انسانی تہذیب میں معاشی ارتقا کا پہلا ذکر شکارچی دور (Hunter Gatherer Age) سے کیا جاتا ہے۱ جس میں انسان اور حیوانات کی زندگی خوراک اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش تک محدود تھی۔
’معاشیات‘ کو سادہ الفاظ میں محدود وسائل سے لامحدود خواہشات کو نظم میں لانے کا علم کہا جاتا ہے۔ مگر انسانی زندگی کا یہ دور معاشیات کے مضمون کے مروجہ مفہوم کے برعکس تھا۔ یعنی وسائل لامحدود تھے اور خواہشات محدود۔ اس کے باوجود معاشی نظام کی کچھ جزئیات اس سادہ معاشیات میں بھی موجود تھیں۔ کام کو قدرے سہولت سے کرنا بھی انسان نے تجربے سے سیکھ لیا تھا، جسے آنے والے وقتوں میں ’محنت کی تقسیم کار‘ سے پکارا جانا تھا۔ علاوہ ازیں، اسی دور میں ہمیں ’بچت اور تقسیم‘ کے شواہد بھی ملتے ہیں، جو آج ایک جدید معاشی نظام کا بھی لازمی جزو ہیں۔ جانوروں کے برعکس انسان اتفاقاً ضرورت سے زائد ملنے والی خوراک کو محفوظ کرلیتے، تاکہ تلاش کے باوجود خوراک کی عدم دستیابی کی صورت میں ذخیرہ شدہ خوراک کو موجود لوگوں میں تقسیم کیا جاسکے۔ انسانی سوچ، محنت اور ارادے کے باعث انسانی سماجی و معاشی زندگی ارتقا پذیر رہی۔۲
خرید و فروخت کے یہ رضاکارانہ سودے، جنھیں ہم آج کی علم معاشیات کی زبان میں Economic Exchange (معاشی تبادلہ) یا Economic Transaction (معاشی ترسیل یا معاشی سودا) کہتے ہیں، ’شکارچی دور‘ میں بھی موجود تھے، مگر ان کی نوعیت رضاکارانہ کے بجائے طاقت اور چوری پر مبنی تھی۔ طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کی چیزیں زبردستی چھین لیتے تھے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں طاقتور افراد یا قبیلے دوسرے افراد یا قبیلوں کے پانی اور خوراک کے ذخیرے چھین لیتے تھے۔ تاریخ انسانی میں مالی یا معاشی تبادلے (Exchange) کی پہلی شکل بذریعہ طاقت یا چوری چکاری کی صورت میں تھی،جسے ہم ’تجارت‘ نہیں کہہ سکتے۔
جب معاشرے منظم ہوئے اور حکومتیں مستحکم ہوئیں تو تجارت کو بھی تحفظ ملا، جس میں خریدنے والے اور بیچنے والے ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوکر اپنی مرضی سے اشیاء سے اشیاء کا تبادلہ کرتے تھے۔ بارٹر دور میں تجارت کے فروغ میں کچھ مشکلات تھیں۔ کسان گندم پیدا کرنے کے بعدایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے، جنھیں گندم کی تو ضرورت ہو، مگر ان کے پاس وہ جنس بھی موجود ہو جو کسان کو درکار ہے۔ معاشیات کی زبان میں اسے ’دوطرفہ ضروریات کی مطابقت‘ (Double Coincidence of Wants) کہتے ہیں۔ جانوروں کے تبادلہ کی بھی یہی صورت تھی۔
دوسری مشکل وزن اور پیمائش کے بارے میں تھی، کیونکہ آج کے دور کی طرح وزن اور پیمائش کے پیمانے موجود نہیں تھے۔ کتنی گندم کے بدلے کتنے چاول لیے جائیں یا پھر کتنے گدھوں کے برابر ایک گھوڑا ہوگا، اس بات کا تعین بہت مشکل تھا۔ اس صورت میں دستیابی اور ضرورت فیصلہ کن محرکات تھے۔ چونکہ یہ تبادلہ صرف دو افراد کے درمیان براہِ راست تھا، اس لیے خریدنے والے اور بیچنے والے اس سودے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی کوشش کرتے۔ ’علم معاشیات‘ کی زبان میں یہ تبادلہ ’برابر کی قدر کے تبادلے‘ کے مترادف تھا۔
اس سے پہلے ایک معاشی سودا ان اشیاء پر مشتمل ہوتا جو کھیت یا کارخانے میں پیدا کی جائیں اور منڈی میں ان کا تبادلہ کیا جائے، مگر ’زر‘ کے اب دو مزید استعمال ہوگئے: ایک تو ’تبادلے کا وسیلہ‘ (Medium of Exchange) اور دوسرے زر کو سود پر اُدھار دینا۔ اب ’زردار‘ کے پاس دوراستے تھے: ایک تو زر کو اشیاء اور اجناس کی پیداوار کے کاروبار میں لگاکر نفع کمانے کی کوشش اور اس کام میں نقصان کے امکانات بھی، یا پھر ’زر‘ دوسرے لوگوں کو پہلے سے طے شدہ منافع پر ایک خاص مدت کے لیے قرض پر دینا یعنی سود کا کاروبار۔ تجارت کی یہ شکل ’بارٹر دور‘میں زیادہ ممکن نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا سود۵ ’نوسنگی دور‘ کے کسان نے اپنے چچازاد کسان بھائی کو بیج کی شکل میں دیا اور فصل کی کاشت کے وقت دی گئی مقدار سے زیادہ کا مطالبہ کیا، مگر جنس یا اشیاء کو سود پر دینے کا یہ کاروبار زیادہ فروغ نہ پاسکا۔
’زر‘ کی اس ایجاد نے یہ مشکل آسان کردی کیونکہ اس کی ترسیل نہایت آسان تھی۔ سود کا کاروبار آسان بھی تھا اور محفوظ بھی، کیونکہ اس میں نقصان کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، لہٰذا سود کے کاروبار میں بہت ترقی ہوئی جس کے باعث معیشت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی: معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں اور کارخانوں میں اجناس اور اشیاء کی پیداوار اور منڈیوں میں ان کی خریدوفروخت میں مصروف ہوگیا۔ سرمایہ، محنت اور وقت کا یہ استعمال معاشی ترقی کی بنیاد بن گیا۔ ’جدید علم معاشیات‘ کی زبان میں معیشت کا یہ حقیقی شعبہ (real sector) ہے۔ سود پر کام کرنے والے تھوڑے لوگ تھے۔ اس دور میں حقیقی شعبہ میں کام کرنے والے تاجر اشیاء کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سود کا کام بھی کرلیتے تھے۔ چند افراد ایسے بھی تھے، جو سرمایے کو سود پر اُدھار دینے کے علاوہ کوئی کام نہ کرتے تھے۔ ایک طرح سے یہ افراد معاشی اُدھارکی ضرورتیں (Credit Needs) پورا کرتے۔ چونکہ بنک یا مالیاتی ادارے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے،اس لیے قرض لینے والوں اور قرض دینے والوں میں براہِ راست رابطہ ہوتا تھا۔ جسے ہم جدید زبان میں P2P (Person to Person Finance) فرد کا فرد کے درمیان مالیاتی عمل کہتے ہیں۔۶
تجارت کے پیشے نے کاروبار میں آسانی اور بڑھوتری میں بہت مد د کی۔ پیداوار کے عمل میں مشغول لوگ اپنی ہی پیدا کردہ اشیاء کو بیچنے کی زحمت سے بچ گئے۔ خریدار کو بھی آسانی ہوگئی کیونکہ مختلف چیزیں اب انھیں ایک ہی جگہ پر دستیاب ہونے لگیں۔ مارکیٹنگ سہولت کے علاوہ تاجر ضرورت مند لوگوں کو قرض فراہم کرتے تھے، حتیٰ کہ جنگ کی صورت میں بادشاہ بھی ان سے اُدھار لیتےتھے۔ ان سب آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود تاجر یا تجارت کے پیشے کی معاشرے میں کوئی عزّت نہ تھی۔
قدیم یونانی تہذیب میں سوسائٹی کے ہر شعبے کا اپنا ’خدا‘ تھا۔ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ تاجر، چور اور ڈاکو کا خدا ایک تھا، جسے Hermes (ہرمز)کے نام سے پکارتے تھے۔۷ رومن سلطنت میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ ڈاکو، چور، اُچکے اور تاجر لوگوں کا خدا اب Mercury (مرکری)۸تھا اور تجارت اس دور میں بھی ایک کمتر درجے کا پیشہ تھی۔ انگلستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس میں بادشاہِ وقت نے تاجروں سے قرض لیا اور واپسی سے انکار کردیا۔۹ قحط یا اشیائے خورونوش کی قلت کے وقت تاجر ذخیرہ اندوزی کرلیتے، تاکہ ان اشیائے ضروریہ کو مہنگے داموں فروخت کریں۔ ایسے موقعوں پر حکومت کے کارندے تاجروں کے گودام پر چھاپے مار کر ذخیرہ شدہ اشیاء قبضہ میں کرلیتے اور اکثر اوقات تاجروں کو گرفتار کرلیا جاتا۔ عام لوگ اکٹھے ہوکر ایسے مناظر دیکھتے، تاہم ان کے دلوں میں بھی ان مصیبت زدہ تاجروں کے لیے رحم کی کوئی لہر نہ پیدا ہوتی، جن سے وہ صبح و شام اشیائے صَرف خریدتے تھے۔
’معاشیات‘ کے طالب علم کے لیے یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ قدیم دور میں تاجر اور تجارت پیشے سے وابستہ معاشرتی نفرت اور حقارت کی وجہ کیا تھی؟ بظاہر تو تاجر، معاشی ترقی میں ایک اہم کردار تھا اور تجارت معاشی زندگی کی بنیاد تھی، مگر ایسا رویہ کیوں؟ معاشرے کے دوسرے پیشوں کے مقابلے میں تاجر کی حیثیت مختلف اور منفرد ہے۔ حکیم یا ڈاکٹر کے پاس لوگ صرف بیماری کی صورت میں جاتے ہیں۔ عالم کے پاس بھی کسی علمی گتھی کو سلجھانے کے لیے ہی رجوع کیا جاتا ہے مگر تاجر کے ساتھ رابطہ تو مسلسل تواتر کے ساتھ ہوتا ہے۔ خورونوش کی اشیاء کے لیے صبح و شام تاجر کی دکان پر جانا پڑتا ہے۔ یہ رابطہ کبھی خریدار اور کبھی فروخت کنندہ کی حیثیت میں ہوتا ہے۔ خریدوفروخت کی دونوں حالتوں میں عام توقع ایک کھرے سودے (Fair Deal) کی ہوتی ہے، جس میں خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں استفادہ کرتے ہیں، جیساکہ ’بارٹر دور‘ میں تھا کیونکہ ایک ’معاشی سودا‘ صرف دو افراد کے درمیان تھا۔ لیکن تاجر کے آنے سے یہ توازن بدل گیا۔ اب ایک معاشی سودے کےتین فریق تھے اور تاجر دو بنیادی فریقوں یعنی بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان رابطے کے طور پر کام کرتا تھا۔ تاجر کے پیشے کی اس صورت میں ہی عزّت ہوتی جب ایک معاشی لین دین دونوں بنیادی فریقوں کے درمیان ’برابر کی قدرکے تبادلے‘ کے مترادف ہوتا۔
جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی تبادلے کی صورت طاقت کے بل بوتے پر تھی، جس میں طاقت ور لوگ کمزور لوگوں سے ان کے وسائل چھین لیتے تھے، جب کہ تجارت، منڈی یا مارکیٹ میں رضاکارانہ تبادلے کا نام ہے، جس میں خریدنے اور بیچنے والے اپنی مرضی اور خوشی سے لین دین کے عمل میں شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ کا رضاکارانہ تبادلہ ہرقسم کی چوری اور جبر سے پاک ہو۔ تاجروں کی زیادہ منافع کمانےکی حرص اور لالچ کے باعث معاشی سودے ’برابر کی قدرکے سودے‘ بن جاتے ہیں، جس طرح ڈاکو اور چور علانیہ طاقت کے زور پر عام لوگوں کو لوٹ لیتے تھے۔ اسی طرح تاجر بھی عاجزی اور مسکراہٹ سے انتہائی زیادہ منافع لے کر یا چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے عام لوگوں سے ان کی جمع پونجی بٹور لیتے تھے۔ شاید اسی چوری نما تجارت کے باعث قدیم دور کے فلسفی یونان نے چور، ڈاکو اور تاجر کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا۔
معاشی ارتقا کا یہ سفر منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا۔ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقلی نے کچھ عملی طریقوں کو جنم دیا، جو معاشی عمل کا مستقل جزو بن گئے۔ مثال کے طور پر ملکیت کا تصور، منڈیوں کا قیام اور ان کی کارکردگی، قیمتوں کا آزادانہ تعین اور ان میں حکومت کی مداخلت اور سود کا کاروبار وغیرہ۔ یہ معاشی سفر کے ایسے بنیادی ستون ہیں جن سے ’منتشر معاشیات‘ (Fragmented Economics) کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ معاشیات کے انھی شذرات سے ابھی ایک معاشی نظام کی تکمیل ہونا باقی تھی۔
چھٹی صدی کے آخر میں روم اور ایران دُنیا کی دو بڑی مستحکم حکومتیں تھیں۔ ان دونوں تہذیبوں میں منتشر معاشیات بدرجہ اَتم موجود تھی۔ تجارتی منڈیوں کی چہل پہل، قیمتوں کا تعین، کبھی طلب اور رسد کی قوتوں کے مطابق اور کبھی حکومت کی مرضی کے مطابق۔ سود پراُدھار لی گئی رقم کی کبھی واپسی اور کبھی ضبطی، ملکیت کے تصور کا کبھی اقرار اور کبھی انکار۔ معاشیات کے یہ سارے بنیادی ستون تو موجود تھے، مگر ابھی تک انھیں کسی قانون اور ضابطے کے تحت بیان نہیں کیا گیا تھا۔ سادہ الفاظ میں انسانیت ابھی تک ایسے ’معاشی نظریہ‘ کی تلاش میں تھی، جو معاشی عمل کے تمام پہلوئوں کو قوانین و ضوابط کی شکل میں بیان کرے۔ ساتویں صدی کی پہلی چوتھائی میں دین اسلام کے ظہور کے ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشی نظام بھی وجود میں آیا، جو قرآن میں بیان ہوا اور ریاست ِ مدینہ میں اس کا نفاذ ہوا۔۰
حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں اہلِ مغرب اس سے واقف ہوئے۔ بعد میں یہ نظام پوری دُنیا میں پھیل گیا اور چار سو سال تک دُنیا میں ’غالب معاشی نظریئے‘ کے طور پر قائم رہا۔
ساتویں صدی کو عام طور پر ’مذہبی دور‘ (Age of Faith) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لیے دُنیا کے پہلے معاشی نظام کو عبادات اوررسومات کی طرح ہی سمجھا گیا۔ اس سے پہلے یہودیت اور عیسائیت میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں الہامی مذاہب میں بہت بڑے معاشی مسئلے ’سرمایہ‘ کے استعمال پر بات ہوئی ہے، اور تینوں مذاہب نے ’سرمایہ‘ کا استعمال بطور سود برتنے کی ممانعت کی ہے۔
تاہم ساتویں صدی کی ’مدینہ معاشیات‘ ؎ ۱۱ نے نہ صرف سود کی مخالفت کی بلکہ سرمایے کے استعمال کا صحیح طریقہ بھی بتایا۔ سود کی ممانعت کے ساتھ ساتھ اس نظام نے تجارت اور تاجر کے پیشے کو عزّت دی۔ تجارت کو معاشرتی فلاح کا ذریعہ قرار دیا اور سچّے تاجر کو معاشرے کا معزز ترین فرد بتایا اور بنایا۔ ایسے وقت میں جب دُنیا ’کھلی معاشی منڈی‘ (فری مارکیٹ اکانومی) کے تصور سے مکمل طور پر ناآشنا تھی۔ ساتویں صدی میں یہ نظام ریاست ِ مدینہ میں عملی طور پر نافذ ہوا، جس میں مارکیٹ مسجد کی طرح محترم اور مقدس تھی اور منڈی میں قیمتوں کا تعین ہرحال میں اشیاء کی طلب و رسد کی قوتوں کے مطابق ہوتا تھا۔ ساتویں سے گیارھویں صدی تک دُنیا میں غالب رہنے کے بعد یہ معاشی نظام وقت کے دھندلکوں میں غائب ہوگیا۔ ۲۰۱۱ء میں ملایشیا کے معاشیات دان مرتاسزکا (Murat Cizacka) ؎ ۱۲ نے مدینہ اکنامکس کو دُنیا کا پہلا Market Based Economic System قرار دیا۔۲۰۱۴ء میں جرمن اسکالر بینڈکٹ کوہلر (Benedict Koehlet) نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اپنی مشہور کتاب Early Islam and Birth of Capitalism میں کہا کہ سرمایہ کاری کا نظام، اسلام کے اوّلین دور میں پیدا ہوا۔ ؎ ۱۳
حوالہ جات
۱- ایم ساہلنز (Sahlins) Stone Age Economics (۱۹۷۲ء) ناشر: ایلڈن اتھرٹن، نیویارک
۲- ایم ایم احمد، The 9th Habit for Effectiveness، مطبوعہ جرنل آف بنکرز پاکستان (۲۰۰۷ء)
۳- کہا جاتا ہے کہ Neolithicفلزی انقلاب، دس ہزار سال پہلے آیا، جس میں ’شکارچی دور‘ کی انسانی زندگی خانہ بدوشی سے زرعی معاشرت میں تبدیل ہوگئی۔
۴- آر اے جونز (Jones) The Origin and Development of Media of Exchange، مطبوعہ جرنل آف پولیٹیکل اکانومی، (۱۹۷۶ء) ص ۷۵۷-۷۷۵
۵- ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تک‘ ، ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۲۰ء، ص ۲۵-۳۵
۶- پی رنٹن (Renton) Understanding peer to peer Lending ، (۲۰۱۱ء)
۷- www.ancient.eu/Hermes/Roman-God-Britannica.com
۸- مرکری،
۹- کے روز برگ اور آرٹی ہوپکنز، The Romance of Bank of England، (۱۹۷۳ء)، لندن
۱۰- ایم لومبرڈ (Lombard ) The Golden age of Islam، (۱۹۷۵ء)
۱۱- محمدایوب، اسلامی مالیات، ۲۰۰۷ء، وائلی اینڈ سنزلمیٹڈ،
۱۲- ’غیرسودی معیشت سے سودی معیشت تکــ‘ماہ نامہ ترجمان القرآن،(اکتوبر ۲۰۲۰ء)، ص۲۵-۳۵
۱۳- بی کوہلر (Koehler) Early Islam and Birth of Capitalism (۲۰۱۴ء)