور پذیرائی نصیب ہوئی۔پچھلے پانچ سوسال سے سود، اداراتی حیثیت میں موجود ہے اور ہر۵۰،۶۰سال بعد مالیاتی بحران کی وجہ بن جاتا ہے۔ دراصل سودی کاروبار میں ایک طرح کی شُتربے مُہاری ہے۔ یہ نفع کی تلاش میں ہروقت، ہرطرف اور ہرشکل میں سرگرداں رہنا چاہتا ہے۔ چونکہ سارے معاشرے کی بچتیں کھاتوں کی شکل میں بنکوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں، اس سے بنکوں میں زری طاقت (Money Might) آجاتی ہے۔ بنک زیادہ سے زیادہ سود کمانےکے لالچ میں زیادہ سے زیادہ قرضہ جات دیتے ہیں، جس سے بنک مالیاتی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر انھیں ٹیکس دہندگان کی رقوم سے bail out کیا جاتا ہے۔ اداراتی سود، فردِواحد کے سود سے زیادہ خطرناک ہے۔ ۲۰۰۸ء کا گلوبل فنانشل بحران اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۳- سود میں ہلاکت اور بیع میں فلاح ہـے : ساتویں صدی میں جب قرآن نے  ’بیع کو حلال اور سود کو حرام‘ قرار دیا تو مدینہ کے یہودیوں نے سوال اُٹھایا کہ بیع اور ربا، تجارت کی دوصورتیں ہیں، تو بیع کو ربا پر ترجیح کیوں؟ قرآن نے واضح کر دیا کہ سود میں ہلاکت ہے اور بیع میں فلاح۔ ساتویں صدی ایمان کا دور (Age of Faith) تھا۔ مسلمانوں نے سوال جواب کرنے کے بجائے قرآنی احکامات کی پیروی میں سود کو چھوڑ دیا۔ سولھویں صدی سے عقلیت کے دور (Age of Reason)  کا آغاز ہوا، جس میں سودی کاروبار کی افادیت کا عقلی جواز نکالا گیا۔ اُس وقت ضروری تھا کہ مسلمان بھی سودی کاروبار میں ہلاکت کا عقلی جواز معاشی اعداد و شمار کی روشنی میں تلاش کرتے مگر ایسا نہ ہوا۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے سود کے بارے میںقرآنی نظریے کو ایک شعر کی شکل میں پیش کیا کہ ’’سودی کاروبارظاہر میں تجارت ہے مگر حقیقت میں جوا ہے‘‘۔ دوسرے ’’ایک فرد کا سود لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے‘‘۔ مگر یہ بھی ایک بیانیہ ہی تھا، جسے اعداد و شمار کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت تھی۔

سودی کاروبار میں شُتر بے مُہاری کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی آدم خوریت بھی موجود ہے، جس کی قرآن نے نشان دہی کی تھی۔ ۱۹۳۰ء کی عالمی کساد بازاری (Great Depression) نے اس کا پہلا ثبوت فراہم کیا۔ ۱۹۲۰ء کے عشرے کو مغربی معاشی تاریخ میں بھرپور ترقی کا زمانہ (The Roaring Twenties) کہا جاتا ہے۔ مالیاتی اداروں اور تجارتی بنکوں نے اس دور میں سود پر مبنی قرضہ جات دیئے اور شروع میں خوب منافع کمایا، مگر انجام کساد بازاری پر ہوا۔ حقیقی شعبہ میں کاروبار تباہ ہونے کے باعث بے روزگاری اور غربت عام ہوئی۔ بحران کی بڑی وجہ بنکوں کی غیردانش مندانہ کارکردگی قرار پائی اور گلاس سٹیگل ایکٹ پاس ہوا، جس کے تحت سرمایہ کار بنکوں کو تجارتی بنکوں سے الگ کردیا گیا۔ ۶۰سال تک بنک اس ایکٹ کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔

۱۹۸۰ء سے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب روسی اشتراکیت اپنے وجود کے بحران سے دوچار تھی۔ ۱۹۹۰ء کے شروع میں کارل مارکس کا نظریۂ اشتراکیت، روسی بلاک میں ۷۵سال تک نافذ رہنے کے بعد ختم ہوگیا، سوائے چین کے سارے اشتراکی بلاک نے دوبارہ سرمایہ داری نظام کو اپنا لیا۔ سرمایہ داری کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب ساری دُنیا ایک آزاد مارکیٹ تھی۔ چنانچہ مغربی معاشی ادب میں سود کے خلاف علمی یلغار شروع ہوئی۔ اس بحران کی وجہ بے روزگاری اور غربت و افلاس تھا، جس کی نشان دہی قرآن نے ساتویں صدی میں ہی کردی تھی۔

۲۰۱۳ء میں مارکسی اکانومسٹ تھامس پکٹی نے تو کمال کر دیا۔ حالانکہ یہ کام تو کسی مسلمان مذہبی اسکالر یا معاشیات دان کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے ۲۵۰سال کے معاشی اعدادوشمار کے تجزیے سے ثابت کیا کہ ’’پیداواری عمل میں سرمایہ کا معاوضہ بطور سود دوسرے عاملین پیداوار کے معاوضہ سے بہت زیادہ ہے، جس سے معاشرے میں دولت کی تقسیم انتہائی غیرہموار ہوجاتی ہے‘‘۔ یقینا اسی وجہ سے قرآن، سرمایہ کے معاوضہ کو کاروبار کے نفع و نقصان سے مشروط کرتا ہے۔ گویا قرآنی نظریے کو اغیار نے ایک طرح کی عددی شہادت فراہم کردی۔ بقول اقبال: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔

اہلِ مغرب بھی سودی کاروبار میں پوشیدہ ہلاکت (آدم خوریت) سے آگاہ ہوچکے ہیں مگر اس کا برملا اظہار نہیں کرتے کیونکہ اس سے سرمایہ داری کا سفینہ مکمل طور پر ڈوب جائے گا۔ دراصل سرمایہ داری کی جان سود کے طوطے میں قید ہے۔

چند مغالطے

یہاں ان نقائص کی بات کی جائے گی جو سود کے خاتمے کی حکمت عملی میں پوشیدہ ہیں، مگر پالیسی ساز اور ادارے ان کے بارے میں عجیب قسم کی بے خبری کا شکار ہیں:

۱- اسلامی معاشی نظام کا نفاذ یا صرف اسلامی بنکاری : یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو قائداعظم محمدعلی جناح نے واضح طور پر فرمایا تھا: ’’مغربی معاشی نظام کی تقلید میں ہمارے مسائل کا حل موجود نہیں ہے‘‘، بلکہ انھوں نے کہا تھا: ’’ہمیں اپنے مقدر کو اپنے انداز میں سنوارتے ہوئے اقوامِ عالم کو ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہے، جس کی بنیاد امن کا ایسا پیغام دینا ہے جس میں نہ صرف انسانیت کی بقا ہوگی بلکہ اس سے فلاح، مسرت اور خوش حالی بھی حاصل ہوگی‘‘۔ اس تقریر میں بانیٔ پاکستان نے اسلامی معاشی نظام کا عالم گیر تصور پیش کیا تھا، جسے نہ صرف پاکستان میں نافذ کرنا تھا بلکہ پورے عالم کو اس سے روشناس بھی کروانا تھا۔

بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم الشان روڈمیپ کو یکسر بھلا دیا گیا۔ غالباً ۲۰سال بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اسلامک اکنامک ڈویژن قائم کیا، جس کے ذمہ اتنی بڑی ذمہ داری تھی، مگر ۱۵سال تک اس ڈویژن نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ ۱۹۸۵ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی ہدایت پر ’اسلامی معاشی نظام‘ کے بجائے ’اسلامی بنکاری کا ماڈل‘ بنایا گیا۔ اس وقت ملک میں لوٹ کھسوٹ، اقرباپروری اور بدعنوانی عروج پر تھی مگر اسٹیٹ بنک نے ان مسائل پر کوئی توجہ نہ دی۔ اگر اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی بات کی جاتی تو یہ یونی ورسٹیوں کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ اور مذہبی جماعتوں کے مدارس کے نصاب کا حصہ ہوتا۔ یوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ سوائے سود کے سارا نظامِ زندگی، اعلیٰ اسلامی اقدار سے ہم آہنگ ہوچکا، صرف سود کا مسئلہ باقی ہے۔ یہ ایک ایسا مغالطہ ہے جس کی شکار ملک کی عدلیہ بھی ہے۔ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت سود کا فیصلہ کرتے وقت ملک میں رائج رشوت، کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں خاموش رہتی ہے۔ فرض کریں کہ اگر ملک سے سود کا خاتمہ ہو بھی جائے تو کیا ہم اسے اسلامی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟

۲- تجارتی بنک نفع و نقصان پر اور اسٹیٹ بنک سود پر : ۱۹۸۵ء کی پہلی کوشش میں یہ تجویز بھی زیرغور تھی کہ اسٹیٹ بنک کے بنک ریٹ جو کہ سود پر مبنی تھا، اسے نفع و نقصان کے بنچ مارک سے تبدیل کیا جائے۔ سودی بنکاری کے نظام میں مرکزی بنک کے  ’بنک نرخ‘ کو ’گرفت کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے تجارتی بنک اپنی شرحِ سود وضع کرتے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ ’’تجارتی بنکوں سے پہلے حکومتی قرضہ جات کو اسلامی رنگ میں ڈھالا جائے‘‘۔ اگر یہ کرلیا جاتا تو حقیقی شعبے کے منافع پر مبنی بنچ مارک وجود میں آجاتا، جسے اسلامی تجارتی بنک بھی اپنی پراڈکٹس پر منافع طے کرنے کے لیے استعمال کرتے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے نفع و نقصان کی بنیاد پر ہوتی۔ پالیسی سازوں کی یہ دوسری غلطی تھی کہ اسلامی بنکوں کو تو نفع و نقصان پر بنکاری کرنے کی اجازت دے دی مگر اسٹیٹ بنک کا سودی تشخص قائم رکھا۔ ۲۰سال کام کرنے کے بعد اسلامی بنک۲ فی صد کاروباری حصص حاصل کرسکے ہیں، یعنی ایک سال میں ایک فی صد۔ اسی رفتار سے ۸۰سال مزید چاہئیں جس میں سارا بنکاری نظام، اسلامی بنکوں کے پاس آجائے گا مگر اس وقت تک اسٹیٹ بنک تو بدستور سود پر کام کر رہا ہوگا۔ کیا مزید ایک سو سال اسٹیٹ بنک کی اسلامائزیشن میں لگ جائیں گے؟ اگر حکومتی قرضہ کو نفع و نقصان کی بنیاد پر کرلیا جاتا تو ۵۰کھرب کا حکومتی قرضہ سودی چنگل سے نکل چکا ہوتا۔

۳- سود  کے خاتمے کے لیے اسوہ رسولؐ کی پیروی: حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو شہر کی معیشت پر یہودی قابض تھے اور تین بڑی معاشی خرابیاں تھیں: اوّل، مارکیٹ میں فروخت کی اشیا لانے والوں کو ان کی اشیا کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا، یعنی مارکیٹ کی رسد میں استحصال تھا کیونکہ جن لوگوں کی اشیا سے مارکیٹ چلتی تھی وہ اپنی اشیا کے مناسب معاوضے سے محروم رہتے۔ دوسرا، استحصال خریداروں کا تھا جنھیں تاجر مہنگی اور ناقص اشیا بیچتے، یعنی مارکیٹ کی طلب میں خرابی۔ تیسری خرابی سارے معاشرے کا استحصال سود کا کاروبار تھا۔

سود کی ممانعت کا حکم جنگ ِ اُحد کے وقت آگیا تھا، مگر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پیغمبرانہ بصیرت کے تحت پہلے مارکیٹ کی طلب اور رسد کو درست کیا اور سب سے آخر میں ۹ ذوالحج ۱۰ہجری کو معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کیا۔ چونکہ سیرتِ نبیؐ ہر زمان و مکاں میں ہمارے لیے زادِ راہ ہے، اسی لیے جب بھی استحصالی معاشی نظام کی درستی درکار ہوگی، اسی ترتیب و ترکیب پر کام کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے۔

پاکستان کے موجودہ معاشی نظام میں بھی تین بنیادی نقائص وہی ہیں جو ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں آمد ِ رسولؐ کے وقت تھے، مگر ہمارے ہاں تشخیص یہ ہے کہ سب سے پہلے سود کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ اسی مغالطے کی مانند ہے جس طرح سود پر مبنی اسٹیٹ بنک کی موجودگی میں اسلامی بنک زیادہ فعال نہیں ہوسکتے۔ اس لیے لوٹ کھسوٹ اور چوری پر مبنی تجارت کی موجودگی میں سود کے خاتمے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ بات کرنے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ سود کے خاتمے کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ نہیں، بلکہ دراصل ایک مکمل اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں ان تینوں معاشی پہلوئوں پر بیک وقت کام کیا جائے۔ یاد رہے کہ سود، معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اصل ضرورت اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بھی صرف سود کے خاتمے کے بجائے پورے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا جانا ضروری ہے۔

مجوزہ اقدامات

یہاں پر ہم ان اقدامات کا ذکر کریں گے جو سود کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہیں:

  • مذہبی اسکالر اور یونی ورسٹی اکانومسٹ:  پاکستان کا موجودہ معاشی نظام سرمایہ داری ہے۔ معاشی منصوبہ بندی بھی اسی سود پر مبنی نظام کے تحت کی جاتی ہے۔ تقریباً ساری یونی ورسٹیاں اس سودی نظام کو پڑھا رہی ہیں۔ گویا اسلامی بنکاری ایک ٹمٹماتے ہوئے دِیے کی مانند ہے جسے تیز ہوائوں کے سامنے رکھا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر بنکاری نظام معاشی نظام سے نکلتا ہے، مثلاً سرمایہ داری ایک معاشی نظام ہے اور سودی بنکاری کی ہدایات سرمایہ داری سے آتی ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب روس نے اشتراکیت کو اپنایا تو بنکاری کو نئے معاشی نظام کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ ہم اس سلسلے میں سر کے بل کھڑے ہیں۔ اسلامی بنک تو کام کر رہے ہیں مگر اس معاشی نظام کی کوئی خبر نہیں جس کے تحت اسلامی بنک قائم ہیں۔ اور ہماری ساری کوشش اسلامی مالیاتی نظام پر مرکوز ہے جس کے لیے کبھی اسٹیٹ بنک اور کبھی عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مارکیٹ پرمبنی مکمل معاشی نظام نافذ کیا تھا۔ہماری کتاب ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس اُس دور کی معاشیات کو آج کے دور کی اکنامکس کی زبان میں بیان کرتی ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے خدوخال آج کی زبان میں بیان کیے جائیں اور اس معاشی نظام سے اسلامی بنکاری کی تشکیل کی جائے۔ یہ کام یونی ورسٹی کے اکانومسٹ اور مذہبی اسکالر اور علما مل کر کرسکتے ہیں۔ اکانومسٹ، جدید معاشیات کے طور طریقوں سے بخوبی واقف ہیں اور مذہبی اسکالر اور علما درخشندہ اسلامی روایات کے وارث اور امین۔

 یہ دونوں طبقے مل کر اسلامی معاشی نظام وضع کریں، مثلاً مارکیٹ کی ساخت، مارکیٹ میں کام کرنے والے لوگوں کے حقوق و فرائض، مختلف ذرائع پیداوار کے درمیان نفع و نقصان کی تقسیم کے اصول اور معاشرے میں دولت کی گردش کے بارے میں اسلامی نظریہ وغیرہ۔ ان سب چیزوں کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں جن کو معاشیات کی زبان میں ضبط ِ تحریر میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اسلامی معاشی نظام کو کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس سے طالب علموں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں متبادل نظریہ ملے گا اور سود کے خاتمے کے سلسلے میں یہ پہلا کامیاب قدم ہوگا۔

  • سودی بنچ مارک کے مقابلے میں بیع کے کاروبار کا بنچ مارک: ’ربا‘ کے کاروبار کا ماحصل اصل سرمایہ پر معین عرصے کے لیے اضافی سرمایے کا حصول ہے، جسے ’سود‘ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس بیع کے کاروبار کا انحصار نفع یا نقصان پہ ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ داری میں سود کا کردار مرکزی ہے، اس لیے سودی کاروبار کی اوسط شرح سود کا پیمانہ (Benchmark) بنایا جاتا ہے جو مرکزی بنک کے شرح سود کے مطابق کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت KIBOR  (Karachi Inter Bank Offered Rate) پاکستان میں سودی بنکاری کی شرحِ سود کا پیمانہ ہے،جو کراچی میں ایک دن میں سود پر دیئے گئے قرضوں کی اوسط کا آئینہ دار ہے۔ ۲۰۰۰ء میں اسلامی بنکوں کو کچھ عرصہ کے لیے سود پر مبنی بنچ مارک استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی مگر ۲۲سال کا عرصہ گزر گیا ، اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ سودی بنچ مارک کے استعمال کے باعث اسلامی بنک بھی بالواسطہ طور پر سودی کاروبار ہی کو فروغ دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب اسٹیٹ بنک سود کی شرح میں رَدوبدل کرتا ہے تو بظاہر نفع و نقصان پر کام کرنے والے اسلامی بنکوں کا منافع بھی اسی تناسب سے کم یا زیادہ ہوجاتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ حالیہ فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے موجودہ اسلامی بنکاری کو بالکل جائز قرار دے ڈالا ہے۔

حقیقی اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے نفع کی بنیاد پر بنچ مارک کی تیاری نہایت ضروری ہے۔ اس کے بہت زیادہ فوائدحاصل ہوں گے۔ اوّل:اسلامی بنک اپنے کھاتہ داروں کو سود سے بہتر منافع دے سکیں گے۔ دوسرے، اسٹیٹ بنک کی مانٹیری پالیسی سود کے بجائے حقیقی کاروبار کے نفع کی بنیاد پر استوار ہوجائے گی۔ مالیاتی دُنیا میں یہ بہت بڑا انقلاب ہوگا، کیونکہ ابھی تک ساری دُنیا کے مرکزی بنکوں کی مانٹیری پالیسی سود پر قائم ہے۔ تیسرے، اسلامی بنک، زراعت اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے قرضے دے سکیں گے، جہاں سودی بنک زیادہ تر کام نہیں کرتے۔

اس سلسلے میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اسٹیٹ بنک کے ڈاکٹر حسن الزماں نے انڈسٹری اوسط پرافٹ کی بات کی تھی۔ حال ہی میں اسٹیٹ بنک کے سابق ڈپٹی گورنر ریاض ریاض الدین نے بھی یہی بات کی ہے۔ کچھ سال پہلے رفاہ یونی ورسٹی، اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد ایوب نے اسی سلسلے میں مکالمے کا آغاز کیا تھا۔ عوام الناس کی طرف سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ’’سودی اور اسلامی بنکوں میں کیا فرق ہے؟‘‘ اس درست وضاحت سے اسلامی بنکوں کونیا تشخص اور انفرادیت ملے گی جس کے باعث عوام ان کی طرف جوق در جوق رجوع کریں گے۔

  • مدرسہ اور اسکول کا اتحاد: متحدہ ہندستان میں دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ میں  ایک معاہدے کے تحت دونوں درس گاہوں کے طالب علم ایک خاص عرصہ دوسری درس گاہ میں گزارتے تھے۔ اس معاہدے کا خاص مقصد علم کے دینی اور دُنیاوی پہلوئوں سے آشنائی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس عظیم روایت پر کام نہ ہوسکا۔ اس وقت ۲۵لاکھ سے زائد طلبہ مدارس میں قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، مگر اسکول کے طالب علموں سے مکمل دُوری ہے۔ یہی حال اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا ہے۔ ملکی ہم آہنگی کے پیش نظر تعلیم کے ان دونوں مراکز میں رابطہ اور اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ اسلامی معاشی نظام کی تشکیل اس سلسلے میں پُل کا کام دے سکتی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں اسٹیٹ بنک نے غیرملکی امداد سے ملک کی تین بڑی یونی ورسٹیوں میں اسلامک سنٹر قائم کیے تھے۔ لاہور میں LUMS، کراچی میں IBA اور پشاور میں ’انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز‘ (IMS ) کو اس سلسلے میں خاصی مالی امداد بھی دی گئی تھی مگر سات سال کے عرصے میں ان اداروں کی طرف سے کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ IBA کراچی، میزان بنک کے تعاون سے اسلامی فنانس کی ڈگری جاری کر رہا ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی تقریباً یہی کام ہورہا ہے۔ اسلامی بنکوں میں ۲۰سال کے عرصے سے شریعہ اسکالر کام کر رہے ہیں جواب کارِ بنکاری کی پیچیدگی اور اسرارِ رُموز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس طرح سے سکول مدرسہ اتحاد کی ایک ہلکی سی شکل وجود پذیر ہے۔

اسلامی معاشی نظام کی تشکیل کو تیز تر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تینوں یونی ورسٹی سنٹروں کے ساتھ علاقے کے معروف دینی مدارس کو منسلک کیا جائے اور انھیں سالانہ اہداف دیئے جائیں اور ان کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ شائع کی جائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس سلسلے میں سال کے آخر میں سیمی نار منعقد کرے اور تینوں سنٹروں کی کارکردگی کا جائزہ لے۔تینوں یونی ورسٹی سنٹروں اور مدارس کے درمیان تقسیم کار بھی کی جاسکتی ہے، مثلاً IBA کراچی اور جامعہ دارالعلوم، کراچی کے ذمہ نفع کی بنیاد پر بنچ مار ک کی تیاری لگا دی جائے۔ LUMS لاہور اور جامعہ اشرفیہ، لاہور مل کر اسلامی معاشی ماڈل تیار کریں، اور IMS پشاور اپنے علاقائی مدرسہ کے ساتھ مل کر زکوٰۃ کے نظام کی جدید خطوط پر تشکیل کا ماڈل تیار کریں۔ اسلامی معاشی نظامِ میں زکوٰۃ اور عشر دوبڑے اہداف ہیں۔ ان اقدام سے ملک میں ایک جذبہ اور جنون پیدا ہوگا اور سب لوگ مل کر اس معاشی نظام (بشمول اسلامی بنکاری) کے قیام کی کوشش کریں گے، جس کا قائداعظم محمدعلی جناح نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو ذکر کیا تھا۔

  • حرفِ آخر: سودی کاروبار نے عالمی معیشت میں گہرے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ سوائے اسلامی تہذیب کے تقریباً سارا عالم اس کا پرستار ہے۔ اگرچہ کارل مارکس سود کا شدید مخالف تھا مگر چین میں بھی یہی نظام پرورش پارہا ہے، جو آنےوالے دور میں اس اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت کے حالیہ تشخص اور انفرادیت کو بُری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ امریکا کی آزادی کے وقت وہاں کے بانی رہنما امریکا کا مستقبل زرعی اور صنعتی ترقی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ سودی فنانس آہستہ آہستہ سارے نظامِ زندگی پر زری طاقت کے بل بوتے پر قابض ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج امریکا کی پہچان اس کی مالیاتی طاقت سے ہے کیونکہ ساری دُنیا کی بچتیں اس وقت مغربی بنکوں کے پاس کھاتوں کی شکل میں پڑی ہیں۔

شریعہ کورٹ کا سود کے بارے میں حالیہ فیصلہ موجودہ اسلامی بنکاری کے بارے میں خاموش ہے۔ عدالتی سماعت کےدوران مذہبی جماعتوں کے نمایندگان نے اس بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا کہ موجودہ ڈھیلی ڈھالی اسلامی بنکاری، منزلِ مقصود تک پہنچانے سے قاصر ہوگی۔ جب ساتویں صدی میں یہودی سردار کعب بن اشرف نے اس خیمہ کی رسیاں کاٹیں جس کے نیچے اسلامی مارکیٹ کام کررہی تھی تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا میدان مارکیٹ کے لیے منتخب کرتے وقت دوچیزوں کا خیال رکھنے کا ارشاد فرمایا:

اوّل یہ کہ یہ جگہ یہودیوں کی مارکیٹ سے دُور ہو اور دوم: مسجد نبویؐ سے قریب۔

حقیقی اسلامی معاشی نظام اور اسلامی بنکاری کے خدوخال طے کرتے وقت ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ موجودہ سرمایہ داری او ر اس پر مبنی سودی بنکاری سے مختلف ہو اور مقاصد ِ شریعہ کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہو۔ یہ کارِعظیم دشوار تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر متحد ہوکر مضبوط ارادے سے کام کا آغازکیا جائے تو اسلامی معاشی گم شدہ جنّت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے  ؎

آج بھی جو ہو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

انسانی تہذیب میں معاشی ارتقا کا پہلا ذکر شکارچی دور (Hunter Gatherer Age) سے کیا جاتا ہے۱ جس میں انسان اور حیوانات کی زندگی خوراک اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش تک محدود تھی۔

  • شکارچی دور: اس دور میں خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرنا، پرندوں اور جانوروں کا شکار کرنا اور خود کو ان کا شکار ہونے سے بچانا ہی انسانی زندگی کی روزمرہ کی کہانی تھی۔ محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں بھی جانوروں کی مداخلت یا شراکت کا خطرہ موجود رہتا کیونکہ دونوں کے آبائی مسکن اکثروبیش تر پہاڑی غاروں اور جنگلوں پر مشتمل تھے۔ خوراک کا حصول بہت ضروری تھا۔ اگر کبھی مخصوص علاقوں میں پانی کے ذخائر ختم ہوجاتے تو انسان بڑی مشکل سے بنائی ہوئی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑ کر اجنبی علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے اور کچھ عرصے کے بعد وہ نامانوس علاقے پناہ گاہوں کی شکل میں تبدیل ہوجاتے۔

’معاشیات‘ کو سادہ الفاظ میں محدود وسائل سے لامحدود خواہشات کو نظم میں لانے کا علم کہا جاتا ہے۔ مگر انسانی زندگی کا یہ دور معاشیات کے مضمون کے مروجہ مفہوم کے برعکس تھا۔ یعنی وسائل لامحدود تھے اور خواہشات محدود۔ اس کے باوجود معاشی نظام کی کچھ جزئیات اس سادہ معاشیات میں بھی موجود تھیں۔ کام کو قدرے سہولت سے کرنا بھی انسان نے تجربے سے سیکھ لیا تھا، جسے آنے والے وقتوں میں ’محنت کی تقسیم کار‘ سے پکارا جانا تھا۔ علاوہ ازیں، اسی دور میں ہمیں ’بچت اور تقسیم‘ کے شواہد بھی ملتے ہیں، جو آج ایک جدید معاشی نظام کا بھی لازمی جزو ہیں۔ جانوروں کے برعکس انسان اتفاقاً ضرورت سے زائد ملنے والی خوراک کو محفوظ کرلیتے، تاکہ تلاش کے باوجود خوراک کی عدم دستیابی کی صورت میں ذخیرہ شدہ خوراک کو موجود لوگوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ انسانی سوچ، محنت اور ارادے کے باعث انسانی سماجی و معاشی زندگی ارتقا پذیر رہی۔۲

  • پتھر کا زمانہ : ’شکارچی دور‘ سے دوسری حالت کو Neolithic Revolution  یا ’نوسنگی انقلاب‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ۳ یہ انقلاب تقریباً ۱۰ہزار سال پہلے برپا ہوا، جس میں انسان نے مختلف قسم کی فصلیں کاشت کرنا اور جانوروں کو سدھا کر پالتو بنانا سیکھ لیا تھا۔ اس سے ایک منظم معاشرتی زندگی کا آغاز ہوا اور دُنیا کے مختلف حصوں میں ثقافت اور تہذیب کے آثار نمودار ہوئے، جیسے میسوپوٹیما، یونان، مصر، انڈیا اور چین وغیرہ۔ ان تہذیبوں میں تجارت نے بھی ترقی کی اور مختلف اشیا کے تبادلے کے لیے مخصوص جگہوں کا انتخاب کیا گیا، جہاں اشیاء پیدا کرنے والے اور اشیاء کے خریدار جمع ہوکر ’جنس کے بدلے جنس‘ کا تبادلہ کرتے تھے۔ جسے ہم معاشیات کی زبان میں بارٹر (Barter) یا ’مبادلے‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ خریدوفروخت کی ان مخصوص جگہوں کو تجارتی منڈیاں کہا جانے لگا۔ تقریباً ساری معاشی زندگی کی عکاس تھیں۔

خرید و فروخت کے یہ رضاکارانہ سودے، جنھیں ہم آج کی علم معاشیات کی زبان میں Economic Exchange (معاشی تبادلہ) یا Economic Transaction (معاشی ترسیل یا معاشی سودا) کہتے ہیں، ’شکارچی دور‘ میں بھی موجود تھے، مگر ان کی نوعیت رضاکارانہ کے بجائے طاقت اور چوری پر مبنی تھی۔ طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کی چیزیں زبردستی چھین لیتے تھے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں طاقتور افراد یا قبیلے دوسرے افراد یا قبیلوں کے پانی اور خوراک کے ذخیرے چھین لیتے تھے۔ تاریخ انسانی میں مالی یا معاشی تبادلے (Exchange) کی پہلی شکل بذریعہ طاقت یا چوری چکاری کی صورت میں تھی،جسے ہم ’تجارت‘ نہیں کہہ سکتے۔

جب معاشرے منظم ہوئے اور حکومتیں مستحکم ہوئیں تو تجارت کو بھی تحفظ ملا، جس میں خریدنے والے اور بیچنے والے ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوکر اپنی مرضی سے اشیاء سے اشیاء کا تبادلہ کرتے تھے۔ بارٹر دور میں تجارت کے فروغ میں کچھ مشکلات تھیں۔ کسان گندم پیدا کرنے کے بعدایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے، جنھیں گندم کی تو ضرورت ہو، مگر ان کے پاس وہ جنس بھی موجود ہو جو کسان کو درکار ہے۔ معاشیات کی زبان میں اسے ’دوطرفہ ضروریات کی مطابقت‘ (Double Coincidence of Wants) کہتے ہیں۔ جانوروں کے تبادلہ کی بھی یہی صورت تھی۔

دوسری مشکل وزن اور پیمائش کے بارے میں تھی، کیونکہ آج کے دور کی طرح وزن اور پیمائش کے پیمانے موجود نہیں تھے۔ کتنی گندم کے بدلے کتنے چاول لیے جائیں یا پھر کتنے گدھوں کے برابر ایک گھوڑا ہوگا، اس بات کا تعین بہت مشکل تھا۔ اس صورت میں دستیابی اور ضرورت فیصلہ کن محرکات تھے۔ چونکہ یہ تبادلہ صرف دو افراد کے درمیان براہِ راست تھا، اس لیے خریدنے والے اور بیچنے والے اس سودے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی کوشش کرتے۔ ’علم معاشیات‘ کی زبان میں یہ تبادلہ ’برابر کی قدر کے تبادلے‘ کے مترادف تھا۔

  • کرنسی کی ایجاد: معاشیات کے ارتقاء میں دو واقعات ایسے ہیں، جن کی بدولت نہ صرف ’بارٹر دور‘ کی مشکلات دُور ہوئیں، بلکہ کاروبار میں بہت زیادہ وسعت آگئی۔ ایک تو تجارت کے پیشے کا ظہور اور دوسرے سونا اور چاندی کا اشیاء کے تبادلے میں واسطہ (Medium) کا کردار کرنسی کی ایجاد سے منسوب ہوا۔ کاروباری سودے میں اب دو کے بجائے تین لوگ آگئے۔ خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان تاجر۔ اب ایک معاشی سودے سے تین لوگ مستفید ہونے لگے۔ پہلا اشیاء کا پیدا کرنے والے، یعنی کسان، دوسرا ان اشیاء کو کسان سے خریدنے والا (تاجر) اور تیسرا تاجر سے اشیاء خریدنے والا ضرورت مند۔ دوسری بڑی پیش رفت سونے اور چاندی کا بطور Metallic Currency  (فلزی کرنسی)کے طور پر وجود میں آنا تھا۔ اس سے پہلے تیر، کھالیں اور قیمتی پتھر بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ۴ مگر اسے عمومی طور پر تسلیم شدہ کرنسی کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ سونے اور چاندی میں ایک عمدہ کرنسی کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ یہ دونوں دھاتیں کمیاب ہونے کے باوجود قیمتی پتھروں کی طرح نایاب نہ تھیں۔ دوسرا یہ کہ انھیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں بھی تقسیم کیا جاسکتا تھا۔ اس نئی دریافت نے ایک تو تبادلے میں آسانی پیدا کر دی اور دوسرے تجارت کی ایک نئی قسم کو بھی جنم دیا، یعنی کرنسی کا استعمال بطور اشیاء (Commodity) یا پھر سادہ الفاظ میں ’سود کا کاروبار‘۔

اس سے پہلے ایک معاشی سودا ان اشیاء پر مشتمل ہوتا جو کھیت یا کارخانے میں پیدا کی جائیں اور منڈی میں ان کا تبادلہ کیا جائے، مگر ’زر‘ کے اب دو مزید استعمال ہوگئے: ایک تو ’تبادلے کا وسیلہ‘ (Medium of Exchange) اور دوسرے زر کو سود پر اُدھار دینا۔ اب ’زردار‘ کے پاس دوراستے تھے: ایک تو زر کو اشیاء اور اجناس کی پیداوار کے کاروبار میں لگاکر نفع کمانے کی کوشش اور اس کام میں نقصان کے امکانات بھی، یا پھر ’زر‘ دوسرے لوگوں کو پہلے سے طے شدہ منافع پر ایک خاص مدت کے لیے قرض پر دینا یعنی سود کا کاروبار۔ تجارت کی یہ شکل ’بارٹر دور‘میں زیادہ ممکن نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود۵  ’نوسنگی دور‘ کے کسان نے اپنے چچازاد کسان بھائی کو بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کاشت کے وقت دی گئی مقدار سے زیادہ کا مطالبہ کیا، مگر جنس یا اشیاء کو سود پر دینے کا یہ کاروبار زیادہ فروغ نہ پاسکا۔

’زر‘ کی اس ایجاد نے یہ مشکل آسان کردی کیونکہ اس کی ترسیل نہایت آسان تھی۔ سود کا کاروبار آسان بھی تھا اور محفوظ بھی، کیونکہ اس میں نقصان کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، لہٰذا سود کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی جس کے باعث معیشت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی: معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں اور کارخانوں میں اجناس اور اشیاء کی پیداوار اور منڈیوں میں ان کی خریدوفروخت میں مصروف ہوگیا۔ سرمایہ، محنت اور وقت کا یہ استعمال معاشی ترقی کی بنیاد بن گیا۔ ’جدید علم معاشیات‘ کی زبان میں معیشت کا یہ حقیقی شعبہ (real sector) ہے۔ سود پر کام کرنے والے تھوڑے لوگ تھے۔ اس دور میں حقیقی شعبہ میں کام کرنے والے تاجر اشیاء کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سود کا کام بھی کرلیتے تھے۔ چند افراد ایسے بھی تھے، جو سرمایے کو سود پر اُدھار دینے کے علاوہ کوئی کام نہ کرتے تھے۔ ایک طرح سے یہ افراد معاشی اُدھارکی ضرورتیں (Credit Needs) پورا کرتے۔ چونکہ بنک یا مالیاتی ادارے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے،اس لیے قرض لینے والوں اور قرض دینے والوں میں براہِ راست رابطہ ہوتا تھا۔ جسے ہم جدید زبان میں P2P  (Person to Person Finance) فرد کا فرد کے درمیان مالیاتی عمل کہتے ہیں۔۶

تجارت کے پیشے نے کاروبار میں آسانی اور بڑھوتری میں بہت مد د کی۔ پیداوار کے عمل میں مشغول لوگ اپنی ہی پیدا کردہ اشیاء کو بیچنے کی زحمت سے بچ گئے۔ خریدار کو بھی آسانی ہوگئی کیونکہ مختلف چیزیں اب انھیں ایک ہی جگہ پر دستیاب ہونے لگیں۔ مارکیٹنگ سہولت کے علاوہ تاجر ضرورت مند لوگوں کو قرض فراہم کرتے تھے، حتیٰ کہ جنگ کی صورت میں بادشاہ بھی ان سے اُدھار لیتےتھے۔ ان سب آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود تاجر یا تجارت کے پیشے کی معاشرے میں کوئی عزّت نہ تھی۔

قدیم یونانی تہذیب میں سوسائٹی کے ہر شعبے کا اپنا ’خدا‘ تھا۔ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ تاجر، چور اور ڈاکو کا خدا ایک تھا، جسے Hermes (ہرمز)کے نام سے پکارتے تھے۔۷ رومن سلطنت میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ ڈاکو، چور، اُچکے اور تاجر لوگوں کا خدا اب Mercury (مرکری)۸تھا اور تجارت اس دور میں بھی ایک کمتر درجے کا پیشہ تھی۔ انگلستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس میں بادشاہِ وقت نے تاجروں سے قرض لیا اور واپسی سے انکار کردیا۔۹  قحط یا اشیائے خورونوش کی قلت کے وقت تاجر ذخیرہ اندوزی کرلیتے، تاکہ ان اشیائے ضروریہ کو مہنگے داموں فروخت کریں۔ ایسے موقعوں پر حکومت کے کارندے تاجروں کے گودام پر چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ اشیاء قبضہ میں کرلیتے اور اکثر اوقات تاجروں کو گرفتار کرلیا جاتا۔ عام لوگ اکٹھے ہوکر ایسے مناظر دیکھتے، تاہم ان کے دلوں میں بھی ان مصیبت زدہ تاجروں کے لیے رحم کی کوئی لہر نہ پیدا ہوتی، جن سے وہ صبح و شام اشیائے صَرف خریدتے تھے۔

’معاشیات‘ کے طالب علم کے لیے یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ قدیم دور میں تاجر اور تجارت پیشے سے وابستہ معاشرتی نفرت اور حقارت کی وجہ کیا تھی؟ بظاہر تو تاجر، معاشی ترقی میں ایک اہم کردار تھا اور تجارت معاشی زندگی کی بنیاد تھی، مگر ایسا رویہ کیوں؟ معاشرے کے دوسرے پیشوں کے مقابلے میں تاجر کی حیثیت مختلف اور منفرد ہے۔ حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لوگ صرف بیماری کی صورت میں جاتے ہیں۔ عالم کے پاس بھی کسی علمی گتھی کو سلجھانے کے لیے ہی رجوع کیا جاتا ہے مگر تاجر کے ساتھ رابطہ تو مسلسل تواتر کے ساتھ ہوتا ہے۔ خورونوش کی اشیاء کے لیے صبح و شام تاجر کی دکان پر جانا پڑتا ہے۔ یہ رابطہ کبھی خریدار اور کبھی فروخت کنندہ کی حیثیت میں ہوتا ہے۔ خریدوفروخت کی دونوں حالتوں میں عام توقع ایک کھرے سودے (Fair Deal) کی ہوتی ہے، جس میں خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں استفادہ کرتے ہیں، جیساکہ ’بارٹر دور‘ میں تھا کیونکہ ایک ’معاشی سودا‘ صرف دو افراد کے درمیان تھا۔ لیکن تاجر کے آنے سے یہ توازن بدل گیا۔ اب ایک معاشی سودے کےتین فریق تھے اور تاجر دو بنیادی فریقوں یعنی بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان رابطے کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاجر کے پیشے کی اس صورت میں ہی عزّت ہوتی جب ایک معاشی لین دین دونوں بنیادی فریقوں کے درمیان ’برابر کی قدرکے تبادلے‘ کے مترادف ہوتا۔

جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی تبادلے کی صورت طاقت کے بل بوتے پر تھی، جس میں طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لیتے تھے، جب کہ تجارت، منڈی یا مارکیٹ میں رضاکارانہ تبادلے کا نام ہے، جس میں خریدنے اور بیچنے والے اپنی مرضی اور خوشی سے لین دین کے عمل میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ کا رضاکارانہ تبادلہ ہرقسم کی چوری اور جبر سے پاک ہو۔ تاجروں کی زیادہ منافع کمانےکی حرص اور لالچ کے باعث معاشی سودے ’برابر کی قدرکے سودے‘ بن جاتے ہیں، جس طرح ڈاکو اور چور علانیہ طاقت کے زور پر عام لوگوں کو لوٹ لیتے تھے۔ اسی طرح تاجر بھی عاجزی اور مسکراہٹ سے انتہائی زیادہ منافع لے کر یا چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے عام لوگوں سے ان کی جمع پونجی بٹور لیتے تھے۔ شاید اسی چوری نما تجارت کے باعث قدیم دور کے فلسفی یونان نے چور، ڈاکو اور تاجر کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا۔

معاشی ارتقا کا یہ سفر منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقلی نے کچھ عملی طریقوں کو جنم دیا، جو معاشی عمل کا مستقل جزو بن گئے۔ مثال کے طور پر ملکیت کا تصور، منڈیوں کا قیام اور ان کی کارکردگی، قیمتوں کا آزادانہ تعین اور ان میں حکومت کی مداخلت اور سود کا کاروبار وغیرہ۔ یہ معاشی سفر کے ایسے بنیادی ستون ہیں جن سے ’منتشر معاشیات‘ (Fragmented Economics) کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ معاشیات کے انھی شذرات سے ابھی ایک معاشی نظام کی تکمیل ہونا باقی تھی۔

چھٹی صدی کے آخر میں روم اور ایران دُنیا کی دو بڑی مستحکم حکومتیں تھیں۔ ان دونوں تہذیبوں میں منتشر معاشیات بدرجہ اَتم موجود تھی۔ تجارتی منڈیوں کی چہل پہل، قیمتوں کا تعین، کبھی طلب اور رسد کی قوتوں کے مطابق اور کبھی حکومت کی مرضی کے مطابق۔ سود پراُدھار لی گئی رقم کی کبھی واپسی اور کبھی ضبطی، ملکیت کے تصور کا کبھی اقرار اور کبھی انکار۔ معاشیات کے یہ سارے بنیادی ستون تو موجود تھے، مگر ابھی تک انھیں کسی قانون اور ضابطے کے تحت بیان نہیں کیا گیا تھا۔ سادہ الفاظ میں انسانیت ابھی تک ایسے ’معاشی نظریہ‘ کی تلاش میں تھی، جو معاشی عمل کے تمام پہلوئوں کو قوانین و ضوابط کی شکل میں بیان کرے۔ ساتویں صدی کی پہلی چوتھائی میں دین اسلام کے ظہور کے ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشی نظام بھی وجود میں آیا، جو قرآن میں بیان ہوا اور ریاست ِ مدینہ میں اس کا نفاذ ہوا۔۰

حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں اہلِ مغرب اس سے واقف ہوئے۔ بعد میں یہ نظام پوری دُنیا میں پھیل گیا اور چار سو سال تک دُنیا میں ’غالب معاشی نظریئے‘ کے طور پر قائم رہا۔

مذہبی دور - اسلام کا عہد زریں

ساتویں صدی کو عام طور پر ’مذہبی دور‘ (Age of Faith) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لیے دُنیا کے پہلے معاشی نظام کو عبادات اوررسومات کی طرح ہی سمجھا گیا۔ اس سے پہلے یہودیت اور عیسائیت میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں الہامی مذاہب میں بہت بڑے معاشی مسئلے ’سرمایہ‘ کے استعمال پر بات ہوئی ہے، اور تینوں مذاہب نے ’سرمایہ‘ کا استعمال بطور سود برتنے کی ممانعت کی ہے۔

تاہم ساتویں صدی کی ’مدینہ معاشیات‘ ؎ ۱۱ نے نہ صرف سود کی مخالفت کی بلکہ سرمایے کے استعمال کا صحیح طریقہ بھی بتایا۔ سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ اس نظام نے تجارت اور تاجر کے پیشے کو عزّت دی۔ تجارت کو معاشرتی فلاح کا ذریعہ قرار دیا اور سچّے تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد بتایا اور بنایا۔ ایسے وقت میں جب دُنیا ’کھلی معاشی منڈی‘ (فری مارکیٹ اکانومی) کے تصور سے مکمل طور پر ناآشنا تھی۔ ساتویں صدی میں یہ نظام ریاست ِ مدینہ میں عملی طور پر نافذ ہوا، جس میں مارکیٹ مسجد کی طرح محترم اور مقدس تھی اور منڈی میں قیمتوں کا تعین ہرحال میں اشیاء کی طلب و رسد کی قوتوں کے مطابق ہوتا تھا۔ ساتویں سے گیارھویں صدی تک دُنیا میں غالب رہنے کے بعد یہ معاشی نظام وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگیا۔ ۲۰۱۱ء میں ملایشیا کے معاشیات دان مرتاسزکا (Murat Cizacka) ؎ ۱۲ نے مدینہ اکنامکس کو دُنیا کا پہلا Market Based Economic System قرار دیا۔۲۰۱۴ء میں جرمن اسکالر بینڈکٹ کوہلر (Benedict Koehlet) نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اپنی مشہور کتاب Early Islam and Birth of Capitalism میں کہا کہ سرمایہ کاری کا نظام، اسلام کے اوّلین دور میں پیدا ہوا۔ ؎ ۱۳

حوالہ جات

۱-    ایم ساہلنز (Sahlins) Stone Age Economics  (۱۹۷۲ء) ناشر: ایلڈن اتھرٹن، نیویارک

۲-    ایم ایم احمد، The 9th Habit for Effectiveness، مطبوعہ جرنل آف بنکرز پاکستان (۲۰۰۷ء)

۳-    کہا جاتا ہے کہ Neolithicفلزی انقلاب، دس ہزار سال پہلے آیا، جس میں ’شکارچی دور‘ کی انسانی زندگی خانہ بدوشی سے زرعی معاشرت میں تبدیل ہوگئی۔

۴-    آر اے جونز (Jones) The Origin and Development of Media of Exchange، مطبوعہ جرنل آف پولیٹیکل اکانومی، (۱۹۷۶ء) ص ۷۵۷-۷۷۵

۵-    ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تک‘ ، ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۲۰ء، ص ۲۵-۳۵

۶-    پی رنٹن (Renton) Understanding peer to peer Lending ، (۲۰۱۱ء)

۷-    www.ancient.eu/Hermes/Roman-God-Britannica.com

۸-    مرکری،

۹-    کے روز برگ اور آرٹی ہوپکنز، The Romance of Bank of England، (۱۹۷۳ء)، لندن

۱۰-  ایم لومبرڈ (Lombard ) The Golden age of Islam، (۱۹۷۵ء)

۱۱-  محمدایوب، اسلامی مالیات، ۲۰۰۷ء، وائلی اینڈ سنزلمیٹڈ،

۱۲-  ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تکــ‘ماہ نامہ ترجمان القرآن،(اکتوبر ۲۰۲۰ء)، ص۲۵-۳۵

۱۳-  بی کوہلر (Koehler) Early Islam and Birth of Capitalism  (۲۰۱۴ء)

یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ جب کارل مارکس کا معاشی نظام، اشتراکیت، روس میںفروغ پارہا تھا۔ اس نظام سے مغرب کی سرمایہ دارحکومتیں خائف تھیں۔ اس زمانے میں، جب چاروں طرف اشتراکی لہر کا شور تھا۔ اقبال ایک بہت بڑادعویٰ کرتے ہیں   ع

مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے

قدیم ایران میں مزدک نامی ایک شخص گزرا ہے، جس نے سب سے پہلے اجتماعی ملکیت (زر، زمین اورزن) کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال اشتراکیت کو ’مزدکیت‘ کے نام سے پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرمایہ داری کا اصل مقابلہ اسلام سے ہوگا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اشتراکیت کا خاتمہ ہوجائے گا اور سرمایہ داری کا اصل مقابلہ اسلامی نظام سے ہوگا، مگرآج یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ۱۹۹۰ء میں اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا اور’تہذیبوں کے تصادم‘ کا نظریہ پیش کرتے ہوئے مغربی مفکرین نے پکارا کہ مغربی تہذیب سے اصل مقابلہ اسلامی تہذیب ہی کا ہے۔ اس نکتے کو سردست یہاں چھوڑکر اقبال کے اس شعر پرغوروفکر کرتے ہیں:

جو حرف قُلِ الْعَفْوَ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

قُلِ الْعَفْوَ‘ قرآن کے دو الفاظ ہیں۔ ان الفاظ میں کون سی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ  جس کےنمودار ہونے کے اقبال منتظر ہیں؟ دراصل یہاں بھی اقبال بہت بڑے راز سے پردہ اُٹھانے والے ہیں۔ کیونکہ اس شعرسے پہلے وہ قرآن کا ذکرکرتے ہیں  ؎

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

مَاذَا یُنْفِقُوْنَ؟ تاریخِ انسانی کامنفرد سوال

اگرچہ اسلام کا ظہور مکّہ میں ہوا، اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد ۱۳سال مکّہ میں گزارے، مگر وہاں اسلامی معاشرے کی تشکیل نہ ہوسکی، کیونکہ مکّے کے قریش تو مسلمانوں کی جان کے دشمن تھے۔ یہ اعزاز مدینے کے حصے میں آیا۔ قرآن نے ہجرت کے دوران نازل ہونے والی سورۃ الحج میں اس کی نشان دہی کردی تھی:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَــــوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ(الحج ۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گےاور بُرائی سے منع کریں گے۔

اب چونکہ اسلامی معاشرے کے قیام کا وقت آگیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرح سے ریاست ِ مدینہ کے خدوخال بیان کردیے۔ ہجرت کے بعد حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترتیب سے اسلامی معاشرے کی بنیادیںاُٹھائیں۔ صلوٰۃ کے نظام کے لیے مسجد نبویؐ، قریش اور انصار کے درمیان مواخات اور میثاقِ مدینہ جیسےاقدام کیے۔ ان چیزوں سے ہم واقف ہیں، مگر ان کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ نے معاشی نظام کی بھی تکمیل کی تھی، جس سے ہم اکثروبیش تر غافل اوربے خبر رہے۔ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ؟ (ہم کیا خرچ کریں؟) ایک ایسا سوال ہے جو ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کے تناظر میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تھا۔دراصل ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کا ایک مقصد ’مشترکہ خوش حالی‘ (Shared Prosperity) کا حصول تھا، جس کے باعث ایمان داری اورباہمی فلاح پر مبنی معاشی جدوجہد وجود میں آئی۔

اگرہم مدنی زندگی کے ۱۰ برسوں کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں، تو سیرتِ نبویؐ کے حیران کن پہلو سامنے آتے ہیں۔ ہجرت کےپہلے سال ہی آپؐ نے مسجد نبویؐ کی تعمیر مکمل کرلی۔ مواخات اور میثاقِ مدینہ ہوا۔ زکوٰۃ بھی اسی سال فرض ہوئی اورآپؐ نے معاشی نظام کا نفاذ شروع کرنے کے لیے پہلی اسلامی مارکیٹ قائم کی۔ عبداللہ بن ابی کی مخالفت بھی اسی سال میں شروع ہوئی۔ اگلے چارسال بیرونی جارحیت اوراندرونی سازشوں کے ہیں۔ انھی پانچ برسوں میں قریشِ مکّہ کے حملوں (بدر،اُحد اور خندق) اوریہودیوں کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کیا گیا۔

اسی دوران میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سیاسی اور معاشی نظام کے نفاذ کی تکمیل بھی کی۔ یہ پانچ سال بنیادی اصلاحات (reformation) کا دورہے، جس کے اثرات آنےوالے برسوں میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ چھٹی ہجری میں کفّارِ مکّہ کے ساتھ صلح حدیبیہ ہوئی اور ساتویں صدی ہجری میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے بادشاہوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت پر مبنی خطوط بھیجنا شروع کیے۔ غالباً اسی عرصے میںکئی صحابہؓ نےسوال پوچھا کہ ’’ہم اپنی آمدنی سے (زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد) دوسروں پر کیا خرچ کریں؟‘‘ اس سوال کا جواب قرآن نے یوں دیا:

يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ  قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) اے نبیؐ! لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: ’’جو کچھ تمھاری ضروریات سے زیادہ ہو‘‘۔

یہاں یہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تاریخِ انسانی میں اہلِ ثروت کی طرف سے ایسا سوال کبھی نہیں پوچھاگیا۔ اس کی بڑی وجہ قبل از اسلام تجارت کے طورطریقے تھے، جن کے باعث تجارت، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا ذریعہ بن چکی تھی۔ معاشرے میں تاجر کے پیشے کی عزّت نہ تھی۔ قدیم یونان میں اگرچہ علم و دانش کی عمل داری تھی، مگر تجارت اور تاجر کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا۔ اس دور میں ہرطبقے کے لوگوں کا اپنا اپنا خدا تھا، مگر چور، ڈاکو اور تاجر کا ایک ہی خدا (Hermes) تھا۔ یونان کے لوگ تو فلسفہ اور عقل و دانش کے دلدادہ تھے، مگر چور، ڈاکو اور تاجر کو ایک ہی صف میں کھڑاکرنے کی بڑی وجہ ڈکیتی نما تجارت تھی، جس میں تاجر دھوکا دہی اور فریب سے اشیا کی خریدوفروخت کرتے تھے۔

ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے معاشی نظام کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے تجارت اور تاجر کو عزّت واحترام کی نگاہ سے دیکھا۔ تجارت کو ایک معزز پیشہ بنایا اور تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد قراردیا۔ اس سلسلے میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ملتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مارکیٹ (منڈی) حرم کی مانند ہے یعنی مسلمان کی زندگی میں مارکیٹ مسجد کی طرح اہم اور پاک ہے۔ ایک اورحدیث میںآتا ہے کہ بازار (مارکیٹ) شیطان سے مقابلے کی جگہ ہے، یعنی زیادہ منافع کی ہوس سے بچاجاسکے۔ سچے تاجر کے رُتبے کے بارے میں فرمانِ رسولؐ نے گویا نجات کا راستہ دکھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ سچے تاجر کا رُتبہ شہدا اور صالحین کے بعد ہے۔ بڑی غورطلب بات ہے کہ ایسا فرمان، طبیب (Doctor) یا کسی اور پروفیشن کے بارے میں نہیں ہے۔ اس حدیث میں پیغمبرانہ بصیرت اور دُور رس پیغام اور دعوت پوشیدہ ہے۔

 دورِ حاضر میں تجارت کی تعریف اشیا اور خدمات (goods and services) کی خریدوفروخت کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بازار میں روزمرہ کے استعمال کی چیزیں فروخت کرنے والا شخص ہی تاجر نہیں بلکہ خدمات مہیا کرنے والےڈاکٹر، وکیل اور استاد وغیرہ سب تاجر کے زُمرے میں آتے ہیں۔ اگر یہ سب لوگ دیانت دار ہوجائیں تو انسانی زندگی اس کرئہ ارض پر خوش حالی اور امن کی ضامن بن جائے اور ایسا ہی ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں ہوا تھا۔جب معاشی جدوجہد میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے معاشرے کے ان افراد کے بارے میں سوچا، جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے۔ قرآن نے قُلِ الْعَفْوَ کے مختصر مگر خوب صورت جواب میں معاشیات کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا۔ اقبال نے اسی پوشیدہ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

قُلِ الْعَفْوَکی حقیقت

معاشی جدوجہد انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے اور ہرفرد اپنی صلاحیتوں، ارادے اور دستیاب ماحول کے مطابق حصولِ معاش کی کوشش کرتا ہے مگرمعاشی تگ و دو کے ثمرات یکساں اور ہموار نہیں ہیں۔ معاشی دوڑدھوپ کے نتیجے میں کچھ لوگ بہت آگے نکل جاتے ہیں، جب کہ معاشرے کا بڑا حصہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ ساد ہ الفاظ میں معاشی جدوجہد کے باعث قدرِ زائد (Surplus Value) تو پیدا ہوتی ہے، جسے اکنامکس کی زبان میں بڑھوتری (Growth) کہتے ہیں مگر اس کی منصفانہ تقسیم (Judicious Distribution) معاشی نظام کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ منصفانہ تقسیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دستیاب بڑھوتری (Given growth) کو معاشرے کے سارے افراد میں یکساں طورپر تقسیم کر دیا جائے بلکہ معاشی دوڑ دھوپ کے لیے ایسا سازگار ماحول (Enabling environment) پیدا کر دیا جائے، جس میں معاشی ثمرات ممکن حد تک سارے معاشرے تک پہنچائےجاسکیں ۔ دورِ حاضر کی زبان میں اسے مشترکہ خوش حالی یا مربوط معاشی ترقی کہتے ہیں۔

قدرِ زائد یا بڑھوتری کی تین بڑی بنیادی وجوہ ہیں، جن میں دو تو فطری ہیں اور تیسری انسانی۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں وسائل کے حوالے سے فطری ودیعت (Natural Endowment) مختلف ہے۔ کچھ علاقے معدنی دولت (تیل، سونا اور ایسی دوسری اشیا) سے مالا مال ہیں، جب کہ کچھ محروم۔ اسی طرح انسانی زندگی بھی استعداد اور میلان طبیعت (Aptitude) کے باعث ایک جیسی نہیں ہے۔ اس فطری غیرہمواری کے باعث کچھ علاقے/ملک دوسرے علاقوں/ملکوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اور ایک ہی علاقہ میں کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ خوش حال ہوجاتے ہیں۔

قدرِ زائد کی افزایش کی تیسری شکل انسانی ہے، یعنی سود کا کاروبار جس کے باعث سرمایہ کے ثمرات (return on capital) چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کے باعث دولت کی تقسیم انتہائی غیرہموار ہوجاتی ہے جیساکہ دورِ حاضر کی معاشی ترقی سےظاہرہے۔ قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم کا انتظام آج کی معاشیات کا سب سے اہم مسئلہ ہے، جسے ہم انسانیت کے تینوں معاشی نظام (مدینہ اکنامکس، سرمایہ داری اوراشتراکیت) کی زبان میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔

سرمایہ داری کی بنیاد سودی کاروبار اور Survival of the Fittest ہے۔ سودی کاروبار کی دوبڑی قباحتیں ہیں: ایک تو پیداواری عمل میں سرمایہ کامعاوضہ بطورِ سود دوسرے عاملینِ پیداوار (زمین، محنت اورآجر) سے زیادہ ہے۔ مشہورمعاشیات دان تھامس پکٹی نے یہ بات معاشی اعداد و شمارسے ثابت کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو کوئی اپنےزورِ بازو سے جس قدر کما لے وہ سب اس کا ہے۔

چونکہ سود کے کاروبار میںدوسرے عاملینِ پیداوار (خاص طور پر محنت) کا استحصال ہے، اس لیے ضروری تھا کہ Survival of the Fittestکے نظریے کا سہاا لیا جائے تاکہ دھوکا، فریب اور استحصال کے ذریعے کمائی ہوئی دولت چھپائی جاسکے اور اس کا ارتکاز ہوسکے۔ لہٰذا سرمایہ داری نظام میں قُلِ الْعَفْوَ جیسا سوال نہ پوچھا جاسکتا ہے اورنہ کبھی پوچھا گیا۔ سودی کاروبار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آخرکاریہ ساری انسانی زندگی کو اپنےکنٹرول میں لے لیتا ہے۔ معاشی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کے ادارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے معاشی نظام سیاسی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ غالباً اسی لیے شروع میں اکنامکس کےمضمون کو Political Economy کہا جاتا تھا۔ چونکہ پچھلے ۵۰۰ برس سے سودی کاروبار سماجی و معاشی زندگی کا مرکز و محور ہے، اس لیے اس عرصے میں سودی کاروبار نے وہ زری طاقت (Money Might) حاصل کرلی ہے جس سے حکومت کی فیصلہ سازی کے عمل کو کنٹرول کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر کا سودی کاروبارحکومت کے تحفظ میں پرورش پاتا ہے۔ ۲۰۰۸ء کے مالی بحران کے بعد مغرب کے ترقی یافتہ مگر سود زدہ ممالک کے دانش ور اب ایسی باتیں کررہے ہیں، جیساکہ ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی کتاب Barren Metal: A History of Capitalism as the Conflict between Labour and Usury کے نام سے ظاہر ہے۔ کتاب کے مصنف ای مائیکل جان کہتے ہیں کہ: Capitalism is state-sponsored usury ۔ سادہ الفاظ میں سرمایہ داری حکومتی تحفظ میں سود کا کاروبار ہے۔ آج کل امریکا اور یورپ میں ’مشترکہ خوش حالی‘ (Shared Prosperity)  کا بہت شوروغوغا ہے مگر نظامِ سرمایہ داری اس کا حامل نہیں ہے۔

قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم اشتراکیت میں انتہائی صورت میں سامنے آئی۔ اٹھارھویں صدی کے صنعتی انقلاب سے اگرچہ معاشی ترقی کے سارے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے، مگر ایک سوسال بعدہی دولت کی انتہائی غیرمساوی تقسیم اوراس کے نتیجے میں وجود پذیر ہونےوالی غربت اورمزدور کی کسمپرسی اورزبوں حالی نے انسانیت کے تیسرے معاشی نظام، اشتراکیت کو جنم دیا۔ اس نظام کے بانی کارل مارکس کا کہنا تھاکہ ’’پیداواری عمل میں محنت بہت اہم عامل پیداوار (factor of production) ہے جس کے باعث قدرِ زائد پیدا ہوتی ہے مگر قدرِ زائد کا زیادہ حصہ سرمایہ لے جاتا ہے‘‘۔

اس صورتِ حال کی وضاحت کے لیے کارل مارکس نے نظریہ قدرِ زائد اور نظریۂ اجنبیت اوربیگانگی (Theory of Alleniation) پیش کیے۔ یہ دونوں نظریے مزدور (have nots) کے بارے میں تھے۔ پہلے نظریے کے مطابق مزدور کو پیداوار کے عمل میں مناسب حصہ نہیں ملتا کیونکہ   سرمایہ دار سرمایہ کے زور پر پیداوار کا بڑا حصہ لے جاتا ہے جس سے غربت میں تسلسل کے باعث امیر اورغریب کی خلیج بڑھتی جاتی ہے۔ غریب آدمی کی ساری زندگی پیٹ کےدوزخ کو بھرنے میں گزرجاتی ہے اوروہ اعلیٰ انسانی اقدار سے اجنبی اوربیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ نظریۂ اجنبیت اوربیگانگی ہے۔ انسانی غربت اوراجنبیت کو ختم کرنے کے لیے کارل مارکس نے تمام ذرائع دولت کو حکومتی کنٹرول میں لینے کی بات کی جس پر پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد۱۹۱۷ء سے روس میں عمل ہوا۔ دراصل یہ قدرِ زائد کو نظم میں لانے کی کوشش تھی جس کانعرہ تھا:’’ہر ایک کو اس کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق ملے‘‘۔ یہ کوشش حقیقت میں معاشی ثمرات کو جبری طور پر تمام انسانوں میں برابر برابر تقسیم کرنے کا ایک غیرفطری عمل تھا۔ شروع کی کچھ کامیابیوں کے بعد یہ نظام ۷۰سال کے قلیل عرصے میں ہی زمین بوس ہوگیا۔

قُلِ الْعَفْوَ کا حصول ایسے ماحول کا متقاضی ہے جس میں ایک طرف افراد کو معاشی جدوجہد کی آزادی ہو، وہ محنت اور جانفشانی سے کام کریں اور منافع حاصل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے افراد اخلاقی اقدار کے بھی حامل ہوں، جس کے تحت وہ محنت سے کمائی ہوئی آمدنی اپنی مرضی سے ان لوگوں پر خرچ کریں جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں۔ مگر    سرمایہ داری میں سودی کاروبار کے باعث ایسے ماحول کی کوئی گنجایش سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مدینہ اکنامکس کی طرح اشتراکیت میں بھی سود کی مکمل ممانعت ہے مگر قدرِ زائد کی منصفانہ تقسیم کا اشتراکی تجربہ اس لیے بُری طرح ناکام ہوگیاکہ یہ طریق کار غیرفطری تھا۔ وسائلِ پیداوار پر جبری حکومتی قبضہ اور ہرقسم کی الٰہیات اور اخلاقیات سے مکمل دُوری نے ثابت کردیا کہ ایسے نظام کو دوام اوراستحکام حاصل نہیں ہوسکتا۔

روسی ادیب مائیکل شولوخوف کی دو کتابیں (اور ڈان بہتارہا اور کنوارے کھیت) اشتراکی نظام کی عملی کارکردگی پر بہت مؤثر انداز میں روشنی ڈالتی ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اجتماعی ملکیت کے تصور کی سمجھ نہیںآتی تھی۔ کمیون (Commune) سسٹم کے تحت گاؤں کے سارے گھوڑے اب سارے گاؤں کی ملکیت تھے۔ ناول میں ایک کسان کا ذکرہے جو انقلاب سے پہلے ایک گھوڑ ے کا مالک تھا۔ انقلاب کے بعد اس کی ڈیوٹی فارم ہاؤس پر لگا دی گئی، جس میں سارےگاؤں کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔ اشتراکی فلسفہ پر لیکچر کے دوران اسے بتایا جاتا کہ اب وہ سارے گاؤں کے گھوڑوں کا مالک ہے۔ کسان کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ اس کا تو اپنا گھوڑا بھی اس کی ملکیت میں نہیں رہا تھا، مگر گھاس ڈالتے وقت وہ زیادہ ہری گھاس اس گھوڑ ے کوڈالتا جو کبھی اس کا اپنا ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ایک افسانوی واقعہ ہے مگر اس سے بہت بڑی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کہ ملکیت کا تصور (sense of ownership) انسانی سرشت میں شامل ہے۔ انقلاب کے بعد دو نسلوں نے بڑی محنت سے کام کیا جس سے پہلے ۵۰برسوں میں روسی معیشت نے خوب ترقی کی۔ تیسری نسل میں محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کے لیے کوئی جذبۂ محرکہ (motivation to work) موجود نہیں رہا۔ الہامی اور اخلاقی جواز کی نفی کے باعث اشتراکیت وہ جوش اور ولولہ قائم نہ رکھ سکی، جس سے مشترکہ خوش حالی وجود میں آتی ہے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے معاشیات منتشر حالت (fragmented)  میں موجود تھی مگر معاشی نظام ابھی تک وجودمیں نہیں آیا تھا۔ معاشیات کی تاریخ کے مطابق سرمایہ داری کا آغاز تو ایڈم سمتھ نے ۱۷۷۶ء میں کیا، جسے عام طور پر پہلا معاشی نظام کہا جاتا ہے۔ اس کے ۱۰۰ سال بعد کارل مارکس نے دوسرے معاشی نظام، اشتراکیت کی بنیاد رکھی۔یہ صورتِ حال بہت بڑے سوال کو جنم دیتی ہے۔ کیا تینوں ابراہیمی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) معاشی نظام کے بغیر ہیں؟ حالانکہ تینوں مذاہب سرمایہ کا استعمال بطور سود کے بارے میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ یعنی سود تینوں مذاہب میں معاشی جدوجہد کا حصہ نہیں ہے مگر تینوں مذاہب میں قرض (بغیر سود کے) کی گنجایش موجود ہے۔ تورات میں اپنے بھائی کی مشکل وقت میں مدد کرنے کو کہا گیا ہے۔ بائبل میں قرض دینے کے بعداسے معاف کرنے (debt forgiveness) کا تصور بہت اہم ہے۔ بیان ہے کہ سات سال بعد اپنے بھائی اور دوست کا قرض معاف کر دیا جائے۔ بائبل میں اسے خداوند کی ادائیگی (Gods's Release) کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں یہی بیانیہ قرضِ حسن اور قُلِ الْعَفْوَ  کے نام سے ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ سرمایہ داری انسانیت کا پہلامعاشی نظام ہے۔ تینوں مذاہب نے معاشی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں سود کو معاشی عمل کا حصہ نہیں بنایا اور سود کے انسانی زندگی پر بُرے اثرات کی بات کی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں چھپنے والی کتاب Religion and Finance میں سود کا ابراہیمی مذاہب کے تناظر میں ذکر کرنے کے بعد ۲۰۰۸ء کے مالی بحران کی بڑی وجہ سودی کاروبار کو بیان کیا ہے۔

حقیقت میں معاشیات اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی سماجی زندگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکلیں بدلتی رہیں۔ ابتدائی معاشی حالت کو ہم شکارچی دور (Hunter Gathere Age) سے جانتے ہیں جس میں خوراک اور پناہ گاہ ہی دو بنیادی مسئلے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں بہتری آتی رہی۔ منظم معاشرے اور حکومتیں وجود میں آئیں۔ ساتویں صدی میں دُنیا میں ایران اور روم دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ان ممالک کی معاشیات بھی بہت مضبوط تھی۔ بڑی بڑی تجارتی منڈیوں میں زرعی اجناس اور صنعتی اشیا کی خریدوفروخت ہوتی۔ عوام اور بادشاہ ضرورت کے وقت ساہوکاروں سے اُدھار لیتے۔ ملکیت کے تصور کو قبولیت ِ عام کا درجہ حاصل تھا۔ تاجر کے پیشے نے تجارت کے فروغ کی نئی راہیں کھولیں۔ کرنسی کی ایجاد سے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری آئی۔

معاشیات کے یہ بنیادی ستون تو موجود تھے مگر ابھی تک وہ معاشی قوانین اور ضوابط وجود میں نہیں آئے تھے، جنھیں ہم معاشی نظام کہہ سکیں، مثلاً مارکیٹ میں اشیاکی قیمتیں کیسے طے ہونی ہیں؟ اکثرقیمتیں منڈی کی رسد اور طلب کے مطابق ہی ہوتی تھیں مگر حکومتی مداخلت عام تھی۔ قحط اورسیلاب کی صورت میں حکمران قیمتیں اپنی مرضی سے مقرر کرتے۔ سودی قرض کی واپسی بھی بادشاہ اور امرا کی منشا کے مطابق تھی۔ تجارت اور تاجر کے پیشے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ملکیت (زمین، جاگیر وغیرہ) کا عطا ہونا یا ضبط ہوجانا، بادشاہ کی خوشی یا ناراضی کے مطابق ہوتا۔ اسلام کے ظہور نے اس منتشر معاشیات کو قانون و ضوابط عطا کرکے اسے ایک معاشی نظام میں منظم کر دیا، مثلاً تجارت کو معزز پیشہ قرار دیا اور تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد بنادیا۔ قیمتوں کے تعین (determination of prices) کوہرحال میں منڈی کی طلب اور رسد سے جوڑ دیا۔ سود کو منع مگر قرض کی ادایگی کو لازمی کردیا۔ ایمان داری اور فلاح کو تجارت کی بنیاد بنا دیا۔ مارکیٹ میں اشیا کی خریدوفروخت پرٹیکس ختم کرکے زکوٰۃ کا نظام متعارف کرایا۔ صاحب ِ ثروت لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ان لوگوں کا بھی خیال کریں جو معاشی طور پرکمزور ہوں۔ یہ نظام قرآن میں نازل ہوا اور خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں نافذ کیا۔ اس طرح مدینہ اکنامکس دُنیا کا پہلا معاشی نظام ہے، جس میں دورِحاضر کےمعاشی نظام کےتمام اجزائے ترکیبی نہ صرف موجود ہیں بلکہ آج کے معاشی مسائل خاص طورپر ’مشترکہ خوش حالی‘ کا حل بھی دستیاب ہے۔

 ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کی بنیاد ایمانیات اور اخلاقیات پر ہے۔ یہ ترتیب قرآن کے دو الفاظ صلوٰۃ اورزکوٰۃ فراہم کرتے ہیں۔ دل چسپ بات ہے کہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی یہی ترتیب ہے۔ سورئہ مریم میں حضرت عیسیٰؑ جو ایک دن کے بچے ہیں لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے نبی بنایا اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے صلوٰۃ قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے‘‘۔ قرآن کی اس آفاقی ترکیب (صلوٰۃ اور زکوٰۃ) کو جب ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں نافذ کیاگیا تو ایک مثالی معاشرہ وجود میں آیا جس میں تجارت معاشی فلاح پھیلانے کا ذریعہ بن گئی اور لوگوں نے خود اپنی مرضی سے محنت اور ایمان داری سے کمائی ہوئی آمدنی سے ان لوگوں پر خرچ کیا جو معاشی طور پر کمزور تھے۔ قُلِ الْعَفْوَ کی یہی حقیقت ہے جس کے نمودار ہونے کے علامہ اقبال منتظر ہیں۔

قُلِ الْعَفْوَ اور دورِحاضر

درج بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’مشترکہ خوش حالی‘ کے لیے ضروری ہے کہ معاشی نظام سود سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط اخلاقی اقدار پرمبنی ہو۔ دونوں مشہور معاشی نظام (سرمایہ داری اور اشتراکیت) مشترکہ خوش حالی کےدرج بالا بنیادی لوازمات سے خالی ہیں۔ یہ اعزاز صرف ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کو حاصل ہے، جس میں یہ دونوں عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں اوراس معاشی نظام کی بنیاد دانش و بُرہان پر ہے۔ پچھلے ۵۰سال معاشیات کی تاریخ میں بہت اہم ہیں کیونکہ ان برسوں میں اشتراکیت اور سرمایہ داری بطورِ معاشی نظام اپنی چکاچوند (glitter and shine) کھو بیٹھے۔ ۱۹۹۱ء میں اشتراکیت کے خاتمے پر نظامِ سرمایہ داری کی افادیت اور فعالیت کے بڑے ترانے گائے گئے۔ساری دُنیا کی معاشی قیادت سرمایہ داری کو سونپ دی گئی۔ اس بات کو بڑے متکبرانہ انداز میں بیان کیا گیا کہ سرمایہ داری ہی انسانیت کا اکلوتا معاشی نظام ہے جس سے معاشی فلاح کے چشمے پھوٹیں گے۔ ۲۰۰۸ء کے مالی بحران نے ان سارے دعوؤں کی نفی کردی۔

قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے ۱۹۴۸ء میں کہہ دیا تھا کہ کوئی معجزہ ہی اسے مکمل تباہی سے بچاسکتا ہے۔ علامہ اقبال تو اس سے پہلے ہی سرمایہ داری کے سفینےکے ڈوبنے کی بات کرچکے تھے۔ اس ماحول میں ضروری ہے کہ قُلِ الْعَفْوَ کی عالم گیر حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس کو یونی ورسٹیوں میں پڑھایا جائے۔ اپنے نوجوانوں کو اسلام کی گمشدہ معاشی جنّت سے آگاہ کیا جائے کیونکہ اکیسویں صدی کی دُکھی انسانیت ایسے ہی معاشی نظام کی متلاشی ہے اور علّامہ اقبال بھی یہی چاہتے تھے:

خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نُورِ بصیرت عام کر دے