۲۰۱۷ مارچ

فہرست مضامین

پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل

حبیب الرحمٰن چترالی | ۲۰۱۷ مارچ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

قومی بیانیہ (National Narrative )دراصل قوم کی نظریاتی شناخت اور فکر وعمل کا ترجمان ہوتا ہے، جس پر قوم متفق ہو یا جمہوری اصول کے مطابق قوم کی اکثریت کا اتفاق راے پایا جاتا ہو۔ قومی بیانیہ نظریاتی بھی ہو سکتا ہے اور سیکولر بھی۔ مصورِپاکستان علامہ اقبال ؒ نے اسلامی نظریے کا مغرب کے سیکولر نظریے سے تقابل کر کے یہ فرمایا تھا   ؎

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

قوم رسولِؐ ہاشمی کا بیانیہ ، میثاق ریاستِ مدینہ میںجاری کیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں نے جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کی تشکیل کے وقت عہد کیا تھا کہ سیرتِ رسول ؐ کی روشنی میں زمانۂ حال میں مملکت خدادادِ پاکستان کے قو می بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت کو ہم اُجاگر کریں گے اور فکر وعمل کے نئے اہداف کی طرف رہنمائی کی کوشش کریں گے، تاکہ ریاستی سطح پر عہداول اور عہد ثانی میں وحدتِ فکروعمل پیدا ہو۔

تجدید اور تجدّد

 دین اور اسلامی نظریے کو اگر اصل یا بنیاد قراد دیا جائے توعصر حاضر کے تغیرات پر دو قسم کے جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک ’تجدید‘ کا اور دوسرا ’تجدّد‘ کا۔ زمانے کے تغیرات کو مدّ نظر رکھ کر دین کو  بلاکم وکاست بیان کرنے کا نام ’تجدید‘ ہے جو کہ مستحسن ہے، اور زمانے کے تقاضوں کے نام پر  دین کو بدل ڈالنے کا نام ’تجدّد‘ ہے، جس کی ایک نظریاتی ریاست میں گنجایش نہیں ۔ کیوں کہ بندگان خدا کے لیے اصل وفاداری کا مرکز خداے وحدہ لاشریک کی ذات وصفات ہے، جس کی تعبیر ’توحیدی بیانیہ‘ سے کی جاسکتی ہے۔ اس وحدتِ فکروعمل کو دوئی کے سانچے میں ڈال کر جو بھی    قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے، وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے نزدیک مردُود ہے، کیوں کہ وحی (Revelation) کے ذریعے قرآن کریم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ شرک اور مشرکانہ فکروعمل کو ہرگز معاف نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے باقی گناہوں کو بخش دیتا ہے  ؎

باطل دُوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے

شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

آسمانی بیانیہ میں تحریف اور توحیدی بیانیہ

انجیل مقدس اور دوسری آسمانی کتابوں میں تحریف کا بنیادی پہلو بھی یہی تھا کہ ان کے ’توحیدی بیانیہ‘ کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ اس میں ترمیم واضافہ کر کے بندوں کے نام ربّ کے پیغام کو   بنی اسرائیل نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انجیل میں سب سے خطرناک تحریف یہ کی گئی: ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو ‘‘۔ یہ وہ مشرکانہ بیانیہ ہے، جس کے ذریعے عیسائیوں کے عقیدئہ توحید پر ضرب لگائی گئی۔

’آسمانی بیانیہ‘ تبدیل کرنے کی اس جسارت نے ان قوموں کو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ  اور ضَّآلِّیْنَ بنادیا اور امت مسلمہ کو اس جسارت عظیم سے بچنے کی تاکید نماز کی ہر رکعت میں کی گئی ۔ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ مغضوب قوم یہودی ہیں اور گمراہ اور ضال نصاریٰ ہیں، جب کہ انعام یافتہ ہونے کی علامت ’توحیدی بیانیہ ‘ کو قرار دیا گیا، جو رسول ہاشمی ؐ کی حقیقی قیادت میں ریاست کا بیانیہ تھا۔ اس بیانیے کو اللہ کے رسولؐ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کے سانچے میں ڈھال کر ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بگڑی ہوئی تاریخ کو دوبارہ توحیدی بیانیے پر استوار کرنے کے لیے کفروشرک کے خلاف ریاست مدینہ کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو سخت جدوجہد اور بذریعہ قرآن جہاد عظیم کرنا پڑا۔ قرآن کے الفاظ میں:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹)اللہ کے پیغمبر محمد ؐ اور ان کی معیت میں اہل ایمان کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔

قرآن کریم نے اہل ایمان کے لیے اس بیانیے کو لازوال رشتے سے تعبیر کیا:

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)جو بھی طاغوت کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے گویا اس نے نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھام لیا۔

قومی بیانیہ اور دو طرفہ حکمت عملی

درحقیقت ریاست اور ملت اسلامیہ کا ’قومی بیانیہ‘ ہی ان کا عروۃ الوثقٰی اور حبل اللہ  ہے، جو آپس میں’مفاہمت‘ اور دشمن کے ساتھ ’مزاحمت‘ کی دوطرفہ حکمت عملی کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ یہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی پالیسی سازی کا محور ہونا چاہیے، جو رب کائنات کو اپنا ملجا وماویٰ بنائے اور مشرکانہ بیانیے کو اپنے لیے ضرب کاری کا ہدف سمجھے، اور حق وباطل کے اشتراک کو ہرگز قبول نہ کرے۔ یہی وجہ تھی جب کفارِ قریش مکّہ نے آپ ؐ کے چچا ابو طالب کو آپؐ کے پاس بھیجا تو رسولِؐ خدا کا جواب بلاخوف وخطران کے ہر لالچ کا توڑ تھا:

خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ  آفتاب ومہتاب کے عوض میں اس بیانیے کو ترک کر دوں تومیں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دین کو غالب کر دے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔ (سیرت ابن ہشام، جلداوّل ، ص ۲۶۶)

یہ تھی سنت نبوی ؐ، یعنی ایک نظریاتی مملکت کے سربراہ اوّل کا لائحہ عمل اور ایکشن پلان۔{ FR 584 } عصر حاضر کا بیانیہ اگر رسولؐ اللہ کے بیانیے سے متصادم ہے تو نبی کریمؐ کی سنت کو چھوڑنے والا ہرحکمران اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے اور ان کا دین دینِ سماوی نہیں بلکہ اکبر کے ’دین الٰہی‘ کا بیانیہ ہی ثابت ہوگا جسے مجدّد الف ثانی نے اپنی ضرب کاری سے نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔

 قومی بیانیہ اور درپیش چیلنج

 بے شک امن وترقی تجدید کے باوصف ہماری ضرورت ہے مگر اپنی تہذیب ونظریے کی قیمت پر ہرگز نہیں ۔ لہٰذا، عصر حاضر میں ’قومی بیانیہ ‘ کے حوالے سے ہماری نظریاتی مملکت پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہیں، کیا ترقی کی خاطر یا پھر باطل کے ڈر کے پیش نظر ان چیلنجوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے اور ایک نظریاتی ریاست کے بجاے ایک مجبور محض (functional ) اور سیکورٹی اسٹیٹ کی حیثیت کو قبول کرلیاجائے، یا پھر ہم بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی مشکیں ترغیب و ترہیب (Carrot and Stick) کی پالیسی کے شکنجے میں کَس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مداہنت کی پالیسی ہوگی جسے سورئہ مائدہ میں یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے (جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی) ۔

اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ (المائدہ ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے   نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

درحقیقت غزوئہ احزاب نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ عملی اور اعصابی جنگ ہار گئے تھے۔ اسلامی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی تھی اور اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ کفار جارح کو معلوم ہو گیا کہ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو یہ ہمیں شکست دے ڈالیں گے۔ ریاست مدینہ میں جنگ احزاب کے پس منظر میں مشرکینِ قریش اور یہود نے بیسیوں قبائل کو ساتھ لے کر ’اتحادی فوجیں‘ (Coalition Forces )ترتیب دے کر ریاست مدینہ کے خاتمے کا سوچا تھا۔ ان کی شکست کے بعد رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا: اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا (بخاری، کتاب المغازی)۔ گویا اب وقت گیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے اور اپنے شر کے بیانیے کو تم پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہوں گے۔

’جہادی بیانیہ‘ صرف دفاعی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف اقدامی جنگ (Aggresive War )بھی ہے۔ بیسیوں غزوات اور سرّیوں سے آںحضوؐر اور آپ کے صحابہ ؓ نے  توحیدی بیانیے کو اعلاے کلمۃ اللہ کی رفعتوں سے ہم کنار کیا ۔ ہمیشہ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی یہ دلّی تمنا ہوتی ہے کہ نظام حیات ان کی منشا کے مطابق بدلا جائے، جب کہ رب کائنات اپنا فرمان اتار کر اپنی منشا کے مطابق نبویؐ لائحہ عمل کو نافذ دیکھنا چاہتا ہے اور حکم دیتا ہے : اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) ’’خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘، اور وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا o (الفرقان ۲۵:۵۲) ’’تم اس قرآن کو لے کر ان سے جہاد کبیر کرو ‘‘۔

عالمِ اسلام میں اب یہ جاہلی حکمت عملی اپنے عروج پر ہے۔ماضی میں اس جاہلی فتنے کو میکیاولی اور قدیم چانکیائی فلسفہ نے خوب تقویت دی۔ جب نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا تو ولندیزی، پرتگیزی اور انگریزی استعمار نے جھوٹ اور مکاری پر مبنی بیانیے کو فروغ دے کر مسلم سلطنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ خلافت عثمانیہ کے حصے کر دیے ۔ دین اور دنیاکی دوئی کا فلسفہ گھڑ کر مسلم سیاسی قوتوں کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور ہر قومی ادارے سے مذہب و دین کا خاتمہ کرکے فرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔ اس طرح اسپین اور افریقہ سے لے کر برعظیم پاک وہند تک سارے مسلمان سیاسی اور مذہبی لحاظ سے لامتناہی ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں دست وگریبان ہوگئے کیوں کہ وہ خلافت کے سائبان سے محروم ہو کر بالادست سیکولر قوتوں کے دست نگر بن گئے تھے۔ مزاحمت اگر تھی تو وہ صرف علماے حق کی طرف سے تھی۔ اس لیے کہ سیاسی قوت ہاتھ سے چلے جانے کے بعد جہادی بیانیہ، ریاست کا بیانیہ نہ رہا بلکہ علماے حق عوام الناس تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کاپورا نزلہ علما پر گرا دیا گیا۔ معاشرے میں ان کو  بے حیثیت بنا دیا گیا اور ہزاروں علما کو شہید کیا گیا۔ برطانوی فوج میں چار لاکھ سے زائد مقامی افراد بھرتی کیے گئے جن میں سے دو لاکھ فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ تاجِ برطانیہ کے لیے تقویت اور مزاحم قوتوں اور علما کے لیے تعذیب کا سبب بنے۔ دراصل اس لیے کہ شرک کا بیانیہ ظلم وستم پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کمزور اہل ایمان کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے:

وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج ۸۵:۸) ان سے ان کے انتقام لینے کی اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اللہ غالب اور محمود پر ایمان رکھتے تھے۔

قومی بیانیہ سے انحراف

 قیام پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر لازوال جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے  کیوں کہ پوری قوم ایک بیانیے پر متحد ہو گئی تھی ۔ تا ہم ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے رُونما ہونے کے بعد اسلامی بیانیے کے خلاف زور دار ابلاغی مہم چلائی گئی۔  اس کو سیکولرزم کی فتح  سمجھ کر بائیں بازو کے دانش وَروں نے سیکولر بیانیہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا مضبوط موقف دائیں بازو کے دانش وَروں کا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان دراصل نظریۂ پاکستان کے ترجمان اسلامی بیانیے سے انحراف کا نتیجہ تھا۔

اس موقعے پر جب سبط حسن نے بائیں بازو کے سیکولر موقف پر زور دیا توا لطاف گوہر نے صاف لکھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد اسلامی ریاست کی تخلیق تھا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں الطاف گوہر ماڈرنزم کے پرچار ک تھے مگر وہ جدیدیت کو مذہبیت کی نفی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح  ۱۹۸۵ء میں سبط حسن کے جواب میں معروف وکیل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن خالد ایم اسحاق نے کئی مضامین لکھے جو ڈان میں شائع ہوئے۔ وہ اسلامی نظریے پر مبنی بیانیے کے حق میں تھے۔  خالد اسحاق ایڈووکیٹ نے مدلل انداز میں اسلامی ریاست کے حوالے سے الطاف گوہر کے موقف کی بھر پور تائید کی اور ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانے میں رکھنے کی اہل نصاریٰ کے موقف (Narrative) پر زور دار تنقید کی۔ اقبالؒ نے بھی اسلامی نقطۂ نظر سے پاپائیت کی سخت مخالفت تو کی تھی، مگر دین کے مقصد کے حصول کے لیے ریاست کے وسیلے کے استعمال کے وہ بھرپور حامی تھے  ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

 جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

قائداعظم محمد علی جناح یورپ میں علمی نشوونما پا کر ابتدا میں مذہب اور ریاست کے جدائی کے قائل تھے، مگر ۱۹۳۸ء سے ان کا نقطۂ نظر اس وقت بدل گیا جب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف سے بھیجے گئے علما کے چھے رکنی وفد نے پٹنہ میں بیرسٹر عبدالعزیز کے گھر میں قائداعظم سے ملاقات کی۔ ڈھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد جناح نے مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور وفد کے دیگر ارکان کے سامنے علانیہ کہا:’’کسی اور مذہب میں دین اور ریاست ایک دوسرے سے جدا ہوں یا نہ ہوں، مجھے خوب سمجھ آ گیا ہے کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں‘‘۔

دیوبند کے ان علما کاقائد اعظم کے ساتھ علمی اور سیاسی تعاون ہمیشہ جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء میں پاکستان کے حق میں صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے کے بعد قائد نے ان دونوں علما کو مبار ک باد دی اور ایک نشت میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے سوال کے جواب میں کہا کہ سیاست سے دست بردار ہوکر لندن منتقل ہونے کے بعد میری واپسی آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا سہرا بھی قائد کے حکم پر  انھی دو علما کے سر رہا اور وصیت کے مطابق قائد کی نماز جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی  ع  

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ہمارے ہاں یہ بحث ۷۰ سال سے جاری ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد مبارک باد کا مستحق ہے کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, issues and Conflict کے موضوع پر مقالہ جات اور سیمی نار ز کی کارروائی شائع کر کے قوم کو یک سُو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کا سہرا پروفیسر خورشید احمد اور محقق ڈاکٹر طارق جان کے سر ہے۔ توحیدی بیانیہ کو پروان چڑھانے کے لیے ہر قسم کی ابلاغی اور اداراتی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔

مغربی عصری بیانیہ اور شریعت محمدی ؐ

عصر حاضر میں جدید مغرب کے فلاسفروں نے   Humanism  یا تحریک انسانیت کے نام سے جو بیانیہ دیا ہے، اس میں انسان کو خاکم بدہن اللہ تعالیٰ اور وحی (Revelation)  کے مقابلے میں عقلیت (Rationalism) کو تقدس کا درجہ دیا ہے اور حلال وحرام کے شرعی احکام کی جگہ ’Utilitarianism ‘ یعنی افادیت پسندی کو اپنے تجدد سے ’شریعت‘ قرار دیا ہے۔ حالاںکہ تمام مذاہب سماوی کی رُو سے حاکمیت اعلیٰ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور اسلامی شریعت میں سنتِ رسول ؐ کی آئینی حیثیت بھی مسلّم ہے، کیوں کہ اسوئہ رسول ؐ کی پیروی کے بغیر کوئی بھی بیانیہ ہدایت سے محروم رہے گا۔ حاکمیت اعلیٰ اور سیرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ریاست مدینہ میں کوئی تجاوز نہیں کر سکتا تھا تو آئیڈیل کی حیثیت سے دستورِ پاکستان میں ان حدود کا خیال رکھا گیا اور قانون سازی اور دستوری سازی میں قرار داد مقاصد اور توہین رسالتؐ اور خاتم الانبیا کی عظمت اور تقدس کے اصولوں سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ۔ دستور کے مطابق قرآن وسنت ہمارے قومی فکروعمل کے بنیادی مآخذ اور ہمارے عقیدے کی بنیاد شریعت ہی ہمارا نظام حیات ہے۔ شریعت دراصل اُخروی کامیابی کی خاطر زمینی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے نبویؐ منہج اور ضابطے (Code of Conduct) کا نام ہے، تا کہ بحیثیت خلیفہ، انسان کے ہاتھوں زمینی اقتدار ،آسمانی اقدار کی روشنی میں قائم رہے۔ اسی کو امانت اور اسی کو اللہ سے عہد کہا گیا ہے اور یہی وہ توحیدی بیانیہ ہے، جسے میر حجاز ؐ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا اور طاغوت سے انسان کو خلاصی بخشی ۔اس توحیدی بیانیے کا اصل مقصد ومدعا بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی میں دینا تھا تا کہ دنیا اصلاح اور امن وسلامتی کا مسکن بن جائے۔

اقبال کے نزدیک یہ سب کچھ دین اسلام اور میر حجاز ؐ کی برکت سے ہے: ع  از کلیدِ دیں درِدنیا کُشاد۔ گویا پیغمبر وہ ہستی ہیں، جنھوں نے دین کی کلید سے دنیا کے دروازے واکر دیے اور وسیلۂ دنیا کو مقصد دین کا ذریعہ بنایا اور ترکِ دنیا کو ناجائز قرار دیا۔

مستضعفین کا بیانیہ اور ہمارے قائدین 

زمینی حقائق کے مطابق بیانیہ (Narrative) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ظالم متکبرین کا بیانیہ اور دوسر امستضعفین کا بیانیہ ۔ ظالم اور مظلوم ، طاقت وَر (Oppresor) اور کمزور (Oppressed) کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کمزوروں اور پسے ہوئے مستضعفین کو غلبہ دے کر ان پر احسان کرنا چاہتا ہے تا کہ مستکبرین اپنا بیانیہ کمزور قوموں پر بزور نافذ نہ کرسکیں:

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَo (القصص ۲۸:۵) اور ہم جہاں بھر کے کمزوروں پر یہ احسان کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قیادت اور زمین کی وراثت عطا کرنا چاہتے ہیں۔

چونکہ صدق وعدل پر مبنی قرآن کا بیانیہ بھی طاقت کا متقاضی ہے جو ریاستی سطح پر اداروں کی تمکین اور سیاسی قوت کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ گذشتہ صدی میں برعظیم کے اندر کمزور مسلمانوں پر اللہ کا یہ احسان اس طرح ہوا کہ رب غفور نے ہمیں بلدۃ طیبہ، یعنی پاکستان دیا۔  ساتھ ہی ہندو اکثریت کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیا کیوں کہ وہ رائج الوقت جمہوری اصول کے مطابق برعظیم کی ۲۵ فی صد مسلمان اقلیت پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے۔

برعظیم کی ایسی اعصاب شکن بحرانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر ایک بصیرت افروز اور صاحب کردار قیادت عطا کی۔ بلاشبہہ، ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح اس کے سرخیل تھے۔ وہ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ریاست مدینہ کو آئیڈیل سمجھتے تھے اور اسلام کے بیانیے پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ دونوں قائدین اعلیٰ پاے کے مفکر اور مدّبر اور قانون دان تھے۔ انھوں نے علاحدہ اور خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کے لیے قانونی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور برعظیم کے کمزور مسلمانوں کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اسلامی نظریے پر قائداعظم کا یقین اتنا پختہ تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک سو مرتبہ اور پاکستان بننے کے بعد ۱۴ مرتبہ انھوں نے اپنی تقریروں میں اسلام کے نظریاتی بیانیے پر زور دیا۔

پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے آئین کی تشکیل سے قبل قرار دادِ مقاصد، یعنی Objective Resolution منظور کی، جو حقیقی قومی بیانیے کی عکاس تھی اور میثاقِ مدینہ کا پر تو، اور ایک نظریاتی مملکت کی سنگ میل بھی۔

توحیدی بیانیہ اور قومی آزمایش

قرار دادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے میں اوّل روز سے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔  اسی توحیدی بیانیے کی پاداش میں اس کے روح رواں نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کو یک جا کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد اسد کو عالمی مشن پر بھیجا تھا۔ جب وہ تین اسلامی ملکوں کا دور کر کے ترکی پہنچے تو باطل غالب قوتوں کو خلافت اسلامی کے دوبارہ احیا کا خطرہ کھٹکنے لگا ۔پھر قائداعظم کے ایما پر قائم کردہ ’ادارہ اسلامی تعمیرنو‘ کہ جس کی سربراہی محمد اسد کو سونپی گئی تھی، اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور تمام ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ پورے ۶۸ سال بعد ۴۰صفحات پر مبنی اس قومی ادارے کا بیانیہ اب دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ عملی توحیدی بیانیہ بوجوہ عصر حاضر کے ’قیصر‘ کے لیے خدائی کا حصہ مانگنے والے مشرکوں کو اور مشرکانہ بیانیے کے پیروکار منافقوں کو ایک نظر نہیںبھاتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں مصورِ پاکستان اور قائداعظم کا وژن جھلکتا تھا، جنھوں نے چٹان کی طرح استقامت دکھا کر عالمی باطل  قوتوں کو جمہوری طریقے سے شکست سے دوچار کیا تھا، اور اسلامی بیانیے کے قانونی نفاذ کے لیے ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی۔

قانونی اور دستوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اسلامی جمہوری مملکت میں وقفے وقفے سے مارشل لا کا نفاذ اور جسٹس محمدمنیر کے ہاتھوں اسلامی بیانیے کو مشتبہ بنانے کے لیے قائداعظم محمدعلی جناح کی کردار کشی اسی گہری سازش کا شاخسانہ ہیں، جسے سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah میں بڑی محنت سے علمی طور پر طشت ازبام کیا ہے،اور سیکولر بیانیے کی مکارانہ بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔

اہل دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قرارداد مقاصد کے دستوری بیانیے کے خلاف ترتیب دیے جانے والے بیانیے کو مسترد کریں اور عوام الناس کو شعوری طور پر بیدار کریں کیوں کہ ہم اپنی قومی ریاست کو خدائی کے مقام پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی احسان فراموشی ہو گی اور اپنے محسن قائدین سے غداری بھی، جنھوں نے رزم حق و باطل کے لیے اصل معیار کو حلقۂ یاراں کے لیے روز روشن کی طرح واضح کر دیا تھا اور آپس میں نظریاتی یک جہتی کے فوائد کو عملاً چراغ مصطفویؐ کی روشنی میں ثابت کر دکھایا تھا۔ اقبال کے بقول یہ جہادی بیانیہ شراربولہبی کے لیے ستیزہ کاری کا پیغام ہے :

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفویؐ سے شرار بُولہبی

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

 

 ضروری اعلان

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں روانہ کر دیا جاتا ہے تاکہ پہلے عشرے تک موصول ہوسکے۔ لہٰذا ۱۰ تاریخ تک پرچہ نہ ملنے کی صورت میں اپنے مقامی ڈاک خانہ میں تحقیق و کارروائی کریں اور دو تین روز مزید انتظار کے بعد بھی دستیاب نہ ہو تو دفتر ترجمان کے فون نمبروں پر اپنا خریداری نمبریا نام و پتا بتا کر رابطہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ کی شکایت دُور ہوجائے گی اور دوبارہ پرچہ ارسال کردیا جائے گا۔ آپ اپنا زرسالانہ منی آرڈر بنام ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن یا آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔

 رجسٹرڈ شمار ے کی سہولت

جن احباب کو ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  نہ ملنے کی شکایت ہے وہ زرسالانہ (400 روپے)کے علاوہ 250/- روپے اضافی (یعنی کُل: 650 روپے) ادا کر کے رجسٹرڈ ڈاک کی سہولت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔