پروپیگنڈا دراصل نفسیاتی جنگ کا ہتھیار ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر کے فرد یا اجتماع کے رویّے میں حسب خواہش تبدیلی لائے۔ ذہنی تنائو کی اس کیفیت کو انگریزی میں نفسیاتی جنگ (psychological warfare)اور جدید عربی اصطلاح میں ’’الحرب النفسیۃ‘‘ کہا جاتا ہے (اسلام اور ذرائع ابلاغ‘ استاد فہمی قطب الدین النجار‘ ترجمہ: ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی‘ ص ۴۴)۔ اس جنگ میں توپ و تفنگ استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ دنیا میں پروپیگنڈے پر خوب رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو عملی جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ پروپیگنڈے کی غرض و غایت مدِّمقابل کو ذہنی شکست سے دوچار کر کے اس کے حوصلے پست کرنا ہوتا ہے(ابلاغ عام‘ مہدی حسن‘ ص ۱۵۴‘ مکتبہ کارواں‘ لاہور)۔پروپیگنڈے کی تہہ میں نظریاتی‘ معاشی اور سیاسی مفادات اور احساسِ کمتری پیدا کرنے کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ ایک بھرپور جنگ ہوتی ہے مگر آتشیں اسلحے کے بغیر لڑی جانے کے سبب اس کو ’’سرد جنگ‘‘ یعنی cold warکا نام دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا‘ مقاصد اور طریقہ کار کا حسن و قبح اِسے مثبت یا منفی بنا دیتا ہے۔
اگرچہ پروپیگنڈے کی اصطلاح ۱۶۲۲ء میں پہلی دفعہ ایک عیسائی مشن کے لیے استعمال ہوئی جو روم سے باہر تبلیغی مقاصد کے لیے گیا تھا اور وہاں کی حکومت ان عیسائیوں کے مخالفانہ خیالات کی تشہیر سے خائف تھی‘ تاہم مذہبی حوالے سے بھی پروپیگنڈے کا وجود نہایت قدیم اور ازلی ہے۔ شیطان نے پروپیگنڈے کے
ہتھیار سے حضرت آدم ؑ اور ان کی بیوی حوا کو اُس شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے انھیں منع فرمایا تھا۔
پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے شواہد قبل از اسلام تاریخ میں ملتے ہیں۔ قبائل کے سرداران اور عمائدین دشمنوں میں فتنہ انگیزیاں کرنے‘ آپس میں پھوٹ ڈالنے ‘ دوسروں کے لیے خود کو پرہیبت اور طاقت ور ظاہر کرنے کے لیے متعدد حیلے اور طریقے استعمال کرتے تھے۔
انبیا علیہم السلام کے خلاف‘ جو اللہ کی طرف سے خبر پہنچانے اور رسالت پر مامور تھے‘ پروپیگنڈے کا حربہ بنی اسرائیل نے اپنایا۔ کفار و فجار کی طرف سے پیغام ربانی کو بے اثر کرنے کے لیے نفسیاتی حربوں کے آثار تاریخ میں ملتے ہیں اور قرآن جگہ جگہ اقوامِ سابقہ کی اِن افترا پردازیوں کی وضاحت کرتا ہے۔ خود جزیرہ عرب کے اندر مشرکین‘ یہود اور منافقین نے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبردست نفسیاتی جنگ برپا کر رکھی تھی۔ منفی پروپیگنڈے‘ آیات الٰہی کی تکذیب اور دھمکیوں کا ایک طوفان تھا۔ حضورؐ اور اُن کے صحابہؓ کو خوف زدہ کرنے اور لالچ دینے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے۔
قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لاَ تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ o (حٰمٰ السجدۃ ۴۱:۲۶)
یہ منکرین حق کہتے ہیں ’’اس قرآن کو ہرگز نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو‘ شاید کہ اسی طرح تم غالب آجائو‘‘۔
وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً نِ اَوْ لَھْوَنِ انْفَضُّوْآ اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط قُلْ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (الجمعہ ۶۲:۱۱)
اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو ‘ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
علامہ شبلی ؒ فرماتے ہیں: ’’عربوں میں شاعری کا وہ اثر تھا جو آج یورپ میں بڑے بڑے دانش وروں کی تقریروں اور نامور اخبارات کی تحریروں کا ہوتا ہے‘‘ (ایضاً)۔ جب نظام ابلاغ اسلامی نے باطل کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا تو راے عامہ سے اسلام کے خلاف منفی اثرات کو ختم کرنے اور مثبت اثرات مرتب کرنے میں حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ ، کعبؓ بن مالک، حضرت ثابتؓؓبن قیس نے وہ اہم کردار ادا کیا جو آج کل کے مسلم صحافیوں کے لیے نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کفار اور مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کے دین پر تعصب اور ناحق طرف داری کے سبب نہ صرف آسمانی صداقت اور بے لاگ حقیقت کو ٹھکرا دیا بلکہ اس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھانے کی
اَن تھک کوشش کی۔ حق و باطل کے ابلاغ میں اُس دَور کے ماہرین ابلاغ کی مسابقت کی کوششیں برابر جاری رہیں مگرغلبہ بالآخر حق اور صداقت کا ہوا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’دورِ اسلامی کے شعراے عرب کا کلام بلاغت و فصاحت میں شعراے جاہلیت کے کلام سے کیوں بلند اور ارفع ہے؟ نظم کی طرح نثر میں بھی یہی حال ہے۔ اسی لیے حسان بن ثابتؓ، عمر بن ابی ربیعہ‘ حطیہ‘ جریر‘ فرزدق‘ نصیب‘ عیلان‘ ذی الرمّہ‘ احوص ‘ بشار کے اشعار‘ خطبات اور عبارات و محاورات (یعنی صحافت اور ادب) کا پلّہ نابغہ‘ عنترہ‘ ابن کلثوم‘ زہیر‘ علقمہ بن عبدہ‘ طرفہ بن العبد کے کلام سے بہت اونچا ہے۔ صاحب نظر شخص کا ذوقِ سلیم خود اس فرق کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ دورِ اسلامی کے ماہرین ابلاغ کو خوش قسمتی سے قرآن و حدیث کے معجزانہ کلام کا اسلوب سننے کا اتفاق ہوا اور اُن کی طبائع میں یہ اسلوب رچ بس گیا۔ اس لیے وہ آسمانِ بلاغت کے ستارے بن کر چمکے‘‘۔ (مقدمہ ابن خلدون‘ ترجمہ: مولانا سعد حسن خان‘ ۴۹ ویں فصل‘ مطبع جاوید پریس‘ آرام باغ‘ کراچی)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف یہودیوں کے پروپیگنڈے کے سبب قریش کا جوشِ انتقام اس حد تک بھڑک اُٹھا کہ قریش نے بنونظیر کو پیغام بھیجا کہ ’’محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر دو ورنہ ہم خود آکر تمھارا استیصال کر دیں گے‘‘۔ (سیرت النبیؐ از مولانا شبلی نعمانی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۹)
ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں: کعب بن اشرف یہودی کفارِ قریش کے مشرکوں کے پاس گیا اور ان کو نبیؐ کے خلاف ہمت دلائی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ آپؐ کے خلاف جنگ کریں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری‘ ج۵‘ ص ۷۹)
جہاں تک کعب کے پروپیگنڈے کا تعلق تھا تو صحابہؓ اور شاعرہ صحابیاتؓ نے اشعار ہی میں ان کے جوابات دیے۔ مگر اس یہودی نے عین اس وقت جب جنگ بدر کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی دوبارہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی علانیہ سازشیں شروع کر دیں اور مکہ جا کر قریش کو آمادئہ جنگ کیا۔ اس پر حضورؐ نے اذنِ الٰہی سے مداخلت کی اور کعب بن اشرف کو قتل کر دیا گیا۔ (تاریخ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۵۲-۶۰)
اس واقعہ کے بعد یہودی قبائل سخت مرعوب ہو گئے ۔پروپیگنڈے اور افواہوں کے پھیلانے میں یہودیوں اور قریش مکہ کے ساتھ مدینہ کے منافقین بھی پیش پیش تھے۔ بنونظیر کو جب حضورؐ نے مدینہ سے جلاوطن کیا تو دوسرے یہودی قبیلہ بنوقریظہ نے بنونظیر کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنونظیر اپنے آپ کو اونچی ذات کے یہودی تصور کرتے تھے اور اپنے مقتولوں کا پورا خون بہا لیتے تھے‘ جب کہ بنوقریظہ کے مقتول کی دیت آدھی ہوتی تھی۔ آنحضورؐ نے بنوقریظہ پر یہ احسان کیا کہ دیت اور دوسرے معاملات میں ان کو بنونظیر کے برابر قرار دیا۔ مدینہ کے منافقین نے بنونظیر کی جلاوطنی کے وقت اُن کو پیغام بھیجا کہ عبداللہ بن ابی دو ہزار آدمیوں کے ساتھ اُن کی امداد کرے گا۔ قرآن نے یہود اور منافقین کی اس گٹھ جوڑ کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیا:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِھِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا لا وَّاِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ ط (الحشر ۵۹:۱۱)
تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنھوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں ’’اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے‘ اور تمھارے معاملے میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیںگے‘ اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمھاری مدد کریں گے‘‘۔
کفر کی اس ملّت واحدہ کا اہل ایمان کے خلاف درپردہ سازشوں کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ اس لیے منافقین مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پروپیگنڈے کے ذریعے بدگمانیاں پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے حالانکہ بنونظیر کا حضورؐ نے جب محاصرہ کیا تو یہودیوں نے منافقین کی مدد کا انتظار کیا مگر عبداللہ ابن ابی اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گیا۔ سلام بن مشکم اور کنانہ نے حّی بن اخطب سے پوچھا‘ بتائو بھائی! کہاں ہے ابن ابی اور کہاں ہیں اس کی فوجیں اور اس کے حلیف؟ حّی نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہماری تقدیر میں یہ جنگ اور بربادی لکھی تھی‘ اس سے اب کوئی مفر نہیں‘‘ (ضیاء النبیؐ‘ پیر محمد کرم شاہ الازہری‘ ج ۳‘ ص ۶۰۶‘ ضیا القرآن پبلی کیشنز‘ لاہور)۔ بنونظیر کی جلاوطنی کا واقعہ غزوئہ احد کے بعد وقوع پذیر ہوا‘ جب کہ غزوئہ بدر اور غزوئہ احد کے درمیان ۳۸۰ دن کا فصل ہے۔ جنگ بدر ۱۷ رمضان۲ھ بمطابق ۱۵مارچ ۶۲۴ء کو لڑی گئی تھی اور اُحد کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ ۱۵ شوال ۳ھ بمطابق ۳۱ مارچ ۶۲۵ء کو پیش آیا تھا(الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلّم‘ محمد رفیق ڈوگر‘ ج ۲‘ ص ۳۸۳)۔ غزوئہ احد کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی تھی کہ رسولؐ اللہ قتل کر دیے گئے۔ حضرت انس ؓ بن نضر نے اس مخالفانہ پروپیگنڈے کے جواب میں یہ موقف اختیار کیا :پھر زندگی کا فائدہ کیا؟ اور بے جگری سے لڑ کر شہید ہوئے۔
پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے دوران منافقین مختلف اصطلاحات اور طنزیہ الفاظ کا سہارا لیتے تھے۔ ان میں سے ایک اصطلاح انصار کے لیے ’’عزت دار‘‘ (اعز) اور مہاجرین کے لیے ’’ذلیل‘‘ یعنی (اذل) کی اصطلاح وضع کی گئی۔
شعبان ۶ھ میں حضورؐ کو بنی المصطلق کی جنگ کے لیے تیاریوں کی اطلاع ملی۔ ایسی اطلاعات کی بروقت وصولی کے لیے حضورؐ خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔خبر ملتے ہی حضورؐ ایک لشکر لے کر اُن کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فتنے کو سر اُٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ ابن سعد کے بیان کے مطابق مریسیع کے مقام پر آنحضرتؐ نے اچانک دشمن کو جا لیا اور تھوڑے سے مقابلے کے بعد پورے قبیلے کو مال و اسباب سمیت گرفتار کر لیا۔ ابھی لشکر اسلام مریسیع کے مقام پر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ایک روز حضرت عمرؓ کے ایک ملازم جہجاہ بن مسعود غفاری اور قبیلۂ خزرج کے ایک حلیف سنان بن وبرجہنی کے درمیان پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ ایک نے انصار کو پکارا تو دوسرے نے مہاجرین کو آواز دی۔ دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی خزرجی نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بات کا بتنگڑ بنایا اور انصار کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا:’’یہ مہاجرین ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں اور ہمارے حریف بن بیٹھے ہیں۔ ہماری اور ان قریشی کنگلوں کی مثال ایسی ہے کہ ’’کتے کو پال تاکہ تجھی کو بھنبھوڑ کھائے‘‘ --- یہ سب کچھ تمھارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم ہی لوگوں نے ان کو اپنے ہاں لابسایا اور مال و جایداد میں حصے دار بنایا۔ آج اگر تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظرآئیں۔ پھر اُس نے قسم کھا کر کہا: ’’مدینے واپس پہنچنے کے بعد جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلیل لوگوں کو نکال باہر کرے گا‘‘۔
قرآن نے اُن کی اس گفتگو کی شہادت دی:
یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ط (المنٰفقون۶۳:۸)
یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اس پروپیگنڈے کا جواب دیا‘فرمایا:
وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (المنفٰقون ۶۳:۸)
حالاں کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے‘ مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں۔
یہ بھی فرمایا گیا:
ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لاَ تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ط (المنٰفقون۶۳:۷)
یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسولؐ کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں۔
اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں مسلمان مہاجرین کا معاشی مقاطعہ اور اُن کو دیوالیہ کرنا مقصود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بڑائی اور کمتری‘ عزت اور ذلت کے جس تصور کا ابلاغ منافقین کر رہے تھے اور انصار کی معاشی بالادستی اور مہاجرین کی مالی احتیاج کا جس انداز سے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے استحصال کرنا چاہتے تھے‘ اس کے پس پردہ محرکات نہایت شر انگیز تھے۔ اُن کے نزدیک اللہ اور اس کے رسُول ؐپر ایمان کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ جس کے لیے معاشی مفادات کو دائو پر لگا دیا جائے۔ ان کا مطمح نظر دنیوی آسایش اور بہتر ’’معیار زندگی‘‘ تھا۔ وہ ’’ترقی یافتہ‘‘ کو عزت دار اور معزز اور غربت کے مارے ہوئے غریب یا ’’ترقی پذیر‘‘ افراد کو ذلیل اور کم تر تصور کرتے تھے اور دو مسلمانوں کی چپقلش سے فائدہ اٹھا کر منافقین اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے اہل ایمان کو بہت بڑے فتنے سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور مہاجر مسلمانوں کو ذلیل اور کمتر کے القاب سے نواز کر معاشی پس ماندگی کے سبب احساسِ کمتری میں اُن کو مبتلا کرنا مقصود تھا۔
وہ اس نفسیاتی جنگ کے حربے کے ذریعے مسلمانوں کو نفسیاتی دبائو میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان منفی عزائم کے باوجود منافقین کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ جب حضرت زید بن ارقم ؓ نے سن کر یہ باتیں حضورؐ کو بتا دیں تو منافقین نے حضرت زید بن ارقم ؓ کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ زیدؓ ذاتی دشمنی کی بنیاد پر یہ افواہ پھیلا رہے ہیں۔ خود ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے منفی عزائم کو درپردہ رکھ کر حضرت زیدؓ کی حقیقت بیانی کو ڈِس انفارمیشن‘ افواہ اور جھوٹا پروپیگنڈاقرار دینا چاہتے تھے۔مگر اللہ نے اصل حقیقت کا پردہ اس آیت سے چاک کر کے رکھ دیا اور اُن کے اپنے الفاظ دہرا کر منافقین کے اس راز کو فاش کر دیا جس کو وہ چھپانا چاہتے تھے۔ اس پر حضور ؐ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے کہا کہ اللہ نے تیری سچّی خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح حضرت زیدؓ کا وہ ذہنی دبائو بھی ختم ہو گیا جو ہر سچّے رپورٹر یعنی راوی کو اُس کی سچّی خبر کو جھٹلانے پر ہوا کرتا ہے۔
یوں صدق کے علم بردار پیغمبر صادق اور ان کے پیروکاروں کو ہر قسم کی جسمانی اور ذہنی تعذیب و تکذیب سے گزارا گیا تاکہ سچ اور سچائی کے پیغام کو پھیلنے نہ دیا جائے مگر اللہ کا فیصلہ تھا کہ سچائی کی روشنی کو ظالموں کی افواہوں اور پروپیگنڈے سے روکا نہیں جا سکے گا۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلاَمِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ ط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف ۶۱:۷-۸)
اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سراطاعت جھکا دینے) کی دعوت دی جا رہی ہو؟ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
منافقین اور خاص طور پر عبداللہ بن ابی ابن سلول کی نیچ حرکت کا پول کھلنے کے بعد حضرت عمرؓ بے تاب ہو گئے اور حضورؐ سے اجازت مانگی کہ منافق کی گردن اڑا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے عمرؓ! کیا تم یہ چرچا پسند کرتے ہو کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری ‘ ص ۷۲۸)
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ افواہ سازی کے جرم میں دین کسی کے خلاف پرتشدد کارروائی کی اجازت نہیں دیتا‘ چاہے پس پردہ منافقین طشت از بام ہی کیوں نہ ہوں۔ حکمت عملی کے لحاظ سے بھی پروپیگنڈے کا پرتشدد جواب دینے سے اُن مقاصد کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی ہے جو افواہ کی تہہ میں کارفرما ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ رئیس المنافقین کے فرزند حضرت عبداللہؓ نے‘جو ایک مخلص مسلمان تھے‘حضورؐ کے پاس آکر گزارش کی کہ ’’اگر آپؐ اجازت دیں تو میں خود ہی اپنے باپ کا کام تمام کر دوں؟‘‘ تو آپؐ نے اطمینان دلایا کہ قتل کے بجائے میں اُس پر مہربانی کروں گا۔ یہاں تک کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو حضورؐ نے اس کے جنازے میں شرکت کی اور جنازے پر ڈالنے کے لیے اپنی چادر پیش کر دی(تفہیم القرآن‘ جلد ۲‘ ص۲۲۰)۔یہ اُن لوگوں کے ساتھ رحمت للعالمینؐ کا سلوک تھا جو دعویٰ ایمان میں سچّے اور مخلص نہ تھے اور آپؐ کو اذیت پہنچاتے رہے۔
تہمت‘پروپیگنڈے اور افواہ سازی کی بدترین کارروائی جو آنحضرتؐ کے خلاف کی گئی وہ افسانۂ افک تھا جو غزوہ بنی المصطلق کے سفر کے دوران پیش آیا۔منافقوں کے سرغنہ عبداللہ بن اُبی کو پروپیگنڈے کا یہ زریں موقع ہاتھ آیا اور اس نے حضرت عائشہؓ اور حضرت صفوانؓ پر بدکاری کی تہمت لگائی‘ اور حسد اور نفاق کی چنگاری سے افواہوں کی آگ خوب بھڑکائی۔ جب حضورؐ مدینہ آئے تو تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈا کیا۔ جھوٹ اور افواہ کس تیزی سے پھیلتی ہے‘ اس کا اندازہ واقعہ افک سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس افواہ اور تہمت کی بازگشت سے مسلم معاشرے میں ہلچل مچ گئی اور کئی مخلص مسلمان بھی جھوٹ اور پروپیگنڈے کے اس زور سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس جھوٹ کا مصنف عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ زید بن رفاعہ تھا جو یہودی منافق کا بیٹا تھا‘ مگر اس سے متاثر ہونے والے مخلص مسلمانوں میں حضرت مسطح ؓبن اثاثہ،حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت حمنہؓ بنت جحش پیش پیش تھے۔ اس بے بنیاد خبر سے عام مسلمانوں اور خود آنحضورؐ کو سخت ذہنی کوفت ہوئی۔آپؐ خاموش تھے اور وحی کے منتظر تھے مگر دیر تک وحی نہ آئی۔
ام المومنین کے خلاف یہ جھوٹی خبراس انداز سے پھیلائی گئی کہ مسلم معاشرے کی راے عامہ بدظن ہونے لگی تھی۔ اس لیے حضورؐ نے سروے کے طور پر چند مرد اور چند خواتین کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ اس افک کے پھیلانے میں بدقسمتی سے زوجۂ رسولؐ حضرت زینبؓ بنت جحش کی بہن حضرت حمنہؓ بنت جحش بھی ملوث تھیں۔ اس لیے آنحضورؐ نے حضرت زینبؓ سے بھی دریافت کیا ’’تمھاری کیا رائے ہے؟ تمھاری معلومات کیا ہیں؟ انھوں نے عرض کی: احمی سمعی وبصری واللّٰہ ما علمت علیھا الاخیرا‘ میں اپنے کانوں اور آنکھوں (یعنی سمع و بصر) کی حفاظت کرتی ہوں ۔ خدا کی قسم میں عائشہؓ کے بارے میں خیر ہی خیر جانتی ہوں (تاریخ خمیس‘ ج۱‘ ص ۴۷۷۔ ضیاالنبیؐ ‘ ج ۳‘ ص ۶۵۲)۔ یہ اُس سوکن کی گواہی تھی جس کے بارے میں خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ازواج رسولؐ میں سب سے زیادہ زینب سے ہی میرا مقابلہ رہتا تھا۔
اس خلاف حقیقت الزام تراشی پر صحابہ کرامؓ اپنی نجی محفلوں میں بھی گفتگو کرتے تھے ‘ایک ماہ تک اس خبر کی بازگشت اور اس پر ردّعمل کا اظہار ہوتا رہا ‘کیونکہ رسولؐ اللہ کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ آپؐ کا فرمان ’’اہم ترین خبر‘‘(breaking news) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے آپؐکے خلاف خبر کی اشاعت بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔
اس واقعے سے سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ حضرت صفوانؓ نے بقول ابن ہشام ‘حضرت حسانؓ بن ثابت پر قاتلانہ حملہ کیا مگر حضورؐ نے مصالحت کرا کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ یہ افترا پردازی اور سیکنڈل کی خبر اپنی عین فطرت کے مطابق ایک زبان سے دوسری زبان پر چڑھتی اور پھیلتی جا رہی تھی‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی حقیقت حال کھول کر رکھ دی۔ علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں: ’’محققین کی رائے کے مطابق حضرت یوسف ؑپر تہمت ِزنا لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک شیرخوار بچے کی زبان سے آپ کی برأت کی۔ حضرت مریم ؑپر الزام لگایا گیا تو عیسٰی ؑ جوابھی چند دنوں کے بچے تھے انھوں نے آپ کی برأت کی ۔مگر جب منافقین نے حضرت عائشہؓ کو اپنے پروپیگنڈے اور صریح بہتان کا موضوع بنایا اور ہرزہ سرائی کی جسارت کی تو خود ربّ کائنات نے آپ کی پاکیزگی اور طہارت کی شہادت دی اور سورۃ النور کی ابتدائی ۱۰ آیات جس کا براہِ راست تعلق اس واقعے سے ہے‘ نازل فرمائیں۔ (سیرت ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۳۰۴)
افک کے معنی قطعی جھوٹ‘ افترا اور خلاف حقیقت بات ہے۔ اور اگر یہ الزام تراشی کے طور پر بولاجائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہوتے ہیں۔کسی بھی شریف زادی کے خلاف جھوٹے سیکنڈل اور منفی پروپیگنڈے کے ردّعمل میں جو آئیڈیل معاشرتی رویہّ ہو سکتا ہے ‘ ایک اسلامی معاشرے میں وہ یہی رویہّ ہے جس کی قرآن نشان دہی کرتا ہے۔ اگر اہل ایمان صبرو تحمل اور حسنِ ظن سے کام لیں اور پروپیگنڈے کی رَو میں بہنے کے بجائے افواہوں کا سدّباب کریں تو خفیہ دشمن وہ مقاصدحاصل نہیں کر سکتا جو مسلمانوں کو نفسیاتی اُلجھن‘افتراق اور آپس کی بدگمانیوں میں مبتلا کر کے اور اُن کا عمومی تاثر خراب کر کے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سورہ النور میں اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیا گیا: اِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیِّنًا ق وَّھُوَ عِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ o (النور ۲۴:۱۵) ’’(ذرا غور تو کرو‘ اُس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جب کہ تمھاری ایک زبان سے دُوسری زبان اِس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمھیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے‘ حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی‘‘۔
اس انتباہ کے ساتھ ہی قرآن نے معاً یہ نصیحت بھی کر دی:
وَلَوْلْآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّا یَکُوْنَ لَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌo یَعِظُکُمْ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (النور ۲۴: ۱۶-۱۷)
کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ’’ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا‘ سبحان اللہ‘ یہ تو ایک بہتان عظیم ہے‘‘۔ اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آیندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا ‘ اگر تم مومن ہو۔
مسلمانوں کے آپس میں حسنِ ظن کی مزید تاکید یوں کی گئی:
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌo لَوْلاَ جَآئُ وْعَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَo (النور ۲۴:۱۲-۱۳)
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں‘ اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے مرد و زن کا آپس میں نیک گمان اور حسنِ ظن ایک ایسی ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر تمام بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ چاہے پس پردہ مکار دشمن کا سرمایہ‘ منصوبہ اور وسائل کا زور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مسلمانوں کے نظریاتی دشمنوں کی من گھڑت خبریں اور گمراہ کن افواہیں ہماری زبان اور ہمارے قلم پر نہ چڑھ جائیںتو پھر کیا مجال کہ یہ شر پھیل کر ہمارے دلوں میں کدورتوں اور ہماری صفوں میں انتشار کو جنم دے؟ لہٰذا ہمیں فکر دشمن کی افترا پردازیوں کی نہیں بلکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے کردار اور اپنے معاشرتی رویّے کی ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے اسلام نے اسلامی معاشرے پر یہ حکم نافذ کر دیا کہ زنا کی تہمت بذریعہ تقریر و تکلم لگائی جائے یا بذریعہ تحریر و تصویر‘ بہرصورت الزام تراشی کرنے والے کو چار گواہوں کے ساتھ ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ ’’حدِّقذف‘‘ کے تحت ۸۰ کوڑوں کی سزا بھگتنا ہوگی۔اس طرح اشاعت فحش کے تمام وسائل و ذرائع کا سدّباب کرنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ مسلم معاشرے کے اندر دوسروں کی عزت سے کھیلنا کوئی تماشا نہیں جسے تفریح طبع کے لیے ڈرامائی اور رومانوی شکل دی جائے بلکہ اللہ کے نزدیک یہ جرم عظیم ہے۔ اس لیے ریاست کی قوتِ قاہرہ سے اس کو روکنا ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہتک عزت کی ایسی سزائوں کے نظائراور شواہد موجود ہیں (ملاحظہ ہو‘ البدایۃ والنہایۃ‘ حافظ ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۸۱-۸۲)۔ قرآن نے اسلامی معاشرے میں اشاعت فحش کے ذمہ داروں کی ان الفاظ میں تنبیہ کی: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط (النور ۲۴:۱۹) ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔ یہ آیت میڈیا پالیسی کے خدوخال کا تعین کرتی ہے۔
واقعہ افک اسلامی تمدّن میں قوانین اور ضوابط میں اضافے کا موجب بن گیا۔ معاشرتی زندگی‘ قذف‘ لعان‘ اشاعت فحش کے قوانین کے علاوہ پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے حکمت عملی بتائی گئی تاکہ دشمن کا شر مسلمانوں کے لیے خیرثابت ہو جائے۔
شریعت اسلامی کفار اور منافقین کے پروپیگنڈے کے ردّعمل میں معاشرتی رویّے اور اسلامی مملکت کے شہریوںکے جرائم پر عمومی قابل تنفیذ احکام میں واضح تفریق کرتی ہے۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا: فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَo (یونس ۱۰:۱۱) ’’ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوٹ دے دیتے ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر حضورؐ کو حکم ہوا: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۶) ’’تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے‘ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ‘‘۔یہ بھی فرمایا گیا: فَمَھِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْھِلْھُمْ رُوَیْدًا o (الطارق ۸۶:۱۷)’’پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔ یعنی کفر و نفاق کے پیروکاروں کو فوری سزا دلوا کر اسلام اُن کی اخروی سزا میں کمی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اُن کو ڈھیل دینا چاہتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت حسان ؓبن ثابت، حضرت حمنہؓ بنت جحش اور حضرت مسطح ؓبن اثاثہ کو باضابطہ قذف کی سزائیں دی گئیں اور زید بن رفاعہ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی کو حضورؐ نے کوئی سزا نہیں دی۔ اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کو جذباتی ہونے سے روک دیا گیا۔ حضورؐ کی اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ عبداللہ بن اُبی اپنے معاشرے میں نکو بن کر رہ گیا اوراس کی عزت خاک میں مل گئی۔ یہاں تک خود اس کے اپنے ساتھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ تب حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے کہا: اے عمرؓ! کیا خیال ہے ؟ دیکھو واللہ! اگر تم نے اس شخص کو اُس دن قتل کر دیا ہوتا جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس کے بہت سے ہمدرد اُٹھ کھڑے ہوتے لیکن آج انھی ہمدردوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: واللہ! میری سمجھ میں خوب آگیا ہے کہ رسولؐ اللہ کا معاملہ میرے معاملے سے زیادہ بابرکت ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ ج ۲‘ ص ۲۹۳۔ الرحیق المختوم‘ ص ۵۴۳)
پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے یہ حضورؐ کی حکمت عملی تھی کہ آپؐ کی قیادت میں اہل ایمان نے منافقین کے پروپیگنڈے اور توہین آمیز افواہوں کا جواب نہایت باوقار اور اخلاقی معیار کے عین مطابق دے کر دنیا کے سامنے اپنا وہ تاثر برقرار رکھا جو ایک بھلائی کی دعوت دینے والی خیر امت کا ہونا چاہیے۔ ایک قلیل تعداد کی معمولی فروگذاشت پر اللہ نے بروقت ہدایات دے کر اس طرح کے واقعات میں آیندہ نسلوں کے لیے صاف اور شفاف شاہراہ کی نشان دہی کی اور ان واقعات کا تفصیل سے قرآن میں اندراج کر کے تاقیامت یہ حجت قائم کر دی کہ آنحضورؐ کے نام لیوا نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں بھی یہ رویہ اختیار کریں جو اللہ کو مطلوب اور رسولؐ کو محبوب تھا۔کیونکہ جھوٹے اور گمراہ کن الزامات اور بہتان تراشی کے جواب میں شریفانہ اور باوقار ردّعمل جہاں افواہوں کا نشانہ بننے والی قوم یا جتھے کی اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر ہوتا ہے وہاں مخالفین اور افواہ سازوں (propagendists) کے گرتے ہوئے اخلاقی معیار جانچنے کا پیمانہ بھی ہے۔ اگر دشمنوں کے پروپیگنڈے کی اس نہج کا تقابل حضورؐ کے اس منہج سے کیا جائے جو آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنایا اور مکّہ کے ارد گرد پہاڑیوں پر آدھی رات کو ۱۰ ہزار سے زائد آگ کے الائو جلا کر دشمنوں کو نفسیاتی طور پر مرعوب کر دیا تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ باوقار اُمت کی نفسیاتی جنگ کے اصول کتنے معیاری‘ نرالے اور مدبرانہ ہوتے ہیں--- کیا پیروی کے لیے ہمارے لیے اسوئہ رسولؐ کافی نہیں!
چونکہ پروپیگنڈا اپنے وسیع تر مفہوم میں سرد جنگ کی سیاست کا احاطہ کرتا ہے اس لیے post cold war era میں مغرب کی بدلتی پالیسیوں کا ادراک مسلم ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر سموئیل ہنٹنگٹن لکھتے ہیں: ’’سردجنگ کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کا مقصدِ اولین ‘ مغرب مخالف معاشروں میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو روکنا ہے… اس کام کی انجام دہی کی کوشش مغرب‘ بین الاقوامی معاہدوں‘ معاشی دبائو اور ٹکنالوجی کی منتقلی کو روک کر کرتا ہے‘‘ (The clash of civilizations, p 49) ۔ اس ضمن میں قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ ’’تم دشمن کے مقابلے میں جتنا تمھارا بس چلے طاقت مہیا رکھو‘‘۔ اور حصول قوت کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ ’’تم اس کے ذریعے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائو اور اُن مخفی طاقتوںکو بھی جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے‘‘۔ چونکہ نفسیاتی جنگوں میں خفیہ اداروں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے لہٰذا ذرائع ابلاغ کو بالادست طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ کار میں معاشی اور دفاعی طاقت اور ٹکنالوجی کے حصول کی ضرورتوں کو اسلامی دنیا کے میڈیا میں اُجاگر کرنا چاہیے۔ امام قرطبی ؒ نے سورۃ انفال کی چھٹی آیت میں استعمال ہونے والے لفظ ترھبون کا ترجمہ تخیفون کیا ہے یعنی مسلمانوں کو اُن کے بقول مرعوب ہونے کے بجائے طاقت کا رعب جمانا چاہیے اور آخرین من دونھم (ان کے علاوہ دوسرے) سے مراد انھوں نے فارس اور رُوم لیا ہے جو کہ وقت کی سپر طاقتیں تھیں (الجامع لاحکام القرآن‘ ج ۸‘ ص ۳۸۔ تشریح سورہ انفال)۔ قرآن کی یہ ہدایت دو مستحکم عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اُبھرنے والی اسلامی طاقت کو دی گئی تھی تاکہ deterenceقائم رہے۔
چونکہ پروپیگنڈا زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے اور زمانہ جنگ میں بھی۔ زمانہ جنگ میں افواہ سازی اور پروپیگنڈا اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ کی ذمّہ داری بہت بڑھ جاتی ہے تاکہ پروپیگنڈے سے خوف و ہراس نہ پھیلے اور دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو۔ ایسے مواقع پر ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کریں؟ اُس کی وضاحت قرآن کریم میں یوں کی گئی:
وَاِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ط وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لاَ تَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلاَّ قَلِیْلاً o (النساء ۴:۸۳)
جب بھی اُن کے پاس امن یا جنگ کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو یہ اُس کو فوراً نشر کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اُس کو رسول کی طرف یا اپنے میں سے اولی الامر کی طرف لوٹا دیتے تو اُن میں سے جو بھی لوگ اس (خبر) کی تحقیق کر سکتے ہیں وہ اس کی حقیقت معلوم کر لیتے اور اگر تم لوگوں پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اُس کی رحمت شا ملِ حال نہ ہوتی تو تم بھی شیطان کے پیچھے چل پڑتے سوائے چند لوگوں کے۔
یہ آیت منافقین کی شرارتوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو افواہیں پھیلا کر معاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرتے تھے۔ اس آیت سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ افواہیں پھیلانا شیطانی کام ہے اور منافقین کی نشانی ہے (تفہیم المسائل‘ مولانا گوہر رحمن‘ ج ۱‘ ص ۴۲۶‘ مکتبہ تفہیم القرآن‘ مردان)۔ لہٰذا ذرائع ابلاغ کے نمایندوں اور میڈیا مینیجرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر اور افواہ یعنی news اورdisinformation میں تمیز کریں اور اس کام کی خاطر کوئی مخصوص ادارہ یا سیکشن قائم کریں جو تحقیق و تجزیے کا ذمہ دار ہو اور وہ خبر کی حقیقت معلوم کرے۔ ایسے تجزیاتی اور تحقیقی ادارے (research & analysis wing) زمانہ جنگ میں خصوصی طور پر فعال ہونے چاہییں۔ خبر چاہے جنگ چھڑنے سے متعلق ہو یا جنگ بندی سے‘ بہرحال دُور رس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ لہٰذا محض مالی مفاد کی خاطر دوسرے اخبار یا نشریاتی اداروں سے مسابقت کی خاطر افواہوں کی سرخی جمانا ‘یا بلاتحقیق خبر نشر کردینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے۔ اس طرح کی جلدبازی شیطان کے اتباع کے مترادف ہے جو اپنی فطرت میں شرپسند اور شرانگیز واقع ہوا ہے۔
دشمن کا پروپیگنڈا اسٹرے ٹیجک مقاصد کے لیے ہو‘ یا ڈپلومیٹک‘ یا پھر کسی لیڈر یا سپہ سالار کی ہتک عزت کے لیے افواہ اڑائی جا رہی ہو‘ حالات کا اور خبروں کا معروضی اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ذمہ دارانہ ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس میں نظریے کی integrety بھی ہوتی ہے اور ملک و قوم کے جائز مفادات کا خیال بھی۔ اپنی جامع معنویت کے اعتبار سے سورہ النساء کی اس آیت میں اولی الامر سے مراد ہر وہ ذمّہ دار شخص ہے جو سول یا فوجی حکام میں سے ہو‘ کسی نیوز ایجنسی یا نشریاتی ادارے کا کرتا دھرتا ہو‘ یا مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کا کوئی ذمّہ دار شخص ہو جس کے ادارے کے متعلق ایسی اطلاع بہم پہنچائی جائے جو dis- information یا افواہ اور پروپیگنڈے کے غلبے کے سبب عوام الناس کے لیے باعث پریشانی بن سکتی ہو۔ ڈس انفارمیشن کی نفسیات کے عنوان سے ابلاغ عام کے مصنف لکھتے ہیں: ’’بعض اوقات افواہیں حکومت کے لیے درد سر بن جاتی ہیں اور ان سے ملک و قوم کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ خصوصاً جنگ اورقومی ابتلا کے زمانے میں افواہوں سے نمٹنا اہم مسئلہ بن جاتا ہے‘‘۔
ذرائع ابلاغ کی حیثیت چونکہ امیج بلڈرز کی سی ہوتی ہے۔ اپنے صدق و عدل سے راے عامہ کو متاثر کر کے وہ معاشرے کی مثبت رہنمائی کر کے اُس کو معروف یعنی the best کی طرف موڑ سکتے ہیں اور منکر یعنی the worstسے بچا بھی سکتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی پروپیگنڈا کر کے وہ معاشرے کو ’’خیر‘‘ اور ’’بہترین‘‘ کے بجائے بدترین نتائج سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ’’اطلاع‘‘ یعنی information وہ قوت ہے جو فائدہ بھی دے سکتی ہے اور نقصان بھی۔ میڈیا دراصل فروغِ ابلاغ اور ترسیل اطلاع کا موثر ذریعہ ہے جس میں نت نئی ٹکنالوجی اور جدت آنے سے دنیا کی طنابیں کھچ گئی ہیں اور عالمی بستی کا تصور عمل کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ اس لیے مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت ذمّہ دارانہ‘ مثبت اور قرآن و سنت کی ہدایات کے عین مطابق ہونا چاہیے تاکہ دشمن کے شرانگیز پروپیگنڈے کو ’’خیر‘‘سے بدلا جا سکے۔