حبیب الرحمٰن چترالی


عقل و دانش بلاشبہہ انسان کو فہم و ادراک( Cognitive Science )کا عظیم علم عطا کرتی ہے، مگر سکرات و منشیات، نشے کےعادی انسان سے جوہرِ آدمیت چھین لیتے ہیں۔ یوں شیطانی مکروفریب کا مارا اور دین و شریعت سے بے بہرہ انسان، خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے اور سفاکیت کی نذر ہوجاتا ہے۔ شریعت، معروفات اور منکرات پر مشتمل قانونِ الٰہی ہے۔ ہروہ عمل معروف ہے شریعت نے جس کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا کرنا باعث ِ ثواب اور اس کا ترک کرنا باعث ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ فَاعِلُہُ وَلَا یُعَاقَبُ تَارِکُہُ۔اس کے برعکس ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منکر ہے۔ اس کا ترک کرنا باعث ثواب اور اس کا ارتکاب کرنے والا مستوجب ِ سزا ہے: مَا یُثَابُ تَارکۃ وَ  یُعَاقَبُ فَاعْلَہُ۔شریعت میں حلال و حرام کا یہ تصور ہے، جب کہ مقاصد ِ شریعت پانچ ہیں جو اپنے اندر بہت وسعت اور جامعیت رکھتے ہیں۔

مقاصد ِ شریعت میں تحفظ ِدین، تحفظ ِجان،تحفظ ِ مال، تحفظ ِ نسل کے علاوہ تحفظ ِ عقل شامل ہیں اور ان میں تحفظ ِ عقل کوان پانچ مقاصد میں اوّلین حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بغیر فہم و ادراک ممکن نہیں۔ منشیات یا دیگر وجوہ سے اگر عقل میں فتور آگیا تو دیگر مقاصد ِ شریعت اس کی زد میں آتے ہیں۔ بذریعہ دین اپنے ربّ سے اس کا تعلق منقطع ہوجاتا ہے۔ جان و مال اور نسل و عزّت و آبرو ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔ شریعت محمدیؐ عطا کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مفقود ہوجاتی ہے۔ یوں بنی آدم شرفِ آدمیت سے محروم ہوجاتا ہے، بالآخر علمِ وحی اورعلمِ اکتساب سے بے بہرہ ہونے کے سبب انسانیت ہلاکت خیزی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ہے منشیات اور نشے کا ناسُور!

نشہ اور حیاتیاتی جنگ

بائیولوجیکل یا حیاتیاتی جنگ کے موجودہ دور میں ہیروئن ، شیشہ اور آئس نے نوجوانوں پر منشیات کےاثرات کو تباہ کن صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے۔ انسانی سوچ کو قابو کرنے کے لیے عصرحاضر میں ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پراجیکٹ اور Cyborg میں آفتابی شعائوں، برقی مقناطیسی ذرّات ، Cosmic particle اور ڈی این اے سے متعلق سائنسی تحقیقی اداروں نے انسانی دماغ میں تبدیلی کو جنگی مقاصد کے لیے سہل الحصول بنادیا ہے، تاکہ مستقبل کی حیاتیاتی جنگ، فتوحات کا پیش خیمہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی سوچ کے بدلنے اور حواس میں تبدیلی سے انسان تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس طرح اکیسویں صدی کا بدلاہوا انسان آج سے ہزارسال پہلے نشے کی حالت میں بدلے ہوئے انسان سے کہیں زیادہ حواس باختہ ہوگا اور قتل و غارت کا رسیا۔

گیارھویں صدی میں نشے کا فساد چرس اور افیون مافیاکے ہاتھوں انجام پارہا تھا۔ اس گروہ کے بانی اور منشیات کے بڑے پرچارک، حسن بن صباح (۱۰۲۴ء)، نظاری ریاست اور ساتھی، ایک مافیا تھے۔ یہ لوگوں کو نشہ آور اشیا پلا کر اُن کو خودساختہ عشرت کدوں میں بساتے اور اپنے دشمنوں میں ہلاکت خیزی پھیلاتے تاکہ قاتل اور مقتول اس مافیا کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے جائیں۔ معروف سیاح مارکوپولو نے شخ الجبال کی زیرنگرانی الموت قلعے میں واقع اپنے عہد کی اس جنت کا نقشہ کھینچا ہے جو منشیات کا بڑا اڈا تھا اور جہاں خودکش حملہ آور تیارکیے جاتے اور علما، سیاسی زعماء ، سپہ سالاران اور معتبر سماجی شخصیات کو قتل کیا جاتا تھا۔ ان نظاری افواج کو عیش و عشرت کی جو سہولتیں دستیاب تھیں ، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فردودسِ بریں کے نام سے عبدالحلیم شرر نے ایک ناول تحریر کیا ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ یہ تھا ہزار سال قبل منشیات کا ناسُور جس کو پہلی بار ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی۔ شریعت مطہرہ نے جسے منکر کہہ کر حرام قرار دیا تھا، اور ریاست ِ مدینہ میں اسے ممنوع قرار دیا تھا کیونکہ عقل و حواس کی حفاظت مقاصد شریعت کی بنیاد ہے اور منکرات کی اشاعت اور منشیات پھیلانے سے اجتناب ضروری ہے۔ نشہ آور اشیا مختلف النوع ہیں، بہرحال ان کے استعمال سے منکر کے خلاف قوتِ مزاحمت جواب دے جاتی ہے۔ پاکستان کے ضابطۂ قانون کے مطابق شراب اور نشہ ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ۱۹۴۸ء میں پہلا حکم خود بانی ٔپاکستان نے نافذ کیا تھا۔

شراب کی بندش اور بانیٔ پاکستان

قائداعظم محمدعلی جناح، قانونی و دستوری ضوابط کی رُو سے بحیثیت گورنر جنرل مسلح افواج کے چیف کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ قائد کے حین حیات، میجر جنرل محمد اکبر خاں مدتِ ملازمت میں بلند درجے کی بنیاد پر فوج میں ترقی پاکر کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ قائد سے ملاقات کے دوران شراب کی بندش سے متعلق ۱۹۴۸ء کا وہ اپنا ایک ذاتی تجربہ اور سرگزشت قلم بند کرتے ہیں:

ہمارے افسروں کے تربیتی اسکولوں میں ضیافت کے وقت شراب پی جاتی تھی کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔

میں نے بانی ٔ پاکستان سے یہ عرض کیا: ’’شراب کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا اعلان فرمائیں‘‘۔ قائد نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ’’میرا کنیفیڈنشل باکس لے آئو‘‘۔ جب باکس آگیا تو قائداعظم نے چابیوں کا گچھا اپنی جیب سے نکال کر اور باکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلدبند ایک کتاب نکالی اور اسے اُس مقام سے کھولا جہاں انھوں نے نشانی  رکھی ہوئی تھی اور فرمایا: ’’جنرل،  یہ قرآنِ مجید ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ شراب و نشہ حرام ہیں‘‘۔

تبادلۂ خیالات کے بعد اسٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے آیاتِ قرآنی کا حوالہ دے کر ایک مسودہ تیار کیا کہ ’’شراب اور منشیات حرام ہیں‘‘۔

میں نے مسودے کی نقل چسپاں کرکے اپنے ایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک مؤثر رہا۔ اس موقعے پر میں نے قائداعظم سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے تو آپ نے فرمایا: ’’ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہرشعبے میں قرآنِ مجید سے رہنمائی لینی چاہیے‘‘۔ (میری آخری منزل، ص ۲۸۱)

قرآنِ مجید اور حُرمت شراب

قرآنِ مجید میں شراب کی حُرمت بتدریج مختلف مراحل میں نافذالعمل ہوئی۔ قرآنِ مجید کی کل چارسورتوں میں مرحلہ وار احکامات آئے: سورئہ بقرہ کی آیت ۲۱۹، سورئہ نحل کی آیت ۶۷، سورئہ نساء کی آیت ۴۳ اور سورئہ مائدہ کی آیت ۹۰۔ حُرمت ِ شراب کا آخری اور قطعی حکم سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے نزول کے بعد نافذ ہوا۔ اس آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۹۰ (المائدہ ۵:۹۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہ شراب و جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، اِن سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی۔

یہ شراب کی ممانعت کا واضح شرعی حکم ہے۔ اس کے معاً بعد آیت۹۱ میں شراب اور جوا کے امتناع کے شرعی مقاصد کو بیان کیا گیا:

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۝۰ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۝۹۱ (المائدہ ۵:۹۱) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم اِن چیزوں سے باز رہو گے؟

اس حکمِ خداوندی کا نازل ہونا تھا کہ صحابہ کرامؓ نے علانیہ کہا: رَبَّنَا انتھینا، اے پروردگار ہم باز آگئے(مسنداحمد، جلد دوم)۔اس وحی کے نزول کے بعد مدینہ میں شراب کے مٹکے بہادیئے گئے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

سُکر، نسخ اور اضطرار کی قرآنی اصطلاحات

حُرمت شراب اور سُکر کے علاوہ نسخ اور اضطرار کی اصطلاحات قرآنِ مجید میں استعمال ہوئی ہیں۔

  • سَكَرًا:  سورئہ نحل میں آیت ۶۷ میں ارشاد ہوا: تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَكَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا۝۰ۭ ’’تم جس سے نشہ آور مشروب بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۶۷’’یقینا اُس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے‘‘۔ اس آیت میں ایک ضمنی اشارہ شراب کی حُرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، آیت۶۷)
  • نسخ: ’نسخ‘ کی اصطلاح سورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۶ میں اِن الفاظ میں استعمال ہوئی ہے:  مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۝۰ۭ ’’ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہترلاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی‘‘۔اس حکم کے تحت اس منسوخ آیت کا سورئہ مائدہ (آیت ۹۰-۹۱) شراب و دیگر نشہ و سکرات ناسخ ہے۔
  • اضطرار:’اضطرار‘ کی اصطلاح سورئہ بقرہ کی آیت ۱۷۳ میں مقاصد ِ شریعت کی تکمیل اور سخت مجبوری کی صورت میں حرام اشیا کے استعمال کے لیے اجازت کے لیے استعمال ہوا ہے: فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ  فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝۰ۭ ’’ہاں، جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو، اور وہ ان میں سے کوئی چیزکھا لے بغیر اس کے وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘۔ چونکہ مقاصد ِ شریعت تاقیامت انسانوں کے فائدے کے لیے ہیں، لہٰذا مرا ہوا جانور، خون، سُور کا گوشت، غیراللہ کے لیے مذبوحہ سمیت اضطرار کی صورت میں شراب بھی غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ  کے تحت حلال ہو جاتی ہے۔

اطلاق اصطلاحات و مقاصد شریعت

سورئہ مائدہ کی ان آیتوں میں بیان کردہ حُرمت شراب مستوجب سزا حد میں داخل ہے اور یہ حکمِ شرعی ناسخ ہے پچھلی تین آیاتِ الٰہی کا جو مختلف مراحل میں نازل ہوئیں۔ علمائے کرام کے نزدیک بعد میں نازل ہونے والی آیات اور اُن کے احکامات کو منسوخ کرتی ہیں۔ مثلاً پہلے مرحلے میں نازل ہونے والی سورئہ بقرہ کی آیت۲۱۹ کے حکم کے لحاظ سے مقاصد شرع کے استثنا کے ساتھ منسوخ ہوچکی ہے:

 يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ  لِلنَّاسِ۝۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ  مِنْ  نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۱۹) پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: اِن دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے منافع بھی ہیں ، مگر اِن کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔

اگرچہ یہ آیت عہد ِ نبویؐ میں شراب پی کر نماز پڑھنے سے متعلق ہے۔ سورئہ مائدہ کی آیت۹۰ کے اس حکم سے منسوخ ہوچکی ہے۔ علمائے فقہ کی رائے کے مطابق ’الحکم بالعموم‘ ہے، یعنی آیت میں سُکرٰی کا اطلاق عمومی طور پر ہرقسم کی سُکر یا نشہ پر ہوگا، صرف شراب کے لیے مخصوص نہ ہوگا۔ زیرعلاج لوگوں کے لیے مقاصد ِ شریعت کے تحت طبّی Insthesia کا نشہ جائز اور ضروری ہے۔ ایسے نشہ کے عالم میں پورے ہوش و حواس بحال ہونے تک نماز کے قریب نہ جانے کے حکم کا اطلاق غیرمنسوخ قرار پائے گا۔

منشیات اور ادارتی ابلاغ

نشہ آور اشیا کی تشہیر بھی مقاصد شریعت کے سد الذریعہ کے تحت منع ہے کیونکہ: منشیات کی تشہیر اور منکرات کی اشاعت و ابلاغ سے بُرائی کو فروغ حاصل ہوتاہے اورنسل انسانی اخلاقی بگاڑ اور فساد کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتی ہے۔ شریعت محمدیؐ اور پاکستان کے مروجّہ قانون و دستور میں منشیات کا استعمال ممنوع ہے۔ اس کے باوجود پچھلے دو عشروں کے دوران تعلیمی اداروں اور معاشرتی سطح پر نوجوان نسل، علم، صحت اور اخلاق سے محروم ہوتی جارہی ہے مگر اس لعنت کے پس پردہ بڑے مجرم، قوانین و ضوابط کی گرفت سے آزاد ہیںاور ریاستی ادارے، نشہ آور اشیا کی سپلائی لائن منقطع کرنے اور ’حشیشن مافیا‘کو جکڑ لینے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے قوم نئی نسلوں کے مخدوش مستقبل  کے بارے میں سخت تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ یہ معاشرتی ناسُور مملکت خدادادِ پاکستان کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جس کی رُوسیاہی نشہ کے سبب بڑھتی جارہی ہے۔ نیز کوتاہی کے مرتکب مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اندر قوتِ نافذہ کے حامل نمایندوں، منصفوں اور انتظامی افسران کی سُست روی پر عوام سخت نالاں ہیں۔

اس ضمن میں والدین، رضاکار، اساتذہ اور محراب و مسجد کے کردار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے ائمہ اورخطبا، حفاظت ِ دین ، حفاظت ِ عقل و دانش، حفاظت ِ نسل و عزّت اور جان و مال کے پانچ بنیادی مقاصد ِ شریعت کو عوام الناس کے ذہنوں میں نہیں بٹھا سکتے اور خطباتِ جمعہ میں مقاصد ِ خمسہ کی تفہیم و تشریح نہیں کرسکتے؟ ہمارے ذرائع ابلاغ لایعنی گفتگو پر وقت ضائع کرنےکے بجائے اپنے ایڈیٹروں اور رپورٹروں کا ارتکاز توجہ اِن اہم تربیتی و معاشرتی اُمور کی طرف نہیں کر سکتے جس کے وہ شرعاً اور قانوناً پابند ہیں؟

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) اپنے اداراتی ضوابط میں ترمیم و اضافہ کرکے تمام چینلوں کو منشیات کے خلاف معاشرتی اقدار کا پابند بناسکتی ہے۔ ریاستی اداروں میں اہم ادارہ فوج کا ہے جو جنگ اور دفاعی اُمور کا ذمہ دار ہے۔ عصرحاضر میں جنگ و جدال پیچیدہ صورت اختیار کرچکی ہے۔ فورتھ جنریشن وار سمیت دشمن کے مختلف النوع چالوں کے مقابلے میں اپنا اورملک و قوم اور نظریہ کا دفاع غیرمعمولی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ قوم کا نظریاتی دفاع، قرآن و سنت اور شریعت و مقاصد ِ شریعت کا دفاع ہے۔ منشیات کی حُرمت قرآنی حکم ہے۔ مختلف وسائل و ذرائع سے منشیات کا تدارک ضروری ہے۔

جسمانی فعال صحت کے ساتھ ساتھ ہمیں قوم کی ذہنی صحت کا بھی دفاع کرنا ہوگا جو مقاصد ِ شریعت کے پہلو بہ پہلو عقل و دانش کا بھی تقاضا ہے۔ اجتماعی طور پر یہ اُسی طرح فریضہ ہے جس طرح باجماعت نماز اور نظریۂ جہاد کے بلند مرتبہ کی خاطر جان و مال اور اولاد کی قربانی۔ قرآن کریم نے اس ایثار اورحیات و ممات کو اللہ کی خاطر جینے اور اللہ ربّ العالمین کی خاطر مرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ممانعت نشہ دینِ اسلام کا اہم مرکزی نقطہ ہے اور کوہان کی اُونچی چوٹی یعنی ذرْوَۃ السَنَام جہاد کا طرئہ امتیاز بھی۔

دورِ غلامی میں آنکھیں کھولنے والے علّامہ محمد اقبالؒ نے اپنی ذات کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:

اے مرے فقر غیور! فیصلہ تیرا ہے کیا
خِلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک!

پھر انھوں نے فقر غیور کی تشریح دوسرے شعر میں یوں فرمائی:  ؎

لفظ ’اسلام‘ سے یورپ کو اگر کدّہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے ’فقرِ غیور!‘

ایسٹ انڈیا کمپنی [تاسیس: ۳۱دسمبر ۱۶۰۰ء] اور برطانوی افواج برصغیر جنوبی ایشیا پر عملاً جب قابض ہوگئیں، تو شاہ ولی اللہؒ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز (۱۷۴۶ء-۱۸۲۳ء) نے ۱۸۰۳ء میں برصغیر کے خطّہ کا ’دارالاسلام‘ نہ رہنے اور فقہی لحاظ سے ’دارالحرب‘ ہونے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے انگریزی سامراج کے خلاف جہاد شروع کرنے کا فتویٰ دیا۔اسی کے تحت سیّداحمد بریلوی اور شاہ اسماعیل نے تحریک ِ جہاد شروع کی، جو مختلف صورتوں میں پورے جنوبی ایشیا میں پھیلتی ہوئی عظیم تحریک ِ مزاحمت میں ڈھل گئی۔ برطانوی راج نے شاطرانہ منصوبہ بندی کی تاکہ فقر غیور دکھانے والوں کو لہولہان اور خلعت ِ انگریز نہ پہننے والوں کا پیرہن چاک چاک کر دیا جائے اور بزورِ قوت اُن پر اپنا نظریہ اور اپنی تہذیب مسلط کر دی جائے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی ۸۰۰ سو سالہ حکومت افغانستان سمیت پورے خطّہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں سرحد، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی جغرافیائی آزادی کو انگریز کی عمل داری یا اس کے بغیر اسلامی نظریے کی بنیاد پر تقدیر مبرہم قرار دیا۔ یوں انگریزوں کے خلاف ایک طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں خطۂ پاکستان نے ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل کرلی اور انگریزی سلطنت برصغیر چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔ تاہم، افغانستان نے اپنی آزادی کا اعلان، انگریزوں، کمیونسٹ روس، نیٹو اتحادیوںاور امریکی افواج کی شکست اور انخلا کے موقع پر، پورے سوسالہ صبرآزما جہاد کے بعد ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو کیا، جب طالبان نے کابل کو فتح کرلیا۔ پوری دنیا اس فتح کی شاہد ہے۔ طویل مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد انخلا کے لیے ۳۱؍اگست ۲۰۲۱ءکی ڈیڈلائن پر معاہدہ ہوا اور افغانیوں کی استقامت کے سبب ۲۰سالہ جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو اتحادی فوجوں نے مقررہ تاریخ پر انخلا مکمل کرلیا اور پلٹ گئے: وَرَدَّ اللہُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِہِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا۝۰ۭ (احزاب۳۳:۲۵) ’’اللہ نے جارح کفّار کا منہ پھیر دیا اور وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی نامراد پلٹ گئے‘‘۔

برطانوی افواج پر پہلا تباہ کن حملہ

۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کچل دینے کے بعد انگریزوں نے اپنی توسیع پسندانہ نگاہ افغانستان پر مرکوز رکھی، مگر اس سے پہلے ۱۸۴۲ء میں پہلی جنگ ِ افغانستان کے دوران فقر غیور کے حامل افغانیوں کے ہاتھوں، انگریز استعمار کو اور ان کی طرف سے حملہ آور ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج کو ذلّت آمیز شکست ہوئی تھی، جسے وہ تباہ کن شکست یا Disaster کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ولیم جارج الفن سٹن (۱۷۸۲ء- ۱۸۴۲ء) کی کمان میں برطانوی افواج کی مڈبھیڑ کابل اور جلال آباد کے درمیان مجاہد وزیر اکبر خان کی قیادت میں افغان قبائلی مجاہدین کے ساتھ ہوئی اور افغانیوں نے برطانوی افواج اور سویلین کے مجموعی طور پر ۳۰ ہزار افراد کا قلع قمع کر دیا، سوائے ایک انگریز کے جو پیشہ کے اعتبار سے سرجن ڈاکٹر تھا، کوئی بھی زندہ نہ بچا۔ زندہ چھوڑے جانے والے فوجی ڈاکٹر کا نام ولیم برائڈن (۱۸۱۱ء-۱۸۷۳ء) تھا، جو زخموں سے چُور مگر زندہ حالت میں راولپنڈی پہنچا۔ اُن سے پوچھا گیا: باقی برطانوی فوجی کہاں ہیں؟‘‘ تو اس کا مختصر جواب یہ تھا: No Army, Me the only Army  (یعنی میرے سوا کوئی فوجی نہیں بچا)۔طبعی موت کے بعد یہ ڈاکٹر راولپنڈی چھائونی کے ایک گرجا کے احاطے میں دفن ہے۔

عام تاثر یہی ہے کہ جنگیں مادی قوت اور توانائی کے بل بوتے پر جیتی جاتی ہیں۔ اس مادی توانائی پر فخر کرکے معروف فرانسیسی جرنیل نپولین (۱۷۶۹ء-۱۸۲۱ء) نے کہا تھا: Who has steel, has everything ’جس کے پاس فولاد ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے‘، تو علامہ اقبالؒ نے کہا: I venture to modify it by saying, "Who is steel, has every thing     میں ترمیم کی جرأت کرکے کہتا ہوں’’جو خود مثلِ فولاد ہے، سب کچھ اسی کا ہے‘‘۔

اقبالؒ نے بجاطور پر مغربی جرنیل کی مادی سوچ کی تردید کی اور اُن پر واضح کیا کہ جنگیں، صرف مادی توانائی کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ نظریاتی توانائی کی بنیاد پر بھی لڑی اور جیتی جاسکتی ہیں۔ سرمایہ و ٹکنالوجی ایک مادی قوت ہے مگر نظریہ اور آئیڈیالوجی ایک ایمانی قوت ہے، جو انسان کو مثلِ فولاد مضبوط بناتا ہے اور کمزوری کو قوت میں بدل دیتا ہے  ؎

لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تُو
دارُو ہے ضعیفوں کا ’لا غَالِبَ اِلَّا ھُو‘

افغانستان کی تاریخ عالمی قوتوں کی بدعہدیوں سے بھری پڑی ہے مگر افغانیوں نے تین بڑی سامراجی اور سپر طاقتوں سے اُن کی بدعہدی کا بدلہ چکا دیا جو خطے میں اُن کی مداخلت اور جارحیت کا شرمناک انجام ہے۔

تحریکِ جہاد اور غدارانِ ملّت

کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی ہو یا افغانستان اور ہندستان کی آزادی کی تحریک، یہ تاریخ کی اَلم ناک داستان ہے۔ عظیم مجاہد کشمیر سیّد علی گیلانی (م: یکم ستمبر۲۰۲۱ء) اپنی کتاب اقبال روح دین کا شناسا میں رقم طراز ہیں: ’’غداروں کی غداری کے نتیجے میں یہ خطّہ ابھی تک سامراجیت کے چنگل سے نہیں نکلا اور ابھی تک خاک و خون میں غلطاں ہے‘‘ (ص۵۲)۔ بنگال میں میر جعفر [م:۱۷۶۵ء] نے غداری کرکے نواب سراج الدولہ [م:۱۷۵۷ء] کو شکست سے دوچار کر دیا جس سے انگریزوں کا اثر و رسوخ ہندستان میں اور جنوبی و وسطی ایشیا تک بڑھ گیا۔ دوسری طرف دکن کے میرصادق [م: ۱۷۹۹ء] نے سلطان ٹیپو (۱۷۵۱ء-۱۷۹۹ء) کے ساتھ غداری کی۔ ۱۷۹۹ء میں اُن کی شہادت کے بعد انگریزی عملداری میں آخری رکاوٹ بھی دُور ہوگئی اور ہندستان دارالاسلام سے دارالحرب بن گیا جہاں شریعت اسلامی کے قوانین معدوم ہوگئے۔ ہندستان پر غلبہ پانے کے بعد انگریزوں نے افغانستان پر جارحیت کی۔ کابل، جلال آباد کے درمیان کندمک وہ مقام تھا، جہاں فقر غیور کے حاملین افغانوں نے انگریزی افواج کی پوری بریگیڈ کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ یہ ۱۳جنوری ۱۸۴۲ء تھی کہ ۱۶ہزار۴سو۹۹ کی تعداد میں باقاعدہ فوج کو ملیامیٹ کرکے صرف ایک سرجن کو زندہ چھوڑ دیا۔

ہندستان میں انگریزوں کو مدد کے لیے بے شمار آستین کے سانپ مل گئے۔ جاگیرداروں، زرپرست نوابوں اور غداروں کی ایک پوری فوج مل گئی۔ ان ننگ وطن اشرافیہ کے سہارے انگریزوں نے ہندستان میں اپنی حکومت مستحکم کرلی۔ یہ طبقہ آج تک اپنے اثرات دکھانے کے علاوہ معاشرے کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے۔ اس لیے اقبالؒ نے کہا تھا:

ملّتے را ہر کجا غارت گرے است
اصل اُو صادقے یا جعفرے است

الاماں از روحِ جعفر الاماں
الاماں از جعفران ایں زماں

[جہاں کہیں کوئی ملّت تباہ ہوتی ہے، اس کی تہ میں کوئی صادق ہوتا ہے یا کوئی جعفر۔ اللہ تعالیٰ روحِ جعفر سے اپنی پناہ میں رکھے، اللہ تعالیٰ اس دور کے جعفروں سے بچائے]۔

اِن غداروں کی قوت کے سہارے انگریز، مخلص علماء کی مزاحمتی قوت کو توڑنے کے لیے سرگرم تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کو غدر (بغاوت) قرار دے کر لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ اور ہزاروں علماء کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ انگریزی راج کو اپنے خلاف ہرکوشش اور سازش کے تانے بانے علماء پر آکر ملتے تھے کیونکہ اُن کا دین اُن کو کافر اغیار کی غلامی اور خلعت انگریز پہننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ شریعت ِ محمدیؐ اُن کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرکے خدائے واحد کی بندگی سے جوڑتی تھی۔ شرع اور فقر کا یہ کردار، اقبال نے اس شعر میں واضح کر دیا تھا  ؎

کَس نہ گردد درجہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرع مبیں این است و بس

شرعِ مبین کا مرکزی نکتہ ہی یہ ہے کہ اس جہاں میں انسان دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے، مگر برصغیر کے دارالحرب اور دارالکفر میں انگریزوں کے غلبے کے بعد ہندستان کے مسلمان انگریز کے دست ِ نگر اور محتاج بن کر رہ گئے۔ تاہم، افغانیوں نے انگریزوں کو شکست فاش دے کر پرچم اسلام اور فقر غیور کی لاج رکھی۔ انگریزوں نے ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی ہندوئوں سے سازباز کرکے بنیادرکھی۔ اس کے پس منظر میں ہندو دھرم اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کارفرما تھی۔ مگر افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اس نئی چنگیزی فکر کے ساتھ تاج برطانیہ نے وائسرائے ہند پر دبائو ڈالا کہ افغانوں سے بدلہ لینے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کو کابل پر چڑھائی کا حکم دیا جائے۔ اس دوران ایک افغانی شیرعلی آفریدی [پھانسی: ۱۱مارچ ۱۸۷۲ء] کے ہاتھوں ۸فروری ۱۸۷۲ء کو جزائر انڈیمان میں وائسرائے لارڈ رچرڈ بورک میو قتل ہوچکا تھا۔

ھر فرعونے را موسٰی

طیش میں آکر برطانوی وزیراعظم نے نئے وائسرائے کا تقرر کرکے ۱۸۷۷ء میں  کابل پر حملہ کرنے کے احکامات دیئے۔ یہ کیا حُسنِ اتفاق تھا کہ عین اُسی دورِ غلامی میں محمدعلی جناح کی ۱۸۷۶ء میں ولادت ہوئی اور ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں شیخ نورمحمد کے گھر میں ایک نابغہ روزگار بچے اقبال کی ولادت ہوئی۔ دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی افواج افغانستان کی طرف کوچ کر رہے تھے۔ انگریزوں نے برصغیر کی تحریک ِ مزاحمت کو کچلنے کے لیے دولاکھ۳۳ہزار کرائے کے سپاہی بھرتی کیے تھے۔

انگریز ۲۶مئی ۱۸۷۹ء کو امیر افغانستان سے معاہدہ اور سمجھوتا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ امیردوست محمد خان کے ساتھ یہ ایک غیرمساویانہ معاہدہ تھا، جس کے تحت برطانوی افواج کو کابل میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔

خطے میں عالمی بدعہد طاقتوں کی سازباز

افغانستان کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ سرزمین دُنیا کی مقتدر طاقتوں کی بدعہدیوں سے بھری پڑی ہے۔ ۱۸؍اگست ۱۹۱۹ء کو امن کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا اور ۱۹۴۲ء میں بدعہد تاجِ برطانیہ نےاس معاہدے میں ترمیم کرکے کمیونسٹ روس کو اپنا حلیف بنالیا جس کی بدولت ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کی راہ ہموار ہوگئی۔ سردجنگ کے خاتمے پر روس اور امریکا نےآپس میں معاہدہ کیا۔ نائن الیون کے پس منظر میں امریکا اتحادی اور نیٹو فورسز کی افواج لے کر۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ آور ہوا اور طالبان کی پانچ سالہ حکومت (۱۹۹۲ء- ۲۰۰۱ء) کا خاتمہ کیا اور اسلحہ وجدیدعسکری قوت کے زور پر افغانستان کو بُری طرح روند ڈالا۔ اس بدعہدی کے لیے اقوام متحدہ نے بھرپور سرپرستی کی۔ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت فقرِغیور کے حامل افغانیوں کے نصیب میں لکھ دی: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ’’اے اہلِ بصیرت ا س سے سبق حاصل کرو‘‘۔

افغانیوں کی غیرتِ دین اور ذوقِ یقین پر شاعر مشرق کو اتنا اعتماد تھا کہ وہ بے تیغ بھی لڑتے ہوئے طویل غلامی کی زنجیریں کاٹ کر رکھ دیں گے:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فسادِ او فساد آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا

[ایشیا کی مثال آب و گل کے ایک پیکر کی سی ہے۔ اس ڈھانچے کے اندر ملّت افغان کی حیثیت دل کی سی ہے اور افغانستان کے اندرفساد دراصل ایشیا کا فساد ہے۔ افغانوں کی آزادی سے ایشیا آزاد ہوگا ]۔

ماضی کایہ الہامی شعر آج ایشیا ہی نہیں بلکہ دُنیا کے لیے پالیسی بیان کا رُوپ دھار چکا ہے جو کوئی بھی دُنیا میں امن کے طالب ہیں، البتہ جو امن کے طالب نہیں، افغان مجاہدین کے ہاتھوں ’کشاد آسیا‘ خنجر بن کر ان کے دل میں اُتر رہا ہے۔

بلاشبہہ عظیم سلطنتوں کے پیچھے عظیم دانش وروں کی فکر کارفرما ہوتی ہے۔ علّامہ ڈاکٹر محمد اقبال، جمال الدین افغانی [۱۸۳۸ء-۱۸۹۷ء]کی پان اسلام ازم کی فکر سے متاثر تھے۔ دونوں نابغہ روزگار شخصیات کی فکر کا نچوڑ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محور قیادت و سیادت کے گرد گھومتا ہے، یعنی اقامت دین و اجراء شریعت    ؎

از رسالتؐ در جہاں تکوینِ ما
از رسالتؐ دینِ ما آئینِ ما

[رسالت ہی سے اس دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے، رسالت سے ہی ہمارا دین اور ہمارا آئین (شریعت) ہے۔]

اقبالؒ، سیّد جمال الدین افغانیؒ کو دورِ حاضر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کا مؤسس قرار دیتے ہیں۔ ۱۸۷۰ء میں جمال الدین افغانیؒ کو استنبول کے دارالفنون میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ خطاب کے دوران اُن کا وژن یہ تھا: ’’جسم کی زندگی روح کے بغیر ممکن نہیں۔ معاشرے کی روح نبوت ہے یا فلسفہ، مگر ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ نبوت، اللہ کی رحمت سے ملتی ہے، محنت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوتی، جب کہ فلسفہ غوروفکر اور بحث و مباحثے کا ماحصل ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے نبی معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور فلسفی غلطی کرتا ہے اور کرتا رہتا ہے (مشاہیر الشرق، جلد دوم،ص ۱۵۴)۔

اپنے مشاہیر کے افکار کی روشنی میں افغانستان کی سرزمین کو دین متین اور شرع مبین کا مرکز بنانا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے چھڑانا امارت اسلامی افغانستان کی اوّلین ذمہ داری بنتی ہے۔ شاید یہ غیرمعمولی فتوحات ربِ کائنات نے اسی لیے کرشماتی طورپر اُن کو عطا کی ہیں تاکہ وقت کے مستکبر فرعونوں کا سر، اِن درویش اصحابِ فقر مستضعفین کے آگے جھک جائے اور اُن کی رُعونت ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے اور اُن کی مادی قوت، ایمانی نظریے سے مات ہوجائے:

قبائل ہوں ملّت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

سردار ابراہیم خان اپنی کتاب کشمیر ساگا میں لکھتے ہیں کہ ’’غلبۂ اسلام کے لیے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالیؒ [۱۷۲۲ء-۱۷۷۲ء]نے نہ صرف ہندستان بلکہ ۱۷۵۰ء میں ریاست کشمیر میں بھی اپنی سلطنت قائم کی۔ ریاست کشمیر ۷۰سال تک افغانیوں کے زیرنگیں رہی۔ یہاں تک کہ برطانوی استعمار نے سازش کے ذریعے ۱۸۴۶ء میں کشمیر راجا گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا، جب کہ جموں کی ریاست بارھویں صدی سے پندرھویں صدی تک غوری خاندان کے ماتحت رہی۔ پھر مغلوں اور ۱۸۲۰ء میں جموں کی ریاست گلاب سنگھ کے حوالے کر دی گئی‘‘ (کشمیرساگا، ص ۷)۔ یوں عرصۂ دراز تک جنوبی و وسطی ایشیا کا یہ خطّہ افغانوں کے زیرتسلط رہا اور خطّے پر اسلام کا پرچم لہرایا اور دارالاسلام بنا رہا۔

اقبالؒ نے افغانستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر یہ نعرئہ مستانہ بلند کیا تھا  ؎

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اُن کا یہ اعلان الحکم للّٰہ اور والملک للّٰہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے اور اس سچ کی شہادت ہماری ذمہ داری ہے۔ اقبال نے جب اپنی کتاب پیامِ مشرق کا انتساب غازی امان اللہ خان، امیرکابل کے نام کے ساتھ معنون کیا، تو ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے سوال اُٹھایا جس کے جواب میں علّامہ نے فرمایا: ’’میں کسی آزاد مسلمان کے نام یہ انتساب کرنا چاہتا تھا۔ اس ضمن میں امیرامان اللہ خان سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا نہ تھا‘‘۔

۱۹۲۹ء میں امیرامان اللہ خان کے خلاف بغاوت کرکے اُن سے امارت چھین لی گئی اور انگریزوں نے افغانستان کو خانہ جنگی کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔ امان اللہ خان کے بھائی جو اُن دنوں فرانس میں سفارت کار تھے۔ پیرس سے سیدھا لاہور آئے اور علّامہ اقبال ؒ سے تفصیلی ملاقات کی اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا عزم کیا گیا۔ پشتون قبائل سے رابطہ کرنے کے لیے نادرشاہ (۱۸۸۳ء-۱۹۳۳ء) شمالی وزیرستان کے علی خیل روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت اقبال نے نادرشاہ کو اپنی جیب سے دس ہزار روپے کی خطیر رقم پیش کی۔ انھوں نے فقروفاقہ مستی میں یہ رقم قبول نہ کی اور وزیر و محسود قبائل کی مدد سے کابل پر حملہ کرنے کے لیے لشکر ترتیب دیا۔ اقبالؒ نے مجاہدین کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کیا اور برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں کے عطیات جمع کرکے نادرشاہ کی خدمت میں ارسال کر دیئے۔ شبقدر سے حاجی صاحب ترنگزئی، مُلا سنڈالئے اور کابل کے مُلا شوربازار نے جہاد میں بھرپور حصہ لیا، اور کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بعد میں نادرشاہ نے اقبالؒ کو کابل کے سرکاری دورے پر بلایا تو سیّد سلیمان ندوی کے ہمراہ اقبال نے افغانستان میں قیام کیا اور نسل نو کے لیے تعلیمی نظام اور نصاب ترتیب دیا۔ اس کے ردعمل میں ۱۹۳۳ء میں نادرشاہ کو قتل کیا گیا اور تحریک ریشمی رومال کا راز فاش ہونے پر مولانا محمود حسنؒ، مولاناعزیرگل ؒاور حسین احمد مدنیؒ نے جلاوطنی کی سزا پائی۔ خلافت کی تحریک ناکام ہونے پر ملوکیت ہرطرف چھاگئی تھی اور مجاہدین کو سخت نقصان اُٹھانا پڑا   ؎

تاخلافت کی بِنا  دُنیا میں  ہو پھر  اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

۱۹۳۶ء میں ’مسافر سیاحت چند روزہ افغانستان‘ کے عنوان سے علّامہ اقبالؒ کا مضمون شائع ہوا تھا۔ اس اہم دستاویز کی بنیاد پر افغانستان کے لیے فقرِ غیور کا دستوری خاکہ مرتب کیا جاسکتاہے۔

اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا وژن

خطے کے جسور و غیور عوام کے لیے بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا وژن بھی وہی تھا، جو اقبالؒ کا تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے قائدؒ نے ۱۱۴ مرتبہ ، اسلامی تعلیمات کو قوم کے سامنے پیش کیا، اور پاکستان بننے کے معاً بعد ۱۴ مرتبہ اسلام کے وژن کو پیش کیا جس کے تا نے بانے فقرغیور سے ملتے ہیں، جو اسلام کا شعار ہے۔

علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد، ۲۰مارچ ۱۹۴۰ء کو قائدؒ نے اقبالؒ کو یوں یاد کیا:

 His ideal therefore is life according to the teachings of Islam with a motto" Dare and Live".

اقبالؒ کا آئیڈیل اسلام اور اسلامی تعلیمات کے مطابق جینا تھا اور اسلام کا شعار بھی یہی ہے: ’’جیو تو غیرتِ مستانہ جیو‘‘ ۔

 اقبالؒ اس جذبے کو عشق سے تعبیر کرتا ہے، جو ہرقسم کا خطرہ مول لیتا ہے

بے خطر کود پڑاآتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

فتح کابل کے موقع پر بانیانِ پاکستان کا یہ پیغام ’اُمت مسلمہ کی عظیم فتح‘ کی نوید ہے،  جس پر عمل کرکے افغانیوں نے خطّہ اور مستضعفین جہاں کے لیے فقر غیور کے اس پرچارک کے پیغام کو سمجھا،جس نے لاہورسے تابخاک سمرقند و بخارا اہلِ ایمان اور قومِ رسولِ ہاشمیؐ کو ولولۂ تازہ سے یوں ہمکنار کیا:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ماہمہ افسونیٔ تہذیبِ غرب
کشتۂ افرنگیاں بے حرب و ضرب

اقبالؒ نے درست کہا تھا: ’’ہم سب مغربی تہذیب کے فُسوں میں مبتلا ہوچکے ہیں اور بغیر کسی مزاحمت و جنگ و جدال کےفرنگیوں کے ہاتھوں کشتۂ اَجل بن رہے ہیں‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بالادستی کے اس عہد میں ابلاغی جنگ اوراصطلاحات کے سہارے مغرب کا فُسوں، جادو اوراستکبار ، اپنی آخری حدوں کوچھورہا ہے۔ تحریف ِ لسانی اور اصطلاحات سازی بالادست تہذیب کے ہاتھ میں موجود دو بڑے خطرناک ہتھیار ہیں جواعصابی جنگ جیتنے میں اُس کے مددگار ہیں۔ اس میں عصرحاضر کی نئی اصطلاح ’کورونا‘ بھی شامل ہے۔

کورونا یا کووڈ-۱۹ کا فُسوں جاننےکے لیے ہمیں ’جدیدیت‘ (Modernism) اور ’مابعد جدیدیت‘ (Post Modernism)کے علمی پس منظر کا ادراک کرنا ہوگا کیونکہ مغرب نے گذشتہ لگ بھگ چار صدیوں سے ان اصطلاحات کے سہارے نوعِ انسانی کو خدا پرستی اور’عبدیت‘ کے حدود سے تجاوز کرکے انسان پرستی اور نفس پرستی اور طاغوت پرستی کے دھانے پرلاکھڑا کیا ہے، جو آسمانی تعلیمات اورصحف ِ سماویہ سے ہٹ کر انحراف کے ذریعے ایک نیا زمینی مذہب تشکیل دینے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت کو اقبالؒ نے اپنے خطبات میں یوں واضح کیا ہے: ’’فطرت پر وسعت اور غلبے کی طاقت نے انسان کوایک نیا عقیدہ اور مذہب دیا ہے، لہٰذا ہمیں بھی اپنی اسلامی فکر کی تشکیل نَوکرنا ہوگی جس میں عیسائیت ناکام ہوچکی ہے‘‘۔

اقبالؒ کے نزدیک آسمانی مذہب عیسائیت مراد نہیں بلک وہ تحریف شدہ عیسائیت ہے جسے پادری چلا رہے تھے۔ جب دُنیا پرستی کے جلو میں عیسائیت پر الحادی قوتوں کی یلغار ہوئی تو ان پادریوں کو شکست ہوئی اور نمرودِ وقت پھر غالب آگیا۔

طاقت کی زبان اور مکالمۂ نمرود

جب فرعون کو قارون کی دولت اور ہامان کے جنگی ہتھیاروں کی عسکری قوت حاصل ہوتی ہے تو فرعونیت جنم لیتی ہے جس میں نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ انسا نیت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اُن کی خودی اورخودداری مٹا دی جاتی ہے اور انسانوں کو بے بس کرکے انھیں فرعون اورنمرود کی غلامی اختیارکرنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔اس کش مکش موت و حیات اور فتنۂ حیات و ممات میں جینے کا ایک ہی راستہ اُن کے پاس رہ جاتا ہےکہ وہ جابر بندوں کی جھوٹی خدائی کو تسلیم کریں اور ان کے  دَر پر سرجھکائیں ورنہ جان ، مال، اولاد اور انسانی شرف سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ طاغوتی طاقتوں کا یہ عصری بیانیہ بھی دراصل ایک مشرکانہ بیانیہ ہے جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے بھرے دربار میں چیلنج کیا تھا۔اُس کا مکالمہ قرآن نے یوں محفوظ کیا ہے: ’’کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیم ؑ سےجھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا ربّ کون ہے، اوراس بناپرکہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دےرکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا ربّ وہ ہے جس کے  اختیار میں زندگی اورموت ہے، تو اُس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِ حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔ (البقرہ ۲:۲۵۸)

انسان کے اختیاری معاملات، یعنی تشریعی اُمور  (Moral laws)میں انسان کو مختار بنایا گیا ہے مگر تکوینی اُمور (Physical laws)یا God Action کے بارے میں حضرت ابراہیم ؑ کے توحیدی بیانیے نے نمرود کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ باوجود پرلے درجے کے تکبر کے وہ یہ مانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی ایک خدا کے زیرفرمان ہیں مگر اختیاری اُمورمیں حضرت ابراہیم ؑ کی طرح ایمان لانے کا مطلب اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہوجانے کے تھے جس کے لیے اُس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا (تفہیم القرآن، جلداوّل،ص ۱۹۹-۲۰۰)۔

اصطلاحات کی جنگ کا ارتقا

طاغوتی قوتوں کی آسمانی عقیدہ و اعتقادکے خلاف جنگ کا آغاز سولھویں صدی میں نکولومیکیاولی (۱۴۶۹ء-۱۵۲۷ء)کی ۱۵۱۳ء میں بدنامِ زمانہ تصنیف ’شہزادہ‘ (The Prince) سے ہوا کیونکہ آسمانی اقدارکے مقابلے میں ’شہزادہ‘ مبہم ڈرامائی جنگ کا مرکزی کردار تھا۔ میکیاولی اس مذموم منصوبہ بندی کا خالق تھا جس کو اقبالؒ نے ’مرسلے از شیطان‘ کے لقب سے یاد کیا، یعنی  ’شیطان کا بھیجا ہوا پیغمبر‘۔ میکیاولی نے جھوٹ، تحریف، دھوکادہی اوربددیانتی کے سہارےہیومنزم (Humanism) یا ’اکرام انسانیت‘ کے فلسفہ کو پروان چڑھایا تاکہ انسان تکبر اور گھمنڈ میں مبتلاہوکر خالق کائنات کےخلاف سینہ سپرہوجائے۔ یہ نمرود اور فرعون کی طرح سیاسی، تمدنی اورمعاشرتی اُمورمیں ایک خدا کی خدائی سلب کرنے کی شیطانی کوشش تھی جو ہیومنزم کی اصطلاح میں لپٹے ہوئے انسان کی خدائی کا جھوٹا دعویٰ تھا۔ اِس نظریے کو مارٹن لُوتھر (۱۵۶۴ء) نے مذہب کی شکل دی جو دنیاپرستی پر مبنی زمینی مذہب قرار پایا۔ اٹھارھویں صدی میں صنعتی انقلاب کی صورت میں بتدریج اس ہیومنزم کوعملی شکل دی گئی تو عقلِ انسانی کو ’وحی‘ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا گیا۔ اس تحریف کے نتیجے میں افادیت پرستی (Utilitarianism)  کو شریعت ِ الٰہی کا متبادل قراردیا گیا تاکہ وسائل دُنیا عین مقصد ِ زندگی بن جائیں اور خود غرض عقل اس کے پیچھے قوت ِمحرکہ۔ ان اصولوں اور اس کے عملی ڈھانچے کو جدیدیت یا Modernism کا نام دیا گیا جو دراصل ’انسان پرستی‘ کا مذہب تھا۔

اب، جب کہ ’مابعد جدیدیت‘ کے فلسفے کے نفاذ کا وقت آپہنچاتو ہیومنزم کی اصطلاح کو ’مابعدانسانیت‘ (Post Humanism)یا کا نام دیا گیا۔ ہیومنزم کے عہد میں خدا بیزار تہذیب نے خدا کےمرنے کا عقیدہ (نعوذ باللہ) تراشا تھا، جب کہ ’مابعد ہیومنزم‘ میں نیا فلسفہ Death of Man یااللہ کی شاہکار تخلیق ’انسان‘ کا خاتمہ ہے، جو کہ انسانیت کُش یا انسان کُش فلسفہ ہے جس میں آدمی کا وجود، اس کی خودی اور اس کی خودداری سب معرضِ خطر میں ہیں۔

اقبال نے آیت ِ قرآنی وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ (بنی اسرائیل ۱۷:۷۰) ’’ہم نے آدم ؑ کی اولاد کو عزّت و اِکرام بخشا‘‘ کی تشریح میں یہ فرمایا تھا:

برتر از گردوں مقامِ آدم است
اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

(انسان کا مقام آسمان سےبھی بلند ہے اور احترامِ آدم ہی اصل تہذیب ہے)۔

اصطلاحات کی تحریف کے ذریعے آدم و اولادِ آدم کی تذلیل ایک ناقابلِ برداشت جرم ہے اور بنی آدم کی ہلاکت خیزی بہت بڑا شیطانی فعل ہے۔ اصطلاحات جدیدہ کے ارتقا پر وسیع پیمانے پر لٹریچر دستیاب ہے مگر دھوکا دہی کے طورپر یہ ادبی ذخیرہ تحریفات اورانحرافات کا مجموعہ ہے جس میں ظاہری اورباطنی طور پر صحف ِسماویہ کو تختۂ مشق بنایا گیا ہے اور اس فکرکو ’روشن خیالی‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

روشن خیالی اور تحریفاتِ انسانی

مغرب نے نشاتِ ثانیہ کے بعد کے اَدوار کو’روشن خیالی‘(Enlightenment) کی اصطلاح سے نوازا اور مذہب کو مسترد کرکے فکروعمل کا نیا ڈھانچا ترتیب دیا جس میں انسان کی اجتماعی زندگی میں خدا،اس کےرسولوںؑ اورآخرت کی زندگی اور آسمانی ہدایات کی کوئی گنجایش نہیں تھی،مگر انسان کو آزادی دینے کامُدعا سے جب یہ نظریہ ٹکرایا تو تحریف کے طور پر مذہب کوانسان کا ذاتی عمل قرار دیاگیا۔در اصل یہ خدا سے انکار کا نظریہ تھا اور اس کی بنیاد دُنیا پرستی تھی۔ اس لیے اس جعل سازی کو چھپانے کے لیے کئی اصطلاحات و تحریفات کا ارتکاب کیا گیا۔چونکہ جدیدیت کے اس عہد میں صحف ِ آسمانی پر ایمان کو منفی رجحان قراردیاگیا۔ اس لیے ۱۸۵۰ء میں اگست کانٹ نے ’مثبیت‘ یا Positivism کی نئی اصطلاح  وضع کی۔ اس انحراف کے تسلسل میں نئے کلچر اور نئے اخلاقیات تصنیف کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ۱۸۵۳ء میں بندے اورخدا کے درمیان ’عبدیت کے رشتہ کو کمزور کرنے کے لیے پہلی بار ایک انجمن مذہب انسانیت کے نام سے اجتماعی کاوش کا آغاز کیا گیا۔ انجمن نے خدائی’عہد الست‘کے برخلاف سائنس اور فلسفے کے ارتقاء پر نیا عمرانی عہد باندھا۔

بتدریج اقدار متعارف کراتے ہوئے ۱۸۷۶ء میں فلکس ایڈلر (Felix Adlor) ’تحریکِ اخلاقی ثقافت‘ کے نام پر ایک اصطلاح وضع کرکے مذاہب ِ آسمانی کے فرسودہ ہونے کا نیابیانیہ سامنےلایا اور مذہب انسانی کی اخلاقی ثقافت کے ساتھ پیوند کاری کی تاکہ اس نئی ثقافت کے احیا سے انسان کا وحی پر مبنی تہذیب و ثقافت سے رشتہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوجائے۔ بغاوت اور انحراف پر مبنی ان اصطلاحات میں سوشلزم،کمیونزم، سیکولرزم اور کیپٹلزم پر مبنی نظریات دراصل Humanism یا’مذہب ِ انسانیت‘ کی توسیعی مہمات تھیں جو پےدرپے ناکامی سے دوچار ہوئیں۔   طاغوتی قوتیں  ردعمل کے طورپر شیطانی فلسفہ ’مابعد انسانیت‘ (Post Humanism) کی اصطلاح کا سہارا لے کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ میدانِ عمل میں کُود پڑیں، تاکہ انسانوں کی ہلاکت کا وہ نقشہ دکھا دیں جس کے سامنے جنگ ِ عظیم اوّل ودوم کے اثرات بھی ماند پڑجائیں۔ یہ ایک نیا نظام یا ورلڈ آرڈر کے طورپرحال ہی میں پورے ابہام کے ساتھ نافذالعمل ہوا تاکہ کوئی مجرموں کے ٹولے کی نشان دہی بھی نہ کرسکے اورتحریفات سے خلافِ انسانیت جرائم کی پردہ پوشی ممکن ہو۔ تہلیک یا ہلاکت اس نئے مذہب کا مقصد ِ عظیم گردانا گیا مگر پردہ نشینوں نے گلوبلائزیشن کی قوت اورابلاغی یلغارکو ایک نیا طبّی مرض یا متعدی وائرس کے طورپر دُنیا کے سامنے متعارف کروایا، تاکہ تحریف سے ایک بار پھر انسانوں کو دھوکا اورفریب کا ہدف بنایا جاسکے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا ۝۰ۭ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ۝۶۲ (یٰسٓ ۳۶:۶۲) شیطان نےتم میں سے گروہِ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟

پھر تنبیہ کے طورپر اوّلین و آخرین کو مخاطب کیا جو شیطان اورشیطانی قوتوں کو دوست بناتے ہیں:

اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَيْہِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝۳۱ۭ (یٰسٓ ۳۶:۳۱) کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ اُن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی اُن کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟

منحرفین کا جرم آیات کے معانی اور مقصد اُلٹا دیناہو توقرآن اس کو ’الحاد‘ کی اصطلاح سے یاد کرتا ہے، مثلاً اگر اوّلین کو آخرین یا قرون وقروناً کو ’کرونا‘ بنایا جائے اور خود خدا بن کر انسانوں کو ہلاکت کی نذر کیا جائے تو تحریف کے جرم کی نوعیت غیرمعمولی ہوجاتی ہے کیونکہ یہ اللہ اور رسولؐ سے مذاق اور دین کو کھیل بنانا ہے، اور مقصد انکارِ دین ہے۔

کیا کورونا انگریزی اصطلاح ہے؟

’مابعد انسانیت‘ کی مبہم اصطلاح اور مذہبی فکر اور صحف ِ آسمانی میں لادینی افکار داخل کرنے کے پس منظر میں ’کرونا‘ یا ’کووِڈ-۱۹‘ کی غیرواضح اورپُراسرر اصطلاح بھی لفظاً ومعناً تحریف ِ لسانی کی بنیادی کڑی نظر آتی ہے، جو ’ارھاب‘ (warfare) کے عربی لفظ میں تحریف کرکے terrorism (دہشت گردی) کے خاتمے کے نام پر خطرناک جنگ کی ناکامی کےمعاً بعد تلمود کی عبرانی زبان سے اخذکرکے سامنےلائی گئی۔ ان صحف ِ سماوی اورعہد نامہ قدیم وجدید کے اندر لفظی اورمعنوی تحریفات کی خودقرآن کریم شہادت پیش کرتا ہے۔ حال ہی میں اوکسفرڈانگلش ڈکشنری میں ’کورونا‘ کا اندراج بطور متعدی وبایا Pandemic  ہواہے۔ اس پیوند کاری میں ’epidemic‘ اور ’endamic‘ کی دو انگریزی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ لسانی طور پریہ دونوں اصطلاحات تیزی سے پھیلنے والی وبااورجان لیوا مہلک مرض پر دلالت کرتی ہیں۔ endemic میں تحریف یا corruption کا مفہوم بھی شامل ہے اور غیراخلاقی رویّہ بھی جس کے ارتکاب سے کوئی بھی چیز، کلام اور متن کو اپنی اصلی حالت پر رہنے نہیں دیا جاتا بلکہ سیاق و سباق کے ساتھ متن کو بدل دیا جاتا ہے۔ اوکسفرڈ ڈکشنری اس کو بدعنوانی، چھوت یا نسل پرستی کی المناک وباسے بھی تعبیر کرتی ہے۔ یہ تحریف و انحراف ارادتاً طاقت کے زور پر کیا جاتا ہے (اوکسفرڈ ڈکشنری ، ساتواں ایڈیشن، ص ۳۴۴)۔

ذرائع ابلاغ میں غیرمعمولی تشہیر اور انجانے خوف کے اعتبار سے یہ نئی اصطلاح ’کورونا‘ اب Pendemic سے بڑھ کر Pandamonium کی اصطلاح کا رُوپ دھارچکی ہے جیساکہ کہا گیا: The situation in which there is a lot of noise, activity and confusion, specially because people are angry or frightened. ’’لوگوں کے غم و غصے اور خوف و اضطراب کی ایسی کیفیت جس میں چیخ و پکار، فعل و تحرک اورلوگوں میںابہام پایا جائے‘‘۔ (محولہ بالا، ص ۳۴۴)

انگریزی لُغت میں تحریف کرنے اورحقائق مسخ کرنے کے لیے Distortion کالفظ بھی مستعمل ہے، یعنی to change the shape, appearance or sound (شکل یا آوازیا حلیہ بگاڑ کر اسے تبدیل کرنا یا مسخ کرنا)۔ Distortion of facts on truth سچائی یا حقائق کو تحریف کے ذریعے مسخ کردینا(اوکسفرڈ ایڈوانسڈ لنرز ڈکشنری، ص ۴۴۴، ساتواں ایڈیشن)۔

چونکہ اصل انگریزی میں کورونا یا کووِڈ-۱۹ کی اصطلاحات ناپید ہیں، لہٰذا قدیم عبرانی لفظ سے اِن قدیم اصطلاحات کو distort یا تحریف کرکے ’طبی وبائی مرض‘ کے جھوٹے معنوں میں اس کو حال ہی میں انگریزی زبان کے ساتھ پیوند کاری کی گئی ہے۔

کورونا کی تحریف

’کرونا‘ انگریزی اصطلاح نہیں بلکہ’کووڈ-۱۹ ‘ اور ’کرونا‘عبرانی زبان میں تلمود سے ماخوذ اصطلاحات ہیں جس کے الفاظ و معانی میں ردّ و بدل اور تحریف کرکے اِسے ۲۰۱۹ء میں پہلی بار ایک طبی وبا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کووڈ-۱۹  میں ۱۹ سےمراد ۲۰۱۹ء نہیں ہے بلکہ وہ مناجات ہے جس کا ذکر تلمود کی آیت ۱۹ میں آیا ہے۔ کورونا، پکارنا اورآواز دینےکو کہا جاتا ہے۔ تلمود کی ہدایت کے مطابق اس کا مفہوم ہے اپنے مسیحا کو پکارنااور ’آجائو، آجائو‘ یعنی ’کوروناکورونا‘ کا واویلا مچانا تاکہ اُن کا ہاشم، یعنی مسیحا اُن کی پکار سنے۔یہودی جب اپنی نماز میں عاجزی اور خشوع اختیار کرتے ہیں جس کوعبرانی میں Covidکہا جاتا ہے اور نماز کا ۱۹واں کلمہ تلمود میں اِن الفاظ میں ترجمے کے ساتھ موجود ہے:

19-Sim Shalom, Grant Peace, goodness, blessings, grace and kindness mercy upon us and upon all Israel your people.

پھر اس طرز پر ابلاغ اور وسائل ابلاغ کے زورسے ان کلمات سےوائرس اور بیماری ثابت کرناتحریف لسانی اور یہود کی پرلے درجے کی بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس دھوکا دہی اور الفاظ و معانی کے ہیرپھیر سے نوعِ انسانی کو اپنے مقاصد کےلیے بہکایا جاتا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں یہودیوںپر تحریف کتاب کی فردِ جرم عائد کی ہے کیونکہ یہودی خود کو ابناء اللہ ’اللہ کے بیٹے‘ واحباءہ ’اور اس کے چہیتے‘ قراردیتے ہیں مگر اِن چہیتوں اور لاڈلوں کی مجرمانہ حرکات اور شاطرانہ چالوں پر گرفت کرکے اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘۔اس شعرکے مصداق اب ’مابعد انسانیت‘ اور ’کرونا‘ کے پس منظر میں تمام انسانیت(Humanity) بنی اسرائیل کے ہاتھوں موت کے گڑھے کے کنارے آکھڑی ہے جو تحریف کے مجرم ہونے کےعلاوہ عَدواللہ اور عدوالنَّاس ،مخلوق کے دشمن  کا شاطرانہ کردار ادا کررہے ہیں۔

عربی میں تحریف  کے لغوی اوراصطلاحی معنی

امام راغب اصفہانی (۵۰۲ھ) نے مذکورہ آیاتِ قرآنی کے ضمن میںتحریف کے معانی کا تعین کیا ہے۔ الحرفُ  وہ چیز جس میں :

            ۱-         تلخی اورحرارت آگئی ہو اورحلاوت سے پھیردی گئی ہو۔(مفردات القرآن، جلددوم، ص۲۴۷-۲۴۸، ترجمہ:مولانا محمدعبدہٗ)

            ۲-         تحریف کے معنی کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا جیسے تحریف القلم، قلم کو ٹیڑھا قط لگانا۔

            ۳-         تحریف الکلام کے معنی ہیں: کلام کو اس کے موقع و محل اورسیاق وسباق سے پھیر دینا تاکہ دومعنوں کا احتمال پیدا ہوجائے۔

            ۴-         المحارف سے مرادوہ شخص جوخیرسے محروم اورطرف دارہو۔

            ۵-         انحرف عن کذا وتحرف: کسی چیز یاحقیقت سے کنارہ کشی کرنا اور ایک جانب مائل ہونا۔ (حوالہ مذکور ہ بالا)

صحف ِ سماویہ میں الفاظ و معانی اوراصطلاحات کی تحریفات میں منفی پہلو سے لغت کے تمام معانی براہِ راست شامل تھے۔ تاہم، عربی کے علاوہ میڈیا اور عصری انگریزی لُغت میں ایسی اصطلاحات متعارف کی گئی ہیں، جو جنگ کا مفہوم دیتی ہیں۔ ارھاب اورحرب عربی میں جنگ(warfare) کو کہتے ہیں۔ اس سے منحرف اصطلاح انگریزی میں ’حاروب‘ یا تکنیکی جنگ Haarp زبان زدِعام ہے جو بذاتِ خود ٹکنالوجی کے جدید وسائل کے ذریعے ایک بھرپور Techno warfare پر دلالت کرتی ہے۔ اس لیے اصطلاحات کی جنگ کو قرآنی آیات کی روشنی میں’تحریفی جنگ‘ یا ’ابلاغی جنگ‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ارھاب(Terror) اور رھبۃ خوف کے معنی میں اور ترھبون:تخافون کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

امام راغب کےنزدیک وایای  فارھبون  (اور تم مجھ ہی سے ڈرو) میں مذکورہ رھبۃ ایسے خوف کو کہا جاتا ہے جس میں احتیاط اوراضطراب شامل ہو۔

’ارھاب‘ کو انگریزی اصطلاح terrorism کے رُوپ میں تحریف کرکے پچھلے دو عشروں کے دوران ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کو دُنیا میں دہشت گردی کا مجرم ٹھیرایا مگر عوام الناس نے جھوٹ پر مبنی اس تحریف سے بالآخر برأت کا اظہار کیا تو انسانیت کو سزا دینے کے لیے اصطلاح ’کرونا‘ کی خوفناک صورت سامنے آگئی جو خوف واضطراب پر مبنی نفسیاتی، اعصابی اور عملی طورپربھرپور جنگ ہے۔

ہندستان میں صحف سماویہ میں تحریف کے مباحث

برصغیر پاک و ہند میں صحف آسمانی میں تحریف سے متعلق علمی مباحث اور مناظرے تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاجِ برطانیہ نے جب برصغیر پر قبضہ جمایا تو انھوں نے عیسائی مشنریوں کا ہندستان میں جال پھیلا دیا تاکہ طاقت کے زور پر مقامی لوگوں کو اُن کے مذہب سے پھیر لیا جائے۔ ان پادریوں کے خلاف مسلم علمائے کرام کے مناظرے جو تحریف صحف ِ سماویہ سے متعلق تھے، ریکارڈ پرہیں۔

۱۰؍اپریل ۱۸۵۴ء کو جنگ آزادی سے قبل فنڈر نامی ایک عیسائی پادری کی قیادت میں  جس کو پادریوں اور پنڈتوں کی پوری فوج کی مدد حاصل تھی، دو معروف علما مولانا رحمت اللہ کیرالویؒ اورمولانا وزیرخانؒ کا مناظرہ ہوا۔ مباحثے اور مناظرے کا موضوع تحریف انجیل و تنسیخ انجیل تھا۔ جب مسلم علما نے اپنے دلائل پیش کیے تو فنڈر پادری نے تحریف بائبل کو تسلیم کیا۔

۱۸۷۶ء اور۱۸۷۷ء میں شاہ جہاں پور میں اپنی نوعیت کے دونئے میلہ ہائے ’خدا شناسی‘ منعقد ہوئے۔ طے شدہ ایجنڈے کے مطابق ۱۸۷۶ء کے میلے میں وید، بائبل اور قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے پرہندوئوں، عیسائیوں اورمسلمان علما نے دلائل دیئے کہ تحریفات کے بعدان کتابوں کی حیثیت کیا ہے؟ ۱۸۷۷ء میں مولانا قاسم نانوتویؒ نےقرآن کی اَبدیت اور محفوظ ہونے پر دلائل پیش کیے جو مباحثہ شاہ جہاں پور کے نام سے اُن کی کتاب میں مندرج ہیں۔ مولانا نانوتویؒ کی حیثیت برصغیر میں اس وقت وہی تھی جو افریقہ میں مسلم عالم احمد دیدات کی یا اُن کے ممتاز شاگرد ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اب عالمِ اسلام میں ہے۔ بدقسمتی سے ہندستان کے اندر ان مناظروں کو سیکولر انگریز حکومت کی تائید حاصل تھی جن کا نعرہ تھا: ’’زمین خدا کی، رعایا بادشاہ کی اور حکم کمپنی بہادرکا‘‘ جوکہ ایک مشرکانہ بیانیہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ کمپنی بہادر کے حکم کی تحریف شامل تھی۔

بنی اسرائیل کا جرمِ عظیم

سورئہ مائدہ ، آیت ۴۱ میں یہودیوں کو براہِ راست مخاطب کرکے ارشاد ہوا:

وَمِنَ الَّذِيْنَ ہَادُوْا۝۰ۚۛ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ ۝۰ۙ لَمْ يَاْتُوْكَ۝۰ۭ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ۝۰ۚ يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۝۰ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَہٗ مِنَ اللہِ شَـيْـــــًٔـا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۴۱) اُن میں سے جو یہودی ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمھارے پاس کبھی نہیں آئے سُن گن لیتے پھیرتے ہیں، کتابُ اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمھیں یہ حکم دیا جائے تو مانو، نہیں تو نہ مانو۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو، اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے۔

مدینہ کی ریاست کے اندر یہودی معاہدے یا میثاقِ مدینہ کے تحت اسلامی ریاست کی رعایا تھے مگردھوکا دہی کے ذریعے اللہ کی آیات کے معنی بدلنے میں اور رسولؐ اللہ کی جاسوسی کرنے میں وہ طاق تھے۔ اس لیے قرآن نے صحابہؓ اور پیغمبرؐ خداکو تنبیہہ فرمائی اور ارشاد ہوا:

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۷۵(البقرہ ۲:۷۵)اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ اُن میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کردانستہ اس میں تحریف کی۔

اس دانستہ تحریف میں الفاظ قرآنی کا اُلٹا مفہوم پیش کرنا بھی ایک حربہ ہے جیسے اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ کی بجائے رحمآء علی الکفَّار  واشداء بینھم کا مفہوم پیش کرکے منحرفین یہود، مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں اور قرآن کو نشانۂ تضحیک بناتے اور مذاق اُڑاتے ہیں۔

اصطلاحی تحریفات کا معاشرتی تدارک

تحریفات کے تدارک کے لیے قرآن نے ایسے تمام ذومعنی ، مبہم اورمحرف کلمات اور اصطلاحات کے استعمال سے مسلمانوں کو منع کیا تھا جس کا مقصد کلام اللہ میں معانی کی تبدیلی، ذاتِ گرامی رسولؐ پر طنز و استہزا اور دین و شریعت میں طعنہ زنی کا پہلو نکلتا تھا۔ یہودیوں کی شہ پر منافقین اِن تحریف لسانی کے وسائل کو استعمال کرکے مقاصد ِ شریعت کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے تھے اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے۔ قرآن نے ان مذموم حرکات و سکنات اور اشارات کو لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ (النساء ۴:۴۶) (وہ تحریف ِ لسانی کرتے ہیں اوردین میں طعنہ زنی کرتے ہیں) کہہ کر اُن کے مبہم تحریفات کے استعمال سے منع کیا اور راعنا  کے لفظ کو بد ل کر اںظرنا   کا متبادل الفاظ استعمال کرنے کا حکم دیا کیونکہ دشمنانِ حق اس لفظ کو زبان کا چکمہ دے کر راعینا  بناتے تھے، یعنی اس میں ’’اے ہمارے چرواہے‘‘ کی طنز وتشنیع کی کاٹ اور مبہم تحریف شامل ہوتی تھی۔

سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوا:

يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۝۰ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّـمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝۰ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَۃٍ مِّنْہُمْ  اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْہُمْ (المائدہ ۵:۱۳) ان سخت دل لوگوں کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا اُلٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں، جو تعلیم انھیں دی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھول چکے ہیں، اور آئے دن تمھیں اُن کی کسی نہ کسی خیانت کا پتاچلتا رہتا ہے۔ اُن (یہودیوں) میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئےہیں۔

دوسری جگہ پر مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ   (۵:۴۱) استعمال ہوا ہے، یعنی سیاق و سباق اور معنیٔ اصلی متعین ہونے کے بعد اِن کے کلام اللہ اور صحفِ سماویہ میں تحریف اِن کی دیدہ دلیری کا ثبوت اور جرمِ عظیم کی شہادت ہے جو انحراف اور بغاوت کے مترادف ہے۔

سرکش کفّارِ مکّہ نے پیغمبرؐ خدا سے تحریف سے بڑھ کر یہاں تک کا مطالبہ پیش کیا تھا کہ ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۝۰ۭ (یونس ۱۰:۱۵)’’اس قرآن کے علاوہ کوئی قرآن لے آئو یا اُسی میں تبدیلی کرو‘‘۔ لہٰذا قرآن نے اسلامی معاشرے کو ان اصطلاحات کے استعمال سے بروقت روک دیا۔

شرفِ انسانی اور فساد

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے بنی آدم ؑ کو شرف و تکریم سے نوازا‘‘(بنی اسرائیل  ۱۷:۷۰) مگر کرونا کے ہاتھوں یہ تکریم انسانی اب خاک آلود ہوچکی ہے۔ اگرچہ کرونا وائرس کی ہیئت ترکیبی اور وقوع پذیر حالات کی تفصیل اس وقت میرا موضوع نہیں ہے، تاہم اسباب کی دُنیا سے قطع نظر المناک واقعات کے حولے سے کرونا کے ہاتھوں انسان، انسانی خودی اور خود انسانیت جس ذلّت و ہلاکت سے دوچار ہے، جنگ ِ عظیم کے بعد یہ اس صدی کا سب سے بڑافساد ہے  جس کی زد میں پورا کرئہ ارض آچکا ہے۔ وقفے وقفے سے پچھلے ایک سال کے دوران کووڈ-۱۹ کی ریڈیائی لہریں کہیں مُردہ وائرس کا حامل بن کر، کبھی زندہ وائرس اور کبھی سپر وائرس کے حاملین (Silent Carriers) بن کر ہلاکت خیزی دکھارہی ہیں اور انفرادی اور اجتماعی طور پر ہرانسان موت و زیست کی کش مکش میں مبتلا ہوچکا ہے اورعاجزی کے ساتھ خلاصی کے لیے چیخ و پکارکر رہا ہے۔

سورئہ روم میں قرآن نے فسادِ ارضی کا جو نقشہ کھینچا ہے ، حالات اس کے مشابہ ہیں۔ فرمایا گیا:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے  لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ، تاکہ مزا چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔

علامہ امام راغب اصفہانیؒ (۵۰۲ھ) اپنی معروف لغت مفردات قرآنی میں اس آیت میں مذکور فساد اور کسب کے لغوی معنی کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’فساد‘ کسی چیز کے حد ِ اعتدال سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں چاہے وہ افراط کی صورت میں ہویا تفریط کی صورت میں۔ اَفسدُوہ فُلَانًا، ’فلاں نے اس چیز کا توازن بگاڑا‘۔ یا اس بااختیار شخص نے اپنی فتنہ انگیزی کے ذریعے حیوانوں اور انسانوں کی نسل کو نابود کر دیا، لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۰۵)۔ مفسد کے مقابلے میں مصلح فساد کو روکنے اور اصلاح کرنے کو کہا جاتاہے۔ وَاللہُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۲۰) ’’اللہ خوب جانتا ہےکہ خرابی کرنے والے کون ہیں اور مصلح کون؟‘‘

ایک ہزار سال پہلے کا یہ عالم باکمال لفظ ’کسب‘ اور ’اکتساب‘ کی بھی لغوی تشریح کرتے ہیں۔ کسب بھی ایسی چیز کا قصد کرنا یا ارادہ کرنا جو مفید اور نفع بخش ہو، چاہے وہ ذاتی اغراض کے لیے ہو یا دوسروں کی افادیت کے لیے، جب کہ اکتساب اس کام کو کہتےہیں جس میں انسان کی ذاتی غرض مطلوب ہو۔ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ(البقرہ ۲:۲۸۶)’’ہرشخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے،اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔

بعض نے کسب سے مراد اُخروی اعمال لیا ہے اور اکتساب سے مراد دُنیوی کسب و پیشہ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا كَسَبُوْا۝۰ۚ (الانعام ۶:۷۰) کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ یہ لوگ اپنی شامتِ اعمال کے وبال میں پکڑے گئے۔ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا (الروم ۳۰:۴۱) ’’تاکہ اللہ اُن کو اُن کے بعض اعمالِ بد کا دُنیا میں مزا چکھادے‘‘۔(مفردات قرآنی،جلددوم،ص ۳۵۲)

امام راغبؒ فسادِ انسانی کے مترادف لفظ فتنۃ کی لغوی تعبیر پیش کرتے ہیں اور اس کا موازنہ قتل سے کرتے ہیں۔قتلت فُلانًا  قتلتہُ   ’’میں نے فلاں کو ذلیل کر کے رکھ دیا‘‘۔ والفتنۃ  اَشد  من القتل  (یہ کہ فتنہ، قتل سے زیادہ سخت ہے)۔

’قتل‘ کے لفظ میں معنی کی نسبت قتل کرنے والے قاتل کی طرف ہوتی ہے، جب کہ فتنہ میں قتل ہوتا ہے مگر قاتل کی طرف نسبت نہیں ہوتی (یا قتل پسِ پردہ قاتل کی طرف سے ہوتا ہے)۔ لہٰذاقرآن نے قتل سے فتنہ کو اشد قراردیا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۝۰ۚ (الانفال ۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو‘‘۔

اخفش نے فتنہ کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے: ایک میسور اور دوسرا معسور، یعنی عُسر اور یسرکا فتنہ (مفرداتِ قرآنی، ص ۲۲۳)۔ وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ (المائدہ ۵:۷۱) ’’وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بلا اُن پر نازل نہ ہوگی‘‘۔

امام راغب ؒکے نزدیک فتنہ کا مفہوم بلا، مصیبت، عذاب و آزمایش، قتل اور دھوکا دہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔تحریف اور انحراف کی بدترین شکل جو عصر حاضر میں فتنہ کی بدترین شکل اختیار کرچکا ہے اورذرائع ابلاغ پورے زور سے اس آگ کو بھڑکا رہے ہیں، وہ عمل انسانی (Human action) اور عمل خدائی (God action) میں فرق نہ کرنے کا فتنہ ہے۔ اکیسویں صدی سائنس اور ٹکنالوجی کے عروج کی صدی ہے۔ انسانی فن و پیشہ اپنے حد ِ کمال تک پہنچ چکا ہے۔ بحروبَر کی کائنات سائنسی لحاظ سے تسخیر ہوچکی ہے اور یہ تسخیر ہائیڈرو سفائر اور آئیونو سفائر پر بھی محیط ہے، جہاں پر میزانِ کائنات قائم ہے:

وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۝۷ۙ اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۝۸ (الرحمٰن۵۵: ۷-۸) آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔

عہد ِ حاضر میں فساد کی بدترین صورت فطرت کے نظام میں خلل ڈالنے اوراُسے عدم توازن کا شکارکرنے کی صورت میں نمودارہورہا ہے۔ آواز، بادل اوربارشوں کےراستے سائنس اور ٹکنالوجی کی زَد میں ہیں۔ وائرس سمیت فضائے بسیط کے اندر آواز کی لہروں اور صورتوں کا اپنی مرضی سے انتقال انسانی ٹکنالوجی کی ترقی کے باعث مسخر ہوچکا ہے جو انسان کی منفعت کے لیے ہی نہیں بلکہ مضرتِ انسانی اور خاتمۂ انسان کے لیے اس کا استعمال ہونا ممکن ہوگیاہے۔ حال ہی میں اسٹیفن بربرچر کی کتاب  Post-Humanismکے نام سے شائع ہوئی (۲۰۱۲ء) جس میں عہدحاضر کے جدیدنینو ٹکنالوجیز اور اطلاعی ، طبّی مہارتوں وغیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انسان کے لیے بشمول وسائل ترسیل مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اخلاق سے ماورا سچائی اور جھوٹ کا حوالہ پیش کرکے وہ لکھتے ہیں: ’’اخلاقی حس سے میراسچ اور جھوٹ کا تصور وہ پہلا نکتہ ہے جہاں سے ماوراانسانیت کی تحریک شروع ہوتی ہے‘‘۔

یہ تحریف جو سچ اور جھوٹ کو اخلاقیات سے پاک کردے ہمارے ابلاغی نظام کو کس انحراف سے دوچار کرے گا؟ یہی پوسٹ ہیومنزم کے تصور کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، جہاں پیغمبروں ؑ کی شریعت کے برعکس جھوٹے ضوابط اور جھوٹے معیارات سے انسانوں کو بہلایا اور پھسلایا جائے گا۔ اور ہر مذموم اور قابلِ مذمت عمل کو محمود اورمعیاری قراریا جائے گا۔ ایسے ہی تحریفی ضوابط ِ عمل یا آپریشنل سٹینڈرز کا تصور میکیاولی نے بھی پیش کیا تھا۔

دوبنیادی قرآنی اصطلاحات

قرآن نے ایسے شریر دماغوں اور بدعمل اور بُری چال چلنےوالوں کا محاسبہ سخت الفاظ میں کیا ہے اور اُن کو ’تقلب‘ اور ’تخوف‘ میں پکڑنے کی وعید سنائی ہے:

اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ۝۴۵ۙ  اَوْ يَاْخُذَہُمْ فِيْ تَقَلُّبِہِمْ فَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۝۴۶ۙ اَوْ يَاْخُذَہُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ۝۰ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۴۷ (النحل ۱۶: ۴۵-۴۷)پھر کیا وہ لوگ (جو دعوتِ پیغمبر ؑ کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ اُن کو زمین میں دھنسا دے یا ایسے گوشے سے اُن پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کےآنے کا اُن کو وہم و گمان تک نہ ہو، یا اچانک چلتے پھرتے اُن کو پکڑ لے یا پھر (تخوف کی) ایسی حالت میں اُنھیں پکڑے، جب کہ انھیں خود آنےوالی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنّے ہوں؟ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اُس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا ربّ بڑا ہی نرم خُو اور رحیم ہے۔

’تخوف‘ کی اصطلاح کا انگریزی ترجمہ علّامہ محمد اسد نے  slow distruction بتدریج تباہی اور اخلاقی اقدار کی پراگندگی متعین کیا ہے اور بُری چال چلنے والوں ’مکروالسیات‘ کا ترجمہ Who devise evil schemesلکھا ہے۔

اس قرآنی اصطلاح کی تشریح میں وہ امام زمخشریؒ اور امام طبریؒ کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:

In the above context, the term has obviously both a social and moral connotation, and graceful disintegeration of all ethical values of power, of civic cohesion of happiness and finally of life itself. (The Message of Quran, p479, published by Islamic Book Trust, Kualalmpur).

مذکورہ بالا سیاق و سباق میں ’تخوف‘ کی اصطلاح سماجی اور اخلاقی دونوں مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے، یعنی قوت کے مصادر سے اخلاقی اقدار کی بتدریج علیحدگی، باہمی تعلقات اور ملاپ میں عمل جدائی، خوشی کا درہم برہم ہونا اوربالآخر زندگی ہی کا خاتمہ اس اصطلاح کے مفہوم میں شامل ہے۔

اس کے برعکس خوش حالی اور امن و تعیش کی حالت ’تقلب‘ کی اصطلاح کےطور پر قرآن میں استعمال ہوئی ہے، جس میں فکروعمل کی تبدیلی کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مجموعی طورپر عُسر کے ایام کو تخوف اور آسانی اور یُسر کے ایامِ زندگی کو تقلب کے اَدوار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طاغوت کے زیراثر جب انسان نے تبدیلی یا Transformation کے عمل میں اللہ سے تعلقِ بندگی توڑنے کا فیصلہ کیا تو مفہوم المخالفۃ کی تحریف کے ذریعے یا Reversal interpretation کے طور پر ان دونوں قرآنی اصطلاحات کا بھرپوراستعمال کیا گیا اور بزعمِ خود خدا بن کر ترغیب و ترہیب کی عالمی پالیسی اپنائی گئی جس نے پچھلی دو صدیوں کے دوران ماڈرنزم اور ہیومنزم کے عقیدے کی صورت میں انسانی فکروعمل کے زاویوں کو بھی بدل دیا اور اکیسویں صدی میں پوسٹ ہیومنزم کے تخوف سے انسانوں کو دوچار کردیا تاکہ وہ فتنۂ موت و حیات کے ساتھ ساتھ ضعف ِ ارادہ و عمل کی آزمایش سےبھی دوچار ہوں اورعُسر کی تکالیف کا سامنا کریں۔

مقدمہ ابن خلدون میں حضرت عمرؓ کا واقعہ درج ہے کہ انھوں نے منبر پر تخوف کی آیت تلاوت فرمائی اور اصطلاح کا معنی دریافت کیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ اس آیت میں تخوف بمعنی تنقص استعمال ہوا ہے، یعنی نفس انسانی کا نقصان (مقدمہ ابن خلدون، ص ۴۸۰)۔

تکریم و شرف نوعِ انسانی کا ضابطہ

اس اشرف مخلوق کے لیے شریعت الٰہی میں ’عبدیت‘ کا خدائی ضابطہ ہے، جو ارادئہ الٰہی یا رضائے الٰہی کا مظہر ہے۔ اس تفویض کردہ delegated will یعنی ارادئہ انسانی سے عرفانِ ربّ اور عرفانِ ذاتِ انسانی دونوں ممکن ہیں۔ تاہم، صنعتی انقلاب میں تحریف کے ذریعے آزادی (liberty)  کا مفہوم ’عبدیت‘ کی حقیقت سے انسان کی آزادی کو قرار دیا گیا۔ اس فکر کو انسان کی خودمختاری یا soverignity قرار دیا گیا۔ متعدد اصطلاحات انسان پرستی یا ہیومنزم، ریشنلزم یا مفادپرستی یا Utilitarianism وغیرہ ’عبدیت‘ کی فکر کو توڑنے مروڑنے کے لیے انسانی سوچ اور تحریفات کا نتیجہ تھے۔

نکولومیکیاولی (۱۴۶۱ء-۱۵۲۹ء)، زونگلی (۱۵۳۱ء) ایراسمس مانڈیس (۱۵۳۶ء)، مارٹن لوتھر (۱۵۴۶ء) اور کولون (۱۵۶۱ء) کے نام سے ان پانچ ہم عصر شخصیات نے اپنی شرانگیز فکر سے اس ابلیسی مشن کو ریاستی قوت سے آگے بڑھایا۔ اُن ہی کی طرح، عصرحاضر کی معاصر پانچ متمول شخصیات نے ہیومنزم کے برعکس پوسٹ ہیومنزم یامابعد انسانیت کے فلسفے کو پچھلے چند سال میں بامِ عروج تک پہنچایا ہے اور فرعونیت اور قارونیت کے مرتبے پرفائز ہوچکے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں وہ انفوٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی، سائبرٹکنالوجی اور بایوٹکنالوجی کے بلاشرکت غیرے ’قرناء‘ عصری امام مانے جاتے ہیں جو ٹکنالوجی کے زور پر عصرِحاضر کے لیے نیو ورلڈ آرڈر تشکیل دے رہے ہیں۔  ان پانچ شخصیات میں بل گیٹس، امیزون، رُوتھ فیل چائلڈ، رمزک اور میلنڈگیٹس شامل ہیں جن کو پانچ بڑے Five Greats کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ انفوٹکنالوجی کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں۔سائنسی لحاظ سے اگرچہ نظریہ کے طور پرقاتل شعائوں (death rays) کا نظریہ بہت پہلے ۱۹۲۰ء میں نکولوٹیبلا نے پیش کیا تھا، اور ۱۹۴۳ء میں پُراسرار انداز میں اس کا انتقال ہوا تھا۔ مگر جدید ریڈیائی شعائیں پُراسرارحاملین (Silent Carriers) بن کر تابکاری، یعنی Radiations میں اضافہ کررہی ہیں۔ بعید نہیں کہ ہلاکت خیز تابکاری کو شیطان نما انسانوں نے تحریف کرکے طبّ کے ساتھ جوڑا ہے جس کے اہداف سیاسی اور اسٹرے ٹیجی یا حیاتیاتی جنگ میں پوشیدہ ہیں۔

دورِ اختتام کا آغاز اور دجالیت

فتنۂ حیات و ممات سمیت دجال کے مختلف النوع جنگی حربوں کے ذکر سے حدیث کا لٹریچر بھرا پڑا ہے جسے کتاب الملاحم اور علاماتِ آثارِقیامت کے مستند مصادر سےمطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پُرفتنہ دورمیں موت و زیست کی حیاتیاتی کش مکش اورفتنے کو حدیث میں بڑی جنگوں یا الملحمۃ الکبریٰ کی اصطلاح سے واضح کیا گیا ہے جہاں سے دجالیت کے دورِ اختتام کا آغاز ہوتا ہے۔ وقت کے ائمہ ضلالت کی طرف سے مابعد انسانیت یا Post Humanism کی اصطلاح  ’جنگی فسوں‘ الملحمۃ الکبریٰ کی اسلامی اصطلاح سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ اس پُرفتن اور پُرآشوب دور سے احادیث میں دُعائوں کے ذریعے پناہ مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ دجال کے کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے خدائی کاموں سے ملتے جلتے اور پُرفریب، سخت تحریفی اور فتنہ انگیز ہوں گے۔ عہد ِجدیدیت کے آغاز ہی میں اٹھارھویں صدی کے اندر تھامس مالتھس  ۱۷۹۸ءمیں ایک کتاب The Theory of Population لکھ کر انسانی آبادی کے کنٹرول کرنے کے مُدعا کو سامنے لایا تھا مگر کسے معلوم تھا کہ اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مقتدرانسان کی مکارانہ چالوں سے آسمانی اقدارسمیت عالمی سطح پر لفظ اور حرف کی حُرمت بھی ناپیدہوگی۔ یہ دور اور یہ کتاب بالآخر ’کرونا کے بڑے فُسوں ‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، جو حیاتیاتی جنگ اور تکنیکی جنگ کے امتزاج سے نوعِ انسانی کی ہلاکت کاباعث بنے گا۔

سازشی نظریہ کا نام لے کرغلط فہمی کے شکار انسانوں کو اِبلاغ کے زور پر کچھ عرصے کے لیے گمراہ تو کیا جاسکتا ہے مگراصطلاحات کی جنگ کے سہارے ہمیشہ کے لیے قرآنی حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ کتابِ ہدایت براہِ راست اللہ کی حفاظت میں ہے۔ اس کے محفوظ مصادر کے ذریعے عصرحاضر کے ابلیسی حکمت و عزائم کا مقابلہ ممکن ہےکیونکہ شیطان کو قرآن نے انسان کا کھلا دشمن یا عدوّ مبین قراردیاہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا:

 اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا۝۰ۭ (حم السجدہ ۴۱:۴۰) بے شک جو لوگ ہماری آیات کو اُلٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

علّامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اپنی دانش کے آئینے میں ایک بے مثل مبلّغ ہیں جنھوں نے شاعری کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کے اندر آزادی کی روح پھونکی جس کی مثال عصرِحاضر کے ذرائع ابلاغ، باوجود اپنی بے پایاں جدت و وسعت کے اور آزادی کے بلند بانگ نعروں کے پیش نہیں کرسکتے۔

اس وقت اہلِ پاکستان اپنی آزادی کی ۷۰ویں سالگرہ مناتے ہوئے حقیقتاً مصورِ پاکستان کے غیرمعمولی ابلاغی کردار کے سبب اُن کے زیراحسان ہیں۔ جب ہندستان پر مسلمانوں کا طویل دورِ حکمرانی ختم ہورہا تھا، اس مایوس کن صورتِ حال میں مسلمانوں کے ملّی وجود کو جن دماغوں نے سہارا دیا، اقبال اس قافلے کے شہ دماغ ہیں۔ اُن کے افکار نے مسلمانوں کو نفسیاتی اور ذہنی پسپائی سے روکا اور ایک ایسی عمارت کو جو اسلام کے نام پر کھڑی تھی، اس سے پہلے کہ انہدام کا شکار ہوتی، اس خطرے سے نکالا، پشتیبانی کی اور بچالیا۔ اقبال کا یہ کارنامہ اتنا عظیم ہے کہ اس سے خود ایک تاریخ مرتب ہوتی ہے‘‘۔ (شورش کاشمیری، فیضانِ اقبال، الفیصل ناشران، ص ۲۰)

اقبال کی دانش و بصیرت کی گہرائیوں کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہ اپنے بلندپایہ افکار اور ذرائع ابلاغ شعرونثر کے باوصف مسلمانوں کے اندر ماضی کے آئینے میں روشن مستقبل کی روح پھونکنا چاہتے تھے، جو ریاست مدینہ کے آئیڈیل اور اسوئہ حسنہ کی صورت میں اُن کے سامنے موجود تھا  ؎

دل بہ محبوبِ حجازی بستہ ایم

زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم

(ہم نے اپنا دل محبوبِؐ حجازی سے لگایا ہے۔ اس لحاظ سے ہم ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔)

ریاستِ مدینہ کا ماڈل اور پاکستان

ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا پاکیزہ ابلاغ علّامہ اقبال نے ۸۷سال قبل خطبہ الٰہ آباد کے دوران ۱۹۳۰ء میں کیا تھا، جب وہ کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدارتی خطبہ   پیش فرما رہے تھے: ’’میں یہ دیکھنا پسند کروں گا کہ پنجاب، شمال مغربی سرحد، صوبہ سندھ اور بلوچستان ایک خودمختار ریاست میں ضم ہوں جو برٹش ایمپائر کے اندر ہوں یا اس سے باہر۔ ایک مستحکم    شمال مغربی ریاست کی تشکیل مجھے مغربی ہندستان میں مسلمانوں کا مقدرِ حتمی دکھائی دے رہا ہے‘‘۔

جب کُل ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اقبال کی یہ تجویز منظرعام پر آئی، تو ہندوئوں اور انگریزوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ نہرو کمیٹی نے اسے مسترد کیا اور برطانوی وزیراعظم جیمز رمزے میک ڈونلڈ نے کہا: ’’اقبال نامی ایک شاعر نے متحدہ ریاست ہندستان کے لیے کی جانے والی ہماری کاوشوں پر پانی پھیر کر تباہ کر دیا ہے‘‘۔

دوسرے دن ٹائمز لندن نے اداریے میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’یہ مشرقِ وسطیٰ ، ایران، افغانستان اور روسی ریاستوں پر مشتمل مسلم ریاست متحدہ کے احیاے ثانی کا خواب ہے‘‘۔ (مکرر اشاعت: Time Magazine، ۱۳؍اگست ۲۰۰۷ء)

دورِ غلامی میں اقبال کی شاعری نے دلوں کو فتح کیا تھا۔ خود اقبال فرماتے ہیں: ’’میری شاعری اسلامی تفکّر اور قرآنی فقہ کی تعبیروتفسیر ہے۔ اس کا آرٹ کے مغربی تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ (فیضانِ اقبال، ص ۲۲۰)۔ شعر کے ذریعے آزادی کا پیغام دراصل اسلام کا پیغام تھا، کیوں کہ ہندستان کے مسلمانوں کی محض سیاسی و اقتصادی بہبود ہو اور حفاظت اسلام کا عنصر اس میں شامل نہ ہو، تو اقبال کے نزدیک مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ (ایضاً، ص ۲۷۱)

جس وقت اقبال مسلمانانِ ہند کے لیے آزاد اسلامی وطن کا مطالبہ کر رہے تھے، اس وقت مسلمان غلامی کی چکّی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے، جو ڈیڑھ صدی سے اُن پر مسلط تھی۔ ہندو، انگریز استعمار کے سہارے مسلمانوں سے اپنے ہزار سالہ دورِ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور اسپین کی طرح برصغیر سے مسلمانوں کے خاتمے کا خواب دیکھ رہے تھے۔تب اقبال نے مسلمانوں کو اس طرح بیدار کیا کہ   ؎

اِک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو

لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

اقبال، اسوئہ حسنہ کی روشنی میں یہ جانتے تھے کہ ایمان اور ذوقِ یقیں ہی وہ قوت ہے، جو ۷۵فی صد ہندو اکثریت اور انگریز استعمار کے چنگل سے اُن کو آزادی دلا سکتی ہے، ورنہ مسلمانوں کو تائید ایزدی اور نصرتِ خداوندی نصیب نہیں ہوسکتی تھی   ؎

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

اقبال ، قرآن کے زیرسایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں اُمت مسلمہ کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ مکہ مکّرمہ اور حرمِ کعبہ کو مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی ترتیب میں اہم مقام حاصل ہے۔اسی مرکز کے تحت وہ مسلمانوں کو اکٹھا اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار دیکھنا چاہتے تھے۔ اُن کی فکر کی بنیادوں کو یوں سمجھا جاسکتا ہے:

  • اسلام ایک زندہ قوت ہے، لیکن محدود دور کے سوا کبھی اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔
  • توحید ہی وہ تصور ہے جو انسان کا اپنے رب سے تعلق قائم کرتا اور ماسوا کی اطاعت کو ختم کرتا ہے۔
  •  رسالت مآبؐ خدا اور بندے کے درمیان حقوق کے تعین کا ایک ذریعہ ہیں جس سے اُمت تشکیل پاتی اور پروان چڑھتی ہے۔ (فیضانِ اقبال، ص ۲۱)

اقبال کے محرکاتِ فکر اسی سانچے میں ڈھلے تھے، جس کے نتیجے میں قدیم سے اُس نے عرفان حاصل کیا اور جدید سے فیض۔ بدقسمتی سے اقبالؒ کے کلام کے علمی اور جدید فکری پس منظر اور  نصب العین کو سمجھنے کی طرف توجہ کم رہی۔ اس کے لیے جو علم درکار تھا اور یہ متاع، جدید تعلیم کی مہربانی سے کم سے کم دستیاب ہے۔ (فیضانِ اقبال، ص ۱۳)

اے کہ می نازی بہ قرانِ عظیم

تا کجا در حجرہ می باشی مقیم

درجہاں اسرارِ دیں را فاش کن

نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن

کس نہ گردد درجہاں محتاج کَس

نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس

(اے وہ بندے! جو قرآنِ عظیم پر ناز کرتا ہے، تُو کب تک اپنی ڈیوڑھی میں گوشہ نشین رہے گا۔ اُٹھو! دین مبین کے اسرار دُنیا پر فاش کرو اور اُن کے سامنے شرعِ مبین کو آشکارا کر دو تاکہ اس جہاں میں انسان دوسرے انسان کا محتاج نہ رہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے شریعت مبین کا)۔

خوش قسمتی سے ’قدیم‘ سے عرفان حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حصولِ علم کی تلاش میں برطانیہ کے دورے اور قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے اقبال کو علمِ جدید سے فیضان حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ وہ مغربی علوم کے شعلوں میں اور جدید نظریات کے الائو میں اُتر کر کندن بن گئے تھے۔ بجاطور پر اُن کا دعویٰ تھا  ع      کہ مَیں اس آگ میںڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

میکیاولی کا شاطرانہ وژن اور مغرب

مغرب نے اپنے تاریک اَدوار (Dark Ages)کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد آسمانی اقدار اور خدائی مذہب (Devine Religion) سے جان چھڑانے کے لیے سیکولرزم کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا، کیوں کہ وہ خودساختہ عیسائی مذہبی طبقے کی ناروا سختیوں سے   تنگ آچکےتھے اور بالآخر انھوں نے سیاست اور مذہب کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا۔ سولھویں اور سترھویں صدی کے اندر مغربی دانش وروں نے اس نئے نظریے کے تحت نشاتِ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ معروف مصنف ہاروے ککس اپنی کتاب The Secular City میں نکولومیکیاولی کو انقلابِ فرانس اور نشاتِ ثانیہ کا اصل بانی قرار دیتے ہیں، جو شاطرانہ سیاست کے بانی سیاست دان تھے۔ اقبالؒ نے اُن کی زہرناک سیاسی چال بازیوں اور خدا دشمن نظریات کے سبب میکیاولی کو ’مرسلے از شیطان‘ یعنی شیطان کا بھیجا ہوا پیغمبر قرار دیا تھا کیوں کہ وہ قومی ریاستوں (National States) کا اوّلین نظریاتی پرچارک تھا، اور اس نے بادشاہوں اور رعایا کو مستقل کش مکش میں مبتلا کرنے والی بدنامِ زمانہ کتاب The Prince لکھی۔

نکولو میکیاولی (۱۴۶۱ء- ۱۵۲۹ء) کے شاطرانہ وژن اور مطلق العنان آزادی کے نام پر مغرب نے قومی ریاست (Nation State) کے تصور کو پروان چڑھایا۔ اس طرح مغرب جغرافیائی سرحدوں کے تقدس اور وطن پرستی کا اسیر ہوکر آسمانی اقدار اور توحیدی افکار سے محروم ہوگیا   ؎

گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ

آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

اقبالؒ نے رُموز بے خودی میں میکیاولی کے ابلیسی افکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بے بسی کو موضوعِ سخن بنایا:

اُسقُف از بے طاقتی درماندۂ

مہرہ ہا ازکف بروں افشاندۂ

قوم عیسیٰ بر کلیسا پازدہ

نقدِ آئین چلییا وازدہ

دہریت چُوں جامۂ مذہب درید

مرسلے از حضرتِ شیطاں رسید

(لاٹ پادری (اُسقُف) اپنی بے طاقتی کے باعث عاجز اور بے بس ہوکر رہ گیا۔ اس نے سارے مہرے ہاتھ سے پھینک دیے۔ یوں مسیحیت کے پیروکاروں نے کلیسا کو ٹھکرا دیا اور مذہب سے دُور ہوگئے۔ نتیجتاً دہریت والحاد نے مذہب کا لباس پھاڑ ڈالا کیوں کہ اُن کے پاس شیطان کے دربار سے ایک پیغام بر آن پہنچا تھا)۔

آں فلا رنساویٔ  باطل پرست

سرمۂ اُو دیدۂ مردم شکست

نسخۂ بہرِ شہنشہاں نوشت

در گلِ ما دانۂ پیکار کشت

(یہ تھے فلارنس (اٹلی) کا وہ باطل پرست (میکیاولی) جس کے سُرمے نے انسانوں کی آنکھوں کو پھاڑ ڈالا (اُن سے نُورِ بصیرت چھین لیا)۔ اس شخص نے بادشاہوں کے لیے ایک کتاب (The Prince) لکھ ڈالی اور ہماری اِس رُوے زمین پر جنگ اور خوں ریزی کا بیج بو دیا)۔

اقبال مرحوم نے اس شاطر انسان کو بُت تراش آذر سے تشبیہ دی کیوں کہ اس کی قوتِ فکر نے وطن کو معبود قرار دیا اور مذموم چیز کو محمود بنا کر پیش کیا۔ حیلہ گری اور فریب کاری نے سیاسی فن کی صورت اختیار کرلی اور دھوکا و دجل مصلحت بن گئی۔ یوں زمین پر اقتدار کے حصول کے لیے مسیح کے پیروکار آسمانی اقدار سے دست بردار ہوگئے اور مذہب ایک پرائیویٹ معاملہ بن گیا اور اجتماعی اداروں سے مذہب کا نام و نشان مٹا دیا گیا، اور اس کو انھوں نے روشن خیالی، آزادی کا نام دے دیا کیوں کہ انھوں نے اپنی معاشرتی زندگی سے خدا کو بے دخل کر دیا تھا۔ یہ نشاتِ ثانیہ کی تحریک کا حقیقی پس منظر تھا جس کا محور وطن پرستی کا بُت اور نسلی و سیاسی لحاظ سے قومیتوں کا افتراق تھا جسے اقبالؒ نے مغرب کے تراشے ہوئے تازہ خدائوں سے تعبیر کیا ہے  ؎

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

اقبالؒ وطنیت کے اس فروغ پذیر نظریے کو، مغرب کی جانب اسلام کی روحانی پیش رفت قرار دیتے ہیں اور حقیقی اسلامی نظریے کی قوت سے اِن بتوں کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں۔ علمی دُنیا میں اقبال کو ایسے بُت شکن کی تلاش تھی۔ ۲۹مئی ۱۹۳۳ء میں جب سابق صدر دارالعلوم دیوبند    مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا انتقال ہوا تو اس عظیم فلسفی کے تعزیتی اجلاس کے موقعے پر اقبال نے محدث کشمیری کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ فکرِ اسلامی کے احیا کے تجدیدی کام کے لیے شاہ صاحب کی شخصیت میرے پیش نظر تھی اور میں نے آپ کو ڈابھیل سے لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ علامہ اقبالؒ نے محدث کشمیری سے علامہ فخرالدین عراقیؒ کے قلمی مخطوطے کی نقل بھی حاصل کی تھی اور خط و کتابت کے ذریعے غایۃ الامکان فی درایۃ المکان  کو سمجھا۔ سائنسی اور روحانی تجربات پر مبنی اس کتاب کے مصنّف علامہ فخرالدین عراقی غالباً نصیرالدین طوسی کے ہم عصر تھے، جن کی کتاب سترھویں صدی میںEuclid  کے نام سے پڑھائی جاتی تھی اور جو ۱۵۹۴ء میں روم میں چھپ گئی تھی۔ اپریل ۱۹۲۹ء میں حیدرآباد دکن میں چھپنے والے ایک مضمون میں اقبال نے علامہ عراقیؒ کی کتاب پر تبصرہ کیا تھا۔

نشاتِ ثانیہ کی تحریک اور اقبالؒ

نشاتِ ثانیہ تاریخ یورپ میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ جدید یورپ کی پس پردہ فکری تبدیلی اسی تحریک کے سر ہے۔ نشاتِ ثانیہ کے بعد کا یورپ ماضی کے یورپ سے قطعی مختلف ہوگیا۔ اس حد تک کہ نئے یورپ کے تمام ادارے بشمول کلیسا، مذہب، سیاست، اخلاق اور معیشت، کلچر، رسم و رواج اور سائنس سبھی کچھ بدل گئے۔ اس تحریک ِ احیا کے نتیجے میں انفرادی   اور اجتماعی رویے شکست و ریخت سے دوچار ہوگئے۔ مذہبی فکر میں اس کے نفوذ کے بعد عیسائیت ایک نئے زمینی مذہب کے رُوپ میں ڈھل گئی۔ اس لیے کہ اس کی پشت پر نکولو میکیاولی کی شرانگیز استعماری فکر کے علاوہ اہم ترین دانش وروں کا بھی ہاتھ تھا، جنھوں نے اصلاحِ مذہب (Reformation) کا نعرہ بلند کیا۔ اُن میں اصلاح مذہب کے علَم بردار اور پروٹسٹنٹ فرقے کے روح رواں مارٹن لوتھر (۱۴۸۴ء-۱۵۶۴ء)، زونگلی (۱۵۳۱ء، سوئٹزرلینڈ)، ابراسمس مانڈس (۱۴۶۶ء-۱۵۳۶ء، برطانیہ)، اور کولون (م:۱۵۶۴ء، جنیوا) شامل تھے۔ مقاصد کے اعتبار سے یہ تحریک عیسائیت کو بظاہر اس کی ’اصل‘ فراہم کرنا چاہتی تھی، مگر اس کے نتیجے میں مذہب ہی منہدم ہوگیا۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ قومی ریاست کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے نظریے کا سولھویں اور سترھویں صدی میں ہدف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا آسمانی مذہب تھا، اور میکیاولی کی شرارت اور منفی ذہانت پر مبنی سیاست کے نتیجے میں تمام عیسائی آہستہ آہستہ اپنے ’اصل‘ یعنی وحی کے فیضان سے محروم ہوتے گئے اور قیصر کو خدا کی خدائی میں شریک بنا لیا۔ بدقسمتی سے ۲۰ویں صدی تک روے زمین پر شاذ ہی ایسا عیسائی بچ گیا ہو جو انجیل کی اصل تعلیمات سے واقف ہو۔ ایک خودساختہ زمینی مذہب نے آسمانی مذہب کی جگہ لے لی اور ۲۱ویں صدی میں مذہب اسلام کو امپریلزم نے اپنا ہدف بنالیا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر علامہ اقبالؒ نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کہیں لاٹ پادری کے پیروکاروں کی طرح مسلمان بھی اپنے مذہب اور وحی کے فیضان سے محروم     نہ ہوجائیں، جو پرلے درجے کی گمراہی ہوگی اور روے زمین پر اللہ کی وحدانیت گہنا جائے گی۔ اس لیے اپنے شعرو نثر پر مبنی ابلاغی پیغا م کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑا اور انھیں حقیقی آزادی کا درس دیا اور یورپی افکار کا طلسم توڑا اور ’روشن خیالی‘ کے دعوے کو طشت ازبام کیا۔

۱۷ویں صدی میں یورپ میں شروع کی گئی تحاریک: اکرامِ انسانیت (Humanism)، عقلیت (Rationalism) اور افادیت (Utilitarianism) دراصل انسانیت کو دجل و فریب کے ذریعے اللہ کی حاکمیت کے خاتمے اور عبدیت کے آسمانی تصور کو مٹانے اور اللہ کے مقام پر انسان کو کھڑا کرنے اور عقل کو وحی کا متبادل کے طور پر لانے اور افادیت پرستی کے نام پر شریعت کے حلال و حرام کے لیے مقرر کردہ قیود سے آزادی کی تحریکیں تھیں جنھیں خوب صورت اصطلاحات کے پیرایے میں متعارف کروایا گیا اور اقوامِ عالم کو، حقوق کے چارٹر کے طور پر ان اُقدار کا خوگر بنایا گیا۔اس طرح انسان کو خدا کے بجاے خود انسان اور اس کی عقل کا غلام بنالیا گیا اور انبیا ؑ کی جگہ پر انسانی خواہشات کی غلامی کو اختیار کرنے کی راہ سجھائی گئی۔ یہ اُن ائمہ ضلالت کا کارنامہ تھا کہ چار صدیاں گزرنے کے باوجود انسانیت، سیکولرزم کے گمراہی کے اِن اسباب کا اِدراک نہ کرسکی، جس کا اقبالؒ نے بروقت اِدراک کرلیا تھا۔اس لحاظ سے فکروعمل میں اسلام کی تہذیبی بالادستی کے لیے متحرک قافلے کے سرخیل ہونے کا سہرا اُسی داناے راز کے سر ہے، جو اُسوئہ رسولؐ کے شیدا تھے۔ اُن کا پیغام تھا: ’’یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کوئی کلیسائی نظام نہیں بلکہ یہ ایک ریاست ہے، جس کا اظہار رُوسو سے بھی کہیں پیش تر ایک ایسے وجود میں ہوا، جو عقدِاجتماعی کا پابند ہو۔ (خطبۂ الٰہ آباد، ۱۹۳۰ء)

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابِت ہوں کہ افرنگ کے سیّار

پِیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں

نے جدّتِ گفتار ہے، نے جدّتِ کردار

ہیں اہلِ سیاست کے وہی کُہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاسِ تخیّل میں گرفتار

دنیا کو ہے اُس مہدیِ برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہِ زلزلۂ عالمِ افکار

عیسائیت پہلے بھی یونانی نظریات کے سہارے چل رہی تھی۔ عیسائی لبادے میں ملبوس یہ یونانی خیالات سیکولر یلغار کے نتیجے میں عصرحاضر کا ساتھ نہ نبھا سکے تو انھیں متروک کرنا پڑا جس کی زد عیسائیت پر پڑی، اور اب نشاتِ ثانیہ جدیدیت کا رُوپ دھار کر اکیسویں صدی میں اسلام کے ساتھ نبردآزما ہے جس کا بنیادی مقصد اسلام کو بطور ضابطۂ حیات مشکوک قرار دینا ہے۔ پس منظر اپنے پیش منظر کو خود متعین کرتا ہے۔ نشاتِ ثانیہ کا پس منظر یورپ کے معاشرتی اداروں سے مذہبی افکار کا خاتمہ کر کے انھیں مکمل سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا تھا، جب کہ جدیدیت کا پیش منظر مسلم دنیا کے معاشرتی اور سماجی اداروں، معیشت، معاشرت و سیاست اور ابلاغیات سے مذہبی فکر کو علیحدہ کرکے انھیں سیکولر بنیادوں پر استوار کرنا اور عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی فرد کا ذاتی معاملہ  قرار دے کر انفرادیت تک محدود کرنا ہے۔ عصرِحاضر میں ماضی کی تحریک عقلیت و انسان دوستی کی تحریکوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مذہبی اقدار و شعائر کا تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ علما کے مقابلے میں نامور شخصیات اور اینکرز کو توقیر دی جارہی ہے تاکہ مسلمان نظریاتی اقدار سے تہی دامن رہیں۔

اقبال کے نزدیک یہ آزادی اور جمہوریت کی علامات ہرگز نہیں ہوسکتیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حیلہ گریاں ہیں جو جمہوری قبا میں تاریخ کے مختلف مراحل میں منظرعام پر لائی جاتی ہیں۔ ’خضرراہ‘ میں آزادی کی اس نیلم پری پر وہ اشعار پیش کرتے ہیں:

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر

شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب

تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

یہیں سے اقبال کے ہاں نظریاتی کے بجاے قومی ریاست اور وطنیت کی مخالفت کا دھارا پھوٹتا ہے اور وہ ’بہ مصطفےٰ برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں اور  جذبۂ ایمانی کی قوت کے اظہار کو اس شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں  ؎

قلندر جُز دو حرفِ لا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا

فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہاے حجازی کا

اقبال، علمی قیادت پر تنقید کے علاوہ غیرنظریاتی سیاسی قیادت کا بھی بھرپور احتساب کرتے ہیں اور محمد رسولؐ اللہ کو اصل قائد کے طور پر ’اسوہ‘ کی صورت میں سامنے لاتے ہیں، تاکہ اُمت مسلمہ کے جملہ قائدین آفتاب رسالتؐ کی حقیقی قیادت پر متحد ہوجائیں اور اُسی آفتاب کی کرنوں سے روشنی حاصل کریں ورنہ ڈُور کٹی پتنگ کی طرح اُمت سے اُن کا رابطہ منقطع ہوجائے گا اور وہ   طوافِ کعبہ کے بجاے ’حرمِ مغرب‘ کے زائرین بن کر رہ جائیں گے   ؎

یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں

محترم سیّدابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں:’’اقبال اُن سیاسی زعما و قائدین کے رویوں پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو عالمِ اسلام میں قیادت و سیادت کے دعوے دار تو ہیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا کوئی قلبی و روحانی تعلق و رابطہ نہیں۔ (نقوشِ اقبال، ص ۴۶، طبع ۱۹۷۶ء)

فکرِ اسلامی کی تشکیل نو پر دیے گئے اپنے لیکچرز میں اقبال انھی علمی اور سیاسی زعما کا محاسبہ کرتے ہیں: ’’نجات دہندہ خود ہی بتدریج غلامی کی اُن زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں جن کا مشن اِن زنجیروں سے دوسروں کو آزادی دلانا تھا‘‘۔ (Speeches, Writings  &  Statements   of Iqbal ،اقبال اکادمی، ۲۰۱۵ء، ص ۱۱۷)

اس طرح اقبال نے ’آزادی‘ اور ’عبدیت‘ کے حسین امتزاج کا ایسا تصور پیش کیا تھا، جس سے انسان پر انسان کی خدائی کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور ظلم سے پاک ایک نئی دنیا کی تعمیر بھی۔  مولانا مودودی کے نزدیک بھی خرابی کی اصل جڑ یہی ہے، جس کی اقبال نے نشان دہی کی تھی۔ (تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان، ص ۲۴-۲۵)

اس بڑے مشن کی تکمیل کے لیے اقبال نے مولانا مودودی کو دعوت دے کر دارالاسلام پٹھانکوٹ بلایا اور ملاقاتیں کرکے فکر ِ اسلامی کے احیا، تحقیق اور رجالِ کار کی تیاری کے اداراتی خدوخال طے کیے۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں مولانا مودودی حیدرآباد سے پٹھانکوٹ منتقل ہوئے اور اپریل کے مہینے میں علامہ اقبالؒ اس دنیا سے چل بسے___   اِنَّا لِلّٰہِ  وَ اِنَّا  اِلَیْہِ  رٰجِعُوْن    

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

علّامہ اقبال یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ مغرب کا مطلق العنان آزادی کا تصور، اسلام کے اُن تصورات سے ٹکراتا ہے جن سے کبھی مغرب ماضی میں قوت حاصل کرتا تھا:

ایک وقت ایسا تھا کہ یورپی افکار اسلامی دنیا سے روشنی اور قوت حاصل کرتے تھے مگر اب اسلام روحانی طور پر مغرب کی جانب متحرک ہے، کیوں کہ فطرت پر غلبہ پانے والی انسانی طاقت نے مغرب کو ایک نیا عقیدہ عطا کیا ہے۔( تشکیل جدید الٰہیات ، ص۶)

گمراہی کی طرف جانے والے مغرب کو دوبارہ اسلام کے افکار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، اسلامی افکار کی تشکیلِ نو (Reorientation ) اقبال کے مدنظر وقت کی اہم ضرورت تھی کیوں کہ  اس مقصد کے حصول میں عیسائیت ناکام ہوچکی تھی۔ اقبال کے اِن لیکچروں کا مقصد بھی یہی تھا:

ہمیںاپنے ایمان کی تشکیل نو اور افکار کی تعمیرنو کی ضرورت ہے جس میں عیسائیت ناکام ہوچکی ہے۔ (ایضاً، ص ۶)

آزادی کے بعد یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ مغرب پرستی کے بجاے اسوہ حسنہؐ کی روشنی میں مغرب اور مغرب کی طرف دوڑنے والوں کی ہم نے کتنی رہنمائی کی ہے، جس کی طرف آزادی سے پہلے اقبال واضح نشان دہی فرما گئے تھے۔ فکروعمل کے میدان میں یہ وہ قرض ہے جس کی ادایگی ملت ِاسلامیہ کے ذمّے فرض ہے اور جس کے لیے اقبال نے اپنی زندگی وقف کی تھی اور ان زریں اصولوں کی بنیاد پر دنیا میں امن و استحکام آسکتا ہے، جس کی انسانیت متلاشی ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکرِخاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

قومی بیانیہ (National Narrative )دراصل قوم کی نظریاتی شناخت اور فکر وعمل کا ترجمان ہوتا ہے، جس پر قوم متفق ہو یا جمہوری اصول کے مطابق قوم کی اکثریت کا اتفاق راے پایا جاتا ہو۔ قومی بیانیہ نظریاتی بھی ہو سکتا ہے اور سیکولر بھی۔ مصورِپاکستان علامہ اقبال ؒ نے اسلامی نظریے کا مغرب کے سیکولر نظریے سے تقابل کر کے یہ فرمایا تھا   ؎

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی

قوم رسولِؐ ہاشمی کا بیانیہ ، میثاق ریاستِ مدینہ میںجاری کیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں نے جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کی تشکیل کے وقت عہد کیا تھا کہ سیرتِ رسول ؐ کی روشنی میں زمانۂ حال میں مملکت خدادادِ پاکستان کے قو می بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت کو ہم اُجاگر کریں گے اور فکر وعمل کے نئے اہداف کی طرف رہنمائی کی کوشش کریں گے، تاکہ ریاستی سطح پر عہداول اور عہد ثانی میں وحدتِ فکروعمل پیدا ہو۔

تجدید اور تجدّد

 دین اور اسلامی نظریے کو اگر اصل یا بنیاد قراد دیا جائے توعصر حاضر کے تغیرات پر دو قسم کے جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک ’تجدید‘ کا اور دوسرا ’تجدّد‘ کا۔ زمانے کے تغیرات کو مدّ نظر رکھ کر دین کو  بلاکم وکاست بیان کرنے کا نام ’تجدید‘ ہے جو کہ مستحسن ہے، اور زمانے کے تقاضوں کے نام پر  دین کو بدل ڈالنے کا نام ’تجدّد‘ ہے، جس کی ایک نظریاتی ریاست میں گنجایش نہیں ۔ کیوں کہ بندگان خدا کے لیے اصل وفاداری کا مرکز خداے وحدہ لاشریک کی ذات وصفات ہے، جس کی تعبیر ’توحیدی بیانیہ‘ سے کی جاسکتی ہے۔ اس وحدتِ فکروعمل کو دوئی کے سانچے میں ڈال کر جو بھی    قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے، وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے نزدیک مردُود ہے، کیوں کہ وحی (Revelation) کے ذریعے قرآن کریم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ شرک اور مشرکانہ فکروعمل کو ہرگز معاف نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے باقی گناہوں کو بخش دیتا ہے  ؎

باطل دُوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے

شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

آسمانی بیانیہ میں تحریف اور توحیدی بیانیہ

انجیل مقدس اور دوسری آسمانی کتابوں میں تحریف کا بنیادی پہلو بھی یہی تھا کہ ان کے ’توحیدی بیانیہ‘ کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ اس میں ترمیم واضافہ کر کے بندوں کے نام ربّ کے پیغام کو   بنی اسرائیل نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انجیل میں سب سے خطرناک تحریف یہ کی گئی: ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو ‘‘۔ یہ وہ مشرکانہ بیانیہ ہے، جس کے ذریعے عیسائیوں کے عقیدئہ توحید پر ضرب لگائی گئی۔

’آسمانی بیانیہ‘ تبدیل کرنے کی اس جسارت نے ان قوموں کو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ  اور ضَّآلِّیْنَ بنادیا اور امت مسلمہ کو اس جسارت عظیم سے بچنے کی تاکید نماز کی ہر رکعت میں کی گئی ۔ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ مغضوب قوم یہودی ہیں اور گمراہ اور ضال نصاریٰ ہیں، جب کہ انعام یافتہ ہونے کی علامت ’توحیدی بیانیہ ‘ کو قرار دیا گیا، جو رسول ہاشمی ؐ کی حقیقی قیادت میں ریاست کا بیانیہ تھا۔ اس بیانیے کو اللہ کے رسولؐ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کے سانچے میں ڈھال کر ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بگڑی ہوئی تاریخ کو دوبارہ توحیدی بیانیے پر استوار کرنے کے لیے کفروشرک کے خلاف ریاست مدینہ کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو سخت جدوجہد اور بذریعہ قرآن جہاد عظیم کرنا پڑا۔ قرآن کے الفاظ میں:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹)اللہ کے پیغمبر محمد ؐ اور ان کی معیت میں اہل ایمان کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔

قرآن کریم نے اہل ایمان کے لیے اس بیانیے کو لازوال رشتے سے تعبیر کیا:

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)جو بھی طاغوت کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے گویا اس نے نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھام لیا۔

قومی بیانیہ اور دو طرفہ حکمت عملی

درحقیقت ریاست اور ملت اسلامیہ کا ’قومی بیانیہ‘ ہی ان کا عروۃ الوثقٰی اور حبل اللہ  ہے، جو آپس میں’مفاہمت‘ اور دشمن کے ساتھ ’مزاحمت‘ کی دوطرفہ حکمت عملی کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ یہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی پالیسی سازی کا محور ہونا چاہیے، جو رب کائنات کو اپنا ملجا وماویٰ بنائے اور مشرکانہ بیانیے کو اپنے لیے ضرب کاری کا ہدف سمجھے، اور حق وباطل کے اشتراک کو ہرگز قبول نہ کرے۔ یہی وجہ تھی جب کفارِ قریش مکّہ نے آپ ؐ کے چچا ابو طالب کو آپؐ کے پاس بھیجا تو رسولِؐ خدا کا جواب بلاخوف وخطران کے ہر لالچ کا توڑ تھا:

خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ  آفتاب ومہتاب کے عوض میں اس بیانیے کو ترک کر دوں تومیں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دین کو غالب کر دے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔ (سیرت ابن ہشام، جلداوّل ، ص ۲۶۶)

یہ تھی سنت نبوی ؐ، یعنی ایک نظریاتی مملکت کے سربراہ اوّل کا لائحہ عمل اور ایکشن پلان۔{ FR 584 } عصر حاضر کا بیانیہ اگر رسولؐ اللہ کے بیانیے سے متصادم ہے تو نبی کریمؐ کی سنت کو چھوڑنے والا ہرحکمران اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے اور ان کا دین دینِ سماوی نہیں بلکہ اکبر کے ’دین الٰہی‘ کا بیانیہ ہی ثابت ہوگا جسے مجدّد الف ثانی نے اپنی ضرب کاری سے نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔

 قومی بیانیہ اور درپیش چیلنج

 بے شک امن وترقی تجدید کے باوصف ہماری ضرورت ہے مگر اپنی تہذیب ونظریے کی قیمت پر ہرگز نہیں ۔ لہٰذا، عصر حاضر میں ’قومی بیانیہ ‘ کے حوالے سے ہماری نظریاتی مملکت پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہیں، کیا ترقی کی خاطر یا پھر باطل کے ڈر کے پیش نظر ان چیلنجوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے اور ایک نظریاتی ریاست کے بجاے ایک مجبور محض (functional ) اور سیکورٹی اسٹیٹ کی حیثیت کو قبول کرلیاجائے، یا پھر ہم بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی مشکیں ترغیب و ترہیب (Carrot and Stick) کی پالیسی کے شکنجے میں کَس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مداہنت کی پالیسی ہوگی جسے سورئہ مائدہ میں یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے (جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی) ۔

اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ (المائدہ ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے   نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

درحقیقت غزوئہ احزاب نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ عملی اور اعصابی جنگ ہار گئے تھے۔ اسلامی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی تھی اور اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ کفار جارح کو معلوم ہو گیا کہ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو یہ ہمیں شکست دے ڈالیں گے۔ ریاست مدینہ میں جنگ احزاب کے پس منظر میں مشرکینِ قریش اور یہود نے بیسیوں قبائل کو ساتھ لے کر ’اتحادی فوجیں‘ (Coalition Forces )ترتیب دے کر ریاست مدینہ کے خاتمے کا سوچا تھا۔ ان کی شکست کے بعد رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا: اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا (بخاری، کتاب المغازی)۔ گویا اب وقت گیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے اور اپنے شر کے بیانیے کو تم پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہوں گے۔

’جہادی بیانیہ‘ صرف دفاعی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف اقدامی جنگ (Aggresive War )بھی ہے۔ بیسیوں غزوات اور سرّیوں سے آںحضوؐر اور آپ کے صحابہ ؓ نے  توحیدی بیانیے کو اعلاے کلمۃ اللہ کی رفعتوں سے ہم کنار کیا ۔ ہمیشہ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی یہ دلّی تمنا ہوتی ہے کہ نظام حیات ان کی منشا کے مطابق بدلا جائے، جب کہ رب کائنات اپنا فرمان اتار کر اپنی منشا کے مطابق نبویؐ لائحہ عمل کو نافذ دیکھنا چاہتا ہے اور حکم دیتا ہے : اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) ’’خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘، اور وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا o (الفرقان ۲۵:۵۲) ’’تم اس قرآن کو لے کر ان سے جہاد کبیر کرو ‘‘۔

عالمِ اسلام میں اب یہ جاہلی حکمت عملی اپنے عروج پر ہے۔ماضی میں اس جاہلی فتنے کو میکیاولی اور قدیم چانکیائی فلسفہ نے خوب تقویت دی۔ جب نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا تو ولندیزی، پرتگیزی اور انگریزی استعمار نے جھوٹ اور مکاری پر مبنی بیانیے کو فروغ دے کر مسلم سلطنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ خلافت عثمانیہ کے حصے کر دیے ۔ دین اور دنیاکی دوئی کا فلسفہ گھڑ کر مسلم سیاسی قوتوں کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور ہر قومی ادارے سے مذہب و دین کا خاتمہ کرکے فرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔ اس طرح اسپین اور افریقہ سے لے کر برعظیم پاک وہند تک سارے مسلمان سیاسی اور مذہبی لحاظ سے لامتناہی ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں دست وگریبان ہوگئے کیوں کہ وہ خلافت کے سائبان سے محروم ہو کر بالادست سیکولر قوتوں کے دست نگر بن گئے تھے۔ مزاحمت اگر تھی تو وہ صرف علماے حق کی طرف سے تھی۔ اس لیے کہ سیاسی قوت ہاتھ سے چلے جانے کے بعد جہادی بیانیہ، ریاست کا بیانیہ نہ رہا بلکہ علماے حق عوام الناس تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کاپورا نزلہ علما پر گرا دیا گیا۔ معاشرے میں ان کو  بے حیثیت بنا دیا گیا اور ہزاروں علما کو شہید کیا گیا۔ برطانوی فوج میں چار لاکھ سے زائد مقامی افراد بھرتی کیے گئے جن میں سے دو لاکھ فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ تاجِ برطانیہ کے لیے تقویت اور مزاحم قوتوں اور علما کے لیے تعذیب کا سبب بنے۔ دراصل اس لیے کہ شرک کا بیانیہ ظلم وستم پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کمزور اہل ایمان کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے:

وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج ۸۵:۸) ان سے ان کے انتقام لینے کی اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اللہ غالب اور محمود پر ایمان رکھتے تھے۔

قومی بیانیہ سے انحراف

 قیام پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر لازوال جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے  کیوں کہ پوری قوم ایک بیانیے پر متحد ہو گئی تھی ۔ تا ہم ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے رُونما ہونے کے بعد اسلامی بیانیے کے خلاف زور دار ابلاغی مہم چلائی گئی۔  اس کو سیکولرزم کی فتح  سمجھ کر بائیں بازو کے دانش وَروں نے سیکولر بیانیہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا مضبوط موقف دائیں بازو کے دانش وَروں کا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان دراصل نظریۂ پاکستان کے ترجمان اسلامی بیانیے سے انحراف کا نتیجہ تھا۔

اس موقعے پر جب سبط حسن نے بائیں بازو کے سیکولر موقف پر زور دیا توا لطاف گوہر نے صاف لکھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد اسلامی ریاست کی تخلیق تھا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں الطاف گوہر ماڈرنزم کے پرچار ک تھے مگر وہ جدیدیت کو مذہبیت کی نفی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح  ۱۹۸۵ء میں سبط حسن کے جواب میں معروف وکیل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن خالد ایم اسحاق نے کئی مضامین لکھے جو ڈان میں شائع ہوئے۔ وہ اسلامی نظریے پر مبنی بیانیے کے حق میں تھے۔  خالد اسحاق ایڈووکیٹ نے مدلل انداز میں اسلامی ریاست کے حوالے سے الطاف گوہر کے موقف کی بھر پور تائید کی اور ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانے میں رکھنے کی اہل نصاریٰ کے موقف (Narrative) پر زور دار تنقید کی۔ اقبالؒ نے بھی اسلامی نقطۂ نظر سے پاپائیت کی سخت مخالفت تو کی تھی، مگر دین کے مقصد کے حصول کے لیے ریاست کے وسیلے کے استعمال کے وہ بھرپور حامی تھے  ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

 جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

قائداعظم محمد علی جناح یورپ میں علمی نشوونما پا کر ابتدا میں مذہب اور ریاست کے جدائی کے قائل تھے، مگر ۱۹۳۸ء سے ان کا نقطۂ نظر اس وقت بدل گیا جب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف سے بھیجے گئے علما کے چھے رکنی وفد نے پٹنہ میں بیرسٹر عبدالعزیز کے گھر میں قائداعظم سے ملاقات کی۔ ڈھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد جناح نے مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور وفد کے دیگر ارکان کے سامنے علانیہ کہا:’’کسی اور مذہب میں دین اور ریاست ایک دوسرے سے جدا ہوں یا نہ ہوں، مجھے خوب سمجھ آ گیا ہے کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں‘‘۔

دیوبند کے ان علما کاقائد اعظم کے ساتھ علمی اور سیاسی تعاون ہمیشہ جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء میں پاکستان کے حق میں صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے کے بعد قائد نے ان دونوں علما کو مبار ک باد دی اور ایک نشت میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے سوال کے جواب میں کہا کہ سیاست سے دست بردار ہوکر لندن منتقل ہونے کے بعد میری واپسی آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا سہرا بھی قائد کے حکم پر  انھی دو علما کے سر رہا اور وصیت کے مطابق قائد کی نماز جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی  ع  

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ہمارے ہاں یہ بحث ۷۰ سال سے جاری ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد مبارک باد کا مستحق ہے کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, issues and Conflict کے موضوع پر مقالہ جات اور سیمی نار ز کی کارروائی شائع کر کے قوم کو یک سُو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کا سہرا پروفیسر خورشید احمد اور محقق ڈاکٹر طارق جان کے سر ہے۔ توحیدی بیانیہ کو پروان چڑھانے کے لیے ہر قسم کی ابلاغی اور اداراتی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔

مغربی عصری بیانیہ اور شریعت محمدی ؐ

عصر حاضر میں جدید مغرب کے فلاسفروں نے   Humanism  یا تحریک انسانیت کے نام سے جو بیانیہ دیا ہے، اس میں انسان کو خاکم بدہن اللہ تعالیٰ اور وحی (Revelation)  کے مقابلے میں عقلیت (Rationalism) کو تقدس کا درجہ دیا ہے اور حلال وحرام کے شرعی احکام کی جگہ ’Utilitarianism ‘ یعنی افادیت پسندی کو اپنے تجدد سے ’شریعت‘ قرار دیا ہے۔ حالاںکہ تمام مذاہب سماوی کی رُو سے حاکمیت اعلیٰ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور اسلامی شریعت میں سنتِ رسول ؐ کی آئینی حیثیت بھی مسلّم ہے، کیوں کہ اسوئہ رسول ؐ کی پیروی کے بغیر کوئی بھی بیانیہ ہدایت سے محروم رہے گا۔ حاکمیت اعلیٰ اور سیرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ریاست مدینہ میں کوئی تجاوز نہیں کر سکتا تھا تو آئیڈیل کی حیثیت سے دستورِ پاکستان میں ان حدود کا خیال رکھا گیا اور قانون سازی اور دستوری سازی میں قرار داد مقاصد اور توہین رسالتؐ اور خاتم الانبیا کی عظمت اور تقدس کے اصولوں سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ۔ دستور کے مطابق قرآن وسنت ہمارے قومی فکروعمل کے بنیادی مآخذ اور ہمارے عقیدے کی بنیاد شریعت ہی ہمارا نظام حیات ہے۔ شریعت دراصل اُخروی کامیابی کی خاطر زمینی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے نبویؐ منہج اور ضابطے (Code of Conduct) کا نام ہے، تا کہ بحیثیت خلیفہ، انسان کے ہاتھوں زمینی اقتدار ،آسمانی اقدار کی روشنی میں قائم رہے۔ اسی کو امانت اور اسی کو اللہ سے عہد کہا گیا ہے اور یہی وہ توحیدی بیانیہ ہے، جسے میر حجاز ؐ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا اور طاغوت سے انسان کو خلاصی بخشی ۔اس توحیدی بیانیے کا اصل مقصد ومدعا بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی میں دینا تھا تا کہ دنیا اصلاح اور امن وسلامتی کا مسکن بن جائے۔

اقبال کے نزدیک یہ سب کچھ دین اسلام اور میر حجاز ؐ کی برکت سے ہے: ع  از کلیدِ دیں درِدنیا کُشاد۔ گویا پیغمبر وہ ہستی ہیں، جنھوں نے دین کی کلید سے دنیا کے دروازے واکر دیے اور وسیلۂ دنیا کو مقصد دین کا ذریعہ بنایا اور ترکِ دنیا کو ناجائز قرار دیا۔

مستضعفین کا بیانیہ اور ہمارے قائدین 

زمینی حقائق کے مطابق بیانیہ (Narrative) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ظالم متکبرین کا بیانیہ اور دوسر امستضعفین کا بیانیہ ۔ ظالم اور مظلوم ، طاقت وَر (Oppresor) اور کمزور (Oppressed) کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کمزوروں اور پسے ہوئے مستضعفین کو غلبہ دے کر ان پر احسان کرنا چاہتا ہے تا کہ مستکبرین اپنا بیانیہ کمزور قوموں پر بزور نافذ نہ کرسکیں:

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَo (القصص ۲۸:۵) اور ہم جہاں بھر کے کمزوروں پر یہ احسان کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قیادت اور زمین کی وراثت عطا کرنا چاہتے ہیں۔

چونکہ صدق وعدل پر مبنی قرآن کا بیانیہ بھی طاقت کا متقاضی ہے جو ریاستی سطح پر اداروں کی تمکین اور سیاسی قوت کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ گذشتہ صدی میں برعظیم کے اندر کمزور مسلمانوں پر اللہ کا یہ احسان اس طرح ہوا کہ رب غفور نے ہمیں بلدۃ طیبہ، یعنی پاکستان دیا۔  ساتھ ہی ہندو اکثریت کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیا کیوں کہ وہ رائج الوقت جمہوری اصول کے مطابق برعظیم کی ۲۵ فی صد مسلمان اقلیت پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے۔

برعظیم کی ایسی اعصاب شکن بحرانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر ایک بصیرت افروز اور صاحب کردار قیادت عطا کی۔ بلاشبہہ، ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح اس کے سرخیل تھے۔ وہ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ریاست مدینہ کو آئیڈیل سمجھتے تھے اور اسلام کے بیانیے پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ دونوں قائدین اعلیٰ پاے کے مفکر اور مدّبر اور قانون دان تھے۔ انھوں نے علاحدہ اور خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کے لیے قانونی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور برعظیم کے کمزور مسلمانوں کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اسلامی نظریے پر قائداعظم کا یقین اتنا پختہ تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک سو مرتبہ اور پاکستان بننے کے بعد ۱۴ مرتبہ انھوں نے اپنی تقریروں میں اسلام کے نظریاتی بیانیے پر زور دیا۔

پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے آئین کی تشکیل سے قبل قرار دادِ مقاصد، یعنی Objective Resolution منظور کی، جو حقیقی قومی بیانیے کی عکاس تھی اور میثاقِ مدینہ کا پر تو، اور ایک نظریاتی مملکت کی سنگ میل بھی۔

توحیدی بیانیہ اور قومی آزمایش

قرار دادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے میں اوّل روز سے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔  اسی توحیدی بیانیے کی پاداش میں اس کے روح رواں نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کو یک جا کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد اسد کو عالمی مشن پر بھیجا تھا۔ جب وہ تین اسلامی ملکوں کا دور کر کے ترکی پہنچے تو باطل غالب قوتوں کو خلافت اسلامی کے دوبارہ احیا کا خطرہ کھٹکنے لگا ۔پھر قائداعظم کے ایما پر قائم کردہ ’ادارہ اسلامی تعمیرنو‘ کہ جس کی سربراہی محمد اسد کو سونپی گئی تھی، اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور تمام ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ پورے ۶۸ سال بعد ۴۰صفحات پر مبنی اس قومی ادارے کا بیانیہ اب دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ عملی توحیدی بیانیہ بوجوہ عصر حاضر کے ’قیصر‘ کے لیے خدائی کا حصہ مانگنے والے مشرکوں کو اور مشرکانہ بیانیے کے پیروکار منافقوں کو ایک نظر نہیںبھاتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں مصورِ پاکستان اور قائداعظم کا وژن جھلکتا تھا، جنھوں نے چٹان کی طرح استقامت دکھا کر عالمی باطل  قوتوں کو جمہوری طریقے سے شکست سے دوچار کیا تھا، اور اسلامی بیانیے کے قانونی نفاذ کے لیے ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی۔

قانونی اور دستوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اسلامی جمہوری مملکت میں وقفے وقفے سے مارشل لا کا نفاذ اور جسٹس محمدمنیر کے ہاتھوں اسلامی بیانیے کو مشتبہ بنانے کے لیے قائداعظم محمدعلی جناح کی کردار کشی اسی گہری سازش کا شاخسانہ ہیں، جسے سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah میں بڑی محنت سے علمی طور پر طشت ازبام کیا ہے،اور سیکولر بیانیے کی مکارانہ بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔

اہل دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قرارداد مقاصد کے دستوری بیانیے کے خلاف ترتیب دیے جانے والے بیانیے کو مسترد کریں اور عوام الناس کو شعوری طور پر بیدار کریں کیوں کہ ہم اپنی قومی ریاست کو خدائی کے مقام پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی احسان فراموشی ہو گی اور اپنے محسن قائدین سے غداری بھی، جنھوں نے رزم حق و باطل کے لیے اصل معیار کو حلقۂ یاراں کے لیے روز روشن کی طرح واضح کر دیا تھا اور آپس میں نظریاتی یک جہتی کے فوائد کو عملاً چراغ مصطفویؐ کی روشنی میں ثابت کر دکھایا تھا۔ اقبال کے بقول یہ جہادی بیانیہ شراربولہبی کے لیے ستیزہ کاری کا پیغام ہے :

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفویؐ سے شرار بُولہبی

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

 

 ضروری اعلان

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں روانہ کر دیا جاتا ہے تاکہ پہلے عشرے تک موصول ہوسکے۔ لہٰذا ۱۰ تاریخ تک پرچہ نہ ملنے کی صورت میں اپنے مقامی ڈاک خانہ میں تحقیق و کارروائی کریں اور دو تین روز مزید انتظار کے بعد بھی دستیاب نہ ہو تو دفتر ترجمان کے فون نمبروں پر اپنا خریداری نمبریا نام و پتا بتا کر رابطہ کریں۔ ان شاء اللہ آپ کی شکایت دُور ہوجائے گی اور دوبارہ پرچہ ارسال کردیا جائے گا۔ آپ اپنا زرسالانہ منی آرڈر بنام ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن یا آن لائن بھی کرسکتے ہیں۔

 رجسٹرڈ شمار ے کی سہولت

جن احباب کو ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  نہ ملنے کی شکایت ہے وہ زرسالانہ (400 روپے)کے علاوہ 250/- روپے اضافی (یعنی کُل: 650 روپے) ادا کر کے رجسٹرڈ ڈاک کی سہولت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حوادثِ عالم کے تسلسل میں وہی طرزِعمل کامیابی اور فلاح کی ضمانت ہے جو اُسوۂ رسولؐ کے عین مطابق ہو اور قرآن کریم کے معیار حق و صداقت پر پورا اترتا ہو ۔حق و صداقت کیا ہے اور جھوٹ کیا؟یہ معلوم کرنے کے لیے ہمیں نہ نصاریٰ اور اہل کتاب کی طرح افراط و تفریط کا رویہ اپنانا چاہیے اور نہ فلاسفہ کی فلسفیانہ موشگافیوںکا سہارا لینا چاہیے۔بحیثیت حق جو’ مسلمان ہمارا رویہ کتاب اللہ اور سیرت رسول کی طرف رجوع کا ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کے عروج و زوال اس حدیث کے مطابق قرآن کے ساتھ ان کے سلوک سے مشروط ہے۔اسی لیے ارشاد ہوا:’’اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو عروج نصیب کرتا ہے اور دوسری قوموں کو زوال سے دوچار کرتا ہے‘‘(مسلم)۔ بطور تشریعی امر قرآن ہمیں سمع و طاعت کا پابند بناتا ہے۔البتہ اس شرع کا اطلاق عصر حاضر کے تکوینی امور پر کرنے سے پیش تر زمینی حقائق پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔

گذشتہ پانچ برسوں کے دوران وقوع پذیر حالات و واقعات،دہشت گردی کے نام پر  حق و باطل کی کش مکش، خدائی قوانین کو بدل کر سیکولر قوانین کے اجرا کی جدوجہد، اباحیت، عالمی ذرائع ابلاغ پر پیغمبرآخر الزمان کی ذات اقدس کا تمسخر،قرآن مجید کی علانیہ بے حرمتی اور اسلامی شعار کا مذاق،نیو یارک میں خانہ کعبہ کی شبیہہ پر شراب خانے کی تعمیر، امریکا میں چنگیز خان کے مجسمے کی تنصیب، افغان جیلوں، عراقی عقوبت خانوں اور گوانتاناموبے میں مسلمانوں پر مظالم اور سفاکیت،مظلوم فلسطینیوں اورکشمیریوں کے خلاف یہود و ہنود اور صلیبی قوتوں کے گٹھ جوڑ اور امریکا کی طرف سے امتیازی طور پر بھارت کے ساتھ سول نیوکلیر معاہد ے کے توثیق نے استعمار کے اصل مقاصد کو واضح کر دیا ہے جو عصر حاضر میں فرعونیت کی علامت ہیں۔

تاریخی طور پر فرعونی استعمار کے عزائم اور ان کی پالیسیوں کے ادراک کے لیے قرآن مجید ہمیں جو روشنی فراہم کرتا ہے اس کا سورۂ قصص میں یوں احاطہ کیا گیا ہے: ’’واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوںکو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا،اس کے لڑکوں کو قتل کرتااور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریںان لوگوں پرجو زمین پر ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنا دیں اور انھی کو وارث بنائیں۔اور زمین میں انھیں اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کاانھیں ڈر تھا‘‘۔ (القصص۲۸: ۴-۶) قرآن کے مطابق فرعونی استعمار کی پشت پر اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات۷۹:۲۴) ’’میں ہی تمھارا پروردگارِ اعلیٰ ہوں‘‘کا استکبارکارفرماتھاجس کا وہ عوام میں اعلان کرتا پھرتا تھا۔   اسی لیے اس کو آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ کر اﷲ نے عبرت کا نشانہ بنا دیا ہے۔ہر ’فرعونے را موسی ‘کے مصداق اس مقصد کے لیے ’دشمن‘ کی پرورش فرعون کے محل میں ہوتی رہی۔ جب یک قطبی قوت کے حامل فرعون جارحیت کے مرتکب ہوئے اور ملکوں کو روند ڈالا: الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلاَدِo(الفجر۸۹:۱۱) اور دنیا کو فساد سے بھر دیا: فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ o (الفجر ۸۹:۱۲) تو پھر اﷲ نے اس پر اپنے عذاب کاکوڑا برسایا اور اسی ’دشمن‘ کے ہاتھوں اسے غرقاب کیا اور مستضعفین کو نجات دلا دی۔فرعون کی حنوط شدہ محفوظ لاش ۲۱ویں صدی کے مستعمرین کے لیے عبرت کی ایک کھلی نشانی ہے۔

قرآن مجید میں ایک ایسے ہی خود ساختہ عالمی نظام کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے جو مصر کے فرعونوں نے قائم کیا تھا‘ اس کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس نظام کے علَم برداروں نے زمین میں اپنی بڑائی قائم کی(اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ)، باشندگانِ ملک کو ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم کیا(جَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا)،کچھ لوگوں کو کمزور کیا اور ان کی نسل کشی کی (یَّسْتَضْعِفُ طَـآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ)اور زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے کے موجب ہوئے،(اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ- القصص ۲۸:۴)یہ نظام جو ہزاروں سال پہلے فرعون نے قائم کیا تھا اپنے اندر وہ تمام خصائص رکھتا ہے جو بعد میں سامنے آنے والے دوسرے عالمی نظاموں میں اپنائے گئے لہٰذا قرآن مجید کی رو سے ہر وہ خود ساختہ عالمی نظام فرعونی نظام ہے جو یہ مقاصد رکھتا ہو۔

مستقبل کا لائحہ عمل تعلیمات قرآنی کی روشنی میں

ماضی اور حال کے مستکبرین کے مکر و فریب اور چال بازیوں کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَ اَتٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَo (النحل۱۶:۲۶)’’ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے) ایسی ہی مکاریاں کر چکے ہیں تو دیکھ لو اﷲ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اُوپر سے ان کے سر پر آگری اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا‘‘۔

قرآن مجید کی روشنی میں تکوین میں وقوع پذیر حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے سے احکام تشریع کے اطلاق میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا اور امت مسلمہ کے مخلص افراد ان تعلیمات کی روشنی میں آیندہ کا کوئی لائحہ عمل اور پالیسی ترتیب دینا چاہیں تو قرآن ان کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ــ سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات میںبدعہد مشرکین کو چار ماہ کا نوٹس دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔جس کے اعلان کے لیے حج اکبر کے دن کا تعین کیا گیا تھا اس وقت ابوبکر صدیقؓ حج کے لیے نکل چکے تھے تو حضوؐر نے حضرت علیؓ کو بھیجا کہ مجمع عام میں حاجیوں کو سنائیں اور انھوں نے منیٰ کے اندر جا بجا یہ آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائیں‘ جب کہ حجاج کی قیادت بدستور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں ہی رہی:

’’اعلان براء ت ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لواور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو‘ اور یہ کہ اللہ منکرین ِحق کو رسوا کرنے والا ہے ۔ اطلاع عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ   اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔اب اگر تم توبہ کر لوتو تمھارے ہی لیے بہتر ہے جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔اور اے نبیؐ! انکار کرنے والو ں کو سخت عذاب کی خوش خبری سنا دو بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر انھوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اﷲ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (التوبہ ۹: ۱ -۴)

دوسری جگہ حکم ہوا: فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ’’جب حرام مہینے (ذی القعد،ذی الحج،محرم اور رجب) گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ،قتل کر دو‘‘۔(۹:۵)

سورئہ توبہ کی آیات ۷ تا ۱۵ میں اس نوٹس کے پس منظر میں کفار کو ان الفاظ میں چارج شیٹ دی گئی ہے: ’’ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہو سکتا ہے‘ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ـ۔ تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہوکیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے___مگر اُن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے‘جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیںتو نہ تمھارے معاملے میںکسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی معاہدے کی ذمہ داری کا؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کو شش کرتے ہیںمگر دل ان کے انکار کرتے ہیںاور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔انھوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سدّراہ بن کر کھڑے ہو گئے۔بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔کسی مومن کے معاملے میں نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیںاور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادتی ہمیشہ انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘‘۔(۹:۷-۱۰)

آگے چل کر اسی سورہ کی آیات ۱۳ ،۱۴ اور ۱۵میں یہ حکم دیا گیاہے :’’کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو‘ اللہ تمھارے ہاتھ سے ان کو سزا دلوائے گااور انھیں ذلیل وخوار کرے گااور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گااور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا‘ اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہیـ‘‘۔

بدعھدی کا انجام

بے شک معاہدات انسانی تعلقات کی قدیم ترین بنیادیں ہیں۔عمرانی زندگی میں اگر میثاق وعہد کی خلاف ورزی اور نقضِ عہد کو وطیرہ بنایا جائے تو قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں بدترین فساد اور فتنہ لازمی ہوجاتا ہے۔اس لیے قرآن نے مخصوص صورت حال کے علاوہ عہد کی پابندی کا درس دیا ہے۔جس پیچیدہ صورت حال سے آج پاکستان اور عالمِ اسلام کے ممالک گزر رہے ہیں اور دہشت گردی کے حوالے کیے جانے والے معاہدات ہمارے حکمرانوں کے پاؤں کی زنجیریں بن رہے ہیں۔

تفصیل میں جائے بغیر صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرنے والے مشرکین کی طرف اشارہ کافی ہوگاجو کہ اسلام اور اسلامی مملکت کو پنپتے دیکھ کر ہر بندش سے خود کو آزاد کر کے اسلام پر آخری وار اور مسلمانوں کو مطعون کرنا چاہتے تھے جس نے آنحضوؐر کو خلافِ معمول اسٹرے ٹیجی بدلنے پر مجبور کر دیا جو بالآخر قیصرِ روم کی شکست پر منتج ہوا۔ کیونکہ آنحضوؐر نے صریح بد عہدی کے بعد احزاب یعنی coalition forcesکو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔سورئہ انفال، سورئہ احزاب اور سورئہ توبہ میں تفصیل موجود ہے جو تاریخی تقابل اور واقعاتی تطابق کے حوالے سے موجودہ حالات سے موافقت رکھتے ہیں۔سورئہ انفال کی آیات ۵۵ تا ۵۸ کے تاکیدی ارشادات ملاحظہ ہوں:

یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیںجنھوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔(خصوصاً)ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اورذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔پس اگر یہ لوگ تمھیں لڑائی میں   مل جائیںتو ان کی ایسی خبر لوکہ ان کے بعد دوسرے جو لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں ۔ توقع ہے کہ بدعہدوں کے اس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو اور برابر ہو جائو یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔

اتحادیوں کی عبرت ناک شکست

سورئہ احزاب میں ان اتحادی فوجوںکے انجام بد کی طرف نشان دہی کی گئی ہے جنھوں نے عظیم سلطنت روم کی شہ پر مسلمانوں سے لڑائی کی تھی اور ساتھ ہی یہودیوں کی سرکوبی کی بھی  نوید سنائی گئی ہے جو نہ صرف جزیرۃ العرب میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار تھے بلکہ وہ عالمی سطح پر شروفساد کی پشت پناہی کرتے تھے اور غزوۂ احزاب کے روحِ رواں تھے۔ارشا د ہوا:

اللہ نے کفا ر کا منہ پھیر دیا‘وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی نامراد پلٹ گئے‘ اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا‘ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا‘ اللہ ان کی گڑھیوں سے انھیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اُس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہواور دوسرے گروہ کو   قید کررہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیااور وہ علاقے تمھیںدیے جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (احزاب ۳۳:۲۵-۲۷)

ایک اور جگہ پر دین حق کی حتمی فتح کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد ہوا:

اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(التوبہ۹:۶۱)

امت مسلمہ کے اھداف کا ازسرنوتعین

شریعت اسلامی کی ان اصولی ہدایات اور احکام کی روشنی میں اللہ کے رسولؐاور ان کے جاںنثار صحابہؓ نے جو تکوینی حکمت عملی اپنائی وہ رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے عموماً اور مستضعفین اہل ایمان کے لیے خصوصاً مشعل راہ ہیں۔لہٰذا موجوہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں قرآن اور سیرت رسول کو اپنانا پڑے گا۔اور ہمیں ہر سطح پر اپنی عسکری اور سیاسی پالیسی اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یہی اقدام بدلتی دنیا میں امت مسلمہ کی حیات نو کی ضمانت ہو گی۔  شرع اسلامی میں تکوین میں وقوع پذیر تمام واقعات اور انسانی مسائل کا اصولی حل موجود ہے‘ تاہم اختصار کے ساتھ ان ہدایات کی طرف اشارہ کروں گا جو امت مسلمہ کو یک جہتی اور اپنے اہداف کے ازسر نو تعین میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

  •  اعلاے کلمۃ اللّٰہ: امت مسلمہ کا پہلا ہدف اعلاے کلمۃاللہ، یعنی کلمۂ حق کی بلندی ہونا چاہیے۔ ارشاد خداوندی ہے : تکون کلمۃاﷲ ھِیَ العلیا ’’ تاکہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو جائے‘‘۔ قرآن کی مخالفت اور استہزا کے جواب میں امت کو تمسک بالقرآن والسنۃ کا رویہ اپنانا چاہیے تاکہ کلمۂ کفر سرنگوں ہو جائے اور طاغوتی طاقتیں اپنے انجام بد سے دوچار ہوں۔اللہ کے کھلے اور چھپے دشمنوں کو مرعوب کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے قوت اور ٹکنالوجی کا اصول ضروری ہے۔ ارشاد ہوا : ’’ان کے مقابلے کے لیے جہاں تک تمھارا بس چلے قوت فراہم کرو ‘‘۔
  •  اتحاد امت اور اصول رازداری: امت کا دوسرا ہدف مکمل اتحاد و یک جہتی ہونا چاہیے۔ ارشا د خداوندی ہے : وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’ ’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘۔

مسلمانوں کے درمیان افتراق اور انتشار کے اسباب فراہم کرناشیطانی چالیں ہیں۔ جغرافیائی و طبقاتی تقسیم،مذہبی و سیاسی تفریق ،نسلی اور لسانی امتیاز اور جنس اور رنگ کی بنیاد پر  تعصب و کش مکش کا خاتمہ صرف اعتصام بحبل اللہ کی لڑی میں پرونے اور اختلافات مٹانے میں پوشیدہ ہیں۔اس لیے اولین شرط یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنا رازدار نہ بنائیں۔حکم ہوا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔تمھیں جس چیزسے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے، ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں‘ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتوگے)‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۱۸)یہ آیت مسلمانوں کے خفیہ اداروں کے لیے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا intelligence sharing کے ڈھکوسلوں کا سہارا لینا ناعاقبت اندیشی اور خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔

  •  احترام آدمیت اور مظلوم انسانوں کی مدد: ارشاد ہوا : وَ لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ،(بنی اسرائیل۱۷:۷۰)’’ہم نے بنی آدم کو فضیلت بخشی ہے‘‘۔

احترام آدمیت اور اولاد آدم کی یگانگت کا اصول ہمارا ہدف ہونا چاہیے ۔خدا کے آزاد بندوں کو اپنا بندہ بنانے کے لیے مستکبرین کی تگ و دو کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہونا اور مدد طلب کرنے پر دنیا بھر کے مستضعفین کی بلا امتیاز مدد کرنا اُمت ِمسلمہ کا طرۂ امتیاز ہونا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ، (انفال۸:۷۲) ’’اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے‘‘۔

  •  جھاد فی سبیل اللّٰہ: مستکبرین کے تمام غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کا توڑ صرف ڈپلومیسی سے ممکن نہیں بلکہ یہ جہاد فی سبیل اللہ سے ممکن ہے قرآن کریم میں اس کے لیے کئی مقامات پر تاکیدی احکامات موجود ہیں چند آیات کی طرف اشارہ کافی ہو گا ارشاد ہوا: اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا  وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُنِ (الحج۲۲:۳۹) ’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے‘ کیوںکہ وہ مظلوم ہیں‘ اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے‘‘۔ دوسری جگہ حکم دیا گیا: اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۴۱)’’نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور لڑو اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے‘‘۔ یہ بھی ارشاد ہوا :وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا (البقرہ۲:۱۹۰)’’جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اﷲ کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا‘‘۔ ارشاد خداوندی ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ (التوبہ ۹:۷۳) ’’اے نبیؐ! تم کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان سے سختی سے پیش آؤ ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ (الحج۲۲:۷۸)’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔

جہاد اور قتال وہ ہدف ہے جس سے رو گردانی ذلت و رسوائی کا باعث ہے۔ ما ترک قوم الجھاد الا ضلوا (حدیث)افغانستان اور عراق کے علاوہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد ہماری پالیسی کا جزولاینفک ہونا چاہیے تا کہ برہمن اور سامی النسل مستکبرین کا استکبار و غرور خاک میں مل جائے۔اور دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ تازہ مل جائے۔قرآن کا حکم واضح ہے:’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیںاور فریاد کر رہے ہیںکہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہماراکوئی حامی و مددگار پیدا کر‘‘۔ (النساء۴:۷۵)

  •  تیز رفتار ڈپلومیسی: مذکورہ بالا تکوینی حالات میں قرآنِ کریم کے احکامات ایک تیز رفتار ڈپلومیسی کے بھی متقاضی ہیں جس کا مقصد مقاتلین belligerents کو عالمی سطح پر تنہائی (isolation) کا شکار کرناہوگا لہٰذا ہدایاتِ الٰہی Divine Guidance کی روشنی میں عالمِ اسلام کی قیادتوں اور سفارتی حلقوں کو OICاور UNOکے پلیٹ فارم سے مستکبرین کی گرتی ہوئی عہد شکن طاقتوں کے سامنے اپنے واضح موقف کا اعلان کرنا چاہیے جس کے چیدہ نکات درجِ ذیل ہوسکتے ہیں:
  •     عالمِ اسلام کے خلاف امریکا اور برطانیہ اپنی امپیرئیل گرینڈ اسٹرے ٹیجی پر عمل درآمد فوری روک دیں۔
  •     افغانستان اور عراق سے اتحادی افواج کی چار ماہ کے اندر واپسی کا عمل شروع کرنے کو یقینی بنا یا جائے۔
  •      اسلام کو evil ideology اور انتہا پسند نظریے کی بنیاد پر ابلاغی پروپیگنڈے کا موضوع بنانے ، نیز قرآن اور شعائرِ اسلامی کی بے حرمتی کو روکا جائے۔
  •     بین الاقوامی تعلقات میں انصاف کے اصولوں کو بالاے طاق رکھ کر آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے۔
  •    اسرائیل اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کی عالمی سطح پر حمایت بند کی جائے۔
  •     فلسطین اور کشمیر کی آزادی اور خود مختاری اور حقِخود ارادیت کو یقینی بنایا جائے۔
  • معاشرت اور معیشت کی تنظیم نو: عالم گیریت کے نام پر اسلامی معاشروں کی موجودہ ہیئت اور رویوں میں تبدیلی ،نجی اور سرکاری تنظیموں ،ابلاغ اور قوانین کے بل بوتے پر معاش کے وسائل کو ملٹی نیشنل اداروں کے حوالے کرنا ،اسلامی معاشرے کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو کمزور اور بے عمل بنانا بالادست استعمار کے اہداف ہیں جس نے زیر دست معاشروں اور افراد کو ظلم ،نا انصافی اور استحصال کے سوا کچھ نہیںدیا۔بنا بریں قرآن کریم کی سورئہ حجرات اور دوسری آیات میں دی گئی ہدایات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی رویوں کی درستی ضروری ہے۔ اُمت مسلمہ کو اپنی معاشرتی زندگی میں بد گمانیوں کے بجاے حُسنِ ظن کے اصول کو اپناناچاہیے۔یتیموں، بے کسوں کی کفالت کو شعار بنانا چاہیے جو کہ اسلامی سماجی نظام کفالت کا لازمی جزوہے۔حقوق اللہ اور  حقوق العباد کی ادایگی میں مسلم معاشروں کو استقامت کا رویہ اپنانا چاہیے۔اولاد کے لیے حلال کی کمائی کو ترجیح دینا چاہیے ۔فرد اور معاشرے کی سطح پر لالچ خود غرضی اور بخل کے امراض سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سادگی اور انکساری کی زندگی پر کاربند ہونا چاہیے۔ گلوبلائزیشن کے ضمن میںملکی سطح پرمعاش کی جدوجہد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور منفی سرگرمیوں کی حا مل این جی اوز کا آلہ کار بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سودی معیشت کا خاتمہ اور ملکی اور عالمی سطح پرمسلم اداروں کے استحکام کو ہدف بنانا چاہیے۔سفارتی تعلقات اور امت مسلمہ کی آپس میں تجارت کے فروغ اور مشترکہ منڈی کے قیام کے لیے جدو جہد کرنا چاہیے اور ڈالر اور یورو کے مقابلے میں مسلم ممالک کے لیے مشترک طلائی سکہ رائج کرنا چاہیے اور امت مسلمہ کو ان مقاصد کے حصول کے لیے مسلم ریڈیو و ٹی وی چینل کے قیام اور ابلاغی اداروں کی اصلاح کو ہدف بنانا ہو گا۔معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے ابلاغی پالیسی مرتب کرنا ہو گی تا کہ ابلاغ حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ریاستی سطح پر انجام دیا جاسکے۔

جدید معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ امریکا اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد‘ ادارہ تحقیقات اسلامی‘ آئی آئی یو جیسے مراکزِدانش کی  سائنٹی فک تحقیق اور عالمِ اسلام کے دینی و اصلاحی تحاریک کی اجتماعی دانش سے استفادہ کیا جائے اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے بھی تحاریکِ اسلامی کے تربیت یافتہ کارکن مزّکی کا کردار اداکر سکتے ہیںتاکہ اجتماعی عمل معاشرے میں عملِ صالح کے قالب میں ڈھل جائے۔ اور عالمی بستی میں خیر کو شرپر غلبہ حاصل ہو سکے نیز عدل و احسان پر مبنی فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔تطہیرِ افکار اور تعمیرکردار کا یہ کام جدید ترکی کو ماڈل بنانے سے حاصل نہیں ہوسکتا  لہٰذا ماضی کے استعماری قوانین کو جاری رکھنے کے بجاے پاکستان کی اسلامی آئینی شناخت کو بر قرار رکھا جائے، خاندان کی اکائی اور مشرقیت کا تحفظ کیا جائے،عورتوں کی اسمگلنگ اور flesh trade کا راستہ روکا جائے، این جی اوز کے پریشر گروپس اور ملٹی نیشنل لابیوں کی ترغیبی وترہیبی حربوں کے سامنے   گھٹنے ٹیک کر متفرق نہیں ہوا جائے۔ لہٰذا پروپیگنڈے کے بجاے حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو ۳۰نومبر کو منظور ہونے والا حقوقِ نسواں کا ناقص بل پاکستان کی آئینی اور اسلامی اہداف کے حصول کے مقصد کو پورا نہیں کرتا۔لہٰذا حقوقِ نسواں اور جنسی امتیاز کا مسئلہ آسمانی ہدایت وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرہ۲:۲۲۸) ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘کی بنیاد پر حل کرنا ہوگا‘‘۔ عورتوں کے اور ان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سورئہ نساء اور سورئہ نور کی روشنی میں قانون سازی حقوق نسواں کے تحفظ کو یقینی بنا کر معاشرے میں عورت کو عزت کا مقام عطا کر سکتا ہے۔

  •  تنظیمِ نو کا عالم گیر ماڈل: معاشی اور معاشرتی رویوں کی اصلاح اور تنظیمِ نو کے سلسلے میں ہمیں نمونے کے طور پر سیرتِ رسولؐ سے رہنما اصول اخذ کرنے ہوں گے کیونکہ قرآن کریم ہدایت کو اتباعِ رسول کے ساتھ مشروط کرتا ہے ۔وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَھْتَدُوْا (النور ۲۴:۵۴)’’ اگر تم رسولؐ کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے‘‘۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (احزاب۳۳:۲۱)’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘۔

سیرتِ رسولؐ میں ہمیں دین و دنیا کی جدائی کا تصور نہیں ملتا بلکہ آخرت کے مقاصد یعنیends کے حصول کے لیے دنیا کے وسائل کا استعمال سیرتِ نبویؐکا ایک اہم پہلو اور قرآن کی اس تعلیم کا نچوڑ تھا : وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (القصص ۲۸: ۷۷) ’’اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو‘‘۔ اُخروی مقاصد کی خاطر دنیا کے وسائل برتنے کے آسمانی اصولوں اور پیغمبرانہ ضابطے کو اصطلاح میں ’شریعت ‘ کہتے ہیں۔اس لیے آنحضوؐر نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا: الدنیا مزرعۃ الآخرۃ۔ ماڈل کے طور پر سردارِ دو عالم کے دونوں جہاں میں واحد کامیاب رہنما کی شہادت خود مغرب کے مفکرین بھی دیتے ہیں۔مائیکل ایچ ھارٹ (Michael H.Hart) سو عظیم تاریخ ساز شخصیات کی درجہ بندی میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے نمبر پر شمار کر کے رقم طراز ہے:

محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تاریخ میں وہ واحد شخصیت ہیں جو دین اور دنیا دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ کامران اور کامیاب قرار پائے۔

عالم گیریت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں سرکارِ دوعالمؐ سے بڑھ کر کوئی اورعظیم قائد نہیں مل سکتا جس کی تعلیمات زمینی اور زمانی قیود سے آزاد ہوںاورجس تک پہنچنا کامیابی کی دلیل ہو۔ اسی لیے شاعرِ مشرق نے فرمایا ہے:    ؎  بمصطفیٰؐ برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست

  • خلافت کا قیام : آفاق میں دینِ حق کے غلبے کی واحد صورت زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ کا احیا ہے۔ ماضی کے استعمار کا پہلا ہدف مسلمانوں کی ٹوٹی پھوٹی خلافت کا خاتمہ تھاجسے ۱۹۲۴ء میں سرانجام دیا گیا ۔ لہذا عصر حاضر کے بحران سے نمٹنے کے لیے امت مسلمہ کا اصل ہدف سیاسی طور پر اجتماعی خلافت کے نظام کا قیام ہونا چاہیے جو حق و انصاف اور نیابت الٰہی کے اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔دور جدید میں ریاستی اداروں کی سطح پر مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ اور پریس اور سفارتی و دفا عی اداروں کو ہر حال میں شرعی تقاضوں کا پابند ہونا چاہیے اوراسلامی ممالک اپنے آئین اور قوانین کو اسلام کے دیے ہوئے قرارداد مقاصد کے تحت مرتب کریں۔اجتماعی قیادت ان خامیوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جو جمہوریت اور آمریت اور شخصی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ خلافت کے ضمن میںماضی کے تحقیقی کام کو ضابطے کی صورت میں مرتب کرنا ہو گا اس مقصد کے لیے عالمِ اسلام کی سطح پر مسلم اور مخلص مراکز دانش (ThinkTanks)کا قیام ضروری ہے ۔مسلمانوں کی خلافت ِارضی کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (النور۲۴:۵۵) اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا  ہے‘ ان کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میںپسند کیا ہے‘ اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا۔

بلا شبہہ اصول جہان بانی اور دنیا کو امن آشتی اور انصاف کی فراہمی کے لیے مسلمانوں کے لیے شریعت کے مقرر کردہ اہداف کا حصول شرط اولین ہے جس سے صرف ِنظر کر کے وہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام نہیں حاصل کر سکتے۔

  •  مسلم ورلڈ آرڈر کی تشکیل: ۲۱ویں صدی میں نیو رورلڈ آرڈر کے خاتمے اور مستکبرین کی گرینڈ اسٹرے ٹیجی کے انہدام کے صورت میں دنیا ایک عالمی بحران سے دوچار اور    نظامِ حیات میں ایک بڑا خلا رونما ہو نے والا ہے ۔ اﷲ کی مدد سے اس خلا کو پر کرنے کے لیے  قرآن و سنّت کے مطابق ایک اعلیٰ اسٹرے ٹیجی اور ارفع حکمتِ عملی action plan کی ترتیب اور دنیا بھر کے ستائے ہوئے مستضعفین کو امن اور انصاف کی فراہمی دراصل وہ چیلنج ہے جس سے عنقریب امتِ مسلمہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔ مسلمانوں کی ترقی اور ان کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے مصالحتی کمیشن Inter muslim conflict resolution  جیسے ادارے تشکیل دے کر حل کیا جائے جس کے لیے قرآن سے یہ بنیاد فراہم کی ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ (الحجرات۴۹:۱۰)  ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘ لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو‘‘۔

بلا شبہہ سیرتِ نبویؐاور سیرتِ خلفاے راشدینؓ کی روشنی میں ایک بے لوث مجاہد قیا دت کی فراہمی،صلاحیت و صالحیت کی دو دھاری صفات سے متصّف سول و ملٹری انتظامیہ کی تشکیل،   ایمان دارانہ اور بے لاگ نظامِ قضاۃ کا قیام نیز سچائی کے علَم بردار دیانت دار میڈیا مینیجرز اور مخلص باصلاحیت سفارت کاروں کی فراہمی کو یقینی بنا کر ہی امتِ مسلمہ اس چیلنج سے عہد ہ برآ ہو سکتی ہے۔ نصر من اﷲ و فتح قریب

 

پروپیگنڈا دراصل نفسیاتی جنگ کا ہتھیار ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر کے فرد یا اجتماع کے رویّے میں حسب خواہش تبدیلی لائے۔ ذہنی تنائو کی اس کیفیت کو انگریزی میں نفسیاتی جنگ (psychological warfare)اور جدید عربی اصطلاح میں ’’الحرب النفسیۃ‘‘ کہا جاتا ہے (اسلام اور ذرائع ابلاغ‘ استاد فہمی قطب الدین النجار‘ ترجمہ: ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی‘ ص ۴۴)۔ اس جنگ میں توپ و تفنگ استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ دنیا میں پروپیگنڈے پر خوب رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو عملی جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ پروپیگنڈے کی غرض و غایت مدِّمقابل کو ذہنی شکست سے دوچار کر کے اس کے حوصلے پست کرنا ہوتا ہے(ابلاغ عام‘ مہدی حسن‘ ص ۱۵۴‘ مکتبہ کارواں‘ لاہور)۔پروپیگنڈے کی تہہ میں نظریاتی‘ معاشی اور سیاسی مفادات اور احساسِ کمتری پیدا کرنے کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ ایک بھرپور جنگ ہوتی ہے مگر آتشیں اسلحے کے بغیر لڑی جانے کے سبب اس کو ’’سرد جنگ‘‘ یعنی cold warکا نام دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ مقاصد اور طریقہ کار کا حسن و قبح اِسے مثبت یا منفی بنا دیتا ہے۔

اگرچہ پروپیگنڈے کی اصطلاح ۱۶۲۲ء میں پہلی دفعہ ایک عیسائی مشن کے لیے استعمال ہوئی جو روم سے باہر تبلیغی مقاصد کے لیے گیا تھا اور وہاں کی حکومت ان عیسائیوں کے مخالفانہ خیالات کی تشہیر سے خائف تھی‘ تاہم مذہبی حوالے سے بھی پروپیگنڈے کا وجود نہایت قدیم اور ازلی ہے۔ شیطان نے پروپیگنڈے کے

ہتھیار سے حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی حوا کو اُس شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں منع فرمایا تھا۔

پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ کے مختلف حربے

پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے شواہد قبل از اسلام تاریخ میں ملتے ہیں۔ قبائل کے سرداران اور عمائدین دشمنوں میں فتنہ انگیزیاں کرنے‘ آپس میں پھوٹ ڈالنے ‘ دوسروں کے لیے خود کو پرہیبت اور طاقت ور ظاہر کرنے کے لیے متعدد حیلے اور طریقے استعمال کرتے تھے۔

انبیا علیہم السلام کے خلاف‘ جو اللہ کی طرف سے خبر پہنچانے اور رسالت پر مامور تھے‘ پروپیگنڈے کا حربہ بنی اسرائیل نے اپنایا۔ کفار و فجار کی طرف سے پیغام ربانی کو بے اثر کرنے کے لیے نفسیاتی حربوں کے آثار تاریخ میں ملتے ہیں اور قرآن جگہ جگہ اقوامِ سابقہ کی اِن افترا پردازیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ خود جزیرہ عرب کے اندر مشرکین‘ یہود اور منافقین نے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبردست نفسیاتی جنگ برپا کر رکھی تھی۔ منفی پروپیگنڈے‘ آیات الٰہی کی تکذیب اور دھمکیوں کا ایک طوفان تھا۔ حضورؐ اور اُن کے صحابہؓ کو خوف زدہ کرنے اور لالچ دینے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے۔

  •  شعب ابی طالب میں حضورؐ اور ان کے خاندان کو محصور کرنا اور معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کی حالت میں تین سال تک زندگی گزارنے پر مجبور کرنا‘ اسی نفسیاتی جنگ کا ایک گھنائونا حربہ تھا۔
  •  قرآن کے موثر پیغام کو نہ سننا اور ڈھولکیوں‘ باجوں اور مزامیر کی تفریح گاہیں منعقد کر کے قرآن کے پیغام کو مشتبہ اور غیر اہم بنانا منکرین حق کے پروپیگنڈے کا حصہ تھا جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ فرمایا:

قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ o (حٰمٰ السجدۃ ۴۱:۲۶)

یہ منکرین حق کہتے ہیں ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو‘ شاید کہ اسی طرح تم غالب آجائو‘‘۔

  •  تجارتی میلے اور جشن منانا بظاہر تفریح اور اشتہار بازی تھی مگر اس کی تہہ میں سازش اللہ کے رسولؐ کو تنہا کرنا تھا۔ یہ پروپیگنڈے بسااوقات نتیجہ خیز ہوتے تھے۔

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً نِ اَوْ لَھْوَنِ انْفَضُّوْآ  اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (الجمعہ ۶۲:۱۱)

اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

  •  شعروشاعری اور سخن گوئی عربوں کا اہم ابلاغی ذریعہ تھا۔ عرب بڑے فصیح اللسان تھے۔ پیغام رسالتؐ کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے اس میڈیا کو بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ کعب بن اشرف ایک متمول یہودی اور مشہور شاعر تھا۔ وہ حضورؐکی شان میں توہین آمیز ہجو کہتا تھااور مخالفین کو اُکساتا تھا۔ جنگ بدر میں قریش کی شکست کے بعد مکہ جا کر مسلمانوں کے خلاف خوب شعروشاعری کی اور کشتگانِ بدر کے مرثیے لکھے جن میں انتقام لینے کی تحریص و ترغیب تھی۔ جب واپس مدینہ آیا تو شاعری کے ذریعے لوگوں کو آنحضرت ؐ کے خلاف برانگیختہ کرنا شروع کر دیا۔ (سیرۃ النبیؐ ‘ علامہ شبلی نعمانی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۶‘ طبع چہارم‘ مطبع سعیدی قرآن محل‘ کراچی)

علامہ شبلی ؒ فرماتے ہیں: ’’عربوں میں شاعری کا وہ اثر تھا جو آج یورپ میں بڑے بڑے دانش وروں کی تقریروں اور نامور اخبارات کی تحریروں کا ہوتا ہے‘‘ (ایضاً)۔ جب نظام ابلاغ اسلامی نے باطل کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا تو راے عامہ سے اسلام کے خلاف منفی اثرات کو ختم کرنے اور مثبت اثرات مرتب کرنے میں حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ ، کعبؓ بن مالک، حضرت ثابتؓؓبن قیس نے وہ اہم کردار ادا کیا جو آج کل کے مسلم صحافیوں کے لیے نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کفار اور مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کے دین پر تعصب اور ناحق طرف داری کے سبب نہ صرف آسمانی صداقت اور بے لاگ حقیقت کو ٹھکرا دیا بلکہ اس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھانے کی

اَن تھک کوشش کی۔ حق و باطل کے ابلاغ میں اُس دَور کے ماہرین ابلاغ کی مسابقت کی کوششیں برابر جاری رہیں مگرغلبہ بالآخر حق اور صداقت کا ہوا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’دورِ اسلامی کے شعراے عرب کا کلام بلاغت و فصاحت میں شعراے جاہلیت کے کلام سے کیوں بلند اور ارفع ہے؟ نظم کی طرح نثر میں بھی یہی حال ہے۔ اسی لیے حسان بن ثابتؓ، عمر بن ابی ربیعہ‘ حطیہ‘ جریر‘ فرزدق‘ نصیب‘ عیلان‘ ذی الرمّہ‘ احوص ‘ بشار کے اشعار‘ خطبات اور عبارات و محاورات (یعنی صحافت اور ادب) کا پلّہ نابغہ‘ عنترہ‘ ابن کلثوم‘ زہیر‘ علقمہ بن عبدہ‘ طرفہ بن العبد کے کلام سے بہت اونچا ہے۔ صاحب نظر شخص کا ذوقِ سلیم خود اس فرق کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ دورِ اسلامی کے ماہرین ابلاغ کو خوش قسمتی سے قرآن و حدیث کے معجزانہ کلام کا اسلوب سننے کا اتفاق ہوا اور اُن کی طبائع میں یہ اسلوب رچ بس گیا۔ اس لیے وہ آسمانِ بلاغت کے ستارے بن کر چمکے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون‘ ترجمہ: مولانا سعد حسن خان‘ ۴۹ ویں فصل‘ مطبع جاوید پریس‘ آرام باغ‘ کراچی)

یہود کی سازشیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف یہودیوں کے پروپیگنڈے کے سبب قریش کا جوشِ انتقام اس حد تک بھڑک اُٹھا کہ قریش نے بنونظیر کو پیغام بھیجا کہ ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمھارا استیصال کر دیں گے‘‘۔ (سیرت النبیؐ از مولانا شبلی نعمانی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۹)

ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں: کعب بن اشرف یہودی کفارِ قریش کے مشرکوں کے پاس گیا اور ان کو نبیؐ کے خلاف ہمت دلائی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ آپؐ کے خلاف جنگ کریں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری‘ ج۵‘ ص ۷۹)

جہاں تک کعب کے پروپیگنڈے کا تعلق تھا تو صحابہؓ اور شاعرہ صحابیاتؓ نے اشعار ہی میں ان کے جوابات دیے۔ مگر اس یہودی نے عین اس وقت جب جنگ بدر کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی علانیہ سازشیں شروع کر دیں اور مکہ جا کر قریش کو آمادئہ جنگ کیا۔ اس پر حضورؐ نے اذنِ الٰہی سے مداخلت کی اور کعب بن اشرف کو قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۵۲-۶۰)

اس واقعہ کے بعد یہودی قبائل سخت مرعوب ہو گئے ۔پروپیگنڈے اور افواہوں کے پھیلانے میں یہودیوں اور قریش مکہ کے ساتھ مدینہ کے منافقین بھی پیش پیش تھے۔ بنونظیر کو جب حضورؐ نے مدینہ سے جلاوطن کیا تو دوسرے یہودی قبیلہ بنوقریظہ نے بنونظیر کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنونظیر اپنے آپ کو اونچی ذات کے یہودی تصور کرتے تھے اور اپنے مقتولوں کا پورا خون بہا لیتے تھے‘ جب کہ بنوقریظہ کے مقتول کی دیت آدھی ہوتی تھی۔ آنحضورؐ نے بنوقریظہ پر یہ احسان کیا کہ دیت اور دوسرے معاملات میں ان کو بنونظیر کے برابر قرار دیا۔ مدینہ کے منافقین نے بنونظیر کی جلاوطنی کے وقت اُن کو پیغام بھیجا کہ عبداللہ بن ابی دو ہزار آدمیوں کے ساتھ اُن کی امداد کرے گا۔ قرآن نے یہود اور منافقین کی اس گٹھ جوڑ کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیا:

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا لا وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ  ط (الحشر ۵۹:۱۱)

تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنھوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں ’’اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے‘ اور تمھارے معاملے میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیںگے‘ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمھاری مدد کریں گے‘‘۔

کفر کی اس ملّت واحدہ کا اہل ایمان کے خلاف درپردہ سازشوں کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ اس لیے منافقین مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پروپیگنڈے کے ذریعے بدگمانیاں پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے حالانکہ بنونظیر کا حضورؐ نے جب محاصرہ کیا تو یہودیوں نے منافقین کی مدد کا انتظار کیا مگر عبداللہ ابن ابی اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ سلام بن مشکم اور کنانہ نے حّی بن اخطب سے پوچھا‘ بتائو بھائی! کہاں ہے ابن ابی اور کہاں ہیں اس کی فوجیں اور اس کے حلیف؟ حّی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری تقدیر میں یہ جنگ اور بربادی لکھی تھی‘ اس سے اب کوئی مفر نہیں‘‘ (ضیاء النبیؐ‘ پیر محمد کرم شاہ الازہری‘ ج ۳‘ ص ۶۰۶‘ ضیا القرآن پبلی کیشنز‘ لاہور)۔ بنونظیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوئہ احد کے بعد وقوع پذیر ہوا‘ جب کہ غزوئہ بدر اور غزوئہ احد کے درمیان ۳۸۰ دن کا فصل ہے۔ جنگ بدر ۱۷ رمضان۲ھ بمطابق ۱۵مارچ ۶۲۴ء کو لڑی گئی تھی اور اُحد کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ ۱۵ شوال ۳ھ بمطابق ۳۱ مارچ ۶۲۵ء کو پیش آیا تھا(الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلّم‘ محمد رفیق ڈوگر‘ ج ۲‘ ص ۳۸۳)۔ غزوئہ احد کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ رسولؐ اللہ قتل کر دیے گئے۔ حضرت انس ؓ بن نضر نے اس مخالفانہ پروپیگنڈے کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا :پھر زندگی کا فائدہ کیا؟ اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے۔

اصطلاحات اور طنزیہ الفاظ

پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے دوران منافقین مختلف اصطلاحات اور طنزیہ الفاظ کا سہارا لیتے تھے۔ ان میں سے ایک اصطلاح انصار کے لیے ’’عزت دار‘‘ (اعز) اور مہاجرین کے لیے ’’ذلیل‘‘ یعنی (اذل) کی اصطلاح وضع کی گئی۔

شعبان ۶ھ میں حضورؐ کو بنی المصطلق کی جنگ کے لیے تیاریوں کی اطلاع ملی۔ ایسی اطلاعات کی بروقت وصولی کے لیے حضورؐ خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔خبر ملتے ہی حضورؐ ایک لشکر لے کر اُن کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ ابن سعد کے بیان کے مطابق مریسیع کے مقام پر آنحضرتؐ نے اچانک دشمن کو جا لیا اور تھوڑے سے مقابلے کے بعد پورے قبیلے کو مال و اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ ابھی لشکر اسلام مریسیع کے مقام پر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم جہجاہ بن مسعود غفاری اور قبیلۂ خزرج کے ایک حلیف سنان بن وبرجہنی کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا تو دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی خزرجی نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بات کا بتنگڑ بنایا اور انصار کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا:’’یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ ’’کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے‘‘ --- یہ سب کچھ تمھارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم ہی لوگوں نے ان کو اپنے ہاں لابسایا اور مال و جایداد میں حصے دار بنایا۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظرآئیں۔ پھر اُس نے قسم کھا کر کہا: ’’مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا‘‘۔

قرآن نے اُن کی اس گفتگو کی شہادت دی:

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط (المنٰفقون۶۳:۸)

یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اس پروپیگنڈے کا جواب دیا‘فرمایا:

وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (المنفٰقون ۶۳:۸)

حالاں کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘ مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔

یہ بھی فرمایا گیا:

ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ط (المنٰفقون۶۳:۷)

یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں۔

نفسیاتی دباؤ

اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں مسلمان مہاجرین کا معاشی مقاطعہ اور اُن کو دیوالیہ کرنا مقصود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بڑائی اور کمتری‘ عزت اور ذلت کے جس تصور کا ابلاغ منافقین کر رہے تھے اور انصار کی معاشی بالادستی اور مہاجرین کی مالی احتیاج کا جس انداز سے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے استحصال کرنا چاہتے تھے‘ اس کے پس پردہ محرکات نہایت شر انگیز تھے۔ اُن کے نزدیک اللہ اور اس کے رسُول ؐپر ایمان کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ جس کے لیے معاشی مفادات کو دائو پر لگا دیا جائے۔ ان کا مطمح نظر دنیوی آسایش اور بہتر ’’معیار زندگی‘‘ تھا۔ وہ ’’ترقی یافتہ‘‘ کو عزت دار اور معزز اور غربت کے مارے ہوئے غریب یا ’’ترقی پذیر‘‘ افراد کو ذلیل اور  کم تر تصور کرتے تھے اور دو مسلمانوں کی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر منافقین اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے اہل ایمان کو بہت بڑے فتنے سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور مہاجر مسلمانوں کو ذلیل اور کمتر کے القاب سے نواز کر معاشی پس ماندگی کے سبب احساسِ کمتری میں اُن کو مبتلا کرنا مقصود تھا۔

وہ اس نفسیاتی جنگ کے حربے کے ذریعے مسلمانوں کو نفسیاتی دبائو میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان منفی عزائم کے باوجود منافقین کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ جب حضرت زید بن ارقم ؓ نے سن کر یہ باتیں حضورؐ کو بتا دیں تو منافقین نے حضرت زید بن ارقم ؓ کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ زیدؓ ذاتی دشمنی کی بنیاد پر یہ افواہ پھیلا رہے ہیں۔ خود ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے منفی عزائم کو درپردہ رکھ کر حضرت زیدؓ کی حقیقت بیانی کو ڈِس انفارمیشن‘ افواہ اور جھوٹا پروپیگنڈاقرار دینا چاہتے تھے۔مگر اللہ نے اصل حقیقت کا پردہ اس آیت سے چاک کر کے رکھ دیا اور اُن کے اپنے الفاظ دہرا کر منافقین کے اس راز کو فاش کر دیا جس کو وہ چھپانا چاہتے تھے۔ اس پر حضور ؐ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے کہا کہ اللہ نے تیری سچّی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح حضرت زیدؓ کا وہ ذہنی دبائو بھی ختم ہو گیا جو ہر سچّے رپورٹر یعنی راوی کو اُس کی سچّی خبر کو جھٹلانے پر ہوا کرتا ہے۔

یوں صدق کے علم بردار پیغمبر صادق اور ان کے پیروکاروں کو ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی تعذیب و تکذیب سے گزارا گیا تاکہ سچ اور سچائی کے پیغام کو پھیلنے نہ دیا جائے مگر اللہ کا فیصلہ تھا کہ سچائی کی روشنی کو ظالموں کی افواہوں اور پروپیگنڈے سے روکا نہیں جا سکے گا۔

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلاَمِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ ط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۷-۸)

اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سراطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

تشدد سے اجتناب

منافقین اور خاص طور پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کی نیچ حرکت کا پول کھلنے کے بعد حضرت عمرؓ بے تاب ہو گئے اور حضورؐ سے اجازت مانگی کہ منافق کی گردن اڑا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے عمرؓ! کیا تم یہ چرچا پسند کرتے ہو کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری ‘ ص ۷۲۸)

اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ افواہ سازی کے جرم میں دین کسی کے خلاف پرتشدد کارروائی کی اجازت نہیں دیتا‘ چاہے پس پردہ منافقین طشت از بام ہی کیوں نہ ہوں۔ حکمت عملی کے لحاظ سے بھی پروپیگنڈے کا پرتشدد جواب دینے سے اُن مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی ہے جو افواہ کی تہہ میں کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ رئیس المنافقین کے فرزند حضرت عبداللہؓ نے‘جو ایک مخلص مسلمان تھے‘حضورؐ کے پاس آکر گزارش کی کہ ’’اگر آپؐ اجازت دیں تو میں خود ہی اپنے باپ کا کام تمام کر دوں؟‘‘ تو آپؐ نے اطمینان دلایا کہ قتل کے بجائے میں اُس پر مہربانی کروں گا۔ یہاں تک کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو حضورؐ نے اس کے جنازے میں شرکت کی اور جنازے پر ڈالنے کے لیے اپنی چادر پیش کر دی(تفہیم القرآن‘ جلد ۲‘ ص۲۲۰)۔یہ اُن لوگوں کے ساتھ رحمت للعالمینؐ کا سلوک تھا جو دعویٰ ایمان میں سچّے اور مخلص نہ تھے اور آپؐ کو اذیت پہنچاتے رہے۔

ذاتیات پر حملہ

تہمت‘پروپیگنڈے اور افواہ سازی کی بدترین کارروائی جو آنحضرتؐ کے خلاف کی گئی وہ افسانۂ افک تھا جو غزوہ بنی المصطلق کے سفر کے دوران پیش آیا۔منافقوں کے سرغنہ عبداللہ بن اُبی کو پروپیگنڈے کا یہ زریں موقع ہاتھ آیا اور اس نے حضرت عائشہؓ  اور حضرت صفوانؓ پر بدکاری کی تہمت لگائی‘ اور حسد اور نفاق کی چنگاری سے افواہوں کی آگ خوب بھڑکائی۔ جب حضورؐ مدینہ آئے تو تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈا کیا۔ جھوٹ اور افواہ کس تیزی سے پھیلتی ہے‘ اس کا اندازہ واقعہ افک سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس افواہ اور تہمت کی بازگشت سے مسلم معاشرے میں ہلچل مچ گئی اور کئی مخلص مسلمان بھی جھوٹ اور پروپیگنڈے کے اس زور سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس جھوٹ کا مصنف عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ زید بن رفاعہ تھا جو یہودی منافق کا بیٹا تھا‘ مگر اس سے متاثر ہونے والے مخلص مسلمانوں میں حضرت مسطح ؓبن اثاثہ،حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت حمنہؓ بنت جحش پیش پیش تھے۔ اس بے بنیاد خبر سے عام مسلمانوں اور خود آنحضورؐ کو سخت ذہنی کوفت ہوئی۔آپؐ خاموش تھے اور وحی کے منتظر تھے مگر دیر تک وحی نہ آئی۔

ام المومنین کے خلاف یہ جھوٹی خبراس انداز سے پھیلائی گئی کہ مسلم معاشرے کی راے عامہ بدظن ہونے لگی تھی۔ اس لیے حضورؐ نے سروے کے طور پر چند مرد اور چند خواتین کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ اس افک کے پھیلانے میں بدقسمتی سے زوجۂ رسولؐ حضرت زینبؓ بنت جحش کی بہن حضرت حمنہؓ بنت جحش بھی ملوث تھیں۔ اس لیے آنحضورؐ نے حضرت زینبؓ سے بھی دریافت کیا ’’تمھاری کیا رائے ہے؟ تمھاری معلومات کیا ہیں؟ انھوں نے عرض کی:  احمی سمعی وبصری واللّٰہ ما علمت علیھا الاخیرا‘ میں اپنے کانوں اور آنکھوں (یعنی سمع و بصر) کی حفاظت کرتی ہوں ۔ خدا کی قسم میں عائشہؓ کے بارے میں خیر ہی خیر جانتی ہوں (تاریخ خمیس‘ ج۱‘ ص ۴۷۷۔ ضیاالنبیؐ ‘ ج ۳‘ ص ۶۵۲)۔ یہ اُس سوکن کی گواہی تھی جس کے بارے میں خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ازواج رسولؐ میں سب سے زیادہ زینب سے ہی میرا مقابلہ رہتا تھا۔

اس خلاف حقیقت الزام تراشی پر صحابہ کرامؓ اپنی نجی محفلوں میں بھی گفتگو کرتے تھے ‘ایک ماہ تک اس خبر کی بازگشت اور اس پر ردّعمل کا اظہار ہوتا رہا ‘کیونکہ رسولؐ اللہ کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ آپؐ کا فرمان  ’’اہم ترین خبر‘‘(breaking news) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے آپؐکے خلاف خبر کی اشاعت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔

اس واقعے سے سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ حضرت صفوانؓ نے بقول ابن ہشام ‘حضرت حسانؓ بن ثابت پر قاتلانہ حملہ کیا مگر حضورؐ نے مصالحت کرا کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ یہ افترا پردازی اور سیکنڈل کی خبر اپنی عین فطرت کے مطابق ایک زبان سے دوسری زبان پر چڑھتی اور پھیلتی جا رہی تھی‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی حقیقت حال کھول کر رکھ دی۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: ’’محققین کی رائے کے مطابق حضرت یوسف ؑپر تہمت ِزنا لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک شیرخوار بچے کی زبان سے آپ کی برأت کی۔ حضرت مریم  ؑپر الزام لگایا گیا تو عیسٰی ؑ جوابھی چند دنوں کے بچے تھے انھوں نے آپ کی برأت کی ۔مگر جب منافقین نے حضرت عائشہؓ کو اپنے پروپیگنڈے اور صریح بہتان کا موضوع بنایا اور ہرزہ سرائی کی جسارت کی تو خود ربّ کائنات نے آپ کی پاکیزگی اور طہارت کی شہادت دی اور سورۃ النور کی ابتدائی ۱۰ آیات جس کا براہِ راست تعلق اس واقعے سے ہے‘ نازل فرمائیں۔ (سیرت ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۳۰۴)

افواہ یا جھوٹے پروپیگنڈے پر ردّعمل

افک کے معنی قطعی جھوٹ‘ افترا اور خلاف حقیقت بات ہے۔ اور اگر یہ الزام تراشی کے طور پر بولاجائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہوتے ہیں۔کسی بھی شریف زادی کے خلاف جھوٹے سیکنڈل اور منفی پروپیگنڈے کے ردّعمل میں جو آئیڈیل معاشرتی رویہّ ہو سکتا ہے ‘ ایک اسلامی معاشرے میں وہ یہی رویہّ ہے جس کی قرآن نشان دہی کرتا ہے۔ اگر اہل ایمان صبرو تحمل اور حسنِ ظن سے کام لیں اور پروپیگنڈے کی رَو میں بہنے کے بجائے افواہوں کا سدّباب کریں تو خفیہ دشمن وہ مقاصدحاصل نہیں کر سکتا جو مسلمانوں کو نفسیاتی اُلجھن‘افتراق اور آپس کی بدگمانیوں میں مبتلا کر کے اور اُن کا عمومی تاثر خراب کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سورہ النور میں اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیا گیا:  اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیِّنًا ق وَّھُوَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ o (النور ۲۴:۱۵)  ’’(ذرا غور تو کرو‘ اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جب کہ تمھاری ایک زبان سے دُوسری زبان اِس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے‘ حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی‘‘۔

اس انتباہ کے ساتھ ہی قرآن نے معاً یہ نصیحت بھی کر دی:

وَلَوْلْآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا یَکُوْنَ لَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌo یَعِظُکُمْ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (النور ۲۴: ۱۶-۱۷)

کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ’’ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا‘ سبحان اللہ‘ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے‘‘۔ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آیندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا ‘ اگر تم مومن ہو۔

مسلمانوں کے آپس میں حسنِ ظن کی مزید تاکید یوں کی گئی:

لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌo لَوْلاَ جَآئُ وْعَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَo (النور ۲۴:۱۲-۱۳)

جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں‘ اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے مرد و زن کا آپس میں نیک گمان اور حسنِ ظن ایک ایسی ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر تمام بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ چاہے پس پردہ مکار دشمن کا سرمایہ‘ منصوبہ اور وسائل کا زور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مسلمانوں کے نظریاتی دشمنوں کی من گھڑت خبریں اور گمراہ کن افواہیں ہماری زبان اور ہمارے قلم پر نہ چڑھ جائیںتو پھر کیا مجال کہ یہ شر پھیل کر ہمارے دلوں میں کدورتوں اور ہماری صفوں میں انتشار کو جنم دے؟ لہٰذا ہمیں فکر دشمن کی افترا پردازیوں کی نہیں بلکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے کردار اور اپنے معاشرتی رویّے کی ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے اسلام نے اسلامی معاشرے پر یہ حکم نافذ کر دیا کہ زنا کی تہمت بذریعہ تقریر و تکلم لگائی جائے یا بذریعہ تحریر و تصویر‘ بہرصورت الزام تراشی کرنے والے کو چار گواہوں کے ساتھ ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ ’’حدِّقذف‘‘ کے تحت ۸۰ کوڑوں کی سزا بھگتنا ہوگی۔اس طرح اشاعت فحش کے تمام وسائل و ذرائع کا سدّباب کرنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے اندر دوسروں کی عزت سے کھیلنا کوئی تماشا نہیں جسے تفریح طبع کے لیے ڈرامائی اور رومانوی شکل دی جائے بلکہ اللہ کے نزدیک یہ جرم عظیم ہے۔ اس لیے ریاست کی قوتِ قاہرہ سے اس کو روکنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہتک عزت کی ایسی سزائوں کے نظائراور شواہد موجود ہیں (ملاحظہ ہو‘  البدایۃ والنہایۃ‘ حافظ ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۸۱-۸۲)۔ قرآن نے اسلامی معاشرے میں اشاعت فحش کے ذمہ داروں کی ان الفاظ میں تنبیہ کی:  اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (النور ۲۴:۱۹) ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ یہ آیت میڈیا پالیسی کے خدوخال کا تعین کرتی ہے۔

پروپیگنڈے کا توڑ

واقعہ افک اسلامی تمدّن میں قوانین اور ضوابط میں اضافے کا موجب بن گیا۔ معاشرتی زندگی‘ قذف‘ لعان‘ اشاعت فحش کے قوانین کے علاوہ پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے حکمت عملی بتائی گئی تاکہ دشمن کا شر مسلمانوں کے لیے خیرثابت ہو جائے۔

شریعت اسلامی کفار اور منافقین کے پروپیگنڈے کے ردّعمل میں معاشرتی رویّے اور اسلامی مملکت کے شہریوںکے جرائم پر عمومی قابل تنفیذ احکام میں واضح تفریق کرتی ہے۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا: فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَo (یونس ۱۰:۱۱) ’’ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر حضورؐ کو حکم ہوا: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۶) ’’تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے‘ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ‘‘۔یہ بھی فرمایا گیا:  فَمَھِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْھِلْھُمْ رُوَیْدًا o (الطارق ۸۶:۱۷)’’پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔ یعنی کفر و نفاق کے پیروکاروں کو فوری سزا دلوا کر اسلام اُن کی اخروی سزا میں کمی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُن کو ڈھیل دینا چاہتا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت حمنہؓ بنت جحش اور حضرت مسطح ؓبن اثاثہ کو باضابطہ قذف کی سزائیں دی گئیں اور زید بن رفاعہ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو حضورؐ نے کوئی سزا نہیں دی۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کو جذباتی ہونے سے روک دیا گیا۔ حضورؐ کی اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ عبداللہ بن اُبی اپنے معاشرے میں نکو بن کر رہ گیا اوراس کی عزت خاک میں مل گئی۔ یہاں تک خود اس کے اپنے ساتھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ تب حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے کہا: اے عمرؓ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اُس دن قتل کر دیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس کے بہت سے ہمدرد اُٹھ کھڑے ہوتے لیکن آج انھی ہمدردوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: واللہ! میری سمجھ میں خوب آگیا ہے کہ رسولؐ اللہ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۲۹۳۔ الرحیق المختوم‘ ص ۵۴۳)

پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے یہ حضورؐ کی حکمت عملی تھی کہ آپؐ کی قیادت میں اہل ایمان نے منافقین کے پروپیگنڈے اور توہین آمیز افواہوں کا جواب نہایت باوقار اور اخلاقی معیار کے عین مطابق دے کر دنیا کے سامنے اپنا وہ تاثر برقرار رکھا جو ایک بھلائی کی دعوت دینے والی خیر امت کا ہونا چاہیے۔ ایک قلیل تعداد کی معمولی فروگذاشت پر اللہ نے بروقت ہدایات دے کر اس طرح کے واقعات میں آیندہ نسلوں کے لیے صاف اور شفاف شاہراہ کی نشان دہی کی اور ان واقعات کا تفصیل سے قرآن میں اندراج کر کے تاقیامت یہ حجت قائم کر دی کہ آنحضورؐ کے نام لیوا نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں بھی یہ رویہ اختیار کریں جو اللہ کو مطلوب اور رسولؐ کو محبوب تھا۔کیونکہ جھوٹے اور گمراہ کن الزامات اور بہتان تراشی کے جواب میں شریفانہ اور باوقار ردّعمل جہاں افواہوں کا نشانہ بننے والی قوم یا جتھے کی اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر ہوتا ہے وہاں مخالفین اور افواہ سازوں (propagendists) کے گرتے ہوئے اخلاقی معیار جانچنے کا پیمانہ بھی ہے۔ اگر دشمنوں کے پروپیگنڈے کی اس نہج کا تقابل حضورؐ کے اس منہج سے کیا جائے جو آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنایا اور مکّہ کے ارد گرد پہاڑیوں پر آدھی رات کو ۱۰ ہزار سے زائد آگ کے الائو جلا کر دشمنوں کو نفسیاتی طور پر مرعوب کر دیا تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ باوقار اُمت کی نفسیاتی جنگ کے اصول کتنے معیاری‘ نرالے اور مدبرانہ ہوتے ہیں--- کیا پیروی کے لیے ہمارے لیے اسوئہ رسولؐ کافی نہیں!

سرد جنگ پالیسی کا ادراک

چونکہ پروپیگنڈا اپنے وسیع تر مفہوم میں سرد جنگ کی سیاست کا احاطہ کرتا ہے اس لیے post cold war era میں مغرب کی بدلتی پالیسیوں کا ادراک مسلم ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹن لکھتے ہیں: ’’سردجنگ کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کا مقصدِ اولین ‘ مغرب مخالف معاشروں میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو روکنا ہے… اس کام کی انجام دہی کی کوشش مغرب‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ معاشی دبائو اور ٹکنالوجی کی منتقلی کو روک کر کرتا ہے‘‘ (The clash of civilizations, p 49)  ۔ اس ضمن میں قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ ’’تم دشمن کے مقابلے میں جتنا تمھارا بس چلے طاقت مہیا رکھو‘‘۔ اور حصول قوت کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ ’’تم اس کے ذریعے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائو اور اُن مخفی طاقتوںکو بھی جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ چونکہ نفسیاتی جنگوں میں خفیہ اداروں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے لہٰذا ذرائع ابلاغ کو بالادست طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ کار میں معاشی اور دفاعی طاقت اور ٹکنالوجی کے حصول کی ضرورتوں کو اسلامی دنیا کے میڈیا میں اُجاگر کرنا چاہیے۔ امام قرطبی ؒ نے سورۃ انفال کی چھٹی آیت میں استعمال ہونے والے لفظ ترھبون کا ترجمہ تخیفون کیا ہے یعنی مسلمانوں کو اُن کے بقول مرعوب ہونے کے بجائے طاقت کا رعب جمانا چاہیے اور آخرین من دونھم (ان کے علاوہ دوسرے) سے مراد انھوں نے فارس اور رُوم لیا ہے جو کہ وقت کی سپر طاقتیں تھیں (الجامع لاحکام القرآن‘ ج ۸‘ ص ۳۸۔ تشریح  سورہ انفال)۔ قرآن کی یہ ہدایت دو مستحکم عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اُبھرنے والی اسلامی طاقت کو دی گئی تھی تاکہ deterenceقائم رہے۔

عہد حاضر کے تقاضے

چونکہ پروپیگنڈا زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے اور زمانہ جنگ میں بھی۔ زمانہ جنگ میں افواہ سازی اور پروپیگنڈا اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ کی ذمّہ داری بہت بڑھ جاتی ہے تاکہ پروپیگنڈے سے خوف و ہراس نہ پھیلے اور دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو۔ ایسے مواقع پر ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کریں؟ اُس کی وضاحت قرآن کریم میں یوں کی گئی:

وَاِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لاَ تَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (النساء ۴:۸۳)

جب بھی اُن کے پاس امن یا جنگ کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو یہ اُس کو فوراً نشر کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اُس کو رسول کی طرف یا اپنے میں سے اولی الامر کی طرف لوٹا دیتے تو اُن میں سے جو بھی لوگ اس (خبر) کی تحقیق کر سکتے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے اور اگر تم لوگوں پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اُس کی رحمت شا ملِ حال نہ ہوتی تو تم بھی شیطان کے پیچھے چل پڑتے سوائے چند لوگوں کے۔

یہ آیت منافقین کی شرارتوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو افواہیں پھیلا کر معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرتے تھے۔ اس آیت سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ افواہیں پھیلانا شیطانی کام ہے اور منافقین کی نشانی ہے (تفہیم المسائل‘ مولانا گوہر رحمن‘ ج ۱‘ ص ۴۲۶‘ مکتبہ تفہیم القرآن‘ مردان)۔ لہٰذا ذرائع ابلاغ کے نمایندوں اور میڈیا مینیجرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر اور افواہ یعنی news اورdisinformation میں تمیز کریں اور اس کام کی خاطر کوئی مخصوص ادارہ یا سیکشن قائم کریں جو تحقیق و تجزیے کا ذمہ دار ہو اور وہ خبر کی حقیقت معلوم کرے۔ ایسے تجزیاتی اور تحقیقی ادارے (research & analysis wing) زمانہ جنگ میں خصوصی طور پر فعال ہونے چاہییں۔ خبر چاہے جنگ چھڑنے سے متعلق ہو یا جنگ بندی سے‘ بہرحال دُور رس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ لہٰذا محض مالی مفاد کی خاطر دوسرے اخبار یا نشریاتی اداروں سے مسابقت کی خاطر افواہوں کی سرخی جمانا ‘یا بلاتحقیق خبر نشر کردینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے۔ اس طرح کی جلدبازی شیطان کے اتباع کے مترادف ہے جو اپنی فطرت میں شرپسند اور شرانگیز واقع ہوا ہے۔

دشمن کا پروپیگنڈا اسٹرے ٹیجک مقاصد کے لیے ہو‘ یا ڈپلومیٹک‘ یا پھر کسی لیڈر یا سپہ سالار کی ہتک عزت کے لیے افواہ اڑائی جا رہی ہو‘ حالات کا اور خبروں کا معروضی اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ذمہ دارانہ ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس میں نظریے کی integrety بھی ہوتی ہے اور ملک و قوم کے جائز مفادات کا خیال بھی۔ اپنی جامع معنویت کے اعتبار سے سورہ النساء کی اس آیت میں اولی الامر سے مراد ہر وہ ذمّہ دار شخص ہے جو سول یا فوجی حکام میں سے ہو‘ کسی نیوز ایجنسی یا نشریاتی ادارے کا کرتا دھرتا ہو‘ یا مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کا کوئی ذمّہ دار شخص ہو جس کے ادارے کے متعلق ایسی اطلاع بہم پہنچائی جائے جو dis- information یا افواہ اور پروپیگنڈے کے غلبے کے سبب عوام الناس کے لیے باعث پریشانی بن سکتی ہو۔ ڈس انفارمیشن کی نفسیات کے عنوان سے ابلاغ عام کے مصنف لکھتے ہیں: ’’بعض اوقات افواہیں حکومت کے لیے درد سر بن جاتی ہیں اور ان سے ملک و قوم کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ خصوصاً جنگ اورقومی ابتلا کے زمانے میں افواہوں سے نمٹنا اہم مسئلہ بن جاتا ہے‘‘۔

ذرائع ابلاغ کی حیثیت چونکہ امیج بلڈرز کی سی ہوتی ہے۔ اپنے صدق و عدل سے راے عامہ کو متاثر کر کے وہ معاشرے کی مثبت رہنمائی کر کے اُس کو معروف یعنی the best کی طرف موڑ سکتے ہیں اور منکر یعنی the worstسے بچا بھی سکتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی پروپیگنڈا کر کے وہ معاشرے کو ’’خیر‘‘ اور ’’بہترین‘‘ کے بجائے بدترین نتائج سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ’’اطلاع‘‘ یعنی information وہ قوت ہے جو فائدہ بھی دے سکتی ہے اور نقصان بھی۔ میڈیا دراصل فروغِ ابلاغ اور ترسیل اطلاع کا موثر ذریعہ ہے جس میں نت نئی ٹکنالوجی اور جدت آنے سے دنیا کی طنابیں کھچ گئی ہیں اور عالمی بستی کا تصور عمل کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ اس لیے مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت ذمّہ دارانہ‘ مثبت اور قرآن و سنت کی ہدایات کے عین مطابق ہونا چاہیے تاکہ دشمن کے شرانگیز پروپیگنڈے کو ’’خیر‘‘سے بدلا جا سکے۔