جو دولت جائز حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی ہو، اس کے بارے میں یہ سوال اُٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ مِن این لک ھٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا؟)۔ اس دولت کے بارے میں قانونی تحقیق ہونی چاہیے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے، تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے، بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، تاکہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کرسکے، جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو، یا جس میں خود اُس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔
اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صرف نہیں کرسکتا۔ شراب نوشی اور قماربازی اور زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ اِسراف اور حد سے زیادہ ترفّہ اور تنعُّم پر بھی وہ حدود عائد کرتا ہے۔ اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اور تمھارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہونے کا آدمی کو حق دیتا ہے۔ اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسب ِ مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کرسکتا ہے۔
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اُس فرد پر، جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عائد کرتا ہے۔ نیز وہ اموالِ تجارت پر، زمین کی پیداوار پر، مواشی پر، اور بعض دوسرے اموال پر بھی، ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔
اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہوگئی ہو، اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کردیتا ہے، تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔ (’اسلام اور عدل اجتماعی‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۴، جولائی ۱۹۶۲ء، ص ۴۵-۴۶)