میڈیا کا مطلب ، زندگی کے مختلف شعبوںکے متعلق خبروں، واقعات اور حادثات کا جائزہ لے کر ایک خاص تر تیب سے معلو مات جمع کر ناپھر اس کو عام فہم انداز میں پیش کر نا ہوتا ہے۔ میڈیا انگر یزی میں میڈیم(Medium) کی جمع ہے، جس کے معنی وسائل و ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے ہیں۔ بالفاظِ دیگر: میڈیا کے معنی یہ ہیں کہ اخبار،اورٹیلی وژن یا ریڈیو کے ذریعے عوام تک پروگرام یا معلومات پہنچائی جائیں۔
ہر دور میں خیالات ،پیغامات ،اور معلومات کی ترسیل کا کو ئی نہ کو ئی ذریعہ رہا ہے۔ عصرِحاضر میں پہلے ٹیلی گراف ، پھر ریڈیو اور اس کے ساتھ اخبار ،رسائل وجرائد اور ٹیلی وژن کا دور آیا۔ اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جو معلو مات فراہم کر نے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ میڈیا (ذرائع ابلاغ) کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں:o پرنٹ میڈیا oالیکٹرانک میڈیا oسائیبر میڈیا ۔
۱- پر نٹ میڈیاسے مراد اخبارات اوررسائل و جرائد ہیںجو معلومات حاصل کر نے کا اور لو گوں کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کا سب سے آسان، سستا اور مستقل ذریعہ ہے۔ یہ ابلاغ کا پرانا ذریعہ ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی بر قرار ہے۔
۲- الیکٹرانک میڈیا جس میں ریڈیو،ٹی وی اور کیبل وغیرہ شامل ہیں یہ ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں ۔اس میں فلمیں،سیریلز اور اشتہارات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کیو نکہ یہ بھی پیغام پہنچانے کے مؤثر ذرائع ثابت ہورہے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کے اُبھار کا زمانہ ۱۹۹۱ء میں شروع ہوا۔
۳- سائیبر میڈیا: یہ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے۔ آج دنیا میں اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی اہمیت، افادیت اور وسعت روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔سائیبر میڈیا میں انٹرنیٹ، ویب سائٹس ، بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔
میڈیا کی اہمیت و افادیت
ہر قو م،ملک اور تحریک اپنی بات لو گوں تک پہنچا نے کے لیے میڈ یا کا ہی سہارا لیتی ہے۔ میڈ یا یا ذرائع ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت ہی کم وقت میں کسی بھی مسئلے یا ایشوکے متعلق لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کر تا اور ان کی راے بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کام پر اُکساتا ہے اور کسی اہم کام سے توجہ ہٹاتا ہے۔ اس لیے آج فرد سے لے کر حکومت تک کی نکیل میڈیا ہی کے ہاتھ میں ہے۔
بہت عرصے سے مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون تصور کیا جاتا ہے اور ان تینوں اہم اداروں کے ذریعے کو ئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اب کسی بھی ریاست یا جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈ یا کو گردانا جاتا ہے۔
میڈ یا نہ صرف سماج کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ ایک جمہو ری ملک کا بھی اہم ستون ہے۔ یہ مجموعی طور پر ہر ملک و قوم میں لو گوں کی آواز اور ہتھیار ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عصرِحاضر میں میڈیا کی اہمیت اور ضرورت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ یہ راے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کر تاہے۔
طاقت ور میڈ یا ہی ملک و قوم کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے اہم رول ادا کر سکتا ہے اور جب میڈ یا ہی اصول پسندی اور اقدار پر مبنی طرز عمل کو نظر انداز کر تا ہے تو یہ عام لوگوں کی تباہی کا ذر یعہ بنتا ہے۔ میڈیا کی آواز بعض اوقات پار لیمنٹ اورعدلیہ سے بھی طاقت ور ہو تی ہے کیونکہ یہ ظالم کے کر تو ت اور مظلوم پر روا رکھی گئی نا انصافی اور پھر اس کی بے بسی کو نمایا ں کر نے میں ایک کارگر ہتھیا ر کے طور پر ثابت ہو تا ہے ۔میڈیا تعمیر و تر قی کا بھی ایک ذریعہ ہے اور تخریب کاری کا بھی ۔ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں، جس میں میڈیا کے سہارے بڑے پیمانے پر جنگ لڑی جارہی ہے۔
مغربی میڈیا اس وقت دنیا کے ۷۰ فی صد ابلاغی ذرائع پر قابض ہے۔ اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو بالاے طاق رکھا ہے۔ سیاہ کو سفید ،ظالم کو مظلوم اور امن پسند کو دہشت گرد ثابت کرنا مغر بی میڈ یا کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔مغر ب نے میڈ یا کے ذریعے سے انتہائی منظم منصوبہ بند ی کے ساتھ اپنی فکر و تہذیب کی خوب تشہیر کی ہے۔ موجودہ دور میں مغرب نے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے علم و فکر سے لے کر سوچنے سمجھنے کے زاویے تک اور کھانے پینے، رہنے سہنے اور طرزِگفتگو سے لے کر گھر یلو معاملات کے طور طریقے تک بد ل کر رکھ دیے ہیں۔
عالمی میڈیا نے بالعموم اور مغر بی میڈ یا نے بالخصوص، اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک بڑا محاذکھول رکھا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے کے در پے ہیں۔ مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کو ئی نہ کوئی نئی اصطلاح وضع کر دیتا ہے اور کو ئی نیا شو شہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی، تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں،مغر بی دنیا سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ان رسائل میں خاص نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے، جو مغر بی دنیا کے عین مطابق ہوتاہے۔
گذشتہ صدی کے اختتامی برسوں سے بالعموم اور نائن الیون سے بالخصوص، مغرب نے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ذرائع ابلاغ کو شاہ کلید کے طور پر استعمال کیاہے جس کے ذریعے وہ اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست،انتہا پسند، دہشت گرد اور جنونی قرار دے کر، دنیا کے کونے کو نے میں اسلام اور اس کے علَم بردار وں کا خوب مذاق اڑا رہا ہے۔ اس کے ہاں اب دہشت گرد اور مسلمان میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ مغر بی مفکر ین میں سے برنارڈ لوئیس اور پروفیسر ہن ٹنگٹن نے یہ بات منظم انداز سے پیش کی ہے کہ مغر ب کا اصل مسئلہ بنیاد پرستی نہیں بلکہ خود اسلام ہے ۔ ہن ٹنگٹن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مخصوص تہذیب کا نام ہے، جس کے ماننے والے اپنی فکر وتہذیب کے اعلیٰ ہو نے کے دعوے دارہیں اور اپنی تہذیبی بر تر ی کو کھو دینے پر کف افسوس مل رہے ہیں۔۱
دنیا میں تمام اسلام دشمن قوتوں میں سے اسلام کی شبیہہ بگاڑنے میں سب سے زیادہ سرگرم عمل نسل پرست یہودی ہیں، جنھوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ یہودیوں کے پاس دنیا کی بڑی بڑی خبررساں ایجنسیاں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنارہے ہیں۔ان میں سے چند ایک کا تعارف اس طر ح سے ہے:
۱- رائٹر : عالمی خبر رساں ایجنسیوں میں رائٹر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔دنیا میں ہرجگہ تمام اخبارات و ٹی چینلز اسی ایجنسی پر انحصار کر تے ہیں،حتیٰ کہ بی بی سی ،وائس آف امریکا کے اخبارات، اس سے ۹۰ فی صد خبریں حاصل کر تے ہیں۔ ۱۵۰ملکوں کے اخبارات، ریڈیو ، ٹی وی ایجنسیوں کو روزانہ لاکھوں الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجے جاتے ہیں۔
۲- یونائیٹڈ پریس: دنیا کی چند بڑی خبر رساں ایجنسیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
۳- فرانسیسی نیوز ایجنسی( اے ایف پی) : فرانسیسی نیوز ایجنسی کی بنیاد فرانس میں ڈالی گئی۔ فرانس میں صرف ۷ لاکھ یہودی ہیں، لیکن وہاں شائع ہو نے والے ۵۰ فی صد اخبارات و رسائل پر ان کی حکمرانی چلتی ہے۔
۴- ایسوسی ایٹڈ پریس : یہ بھی ایک بڑی نیو ز ایجنسی ہے۔ اس ایجنسی سے ۱۶۰۰ روز نامہ اور ۴۱۸۸ ریڈیو ،ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں۔
۵- والٹ ڈزنی: والٹ ڈزنی دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے۔ اس کے پاس تین بڑے ٹیلی وژن چینلز ہیں ۔ اے بی سی نام کا دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کیبل نیٹ ورک ہے۔ دنیا کے ۲۲۵ ٹیلی وژن چینلز والٹ ڈزنی سے وابستہ ہیں۔
۶- ٹائم وار نر: یہ دوسری بڑی میڈیا فر م ہے ۔ پہلے یہ AOL کے نا م سے کام کرتی تھی۔ اس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ دکھائے جانے والے چینل ایچ بی او ، ٹرنر براڈکاسٹنگ، سی ڈبلیو ٹی وی، وارنرز، سی این این، ڈی سی کو مکس، ہولو، ٹی این ٹی، ٹی بی ایس، کارٹون نیٹ ورک، ٹرنر کلاسک موویز، ٹرو ٹی وی، ٹرنر سپورٹس وغیرہ شامل ہیں۔
۷- وائی کام : یہ دنیا کی تیسری بڑ ی فر م ہے۔ اس کے پاس ٹی وی اور ریڈیو کے ۱۲ یا ۱۴چینلز ہیں ۔یہ کتابیں شائع کر نے والے تین بڑے اداروں اور ایک فلم ساز ادارے کی بھی مالک ہے۔پیرا ماؤنٹ پکچرز اور ایم ٹی وی اسی کمپنی کی ملکیت ہے ۔یہ پوری دنیا کے میڈیا پر حاوی ہے۔
۸- نیوز ہائوس: یہ یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے۔یہ کمپنی ۲۶ روزنامے اور۲۴میگزین شائع کر تی ہیں۔
ان کے علاوہ دی نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ دنیا کے تین بڑے اخبارات ہیں۔ نیو یارک ٹائمز روزانہ ۹۰ لاکھ کی تعداد میں شائع ہو تا ہے۔ یہ جن ایشوز کو چھیڑتے ہیں، وہ آگے چل کر دنیا بھر کے اخبارات کے لیے خبر بنتے ہیں۔میڈیا کے ذریعے سے یہ انسانی ذہنوں کو خاموشی سے مسخر کر رہے ہیں ۔
اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی انھی لو گوں کاجال بچھا ہواہے۔ انٹر نیٹ پر انھوں نے ۱۰۳جعلی اسلامی ویب سائٹس بنا رکھی ہیں، جن کے ذریعے یہ نو مسلم اور ضعیف الایمان مسلمانوںاور نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
مغر ب کے لیے اسلام کی عالم گیر بر تری اور اس کا تیزی سے پھیلنا سر دردبنا ہوا ہے۔ ان کو اس بات کا خوف ستاتا رہتا ہے کہ مستقبل میں مسلمان ہی دنیا کی قیادت و سیادت کریں گے۔۲
اس لیے وہ اسلام اورعالم اسلام کو متنوع حربوں اور طر یقوں سے بد نام کر نے کی مسلسل کوشش کررہا ہے۔وہ میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں پر مند ر جہ ذیل الزامات لگا کر لو گوں کو گمراہ کر رہا ہے:
۱- اسلام تشدد پر مبنی مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں میں زیادہ تر دہشت گر د اور انتہاپسند ہیں۔
۲- اسلامی شریعت کی وجہ سے مسلمان پس ماندہ ہے۔
میڈیا کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا وا دینا مغر بی اور یورپی میڈیا کا سب سے اہم مشغلہ بن گیا ہے۔ ۱۹۹۶ء سے لے کر ۲۰۰۰ء تک یعنی چار سال میں صرفThe Sydeney Morning ، The West Australian Herald کے۱۰۳۸ مضامین شائع ہو ئے، جن میں ۸۰ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو دہشت گرد،بنیاد پرست اور انتہاپسند کی حیثیت سے دکھا یا گیا ۔۷۳ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت کے قاتل ٹھیرا یا گیا اور صرف ۴ فی صد مضامین میں مسلمانوں کو انسانیت نواز بتا یا گیا ۔ ۳
غر ض یہ کہ عالمی میڈ یا اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے مصروف عمل ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پر وپیگنڈے میں کو شاں ہے ۔ اسلام کے ماننے والوں نے ہر دور میں اپنی بات دوسروں تک منظم انداز میں حُسن وخو بی کے ساتھ پہنچائی اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور لاپروائی نہیں برتی۔قرآن مجید نے اس کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب انبیا، سلف صالحین اور اسلام کے علَم بردار گھر گھر تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے زبانی گفتگو اور تقریروں کا سہارا لیا کر تے تھے۔ اس حوالے سے حضرت نوحؑ کا کردار قرآن نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا :
اس نے عرض کیا: ’’ اے میر ے رب میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میر ی پکار نے ان کے فرار میں اضافہ کیا۔ جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی ۔ پھر میں نے علانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھا یا۔( نوح ۷۱: ۶-۸)
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰:۴۳-۴۵ ) جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔
اس تسلسل کو جاری رکھتے ہو ئے اللہ کے رسول ؐ نے سرزمین عرب میں لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دی۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو اس بات کا حکم دیا کہ:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo (المائدہ ۵ :۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمھارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا۔
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ط (المائدہ۵:۹۹) رسولؐ پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت میں ذرائع ابلاغ کی قوت سے بے خبر نہیں تھے اور نہ اس اہم چیلنج کو آپؐ نے نظر انداز کیا، بلکہ محدود افراد ی قوت اور وسائل کو بروے کار لا کر لو گوں تک رب کا پیغام پہنچایا ۔مثلاً چھٹی صدی عیسوی میں مکّہ میں اگر کسی کو ضروری اعلان یا کسی اہم بات کو دوسروں تک پہنچا نا ہوتا تو وہ اپنے جسم سے کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور کوہِ صفا پر چڑھ کرزور زورسے چلّانا شروع کر دیتا : ’ہاے صبح کی تباہی‘۔ لوگ اس طرح کے اعلان کوتوجہ سے سنتے تھے۔ اللہ کے رسول ؐ نے بھی ابلاغ کے اس ذریعے کو استعمال کیا لیکن کپڑے اُتارنے اور چلّانے کے بجاے اس کو اسلامی رنگ عطا کیا۔
لوگوں تک الٰہی پیغام پہنچانے کے لیے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔ کارِدعوت کے سلسلے میں مختلف ممالک کے حکمرانوںتک دعوتی خطوط اور وفود بھیجے۔نیز ہر علاقے میں مبلغین روانہ کرتے رہے تاکہ ان تک پیغام الٰہی پہنچ سکے۔
عرب میں شعر و شاعری اور خطابات کا بھی بڑا دبدبہ تھا۔ مشرکین مکہ کو زبان دانی اور شاعری پر فخر اور ناز تھا اور وہ شعرو شاعری کے ذریعے سے بھی اللہ کے رسولؐ پر تکبر انہ لہجے میں حملے کرتے تھے۔اس چیلنج کو قبول کر تے ہوئے اللہ کے رسول ؐ نے صحابہؓ کو ترغیب دی کہ وہ اس فن کے ذریعے سے کفر کا مقابلہ کریں اور مشر کین مکہ کے حملوں کا جواب دیں۔ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے اس فن میں خوب جو ہر دکھا ئے۔ان میں حضرت حسانؓ بن ثابت ،حضرت کعبؓ بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔انھوں نے شعر و شاعری کو اظہار ابلاغ کا ایک مؤثر ذریعہ بناکر کفار کا زبردست مقابلہ کیا اور اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے دفاع میں جنگ لڑی۔حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کافروں کی ہجو میں شعر کہتے تھے۔ حضرت کعب بن مالک اسلام کے دشمنوں پر نفسیاتی رعب ڈالتے تھے اور حضرت حسانؓ بن ثابت مشرکین مکہ کی طر ف سے اللہ کے رسول کے خلاف کہے گئے اشعار کا نہ صرف جواب دیتے تھے بلکہ اللہ کے رسول ؐ کی مدح بھی کہتے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت نے اپنی شاعری سے دین دشمنوں کو زبردست ضر بیں لگا ئیں اور ان کی زبانوں کو بند کیا ۔۴
اس دور میں خطابت کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ خطبا کارول اپنے اپنے قبیلوں میں انتہائی اہم ہوا کر تا تھا۔ اس فن کو بھی دورِ نبوت میں متعدد صحابہ نے اختیار کیااور اس کو اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بنا کر اسلام کے بول بالا کے لیے استعمال کیا۔ ان میں سے ایک خاص نام حضرت ثابت بن قیسؓ کا ہے جنھیں خطیب اسلام کے لقب سے بھی نوزا گیا۔ان کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمر بن الخطابؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے خطابت کے میدان میں زبردست جوہر دکھائے۔
اُمت مسلمہ ایک ذمہ دار امت ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ایک عظیم منصب پر فائز کیا اور اس کو خیراُمت کے خطاب سے نوازا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط ( ٰال عمرن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس خیرِاُمت کی ذمہ داری ہے کہ لو گوں تک سچائی پہنچائی جائے کیو ںکہ اگر خیرِاُمت یہ کام نہیں کر ے گی تو دنیا شرو فسادسے بھر جائے گی۔ اس کے لیے موجودہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے انسانیت کو ہدایت کی روشنی میں لانے کے لیے مدد لی جانی چاہیے۔
میڈیا کے فرائض
عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مغربی ذرائع ابلاغ کی جو یلغار ہے، وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ اس نے ہر انسان کے فکر و خیال کومتزلزل کر کے نت نئی اُلجھنوں اور مسائل کا شکار بنایا ہے۔ عریانیت اورفحاشی کو اتنا عام کیا کہ اب یہ معاشرتی زندگی کا ایک اہم اور لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ میڈیا ہی کے سہارے سے مغرب نے اپنی فکرو تہذیب پوری دنیا میں پھیلا دی ہے۔ مادہ پرستانہ ذہنیت، عیش پرستانہ مزاج،فیشن پر ستی،گلیمر،کلچر اور جاہ وحشمت کے حصول کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالنا، جذبۂ مسابقت، فتنہ پروری اور اشتعال انگیزی کو میڈیا ہی کے ذریعے خوب فروغ دیا جارہا ہے۔
مغربی اور یورپی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو ہر جگہ ذہنی غلام بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ چوںکہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں بلکہ ذہنی غلامی کا ہے۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے اور بدتر بھی۔یہ استعماریت کی ایک نئی شکل ہے، جسے مغر ب پوری کامیابی سے استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا نہ صرف اس کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک اچھا متبادل پیش کرنا بھی ضروری ہے، جو نہ صرف انتہائی صحیح فکر و خیال کی آبیاری کر ے بلکہ اس کی تہذیب وثقافت کو بھی پلید اور گندا ہو نے سے محفوظ رکھے۔اصولی طور پر میڈ یا چند بنیادی مقاصد کے تحت کام کر تا ہے جو میڈ یا کے فرائض بھی ہیں:
۱- میڈیا کا پہلا فر یضہ یہ ہے کہ وہ عوام تک صحیح معلومات فراہم کر ے۔
۲- میڈیا کا دوسرا فر یضہ ذہن سازی ہے کہ وہ صحیح خطوط پر عوام کی ذہن سازی کا کام کرے۔
۳- میڈیا کا ایک اور مقصد لو گوں کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔لیکن اگر یہ تفر یح انسان کو انسان کے مر تبے سے گرادے تو پھر یہ تفریح نہیں بلکہ اذیت ہے۔
اسلامی میڈیا کا کام ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔ اس کا کام نہ صرف مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب دینا،غلط فہمیوں کا ازالہ کر نا ہے بلکہ آگے بڑھ کر اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کر نا بھی ہے۔اسلامی میڈیا کی وسعت میں بہت گہرائی اور گیرائی ہے۔اس لیے کہ: اسلامی میڈیاصرف مذہبی پروگرام کو نشر کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں آرٹ ،تہذیب، علم و تحقیق اور دوسرے عالم گیر نو عیت کے پروگرام بھی شا مل ہیں، جنھیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پیش کیا جانا چاہیے۔
اسلامی اصولو ں پر مبنی میڈیاسماج کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لیے جو رہنما اصول فراہم کر تا ہے ان میں فرد اور معاشرے کے لیے الٰہی ہدایات پر مبنی اقدار ہیں اور اس کے مقاصد میں بہت وسعت ہے۔اسلامی ذرائع ابلاغ کے تین مقاصد ہیں:
۱- اسلام ایک دعوتی مذہب ہے، اس لیے اپنے ماننے والوں پر یہ ذمہ داری عائد کر تا ہے کہ اس کو ہر فرد تک پہنچا یا جائے۔
۲- اسلام حق و صداقت، علم اور وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ اس لیے اس کو مختلف ذرائع استعمال کر تے ہوئے انسانیت کو اسے اختیار کرنے پر مائل کیا جائے۔
۳- اسلام صحیح فکر اور زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے اس کی روشنی اور نور سے دوسروں کی زندگی کو بھی منور کیا جائے۔
اسلامی اسکالر اور مفکرین الیکٹرانک، پرنٹ اور سائیبر میڈیا کواسلام کی اشاعت اور پھیلائو کے لیے اور عالمِ اسلام کی مضبوطی اور ترقی کے لیے، ایک اہم عنصر تصور کرتے ہیں اور اس کو نظرانداز کرنے یا اس کو کم اہمیت اور ترجیح دینے کو بڑی لاپروائی اور غیر سنجیدگی سمجھتے ہیں ۔اگر مسلمان علم و استدلال کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ نہیں کر یںگے تو اسلام کو دائمی اور عالمی مذہب کے طور پر ہر گزپیش نہیں کر سکیں گے۔ صرف تیر و تفنگ اور بندوق کے میدان میں دشمن کا مقابلہ کر نا مطلوب نہیں بلکہ قرطاس و قلم اور نشرواشاعت کی دنیا میں بھی اس کا مقابلہ ضروری ہے اور اس طرح سے ہر چیلنج کا جواب دینا ضروری ہے جو اسلام کو درپیش ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے پاس عالمی معیار کا کو ئی میڈیا موجود نہیں ہے، جو یہود و نصاریٰ اور معترضین کے برپا کیے ہو ئے فتنوں، ساز شوں،پروپیگنڈوں اوراعتراضات کا انتہائی معقول اور منظم طر یقے سے سد باب کر سکے۔ اس سلسلے میں اسلامی تحریکوں ،اداروں ،علما اور دانش وَروں کو سنجید گی سے غور کرنا چاہیے تاکہ ان صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں سے بھی عصرِحاضر کے اس درپیش چیلنج کا مقابلہ بہ حُسن و خوبی کر سکیں۔لہٰذا، میڈیا پر صرف اپنی گرفت مضبوط ہی نہیں کر نی بلکہ اس کی سمت کو بھی صحیح اور پایداررُخ دینا ہوگا۔
اس بات کی بار بار ضرورت محسوس ہو تی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ صرف خبررساں ایجنسیاں اور نیوز چینلز ہوں بلکہ الیکٹرانک،پرنٹ اور سائیبر میڈیا کے تمام ادارے بھی ہوں، جو عالمی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی ہرزہ سرائیوں ، کارستانیوں اور ان کے پروپیگنڈے کامنہ توڑ جواب دے سکیں۔
۱-مسلم ممالک اعلیٰ معیار کی میڈیا تعلیم و تربیت کے اداروں کا قیام عمل میں لائیں، جہاں سے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اور ماہر ین تیار ہوں جو رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری میں جاںفشانی سے کام کریں اور دنیا کو واقعات کی حقیقی شکل سے بھی روشنا س کرا ئیں۔
۲- سرکاری اور نجی سطح پر بھی ایسے ٹی وی چینلز قائم کیے جائیں جودعوتی جذبے کے ساتھ اور حق و صداقت کے بل پر آگے بڑھیں اور پروپیگنڈے کا پردہ چاک کریں۔
۳- ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو میڈیا کورس میں داخلہ لینے کے لیے ترغیب دی جا ئے اور ان کے لیے مالی معاونت کا انتظام بھی کیا جائے۔
۴-ایسی ورکشاپس اور کانفرنسوں کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے جو نہ صرف ابلاغیاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کر نے والوں کے لیے ہوں، بلکہ ان تمام افراد کے لیے بھی ہوں جو صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کی صحیح تربیت کر نے کے لیے مختلف مراحل میں پرو گرام منعقد کیے جائیں تاکہ ان میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ اسلامی روح بھی بیدار ہو۔
۵- مغر بی فکرو تہذ یب اور فلسفہ نے پورے انسانی معاشرے کو جن اُلجھنوں ،مسائل اور مشکلات سے دو چار کر دیا ہے،تجز یہ و تحقیق اور دلائل سے ان خرابیوں کو اُجاگر کیا جائے تاکہ پو ری نوعِ انسانی ان مسائل اور خرابیوں سے آگاہ رہے۔
۶-عالمی اور مغر بی ذرائع ابلاغ، لابیاں اور تحقیقی ادارے اسلام کے مختلف احکام اور تعلیمات کے بارے میں بڑے پیمانے پر دنیا میں جو شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں ان کا جواب احتجاجی مظاہروںکے بر عکس علمی اور فکر ی سطح پر دینے کی ضرورت ہے۔چو نکہ علمی و فکر ی شبہات اور اعتراضات کا جواب علمی اور فکر ی زبان میں ہی دیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ اسلامی دانش وروں، علما، مصنفین، تحر یکوں،تنظیموں اور اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔
۱- سموئیل ہن ٹنگٹن،تہذیبوں کا تصادم، (اردو ترجمہ ،سہیل انجم )کر اچی اوکسفرڈ پریس ،ص ۱۲۹۔
۲- ایڈورڈ سعید، Orientalism ۱۹۷۷ء، ص ۴۶۔
۳- حسن الامین، فرح افضل، Hamdard Islamicus، جولائی،ستمبر ۲۰۱۵ء، ص ۵۶۔
۴- احمد حسن زیات،تاریخ الادب العربی (اردو تر جمہ عبد الرحمٰن طاہر سورتی) ۱۹۸۵ء ،البران، الٰہ آباد، ص: ۱۳۵