دنیا بھر کے مسلم اہلِ علم و فضل نے یہ اہم سوال اُٹھایا ہے کہ مسلم اُمہ کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہوا ہے؟ کیا معاذاللہ، اسلام ہی غیر متعلق ہوگیا ہے یا کیا اسلام کو اور تاریخ میں اس کے کردار کو سمجھنے کے لیے مسلم طرزِ فکر میں کوئی خامی ہے؟ مغربی استعمار کے شکنجے سے آزادی کی جدوجہد میں اسلام کو مؤثر ترین شکل دینے کی ترکیب کیا ہو، تاکہ مسلم معاشرت کو خود اسی کی بنیادوں پر استوار کیا جاسکے ؟
غوروفکر اور بحث و مباحثے کی ان ساری کوششوں کا مقصد امت کو تجدید اور تشکیل نو کے راستے پر ڈالنا تھا۔ جمال الدین افغانی، امیر شکیب ا رسلان، حلیم پاشا، بدیع الزماں سعید نورسی، مفتی محمد عبدہٗ، ڈاکٹر محمد اقبال، رشید رضا ،حسن البنا، ابوالکلام آزاد، سیّد قطب شہید،سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، مالک بن نبی اور متعدد دیگر مفکرین ومصلحین نے انھی سوالات پر غور کیا، اور اُمہ جس دلدل میں دھنس چکی تھی، اس سے اُمت کو نکالنے کے لیے اپنے اپنے فہم کے مطابق مثبت راہیں متعین کیں۔بلاشبہہ مختلف حالات اور الگ الگ پس منظر میں، ان رجالِ کار کی بعض آرا سے اختلاف کی گنجایش موجود ہے، مگر مجموعی طور پر درست سمت کے تعین کے لیے، ان سبھی نے دردِ دل سے کاوشیں کی ہیں، جن کی قدر کی جانی چاہیے، اور منزل تک پہنچنے کے لیے دینی، فکری، تحقیقی، علمی،سیاسی اور اجتماعی جدوجہد کرنی چاہیے۔
مفکرین اور مصلحین کی اس کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ اس گھٹاٹوپ فضا میں ۱۹۲۰ء کے زمانے میں صرف ۱۷ سال کی عمر میں انھوں نے مسلم امہ کی تعمیرِنو کا بیڑا اٹھایا ۔دس سال کی صحافتی زندگی کے بعد انھوں نے خود کو مسلم فکر کی تشکیل نو کے جاں گسل کام کے لیے وقف کر دیا اور مسلم دُنیا میں سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے اور اُمت مسلمہ کی رہنمائی کی خاطر ایک تحریک بپا کی۔ جس کا مقصد امت کے احیا کے لیے راہیں متعین کرنا تھا، ایک ایسا راستہ جو پوری امت کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔
اخبار الجمعیۃ میں اسلام کا سرچشمۂ قوت کے حوالے سے سلسلۂ مضامین لکھنے کے بعد، ۱۹۲۷ء میں سیّدمودودی نے اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کا جواب دینے کے لیے ایک طویل تحقیقی سلسلۂ مضامین شروع کیا، جو کتابی شکل میں ڈھل گیا۔ ۱۹۳۰ء میں الجہاد فی الاسلام کی صورت میں ان کی یہ پہلی باقاعدہ کتاب دارالمصنّفین، اعظم گڑھ سے شائع ہوئی۔اس کے بعد ۲۲ستمبر۱۹۷۹ء کو اپنی وفات تک انھوں نے اسلام پر ۱۴۰کتب اور متعدد علمی مقالے لکھے، جن میں مذکورہ فکرمندی اور تاریخی تجربے کے تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی نمایاں ترین علمی خدمت چھ جلدوں پر مشتمل قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن 'ہے جو ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
اسلامی فکر کی وضاحت اور تشکیل جدید کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے مسلم معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیا، اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کی، جو اس کے تنزل اور انتشار و زوال کا باعث بنے۔ انھوں نے مغربی تہذیب پر اور دنیا، انسان، معاشرت و معیشت سے متعلق اس کے تصورات اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی جامع،علمی، منصفانہ اور مبنی برحقائق تنقید کی۔ وہ نہ تو مغربی تہذیب کے روشن پہلوؤں سے بے خبر تھے اور نہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے کج رو نظریات اور تحریکوں سے ناواقف تھے۔ وہ اس کے فکری مغالطوں، انسان، مذہب اور معاشرے کے بارے میں اس کے ناقص تصور ،اس کے اخلاقی الجھاؤ، سیاسی و سماجی کجی اور معاشی ناانصافیوں اور استحصال کے شاکی بھی تھے۔ سیّد مودودی کے افکار نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی بلامبالغہ تین نسلوں کو متاثر کیا۔ ان کی تصانیف پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔ بجا طور پرانھیں جدید اسلامی احیا کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔
سیّد مودودی بیک وقت ایک عالم دین، ایک سماجی مفکر اور سیاسی رہنما تھے۔ ان کا اوّلین اور نمایاں ترین کارنامہ اسلامی فکر کی تشکیل نو ہے، جس کا ماخذ تو دین کی اصل نصوص ہیں، تاہم ان کا انداز ہمارے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہٴ حیات کے طور پر پیش کیا۔ جس کا پیغام انسان میں باطنی تبدیلی پیدا کر کے اس کی روحانی اور اخلاقی تطہیر ہے۔ ان کے پیش نظر یہ ہے کہ ان تبدیل شدہ حضرات و خواتین کو متحرک کرکے نہ صرف ان کی زندگیوں کی تعمیر کی جائے بلکہ الہامی رہنمائی اور اللہ کے رسولوں بالخصوص خاتم الانبیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں فراہم کردہ نظریۂ حیات، اقدار ، اصولوں اور خیالات کے مطابق انسانی معاشرے اور تہذیب کی بھی تشکیل نو کی جائے۔
سید مودودی نے اسلامی فکر کے تقریباً تمام ہی پہلوؤں پر قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات کے طور پر انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور مسلم اُمہ ایک عالمی برادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے اور اسی پر اسلام کی اصل فطرت، ثقافت اور تہذیب استوار ہے ۔ بالفاظِ دیگر مسلم اُمہ ایمان کی بنیاد پر قائم ایک عالم گیر برادری ہے۔ توحید کے تصور نے انسان کو اس کائنات کی یک رنگی اور انسانیت کی یگانگت کی بنیاد پر یہ سبق دیا ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی توحیدکے دیے ہوئے قوانین اور اقدار اپنی آفاقیت کے ساتھ ان اُمور کا احاطہ کرتے ہیں۔
پھر یہ کہ اسلام کسی خاص قوم، برادری، نسل، علاقے یا زبان تک محدود نہیں ہے۔ یہ تو انسانوں کے خالق کی طرف سے اس کے رسولوںؑ کے ذریعے بھیجی گئی رہنمائی ہے،جس کا آغاز زمین پر زندگی کی ابتدا سے ہی ہو گیا تھا،یعنی اسلام تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کا دین ہے۔ اس لیے مسلمان، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیا ـؑپر ایمان رکھتے ہیں۔
’ اسلام‘ کا لغوی مفہوم ’سلامتی اور تسلیم‘ کا ہے۔اسلام یہ بتاتا ہے کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت و اطاعت ہے۔ اور یہ کہ اس کے نبی کو فکر و عمل کے لیے نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ تسلیم کیا جائے۔ یہ اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور رہنمائی کو مان کر زندگی گزاریں۔ ’شریعت‘ (لغوی معنی: راستہ) ایسے معیارات، اقدار اور قوانین کا مجموعہ ہے، جو مل کر اسلامی طرزِ زندگی تشکیل دیتے ہیں۔
اسلام انسان کے اختیار و انتخاب کی آزادی پر یقین رکھتا ہے اور ایمان و عقیدے کے حوالے سے کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ انسانوں کے لیے ایسی مذہبی اور ثقافتی ترتیب فراہم کرتا ہے، جو فی الحقیقت تکثیریت پر مبنی ہے۔ نظریاتی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے آزادانہ مرضی اور دلیل ہی واحد راستہ ہے۔ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے: ایمان اور عبادت، روح اور مادیت، شخصیت و کردار، فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی و بین الاقوامی اُمور۔
تاہم، زندگی اور کائنات سے متعلق اسلام کا اخلاقی طرز فکر سب پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر مادی شے کو بھی روحانیت اور تقدیس کی چھتری تلے جمع کردیا گیا ہے۔ اس سے نہ تو دنیاوی پہلو خارج ہیں اور نہ اسلام زندگی کے غیرمذہبی پہلووٴں کو مذہبی مراسم سے متصادم سمجھتا ہے، بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو ایک اخلاقی و روحانی نظام کے تابع کرتا ہے ۔
اس لیے اسلام بنیادی طور پر ایمان، رنگ، عقیدے، زبان اور علاقے سے قطع نظر تمام انسانوں کے لیے ایک اخلاقی اور نظریاتی طرزِ فکر ہے۔ یہ ثقافتوں اور مذاہب کے تنوع کی حقیقت تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کا احترام بھی کرتا ہے۔ مسلم اُمہ میں بھی تنوع موجود ہے ۔اسلام مصنوعی اتحاد، جبری اطاعت یا تضادات کے اجتماع کا حامی نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ بقائے باہمی اور باہمی تعاون کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔
اسلام میں ایمان و تہذیب کا ایک اہم پہلو ان اقدار کا فروغ ہے، جو قطعی اور عالم گیر ہیں۔ ان کے ساتھ وہ اس پر زور دیتا ہے کہ ایسے بنیادی اداروں کی تشکیل کی جائے، جو اس نظام کو مضبوطی اور پاے داری دیتے ہیں۔ پھر اس احساس کو بھی زندہ و توانارکھتاہے کہ زندگی کا ایک بڑا میدان ایسا ہے، جس میں موجود لچک، وقت کے بدلتے تقاضوں سے نباہ کر سکتی ہے۔ اسلامی اقدار کا ڈھانچا (Islamic System of Values) انسانی فطرت اور عالم گیر حقائق، پر استوار ہے، جس میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ان اقدار کے اطلاق کے لیے باریکیاں اور طریق کار بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی حالات کے مطابق اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
اسلام ایک عمومی ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے، لیکن یہ انسانی افعال و کردار کے لیے سخت گیر ہدایات سے احتراز برتتا ہے ۔یہ ایک فرد کو معاشرے، بلکہ تمام مخلوقات میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتا ہے۔ ہر فرد انفرادی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسان کی حیثیت سماجی مشینری میں محض ایک پرزے کی نہیں ہے۔ معاشرہ، ریاست، قوم اور انسانیت سب ہی اہم ہیں اور ہر ایک کا ایک خاص کردار ہے۔ تاہم، زندگی کے اختتام پر حتمی جواب دہی فرد ہی کی ہوگی ۔اس طرح اسلامی نظام میں فرد کی مرکزیت لازم ٹھیرتی ہے۔ یوں فرد کا ربط معاشرے اور اس کے اداروں سے بھی جوڑا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک متوازن تعلق بھی قائم کیا گیا ہے۔
اسلامی اخلاقیات، زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے تصور پر مبنی ہیں، نہ کہ زندگی کے انکار پر۔ اخلاقی ضابطے کی پاسداری کرکے انسانی افعال کے تمام پہلوؤں کو نیکی کا درجہ مل جاتا ہے۔ فرد کی سطح پر تقویٰ اور معاشرے میں اخلاقیات ایسی مطمئن زندگی تشکیل دیتے ہیں، جس میں ذاتی اوراجتماعی فلاح اور ہر ایک کی بہبود و ترقی محفوظ ہے۔ دولت کوئی مذموم شے نہیں بلکہ مال کمانے کی ترغیب دی گئی ہے بشرطیکہ اخلاقی اقدار اور معاشرتی حقائق کی پاس داری کی جائے۔ ایک اچھی زندگی انسانی کوشش کا ایک بڑا ہدف ہے ۔
اس دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی کا باہم براہ راست تعلق ہے کیونکہ یہ دونوں زندگی ہی کے دو رخ ہیں۔ زندگی کے غیر مذہبی امور کو بھی روحانیت سے استوار کرکے اور دنیاوی زندگی کی ہرشکل اور فعل کو اخلاقی نظام کا حصہ بنا کر، انسان کو یہ صلاحیت بخش دی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسا معاشرہ بھی تشکیل دے، جس میں سب کی ضروریات پوری کرنے کا سامان ہو۔
انفرادی آزادی، ملکیت کا حق اور مالی سرگرمی کا حق، کاروبار کے ضوابط اور وسائل و مواقع کی عادلانہ تقسیم، اسلام کے معاشی نظام کے لازمی عناصر ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ، ہرسطح پر اخلاقی چھلنیاں موجود ہیں۔ فرد کی نیت، ذاتی طرزِ عمل، معاشرتی رواج اور چلن، آجر اور اجیر کا رویہ اور فرد وریاست کا تعلق، ان سب کی تہذیب معاشی ضابطوں کو ایک ایسے مجموعی نظام کا حصہ بناتی ہے، جس سے انصاف اور سماجی فلاح یقینی ہو جائے۔ اس میں ریاست کا بھی ایک مثبت کردار ہے بالخصوص نگرانی، رہنمائی اور ضروری قواعد کی تشکیل کے ذریعے۔ تاہم، اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ آزادی، معاشی مواقع کے حصول اور حق ملکیت کا تحفظ کرے۔
اسلام کے طرزِ فکر میں ضروریات کے حصول کو اہمیت حاصل ہے اور یہ ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہو، اور جس کا بنیادی ذریعہ فرد کی محنت اور کمائی کے لیے عمل اور جدوجہد ہے۔ اس نظام میں ایسا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے جس میں نادار افراد کو بھی باعزّت زندگی گزارنے اور معاشرے کا مؤثر کردار بننے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے یہ کہا ہے کہ اسلام دولت کمانے کی ہرگز نفی نہیں کرتا بلکہ اسے اللہ کا فضل قرار دے کر تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے لیکن اس کا اصل ہدف اخلاقی بہتری اور روحانی مسرت کا حصول اور عدل و مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے، جس میں تمام افراد کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہوں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب معاشرہ معاشی اور سماجی اعتبار سے اپنے کمزور افراد کے لیے مؤثر مدد فراہم کرے۔
اس مقصد کے لیے خاندان کے ادارے، معاشرے اور ریاست کے دیگر ستونوں کا کردار تشکیل دیا گیا ہے۔ ’علم معاشیات‘ میں اسلام کا امتیاز آزادی و فرائض میں اور استعداد و انصاف میں متوازن تعلق قائم کرنا ہے۔ انصاف، اسلام کی اقدار میں سے ایک کلیدی تصور ہے اور عدل کا قیام اللہ کی طرف سے انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد بتایا گیا ہے ۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اپنے معبود سے روحانی تعلق تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسان کا دوسرے انسانوں اور دیگر مخلوقات سے تعلق بھی اسی طرح سنجیدگی سے لازم ہے۔
یہ اس طرزِ فکر اور انسان و معاشرت سے متعلق تصور کا مختصر بیان ہے، جس میں معیشت اور معاشیات سے متعلق سیّد مودودی کے طرزِ فکر کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سیّد مودودی معروف معنوں میں معیشت کے میدان کے ماہر تو نہ تھے، تاہم معاشی موضوعات پر ان کی تحریروں نے معیشت کے بارے میں ایک منفرد طرزِ فکر کی بنیاد ضرور ڈالی ہے، جسے اب ’اسلامی معاشیات‘ کہا جاتا ہے۔
سیّد مودودی نے نہ صرف قرآن اور سنت میں موجود معاشی تعلیمات کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے مجموعی تہذیبی پس منظر میں ایک فرد کی معاشی مشکلات کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ انھوں نے خاصی وضاحت سے بتایا ہے کہ ایک جامع انداز میں ان مشکلات کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے کہ معاشی زندگی کے اخلاقی تقاضوں کی پاسداری بھی ہو اور مادی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے کو دو ٹوک انداز میں اور پوری وضاحت سے بیان کرنا ہے۔
ممتاز برطانوی ماہر معیشت اور ڈرہم یونی ورسٹی میں مرکز برائے مشرق وسطیٰ اور اسلامی علوم کے ڈائرکٹر پروفیسر روڈنی ولسن(Rodney Wilson) کا کہنا ہے :
[سیّد مودودی کی] تحریروں اور تقریروں نے برصغیر میں ماہرین معیشت کی جدید نسل پر گہرے اثرات مرتب کیے،جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو ان خیالات و تصورات کے ساتھ ملا کر دیکھنے کی کوشش کی، جو انھوں نے اپنی تربیت کے دوران سیکھے تھے۔ اگرچہ ’اسلامی معاشیات‘ کی اصطلاح سیّدمودودی نے ایجاد کی تھی، لیکن اس شعبۂ علم نے ایک درسی مضمون کی شکل ۱۹۷۰ء میں اختیار کرنا شروع کی ۔ (مقالہ: The Development of Islamic Economics، مشمولہ: Islamic Thought in the Twentieth Century، (لندن:۲۰۰۴ء) ، ص ۱۹۶-۱۹۷)
جدہ، سعودی عرب میں اسلامی ترقیاتی بنک کے اسلامی تحقیق و تربیت کے ادارے (IRTI) کے ریسرچ ایڈوائزر ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے لکھا ہے:
پیشہ ور ماہر معیشت نہ ہونے کے باوجود اسلامی معاشیات کے میدان میں سیّدمودودی کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھیں تاریخ میں ایسے عظیم مفکرین میں شمار کیا جائے گا، جنھوں نے جدید دور میں اس شعبے کی تشکیل کے لیے بنیاد رکھی تھی۔ ہندوپاک میں اور دیگر مسلم ممالک میں اس میدان میں لکھی گئی تقریبا ًتمام تحریروں پر ان کی چھاپ ہے اور وہ انھی کی مرہون منت ہیں ۔(The Muslim World، (اپریل ۲۰۰۰ء) میں مقالہ Mawdudi's Contribution to Islamic Economics، ص ۱۶۳-۱۸۰)
سیّدمودودی نے ’اسلامی معاشیات‘ کے فلسفے، اس کی بنیادوں، اس کے منہج اور ایک اسلامی معاشی نظام کے اداروں کے خدوخال بیان کرکے بڑی بنیادی خدمت سرانجام دی ہے۔ انھوں نے روایتی معاشیات میں اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے والے فرد(Homo economicus) کے مقابلے میں ایک ایسے انسان کا تصور دیا ہے، جو اسلام کی بنیاد پر غوروفکر کرنے والا ایک ایسا ذمہ دار فرد ہے جسے اپنے افکار و خیالات اور فیصلوں کا آخرت میں جواب بھی دینا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بیان کرنا بھی دلچسپ ہے کہ جدید معاشیات کے دو بڑے مکاتب فکر کے بانی ایڈم سمتھ [م:۱۷۹۰ء] اور کارل مارکس [م: ۱۸۸۳ء] بھی بنیادی طور پر کوئی ماہرین معاشیات نہ تھے، لیکن کلاسیکی اور اشتراکی مکاتبِ فکر کی بنیاد ان دونوں مفکرین کے تصورات اور تصانیف پر کھڑی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء میں پروفیسر الینور اوسٹروم (Elinor Ostrom -انڈیانا یونی ورسٹی) نے معاشیات کا ’نوبیل پرائز‘ حاصل کیا، حالانکہ یہ خاتون، معروف پیشہ ورانہ بنیادوں پر ماہر معاشیات نہیں ہیں۔
ہم متوجہ کرتے ہیں کہ ماہرین سماجیات و سیاسیات اور سماجی و سیاسی جدوجہد سے وابستہ کارکنان، مولانا مودودیؒ کی تصانیف کو غور سے پڑھیں۔ اس سے اُنھیں ایسا وژن اور بصیرت حاصل ہوگی، جس کی روشنی میں موجودہ سماجی ومعاشی فساد سے معاشرے کو پاک کرنے اور معاشی عدل کی تعمیر کے مؤثر طریقے اپنا سکیں گے۔(جاری)