قرآن مجید تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجھے عجیب اور پیچیدہ راستے اختیار کرنے پڑے ۔ چونکہ میں منزل پر بڑے احسن طریق سے پہنچی، اس لیے مجھے اپنے تجربات پر کبھی بھی افسوس نہیں ہوا۔
عہد ِ طفولیت ہی سے مجھے موسیقی بڑی اچھی لگتی تھی ۔ خصوصاً وہ گانے تو مجھے بہت ہی پسند تھے جنھیں دیار ِمغرب میں بلند ثقافت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسکول میں موسیقی میرا پسندیدہ مضمون تھا اور اس میں اکثر مجھے اچھے نمبر حاصل ہوتے تھے۔
جب میں گیارہ سال کی ہوئی تو مجھے ریڈیو پر عربی موسیقی سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے اسے پھر سننے کا فیصلہ کر لیا۔ جب بھی میں عربی موسیقی سنتی، مغربی موسیقی کے لیے میرے دل میں کشش باقی نہ رہتی ۔ میں نے والدین کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک دن میرے والد مجھے نیو یارک کے شامی علاقے میں لے گئے، جہاں سے میں نے اپنے گرامو فون کے لیے بہت سے عربی ریکارڈ خریدے۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ مجھے پسند آیا وہ [مصری مغنیہ] اُمِ کلثوم کا وہ ریکارڈ تھا جس میں اس نے سورئہ مریم کی تلاوت کی تھی۔ اس وقت مجھے علم نہیںتھا کہ یہ عورت آیندہ کس بُرے راستے پر گامزن ہونے والی ہے، لیکن مجھے اس کی سُریلی آواز اور عقیدت بڑی پسند آئی ۔ انھی ریکارڈوں کی بدولت میںعربی موسیقی کی گرویدہ بن گئی۔ حالاںکہ میں عربی الفاظ کا مطلب بالکل نہ جانتی تھی۔ عربی موسیقی کی اس بنیادی قدرو منزلت کے بغیر میرے دل میں تلاوت کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ حالانکہ یہ ایک مغربی باشندے کے لیے اجنبی تھی۔ میرے والدین ، رشتہ دار اور احباب عربی اور عربی موسیقی کو از حد دقیانوسی اور تکلیف دہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جب میں ریکارڈ بجانے لگتی تو ان کا ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا کہ میں تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر لوں تا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔
۱۹۶۱ء میں قبولِ اسلام کے بعد ، نیویارک کی مسجد میں بیٹھ کر جب مشہورو معروف مصری قاری عبدالباسط کی تلاوت کا ٹیپ ریکارڈ سنتی تو مسحور ہو جاتی ۔ لیکن ایک نماز جمعہ میں امام صاحب نے ریکارڈ نہ بجایا۔ کیوںکہ اس دن ایک مہمانِ خصوصی آیا ہوا تھا ۔ یہ ایک پستہ قامت معمولی لباس میں ملبوس سیاہ فام نوجوان تھا جو زنجبار کا ایک طالب علم تھا۔ جب اس نے سورۂ رحمٰن کی تلاوت شروع کی تو ایسا معلوم ہوا کہ میں نے اس سے پہلے اتنی شان دار تلاوت کبھی نہیں سنی، قاری عبدالباسط بھی اس کے مقابلے میں ہیچ تھا۔ اس سیاہ فام افریقی نوجوان کی آواز نہایت سریلی تھی۔غالباً حضرت بلال حبشی ؓ کی آواز بھی بہت کچھ اس سے ملتی ہو گی !
دس سال کی عمر ہی میں مَیں نے عربوں کے متعلق وہ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں جو مجھے سکول یا اپنے یہودی فرقے کی لائبریریوں سے حاصل ہو سکیں۔ خصوصاً وہ کتب جن میں یہودیوں اور عربوں کے تاریخی تعلقات کا ذکر تھا۔ لیکن قرآن مجید کے متعلق اپنے تجسّس کی تسلی کرنے میں نوسال سے زیادہ عرصہ بیت گیا۔ آہستہ آہستہ جب بلوغت کی عمر کو پہنچی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام کو عربوں نے اس بلند مرتبے پر نہیں پہنچایا بلکہ اسلام نے عربوں کو صحرائی بادیہ نشینوں سے دنیا کا حکمران بنا دیا ۔ جب تک میرے دل میں اس انقلاب کی وجوہات دریافت کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا اس وقت تک قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہ ہوا۔
۱۹۵۳ء کے موسم گرما میں ، کالج میں بہت سے مضامین کا کورس اختیار کر لینے سے میرے دل ودماغ پر سخت دبائو پڑا۔ اگست میں مَیں علیل ہو گئی اور میں نے سلسلۂ تعلیم منقطع کر دیا۔ ایک شام جب میری والدہ پبلک لائبریری جانے لگیں تومجھ سے پوچھنے لگیں کہ کوئی کتاب منگوائو گی۔ میں نے کہا کہ مجھے قرآن مجید کا ایک نسخہ لا دیں۔ ایک گھنٹے بعد جب وہ لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ تھا۔ جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے ایک عیسائی عالم اور مبلغ، جارج سیل نے کیا تھا ۔چونکہ اس کی زبان بڑی فرسودہ قسم کی تھی اور اس میں عیسائی نقطۂ نگاہ سے متن کو بگاڑنے کے لیے حواشی میں البیضاوی اور زمخشری کے حوالے دیے گئے تھے، اس لیے میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا ۔ اس زمانے میں اپنے ناپختہ دماغ کی وجہ سے قرآن کو تورات کے مانوس قصص کی مسخ شدہ اور محرف شکل کے سوا کچھ نہ سمجھتی تھی۔ قرآن کے متعلق میرا پہلا تاثر کچھ اور تھا مگر میں اس کے مطالعے سے باز نہ رہ سکی ۔ میں تین دن رات تک مسلسل اس کے مطالعے میں منہمک رہی ، اور جب میں نے اسے ختم کر لیا تو میری تمام توانائی ختم ہو کر رہ گئی۔ میری عمر اس وقت صرف ۱۹ سال کی تھی ۔ اور میرا حال یہ تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک ۸۰ سالہ بُڑھیا کی طرح کمزور محسوس کرنے لگی۔ اس کے بعد میری پوری توانائی کبھی بحال نہ ہو سکی۔
میں قرآن کے متعلق اپنی اس راے پر قائم رہی ۔ ایک دن میں نے دکان پر محمد مارما ڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمۂ قرآن کا ایک سستا اڈیشن دیکھا ۔ جونہی میں نے اسے کھولا ، وہ میرے لیے ایک عظیم انکشاف ثابت ہوا ۔ اس کی فصاحت وبلاغت نے میرے پائوں اکھاڑ کر رکھ دیے۔ پکتھال نے اپنے دیباچے کے پہلے پیرا گراف میں لکھا تھا :
اس ترجمے کا مقصد انگریزی خواں طبقے کے سامنے یہ بات پیش کرنا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان قرآن کے الفاظ سے کیا مفہوم لیتے ہیں اور قرآن کی ماہیت کو موزوں الفاظ میں سمجھانا اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔ معقولیت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کسی الہامی کتاب کو ایک ایسا شخص عمدگی سے پیش نہیں کر سکتا جو اس کے الہامات اور پیغام پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ یہ پہلا انگریزی ترجمہ ہے جو ایک ایسے انگریز نے کیاجو مسلمان ہے۔ بعض تراجم میں ایسی تفسیریں کی گئی ہیں جو مسلمانوں کے لیے دل آزار ہیں اور تقریباً سب میں زبان کا ایسا انداز ِ بیان اختیار کیا گیا ہے جسے مسلمان غیر موزوں سمجھتے ہیں۔ قرآن کا ترجمہ ناممکن ہے ۔ یہ قدیم شیوخ کا اور میرا عقیدہ ہے۔ میں نے اس کتاب کو علمی انداز میں پیش کیا ہے اور اس کے لیے کوشش کی گئی ہے کہ موزوں زبان استعمال کی جائے ۔ لیکن یہ ترجمہ قرآن مجید نہیں ہوسکتا ۔ کیوںکہ وہ تو بے مثل وبے عدیل ہے۔ اس میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ لوگ اسے سُنتے ہی رونے لگتے اور وجد میں آ جاتے ہیں۔ یہ تو قرآن کے مفہوم کو انگریزی میں پیش کرنے کی محض ایک کوشش ہے اور اس کے سحر کی قدرے عکاسی ۔ یہ عربی قرآن کی جگہ نہیں لے سکتا ۔ نہ میرا یہ مقصد ہے ۔
اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ جارج سیل کا ترجمہ کیوں اتنا نا موزوں لگا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کا اور دوسرے غیر مسلموں کا ترجمۂ قرآن پڑھنے سے اِنکار کر دیا۔ پکتھال کا ترجمہ پڑھنے کے بعد میں نے عبد اللہ یوسف علی، مولانا محمد علی لاہوری اورمولانا عبدالماجد دریا بادی کے تراجم کا مطالعہ کیا، اور مجھ پر فوراً انکشاف ہوا کہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی کا ترجمہ وتفسیر غیرموزوں ہے۔ اس کی وجہ ان کا لہجہ اور دو راز کار اور غیر معقول کوشش تھی جو انھوں نے ان آیات کی تشریح میں کی تھی جو جدید فلسفے اور سائنسی تصورات سے متصادم ہوتی ہیں۔ ان کے متن کا ترجمہ بھی کمزور تھا۔ گو مولانا دریا بادی نے اپنے ترجمے میں تورات کے شاہ جیمز کے ترجمے کے نمونے پر قدیم انداز ِ بیان اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود مجھے ان کی تفسیر عمدہ معلوم ہوئی ، خاص کراس کا وہ حصہ جس میں مختلف مذاہب کا ذکر ہے اور میں نے اس سے بہت کچھ حاصل کیا۔
بہر کیف ، پکتھال کا ترجمہ مجھے بہت پسند آیا اور آج تک مجھے اس کے مقابلے کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں مل سکا ۔ کسی ترجمے میں وہ فصاحت وبلاغت اور انداز بیان نہیں جو اس میں موجود ہے۔ بہت سے دوسرے تراجم میں اللہ کے لیے ’God ‘ کا لفظ استعمال کرنے کی غلطی کی گئی ہے۔ لیکن پکتھال نے ہر جگہ ’ اللہ‘ ہی استعمال کیا ہے۔ اس سے اسلام کے پیغام میں مغرب کے قاری کے لیے بڑا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جب تک میں ہسپتال میں صاحبِ فراش رہی پکتھال کا ترجمہ مسلسل میرے زیرِ مطالعہ رہا۔ میں نے اسے بار بار پڑھا اور اپنے نوٹس سے اس کے چھے عدد نسخے نشان زد کیے ۔ اللہ تعالیٰ پکتھال پر برکات نازل کرے جس نے امریکا اور انگلستان کے باشندوں کے لیے قرآن کی تعلیمات کا مطالعہ آسان بنا دیا ۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو میں اس سے لا علم رہتی اور اس کی قدر نہ کر سکتی۔
۱۹۰۹ء میں ، ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد مَیں فرصت کے اوقات میں نیویارک پبلک لائبریری کے مشرقی شعبے میں بیٹھ کر اسلام کے متعلق کتب کا مطالعہ کرتی۔ یہیں مجھے مشکوٰۃ المصابیح مترجمہ الحاج مولانا فضل الرحمن کل کتوی کی چار ضخیم جلدوں کا پتا چلا ۔ مجھے اس بات کا علم ہوا کہ قرآن مجید کو موزوں اور مفصل طور پر سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک متعلقہ حدیث کا پتا نہ ہو۔ کیوںکہ نبی اکرم ؐ کے اسوہ اور فرمودات کے سوا قرآن حکیم کی تفسیر کس طرح ممکن ہو سکتی ہے جن پر یہ نازل ہوا تھا! وہ لوگ جو منکرِ حدیث ہیں فی الحقیقت وہ منکرِ قرآن ہیں۔
مشکوٰۃ کے مطالعے کے بعد میں نے قرآن کو الہامی کتاب مان لیا ۔ جس چیز نے مجھے اس بات کا قائل کر دیا کہ قرآن منجانب اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف نہیں وہ اس کے تسلی بخش اور معقول جوابات ہیں،جو اس نے زندگی کے تمام اہم مسائل کے متعلق دیے ہیں اور یہ ایسے ہیں کہ مجھے کسی دوسری جگہ نہیں ملے۔
میں بچپن میں موت سے بڑی خوف زدہ رہا کرتی تھی ۔ خاص کر اپنی موت کے خیال سے اتنا ڈرتی تھی کہ بعض اوقات خواب دیکھنے کے بعد آدھی رات کو چیخنے لگتی اور والدین کو جگا دیتی۔ جب میں ان سے دریافت کرتی کہ میں کیوں مروں گی اور موت کے بعد میرا کیا بنے گا؟ تو وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ وہ ناگزیر ہے اور مجھے اسے قبول کرنا ہوگا۔ اور چونکہ طبی سائنس ترقی کر رہی ہے شاید میں ایک سو سال تک زندہ رہوں۔ میرے والدین ، خاندان کے باقی افراد اور تمام دوست احباب بڑی نفرت کے ساتھ حیات بعد الموت ، روزِ حشر، جنت کے انعامات اور دوزخ کی سزا کو توہم پرستی اور فرسودہ عقائد سمجھتے تھے۔
تورات کے انبیا ، بطریق اور اولیا کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ انھیں جزا وسزا اسی دنیا میں ملی تھی۔ حضرت ایوب ؑ کا قصہ مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام پیاروں کو تباہ کر دیا، ان کی املاک برباد کر دیں۔ انھیں ایک اذیت ناک مرض میں مبتلا کر دیا، تا کہ ان کے ایمان کی آزمایش کی جائے۔ حضرت ایوب ؑ نے رو رو کر خدا سے فریاد کی کہ اس نے کیوں ایک نیکو کار انسان کو مصائب میں مبتلا کیا؟ قصے کے خاتمے پر اللہ تعالیٰ ان کے تمام دنیاوی نقصانات کی تلافی کردیتے ہیں۔ لیکن اس میںیہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی حیات بعد الموت میں انھیں کیا جزا ملی۔
میں نے انجیل میں بھی اس کا ذکر دیکھا اور اس کا مقابلہ قرآن مجید سے کیا۔ انجیل کا بیان مبہم ہے۔ میں نے قدیم یہودیت میں بھی مسئلہ موت کا کوئی حل نہیں پایا۔ کیوںکہ تالمود کی تعلیم یہ ہے کہ بہترین موت سے بدترین زندگی اچھی ہے۔ میرے والدین کا فلسفہ یہ تھا کہ موت کے خیال کو دل میں ہرگز جگہ نہ دینا چاہیے اور زندگی کی عطا کردہ مسرتوں سے مقدور بھر لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں زندگی کا مقصد یہ تھا کہ انسان خوش وخرم اور مسرور رہے ، اپنے خاندان سے پیار کرے، دوست احباب سے تعلقات بڑھائے ، اور ان تفریحات میں منہمک رہے جن کی امریکا میں فراوانی ہے۔ وہ زندگی کی اس مصنوعی شکل کے سختی سے قائل تھے۔ گویا یہ ان کی مسرت اور خوش قسمتی کی ضامن تھی۔ میں نے تلخ تجربے سے معلوم کیا کہ ان باتوں سے پریشانی نصیب ہوتی ہے، اور ذاتی قربانی اور جدوجہد کے بغیر کوئی قابلِ قدر چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔
میں اپنے بچپن ہی سے اہم اور بڑے بڑے کام کرنا چاہتی تھی۔ سب سے زیادہ میںاس بات کی خواہش مند تھی کہ اپنی موت سے پہلے مجھے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ میں نے اپنی زندگی کے ایام پرُ معصیت اعمال میں ضائع نہیں کیے۔ میں زندگی بھر سنجیدہ مزاج رہی ہوں ۔ میں نے ہمیشہ عصرِ جدید کی ثقافت سے نفرت کی ہے جس کا بڑا چرچا ہے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے یہ کہہ کر سخت پریشان کر دیا کہ : ’’دنیا میں کوئی چیز بھی مستقل قدر کی حامل نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم جدید رجحانات کو ناگزیر سمجھیں اور اپنے آپ کو ان کے سانچے میں ڈھال لیں‘‘۔ لیکن میں ہمیشہ اس بات کی خواہاں رہی کہ کوئی ایسی چیز حاصل کروں جو تا ابد قائم رہے اور یہ بات میں نے صرف قرآن مجید سے سیکھی کہ ایسا ممکن ہے۔ اگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوئی نیک عمل کیا جائے تو وہ ضائع نہیں ہوتا۔ اگر اسے دنیاوی انعام نہ بھی ملے تو اسے اس زندگی کے بعد ضرور ملے گا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو اخلاقی اقدار سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے اور آزادی سے من مانی کرتے ہیں، انھیں اس دنیا میں کتنی ہی کامیابی اور دولت حاصل کیوں نہ ہوجائے اور وہ اپنی مختصر زندگی کو کتنی ہی حسرتوں میں کیوں نہ بسر کریں، قیامت کے دن ضرور گھاٹے میں رہیں گے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے پر پوری توجہ دیں اور ایسے تمام اعمال اور سرگرمیوں کو ترک کر دیں جو ہمیں اس راستے سے بھٹکاتی ہیں۔
قرآن کی ان تعلیمات کو احادیث نے اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے، اور میں نے انھیں اپنے مزاج کے عین مطابق پایا ہے۔ جب میں آغوشِ اسلام میں آئی میرے والدین ، رشتہ داروں اور دوست احباب نے مجھے دیوانی سمجھا کیوںکہ میں اس کے بغیر کسی اور بات کا تصور تک نہ کر سکتی تھی۔ ان کے نزدیک مذہب ایک نجی معاملہ تھا جس میں دوسرے اشغال کی طرح ترقی کی جا سکتی تھی۔ لیکن جب میں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیاتو مجھے معلوم ہو اکہ اسلام کسی لہو ولعب کا نام نہیں ہے۔ اسلام زندگی کی محض ضرورت ہی نہیں ، بلکہ خود زندگی ہے !
سنِ بلوغت کے آغاز سے، ۲۸ سال کی عمر میں پاکستان آنے تک میں معاشرتی لحاظ سے مکمل طور پر ناموزوں رہی ۔ میں ایک سنجیدہ دل ودماغ کی دوشیزہ تھی۔ ہر وقت لائبریری میں کتابوں کے ڈھیر میں غرق رہتی تھی۔ میں سینما، رقص اور موسیقی سے متنفر تھی۔ مجھے مخلوط پارٹیوں سے نفرت تھی۔ مجھے رومان ، شان وشوکت ، سنگھار، زیورات، فیشن ایبل لباس میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے مجھے اس سرد مہری کی پوری سزا ملی۔
میری جیسی ہستی کے لیے امریکا میں کوئی جگہ نہ تھی ، اور میں مستقبل سے مایوس تھی۔ میں وہاں سے نکلی اور پاکستان پہنچ گئی۔ اگرچہ پاکستان کی فضا بھی ہر دوسرے مسلم ملک کی طرح، یورپ اور امریکا سے آنے والے خطرناک گردوغبار سے آلودہ ہے۔ پھر بھی نیک مسلمانوں کی کمی نہیں ہے۔ جن کی بدولت ایک فرد کو ایسا ماحول میسر آ جاتا ہے جس میں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ بعض اوقات میں ان باتوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتی جن کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ لیکن میں نے اپنی کمزریوں کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت کی دور از کار تاویلات کرنے کی جرأت نہیں کی۔ میں جب بھی کسی غلطی کی مرتکب ہوتی ہوں، فوراً اس کا اعتراف کر لیتی ہوں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ مسرت جو مجھے اسلام کے دامنِ رحمت میں اپنی حیاتِ نو کے طفیل نصیب ہوئی ہے، سرا سر اس حقیقت کی مرہونِ احسان ہے کہ نسوانی کردار کی اُن صفات کو اسلام میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جنھیں مغربی معاشرے میں نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔