حسن البنا شہیدؒ


رمضان ایک نادرموقع ہے جو سال میںصرف ایک دفعہ میسر آتا ہے۔ اب ہمارے اور اس مبارک مہینے کے درمیان چند ہی دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ کے نیک بندوں پرمزید برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے شب وروز میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پرخصوصی نظرِ کرم فرماتا ہے، اُن کی دعائیں قبول فرماتا ہے ، اطاعت گزاروںکے ثواب کو دُگنا کرتا ہے، اور گنہگا روںاور خطاکاروں سے درگزر فرماتا ہے۔

نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : جب رمضان آنے لگتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادی یہ آواز لگاتا ہے : اے بدی کے طلب گار! رک جااور اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ۔ (بخاری)

ماہ صیام ایسے حالات میں طلوع ہورہا ہے کہ جب مسلمان گوناگوں مسائل کا شکار ہیں  جن کا مقابلہ کرنا اللہ کی اُس تائید ونصرت کے بغیر ممکن نہیں ہے، جس کااس نے اپنے مومن بندوں سے وعدہ فرمایاہے :

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اوربرائی سے منع کریں گے ۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (الحج ۲۲:۴۱)

آج مسلمانوں کے سامنے وادیِ نیل کا مسئلہ ہے، فلسطین وجزائر عرب کا مسئلہ ہے،  پاکستان ، ریاست حیدرآباد اور ہندستان میں مسلم اقلیت کے مسائل ہیں ۔ان کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں مسلمانوں کو درپیش لا تعداد گمبھیر مسائل ہیں، جن سے نکلنا تائیدِ خداوندی کے بغیرممکن نہیں، اور اللہ کی نصرت ،معصیت سے نہیں بلکہ اطاعت سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

لہٰذا، اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائیے۔ دلوں کو آلایشوں سے صاف کیجیے، اپنے نفس کو آمادہ کیجیے، دل وجان سے رمضان کااستقبال کیجیے، کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیجیے اورہمیشہ اللہ کے ساتھ جڑے رہیے، تاکہ اللہ آپ کے ساتھ رہے۔جب اللہ آپ کے ساتھ ہوگا تو وہ آپ کی نصرت فرمائے گااور اللہ کی مدد شامل حال ہو توکوئی آپ پر غلبہ نہیں پاسکتا۔(۲ جولائی ۱۹۴۸ء)

عبادت کی حکمت

اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں، ان میں ایک حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے بندوں پرخصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں، جو بندوں کی کامیابی اورسعادت کا موجب ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ ،خلوص نیت اور حضورِ قلبی ہے۔ اگر عبادت کابنیادی محرک رضائے الٰہی نہ ہو تو نہ اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب، بلکہ حدیث نبویؐ کے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتابلکہ عبادت میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے کہ تندرستی کے بعد رکھے، یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہییں۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں ،بلکہ اُخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات وفوائد کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا ،جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہرنہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پراس کا براہ راست مثبت اثر ہوتاہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساں ہوتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:

(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اُس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں، جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔(اعراف ۷: ۱۵۷)

میں مسلم حکومتوں سے گزارش کروں گا کہ وہ دیگر ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوںکی طرح رمضان کے مہینے میں روزہ نہ رکھنے والوں کے لیے بھی کڑی سزا مقرر کریں تاکہ کسی کو اس ماہِ مقدس کی حرمت پامال کرنے کی جرأت نہ ہو۔اس ضمن میں چند سرکاری محکموں سے اپنے ذیلی اداروں کورمضان کے احترام پر مشتمل ایسی رسمی ہدایت جاری کردینا کافی نہیں ہے جس کی نہ پیروی کی جاتی ہے اور نہ مخالفت کرنے پر کوئی سزا ہی دی جاتی ہے۔حکومت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ۔ (۲۶ جولائی ۱۹۴۶ء)

نیکیوں کا موسمِ  بہار

اسلام میں عبادت کی حیثیت ٹیکس یاجرمانے کی نہیں کہ جسے ادا کرکے کوئی بوجھ اتارنا مقصود ہو،بلکہ اسلامی عبادات رب اور بندے کے درمیان ایک مقدس روحانی تعلق کی ایک علامت  ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک سرمدی نور پیدا ہوتا ہے،جو ان کے گناہوں، وسوسوں اور اندیشوںکے خاتمے کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ انسان کی تکریم وعزت ہے کہ خاکی ہونے کے باوجودوہ ان عبادات کے ذریعے رب ذوالجلال کے ساتھ مناجات کرسکتا ہے۔

رمضان کا مہینہ اطاعت و عبادات کا موسم بہار ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بندوںکے شب وروز کو مزین فرماتاہے اور یہی اس مہینے کے حسن وجمال کا سبب ہے۔ اطاعت گزاری تو ہروقت ایک مطلوب صفت ہے لیکن رمضان میں اس کی قدرو قیمت اور حسن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس مہینے کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ روحانی اعتبار سے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کو ،اپنے نفس، فکر، ارادہ اور اپنی سوچ وشعور کا محور بنانے کو تقویٰ کہتے ہیں اور روزہ اس کا بہت بڑا محرک ہے۔

قرآن سے خصوصی تعلق

اس مہینے میں قرآن کے ساتھ خصوصی تعلق جوڑنا چاہیے اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنی چاہیے کیونکہ یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ جبریل امین ؑ خصوصی طور پر رمضان میں آکر  حضور پاک ؐسے قرآن سنتے تھے۔ زندگی کے آخری برس آپؐ نے دو دفعہ جبریل ؑ کو قرآن سنایا۔ یہ وہی قرآن ہے جوصحابۂ کرامؓ اور ہمارے اسلاف کے پاس موجود تھا۔ ہم بھی اسے اسی طرح پڑھتے اور سنتے ہیں جس طرح وہ سنتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن نے اس طرح ہماری زندگی کو نہیں بدلا جس طرح صحابۂ کرامؓ کی زندگی کو بدلا تھا؟ اس سے ہمارے اخلاق ومعاملات میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آتی جو ان کی زندگی میں آئی تھی؟

یہ اس لیے کہ انھوں نے اس کتاب کومضبوط ایمان کے ساتھ قبول کیا، تدبر کے ساتھ اس کو پڑھا،اس کے احکام کو نافذ کیااور اپنے آپ کومکمل طور پر اس کے سپرد کردیا۔ آپ اور ہم بھی ان کی طرح بن سکتے ہیں، اگر اس کتاب پر اُن کی طرح ایمان لے آئیں۔ اُن کی طرح اس کے مطابق چلیں، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانیں، اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ اس کے احکام کونافذ کردیںاور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھال لیں۔تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

صدقہ اور کثرت سے استغفار

کثرت سے صدقہ اور غریبوں اور مساکین کی مدد کرنا بھی اس مہینے کے امتیازی اعمال میں سے ہے۔ نبی پاکؐ جود وسخاکے پیکر تھے لیکن اس مہینے میں آپؐ کی سخاوت تیز ہوا کی مانند ہوجاتی تھی۔

اسی طرح دعا اور کثرت سے استغفار بھی اس ماہ کی خصوصی عبادات میں شامل ہے۔     یہ دعائوں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے، اور  توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ روزے داروں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! کہیں اس مہینے کی مبارک راتیں اللہ کی رحمتیں سمیٹے اور اُس کی رضا حاصل کیے بغیر نہ گزرجائیں۔

آج جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ،اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو روح کی تسکین کا سامان بنایا۔ اس میںدن کو روزہ رکھ کر تمام دنیاوی لذتوں اور لغوکاموں اور باتوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اوررات کو اٹھ کر اللہ کے حضور طویل قیام اور تلاوت قرآن سے اپنے دلوں کو منور کیا جاتا ہے اور روح کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔

میرے عزیز بھائیو! اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ہی دن سے مضبوط ارادے کے ساتھ اس مدرسے میں داخل ہوجایئے۔ ہر وقت اپنی توبہ کی تجدید کرتے رہیے ۔ غور وفکر کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کیجیے۔ اپنے نفس کو روزے کے فوائد سے روشناس کیجیے۔جتنا ممکن ہو قیام اللیل کا اہتمام کیجیے۔زیادہ سے زیادہ ذکر و فکر میں وقت گزاریئے۔اپنی روح کو مادیت کے فتنے سے بچائیے اور کوشش کیجیے کہ اس ماہ مبارک سے متقی بن کر نکلیں۔ (۱۷ نومبر ۱۹۳۶ء۔امام حسن البنا کے مختلف مضامین کا مجموعہ خواطر رمضانیہ سے انتخاب۔ ترجمہ: سمیع الحق شیرپاؤ)

_______________

o     امام حسن البنا کے مختلف مضامین کا مجموعہ خواطر رمضانیہ سے انتخاب۔ ترجمہ: سمیع الحق شیرپاؤ

۱۳۵۴ھ/ مارچ ۱۹۳۶ء کے حج کے موقعے پر امام حسن البنا ؒ نے ’سعودی جوانوں کی انجمن‘ کے زیراہتمام منیٰ میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریر اخباراُم القریٰ نے ۱۹ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ [۱۳مارچ ۱۹۳۶ء]کے شمارے میں شائع کی۔

میرے معزز بھائیو! میں آپ کی اجازت سے اپنی گفتگو کا آغاز، اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے خطاب سے کرنا چاہتا ہوں:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ (اٰل عمرٰن  ۳:۱۰۳) [سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے، شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے]۔

اسی مناسبت سے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سنانا چاہتا ہوں:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝۱۰ۧ (الحجرات ۴۹: ۱۰) [مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امیدہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ]۔

اسلام کا بہترین ہدیہ، سلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! میں کوئی پیشہ ور خطیب نہیں ہوں لیکن الشباب العربی السعودی نے حجاج کرام کو باہمی تبادلۂ خیالات اور تعارف کا یہ موقع فراہم کیا ہے، اللہ تعالیٰ انھیں اجر سے نوازے۔ میں سمجھتا ہوں باہمی تعارف اور تبادلۂ خیالات حج کی تکمیل کا حصہ ہے۔ آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ، پُرجوش اور مفید تقریریں سننے کے بعد اُبھرا ہے۔

معزز نوجوانو! میں آپ کی تعریف میں وقت صرف نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی مہمان نوازی کا تذکرہ بھی نہیں کروں گا بلکہ ہم اپنی امیدوںاور مسائل کے حوالے سے گفتگو کریں گے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے۔ آپ سے محبت اور شیفتگی پہلے بھی تھی لیکن اب یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہے۔ اس محبت کو اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک ارشاد اُبھارتا ہے:

وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۝۰ۭ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى۝۰ۭ وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَہِّرَا بَيْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵  (البقرہ ۲: ۱۲۵) [اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑکو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو] ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مکہ مکرمہ کا ذکر کیا تو اس کی خوب صورتی اور رعنائیوں کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں تر ہو گئیں اور کہا: ’’ذرا دل کو قرار پکڑنے دو، اور اس تذکرے کو سمیٹو‘‘۔ مکہ پر حضرت بلالؓ کے اشعار بھی یاد آتے ہیں۔

ہم بچپن سے یہ سارے تذکرے سنتے آئے ہیں۔ انھوں نے آتش شوق کو مزید تیز کردیا۔ ہم ہمیشہ اس مبارک دن کے انتظار میں رہے جب ہم مکہ مکرمہ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے اورخیف میں کھڑے ہوں گے ، مجنوں کی لیلیٰ کے شوق میں نہیں، ہر ایک کی اپنی لیلیٰ ہوتی ہے۔ اب یہ آپ کی محبت ہمیں یہاں لے آئی ہے۔ آپ کی محبت کوئی افسانوی چیز نہیں بلکہ یہ ایک قابل محسوس حقیقت ہے۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے اس تعلق اور رابطے کو بھلائی اور برکت کا سرچشمہ بنائے۔ آمین!

معزز نوجوانو، آپ کے پہلے خطیب نے یہ کہا کہ اسلام دین اور دنیا کے مصالح اور بھلائیوں کو جمع کرتا ہے۔ یہ ایک مانوس اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ آپ چشم تصور سے نماز پر غور کریں۔ تمام اعمال کا مغز اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ آپ کی یہ عبادت قرآن کی تلاوت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آپ اپنے رب سے سرگوشی میں مصروف ہیں۔ اللہ کا قرآن آپ سے کیا کہہ رہا ہے؟ (یہاں امام حسن البنا ؒنے سورہ البقرہ کی آیات (۲۸۱-۲۸۳) تلاوت کیں جن میں لین دین کے معاملات لکھنے اور انصاف سے معاملات کرنے کا حکم دیا گیا ہے)۔

اسی طرح قرآن آپ سے مخاطب ہے کہ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ یہ دین کے اٹل اور قطعی معاملات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ رزق کی تلاش اور کسب حلال میں مصروف ہیں جو دنیاوی کاموں میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کا یہ فرمان آپ جانتے ہیںکہ ’’اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے۔ اور یہ کہ جو شخص اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے، وہ اپنی بخشش کا سامان کرتا ہے‘‘۔دیکھیے رزق حاصل کرنا اور روزی کمانا دنیاوی کام ہے لیکن یہ آخرت کے کاموں سے مربوط ہے اور نجات اور مغفرت کا سبب بن رہا ہے۔

شریعت کے ہر گوشے میں دین اور دنیا کا گہرا تعلق آپ کو نظر آئے گا۔ لیکن مسلمان دین کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔

آپ کے دوسرے خطیب نے حجاز کی ترقی کی بات کی۔ اگرچہ یہ ترقی اور پیش رفت اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ لیکن یہ ابتدائی مراحل اور خدوخال ان شاء اللہ نمایاں نقوش میں بدل جائیں گے۔ فطرت کا یہی قانون ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا: جب میں نے ہلال کو روز افزوں دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ ایک دن ماہ کا مل بن جائے گا۔

ترقی اور انقلاب کی باتیں خوش آیند ہیں اور اس سلسلے میں مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ امیدیں اور تمنائیں آپ کے چہروں پرپڑھی جا سکتی ہیں اور زبانوں پر اس کا تذکرہ ہے۔ ترقی اور انقلاب امید سے زندہ رہتے ہیں اور نااُمیدی اور مایوسی اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ زندگی میں ناامیدی کا کوئی عمل دخل نہیں، ناامیدی اور زندگی کا ساتھ نہیں رہ سکتا۔ آج کے زندہ حقائق کل تک محض خواب تھے اور آج کے خواب مستقبل کے زندہ حقائق ہوں گے۔ جسے مہلت ملی ان شاء اللہ ضرور دیکھے گا۔ تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے۔ اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کو اپنی کتاب میں حرام قرار دیتا ہے:

يٰبَنِيَّ اذْہَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْہِ وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۸۷ (یوسف ۱۲: ۸۷)[میرے بچو، جا کر یوسف ؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگائو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ]۔

یہ حالات قوموں کو پیش آتے رہتے ہیں لیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کمزور طاقت ور بن جاتے ہیں اور زبردست زیردست بن جاتے ہیں:

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۴۰) [اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں]۔

جو شخص اس آیت کی تلاوت کرے اور غوروفکر سے کام لے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ امت کی طاقت کے لیے کوشاں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ، اُمتوں اور اقوام کے حالات کو کس طرح بدل دیتا ہے، اور اس کا عدل مظلوم کا ظالم سے کیسے بدلہ لیتا ہے، اور سرکشی اور حدود سے تجاوز کرنے والوں کو حق داروں کا حق دلوانے پر کس طرح مجبور کرتا ہے، سورۃ القصص کی یہ آیات تلاوت کیجیے، ان میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِيْنَ۝۵ۙ  وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۝۶  (القصص ۲۸: ۴-۶) [واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا ]۔

یہ کتاب ابدی کا ابدی حکم ہے۔ اگر یہ ماضی میں ہو سکتا ہے تو مستقبل میں کیوں نہیں ہو سکتا:

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۱۳۸  (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) [یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت]۔

آپ کے تیسرے خطیب نے کہا کہ تعمیر و ترقی کی بنیاد اور اساس اسلام ہے۔ اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی نشاتِ ثانیہ سے یہ ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔

میرے بھائیو، تم حقیقت کا ادراک کر چکے ہو اور ہدایت کی طرف رہنمائی پا چکے ہو۔

میں اس موقع پر، آپ کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو آپ سے میری محبت اور شفقت کا لازمی تقاضا ہے۔

جنگ عظیم کے بعد مشرق ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کی اندھا دھند تقلید کا ہے اور دوسرا راستہ مشرقی تہذیب و تمدن اور اسلام کی نشات ثانیہ کا ہے۔ دونوں راستوں پر اس کے حامی لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں، ترغیب دے رہے ہیں، اور اپنے اپنے نظام کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ بعض مشرقی اقوام مغرب کی تقلید میں ان سے بھی سبقت لے گئیں اور بعض اقوام نے مزاحمت کا رویہ اپنایا، لیکن بعض مغرب کی ترقی کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ خواہش نفس اور اتباع ھویٰ انھیں مغرب کے قریب کر رہی ہے، اور ایمان انھیں دوسری سمت میں کھینچ رہا ہے۔ ایک صالح گروہ جو اپنی دینی روایات اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ اپنی مشرقی اور عربی اقدار پر نازاں ہے۔

امت مسلمہ کی یہ حالیہ تصویر ہے۔ مسلم نوجوانوں سے ہماری توقع اور امید ہے کہ وہ یہ سبق سیکھ لیں گے کہ اسلام کامل دین ہے اور دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ انسانوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ انسانوں کی تمام مشکلات اور مصائب کا واحد حل اسلام ہے۔ عنقریب اس حقیقت کوساری دنیا جان لے گی۔ انسانیت کا گلا خشک ہو چکا ہے اور اس کے حلق میں شک اور الحاد کے کانٹے چبھ رہے ہیں۔ پیاسی انسانیت کی پیاس صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے چشمۂ صافی سے بجھ سکتی ہے۔

اسلام کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو اور اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے رکھو۔ ساری دنیا کو یہ باور کرا دو کہ تم حق پر ہو اور دوسرے لوگ شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتاب اللہ کو اپنے درد کادرماں بنائو، وہ دلوں کی بیماریوں کے لیے پیغام شفا ہے۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کے سامنے اللہ کا دین پیش کرو۔ نت نئے افکار کی دل فریبییوں سے بچو، اور شیطان اور نفس کے دام فریب سے اپنا دامن بچائو۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے:

اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَالَتْ اَوْدِيَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا۝۰ۭ وَمِـمَّا يُوْقِدُوْنَ عَلَيْہِ فِي النَّارِ ابْتِغَاۗءَ حِلْيَۃٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہٗ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ۝۰ۥۭ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْہَبُ جُفَاۗءً۝۰ۚ وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ۝۱۷(الرعد ۱۳:۱۷) [اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کرچل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے]۔

اسلام میں مقاصد اور ذرائع الگ الگ ہیں۔ اس اصطلاح کی کئی ایک تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک یوسف علیہ السلام کی طرح ان کی تعبیر و تاویل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ تفصیل طلب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کافی ہے: خدا کی قسم! کوئی بھلائی ایسی نہیں ہے جس کے کرنے کا میں نے تمھیں حکم نہ دیا ہو، اور کوئی شر ایسا نہیں ہے جس سے باز آنے کا میں نے نہ کہا ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۝۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۵۷ (الاعراف ۷:۱۵۷)[(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت و نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے ، وہی فلاح پانے والے ہیں ]۔

اے نوجوانو، اپنے آپ کو حقیرنہ جانو اور نہ اپنے مقصد کو کم تر سمجھو کیونکہ آپ کو دنیا کی قیادت سنبھالنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی امانت انسانیت کوپہنچانی ہے۔ آج آپ شوروغوغا سن رہے ہیں کہ جرمن عظیم قوم ہے، اٹلی کا کوئی مدمقابل نہیں، برطانیہ سب سے عظیم ہے،وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے جھوٹے دعوے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ کمزوروں کو تر نوالہ بناسکیں۔

اے اسلام کے سپاہیو، تم ان القاب اور اوصاف کے زیادہ حق دار ہو۔ اگر تم یہ دعویٰ کرو تو یہ بے جا اور خالی خولی دعویٰ نہ ہوگا بلکہ یہ ایسی حقیقت ہے جو قیامت تک قرآن مجیدمیں محفوظ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۱۰ (اٰل عمٰرن ۳:۱۱۰) [اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو ان ہی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں ]۔

یہ اس لیے نہیں کہ تم کمزوروں پر دست ستم اٹھائو یا پرامن لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائو، بلکہ تمھارا مقصد نیکی اور بھلائی کی تلقین کرنا ہے۔

میرے بھائیو، مجھ پر اعتماد کرو ، جب میں عربوں کالفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے پیش نظر وہ محدود مفہوم نہیں ہوتا جو جغرافیائی بندشوں میں مقید اور جکڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ میں اس لفظ کو وسیع مفہوم میں استعمال کرتا ہوں جو پوری رُوئے زمین کے مسلمانوں پر محیط ہے۔

اے نوجوانو، اللہ تعالیٰ نے آپ کے نبیؐ کو تمام انسانیت کے لیے معلم بنا کر بھیجا ہے اور انھوں نے یہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ آپؐ نے جس کام کا آغاز فرمایا تھا، اسے تکمیل تک پہنچانا اب آپ کا فریضہ ہے۔ اب آپ انسانیت کے معلم اور رہنما ہیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہو اور آپؐ کے بعد روشن نشانیوں والے صحابہ کرامؓ کے وارث ہو۔ بعض لوگ روشن چراغ ہوتے ہیں گویا کہ وہ حقیقی ستارے ہیں۔ ان کا اخلاق، ان کا اجالا اور روشنی ہے۔ ان کے اخلاق کا جادو ہر سمت میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی پیروی کیجیے اور ان کے نقش قدم پر چلتے رہیے۔ ان کی میراث اور عظمت رفتہ کو اَزسرنو زندہ کیجیے۔ اللہ کی تائید تمھارے ساتھ ہے۔

مصر کے نوجوانوں کے دل تمھارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ان کے جذبات اور احساسات تمھارے جذبات سے مختلف نہیں ۔ وہ تمھارے اس جہاد میں شریک ہوں گے، یا منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے یا اس راستے میں جان نچھاور کر دیں گے!

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۝۰ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝۰ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا يَـلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَـيْـــــًٔا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۱۴ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۝۱۵ (الحجرات   ۴۹:۱۴-۱۵) یہ بدوی کہتے ہیں کہ ’ہم ایمان لائے‘۔ ان سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ’ہم مطیع ہوگئے‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اختیار کرلو تو وہ تمھارے اعمال کے اجرمیں بالکل کمی نہیں کرے گا، بلاشبہہ اللہ تعالیٰ بڑا درگزر کرنے والا اوررحیم ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھیں کوئی شک نہیں ہوا، اوراپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے مومن ہیں۔

سورئہ حجرات کی مذکورہ آیات کے سلسلے میں امام بغویؒ کا خیال ہے کہ یہ آیات بنواسد کے اس وفد کے بارے میں نازل ہوئیں، جو قحط کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اسلام کا اظہار کیا، حالانکہ حقیقت میں وہ مومن نہیں تھے۔

امام سدیؒ کہتے ہیں کہ ان آیات کا سبب ِ نزول وہ اعرابی ہیں، جن کا ذکر سورئہ فتح میں ہوا ہے۔ قبیلہ جہینہ، مزنیہ، اسلم اور غفار کے لوگ کہتے تھے کہ ’ہم ایمان لائے‘ تاکہ ان کی جان و مال محفوظ ہوجائے، لیکن جب یہ لوگ حدیبیہ کی طرف چلے گئے تو اپنی بات سے پھر گئے۔

بہرحال، آیات کا سبب ِ نزول جو بھی ہو، مگراس میں جو نکات بیان فرمائے گئے ہیں وہ گہرے غوروفکر کے طالب ہیں: پہلا نکتہ ایمان کی حقیقت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ ایمان و اسلام کا فرق ہے۔

ایمان کی حقیقت

ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک عقیدہ ہے جو دل میں راسخ ہوتا ہے، نفس پر غالب آتا ہے اورقلب پر حکمرانی کرتا ہے۔ اسی لیے بندئہ مومن ہروقت اپنے اس عقیدہ کو یاد رکھتا ہے، اس پر اپنی جان نثار کرنے کو تیاررہتا ہے اور اس کے راستے میں ہرطرح کی قربانی اس کا شعار اور   طرئہ امتیاز بن جاتی ہے۔ لیکن عزیز من! ایمان کے درجات مختلف ہوتے ہیں ، سب کا ایمان یکساں و برابر نہیں ہوتا۔ تم کسی چیز کی تصدیق کرتے ہو، اس کے بارے میں سنتے ہو مگر جب اس کے بارے میں پڑھتے ہو تواس پر تمھارا یقین و اعتماد پہلے سے بڑ ھ جاتا ہے۔ جب اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتے ہو تو یقین دل میں راسخ ہوجاتا ہے اورجب اس پر نگاہِ حقیقت پڑتی ہے اوراس کا ظاہروباطن سامنے آتا ہے تو یہ یقین اپنے کمال کو پہنچ جاتاہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۸ۘ يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۱۰ (البقرہ ۲:۸-۱۰) بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کررہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اورزیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اُس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔

ٹھیک اسی طرح ایمان باللہ کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ کچھ لوگ محض ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اورآخرت پرایمان لائے مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور اہلِ ایمان کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں لیکن اصلاً وہ خوددھوکے میں مبتلا ہیں اورانھیں اس کا شعورنہیں ہے۔ ان کے دلوں میں مرض ہے جسے اللہ نے اور بڑھا دیا ہے اور ان کے اس جھوٹ کی پاداش میں ان کے لیے سخت عذاب ہے۔

انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو فراخی میں تو مومن ہوتی ہے مگر جب مصائب آتے ہیں تو اُلٹے پاؤ ں پھر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝۱۱ (الحج ۲۲:۱۱)اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کنارہ پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں۔ اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگئے اور مصیبت آئی تو پھرگئے۔ ان کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی، یہ صریح خسارہ ہے۔

کچھ لوگ صرف زبانی مومن ہوتے ہیں، دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سورئہ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں زیربحث ہیں:

مومنین ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں کو ایمان سے طمانیت اورروح کو سکون ملتا ہے اوروہ اسے اپنی سعادت سمجھتے ہیں اورہرچیز سے بڑھ کر اسی کے حریص ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن ان الفاظ سے یاد کرتا ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۸۲ۧ (انعام ۶:۸۲)حقیقت میں تو امن انھی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور پھر اپنے ایمان کو ظلم کےساتھ آلودہ نہیں کیا۔

ایمان کے اثرات

ایمان جب اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے اوردلوں میں اس طرح جاگزیں ہوجاتا ہے تو انسان کی زندگی پراس کے اثرات نظرآنےلگتے ہیں۔ کیونکہ ایمان کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے بلکہ  وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ انسانی زندگی پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ دن سے زیادہ روشن و تابناک ہوتے ہیں، مثلاً:

  ایمان کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کو اپنی سعادت اورلازوال انعام سے محبت ہوجاتی ہے، ایسی محبت جو اس کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَـحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۶۵) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر ومدمقابل بناتے ہیں اوران کے ایسے گرویدہ ہوتے ہیں جیسی گرویدگی اللہ کےساتھ ہونی چاہیے مگراہلِ ایمان سب سے بڑھ کراللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔

  ایمان کادوسرااثریہ ہوتا ہے کہ مومن وہ راحت وسکون محسوس کرتا ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی شقاوت کا احساس تک نہیں ہوتا، تعذیب کا کوئی ڈھنگ ان کے عقیدہ کو متزلزل نہیں کرپاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! میں تجھے ذلیل کرکے رہوں گا۔ بیوی نےمسکراتے ہوئے کہا: ذلت، تمھارے اختیار میں نہیں ہے۔ اس نے حیرت سےپوچھا: کیوں؟ جواب دیا: میری سعادت، میرے ایمان میں ہے اورایمان دل میں ہوتا ہے اور دل پرکسی کازور نہیں چلتا۔

یہ وہ ایمان ہے جو صرف حقیقی مومن کو حاصل ہوتا اورہوسکتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قید کی مشقت ان پرطویل ہوگئی، تو ان کے شاگرد ان کی مزاج پُرسی کے لیے گئے اوررہائی کی کوششیں کرنے لگے۔ جب امام صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو کہا :’’قید کو مَیں خلوت گاہ، قتل کو شہادت اور جلاوطنی کو سیاحت تصور کرتا ہوں اور یہ سب تزکیۂ نفس کے انعامات ہیں‘‘۔

اللہ اکبر! یہ ہے ایمان کی حقیقت جس کے ساتھ مصائب و مشکلات بھی نعمت و راحت محسوس ہوتے ہیں اور بڑے بڑے غم و اندوہ سے انسان لذت گیر اورراحت محسوس کرتا ہے۔ کتنی سچی اور پیاری بات اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ: ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہرمعاملہ خیرہے۔ نعمتیں ملتی ہیں تو سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور جب مصائب آتے ہیں تو جادئہ صبر پر قائم رہتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، حدیث: ۵۴۲۹)

حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر ان بادشاہوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمیں ایمان میں کتنی لذت ملتی ہے تو وہ ہمیں قتل کرا دیں‘‘۔

  ایمان کا ایک اوراثریہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے مومن اپنے ربّ کا عزیز بن جاتا ہے اوراسے اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کی نگاہ میں کوئی اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اس کی عزّت و شوکت مخلوق سے نہیں بلکہ اللہ سے وابستہ ہے جوعزیز وں کا عزیز ہے۔

حقیقی ایمان کے نتیجے میں مومن کو وہ شجاعت نصیب ہوتی ہے جس کےسامنے بڑے بڑے جابرو ظالم سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں ساری مصیبتیں ہیچ ہوتی ہیں:

 اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۱۱  (التوبہ۹:۱۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ ان سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے جو اللہ سے بڑ ھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ان سب کے ساتھ ایمان کا ایک اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ پھربندئہ مومن اللہ کی راہ میں اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اورآخری قطرئہ خون تک بہا دینے میں دریغ نہیں کرتا۔ مال سے جہاد کرتا ہےاوراپنی ساری دولت ایمان کےراستے میں نچھاورکردیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جنّت اسی میں ہے۔

ہمارے سامنے بہت سی آیات اور بکثرت احادیث ہیں جن سے ہم حقیقی ایمان سے آشنا ہوسکتے ہیں۔ ان آیات و احادیث کو بار بار پڑھنا چاہیے کہ ہم بھی مومنین صادقین کی صف میں شامل ہوجائیں۔

ایمان اور اسلام کا فرق

اُوپر جو کچھ عرض کیا گیا وہ ایمان کی حقیقت ہے۔ اب دوسرا نکتہ جو آیت زیربحث میں ہے وہ ایمان و اسلام کا فرق ہے۔ اس پر لمبی لمبی بحثیں ہوئی ہیں۔ ہم ان لمبی بحثوں میں پڑ کر اپنا اور آپ کا وقت و قوت ضائع کرنا نہیں چاہتے ۔ معاملہ بہت آسان اور سادہ ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ایک موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو نوازا، جب کہ بعض دوسروں کو چھوڑ دیا۔ حضرت سعد ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فلاں اورفلاں کو تو دیا مگرفلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’اومسلم‘۔حضرت سعدؓ نے تین باراپنی بات دُہرائی اورہربارآپؐ نے یہی فرمایا:’ اومسلم‘۔ آخر میں فرمایا: میں کچھ لوگوں کو نوازتا ہوں اورانھیں چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہیں، مبادا وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں‘‘۔(ابوداؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علٰی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث: ۴۰۸۴،  نسائی، السنن الصغریٰ للنسائی، کتاب الایمان وشرائعہ، حدیث: ۴۹۳۰)

آپ نے دیکھا کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن و مسلم کے درمیان فرق کرکے بتادیا۔ اسلام اور ایمان میں یہی فرق ہے، یعنی اسلام، ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ بعض جگہوں پر قرآن نے دونوںکو ایک ہی معنی میں بھی استعمال کیا ہے، مثلاً سورئہ ذاریات ۳۵-۳۷۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب لفظوں کا اختلاف ہے۔ مومن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ: ’الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتا نہیں دانا‘۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور حقیقی ایمان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

اللہ کے بندو! ہرچیز کی ایک علامت ہوتی ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور ہرعقیدہ کی کوئی نہ کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ ایمان کی بھی کچھ علامتیں ہیں جن سے ایمان کاپتا چلتا ہے۔ اپنا جائزہ لیجیےکہ تم ایمان کے کس مقام پرہو اور تمھارا اللہ پر یقین کتنا مضبوط و مستحکم ہے، تاکہ تم اپنے ایمان و یقین کے سلسلے میںکسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہو کہ تمھیں اپنی گذشتہ زندگی پر پچھتاوا ہو۔

حضرت عمرؓ سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ  الْاَکْبَرِ، وَ  اِنَّمَا یَخِفُّ  الْحِسَابُ  یَوْمَ  الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنْ حَاسَبَ  نَفْسَہٗ  فِی الدُّنْیَا (سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث: ۲۴۴۱) ’’حساب سے پہلے اپنا محاسبہ خود کرو اور قیامت کے روز بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلو، قیامت کے دن اس شخص کا حساب ہلکا ہوگا جو دنیا میں اپنا احتساب کرتا ہے‘‘۔

 باعزم و غیور: میرے بھائی! ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ صاحب ِ ایمان باعزم   و غیور ہوتا ہے۔ وہ زبردست قوتِ ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ حق کےسلسلے میں وہ کسی ملامت گر   کی پروا نہیں کرتا اور اللہ کے سلسلے میں کسی بات کا خوف نہیں کرتا۔ اس کا دل اللہ کے خوف و خشیت سے اس قدر معمورہوتا ہے کہ دوسروں سے ڈرنے کے لیے اس میں گنجایش نہیں ہوتی۔ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس لیے کسی اورسے نہیں ڈرتا۔ وہ اپنے عقیدہ کے تئیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتا اور اعداء دین سے مداہنت نہیں کرتا۔ وہ اس فرمانِ الٰہی کا پیکر و مصداق ہوتا ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۝۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۝۱۷۳  (اٰل عمرٰن  ۳:۱۷۳) یہ ایسے لوگ ہیں کہ لوگوں نے جب ان سے کہا کہ ان لوگوں نے تمھارے مقابلے میں بڑا لاؤلشکر جمع کیا ہے، سو ان سے ڈرو۔ اس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہ بہترین کارساز ہے۔

 خوددار  و   بے باک: صاحب ِ ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ خوددار ہوتا ہے۔ ظلم و ناانصافی کو نہ برداشت کرتا ہے اور نہ کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے یقین ہوتاہےکہ تمام قوتوں کا مالک اللہ ہے۔ عزّت و غلبہ، اللہ،رسول ؐاور مومنین کےلیے ہے۔ اس لیے وہ بڑی سے بڑی طاقت کو بھی خاطرمیں نہیں لاتا اوراپنےعزیز مولیٰ پرکامل اعتماد کرتاہے:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَہُمْ۝۱۱ۧ (محمد۴۷:۱۱) ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ (انھیں یقین ہے ) اللہ مومنوں کاکارساز ہے اورکافروں کا کوئی کارساز نہیں۔

 اللہ سے محبّت:مومن کا ایمان اللہ کی ذات اور صرف اللہ کی ذات پرہوتا ہے۔ اس لیے بھروسا بھی اسی پر کرتا ہے، اپنے تمام معاملات اسی کے حوالے کردیتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ سارے اُمور اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ فیصلے کااختیار بھی اسی کو ہے۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر کہاں جائے اور کس سے فریاد کرے۔ وہ دل سے اللہ سے محبت کرتا ہے، اسے سب سےمحبوب اپنا مولیٰ ہوتا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۶۵) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو غیراللہ کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے اور مانتے ہیں اور ان سے ایسے ہی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کرنی چاہیے، جب کہ اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔

  اہلِ ایمان سے محبت اور کفّار سے نفرت:مومن کا ایک اور وصف یہ ہے کہ اسے اپنے مومن بھائیوں سے بے پناہ محبت اورکافروں سے شدید بُغض و نفرت ہوتی ہے۔ وہ دل سے ان سےنفرت کرتا ہے اور معاملات زندگی میں ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتا:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ (المجادلہ ۵۸:۲۲) جولوگ اللہ اوریومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ،انھیں تم نہیں دیکھو گے کہ خدا اور اس کےرسولؐ کے دشمنوں سے دوستی رکھیں،گو وہ ان کےباپ، بیٹے، بھائی یا ان کے خاندان ہی کے ہوں۔ یہی ہیں جن کےدلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے،اوراپنےفیضانِ خاص سے ان کی تائیدکی ہے۔

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ ۝۰ۚ (الممتحنہ۶۰ : ۱) اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان سے دوستی گانٹھو، جب کہ وہ اس حق کے منکر ہیں جوتمھارے پاس آیا ہے۔

اس لیے مومن کی دشمنی بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے اوردوستی بھی، جیساکہ اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے:

اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ (الفتح۴۸:۲۹) (میرےساتھی) کفّارکے لیے انتہائی سخت اورباہم بڑے کریم و شفیق ہیں۔

 اللہ پر کامل بھروسا: ایمان کی ایک علامت یہ بھی ہےکہ بندئہ مومن کا تمام تر اعتماد و بھروسا اس چیز پر ہوتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ اسےاپنی دولت پر بھروسا نہیں ہوتا۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنامال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اور اس اُمید و یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس سے اچھا بدلہ ملےگا:

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ(النحل۶ ۱:۹۶) لوگو، جو کچھ تمھارے پاس ہے سب ختم ہوجائے گا اورجو اللہ کے یہاں ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

اللہ کے باایمان بندو! ایمان کی ان علامتوں، عزیمت، غیرت، توحید، توکّل، حُب ِالٰہی اور اللہ کےاجر کی اُمید کی روشنی میں اپنےایمان کا جائزہ لو، اپنے گریبان میں جھانکو۔ اگریہ علامتیں موجود ہیں اوروافرمقدار میں موجود ہیں تو اللہ کی توفیق پر شکربجالاؤ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو اپنے آپ پر روؤ، اپنی گذشتہ زندگی پر آنسو بہاؤ اوراپنے دل کاعلاج کراؤ۔ اپنے دل کو  کسی دل کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، شاید اس کے پاس تمھیں اپنی بیماری کی دوا مل جائے۔ اور اللہ سےگڑگڑا کردُعا کرو کہ وہ تمھیں جادئہ ایمان پرقائم کردے اوراہلِ یقین کےراستے کی توفیق دے دے۔

اللہ کےرسولؐ نے فرمایا: تین چیزیں جس کےاندرہیں اسے ایمان کا ذائقہ مل گیا:

۱-اللہ اوررسولؐ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں۔

۲- جس کسی سے محبت کرے صرف اللہ کی خاطرکرے۔

۳- اور کفر کی طرف پلٹنا اسے اتنا ہی ناگوار وناپسند ہو جتنا آگ میں ڈالا جانا۔ (بخاری، کتاب الایمان، حدیث: ۱۶؛ مسلم، کتاب الایمان، حدیث ۸۵)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے ایمان کا جائزہ لینے کی توفیق دے، آمین!

یہ ایک طویل مکتوب کا ترجمہ ہے، جو حسن البنا شہیدؒ نے ۱۹۳۷ء میں مصر کے وزیرقانون کے نام تحریر کیا تھا۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرنے یا اس مقصد سے ہمدردی رکھنے والے افراد اس خط کو بالکل آپ بیتی محسوس کریں گے۔ حتیٰ کہ اس میں دوچار جگہ جہاں ’مصر‘ کا لفظ اگر ’پاکستان‘ کے لفظ سے بدل دیں تو یہ یوں لگتا ہے کہ یہ داستان مصر نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے۔ادارہ

ہم اس بات پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری قوم کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہرگوشے میں اسلام کی تعلیمات و ہدایات کااِتباع کرے۔ اس کے حق میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ آپ کے سامنے ان دلائل کے دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ الحمدللہ  آپ اس نظریے کے خود بھی قائل ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا اوّلین اور اہم ترین شعبہ قانون ہے۔ اس وقت ہم اور آپ میدانِ عمل میں ہیں اور ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم حقائق کا سامنا کریں۔
آج وزارتِ قانون کا قلم دان آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی اُن تمناؤں اور آرزوؤں کو بارآور کریں، جن کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے پر آمادہ ہیں۔ مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ مصر کے قانون اور عدالتی نظام کو اسلامی شریعت کی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ چونکہ آپ بھی ایک دائرے میں رعیت کے راعی ہیں، اس لیے اس سلسلے میں آپ اللہ اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔
اس قوم کے افرادجب یہ دیکھتے ہیں کہ اس ملک میں اللہ کے قانون کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں، تو وہ اپنے دلوں میں سخت تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک جاتا ہے اور اندر ہی اندر جو لاوا پک رہا ہوتا ہے وہ بسااوقات پھوٹ نکلتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک تصادم کی صورت اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ ایک قوم کا ذہن حق کے حصول اور باطل کے نظریات پر اصرار کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ہمارے موجودہ ملکی قوانین اور اسلام کےقوانین ایک دوسرے کی ضد ہیں اوردونوں جابجا ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہلِ وطن کے دل و دماغ میں ایک اضطراب اور بے چینی رُونما ہورہی ہے، اور وہ اس تضاد کو بُری طرح محسوس کررہے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ مسلمانوں کو قوانین کی بے احترامی اور خلاف ورزی پر مجبور نہ کریں اور حالات کو بدلنے کی کوشش کریں۔ آیئے، ہم اللہ کے حضور میں حاضرہوں اوراس بارے میں اُس کےارشادات کوسنیں۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝۶۵ (النساء۴:۶۵) پس نہیں، تیرےربّ کی قسم! وہ نہیں ایمان لاسکتے جب تک کہ وہ تجھے حَکم نہ بنالیں اپنے متنازعہ فیہ معاملات میں، پھروہ اپنےدلوں میں تنگی بھی نہ محسوس کریں تیرے فیصلے پر اور سرتسلیم خم نہ کردیں۔
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكَ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّصِيْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۝۴۹ اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝۵۰ (المائدہ ۵:۴۹-۵۰) اور یہ کہ تم فیصلہ کرو اُن کے مابین اُس کے مطابق جسے اللہ نے اُتارا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور اُن سے چوکنے رہواور تمھیں بہکا دیں تم پر اللہ کے نازل کردہ بعض احکام سے۔ اگر وہ منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ انھیں ان کے بعض گناہوں پر عذاب دینا چاہتا ہے۔ اوریقینا لوگوں میں بہت سے فاسق ہیں۔ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور کون ہےبہتراللہ سےفیصلے میںیقین رکھنے والوں کے لیے۔
مذکورہ بالا آیات سورئہ مائدہ کے جس رکوع سے لی گئی ہیں، وہ سارا اسی موضوع پر ہے۔ اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں، وہی فاسق ہیں:
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَاۗىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا۝۱۰۵ۙ (النساء۴:۱۰۵) ہم نے نازل کی ہے تم پر کتاب حق کے ساتھ  تاکہ تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان اُس کے مطابق جوتمھیں اللہ نے دکھایا ہے اور خائنوں کے طرف دار نہ بنو۔
یہ تو ہیں کُلّی اورعمومی احکام، لیکن ان کے علاوہ قرآن میں بہت سے تمدنی، تجارتی، فوجداری، بین الملّی اور اسی نوعیت کےدوسرے احکام ہیں، جو جزئیات سے متعلق ہیں اور ان کی مزید تفصیل وتائید احادیث میں ملتی ہے۔ ان تمام احکام کی غرض یہی ہے کہ مسلمان ان پرعمل پیرا ہوں اور اپنےتنازعوں کا فیصلہ ان کے مطابق کریں۔ اب اگر آپ اپنے ملک کے دستور اور قانون پر نگاہ ڈالیں، توآپ کواندازہ ہوجائے گا کہ اُن کا مآخذ اور سرچشمہ کتاب وسنت نہیں بلکہ یورپی ممالک (بلجیم، فرانس، اٹلی وغیرہ) کے دساتیر و قوانین ہیں۔ یوں ہمارادستور وقانون، کلیات کے اعتبار سے بھی اور جزئیات کے لحاظ سے بھی، اسلام سے صریح طور پرمتصادم اور برعکس ہے۔ اب غور کیجیے کہ اگر ایک مسلمان کے سامنے ایسا معاملہ آتا ہے جس کافیصلہ اسلام کی رُو سے کچھ اور ہے، اورموجودہ قانون کی رُو سے کچھ اور، تو اُس وقت وہ مسلمان کون سا موقف اختیار کرےگا؟ پھرغور کیجیے کہ اس ملک کے مجسٹریٹ، جج،چیف جسٹس اور وزیر قانون و عدل کے لیے احکم الحاکمین کے احکام کی مخالفت کیسے جائز اور حلال ہوگی؟
میں آپ سے پُرزور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس تضاداور دو رنگی کو دُورکریں۔ ہمیں اس کرب و بلا سے نجات بخشیں اور اعمال اورعقائد کے اس ٹکراؤ کو ختم کریں۔ یہ چیز میرےعلم میں ہے کہ بکثرت مسلمان اپنے جائز جانی ومالی حقوق سے دست بردار ہوجاتے ہیں اور بہت سے نقصانات کو محض اس لیے گوارا کرلیتے ہیں کہ وہ ایسی عدالت اور ایسے جج کے سامنے جانا حرام سمجھتے ہیں، جو خلاف ِ شریعت فیصلے صادر کرے۔ اس صورتِ حال کے نتائج بڑے خوفناک ہیں اور    اللہ اپنے محاسبے میں بڑا سخت گیر ہے۔میرا یہ فرض ہے کہ آپ کوتوجہ دلاؤں اوریاد دہانی کراؤں۔ اللہ کے سامنے عُذرات کچھ کام نہیں آئیں گے۔ اللہ کی نظر اعمال پر بھی ہے اور نیتوں پر بھی!
یہ تو اس معاملے کاباطنی پہلو ہے، جس کا تعلق ہمارے ایمان اورعقیدے سے ہے۔ لیکن اگر قانون کے خالص ظاہری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تب بھی ملکی و غیرملکی، مسلم و غیرمسلم دونوں قسم کے ماہرین قانون نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی شریعت، قانون سازی کا ایک نہایت شاداب، جامع اوربیش قیمت ذخیرہ ہے۔ فرانس کے متعدد قانون دانوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے قوانین میں اسلامی شریعت کے مطابق ترمیم کریں اور کئی بین الاقوامی اجتماعات میں قانون سازوں نے اسلامی قوانین کی تعریف کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ شریعت کی تعلیمات، قانون سازی کے بارے میں ہرطرح سے تقاضے پورے کرتی ہیں۔
یورپ کے غیر اسلامی قوانین کو ہم مصر میں ایک مدت تک برت کر دیکھ چکے ہیں۔ ان کا حاصل جرائم کی کثرت اور اضافے کے سواکچھ نہیں ہے۔ سنگین وارداتیں چاروں طرف رُونما ہورہی ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ موجودہ قوانین ہمارے امراض کا علاج نہیں ہیں اور ہمارے ماحول اور قومی مزاج سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جن چند ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہیں، وہاں ملک کے امن و اخلاق پر ان کے اچھے نتائج مترتب ہورہے ہیں۔ کیا سرزمینِ مصر کو اس کا موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ بھی اسلامی قوانین کی برکات سے استفادہ کرسکے؟
- شبہات و اعتراضات:یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے بالکل واضح ہے، تاہم کچھ لوگ ہیں جو نیک نیتی یا بدنیتی کی بنا پر اس اصلاح کےراستے میں حائل ہیں اور عموماًچند شبہات پیش کرتے ہیں:
 -  ان میں سے پہلا شبہہ یہ ہے کہ: ’’مصر میں کچھ غیرمسلم اقلیتیں ہیں۔اگر یہاں اسلامی احکام نافذ کردیے جائیں تو اس سے اُس مذہبی آزادی میں مداخلت واقع ہوگی، جس کی دستوری طور پر ضمانت دی جاچکی ہے اور اگر غیرمسلموں کوان احکام سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو یہ حقوقِ شہریت میں ایک ناپسندیدہ امتیاز ہوگا، جس سے ہم چھٹکارا حاصل کرچکے ہیں‘‘۔ اس شبہے کے دو اجزا ہیں۔ اگر ملک میں اسلامی احکام نافذ کیے جائیں تو اس سے مذہبی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ دستور میں اقلیتوں کو جس چیز کی ضمانت دی جاتی ہے، وہ عقیدہ، عبادت، شعائر اور شخصی حقوق کی آزادی ہے۔ ملکی قانون بہرحال اکثریت کی مرضی کا آئینہ دار اور ان کے نظریات کا مظہر ہوتا ہے ۔ اس بارے میں اقلیت کو اکثریت کی بات مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔
یورپی اقوام اس بات پر فخر کااظہار کرتی ہیں کہ وہ شخصی حقوق کا بہت احترام کرتی ہیں اور جمہوریت کی علَم بردار ہیں۔ لیکن وہ بھی اپنی اقلیتوں کے ادیان و عقائد کا لحاظ کیے بغیر اپنی منشا کے مطابق قوانین وضع کرتی ہیں۔فرانس، برطانیہ، جرمنی وغیرہ میں ایک فرد خواہ پناہ چاہنےوالا ہو، خواہ اس کا تعلق ایسی اقلیت سے ہو جس کا دین اکثریت کے دین سے مختلف ہے، وہ ملک کے قانون کی پابندی کرتا ہے۔ اس کے بغیر جمہورکی آزادی اورداخلی و خارجی استقلال متحقق نہیں ہوسکتا۔ اگر غیرمسلم اپنے شخصی معاملات میں فیصلے اپنے پرسنل لا کے مطابق کریں اور بقیہ معاملات میں قانونِ موضوعہ پر عمل کریں، تو اس سے کوئی ایساامتیاز نہیں پیدا ہوتا جو کسی خدشے یا اعتراض کا موجب ہوسکے۔
ہم کسی غیرمسلم کو اس امر پر مجبور نہیں کرتے کہ وہ اپنے پرسنل لا کی پابندی کرے، بلکہ ہم اس کا انتظام اُس کی اپنی خواہش اورمرضی کی بنا پر کرتے ہیں۔ اس سے مقصود کوئی ناروا پابندی یا حق تلفی نہیںہے۔ دوسری طرف اگر ہم ملکی قانون کو اقلیت کے مسلک اور نظریےکے مطابق بنائیں تو یہ اکثریت کے حقوق پر ایک شدید ظلم اور زیادتی کےمترادف ہوگا۔ پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سےمسیحی برادرانِ وطن نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ بلاامتیاز تمام معاملات میں شرعی احکام  کو اُن پر بھی نافذ کیا جائے اور اس بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰـتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۴۴) ’’پس، تم مت ڈرو لوگوں سے بلکہ ڈرو مجھ سے اور مت لومیری آیات کے عوض حقیر قیمت‘‘۔
- دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اسلامی قوانین کا اجرا عملاً ناممکن ہے‘‘۔مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم سود کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں، جب کہ ہم بین الاقوامی اقتصادی نظام کی جکڑبندیوں میں بندھے ہوئے ہیں؟‘‘لیکن یہ اعتراض بھی بالکل بے اصل ہے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض مضبوط عزائم کی حامل قوموں نے اپنے لیے مخصوص طور پر منفرد معاشی نظام وضع کیے ہیں اور ساری دنیا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ان کا احترام کریں۔ اس معاملے میں فیصلہ کن شے حکومت کی قوتِ ارادی اورقوم کی عملی استعداد ہے۔ اس بارے میں ہماری راہ میں اصل رکاوٹ صرف عزم کی کمزوری اورموہوم خطرات کابے جا خوف ہے۔ ہماری قوم اللہ کے فضل سے ہرمشکل کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ہم زندگی کی جملہ ناگزیر ضروریات خود پیدا کرسکتے ہیں اور اس بارے میں ہمیں اغیار کادست ِ نگر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہمارے ارادے مضبوط ہوجائیں تو ہم اقوامِ عالم کے علی الرغم اپنے مالی نظام کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
آپ نےدیکھا ہے کہ اٹلی پر ایک وقت ایساآیا تھا ، جب اُس پرچاروں طرف سے ۵۲؍اقوام نے یورش کر دی تھی اور ان میں دنیا کی طاقت ور ترین سلطنتیں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے مل کر اٹلی پر تاوان عائد کیے تھے، لیکن آخرکار اٹلی کی عزیمت کے سامنے ان سب کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اور قومی غیرت کےسامنے بندوق اور تلوار کی کچھ پیش نہ گئی۔ اسی طرح آپ کو معلوم ہے کہ [جرمن نسل پرست] ہٹلر نے یہ فرمان صادر کردیا تھا کہ ’’جرمنی کا سونا اور سکّہ جرمنی سے باہر نہیں جائے گا‘‘۔ کیا اس سے دوسرے ممالک کے ساتھ جرمنی کا لین دین ختم ہوگیا تھا؟ ہرگز نہیں، بلکہ دوسری قوموں نے اس فیصلے کا احترام کیا،اور مبادلے کے اصول پر جرمنی سے معاملہ کرنا شروع کردیا۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ دونوں قومیں طاقت ور تھیں اور ہم کمزور ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں فوج کشی اور لشکر آرائی تک نوبت شاذونادر ہی پہنچتی ہے۔ خریدوفروخت اور لین دین کے مسائل میں کوئی قوم خواہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو، وہ اس میدان میں بالکل آزاد ہے بشرطیکہ وہ یکسو ہوکر اپنے مطمح نظر کوواضح کردے اور پھر ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر جم جائے۔
دوسری قومیں تو صرف یہ چاہتی ہیں کہ ہم اُن کے ساتھ شریف لوگوں کا سا معاملہ کریں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ قرض کا کاروبار کرنےوالے بہت سے بنک اوردوسرے ادارے برابر کے لین دین پر رضامند ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ ادایگی یقینی ہوجائے۔ اس لیے ایک طرف اگر ہم سود کو قانوناً ممنوع قرار دے دیں اوردوسری طرف واجبات کی پوری پوری ادایگی کا شدت سے اہتمام کریں، تو دوسری حکومتیں اس پر راضی ہوجائیں گی اور اداے حقوق کی ضمانت کے بعد وہ سودی لین دین پر اصرار نہیں کریں گی،خصوصاً، جب کہ انھیں بتایا جائے گا کہ سود تمام مذاہب ِ عالم کے نزدیک حرام ہے۔ آخرکیوں نہ مصر کو اس شرف میں سبقت حاصل ہو کہ وہ دنیا کو سود کی لعنت اور خباثت سے نجات دلانے کی جدوجہدکرے اور کیوں نہ مصری حکومت نوعِ انسانی کے لیے اس نوید ِ رحمت کی پیامبر ثابت ہو؟
ایک زمانہ تھا کہ یورپ کی قومیں انسانی خریدوفروخت کواپنی تہذیب و معاشرت کے لیے بالکل اسی طرح ضروری سمجھتی تھیں، جس طرح آج وہ سود کو سمجھتی ہیں۔ انھی میں سے بعض نے اس کاروبار کو ختم کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اورآخرکار دوسری قوموں نے بھی اس کی نامعقولیت کو تسلیم کیا، اور ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ کل اگر بردہ فروشی کے خلاف علَم بلند کیا جاسکتا تھا تو آج کیا سود کے خلاف جہاد نہیں کیا جاسکتا؟ اس میں آخر خوف ویاس ہمیں کیوں لاحق ہو؟ کیا ہم انسانیت کی خدمت سے بالکل عاجز ہوچکے ہیں؟ حالانکہ کل تمام دنیا میں علم وعرفان کی روشنی پھیلانے والے ہم ہی تھے۔ یہ محض شاعری یا خیال آرائی نہیں ہے، بلکہ یہ حقائق ہیں جنھیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
اگر ہم سودکو ترک کردیں تو یہ امر ہماری اقتصادی خودمختاری کا باعث ہوگا اور ہماری قوم جو اغیار کے سہاروں پر جینے کی عادی ہوچکی ہے، اس میں خود اعتمادی،عزّتِ نفس اور دوسروں سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگا۔اس مقصد کے حصول کے لیے اس سے زیادہ موزوں اورقیمتی موقع آخر کون ساہوگا ۔ ہماری قوم ایک دینی مزاج رکھتی ہے اور اسے متحرک اور آمادئہ عمل کرنے کے لیے دینی عوامل سب سے زیادہ کارگر ہوسکتے ہیں۔ سودکی تحریم سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوگا کہ ہماری غریب قوم انسانیت کے قاتلوں، سود خوار لٹیروں اورقزاقوں سے گلوخلاصی حاصل کرلےگی۔
- ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ’’اگرشرعی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا، تو چوروں کے ہاتھ کٹنے شروع ہوجائیں گے اور زانیوں کو سنگسار کیا جایا کرےگا۔ ہماری قوم دورِوحشت کی طرف لوٹ جائے گی، ترقی کی رفتار رُک جائے گی اور ہمارا شمار غیرتہذیب یافتہ قوموں میں ہونے لگےگا‘‘۔
یہ اعتراض بھی بالکل بے حقیقت ہے، اوردراصل یہ ایسے افراد کے ذہن کی پیداوار ہے جو اجتماعی نظم کو درہم برہم کرنے کے درپے ہیں اورزندگی کےہرگوشے میں مطلق اباحیت اور بےقیدی کے خواہش مند ہیں۔وہ دوسروں کی جان و مال اور عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس اندیشے نے ان کی نیند حرام کررکھی ہے کہ کہیں اسلام کی قربان گاہ پر سب سے پہلے انھی کی خواہشات کو بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ جرائم کی کثرت کو تمدن و ارتقا کی علامت قرار دے دینا صحیح ہے اور نہ اُس قانون کو رجعت پسندانہ اورسنگ دلانہ سمجھ لینا درست ہے ، جو جرائم و فواحش کا استیصال کرے۔ ایسا قانون توتہذیب و ترقی کا عین مظہرہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان فاسد افکارو نظریات کو   ختم کیا جائے۔ مصلحین اسلام کے لیے یہ موقع شرمانے کا نہیں بلکہ آگے بڑھ کرکام کرنے کا ہے۔ آج کل نظریات میں قانون کی ہمدردی مجرم کے حق میں زیادہ اورمعاشرے کے حق میں کم ترہوگئی ہے۔ مجرم کے ساتھ سختی کے بجاے نرمی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہولناک جرائم چاروں طرف پھیل چکے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قانون بالکل عاجز اور بے بس ہے۔ قومی کمائیوں اور محنتوں کا بیش تر حصہ پولیس، قیدخانوں اور عدالتوں میں صرف ہورہا ہے، لیکن کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہورہا۔ اس وقت فلسفۂ جرم سے متعلق خوش نما بحث اور بے فائدہ استدلال کی اتنی ضرورت نہیں ہے، جتنی ضرورت جرم کے عملی سدباب اور روک تھام کی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اسلامی قوانین کے نافذ کرنے میں ایک عملی مشکل یہ ہے کہ ایسی جامع شخصیتوں کا ملنا محال ہے، جو بیک وقت اسلامی علم وعمل سے آراستہ ہوں۔ حاملینِ دین قانون کی تدوین و تنفیذ کے جدید تقاضوں سے بے خبر ہیں اورقانون دان دین کا علم نہیں رکھتے اور جب تک مردانِ کار پیدا نہ ہوں، اسلامی قانون کو مفید اور مناسب شکل میں کیسے رائج کیا جاسکتا ہے؟‘‘
لیکن یہ شبہہ بھی بےبنیاد ہے اور اس مشکل پرقابو پالینا بالکل آسان ہے۔ اللہ کے فضل سے ایک طرف ہمارےعلماے دین میں بہت سے حضرات ایسے ہیں، جن کی جدید قانون پربھی وسیع نظر ہے، اوردوسری طرف ہمارے ہاں قانون کےبہت سے ماہرین ایسے موجود ہیں، جنھیں اسلامی فقہ و تشریع سے پورا پورا شغف ہے، اور جنھوں نے اس سلسلے میں بڑی محنت سے اسلامی اور غیراسلامی قانون کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اپنی تحقیق کے نتائج ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔
پھر ایک اعتراض ایسا بھی وارد کیا جاتا ہے جو خالص مادی نقطۂ نظر اور شخصی مصالح اور تعصب کی بنیاد پر کیاجاتا ہے کہ’’ شرعی قانون پر اصرار کرنے والے درپردہ عدالت ہاے شرعیہ پر قابض ہونا چاہتے ہیں اوران کے ارادے یہ ہیں کہ عدالتوں میں کام کرنے والوں کی کثیر تعداد کو بالکل بے کار و بے روزگار بنادیں، اوریہ چاہتے ہیں کہ ایک خاص گروہ سارے عدالتی مناصب سنبھال لے، اور دوسروں کو ان سے بالکل محروم کردے۔عدالتوں کا نظام بہت وسیع، دقیق اور ہمہ گیر ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ شرعی عدالتوں کے چند جج ایسی کٹھن ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں؟‘‘ یہ اعتراض بھی بالکل لغو، مہمل اور پوچ ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ایک خاص قسم کا علم کیا کسی خاص طبقے کی نسلی میراث ہے؟ کیا ہر ذہین آدمی کی رسائی ہرعلم وفن تک نہیں ہوسکتی؟
ہمیں اس بارے میں مکمل اطمینان ہے کہ دونوں قسم کی عدالتوں کے مجسٹریٹ اور جج صاحبان اگرچہ چند ماہ بھی باہمی تدریس و تربیت پر صرف کریں تو وہ قانون کے سارے شعبوں پرحاوی ہوجائیں گے۔ آدمی جس راہ پر بھی پیش قدمی کرنے کا پختہ ارادہ کرلے، تو وہ راہ اس کے لیے ہموار ہوجاتی ہے۔ ہم کسی بھی فرد یا گروہ کی بے جا طرف داری یاعداوت میں مبتلا نہیں ہیں۔ ہم تو اس تفریق اور دوعملی کو سرے سے مٹادینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیکولر اور شرعی امتیازات یکم قلم ختم کر دیے جائیں اورعدالت کا ایک کُلّی اور وحدانی نظام قائم کیا جائے اور اُس کے لیے اصل بنیاد اور ماخذ شریعت الٰہی کوقرار دیا جائے۔
یہ چند شبہات جو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیںاوران کے مختصر جوابات بھی دے دیےہیں، جن سے بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قانونِ شرعیہ کے نفاذ سے متعلق جن شکوک و شبہات کااظہار کیا جاتا ہے،وہ کتنے بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔ یہی حال ہر ا س اعتراض کا ہوتا ہےجس کی پشت پرنفسانی اغراض اور حق سے اعراض کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
الاخوان المسلمون کا مطالبہ یہ ہے کہ ہماری حکومت، شریعت اسلامیہ کی طرف لوٹے اور مصری قانون کے نظام کو فوراً شریعت کی بنیادوں پر استوار کرے۔ ہم ایک مسلم قوم ہیں۔ ہم نے عزم کرلیا ہے کہ ہم صرف اللہ کے قانون، قرآن اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی حکمرانی اور بالادستی تسلیم کریں گے، خواہ اس کی بھاری سے بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑے اوربڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کرنا پڑے۔ ایک آزاد اور خودمختار مسلمان قوم ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فطری حق ہے، اور سیاسی و اجتماعی شوکت و استقلال کا کوئی دوسرا مظہر اس کابدل اور قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ آپ بھی اس حق کے حصول میں ہماری مدد کیجیے۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش کیجیے اور قوم کو مجبور نہ کیجیے کہ وہ کسی ایسے راستے پر پڑ جائے جس پرمایوسی کی حالت میں قومیں پڑ جایا کرتی ہیں۔

مجھے ایک فاضل دوست نے خط کے ذریعے متوجہ کیا ہے کہ مَیں عورت اور معاشرے کے حوالے سے، مرد و عورت کے مقام اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں کچھ عرض کروں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا احکام دیے ہیں، اور لوگوں کو اس پر اُبھاروں کہ وہ ان احکام پر مضبوطی سے عمل کریں۔
میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اس طرح کے موضوع پر لکھنا کس قدر اہم ہے ،اور نہ اس سے بے خبر ہوں کہ عورت کے حال کی درستی و شیرازہ بندی اُمت کی فلاح و بہبود کے لیے  کس قدر ضروری ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عورت ملت ِ اسلامیہ کی نصف آبادی پر مشتمل ہے، بلکہ یہ وہ نصف حصہ ہے جو اُمت کی زندگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کہ عورت ہی وہ پہلا مدرسہ ہے جو گروہوں کی تشکیل کرتا اور نئی پود کو ڈھالتا ہے۔ بچہ جس انداز سے تربیت پاتا ہے اسی پر قوم اور ملّت کی زندگی کے رُخ کا انحصار ہوتا ہے۔ پھر بچپن ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی نوجوانوں اور مردوں کی زندگی میں عورت ہی مؤثر حیثیت رکھتی ہے۔
میں ان میں سے کسی چیز سے بے خبر نہیں ہوں اور نہ دینِ حنیف نے اس معاملے کو واضح کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا ہے۔ چوں کہ اسلام تمام انسانوں کے لیے نور اور ہدایت بن کر آیا ہے اور اس نے انسانی زندگی کی پوری باریک بینی کے ساتھ بہترین بنیادوں اور اصولوں پر تنظیم کی ہے۔ ہاں، دینِ حنیف نے یقینا اس معاملے کو واضح کیے بغیر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر حیران و سرگرداں مارے مارے پھریں، بلکہ ان کے لیے اس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔
درحقیقت یہ بات کچھ زیادہ اہم نہیں ہے کہ عورت اور مرد اور ان کے باہمی تعلقات و فرائض کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا ہمیں علم ہو، کیوںکہ یہ علم قریب قریب ہرشخص کو ہے، البتہ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم اسلام کے احکام کے آگے سرجھکانے کو تیار ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک، نیز دوسرے مسلم ممالک پر تقلید ِ مغرب کا شغف تیزو تند سیلاب کی طرح چھا گیا ہے اور لوگ اس میں ٹھوڑیوں تک غرق ہیں۔ پھر کچھ لوگ اسی پر بس نہیں کرتے کہ یورپ کی تقلید میں اس طرح ڈوب جائیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام کو ان مغربی خواہشات اور مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو دھوکا دے لیں، اور اس دین کی سہولت اور اس کے احکام کی نرمی کو ناجائز طور پر استعمال کرکے اور ان کی اسلامی صورت ختم کر کے انھیں ایسے نظاموں کی شکل دے دیں، جن کا دین سے کسی طرح کا جوڑ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلامی شریعت کی روح اور بہت سی نصوص کو جو ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں نظرانداز کردیں۔
فی الحقیقت یہ دوچند ہلاکت ہے، کیونکہ یہ لوگ صرف مخالفت پر بس نہیں کرتے بلکہ اس مخالفت کے لیے خودساختہ قانونی حیلے ڈھونڈتے ہیں اور ان کو جواز اور حلّت کا رنگ دیتے ہیں، تاکہ اس سے توبہ کرنے یا کسی دن اس سے باز آجانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
پس، درحقیقت اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اسلامی احکام پر ایسی نظر ڈالیں جو ہواے نفس سے پاک ہو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے قبول کرنے پر آمادہ کریں، خصوصاً اس معاملے میں،جو موجودہ ترقی و بیداری کے دور میں بنیادی و اساسی خیال کیا جاتا ہے۔

عورت کا مقام و دائرہ کار

اس لیے بے جا نہ ہوگا اگر ہم اس ضمن کے ان احکام کو بھی بیان کریں جن کا لوگوں کو علم ہے، اور ان کو بھی جن کا ان کے لیے جاننا ضروری ہے:
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام عورت کی قیمت و وقعت کو زیادہ کرتا ہے اور حقوق و فرائض میں اسے مرد کا شریک ٹھیراتا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا صحیح و واقعی ہونا مسلّم ہے، کیوں کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام بخشا اور اس کا مرتبہ بلند کیا اور اسے مرد کی بہن اور اسے اس کا ایسا شریکِ حیات ٹھیرایا، گویا وہ ایک دوسرے کا جزو ہیں، بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ نیز اسلام نے عورت کے کامل شخصی حقوق، کامل تمدنی حقوق، کامل سیاسی حقوق کا اعتراف کیا ہے اور اس کے ساتھ اس حیثیت سے معاملہ کیا ہے کہ وہ ایک کامل الانسانیت ہستی ہے، جس کے کچھ حقوق ہیں اور اس پر کچھ فرائض ہیں۔ جب وہ اپنے فرائض ادا کرے گی تو مستحقِ شکرگزاری ہوگی اور جو اس کے حقوق ہیں ان کی ادایگی ضروری و لازم ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں ایسی نصوص بہت ہیں جن سے اس بات کی تائید و توضیح ہوتی ہے۔
۲- مرد اور عورت کے حقوق میں تفریق ان فطری و طبعی اختلافات کی بنا پر ہے جن سے مرد و عورت کو کوئی مفر نہیں، نیز یہ تفریق اس ذمہ داری کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے جو وہ دونوں انجام دیتے ہیں اور یہ ان حقوق کی حفاظت کے لیے ہے جو ہردو کو بخشے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’اسلام نے مرد اور عورت میں بہت سے حالات و ظروف میں فرق کیا ہے اور ان میں کامل مساوات نہیں رکھی ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر عورت کا حق ایک گوشے میں کچھ کم کیا گیا ہے تو اس سے بہتر حق اس کو دوسرے گوشے میں دے دیا گیا ہے یا حقوق کی یہ کمی پہلے اس کے فائدے اور بھلائی کے لیے ہے اور پھر کسی اور کے لیے۔ علاوہ بریں کیا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عورت کی جسمانی و روحانی ساخت مرد کی جسمانی و روحانی ساخت کے بالکل مساوی ہے؟ یا کیا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ عورت کو اپنی زندگی میں جو کردار ادا کرنا ضروری ہے کیا وہ بعینہٖ وہی ہے جو مرد کے لیے ضروری ہے؟ جب تک ہم مادریت و پدریت پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت تک اس طرح کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے!
میرا یقین یہ ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت مختلف ہے اور اسی طرح دونوں کے فرائض بھی مختلف ہیں، اور اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں سے متعلق نظمِ زندگی میں بھی اختلاف ہو۔ اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق و واجبات میں جو فرق و امتیاز روا رکھا ہے، اس  کا راز یہی ہے۔
۳- عورت اور مرد میں ایک دوسرے کی طرف قوی فطری جاذبیت ہے اور یہی ان کے باہمی تعلق کی پہلی بنیاد ہے۔ اس جاذبیت کا حاصل اگرچہ یہ بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قربت اور تمتع کرتے ہیں، مگر اس کی اوّلین غایت و غرض یہ ہے کہ حفظ نوعِ انسانی اور مشکلاتِ زندگی کی برداشت میں باہمی تعاون پیدا ہو۔
اسلام نے اس نفسانی میلان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو پاک کرکے حیوانیت سے روحانیت کی طرف عمدگی کے ساتھ موڑ دیا ہے۔ اس کو باعتبارغرض و مقصود مقامِ بلند عطا کیا ہے اور اسے محض جنسی تمتع کی پستی سے نکال کر کامل تعاون کی صورت بخش دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط(الروم ۳۰:۲۱)اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے پیدا کیں تمھارے لیے خود تمھاری جنس سے تمھاری بیویاں، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تم میں باہم مودّت و رحمت پیدا کی۔
یہی وہ اصول ہیں، جن کو اسلام نے عورت کی حیثیت متعین کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے اور انھی پر اسلام کی اس حکیمانہ قانون سازی کی بنیاد ہے، جو دونوں جنسوں کے درمیان باہم تعاون کی پختہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ دونوں سے ایک دوسرے سے سماجی سطح پر پورا فائدہ اُٹھا سکیں اور مسائلِ حیات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں۔

عورت کی تربیت کے تقاضے

اسلامی نظریے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر اُبھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِعظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اگر وہ ا س میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝۶ (تحریم ۶۶:۶) اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے:
تم میں سے ہرشخص ذمّہ دار ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمہ داری میں دی ہوئی چیز کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا ، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمّہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہے۔[  مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۴۹۶]
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے تووہ اسے جنّت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی۔[ ابن   حبّان،کتاب البروالاحسان، حدیث:۴۴۷]
اور ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہے اور ان کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے، تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ، حدیث : ۱۸۸۸]
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں اور امام ابوداؤد نے بھی اسے روایت کیا، مگر ان کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حُسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرا دی تو اس کے لیے جنّت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اس کو ان چیزوں کی تعلیم دی جائے جو  اس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، اُمور ِ اَطفال اور وہ تمام اُمور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انھیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔[ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث:۲۷۳]
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے کیوںکہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحّر حاصل ہو اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہےکیوں کہ جیساکہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے، نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ 
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوںکہ ’حمد‘ اور ’اخلاص‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے اور ’یونس‘ اور ’براءت‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی ان ذمہ داریوں اور خدمات کی ادایگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیرمنزل اور بچّے کی نگہداشت و تربیت۔

مخلوط کے بجاے جداگانہ معاشرت

دوسرا پہلو :عورت اور مرد میں دُوری ___ اسلام عورت اور مرد کے اختلاط میں حقیقی خطرات محسوس کرتا ہے۔ اس لیے نکاح کی شکل کے علاوہ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے دُور دُور رکھتا ہے۔ اس بناپر اسلامی سوسائٹی مخلوط سوسائٹی ہونے کے بجاے غیرمخلوط سوسائٹی ہے۔
اختلاطِ مرد و زن کے علَم بردار کہیں گے کہ عدمِ اختلاط میں دونوں جنسیں ملنے جلنے کی لذت اور انس کی اس شیرینی سے محروم ہوجائیں گی، جسے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے میں پاتا ہے اور جس سے ان کا شعور اُجاگر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے اجتماعی اخلاق پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ملاطفت، حُسنِ معاشرت، شائستگی کلام اور نرم خُوئی وغیرہ وغیرہ۔  اسی طرح ملتے رہنے سے ایک دوسرے کی طرف میلان بڑھتا ہے۔
یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر بہت سے نوجوان فریفتہ ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس لیے کہ یہ طرزِفکر خواہشات و شہواتِ نفس کے عین موافق ہے۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتے، جو تم نے سب سے پہلے بیان کی ہے۔ ہم تم سے کہتے ہیں کہ اس لذتِ اجتماع اور حلاوتِ شہوت کے نتیجے میں جو آبروئوں کی بربادی، نیتوں کی خباثت، دلوں کا فساد، گھروں کی ویرانی، خاندانوں کی تباہی اور جرائم کی وبا رُونما ہوتی ہے، اور پھر اس اختلاط کے نتیجے میں اخلاق میں جو لوچ اور کردار میں جو ضُعف پیدا ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں مردوں اور عورتوں کی فطرتیں تک تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ سب نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جس کا انکار کوئی ضدی اور ہٹ دھرم انسان ہی کرسکتا ہے۔
اختلاط کے یہ تمام بُرے نتائج،ان کے متوقع فوائد سے ہزار درجے بڑھ کر ہیں اور اگر کسی شے میں مصالح و مفاسد کے دو متعارض پہلو موجود ہوں تو مفاسد کا دُور کرنا مصالح حاصل کرنے سے زیادہ بہتر ہے، خصوصاً اس وقت، جب کہ مفاسد کے مقابلے میں مصالح بالکل بے وزن و حقیر ہوں۔
اسی طرح دوسری دلیل بھی صحیح نہیں کہ اختلاطِ مرد و زن سے ایک دوسرے کی جانب میلان اور بھی بڑھتا ہے۔ ایک قدیم ضرب المثل ہے کہ کھانا بھوک کی خواہش بڑھاتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ عمر بھر رہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اس کی طرف ہمیشہ نیامیلان پاتا ہے، جب کہ جو عورتیں مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں، وہ قسم قسم کی آرایش و زیبایش کی نمایش میں نئے نئے انداز اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں اور اسی وقت راضی و خوش ہوتی ہیں، جب اس طرح وہ مردوں کی نگاہوں میں پسندیدہ قرار پاجائیں۔ اس مشق کا ایک بُرا اقتصادی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آرایش و نمایش میں حد سے تجاوز اور فضول خرچی کی وجہ سے افلاس، بربادی اور فقروفاقہ تک نوبت پہنچتی ہے۔
اس لیے ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ، بے مہار اور غیرقانونی مخلوط میل ملاپ کا معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں مردوں کے لیے مردوں کا معاشرہ ہے اور عورتوں کے لیے عورتوں کا۔ چنانچہ اسلام نے عورتوں کے لیے عیدگاہ میں جانا اور جماعت میں شامل ہونا اور ضرورت پڑنے پر میدانِ جنگ تک میں پہنچنا جائز قرار دیا ہے، مگر اسلام اسی حد پر رُک گیا ہے اور اس کے لیے بھی اس نے سخت شرطیں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ عورت آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہے، ستر کا لحاظ رکھے اور اپنے جسم کو کپڑوں سے اس طرح ڈھانک لے کہ نہ تو جسم نمایاں ہو، نہ جھلکتا ہو اور کسی اجنبی کے ساتھ وہ تنہا نہ رہے خواہ کیسے ہی حالات ہوں، اور اسی طرح کی دوسری شرائط بھی۔
واضح اسلامی تعلیمات کی رُو سے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت کے ساتھ جو اس کی محرم نہ ہو،تنہائی میں رہے۔ چنانچہ اسلام نے دونوں جنسوں کے باہم اختلاط کے ضمن میں نہایت قوی اور محکم احکام دیے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے آداب میں سے ایک بات یہ ہے کہ لباس میں ستر کو ملحوظ رکھا جائے، نیز احکامِ دین میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھی جائیں۔ نیز یہ چیز اسلامی شعائر میں داخل ہے کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں، حتیٰ کہ نماز بھی گھروں ہی میں پڑھیں۔ اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک حد یہ ہے کہ بات یا اشارے کے ذریعے دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرنے، نیز آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہا جائے بالخصوص باہر نکلتے وقت اور ان سب احکام کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کے فتنے سے بچیں۔ چنانچہ آیات و احادیث میں یہ سب باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سورئہ نُور میں فرماتا ہے:
 (اے نبیؐ) اہلِ ایمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی   شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی روش ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقینا اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور اہلِ ایمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر وہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں، اپنے باپوں ، اپنے خسروں، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں، اپنے غلاموں یا ماتحت مردوں کے سامنے جو عورتوں کی ضرورت نہیں رکھتے یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں پر مطلع نہیں ہوئے اور اپنے پائوں نہ ماریں کہ جو زیبایش وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا علم ہوجائے اور اے مومنو! اللہ کی طرف تم سب پلٹو تاکہ تم فلاح پائو۔(النور ۲۴: ۳۰-۳۱)
اور سورئہ اَحزاب میں ہے:
اے نبیؐ! کہہ دیجیے اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہ لٹکا لیں اپنے اُوپر اپنی بڑی چادریں، اس طرح زیادہ آسانی سے وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں چھیڑا نہ جائے گا۔(الاحزاب۳۳:۵۹) 

حیا اسلامی معاشرت کا شعار

اسی طرح احادیث میں کثرت سے اس سلسلے کے احکام موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے اس ارشاد کو نقل فرمایا:
غیرمحرم پر نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک مسموم تیر ہے، تو جو کوئی میرے خوف سے اسے ترک کر دے، تو میں اس کے بدلے میں اسے ایمان کی حلاوت بخشوں گا جسے وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔[مسند الشھاب القضاعی ،حدیث:۲۸۳]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
تمھیں اپنی نظریں ضرور نیچی رکھنی چاہییں اور اپنی شرم گاہوں کی ضرور حفاظت کرنی چاہیے، ورنہ اللہ تمھارے چہروں کو مسخ کردے گا۔[المعجم الکبیر للطبرانی، باب مااسند ابوامامۃ،حدیث: ۷۷۰۴]
حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
ہرصبح دوفرشتے ندا دیتے ہیں: ہلاکت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کے چکّر میں پھنسے ہوں، اور ہلاکت ہو ان عورتوں پرجو مردوں کے چکّر میں پھنسی ہوئی ہوں۔(ابن ماجہ،  حاکم، کتاب الفتن، حدیث: ۳۹۹۷]
حضرت عقبہ بن عامرؓ راوی ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
عورتوں کے پاس ہرگز نہ جائوتو انصار میں سے ایک شخص نے پوچھا: کیا خیال ہے آپ کا دیور کے بارے میں؟ (کہ وہ بھابی کے پاس جائے) تو آپؐ نے فرمایا: دیور تو موت ہے۔ [بخاری،کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۸،  مسلم،کتاب السلام، حدیث:۴۱۳۲]
اس حدیث میں دیور کے پاس جانے سے مراد تنہائی میں جانا ہے جیساکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں جاتا ہے تو شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے۔[صحیح ابن حبان، کتاب السیّر، حدیث:۴۶۴۶]
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے مگر ا س وقت، جب کہ اس کا کوئی محرم بھی موجود ہو۔[بخاری، کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۹]
حضرت معقل بن یسارؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
تم میں سے کسی شخص کے سر میں لوہے کی سلاخ چبھو دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہوگا کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ [طبرانی، حدیث: ۱۷۲۸۴]
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتوں سے تنہائی میں ملنے سے بچو کیوںکہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! جب بھی کوئی شخص کسی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان دونوں کے درمیان میں داخل ہوجاتا ہے۔  کسی انسان کی کسی ایسے سور سے رگڑ لگ جائے جو گارے یا کیچڑ میں لت پت ہو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے کسی ایسی عورت کے کندھوں سے رگڑ کھائیں جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔[الطبرانی، باب الصاد، حدیث: ۷۶۹۴]
حضرت ابوموسیٰؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہرآنکھ زانی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرے تو وہ بھی زانی ہے‘‘(ترمذی،باب الادب، حدیث:۲۷۸۱]۔اسی حدیث کو نسائی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’جو عورت معطر ہوکر مردوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو پالیں، تو وہ زانیہ ہے اور ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘۔’’ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘ سے مراد وہ آنکھ ہے جو عورت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(بخاری، ، کتاب اللباس، حدیث: ۵۵۵۴]
حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک بار ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کمان لگائے ہوئے گزری تو آپؐ نے فرمایا: اللہ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ تشبّہ کرتی ہیں اور اسی طرح ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ تشبّہ کرتے ہیں‘‘۔[المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث: ۴۰۹۷]
حضرت ابن مسعودؓ نے ایک بار فرمایا: ’’اللہ لعنت بھیجے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے بال نوچنے والیوں اور دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو بگاڑتی ہیں‘‘۔[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۲۵]
اس پر ایک عورت نے ان پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جس پر اللہ کے رسولؐ نے لعنت بھیجی اس پر میں کیوں نہ لعنت بھیجوں، جب کہ اللہ کی کتاب میں اللہ کا فرمان موجود ہے: ’’رسولؐ جو تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رُک جائو‘‘۔ (بخاری ،کتاب اللباس، حدیث: ۵۶۰۲]
حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نقل فرمایا ہے کہ: ’’اہلِ دوزخ میں سے دو گروہوں کو مَیں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ گروہ کہ جس کے ساتھ گائے کی دُم کے مانند کوڑے ہوں گے اور ان سے وہ لوگوں کو پیٹتے ہوں گے۔ اور ایک وہ عورتیں جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اپنی طرف دوسروں کو مائل کرنے والی اور ناز و اَدا سے چلنے والی ہوں گی، ان کے سر اُونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنّت میں داخل نہ ہوں گی، اور نہ اس کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دُور سے سونگھنے میں آتی ہے۔[مسلم، کتاب اللباس، حدیث: ۴۰۶۵]
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اسماءؓ بنت ابی بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح آئیں کہ وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: اے اسماءؓ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم میں سے سواے اِس اور اِس کے___اور آپؐ نے چہرے اور ہتھیلی کی طرف اشارہ کیا___ اور کچھ نظر نہ آنا چاہے‘‘۔[الترغیب والترھیب، المنذری، حدیث: ۲۰۴۵]
نیز ابوحمید ساعدیؓ کی زوجہ اُمِ حمیدؓ فرماتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں‘‘۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو مگر تمھارے لیے کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ کمرے میں پڑھو اور کمرے کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کی نماز تمھارے لیے محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلے کی مسجد میں تمھارا نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔[مصنف ابن ابن شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع، حدیث:۷۵۰۳]
 اس پر اُمِ حمیدؓ نے اپنے لیے اپنے گھر کے آخری اور تاریک ترین حصے میں مسجد بنوالی اور اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملیں۔(احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان)

موجودہ روش اور اسلام

اس وضاحت کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہماری جو روش ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں یہ کھلا ہوا اختلاط جو مدرسوں، اداروں، مجمعوں اور عام محفلوں میں ہوتا ہے اور عورتوں کا یہ کھیل کود کے مقامات اور ہوٹلوں اور پارکوں کی سیر کرنا اور یہ بازاری پن اور یہ آرایش و زیبایش جو ننگ پن اور حیافروشی کی حد تک پہنچ گئی ہیں، اسلام سے ان کا کوئی جوڑ نہیں لگایا جاسکتا،نیز اس کے بدترین نتائج ہماری اجتماعی زندگی میں رُونما ہورہے ہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے پبلک معاملات میں حصہ لینا عورت پر حرام نہیں کیا ہے اور کوئی بھی نص ایسی موجود نہیں ہے جس کا یہ مفہوم ہو،اگر ہے تو ایسی کوئی نص لائو جس میں اس کی حُرمت کی صراحت ہو؟ ان لوگوں کا حال اس شخص کی مانند ہے جو یہ کہے کہ والدین کو پیٹنا جائز ہے کیونکہ آیت میں صرف ’اُف‘کہنے سے منع کیا گیا ہے اور پیٹنے کے ممنوع ہونے پر کوئی نص نہیں۔
اسلام نے عورت کے لیے یہ بات حرام ٹھیرائی ہے کہ وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ کھولے یا کسی غیر کے ساتھ تنہائی میں رہے اور اس سے ملے جلے اور اس کے لیے یہ بات پسندیدہ قرار دی ہے کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے۔ پھر اسلام غیرمحرم پر نظر ڈالنے کو ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر خیال کرتا ہے اور عورت کو اس بات پر بھی ٹوکتا ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے کمان کو بھی لٹکائے۔ کیا اس کے بعد بھی کہا جائے گا کہ اسلام نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ عورت کے لیے پبلک اُمور میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔ 
اسلام کے نزدیک عورت کی فطری و بنیادی ڈیوٹی گھر اور بچے کی ہے۔وہ ایک لڑکی ہے جسے اپنے گھریلو مستقبل کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ وہ ایک بیوی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے لیے وقف ہوجائے۔ وہ ایک ماں ہے جس کا اپنے شوہر اور اپنی اولاد اور گھر کے لیے فارغ ہونا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ وہ گھر کی مالک، منتظم اور ملکہ ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ کسی اور ذمہ داری کو کس طرح سنبھال سکتی ہے کیونکہ وہ گھر کے فرائض سے کب فارغ ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر اجتماعی ضروریات مجبور کریں کہ اس فطری ڈیوٹی کے ماسوا عورت کوئی اور کام بھی کرے تو عورت کو لازم ہے کہ اُن تمام شرائط کا پوری طرح لحاظ رکھے، جو اسلام نے اس لیے مقرر کی ہیں کہ عورت مرد کے فتنے سے دُور رہے اور مرد عورت کے فتنے سے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا یہ عمل بقدر ِ ضرورت ہی ہو، نہ یہ کہ یہ کوئی عام قاعدہ یا چلن ہو، جس کے مطابق عمل کرنا ہرعورت کا حق ہو___ لیکن اس معاملے کے بہت سے گوشے ہیں جو طویل بحث و تمحیص کے طالب ہیں، بالخصوص یہ پہلو کہ اس ’میکانکی و مادی‘ دور میں بے روزگاری اور مردوں کی بے کاری ہر قوم اور ہرحکومت کی مشکل ترین گتھی ہے۔

ترجمہ:ابوالخیرعثمانی

ہم دینِ اسلام کی دعوت اور تحریک الاخوان المسلمون کے اغراض و مقاصد اس طرح  پیش کرنا چاہتے ہیں جو نُور سے زیادہ روشن، شعاعِ آفتاب سے زیادہ تابناک اور دن کی روشنی سے زیادہ شفاف ہوں ۔ جن میں کوئی ایچ پیچ، اُلجھن ، دھندلا پن یا شک و شبہہ نہ پایا جائے۔ تاہم، اس سے پہلے قوم کو آگاہ کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ دعوت اور یہ تحریک الاخوان المسلمون: شخصی مقاصد، اغراض اور وقتی منافع سے بالکل پاک ہے۔ اسے خواہشات اور اغراض کی ہو ا تک نہیں لگی اور    نہ ان شاء اللہ لگے گی۔ ہم نے ان چیزوں کو دفن کردینے کے بعد دعوت کی بنیاد رکھی ہے۔

ہماری تحریک کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ایجابی ہے اور وہی اصل ہے بلکہ وہی کُل ہے۔ دوسرا حصہ سلبی ہے۔اس حصے میں ہم دنیا کی دوسری قومی، وطنی، جمہوری، اشتراکی، اخلاقی یا رُوحانی تحریکوں کی کمزوریاں، اُن کی وقتیّت، محدودیت اور جزویت بیان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ  ان کے مقابل میں اس تحریک کی جامعیت و افادیت اور اس کی ہمہ گیری کو پیش کرتے ہیں۔

اسلام کا جامع تصور

ہم اپنی تحریک کے ایجابی پہلوکو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دنیا کو ہم اسلامیت کی طرف بلاتے ہیں۔ ممکن ہے آپ حیران ہوں کہ اس میں ’اخوان‘ کی کیا خصوصیت ہے؟ اسلام تو ایسا جامع کلمہ ہے کہ دنیا کا ہرمسلمان اور مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی تنظیم اسلام ہی کا نام لیتی ہے، مگر آپ کی حیرانی دیر تک نہیں قائم رہ سکتی۔ سنیے، ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو اس کا وہ تنگ اور محدود مفہوم نہیں مراد لیتے، جو ہماری قوم کے اکثر اہلِ علم سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس تنگ مفہوم کی وجہ سے اسلام اپنوں اور غیروں کے سامنے ویسی ہی غیرمتوازن اور غیرمتناسب شکل میں آتا ہے، جیسے دوسرے مذاہب ہیں۔ ہم اسلام کو ایک ایسا ہمہ پہلو ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوئوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اسلام صرف مسجدوں اور خانقاہوں کی راہ نہیں دکھاتا بلکہ حکومت کے ایوانوں کو بھی ایک محکم نظام عطا کرتا ہے اور تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات و مسائل میں اپنا خاص نقطۂ نظر اور لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔

اسلام کی نمایندگی کرنے اور مسلمانوں کی جماعت بلکہ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ  نہ صرف انفرادی سیرت و اخلاق کی تعمیر اور عبادت و ریاضت کی ادایگی اسلامی ہدایت کے مطابق کی جائے بلکہ اجتماعی زندگی کے کُل معاملات اور جملہ مسائل اسی کی رہنمائی میں مرتّب اور حل کیے جائیں۔ چاہے ان معاملات کا تعلق صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت سے ہو، یا ان کا تعلق پولیس اور عدالت سے، یا جرائم اور ان کی سزائوں سے ہو، یا تہذیب و معاشرت، تمدّن و سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سے ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے کابینہ بنے اور ریاستی سطح پر قوانین مرتب یا نافذ کیے جائیں تو، صلح و جنگ کے مسائل پیش آئیں تو، عدل و انصاف کے محکمے قائم کیے جائیں تو، مقدمات کے فیصلے اور جرائم کی سزائیں دی جائیں تو، اقتصادی اور معاشی پروگرام بنائے جائیں تو، معاشرت و تہذیب کے مظاہرے پیش کیے جائیں تو، نظام ہاے تعلیم رائج کیے جائیں تو، بہرصورت اسلام سے اور صرف اسلام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

اسلام کی جس وسعت کو ہم پیش کر رہے ہیں اور جس اسلامیت کی طرف دعوت دے رہے ہیں، یہ نہ تو ہمارے ذہن کی اختراع ہے، اور نہ یہ صرف زبانی دعویٰ ہے بلکہ کتاب و سنّت اور  صحابہؓ و سلف صالحینؒ کی سیرت سے ہم نے یہی سمجھا ہے۔ اسلام کی جتنی تشریحات اور تعبیریں    ہم نے کی ہیں وہ سب کتاب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ سنت ِ نبویؐ ، اللہ کی کتاب کی اوّلین شرح ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ اسلامی تعلیمات پر بہترین عمل کرنے والے، اس کے قوانین کو نافذ کرنے والے، اور اس اسلامیت کے بے مثل نمونہ ہیں، جس کی طرف ہم بلا رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص چاہے تو شخصی اغراض و ذاتی خواہشات اور جملہ تعصبات سے خالی الذہن ہوکر قرآن پاک اُٹھائے اور کھول کر بیٹھ جائے، اس پر غور کرے اور تمام اوامر و نواہی کا اپنے آپ ہی کو مخاطب تصور کرے، تو ہمیں یقینِ کامل ہے کہ وہ اسلام کو اسی طرح سمجھے گا، جس کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں۔

ہماری دعوت کے مخاطب

ہماری دعوت جن لوگوں کو پہنچتی ہے اور جن کے کان اس دعوتِ حق سے آشنا ہوجاتے ہیں، ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے اُن کی چار قسمیں ہیں:

۱- اوّل وہ لوگ جو دعوت کو صحیح سمجھ کر اس کے اصول و مبادی سے اتفاق اور طریق کار کو پسند کرتے ہیں اور اس تحریک سے بالکل مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اتفاق و تائید اور تعریف و توصیف کا اظہار دُور دُور سے نہ کریں، بلکہ باضابطہ ہمارے ساتھ تعاون و اشتراک کرکے دینِ اسلام کے بے لوث رضاکاروں کی تعداد بڑھائیں۔ اپنی آوازوں سے داعیانِ حق کی آواز کو قوت اور بلندی فراہم کریں۔ عملی طور پر اس قافلے کا حصہ بن کر اجتماعیت کو مضبوط بنائیں اور اپنی زندگی میں اسلام کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں پیدا کریں۔ اس لیے کہ جس ایمان کی پُشت پر عمل نہ ہو وہ بے معنی ہے، اور جو عقیدہ ایثار و قربانی پر آمادہ نہ کرے وہ بے سود ہے۔

۲- دوسرے وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن پر مکمل طور پر دعوت واضح نہیں ہوئی اور اس تحریک میں یا ہمارے قول و عمل میں صداقت کے ساتھ انھیں کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ فی الواقع تذبذب و تردّد میں پڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ان حضرات کے سامنے ہم اپنی ذاتی خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ قریب آکر ہمارے اجتماعات میں شریک ہوں۔ تمام پہلوئوں سے ہمیں جانچیں اور پرکھیں یا دُور ہی رہیں، مگر جملہ تعصبات و عقیدتوں سے اور شخصی اغراض و ذاتی خواہشات سے بالاتر ہوکر ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرکے دعوت کے اصول و مقاصد اور مرتّبہ دستور پر غور کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا تردّد رفع ہوجائے گا اور وہ مطمئن ہوجائیں گے۔

۳- تیسرے ایسے لوگ ہیں جو اپنی جانی اور مالی کوششیں کسی معاملے میں اس وقت تک صرف کرتے ہی نہیں جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ اس میں انھیں کیا نفع ملے گا، یعنی اُن کی دولت و ثروت بڑھ جائے گی یا عزت و شان میں اضافہ ہوگا۔

چنانچہ صرف نفع پر نظر رکھنے والے ان حضرات کو بھی ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ آیئے آپ نقصان میں نہیں رہیں گے۔ ہمارے یہاں رضاے الٰہی اور جنّت کے حصول کا نفع ہے، اس کے سوا اور کوئی مادی چیز نہیں۔ ہاں، یہ نفع اُس وقت ملے گا، جب آپ نیکیوں کے عمل اور اخلاص کے جذبات پیش کریں گے اور حسب ِ مراتب یہاں دینی عظمت و شرافت بھی نصیب ہوگی۔ لیکن مال و زر اور سازوسامان میں ہم سب بے نوا ہیں، کیونکہ فی الحال جو کچھ جسمانی قوتیں اور دماغی صلاحیتیں ہم رکھتے ہیں، اس کے بارے میں اسی چیز کو سعادت سمجھتے ہیں کہ وہ حق کی راہ میں لگا دیں ، جو مالی وسائل و ذرائع ہمارے ہاتھ آئیں وہ سب اسی راہ میں خرچ کرتے رہیں اور صرف اللہ کی رضا اور اُس کی جزا کی اُمید رکھیں: وَھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔

۴- چوتھے وہ لوگ ہیں، جو ہمارے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ فریب ِ نفس اور شخصی یا گروہی تعصب سے الگ ہوکر سوچنے کا ذہن میں خیا ل ہی نہیں لاتے۔ ان لوگوں کے بارے میں ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور اُن کو خیر کی تلقین فرمائے۔

جن لوگوں تک ہماری دعوت پہنچتی ہے ان لوگوں کا غوروفکر کرکے ان چار گروہوں میں سے کسی ایک میں شامل ہو جانا کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے۔ لیکن محض جمود اور بے حسی کی وجہ سے ہماری باتوں پر کان نہ دھرنا ایک مومن کی شان نہیں ہے۔

اخوان کی تحریک ایک آزمودہ اور تسلیم شدہ دعوت ہے۔ آج مشرق و مغرب میں سیکڑوں دعوتیں اور تحریکات پائی جاتی ہیں، جو اپنے افکار و نظریات کو خوب آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کر رہی ہیں۔ کل تک تو نشرواشاعت اور دعوت و تبلیغ کے وسائل و ذرائع صرف خطبوں، اجتماعات اور خطوط تک محدود تھے، مگر آج یہ ذرائع لامحدود ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ داعیانِ حق بھی ان تمام لامحدود وسائل و ذرائع کو احسن طریقے سے استعمال میں لائیں، تاکہ شیطان کی نمایندگی کرنے والی تمام باطل تحریکوں کا مقابلہ کرسکیں اور ایثار و قربانی کر کے اچھے ثمرات سمیٹ سکیں۔

اُمید اور بیداری کی لہر

ہم خیر کثیر کی اُمید رکھتے ہیں اور ہم نااُمیدی کے شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کامیابی کی راہ میں یہی نااُمیدی سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ پس، جب ہماری اُمید قوی اور حوصلۂ عمل بلند ہوگا تو اسی وقت ہم منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ نہ تو ہم مایوس ہیں اور نہ مایوسی کو اپنے دلوں میں راہ پانے دیتے ہیں جس پر اللہ کا شکر ہے۔ گردوپیش کی چیزوں سے بددل ہونے کے بجاے یہ ساری چیزیں ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

جب آپ کو کسی ایسے مریض کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا ہے، جس کی حالت یہ ہوگئی ہو کہ اب وہ نہ بول سکتا ہے اور نہ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے آخری دن قریب آگئے اور اس کا شفایاب ہونا دشوار اور اس کی بیماری ناقابلِ علاج ہوچکی ہے۔ لیکن جب آپ اس بیمار کی حالت اس کے برعکس پاتے ہیں، یعنی یہ کہ اب وہ کچھ بولنے لگا ہے اور کچھ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جلد شفایاب ہوجائے گا اور اس کا ہرقدم صحت و تندرستی کی طرف بڑھے گا۔

مسلم اقوام پر بھی جمود و تعطل کا ایک نہایت تاریک دَور گزرا ہے، لیکن اُن میں اِس وقت زندگی کے تمام گوشوں میں بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے اور ان کے احساسات بیدار ہورہے ہیں۔  چونکہ جمود کی بھاری بیڑیاں ابھی یکسر ان کے پیروں سے نکلی نہیں ہیں اور اس پیدا شدہ حرکت کو لوگ مختلف راستوں پر لگانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں تو اُس بیداری اور حرکت کے بڑے اچھے اثرات ظاہر ہوتے۔ پھر بھی یہ بیڑیاں ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتیں۔ زمانہ ہمیشہ یکساں سرگرداں نہ رہے گا بلکہ ایک دن یقینا یہ سرگردانی، راہ یابی میں تبدیل ہوگی اور اس فکری انتشار    کے بعد فکری اتحاد اور سکون کا دور آئے گا:  لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم  بَعْدُ ط (الروم ۳۰:۴) ’’اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی نااُمیدی کا شکار نہیں ہوئے۔ آیاتِ کریمہ اور احادیث نبویہؐ  اور قوموں کو ہلاکت سے بچانے اور اُن کو اُونچا اُٹھانے اور پروان چڑھانے کے سلسلے میں قانونِ قدرت اور سنت ِ جاریہ، یہ ساری چیزیں ہمارے حوصلے کو بڑھاتی ہیں اور حقیقی بیداری اور ترقی کے راستے کی طرف راہبری کرتی ہیں۔

سورئہ قصص کی ابتدائی آیات ملاحظہ فرمایئے:

طٰسٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ھُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ  مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o وَ نُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ جُنُوْدَھُمَا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ o (القصص ۲۸: ۱-۶)  ط-س-م، یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسٰی اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمھیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں اُن لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا۔

ان آیات کو پڑھیے اور دیکھیے کہ باطل اپنی قوت و طاقت کی وجہ سے کتنی سرکشی اور ظلم و عُدوان کر رہا ہے، اور اپنی شان و شوکت کے نشے میں بدمست ہوکر وہ بھول گیا کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے، اور جب وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت و قوت پر اپنے تئیں نازاں ہوا ،تو اللہ نے اس کی کتنی سخت گرفت کی۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ مظلومین کی مدد اور ان بے کسوں اور ستم زدوں کی دست گیری کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قصرباطل بنیاد ہی سے گرپڑا اور حق کی عمارت مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی اور بالآخر اہلِ حق ہی غالب ہوئے۔ ان آیات اور قرآن کی اس طرح کی دوسری آیات کے بعد اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسولؐ اور کتاب پر ایمان رکھنے والی اُمت مسلمہ کے لیے کسی طرح کی یاس و نااُمیدی کی گنجایش باقی نہ رہ گئی۔

آخر کب مسلمان قرآن پاک پر تدبرکریں گے؟ اے کاش!

الاخوان المسلمون آج بھی ان مسلم اقوام کے لیے اللہ کی نصرت و تائید سے نااُمید نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر حالات نہایت ہی ناسازگار ہیں اور راہ میں رکاوٹیں بے شمار ہیں، مگر اسی مشعلِ اُمید کو لے کر ’اخوان‘ سرگرمِ عمل و جہاد ہیں، ___    واللہ المستعان۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اور دنیا کےسارے مسلمان ___ یہ جان لیں کہ اخوان کی دعوت ’پاک‘ اور ’صاف‘ ہے اور اس حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں اس نے ذاتی مرغوبات اور مطلوبات کو خیرباد کہہ دیا ہے اور دنیاوی فوائد کو ٹھکرا دیا ہے اور اپنی اھواء اور خواہشات کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے، اور اُس راستے پر گامزن رہنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کی نشان دہی اللہ تعالیٰ نے داعیانِ حق کے لیے کردی ہے۔

پس، ہم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے۔ نہ تو ہم اُن سے مال و دولت چاہتے ہیں، اور نہ    ان سے کوئی اُجرت چاہتے ہیں، اور نہ ہم اُن کے ذریعے اپنی بزرگی اور سرداری کے خواہش مند ہیں، اور نہ اُن سے کسی بدلے اور سپاس گزاری کے طلب گار ہیں۔ ہمارا اجر تو اس ذات وحدہٗ لاشریک کے ذمّے ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

  • جذبہ: اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم یہ جان لے کہ وہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارے لیے یہ زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر ہم فدیے میں دے دیے جائیں اور اس طور سے ہماری قوم کو عزت و غلبہ مل سکے اور اگر اس کے وقار اور سربلندی اور دین و حفاظت کے لیے ہم بدل بن سکیں، تو ہمیں یہ بھی قبول ہے۔ ہم کو مصلحین کے مقام پر اسی جذبے نے کھڑا کیا ہے۔ یہ جذبہ ہمارے دل و دماغ اور احساسات پر حاوی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے بستروں کا سکون ہمیں کانٹوں کی طرح کھٹکتا ہے اور ہمارے لیے یہ نہایت ناقابلِ برداشت چیز ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں گھرا ہوا دیکھیں، اور پھر ذلّت و خواری کے آگے سپر ڈال دیں، یا اس کو گوارا کریں،  یا نااُمیدی کے آگے سر جھکا دیں۔ چنانچہ ،ہم اللہ کی راہ میں قوم کے فائدے کے لیے اپنے فائدے سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔

لوگو! ہم تو آپ کے بہی خواہ ہیں اور ہم کبھی آپ کے مفاد کے خلاف کام نہ کریں گے۔

  •  ہماری سیاست: اے لوگو! ہم آپ کو پکار رہے ہیں اور قرآن ہمارے دائیں ہاتھ میں ہے اور سنت ِ نبویؐ بائیں ہاتھ میں، اور سلف صالحین (جو اُمت مسلمہ کے گلِ سرسبد رہے ہیں) کا نمونۂ عمل ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ہم آپ کو اسلام، اُس کی تعلیمات و احکام اور اُس کے دیے ہوئے ہدایت نامے کی طرف بلاتے ہیں۔ اگر آپ اس کو سیاست کہتے ہیں تو پھر یہی ہماری سیاست ہے۔ اگر ان اُصولوں کی طرف بلانے والا سیاسی قرار دیا جاتا ہے تو سُن لیجیے کہ ہم سب بڑے سیاسی ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس کو سیاست کہیں تو جو چاہیں کہہ لیجیے۔ ہم الزامات اور پروپیگنڈے کی یلغار سے نہیں گھبراتے، اگر ان سے ہماری جو مراد اور ہماری منزل ہے، اوجھل نہ ہو۔ پس،   ایسا نہ ہو کہ الفاظ کے پردوں میں حقائق چھپ جائیں اور مقصود کے بجاے الفاظ سامنے رہیں اور جوہرکے بجاے غرض پیش نظر رہے۔

اور پھر یہاں اسلام کی سیاست میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی دائمی کامرانی کا راز مضمر ہے اور یہی ہماری سیاست ہے۔ اس کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے۔ پس، ہرشخص خود پر اسی سیاست کو حکمراں کرے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے آمادہ کرے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اُخروی عزت آپ کو حاصل ہوگی۔

  • حق: الاخوان المسلمون کی دعوت عام اور عالم گیر ہے۔ اس کا رشتہ کسی خاص گروہ سے نہیں ہے اور نہ اس کا میلان کسی ایسی چیز کی طرف ہے جو لوگوں کے یہاں کسی خاص رنگ میں جانی جاتی ہو۔ اور جس کے کچھ خاص لوازم اور تقاضے ہوں ، بلکہ اس دعوت کا رُخ خالص دین اور اس کی حقیقی روح کی طرف ہے، اور یہ دعوت چاہتی ہے کہ نقطۂ نظر کی یکسانی اور اتحاد پیدا ہو، تاکہ یہ کوشش زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔ پس، اخوان کی دعوت ہر طرح کی آلایشوں اور غرضوں سے پاک اور صاف ہے، اور یہ حق کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ پایا جائے۔ وہ اجماع و اتفاق کو پسند کرتی ہے اور تشدد و انتشار کو ناپسند۔ اور یہی افتراق و اختلاف ہے جس میں اس وقت مسلمان زیادہ مبتلا ہیں۔ پہلے جب کبھی بھی یہ غالب ہوئے ہیں تو صرف باہم ہمدردی اور اتفاق کے ذریعے۔ ان کی آج بھی حالت سُدھر سکتی ہے جس طرح پہلے لوگوں کی حالت سُدھری تھی۔ کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ جس چیز کے ذریعے پہلے لوگ کامیاب ہوئے، اس کے ذریعے بعد کے لوگ کامیاب نہ ہوں۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہمارا تو اس پر کامل یقین ہے اور ہم دوسروں کو بھی اسی چیز کی طرف بلاتے ہیں۔

 

حسن البنا شہید کی دس ہدایات

                ۱-            حالات خواہ کیسے ہی ہوں جب اذان کی آواز تیرے کانوں میں پڑ جائے تو نماز کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔

                ۲-            تُو قرآن کی تلاوت کر، یا اس کا بغور مطالعہ کر، یا اُسے کسی دوسرے سے سُن، بہرحال تُو اپنے وقت کا کوئی حصہ بھی بے فائدہ کام میں صرف نہ کر۔

                ۳-            فصیح اور صاف ستھری عربی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کر، کیونکہ یہ کام بھی شعائر اسلام میں سے ہے۔

                ۴-            خواہ کسی نوعیت کا معاملہ ہو تُو اس میں زیادہ بحث و مجادلہ سے کام نہ لے کیونکہ بحث و مجادلہ سے بہتر نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔

                ۵-            زیادہ نہ ہنس، جو دل خدا سے وابستہ ہوتا ہے وہ بے حد پُرسکون اور غرقِ طمانیت ہوتا ہے۔

                ۶-            مسخرہ پن اختیار نہ کر، مجاہد قوم سنجیدگی کے سوا کسی چیز سے آشنا نہیں ہوتی۔

                ۷-            سننے والے کی ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہ کر، اس میں رعونت بھی ہے اور دوسرے کے لیے اذیت بھی۔

                ۸-            لوگوں کی غیبت اور جماعتوں پر طعن و تشنیع سے بچ، اور خیر کے سوا تیری زبان سے کوئی لفظ نہ نکلے۔

                ۹-            جس رفیق سے بھی تیری ملاقات ہو تو اس سے اپنا تعارف کرا۔ خواہ اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کیوںکہ ہماری دعوت کی بنیاد محبت اور تعارف پر استوار ہے۔

                ۱۰-         فرائض اوقات سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا تو اپنے دوسرے رفقا کی بھی بھرپور مدد کر تاکہ وہ اپنے اوقات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ اور اگر تیرے ذمے کوئی خاص مہم ہو تو اُسے کم از کم وقت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔

ترجمہ: عبدالغفار عزیز

لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّ تَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَۃُ ط وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّھُمْ لٰکَذِبُوْنَ o عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ o لاَ یَسْتَاذِنُکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِاَلْمُتَّقِیْنَ o اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ o وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ         لاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ   اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ o لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالًا وَّلاَ ْ اَوْضَعُوْا خِلٰـلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوْا   لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ کٰرِھُوْنَ o (التوبہ۹: ۴۲-۴۸) اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمھارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے‘ مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ   خدا کی قسم کھاکھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقینا تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ اے نبیؐ! اللہ تمھیں معاف کرے‘ تم نے کیوں انھیں رخصت دے دی؟ (تمھیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم   جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انھیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے‘ جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میںمتردّد ہو رہے ہیں۔ اگر واقعی اُن کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انھیں سُست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دَوڑ دھوپ کرتے‘ اور تمھارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگاکر سنتے ہیں‘ اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے  فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمھیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کرچکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔

سورئہ توبہ کی ان آیات میں لوگوں کے اس بڑے گروہ کا ذکر ہے جو کم سے کم قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ فوائد و نفع سمیٹنا چاہتاہے۔ جب انھیں منزل کے حصول کے لیے محنت اور کامیابی پانے کے لیے جہاد کی طرف بلایا جاتاہے تو وہ مختلف علتوں اور حیلوں کا سہارا لیتے ہیں اور فریب پر مبنی اپنی ان حرکات پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہوئے کہتے ہیں: خدا کی قسم! اگر ہم جاسکتے تو تمھارے ساتھ ضرور جاتے… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اپنے مکروخباثت میں انتہا کو چھوتے ہوئے غلط بیانی کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے کے لیے آپ سے اجازت و رخصت طلب کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اخلاق و مروت کی اعلیٰ مثال تھے۔ لوگوں سے نرمی‘  حسن معاملہ‘ ان کی عیب پوشی اور ان سے رحم دلانہ برتائو آپؐ کی فطرت وجبلت میں شامل تھا (اور کیوں نہ ہوتا کہ آپؐ  رحمۃ للعالمین تھے)‘ اس لیے لوگ آپؐ سے معاملات کرتے ہوئے آپؐ کی ان صفات کو ذہن میں رکھتے تھے۔ ان اجازت لینے والوں کو بھی اجازت مل جانے کا یقین و اطمینان ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت بھی دے دی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو پیار بھرے انداز سے توجہ دلائی اور ارشاد ہوا (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ) آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی (آپؐ کو چاہیے تھا کہ آپؐ  انھیں رخصت نہ دیتے) تاکہ آپؐ پر  کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں (اور لوگ بھی ان پر اعتماد و بھروسا کرتے) اور تاکہ آپؐ جھوٹوں کو بھی جان لیتے اور آیندہ کے لیے آپؐ  بھی ان سے باخبر رہتے اور آپؐ  کی اُمت بھی ان سے خبردار رہتی۔ اس طرح حفاظت کا بھی اہتمام ہوتا اور سزا کے مستحق افراد کو سزا بھی مل جاتی۔ اس تنبیہہ خداوندی سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ اہلِ دعوت و تحریک کو اپنی دعوت کی قیمت پر کسی سے رواداری نہیں برتنی چاہیے۔ انھیں سازشیوں اور منافقین کی حقیقت آشکار کردینا چاہیے تاکہ سب ان سے بچ سکیں۔

عصمتِ انبیا ؑ

اس آیت کے حوالے سے مفسرین نے انبیاے علیہم السلام کی عصمت پر طویل بحث و تمحیص کی ہے۔ اس امر پر اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچانے‘ انھیں اللہ کا دین سکھانے اور رسالت سے متعلق ہر قول و فعل میں انبیاے کرام معصومِ کامل ہیں۔لیکن جہاں بات آئے گی کسی اجتہادی ذاتی راے کی تو پھر ہم دیکھیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ احد میں اپنی راے چھوڑ کر اپنے صحابہؓ کی راے مان لیتے ہیں۔ غزوئہ بدر میں حضرت خبابؓ بن المنذر کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دیتے ہیں۔ کھجوروں کی نر و مادہ اقسام میں ملاپ کے بارے میں اپنی راے پر اس میدان کے تجربہ کار ساتھیوں کی راے اپنا لیتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ایک نابینا ساتھی کے بارے میں سورئہ عبس کی آیات کا نزول ہو رہا ہے‘ قیدیوں سے فدیہ قبول کرلینے کے بارے میں آیات نازل ہو رہی ہیں لیکن ان تمام واقعات کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مواقع پر کوئی گناہ یا عصمت کے منافی کوئی فعل سرزد ہوا بلکہ یہ تو وہ اجتہادی معاملات ہیں کہ اگر قرین صواب ہوئے تو دوہرا اجر‘ وگرنہ اکہرا اجر تو بہرصورت محفوظ ہے۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہی کا ایک مظہر ہے تاکہ شریعت میں اسوئہ حسنہ اور پرستش کا فرق واضح ہوجائے۔

اپنے حبیب سے خطاب کا انداز الٰہی بھی دل و دماغ کو مسحور کر دینے والا ہے۔ اس سے رب ذوالجلال کے نزدیک حبیب کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے کہ جس بات پر توجہ دلانی مقصود ہے اس کا ذکر بعد میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر پہلے… عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ، اللہ آپؐ کو معاف فرمائے‘ آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی۔

دو قسم کے گروہ

پھرقرآن کریم لوگوں کی دو اقسام واضح کرتا ہے: ایک گروہ تو ہے مجاہدین کا اور دوسرا ہے بیٹھ رہنے والے ناکارہ لوگوںکا۔ مجاہدین تو ہمیشہ میدانِ عمل اور پکار کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے ہی تحریک و تحرک کا حکم ملا فوراً میدان میں آن نکلے ‘ کیونکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے اور اس کی راہ میں حقیقی جہاد کرتے ہیں۔ وہ روزِآخرت پر یقین رکھتے اور اس روز کی کامیابی و جزا کے متمنی و متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کیا ان کا اللہ انھیں اس سے کہیں بہتر اور کہیں زیادہ عطا کر دے گا۔ وہ اپنے کارِجہاد کے ذریعے خود کو اللہ کے عذاب سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خالق کی رضا اور اسی سے جزا کا حصول اور اس کی سزا سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہم تک پہنچاتے ہیں: ’’لوگوں میں سے بہترین زندگی اس کی ہے جو ہمیشہ اللہ کی راہ اپنے گھوڑے کی باگیں تھامے رہتا ہے۔ جب بھی جہاد کی ندا یا خوف کی کوئی صدا اس کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اُڑتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔ راہِ خدا میں موت اور شہادت کا متلاشی۔

رہ گئے سُستی کے مارے گھروں میں بیٹھے لوگ تو وہ کٹ حجتی اور بودے عذر گھڑگھڑ کے رخصت و اجازت لینے کے لیے بحثابحثی میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت و دلیل ہوتی ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر ان کا ایمان ابھی ادھورا ہے۔ ابھی شکوک و شبہات ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں ‘کیونکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو جہاد پر اُبھارنے والی ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور اس راہ سے پیچھے رکھنے میں شک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شکوک و تردد ہی کا شکار رہتے ہیں۔

ان کے تردد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں نکلنے کی کوئی تیاری نہیں کی ہوتی‘ کوئی زادِ راہ نہیں حاصل کیا ہوتا۔ وہ مسلسل اسی تردد کا شکار رہتے ہیں کہ راہِ خدا میں نکلنا ہے یا نہیں نکلنا۔ یہاںتک کہ خوف‘ بزدلی اور کمزوری ان پر غالب آجاتی ہے اور وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے اس بیٹھے رہنے اور پیچھے رہ جانے میں بھی مجاہدین کے لیے خیرکثیر پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بے ہمتوں کے ساتھ رہنے سے مجاہدین کی قوت کمزوری ہی واقع ہوتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر خصوصی انعام ہوا کہ اس نے ایسے عناصر سے جہاد کرنے اور غلبۂ دین کی خاطر نکل کھڑے ہونے کی توفیق سلب کرلی۔

ارشاد ہوتا ہے: اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ  نہ کرتے‘ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے‘ یہ تمھارے ساتھ نکلتے تو بہادر اہلِ ایمان میں سازشیں‘ فتنے اور شکوک و شبہات ہی پھیلاتے۔ بات بے بات خود بھی اُکھڑجاتے‘ دوسروں کو بھی اکھاڑدیتے۔ تکلیف دہ تبصرے اور جملے بازیاں کرتے‘ تقسیم کرنے اور اتحاد و وحدت کو نقصان پہنچانے والی باتیں بناتے‘ حتیٰ کہ سب پر بزدلی طاری ہوجاتی‘ بزدلی میں وہ تنہا نہ رہتے۔ کیونکہ ہرجگہ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں‘ پھر وہ جھوٹی باتوں کو بھی سچ جاننے لگتے ہیں۔ افواہوں پر کان دھرتے ہیں‘ یہ افواہیں اور غلط بیانیاں ان پر نفسیاتی اثر ڈالتی ہیں‘ جس سے ان کے افعال و اعمال بھی یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔

اس طرح کی صورت حال غزوئہ احد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ   بن ابی نے ان اہلِ ایمان میں فتنہ پھیلا دیا جو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے عملاً نکل کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پر اپنا جادو پھونکنے لگا اور کاناپھوسیاں کرنے لگا: ’’ہم بھلا کیوں خواہ مخواہ نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ محمدؐ نے ہماری بات ماننے کے بجاے بچوں اور کم عمر و ناتجربہ کار لوگوں کی بات مان لی ہے۔ آخر اس مقابلے اور تحرک کا فائدہ ہمیں کیا ہوگا؟ دھیرے دھیرے اس کی ان باتوں کا اثر پھیلنے لگا‘ بنوسَلمہ اورخزرج کے بعض افراد نے تو واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے پورا مشن ناکام ہوتا‘ لیکن بالآخر اللہ نے انھیں ثبات سے نوازا اور ان کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی: ’’یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ ناکام ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا‘‘     (اٰل عمرٰن۳:۱۲۲) ۔اس کے باوجود وہ دشمنِ خدا خود اُلٹے پائوں واپس پھرگیا۔

اس طرح کے لوگ کسی بھی لشکر اور کسی بھی تحریک کے لیے ان کے سخت ترین دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ ہزیمت کے داعی اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ تحریکوں کو ایسے عناصر سے پاک کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ایسے عناصر بہت خطرناک و نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن دعوت کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتے‘ نہ اللہ کی نصرت آنے سے ہی روک سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے ہی ساتھیوں کو ملنے والی کامیابیوں پر صدمہ محسوس کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ کامیاب و کامران ہوں‘ اس لیے کسی بھی فوج اور جماعت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایسے عناصر سے نجات حاصل کرلے۔ سیرت صحابہؓ میں مذکور ہے کہ جنگِ یمامہ میں حصولِ نصرت میں کچھ تاخیر ہوئی تو ایک صحابیؓ نے اپنے قائد خالد بن ولیدؓ کو پکار کر کہا: خالد! لوگ ہلاک ہو رہے ہیں‘ انصار اور مہاجرین کو دیگر افراد سے علیحدہ کر کے ان کے ذریعے ہلہ بولو۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جائزہ لیا تو السابقون الاولون کی صفات رکھنے والے ۳ہزار ساتھی ملے۔ انھوں نے اسی تعداد پر بھروسا کیا اور فتح یاب ہوئے۔ ’’اللہ اپنا کام کرکے رہتاہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘(یوسف۱۲: ۲۱)۔ ( ہفت روزہ الاخوان المسلمون‘ قاہرہ‘ فروری ۱۹۴۸ئ)