۲۰۱۷ مارچ

فہرست مضامین

ترک اور ترکی شناسی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | ۲۰۱۷ مارچ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

افغانستان ، ایران اور ترکی سے اسلامیانِ ہند کا تعلق اور رابطہ دورِ غلامی ہی سے رہا ہے۔  بعض وجوہ سے، افغانستان اور ایران کی نسبت ترکی سے تعلق اُستوار تر ہوتا گیا اور آج پاکستان کا جتنا گہرا ربط وتعلق ترکی کے ساتھ ہے، کسی اور مسلمان ملک سے نہیں ہے (حرمین شریفین سے عقیدت کی بنا پر سعودی عرب سے تعلق ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے )۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر عظیم کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں دامے ، درمے، سخنے ترکوں کی مدد کی، اس نے ترکوں کے دل جیت لیے اور ان ترک دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ برعظیم کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے ترکوں کے دل آج بھی دھڑکتے ہیں۔

ترکی سے متعلق حال ہی میں دو کتابیں نظر سے گزریں۔ مندرجہ بالا پس منظر کے حوالے  سے ذیل میں ان کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

1

ڈاکٹر نثار احمد اسرار (۱۹۴۲ء-۲۰۰۴ء )کی کتاب مکتوب ترکی کے سرورق کی عبارت  (ترکی کی سیاست ، معاشرت، ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر نثار احمد اسرار کے مضامین کا مجموعہ) سے کتاب کی نوعیت کا کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن پورا تعارف نہیں ہوتا۔

 ڈاکٹر نثار کا تعلق بہار سے تھا۔ پہلی ہجرت کر کے مشرقی پاکستان اور دوسری ہجرت کے نتیجے میں کراچی پہنچے ۔ ۱۹۶۵ء میں آر سی ڈی کے وظیفے پر انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور ۱۹۷۱ء میں استنبول یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انقرہ منتقل ہو گئے اور وہیں پیوند ِخاک ہوئے ۔ وہ چار زبانوں (ترکی ، اُردو ، انگریزی اور جرمن ) پر دسترس رکھتے تھے۔ ۳۶سال ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے، اور ۳۶ سال تک پاکستانی سفارت خانے میں’ افسرِ اطلاعات‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس اور صحافت میں بھی گزرا۔

ان متنوّع مصروفیات کے ساتھ ، ڈاکٹر نثار نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق بر قرار رکھا۔ مصروفیت کیسی ہی ہو، ان کا قلم برابر رواں رہتا تھا۔ ان کی ۵۰ سے زائد تصانیف وتالیف اور کتب ِ تراجم، قلم وقرطاس سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔(کتب ِ تراجم میں تفہیم القرآن، سیرتِ سرورِ عالم ، سود، سنت کی آئینی حیثیت ، مسئلہ جبرو قدر ، تعلیمات اور     علامہ اقبال کا منتخب اردو کلام شامل ہے )۔ وہ ہفت روزہ اخبار جہاں اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کئی سال تک ’مکتوب ترکی ‘ لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کی مرتبہ زیر نظر کتاب  انھی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تقدیم نگار جناب محمد راشد شیخ نے انھیں یاد کرتے ہوئے متأسفانہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ راشد صاحب کے نام اسرار صاحب کے ۲۱خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔

۴۳ مکاتیب (یا راشد شیخ کے بقول ’رپورٹوں‘ ) میں خاصا تنوع ہے۔ بنیادی موضوع ترک، ترک قوم ، ترک عوام وخواص ، ترک مشاہیر، ترک معاشرہ ، ترک صحافت اور ترک سیاست ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے ترکی کے بارے میں بہت سی ایسی چیزوں کا پتا چلتا ہے جن سے تاریخ کے عام طالب علم بھی واقف نہیں ہوں گے، مثلاً: ’’ترکی تضادات کا ملک ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اجتماعِ ضدّین ہے___ ترکی واحد سیکولر ریاست ہے جس کی ۹۸ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جہاں ۶۵ سال کے لادینی نظام اور مذہب دشمن ظالمانہ قوانین کے باوجود، لوگوں کا اسلامی جذبہ سرد نہیں ہوا بلکہ نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی اکیلا مسلمان ملک ہے جہاں سے پلے بوائے اور پلے مَین  جیسے بین الاقوامی شہرت کے فحش رسائل کے ترکی اڈیشن نکلتے ہیں اور مقامی اخبار ورسائل میں بھی مخر ّب ِ اخلاق تصویریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور جہاں اسلام نام کا ماہنامہ اور بعض دوسرے اخبارات وجرائد لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں ۔ ایک طرف ننگوں کے کلب قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی ذہن کی خواتین کے سر ڈھانپنے یا پردہ کرنے پر ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تضادات کی تازہ ترین مثال عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ساری آئینی اورقانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں۔ غیر مسلم اس سے بَری ہیں ‘‘ ۔ ( ص۵۳-۵۴، ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کی تحریر ) ۔ ڈاکٹر نثار کا خیال ہے کہ عیسائیت کے پرچار کا راستہ اتاترک اور عصمت انونو کی مذہب دشمنی نے ہموار کیا: مساجد کی   بے حُرمتی، مدارس بند، حج ممنوع اور عربی میں اذان پر پابندی۔ عصمت انونوکے ایک چہیتے وزیر سراچ اوغلو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’حضرات آپ مجھے ۳۰سال کی مہلت دیجیے، اس ملک سے مذہب کا نام و نشان مٹا دوں گا‘‘۔ یہ مذہب دشمنی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔

ایک مکتوب (۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء ) بہ عنوان: ’’ترک ذرائع ابلاغ فحاشی کی تمام حدود پھلانگ گئے ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے سرکاری نشریاتی اداروں کے علاوہ تقریباً ۳۰ ٹیلی ویژن چینل انتہا درجے کی آزادی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار بڑے تأسف کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’میڈیا کو اپنی آزادی کا گہرا شعور اور احساس ہے اور اس آزادی پر ذرا سی آنچ آتے ہی وہ فوراً ڈٹ جاتے ہیں ۔ صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پر بھی تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔تا ہم بامقصد صحافت ، سنجیدہ اور  صحیح رپورٹنگ ، معتبر اور بے لاگ تبصرے کا شدید فقدان ہے‘‘ (ص ۶۴ )۔ مصنف نے زیرِ نظر مکتوب میں ترکی میڈیا (۱۹۸۸ء )کی جو کیفیت بتائی ہے وہ پاکستان کے ۲۰۱۷ ء کے میڈیا سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ادارے اور قوانین ترکی میں بھی موجود تھے  اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن دونوں جگہ عموماً یہ غیر فعاّل ہیں، اور مجرمین کے خلاف کوئی مؤثر تا دیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔

مختصر یہ کہ مکتوبِ ترکی  کو پڑھے بغیر ترکی کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے ۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے لگن اورمحنت ِ شاقہّ سے یہ تحریریں تلاش وجمع کیں اور ان پر مفید حواشی تحریر کیے۔ (ناشر: قرطاس، ۱۵-اے ، گلشن امین ٹاور ، گلستانِ جوہر ، بلاک ۱۵، کراچی ۔ صفحات: ۳۷۴،قیمت: ۴۰۰ روپے )

2

 تحریکِ خلافت کے زمانے میں ہندستانی مسلمانوں نے ’’ جان، بیٹا! خلافت پہ دے دو ‘‘ کے جذبے سے ترکوںکے ساتھ جذبۂ اخوت کا حق ادا کیا ۔ شعرا نے نظمیں لکھیں اور عوام الناس نے درہم ودینار ارسال کیے۔ مگر زیر نظر کتاب دفتر اعانۂ  ہند (مرتبہ: ڈاکٹر خلیل طوق آر) سے پتا چلتا ہے کہ جذبۂ اخوت کا اظہار ما قبل انیسویں صدی میں بھی اُسی طرح ہوتا رہا ہے۔ ۷۸-۱۸۷۷ء میں روس اور ترکی میں جنگ کی خبریں ہندستان پہنچیں تو یہاں کی انجمنوں اور اداروں نے چندہ  جمع کر کر کے ترکی بھیجنا شروع کیا۔ چوں کہ ہندستانی باشندے ، ترکوں کو مظلوم سمجھتے تھے اس لیے : ’’نہ صرف ہندستان کے مسلمان بلکہ ہندو، پارسی، عیسائی، یہاں تک کہ انگریز افسر بھی [شاید    روس دشمنی میں] ان چندوں میں پیسے دیتے تھے۔ امیر تو امیر ، غریب بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ترکوں سے تعاون کرنے کے لیے پیش پیش تھے۔ نواب سے لے کر حجام تک، ملکہ سے لے کر  اپنی کمائی چندے میں دینے والی بیوہ خواتین اور حتیٰ کہ بالا خانوں کی طوائفوں اور دلّالوں تک ہرہندستانی اس کارِ خیر میں حصّہ لینا چاہتا تھا‘‘(ص xii)۔چندہ دینے والوں میں ریاستوں کے نواب ، انجمنوں کے صدور ، انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ، مدرسوں کے مولوی اور سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں میں بڑے شہروں اور قصبوں کے علاوہ ہندستان کے مختلف صوبوں اور دُور دراز واقع دیہاتوں میں رہنے والے بھی تھے۔ جن جن اداروں یا افراد کے تو سّط سے جتنا جتنا چندہ آتا تھا، ترکی میں اس کا ریکارڈ تحریری طور پر رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں اس ریکارڈ کو دفتر اعانۂ  ہند کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ۔ کتاب کا ایک نسخہ استنبول یونی روسٹی میں موجود ہے۔

ڈاکٹر خلیل طوق آر ( استاد شعبۂ اردو ، استنبول یونی ورسٹی ) نے مذکورہ کتاب کی عکسی نقل، ایک سیرحاصل مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ جملہ اندراجات بزبانِ ترکی خطِ نستعلیق میں ہیں ۔ رقوم کی صراحت ’روپیہ، آنہ ،پائی ‘ سے کی گئی ہے۔ اگر یہی کتاب یا ایسی ہی کوئی کتاب ، اتا ترک کے دور میں تیار کی گئی ہوتی تو ہم اردو قارئین نہ جان سکتے کہ کیالکھا ہے کیوں کہ اتا ترک (ترکوں کا باپ) نے رسم الخط تبدیل کر کے اپنے ’بیٹوں‘ (ترکوں) کو مسلمانانِ عالم سے کاٹ دیا اور رومن (انگریزی) رسم الخط کے ذریعے یورپی بننے کی کوشش کی، مگر ما بعد حکمرانوں کی پوری کوششوں کے باوجود ، یورپی یونین ترکی کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیرنظر کتاب، ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونی ورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران نے شیخ الجامعہ ( ڈاکٹر مجاہد کامران ) کی منظور کردہ خاص گرانٹ سے شائع کی ہے۔ (صفحات : ۳۶۰ ، قیمت: ۵۰۰ روپے )