۱۳۵۴ھ/ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقعے پر امام حسن البنا ؒ نے ’سعودی جوانوں کی انجمن‘ کے زیراہتمام منیٰ میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر اخباراُم القریٰ نے ۱۹ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ [۱۳مارچ ۱۹۳۶ء]کے شمارے میں شائع کی۔
میرے معزز بھائیو! میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز، اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۱۰۳ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳) [سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے]۔
اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۱۰ۧ (الحجرات ۴۹: ۱۰) [مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ]۔
اسلام کا بہترین ہدیہ، سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ، پُرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد اُبھرا ہے۔
معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد اُبھارتا ہے:
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۱۲۵ (البقرہ ۲: ۱۲۵) [اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو] ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا: ’’ذرا دل کو قرار پکڑنے دو، اور اس تذکرے کو سمیٹو‘‘۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یاد آتے ہیں۔
ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کردیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ، مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں، ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!
معزز نوجوانو، آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔
اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے، وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے‘‘۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔
شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔
آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔
ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور نااُمیدی اور مایوسی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں، ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:
يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۸۷ (یوسف ۱۲: ۸۷)[میرے بچو، جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ]۔
یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰) [اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں]۔
جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ، اُمتوں اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے، اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے، اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے، سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے، ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۴ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۵ۙ وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۶ (القصص ۲۸: ۴-۶) [واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا ]۔
یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:
ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۱۳۸ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) [یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت]۔
آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔
میرے بھائیو، تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔
میں اس موقع پر، آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔
جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا، لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے، اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔
امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ مسلم نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمۂ صافی سے بجھ سکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو، وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو، اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:
اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۰ۭ وَمِـمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۱۷(الرعد ۱۳:۱۷) [اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے]۔
اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو، اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۵۷ (الاعراف ۷:۱۵۷)[(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں ]۔
اے نوجوانو، اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے، اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں، برطانیہ سب سے عظیم ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔
اے اسلام کے سپاہیو، تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۱۱۰ (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰) [اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں ]۔
یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو، بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔
میرے بھائیو، مجھ پر اعتماد کرو ، جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری رُوئے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔
اے نوجوانو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا، اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ انسانیت کے معلم اور رہنما ہیں۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق، ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو اَزسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔
مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے، یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین