’یہ ہے کشمیر کا سچ‘ (سنتوش بھارتیہ) فروری ۲۰۱۷ء کے ترجمان کو پڑھنے سے اس موقف کو اور زیادہ تقویت ملی کہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ بالکل ناجائز اور غاصبانہ ہے، جس کا زندہ ثبوت خود بھارتی میڈیا ہے۔ اس مضمون کو الگ سے شائع کر کے پاکستانی عوام تک پہنچایا جائے تو کشمیر کا مقدمہ سمجھانے میں سہولت ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کے مضمون ’اُمت کے فیصلے، اُمت کے مشورے سے‘ (فروری ۲۰۱۷ء) میں شورائی نظام کی اہمیت کو انتہائی خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ شورائی نظام سے ہم اپنے معاشرے اور حکومت کو جس بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں اس سے بہتر شاید ہی کوئی اور طریقہ ہو۔ اللہ تعالیٰ راقم کو جزاے خیر عطا فرمائے۔ آمین!
محترم ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’تعلیم اور معاشرتی انقلاب کی راہ‘ کے سلسلے میں جو رہنمائی کی ہے، اُمید ہے ہمارے تعلیمی ادارے اس سے مستفید ہو رہے ہوں گے۔ مرکز کی طرف سے اس پورے مضمون کو ان تمام اداروں کو (خواہ جماعت چلا رہی ہو یا جماعت سے وابستہ افراد چلا رہے ہوں) ایک ہدایت کے طور پر بھجوانا چاہیے۔
’شام لہو رنگ زمین‘ یہ اسیرانِ اُمت پر گمنام ہیرو‘ دل کی کیفیت کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔
’مذہب کی تبدیلی کیوں؟‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) میں ڈاکٹر بی آر امبیدکر ، بھارت کے پہلے وزیرقانون کا دلتوں (شودروں) سے خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اہم تر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس خطاب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے علماے کرام نے اس پسی ہوئی قوم تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں؟ یا کبھی کیے تھے؟ غالباً اندراگاندھی کے دورِ حکومت میں شودروں نے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی تھی یا دھمکی دی تھی، جسے دبا دیا گیا۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ دلتوں کو حکومت میں شامل کر کے بڑے بڑے عہدے بھی دیے جاتے ہیں لیکن برہمن اور دیگر ذاتیں انھیں پھر بھی اپنے جیسے انسان سمجھنے کو تیار نہیں۔