ایک اور کمزوری انسانوں میں بہ کثرت پائی جاتی ہے جسے ہم ’ضعف ِ ارادہ‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک تحریک کی دعوت سُن کر اس پر صدقِ دل سے لبیک کہتا ہے اور اوّل اوّل خاصا جوش بھی دکھاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دل چسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اُسے اُس مقصد سے کوئی حقیقی لگائو باقی [نہیں] رہتا ہے جس کی خدمت کے لیے وہ آگے بڑھا تھا۔
اُس کا دماغ بدستور اُن دلائل پر مطمئن رہتا ہے جن کی بنا پر اس تحریک کو اس نے برحق مانا تھا، اُس کی زبان بدستور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتی رہتی ہے۔ اس کے دل کی شہادت بھی یہی رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور قواے عمل کی حرکت سُست ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِس میں کسی بدنیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ مقصد سے انحراف بھی نہیں ہوتا۔ نظریے کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی۔ اِسی وجہ سے آدمی جماعت کو چھوڑنے کا خیال نہیں کرتا۔
’ضعف ِ ارادہ‘ کا ابتدائی ظہور کام چوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ آدمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے جی چُرانے لگتا ہے۔ مقصد کی راہ میں وقت اور محنت اور مال خرچ کرنے سے گریز کرنے لگتا ہے۔ دنیا کے ہر دوسرے کام کو اُس کام پر ترجیح دینے لگتا ہے، جسے وہ زندگی کا نصب العین قرار دے کر آیا تھا۔ اس کے اوقات میں، اس کی محنتوں میں، اس کے مال میں، اُس کے مقصد ِ حیات کا حصہ کم سے کم ہوتا چلاجاتا ہے اور جس جماعت کو وہ برحق جماعت مان کر اس سے وابستہ ہوا تھا، اس کے ساتھ بھی وہ صرف نظم اور ضابطے کا تعلق باقی رکھتا ہے، اس کے بھلے اور بُرے سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔
یہ حالت کچھ اس طرح بتدریج طاری ہوتی ہے، جیسے جوانی پر بڑھاپا آتا ہے۔ اگر آدمی اپنی اس کیفیت پر نہ خود متنبہ ہو، نہ کوئی اسے متنبہ کرے، تو کسی وقت بھی وہ یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ جس چیز کو مَیں اپنا مقصد ِ زندگی قرار دے کر جان و مال کی بازی لگانے کے لیے اُٹھا تھا، اُس کے ساتھ اب یہ کیا معاملہ کرنے لگا ہوں۔ یوں محض غفلت اور بے خبری کے عالم میں آدمی کی دل چسپی و وابستگی بے جان ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ کسی روز بے خبری ہی میں اس کی طبعی موت واقع ہوجاتی ہے۔ (’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۶، جمادی الثانی ۱۳۷۶ھ/ مارچ ۱۹۵۷ء، ص۲-۳)