۲۰۱۷ مارچ

فہرست مضامین

ہماری دعوت کی وسعت

حسن البنا شہیدؒ | ۲۰۱۷ مارچ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ترجمہ:ابوالخیرعثمانی

ہم دینِ اسلام کی دعوت اور تحریک الاخوان المسلمون کے اغراض و مقاصد اس طرح  پیش کرنا چاہتے ہیں جو نُور سے زیادہ روشن، شعاعِ آفتاب سے زیادہ تابناک اور دن کی روشنی سے زیادہ شفاف ہوں ۔ جن میں کوئی ایچ پیچ، اُلجھن ، دھندلا پن یا شک و شبہہ نہ پایا جائے۔ تاہم، اس سے پہلے قوم کو آگاہ کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ دعوت اور یہ تحریک الاخوان المسلمون: شخصی مقاصد، اغراض اور وقتی منافع سے بالکل پاک ہے۔ اسے خواہشات اور اغراض کی ہو ا تک نہیں لگی اور    نہ ان شاء اللہ لگے گی۔ ہم نے ان چیزوں کو دفن کردینے کے بعد دعوت کی بنیاد رکھی ہے۔

ہماری تحریک کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ایجابی ہے اور وہی اصل ہے بلکہ وہی کُل ہے۔ دوسرا حصہ سلبی ہے۔اس حصے میں ہم دنیا کی دوسری قومی، وطنی، جمہوری، اشتراکی، اخلاقی یا رُوحانی تحریکوں کی کمزوریاں، اُن کی وقتیّت، محدودیت اور جزویت بیان کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ  ان کے مقابل میں اس تحریک کی جامعیت و افادیت اور اس کی ہمہ گیری کو پیش کرتے ہیں۔

اسلام کا جامع تصور

ہم اپنی تحریک کے ایجابی پہلوکو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دنیا کو ہم اسلامیت کی طرف بلاتے ہیں۔ ممکن ہے آپ حیران ہوں کہ اس میں ’اخوان‘ کی کیا خصوصیت ہے؟ اسلام تو ایسا جامع کلمہ ہے کہ دنیا کا ہرمسلمان اور مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی تنظیم اسلام ہی کا نام لیتی ہے، مگر آپ کی حیرانی دیر تک نہیں قائم رہ سکتی۔ سنیے، ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو اس کا وہ تنگ اور محدود مفہوم نہیں مراد لیتے، جو ہماری قوم کے اکثر اہلِ علم سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس تنگ مفہوم کی وجہ سے اسلام اپنوں اور غیروں کے سامنے ویسی ہی غیرمتوازن اور غیرمتناسب شکل میں آتا ہے، جیسے دوسرے مذاہب ہیں۔ ہم اسلام کو ایک ایسا ہمہ پہلو ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوئوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اسلام صرف مسجدوں اور خانقاہوں کی راہ نہیں دکھاتا بلکہ حکومت کے ایوانوں کو بھی ایک محکم نظام عطا کرتا ہے اور تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات و مسائل میں اپنا خاص نقطۂ نظر اور لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔

اسلام کی نمایندگی کرنے اور مسلمانوں کی جماعت بلکہ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ  نہ صرف انفرادی سیرت و اخلاق کی تعمیر اور عبادت و ریاضت کی ادایگی اسلامی ہدایت کے مطابق کی جائے بلکہ اجتماعی زندگی کے کُل معاملات اور جملہ مسائل اسی کی رہنمائی میں مرتّب اور حل کیے جائیں۔ چاہے ان معاملات کا تعلق صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت سے ہو، یا ان کا تعلق پولیس اور عدالت سے، یا جرائم اور ان کی سزائوں سے ہو، یا تہذیب و معاشرت، تمدّن و سیاست اور بین الاقوامی تعلقات سے ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے کابینہ بنے اور ریاستی سطح پر قوانین مرتب یا نافذ کیے جائیں تو، صلح و جنگ کے مسائل پیش آئیں تو، عدل و انصاف کے محکمے قائم کیے جائیں تو، مقدمات کے فیصلے اور جرائم کی سزائیں دی جائیں تو، اقتصادی اور معاشی پروگرام بنائے جائیں تو، معاشرت و تہذیب کے مظاہرے پیش کیے جائیں تو، نظام ہاے تعلیم رائج کیے جائیں تو، بہرصورت اسلام سے اور صرف اسلام سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

اسلام کی جس وسعت کو ہم پیش کر رہے ہیں اور جس اسلامیت کی طرف دعوت دے رہے ہیں، یہ نہ تو ہمارے ذہن کی اختراع ہے، اور نہ یہ صرف زبانی دعویٰ ہے بلکہ کتاب و سنّت اور  صحابہؓ و سلف صالحینؒ کی سیرت سے ہم نے یہی سمجھا ہے۔ اسلام کی جتنی تشریحات اور تعبیریں    ہم نے کی ہیں وہ سب کتاب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ سنت ِ نبویؐ ، اللہ کی کتاب کی اوّلین شرح ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ اسلامی تعلیمات پر بہترین عمل کرنے والے، اس کے قوانین کو نافذ کرنے والے، اور اس اسلامیت کے بے مثل نمونہ ہیں، جس کی طرف ہم بلا رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص چاہے تو شخصی اغراض و ذاتی خواہشات اور جملہ تعصبات سے خالی الذہن ہوکر قرآن پاک اُٹھائے اور کھول کر بیٹھ جائے، اس پر غور کرے اور تمام اوامر و نواہی کا اپنے آپ ہی کو مخاطب تصور کرے، تو ہمیں یقینِ کامل ہے کہ وہ اسلام کو اسی طرح سمجھے گا، جس کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں۔

ہماری دعوت کے مخاطب

ہماری دعوت جن لوگوں کو پہنچتی ہے اور جن کے کان اس دعوتِ حق سے آشنا ہوجاتے ہیں، ماننے اور نہ ماننے کے اعتبار سے اُن کی چار قسمیں ہیں:

۱- اوّل وہ لوگ جو دعوت کو صحیح سمجھ کر اس کے اصول و مبادی سے اتفاق اور طریق کار کو پسند کرتے ہیں اور اس تحریک سے بالکل مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اتفاق و تائید اور تعریف و توصیف کا اظہار دُور دُور سے نہ کریں، بلکہ باضابطہ ہمارے ساتھ تعاون و اشتراک کرکے دینِ اسلام کے بے لوث رضاکاروں کی تعداد بڑھائیں۔ اپنی آوازوں سے داعیانِ حق کی آواز کو قوت اور بلندی فراہم کریں۔ عملی طور پر اس قافلے کا حصہ بن کر اجتماعیت کو مضبوط بنائیں اور اپنی زندگی میں اسلام کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں پیدا کریں۔ اس لیے کہ جس ایمان کی پُشت پر عمل نہ ہو وہ بے معنی ہے، اور جو عقیدہ ایثار و قربانی پر آمادہ نہ کرے وہ بے سود ہے۔

۲- دوسرے وہ لوگ ہوسکتے ہیں جن پر مکمل طور پر دعوت واضح نہیں ہوئی اور اس تحریک میں یا ہمارے قول و عمل میں صداقت کے ساتھ انھیں کچھ خامیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ فی الواقع تذبذب و تردّد میں پڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ان حضرات کے سامنے ہم اپنی ذاتی خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ قریب آکر ہمارے اجتماعات میں شریک ہوں۔ تمام پہلوئوں سے ہمیں جانچیں اور پرکھیں یا دُور ہی رہیں، مگر جملہ تعصبات و عقیدتوں سے اور شخصی اغراض و ذاتی خواہشات سے بالاتر ہوکر ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرکے دعوت کے اصول و مقاصد اور مرتّبہ دستور پر غور کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا تردّد رفع ہوجائے گا اور وہ مطمئن ہوجائیں گے۔

۳- تیسرے ایسے لوگ ہیں جو اپنی جانی اور مالی کوششیں کسی معاملے میں اس وقت تک صرف کرتے ہی نہیں جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ اس میں انھیں کیا نفع ملے گا، یعنی اُن کی دولت و ثروت بڑھ جائے گی یا عزت و شان میں اضافہ ہوگا۔

چنانچہ صرف نفع پر نظر رکھنے والے ان حضرات کو بھی ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ آیئے آپ نقصان میں نہیں رہیں گے۔ ہمارے یہاں رضاے الٰہی اور جنّت کے حصول کا نفع ہے، اس کے سوا اور کوئی مادی چیز نہیں۔ ہاں، یہ نفع اُس وقت ملے گا، جب آپ نیکیوں کے عمل اور اخلاص کے جذبات پیش کریں گے اور حسب ِ مراتب یہاں دینی عظمت و شرافت بھی نصیب ہوگی۔ لیکن مال و زر اور سازوسامان میں ہم سب بے نوا ہیں، کیونکہ فی الحال جو کچھ جسمانی قوتیں اور دماغی صلاحیتیں ہم رکھتے ہیں، اس کے بارے میں اسی چیز کو سعادت سمجھتے ہیں کہ وہ حق کی راہ میں لگا دیں ، جو مالی وسائل و ذرائع ہمارے ہاتھ آئیں وہ سب اسی راہ میں خرچ کرتے رہیں اور صرف اللہ کی رضا اور اُس کی جزا کی اُمید رکھیں: وَھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔

۴- چوتھے وہ لوگ ہیں، جو ہمارے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ فریب ِ نفس اور شخصی یا گروہی تعصب سے الگ ہوکر سوچنے کا ذہن میں خیا ل ہی نہیں لاتے۔ ان لوگوں کے بارے میں ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور اُن کو خیر کی تلقین فرمائے۔

جن لوگوں تک ہماری دعوت پہنچتی ہے ان لوگوں کا غوروفکر کرکے ان چار گروہوں میں سے کسی ایک میں شامل ہو جانا کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے۔ لیکن محض جمود اور بے حسی کی وجہ سے ہماری باتوں پر کان نہ دھرنا ایک مومن کی شان نہیں ہے۔

اخوان کی تحریک ایک آزمودہ اور تسلیم شدہ دعوت ہے۔ آج مشرق و مغرب میں سیکڑوں دعوتیں اور تحریکات پائی جاتی ہیں، جو اپنے افکار و نظریات کو خوب آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کر رہی ہیں۔ کل تک تو نشرواشاعت اور دعوت و تبلیغ کے وسائل و ذرائع صرف خطبوں، اجتماعات اور خطوط تک محدود تھے، مگر آج یہ ذرائع لامحدود ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ داعیانِ حق بھی ان تمام لامحدود وسائل و ذرائع کو احسن طریقے سے استعمال میں لائیں، تاکہ شیطان کی نمایندگی کرنے والی تمام باطل تحریکوں کا مقابلہ کرسکیں اور ایثار و قربانی کر کے اچھے ثمرات سمیٹ سکیں۔

اُمید اور بیداری کی لہر

ہم خیر کثیر کی اُمید رکھتے ہیں اور ہم نااُمیدی کے شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کامیابی کی راہ میں یہی نااُمیدی سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ پس، جب ہماری اُمید قوی اور حوصلۂ عمل بلند ہوگا تو اسی وقت ہم منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ نہ تو ہم مایوس ہیں اور نہ مایوسی کو اپنے دلوں میں راہ پانے دیتے ہیں جس پر اللہ کا شکر ہے۔ گردوپیش کی چیزوں سے بددل ہونے کے بجاے یہ ساری چیزیں ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

جب آپ کو کسی ایسے مریض کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا ہے، جس کی حالت یہ ہوگئی ہو کہ اب وہ نہ بول سکتا ہے اور نہ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے آخری دن قریب آگئے اور اس کا شفایاب ہونا دشوار اور اس کی بیماری ناقابلِ علاج ہوچکی ہے۔ لیکن جب آپ اس بیمار کی حالت اس کے برعکس پاتے ہیں، یعنی یہ کہ اب وہ کچھ بولنے لگا ہے اور کچھ حرکت کرسکتا ہے تو آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جلد شفایاب ہوجائے گا اور اس کا ہرقدم صحت و تندرستی کی طرف بڑھے گا۔

مسلم اقوام پر بھی جمود و تعطل کا ایک نہایت تاریک دَور گزرا ہے، لیکن اُن میں اِس وقت زندگی کے تمام گوشوں میں بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے اور ان کے احساسات بیدار ہورہے ہیں۔  چونکہ جمود کی بھاری بیڑیاں ابھی یکسر ان کے پیروں سے نکلی نہیں ہیں اور اس پیدا شدہ حرکت کو لوگ مختلف راستوں پر لگانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں تو اُس بیداری اور حرکت کے بڑے اچھے اثرات ظاہر ہوتے۔ پھر بھی یہ بیڑیاں ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتیں۔ زمانہ ہمیشہ یکساں سرگرداں نہ رہے گا بلکہ ایک دن یقینا یہ سرگردانی، راہ یابی میں تبدیل ہوگی اور اس فکری انتشار    کے بعد فکری اتحاد اور سکون کا دور آئے گا:  لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْم  بَعْدُ ط (الروم ۳۰:۴) ’’اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ ہم کبھی نااُمیدی کا شکار نہیں ہوئے۔ آیاتِ کریمہ اور احادیث نبویہؐ  اور قوموں کو ہلاکت سے بچانے اور اُن کو اُونچا اُٹھانے اور پروان چڑھانے کے سلسلے میں قانونِ قدرت اور سنت ِ جاریہ، یہ ساری چیزیں ہمارے حوصلے کو بڑھاتی ہیں اور حقیقی بیداری اور ترقی کے راستے کی طرف راہبری کرتی ہیں۔

سورئہ قصص کی ابتدائی آیات ملاحظہ فرمایئے:

طٰسٓمّٓ o تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ھُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ  مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o وَ نُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ جُنُوْدَھُمَا مِنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ o (القصص ۲۸: ۱-۶)  ط-س-م، یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسٰی اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمھیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ اُن میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں اُن لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انھیں ڈر تھا۔

ان آیات کو پڑھیے اور دیکھیے کہ باطل اپنی قوت و طاقت کی وجہ سے کتنی سرکشی اور ظلم و عُدوان کر رہا ہے، اور اپنی شان و شوکت کے نشے میں بدمست ہوکر وہ بھول گیا کہ اللہ اُسے دیکھ رہا ہے، اور جب وہ اللہ کی دی ہوئی طاقت و قوت پر اپنے تئیں نازاں ہوا ،تو اللہ نے اس کی کتنی سخت گرفت کی۔ اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ مظلومین کی مدد اور ان بے کسوں اور ستم زدوں کی دست گیری کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ قصرباطل بنیاد ہی سے گرپڑا اور حق کی عمارت مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی اور بالآخر اہلِ حق ہی غالب ہوئے۔ ان آیات اور قرآن کی اس طرح کی دوسری آیات کے بعد اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسولؐ اور کتاب پر ایمان رکھنے والی اُمت مسلمہ کے لیے کسی طرح کی یاس و نااُمیدی کی گنجایش باقی نہ رہ گئی۔

آخر کب مسلمان قرآن پاک پر تدبرکریں گے؟ اے کاش!

الاخوان المسلمون آج بھی ان مسلم اقوام کے لیے اللہ کی نصرت و تائید سے نااُمید نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر حالات نہایت ہی ناسازگار ہیں اور راہ میں رکاوٹیں بے شمار ہیں، مگر اسی مشعلِ اُمید کو لے کر ’اخوان‘ سرگرمِ عمل و جہاد ہیں، ___    واللہ المستعان۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اور دنیا کےسارے مسلمان ___ یہ جان لیں کہ اخوان کی دعوت ’پاک‘ اور ’صاف‘ ہے اور اس حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں اس نے ذاتی مرغوبات اور مطلوبات کو خیرباد کہہ دیا ہے اور دنیاوی فوائد کو ٹھکرا دیا ہے اور اپنی اھواء اور خواہشات کو پسِ پُشت ڈال دیا ہے، اور اُس راستے پر گامزن رہنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کی نشان دہی اللہ تعالیٰ نے داعیانِ حق کے لیے کردی ہے۔

پس، ہم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے۔ نہ تو ہم اُن سے مال و دولت چاہتے ہیں، اور نہ    ان سے کوئی اُجرت چاہتے ہیں، اور نہ ہم اُن کے ذریعے اپنی بزرگی اور سرداری کے خواہش مند ہیں، اور نہ اُن سے کسی بدلے اور سپاس گزاری کے طلب گار ہیں۔ ہمارا اجر تو اس ذات وحدہٗ لاشریک کے ذمّے ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔

  • جذبہ: اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم یہ جان لے کہ وہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ہمارے لیے یہ زیادہ پسندیدہ ہے کہ اگر ہم فدیے میں دے دیے جائیں اور اس طور سے ہماری قوم کو عزت و غلبہ مل سکے اور اگر اس کے وقار اور سربلندی اور دین و حفاظت کے لیے ہم بدل بن سکیں، تو ہمیں یہ بھی قبول ہے۔ ہم کو مصلحین کے مقام پر اسی جذبے نے کھڑا کیا ہے۔ یہ جذبہ ہمارے دل و دماغ اور احساسات پر حاوی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے بستروں کا سکون ہمیں کانٹوں کی طرح کھٹکتا ہے اور ہمارے لیے یہ نہایت ناقابلِ برداشت چیز ہے کہ ہم اپنی قوم کو اس حالت میں گھرا ہوا دیکھیں، اور پھر ذلّت و خواری کے آگے سپر ڈال دیں، یا اس کو گوارا کریں،  یا نااُمیدی کے آگے سر جھکا دیں۔ چنانچہ ،ہم اللہ کی راہ میں قوم کے فائدے کے لیے اپنے فائدے سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔

لوگو! ہم تو آپ کے بہی خواہ ہیں اور ہم کبھی آپ کے مفاد کے خلاف کام نہ کریں گے۔

  •  ہماری سیاست: اے لوگو! ہم آپ کو پکار رہے ہیں اور قرآن ہمارے دائیں ہاتھ میں ہے اور سنت ِ نبویؐ بائیں ہاتھ میں، اور سلف صالحین (جو اُمت مسلمہ کے گلِ سرسبد رہے ہیں) کا نمونۂ عمل ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ہم آپ کو اسلام، اُس کی تعلیمات و احکام اور اُس کے دیے ہوئے ہدایت نامے کی طرف بلاتے ہیں۔ اگر آپ اس کو سیاست کہتے ہیں تو پھر یہی ہماری سیاست ہے۔ اگر ان اُصولوں کی طرف بلانے والا سیاسی قرار دیا جاتا ہے تو سُن لیجیے کہ ہم سب بڑے سیاسی ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس کو سیاست کہیں تو جو چاہیں کہہ لیجیے۔ ہم الزامات اور پروپیگنڈے کی یلغار سے نہیں گھبراتے، اگر ان سے ہماری جو مراد اور ہماری منزل ہے، اوجھل نہ ہو۔ پس،   ایسا نہ ہو کہ الفاظ کے پردوں میں حقائق چھپ جائیں اور مقصود کے بجاے الفاظ سامنے رہیں اور جوہرکے بجاے غرض پیش نظر رہے۔

اور پھر یہاں اسلام کی سیاست میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی دائمی کامرانی کا راز مضمر ہے اور یہی ہماری سیاست ہے۔ اس کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے۔ پس، ہرشخص خود پر اسی سیاست کو حکمراں کرے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے آمادہ کرے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو اُخروی عزت آپ کو حاصل ہوگی۔

  • حق: الاخوان المسلمون کی دعوت عام اور عالم گیر ہے۔ اس کا رشتہ کسی خاص گروہ سے نہیں ہے اور نہ اس کا میلان کسی ایسی چیز کی طرف ہے جو لوگوں کے یہاں کسی خاص رنگ میں جانی جاتی ہو۔ اور جس کے کچھ خاص لوازم اور تقاضے ہوں ، بلکہ اس دعوت کا رُخ خالص دین اور اس کی حقیقی روح کی طرف ہے، اور یہ دعوت چاہتی ہے کہ نقطۂ نظر کی یکسانی اور اتحاد پیدا ہو، تاکہ یہ کوشش زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکے۔ پس، اخوان کی دعوت ہر طرح کی آلایشوں اور غرضوں سے پاک اور صاف ہے، اور یہ حق کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ پایا جائے۔ وہ اجماع و اتفاق کو پسند کرتی ہے اور تشدد و انتشار کو ناپسند۔ اور یہی افتراق و اختلاف ہے جس میں اس وقت مسلمان زیادہ مبتلا ہیں۔ پہلے جب کبھی بھی یہ غالب ہوئے ہیں تو صرف باہم ہمدردی اور اتفاق کے ذریعے۔ ان کی آج بھی حالت سُدھر سکتی ہے جس طرح پہلے لوگوں کی حالت سُدھری تھی۔ کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ جس چیز کے ذریعے پہلے لوگ کامیاب ہوئے، اس کے ذریعے بعد کے لوگ کامیاب نہ ہوں۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہمارا تو اس پر کامل یقین ہے اور ہم دوسروں کو بھی اسی چیز کی طرف بلاتے ہیں۔

 

حسن البنا شہید کی دس ہدایات

                ۱-            حالات خواہ کیسے ہی ہوں جب اذان کی آواز تیرے کانوں میں پڑ جائے تو نماز کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔

                ۲-            تُو قرآن کی تلاوت کر، یا اس کا بغور مطالعہ کر، یا اُسے کسی دوسرے سے سُن، بہرحال تُو اپنے وقت کا کوئی حصہ بھی بے فائدہ کام میں صرف نہ کر۔

                ۳-            فصیح اور صاف ستھری عربی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کر، کیونکہ یہ کام بھی شعائر اسلام میں سے ہے۔

                ۴-            خواہ کسی نوعیت کا معاملہ ہو تُو اس میں زیادہ بحث و مجادلہ سے کام نہ لے کیونکہ بحث و مجادلہ سے بہتر نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔

                ۵-            زیادہ نہ ہنس، جو دل خدا سے وابستہ ہوتا ہے وہ بے حد پُرسکون اور غرقِ طمانیت ہوتا ہے۔

                ۶-            مسخرہ پن اختیار نہ کر، مجاہد قوم سنجیدگی کے سوا کسی چیز سے آشنا نہیں ہوتی۔

                ۷-            سننے والے کی ضرورت سے زیادہ آواز بلند نہ کر، اس میں رعونت بھی ہے اور دوسرے کے لیے اذیت بھی۔

                ۸-            لوگوں کی غیبت اور جماعتوں پر طعن و تشنیع سے بچ، اور خیر کے سوا تیری زبان سے کوئی لفظ نہ نکلے۔

                ۹-            جس رفیق سے بھی تیری ملاقات ہو تو اس سے اپنا تعارف کرا۔ خواہ اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ کیوںکہ ہماری دعوت کی بنیاد محبت اور تعارف پر استوار ہے۔

                ۱۰-         فرائض اوقات سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا تو اپنے دوسرے رفقا کی بھی بھرپور مدد کر تاکہ وہ اپنے اوقات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔ اور اگر تیرے ذمے کوئی خاص مہم ہو تو اُسے کم از کم وقت میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔