اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

۱۴ اگست ___ یوم تجدید عہد

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

۱۴ اگست ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے محض ایک دن نہیں--- یہ وہ دن ہے جب برعظیم پاک و ہند میں تاریخ نے ایک نئی اور فیصلہ کن کروٹ لی۔ برعظیم کے مسلمانوں نے ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد نہ صرف یہ کہ برطانوی سامراج کی دو سو سالہ غلامی کا جوا اپنے کندھوںسے اُتار پھینکا بلکہ نئے ہندو سامراج کے تسلط سے بھی نجات حاصل کرلی تاکہ کم از کم ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے یہ ملّت اپنے دین‘ ایمان‘ روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں ایک آزاد فضا میں اپنے مستقبل کی تعمیرکرسکے۔

تحریک آزادی‘ پس منظر اور جدوجہد: برعظیم پاک و ہند پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اور یہاں کی تمام اقوام کے ساتھ انسانی شرف واکرام اور عدل و انصاف کے ساتھ معاملہ کیا۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دین کی دعوت و تبلیغ کے باب میں وہ شدید غفلت کے مرتکب ہوئے‘ خصوصیت سے ان کے حکمران اور بااثر طبقات۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ مسلمان عددی اعتبار سے آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ رہے جن کا نصف ان صوبوں میں تھا جہاں انھیں عوامی اکثریت حاصل تھی اور باقی ملک کے دوسرے تمام صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ برطانوی سامراج کے دَور میں مسلمانوں نے بہ حیثیت مجموعی بیرونی استعمار کی مخالفت کی اورکچھ طبقات کو چھوڑ کر ایک بڑے حصے نے اس سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً حکمرانوں سے مسلسل تصادم اور سیاسی‘ معاشی اور تعلیمی میدانوں میں امتیازی سلوک کا نشانہ ہونے کی وجہ سے ان کی قوت کم ہوتی گئی۔ نیزانگریز ارباب اقتدار اور ہندو اکثریت میں ایک نیا گٹھ جوڑ قائم ہوا جس نے سیاسی نقشے کو تبدیل کر دیا۔

انگریزی سامراج کے خلاف عسکری اور جہادی مخالفت میں مسلمان ہی پیش پیش تھے اور جب سیاسی میدان میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو یہاں بھی سرخیل مسلمان ہی تھے۔ تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں اصل جدوجہد اور قربانیاں مسلمانوں ہی نے دیں۔ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جنگ آزادی کی کامیابی میں اقتدار انھی کو حاصل ہوگا‘ کیوں کہ برطانیہ نے انھی سے اقتدار چھینا تھا۔ لیکن جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ آزادی کی صورت میں جونیا نظام سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر بنے گا اس میں ملک کی قسمت کا فیصلہ اور تمام دستور سازی اور قانون سازی عددی بنیادوں پر ہوگی۔ گاندھی اور نہرو کی قیادت میں کانگریس نے اس ہدف کے لیے ساری پیش بندی کی اور سیاست کا رخ ایک ایسی سمت میں موڑ دیا جس کے نتیجے میں فطری طور پر اس کی اصل قوت ہندو اکثریت کو حاصل ہو جائے۔ جس کے صاف معنی یہ تھے کہ سیاسی آزادی کے باوجود مسلمان نظریاتی‘ دینی‘ تہذیبی اور معاشی آزادی سے محروم رہیں۔

سائمن کمیشن (۱۹۲۸ء) کی رپورٹ‘ ۱۹۳۵ء کے قانون کے تحت انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی حکومتوں نے ہندو سامراج کے خدوخال اور مسلمانوں کے لیے غلامی کے نئے نظام کے تمام دروبست کو بالکل بے نقاب کر دیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی قیادت نے جدوجہد آزادی کے نئے اہداف مرتب کیے تاکہ ایک طرف ملت اسلامیہ کے دینی اور تاریخی تشخص کی حفاظت ہو سکے اور دوسری طرف جمہوری سیاست کے جو اصول اور ضابطہ کار ہیں ان کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جا سکے۔ برعظیم کی ملت اسلامیہ نے اپنا ایک واضح اورمتفقہ موقف اختیار کیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں‘ ایک قوم ہیں جو اپنا نظریاتی تشخص رکھتی ہے۔ ان کے لیے آزادی محض برطانوی اقتدار سے آزادی نہیں بلکہ ان آزاد مواقع کا حصول ہے جن میں وہ اپنے نظریات‘ اقدار اور تہذیبی روایات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری کر سکیں۔

مسلمانوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ یہ حق ان کو پورے برعظیم میں حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے آخری کوشش کرپس پلان کے تحت تین قومی زونوں پر مشتمل کنفیڈریشن کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش کی جسے ایک مدت کے بعد مکمل آزادی کا اختیار بھی حاصل ہوتا‘ مگر کانگریس نے اسے سبوتاژ کر دیا ۔اس کے بعد ۳ جون ۱۹۴۷ء کے پلان کے تحت مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت پاکستان اور باقی حصوں میں کانگریس کی قیادت میں بھارت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس میں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے‘ جن کا تحریک پاکستان میں بڑا فیصلہ کن حصہ تھا‘ سب سے زیادہ قربانی دی اور برعظیم میں ایک آزادمسلمان مملکت کے قیام کی خاطر اپنے لیے نیم آزادی کی حیثیت کو بہ خوشی قبول کیا اور اس امید پر کیا کہ پاکستان میں ایک مضبوط اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم ہوگی اور وہ بالآخربھارت کے مسلمانوں کے حقوق کی بھی محافظ ہوگی۔

قائداعظم اور دو قومی نظریہ: آج بھارت کی قیادت خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور ہندستان کی تقسیم عمل میں آئی اسے انگریز‘ کانگریس اور مسلم لیگ تینوں نے قبول کیا۔ کانگریس نے تو پنجاب‘ بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی صوبوں کے پاکستان کا حصہ بننے پر صرف اس قیمت پر رضامندی ظاہر کی کہ ان تینوں صوبوں کو مزید مسلم اکثریتی اور ہندو اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ یہ مطالبہ کانگریس نے کیا اور اس طرح تقسیم ہند کے نظریاتی اصول کو صراحت سے تسلیم کیا۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے بار بار اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’’آزادی‘‘ نہیں ’’اسلامی نظریہ‘‘ ہے جس کے لیے آزادی خودایک ذریعہ بھی ہے اور زینہ بھی۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں قائد نے صاف الفاظ میں کہا کہ:

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندووں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال--- یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

اور پاکستان بننے کے بعد ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے اسی بات کا اعادہ کیا تھا:

پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔

اور ۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائد نے کہا:

اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

اور ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کوسبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver)پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق ہے کہ ’’مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشوروں سے کیا کرو‘‘۔

یہ صرف قائداعظم ہی کے خیالات نہیں یہ ملت اسلامیہ پاک و ہند کا وہ وژن ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور جس کی حیثیت اللہ اور بندوں کے درمیان ایک عہدو پیمان اور تحریک پاکستان کی قیادت اور برعظیم کے مسلمانوں کے ساتھ ایک عمرانی معاہدے کی ہے--- اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر پاکستان کی اساس قائم ہے اور یہی اس ملک کو اقوام عالم میں ایک امتیازی مقام دیتی ہے۔

اساس پاکستان: قیام پاکستان اور تقسیم ہند جس اصول اور نظریے پر ہوئی اس کے تین اجزا ہیں ‘ یعنی:

     ۱-  مسلمان ایک قوم ہیں جس کی تشکیل رنگ‘ نسل اور جغرافیائی حدود پر نہیں بلکہ ایمان‘ دین ‘ مشترک اقدار زندگی اور تصور حیات اور ان پر مبنی تہذیب و تمدن سے ہوئی ہے۔ اور مسلمان دنیا میں جہاں بھی ہوں وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری ممکنہ حد تک اپنے نظریہ حیات کے مطابق کرنے کے پابند ہیں۔

     ۲- برعظیم پاک و ہند میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کے وفاق پر مشتمل ایک آزاد ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوگی تاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر نو کر سکیں۔

     ۳- دونوں ملکوں میں اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیں گے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔ بھارت میں مسلمان اقلیت کو مکمل تحفظ دیا جائے گا اور پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو پورا تحفظ اور ترقی کے مواقع حاصل ہوں گے۔

سیکولر تہذیب اور مغربی لبرلزم کے علم برداروں سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے دور استیلا میں جو دین و دنیا ‘ مذہب و ریاست اور اخلاق و سیاست کی دوئی کے اصول پر قائم ہے‘ اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام بیسویں صدی کا ایک معجزہ تھا--- یہ ملت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم و انعام اور برعظیم کے عام مسلمانوں کی بے لوث قربانیوں کا ثمرہ تھا۔ اور یہ بھی قدرت کا ایک حسین اشارہ تھا کہ قیام پاکستان کے مبارک دن یعنی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ۲۷ رمضان المبارک کی شکل میں دو سعادتوں کا اجتماع ہوا۔

آج سیکولر طبقہ خواہ کچھ بھی کہے لیکن یہ تاریخی حقائق ناقابل تردید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیروں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے وفائیوں کے باوجود پاکستان کی یہ اساس اور امتیازی شان‘ قرارداد مقاصد اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ء‘ ۱۹۷۳ء کے دساتیر کی اسلامی دفعات کی شکل میں قائم و دائم ہے۔ جس نے بھی ان بنیادوں سے ہٹنے یا ان کو معدوم یا کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ خس و خاشاک کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔

مسلمان کے لیے ہر دن بیداری کا پیام لے کر آتا ہے اور ہر رات اپنے اندر تذکیر کے بے شمار پہلو رکھتی ہے ۔ اس قوم کی امتیازی شان ہی یہ ہے کہ یہ اٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ عالم استراحت میں اپنے ربّ اور اپنے مقصدوجود کو یاد رکھتی ہے۔ (یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ  قِیَامًا  وَقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوبِھِمْ اٰل عمرٰن ۳:۱۹۱) لیکن کچھ ایام ایسے ہیں جو تذکیر اور یاد دہانی سے بڑھ کر تجدید عہد کے دن ہوتے ہیں--- اور پاکستانی قوم کے لیے ۱۴ اگست ایک ایسا ہی دن ہے جو اپنے جلو میں بے شمار روشن تاریخی یادیں لے کر آتا ہے۔ یہ دن ہر پاکستانی کے دل ودماغ کو بیدار کرنے اور مقصد حیات سے رشتے کو تازہ کرنے کے لیے ایک مہمیز کی حیثیت رکھتا ہے۔


اس سال ۱۴ اگست غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ ہم ہر پاکستانی مسلمان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سنجیدہ غوروفکر کرے‘ اپنے رب سے اپنے عہد کی تجدید کرے اور جن حالات میں ملک و ملّت گرفتار ہیں ان سے انھیں نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کرے اور سرگرم عمل ہو جائے۔

نظریاتی اساس کا تحفظ: آج اس مملکت کی نظریاتی اور دینی اساس کو خطرات درپیش ہیں جن کا مردانہ وار مقابلہ ضروری ہے۔ ایک گروہ مسلسل اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو گرد آلود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں وہ طبقات اورلوگ پیش پیش ہیں جن کا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ نہیں تھا اور جنھوں نے آزادی کے بعد محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس ملک کی زمام کار پر قبضہ کرنے اور ملک کے وسائل کو اپنی ذات یا گروہ اور طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ گروہ بڑی دریدہ دہنی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اقبال اور قائداعظم تو ایک سیکولر ملک قائم کرنا چاہتے تھے اور یہ مولوی اور مذہبی انتہا پسند ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اب پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنانے اور قرون وسطیٰ کی طرف لوٹانے میں لگ گئے ہیں۔ اس کے لیے کبھی کمال اتاترک اور ترکی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی طالبان کے خوف سے ڈرایا جاتا ہے۔ اور اب تو اس ’’طبقہ زہّاد‘‘ میں رخصت ہونے والے امریکی سفیر ولیم مائلم صاحب بھی شریک ہو گئے ہیں جن کی نگاہ میں جہاد اور امت مسلمہ کی بات کرنا جناح مخالف وژن (anti-Jinnah vision)کا حصہ ہے۔ سیرت کے جلسے میں جہادی قوتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اسلام پر فخر کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں۔ اس شتر گربگی کا مظاہرہ مختلف سطح پر کیا جا رہا ہے اور تاریخ اور زمینی حقائق سے مکمل صرفِ نظر کر کے کیا جا رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان پر گرفت پاکستان کے حقیقی تصور کے تحفظ کے لیے بے حد ضروری ہے۔

تحریک پاکستان کوئی خفیہ تحریک نہیں تھی اور نہ اس کا میدان ڈرائنگ روم کی سیاست تھی۔ یہ تحریک ایک عوامی جمہوری تحریک تھی جو شہر شہر‘ گائوں گائوں اور قریہ قریہ چلی اور جس میں برعظیم کے ۱۰ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت نے حصہ لیا۔ وہ جاگیردار‘ نواب اور دانش ور جو تحریک کے آخری ایام میں ہوا کا رخ دیکھ کر شریک ہوئے وہ اس کے دست وبازو نہ تھے۔ اس تحریک کی اصل قوت مسلمانوں کے تمام طبقے خصوصیت سے عوام تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما کے ایک بہت بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اقبال کے بعد جس شخص نے دو قومی نظریے کا موقف مثبت اور محکم دلائل سے پیش کیا وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے جنھوں نے متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے علما (مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبیداللہ سندھی) کو برملا چیلنج کیا اور ان کے دعووں کا مسکت جواب دیا۔ اس تحریک میں قائداعظم اور لیاقت علی خاں کے شانہ بہ شانہ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا احتشام الحق تھانوی‘مولانا عبدالحامد بدایونی‘ مولانا عبدالستار نیازی‘ مولانا اطہر علی‘ مولانا راغب احسن‘ مولانا ظفر احمد انصاری‘ مولانا ابن الحسن جارچوی‘ پیر صاحب مانکی شریف‘  پیر صاحب زکوڑی شریف وغیرہم نے حصہ لیا اور گھر گھر پاکستان کے پیغام کو پہنچایا۔ جمعیت علماے اسلام نے برعظیم کے طول و عرض میں تحریک کی تائید میں مہم چلائی اور مسلمانوں کو پاکستان کے محاذ پر جمع کیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے تحریک کی تائید کی اور ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظم کی صدارت میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔علما کو طعنہ دینے والے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور تاریخی حقائق کو جھٹلانے کی کوشش نہ کریں۔

سیکولر عناصر کی کوتاہ نظری: پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جس طبقے نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور جو اس کے نظام پر قابض اور اس کی تباہی اور کمزوری کا باعث ہے وہ سیکولر قیادت ہے۔ یہ کبھی سیاست دانوں کی شکل میں‘ کبھی بیوروکریسی کے روپ میں اور کبھی فوجی قیادتوں کے لبادے میں ملک پر مسلط رہے ہیں۔ دینی قوتوں نے تو ہمیشہ آمریت کو لگام دینے اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی خدمت انجام دی ہے ۔ آج جو بھی خیر دستور کی اسلامی دفعات‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ‘ قومی سلامتی کے معاملات میں مضبوط موقف‘ دفاع وطن اور جمہوری اقدار کی بحالی کے باب میں پایا جاتا ہے‘ اس میں سب سے نمایاں حصہ دینی قوتوں کی کوشش کا ہے۔

اقبال اور قائد اعظم کے وژن کو پراگندہ اور غبار آلود کرنے کی جو بھی کوشش ہوئی ہے وہ سیکولر طبقے کی طرف سے ہوئی ہے اور بری طرح ناکام رہی ہے--- اور اس لیے ناکام رہی ہے کہ وہ مبنی برحق نہیں ہے۔ ترکی کی مثال بار بار دی جاتی ہے مگر اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ سیکولرزم نے ترکی کو کیا دیا۔ وہ قوم جو اسلام کا علم لے کر اٹھی تو مشر ق و مغرب پر چھا گئی لیکن سیکولرزم کی پرستار بننے کے بعد مغربی اقوام کی مقروض اور محتاج ہو گئی ہے اور ذہنی افلاس کے ساتھ معاشی تباہی اور سیاسی انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقبال نے اسی کو مخاطب کر کے کہا تھا :

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

اور یہ سب اس لیے کہ

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

آج ترکی میں سیکولرزم کے خلاف جو عوامی تحریک ہے اسے وہی نظرانداز کر سکتا ہے جو بصیرت ہی نہیں بصارت سے بھی محروم ہو۔ پھر ترکی کی آزادی اور بقا کی جنگ میں فوج کا حصہ اور تحریک پاکستان کے باب میں فوج کے کردار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ترکی میں فوج ملک کے مسائل کو حل کر سکی اور نہ پاکستان میں فوج کے بار بار کے سیاسی کردار نے کوئی خیر پیدا کیا۔ یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ ترکی کی فوج کا مزاج سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہزاروں قابل اور باصلاحیت افسروں کو محض دین سے وابستگی کی بنا پر فوج سے الگ کر کے ‘ فوج کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہ فوج اور ملک دونوں کی کمزوری کا باعث ہوا ہے‘ جب کہ پاکستان کی فوج خصوصیت سے سقوط ڈھاکہ کے بعد ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے موٹو پر منظم کی گئی ہے۔ اسے سیکولرزم کا علم بردار اور محافظ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جو بھی فوج یا قوم پر سیکولر نظریات مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک کو کش مکش اور باہم پیکار کی آماجگاہ بنا دے گا۔ اس ملک کا کوئی خیرخواہ ایسی حماقت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

سیکولر نظریات آج عالمی استعمار اور مغرب کی بالادستی قائم کرنے کا ایک ذریعہ اور آلہ ہیں۔ عالم گیریت صرف معاشی اور سیاسی استیلا ہی سے عبارت نہیں ‘اس کا ایک نظریاتی اور تہذیبی ایجنڈا بھی ہے جس کا ہدف ریاست کے اداروں کو کمزور کر کے اور این جی اوز کو آلہ کار بنا کر دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے مسلمان ممالک پر مغرب اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ جو حضرات سیکولرزم اور لبرلزم میں اس ملک کا مستقبل دیکھ رہے ہیں وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مغربی استعمار کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھیں اس ملک و ملّت کا دوست نہیں کہا جا سکتا۔

ہم یہ سوال بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ آخر سیکولرزم اور لبرلزم کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہے؟ مغرب میں مذہبی استبداد کے خلاف جو تحریک اٹھی اس میں سیکولرزم نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اصلاً یہ محض ایک منفی تحریک ہے۔ مثبت طور پر سیکولرزم کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ قومیت‘ سرمایہ داری‘ جمہوریت یا سوشلزم کے ایک معاون اصول کی حیثیت سے یعنی اس تثلیث کے ایک جزو کے طور پر‘ ایک کردار رکھتی ہے۔ صرف سیکولرزم کے پاس فرد‘ معاشرہ اور انسانیت کا کوئی ایسا وژن نہیں جو دنیا کو ایک بہتر نظام حیات سے روشناس کرا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خود مغربی دنیا میں مذہب‘ یا کسی اعلیٰ اخلاقی نظام اقدار کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان کا عیسائی مذہب کا تجربہ کوئی اچھی یادیں لیے ہوئے نہیں لیکن اس کے باوجود  اہل فکر ودانش کا ایک بڑا طبقہ کسی مذہب یا روحانی خلا کو پر کرنے والے کسی نظام کی خواہش اور ضرورت محسوس کررہا ہے اور اس کی تلاش میں ہے بلکہ جدید تہذیب کی بقا کے لیے اسے ضروری سمجھتا ہے۔

دستور کی تین بنیادیں: ہم اس طبقے سے اور خصوصیت سے زندگی کے ہر شعبے کی قیادت سے پوری دل سوزی سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں جو اس قوم میں متفق علیہ ہیں انھیں متنازع بنانے کی جسارت اور حماقت نہ کریں۔ وہ متنازع تو نہیں بن سکیں گی لیکن قوم میں کنفیوژن اور پراگندہ فکری ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ نئی نسلوں کے ذہنی سکون کو متاثر کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم میں اندرونی کش مکش رونما ہو سکتی ہے جو قومی قوتوں کے ضیاع پر منتج ہو گی جب کہ آج ضرورت ساری قوتوں کو مثبت تعمیری مقاصد کے لیے منظم اور متحرک کرنے کی ہے۔ اس کے لیے ایک محکم بنیاد ملک کا دستور ہے جس پر پوری قوم کا اجماع ہے۔ اس دستور کی تین بنیادی خصوصیات ہیں اور ان میں سے ہر خصوصیت کے اساسی تصورات دستور میں دو اور دو چار کی طرح متعین کر دیے گئے ہیں۔ ہماری خرابیوں اور کمزوریوں کا ایک بڑا سبب اس دستور پر عمل نہ کرنا ہے۔ ظلم ہے کہ ہر ایک نے اس دستور سے وفاداری کا حلف لیا ہے اور ہر کوئی اس سے بے وفائی کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس دستور کی پہلی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد دستور کا دیباچہ ہی نہیں اس کی ایک قابل تنفیذ دفعہ ہے۔ دفعہ ۲ اور دفعہ ۲ الف ریاست کے اختیار اور نظریاتی حدود کو متعین کر دیتی ہیں۔دفعہ ۲۲۷ قانون سازی کے اصول اور حدود کی نشان دہی کرتی ہے۔ نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت سے متعلق دفعات پالیسی سازی اور قانون سازی کے لیے معاونت اور محاکمے کا نظام قائم کرتی ہیں۔ پالیسی کے رہنما اصولوںکا پورا باب اسلام کی روشنی میں حکومت کے پورے دائرہ کار کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ دستور اس تسلسل میں سالانہ جائزہ رپورٹ بھی ضروری قرار دیتا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ دستور سات سال میں پورے نظام قانون کو شریعت اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن دستور کو نافذ ہوئے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور ہنوز دلی دُور است! دستور کی دفعہ ۶۲-۶۳ قیادت کے لیے معیار طے کرتی ہیں اور دستور میں دیے ہوئے حلف ایک قومی عہدکا درجہ رکھتے ہیں۔ دستور کے تحت قائم ہونے والی نظریاتی کونسل نے ۴۰سے زیادہ رپورٹوں کی شکل میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی ہدایات مرتب کر دی ہیں۔ ان سب کے بعد بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلامی ماڈل کہاں ہے؟ ہم کس اسلام پر عمل کریں؟ ہمارے لیے نہ ایران ماڈل ہے‘ نہ سعودی عرب یا سوڈان۔ ہمارا ماڈل قرآن و سنت ہیں اور خود ہمارے دستور نے اس ماڈل کے خطوط کار واضح کر دیے ہیں اور دستوری اداروں نے رہنمائی فراہم کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ناکام اگر کوئی ہے تو سیاسی قیادت اور وہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں اور رہنما ہیں جو ان سب کو نظرانداز کر کے اپنے اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف رہے ہیں۔

دوسرا اصول پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ اس سلسلے میں بھی دستور نے کوئی خلا یا ابہام نہیں چھوڑا ہے۔ تقسیم اختیارات اور ہر ہر ادارے کی ذمہ داریاں اور کردار متعین کر دیا گیا ہے لیکن نہ الیکشن دستور کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ پارلیمنٹ اپنا کرداراد ا کرتی ہے۔ عدالتیں بھی سیاست اور اقربا پروری کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور اگر کوئی شک ہے تو سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی خود نوشت Law Courts in A Glass Houseکا مطالعہ کر لیجیے جس میں ’’عدالت کے کانچ گھر‘‘ اور ’’ سیاست کے حمام‘‘ میں سب لباس سے فارغ نظر آتے ہیں۔

دستور کی تیسری بنیاد وفاقیت ہے۔ یعنی مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم اور فیصلہ کرنے کے عمل کا اُوپر سے نیچے تک متحرک ہونا۔ دستور کو بنے ۲۸ سال ہو گئے ہیں اور آج تک نہ اختیارات کی منتقلی کا عمل مکمل ہوا ہے اور نہ دستور میں قائم کیے ہوئے اداروں کو موثر بنایا گیا ہے۔ خود پسندی اور اپنی ذات میں اختیارات کے ارتکاز کے مرض نے ملک میں وہ خلفشار پیدا کیا ہے کہ مرکز گریز رجحانات ترقی پا رہے ہیں اور عوام انصاف اور حقوق سے محروم ہیں۔

اگر دستور کی ان تینوں بنیادوں پر‘ دستور کے فریم ورک میں‘ دیانت سے عمل ہو تو ہمیں کسی ’’مسیحا‘‘ کی ضرورت ہے اور نہ ’’قومی مرمت سازی‘‘ کے کسی ادارے کی!

لندن کے نہایت معتبر میگزین امپیکٹ انٹرنیشنل نے اپنی جولائی ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں سابق صدر رفیق تارڑ جیسے مرنجان مرنج سربراہ ریاست کی فارغ خطی کے جن اسباب کا ذکر کیا ہے وہ خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہیں۔ ویسے تو تارڑ صاحب نئے حکمرانوں سے ہر طرح تعاون کر رہے تھے لیکن ہائی کورٹ میں میرٹ اور اصول کو نظرانداز کر کے نئے ججوں کی تقرری کی سفارش کو انھوں نے غالباً پہلی بار نظرثانی کے لیے واپس کر دیا اور اصرار کے باوجود دستخط نہیں کیے۔ لاہور میں منعقد ہونے والی پنجابی کانفرنس کے اس واقعے کا کھلے بندوں نوٹس لیا کہ ’’پاکستان تلاوت کے لیے نہیں بنا‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان تلاوت قرآن ہی کے لیے بنا ہے اور جب تک پاکستان ہے تلاوت ضرور ہو گی۔ جس پر روایت ہے کہ چیف ایگزیکٹو نے ان سے کہا کہ ’’آپ کیا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ریمارکس دیتے ہیں‘‘۔ یہ بھی روایت ہے کہ سیرت کانفرنس میں جنرل مشرف صاحب نے جہادی تنظیموں کے بارے میں جو ارشادات فی البدیہہ فرمائے تھے تارڑ صاحب نے غالباً زندگی میں پہلی بار اپنے دستوری صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط کے ذریعے متوجہ کیا کہ ایسے غیر محتاط اور غیر متوازن بیان سے جہاد آزادی کی تحریک میں مصروف جاں بازوں پر برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔

اگر تارڑ صاحب کی رخصتی کا یہی پس منظر ہے تو یہ ایک بڑی تشویش ناک بلکہ خطرناک صورت حال کا پتا دیتا ہے جو قوم کو ایک بڑی کش مکش کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اس لیے ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ دستور کی ان تینوں بنیادوں کا تحفظ اور احترام سب کے لیے ضروری ہے۔موجودہ حکومت کو سپریم کورٹ نے جو سند جواز ایک متعین مدت کے لیے دی ہے وہ مذکورہ بالا تین بنیادوںکے ساتھ مشروط ہے۔ یہ قوم کتنی بھی کمزور ہو ‘کسی کو بھی ان بنیادوں کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ غلام محمد‘ اسکندر مرزا‘ جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے دَور میں اور اپنے اپنے انداز میں اس کی کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں اور اپنے انجام کو پہنچے۔ عقل مند وہ ہے جو ماضی کے ان نشانات عبرت سے سبق لے اور قوم کو کسی نئی آزمایش میں مبتلا نہ کرے ورنہ اس کا انجام بھی اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔

انتخابات اور انتقال اقتدار : اس سال ۱۴ اگست جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ایک اور غور طلب پہلو احیاے جمہوریت اور انتقال اقتدار کا وہ پس منظرہے جس میں ضلعی نظام کے انتخابات کے بعد ۱۴اگست کو اس نظام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس وقت اس نظام کے حسن و قبح پر گفتگو پیش نظر نہیں۔ برا یا بھلا جو بھی نظام ہے اگر اسے آپ نے نافذکر ہی دیا ہے تو اب اس کا احترام کریں اور جو زمینی حقائق سامنے آئے ہیں ان کو کھلے دل سے تسلیم کر کے اس میں دراندازی کا کھیل نہ کھیلیں۔

شروع میں تو عوام نے اس نظام میں کوئی خاطر خواہ دل چسپی نہیں لی لیکن بعد کے مراحل میں دل چسپی بڑھی اور اب ضلعی نظام کے مرحلے پر تو یہ واضح ہو گیا کہ ملک کی اصل قوت آج بھی سیاسی جماعتیں ہیں جو مختلف گروپوں کے نام سے متحرک ہو گئی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ نہ سیاست کا کوئی متبادل ہے اور نہ سیاسی جماعتوں کا۔ دونوں کی اصلاح کے لیے جو بھی ممکن ہو کیا جائے لیکن ان کا کوئی بدل نہیں۔ اگر غیر فطری انداز میں ان پر پابندیاں لگائی گئیں یا آرڈی ننسوں کے ذریعے منتخب لوگوں کو جیسے بھی وہ ہوں‘ محض سیاسی وفاداری یا تعلق کی بنیاد پر ہٹایا گیا تو یہ پورا نظام وجود میں آنے سے پہلے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ یہ عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اپنے نمایندے چنیں۔ان پر اپنی پسند کے لوگ مسلط کرنا جمہوریت‘ انصاف اور دیانت ہر ایک کے خلاف ہے اور ظلم اور آمریت کا راستہ ہموار کرنے والا ہے۔ اس سے بچنا بہترہے۔ پاکستانی جمہوریت کا المیہ ہی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کوعقل کُل سمجھ لیا ہے اور قوم کو اپنے معاملات طے کرنے کا موقع دینے کے بجائے قوم پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قومی مفاد کے اصل حکم وہ ہیں۔ یہ بدترین آمریت اور انسانوں کے استحصال کا راستہ ہے۔

۱۴ اگست کی تقدیس کا اگر کچھ بھی پاس ہے تواس کا تقاضا ہے جو نظام بھی آپ نے بنایا ہے اسے کسی مداخلت اور سیاسی کھیل کے بغیر بروے کار آنے کا موقع دیں۔ عوامی نمایندوں کے لیے احتساب کا آزاد اور قابل اعتماد نظام ضرور بنائیں لیکن من مانی سازباز کا دروازہ بالکل بند کر دیں۔ اس نظام کو نچلی سطح پر محدود اور متعین اختیارات اور انتظام تک محدود رکھیں۔ اسے صوبائی یا مرکزی نظام کے لیے زینہ بنانے کی جسارت نہ کریں بلکہ دستور کے تحت اور دفعہ ۶۲-۶۳ کے فریم ورک میں بااختیار اور قابل اعتماد الیکشن کمیشن کے ذریعے صوبائی اور مرکزی انتخابات کا اہتمام کریں۔ ہم ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ قومی مشاورت کے ذریعے متناسب نمایندگی کا ایک معقول نظام وضع کیا جا سکتا ہے جو ہمارے بہت سے مسائل کے حل کرنے میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ آزاد اور شفاف انتخابات ہی نئی قیادت کو بروے کار لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ۱۴ اگست کو اس کا واضح ٹائم ٹیبل اور نقشہ کار (road map)قوم کے سامنے آجاناچاہیے۔

پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر: اس سال ۱۴ اگست کی اہمیت پاک بھارت مذاکرات کے پس منظر میں اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ہمیں جنرل پرویز مشرف کے انداز حکمرانی اور ان کی کچھ ترجیحات سے جتنا بھی اختلاف ہو‘ اور ہم نے اس کا برملا اظہار کیا ہے ‘لیکن کشمیر کے معاملہ میں ان کا قومی موقف پر ڈٹ جانا‘ بھارت سے مذاکرات سے پہلے قوم اور اس کی قیادتوں کو اعتماد میں لینا اور دہلی اور آگرہ میں قومی اتفاق رائے کے فریم ورک میں جرأت اور دانش مندی سے اپنی بات پیش کرنا اور حق و انصاف پر مبنی موقف کو کسی قیمت پر سمجھوتے کی بھینٹ نہ چڑھنے دینا ایسے پہلو ہیں جن پر ہم انھیں مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے اس موقف پر مزید استقامت کی دعا کرتے ہیں۔

بھارت نے بڑی ہوشیاری بلکہ عیاری سے ایک خاص فضا بنائی تھی جس میں ایک طرف تو جنرل صاحب کی اَنا کی تسکین اور ان کو ذاتی اکرام کے ذریعے رام کرنے (win over)کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے ایک ایسا سوچا سمجھا اور گھمبیر حملہ کیا گیا کہ وہ کشمیر کی مرکزیت سے ہٹ کر ضمنی معاملات میں اُلجھ جائیں۔ ترغیب اور ترہیب کا ہر حربہ پوری چابک دستی سے استعمال کیا گیا اور بالکل وہی حکمت عملی دہرائی گئی جو گاندھی جی نے قائداعظم کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں استعمال کی تھی--- مٹھاس اور عیاری‘ چاپلوسی اور بلیک میلنگ‘ ذاتی اکرام اور قومی موقف سے ہٹانے کی کوشش۔ خدا کا شکر ہے کہ جس طرح قائداعظم نے گاندھی جی کی ساری چالوں کو پادَر ہوا کر دیا تقریباًاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مشرف صاحب نے بھی واجپائی ایڈوانی جال سے اپنے آپ کو بچا لیا۔ ان کو ہندو کی سیاست کا بلاواسطہ اور براہِ راست تجربہ ہو گیا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا ایک الہامی شعر ہے جس میں ہندو سیاست کے دو کرداروں کی بڑی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ساورکر ہندو مذہبی انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کا نمایندہ تھا اور گاندھی جی ہندو مفادات کے بڑے سمجھ دار محافظ۔ دونوں کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں کا جچا تلا تجزیہ ہے کہ    ؎

دنیا میں بلائیں دو ہی تو ہیں‘ اک ساورکر اک گاندھی ہے

اک جھوٹ کا چلتا جھکّڑ ہے‘ اک مکر کی چلتی آندھی ہے

آج ساورکر اور گاندھی‘ ایڈوانی اور واجپائی کے روپ میں اسی طرح پاکستان کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے کبھی ساورکر اور گاندھی سرگرم عمل تھے۔ گاندھی جی نے جناح کو ’’قائداعظم‘‘ تسلیم کیا اور بھارت کا وزیراعظم بنانے کی پیش کش کی لیکن قائداعظم اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے ’’کٹا پھٹا‘‘ پاکستان قبول کر لیا لیکن گاندھی کے جال میں نہ آئے--- آج بھی سارا کھیل یہی ہے کہ پاکستان کو کسی طرح کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے ہٹا کر پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر میں بُعد اور تصادم پیدا کر دیا جائے‘ پاکستانی قیادت اور پاکستانی قوم کو لڑا دیا جائے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنے قبضے کو دوام بخش سکے۔ حریت کانفرنس کی قیادت سے وہ خود بات کرنے کو تیار نہیں مگر پاکستان سے ان کی ملاقات پر برافروختہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں اپنے سارے وعدے وعید‘ مسئلے کی پوری تاریخ‘عوامی جدوجہد اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کو بالکل نظرانداز کر کے ویزا کی سہولتوں اور تجارت کے معاملوں میں اُلجھانے کی کوشش--- ایک طرف کشمیر میں عوامی تحریک اپنے عروج پر ہے‘ ہزاروں افراد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں‘ ہر شہید کا جنازہ بھارتی تسلط کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ہے--- اور بھارت کی قیادت ہے کہ اسے مسئلہ ماننے کے لیے ہی تیار نہیں اورہماری قیادت کو لیپاپوتی والے معاملات میں اُلجھانے پر ساری توجہات مرکوز کر رہی ہے۔

کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا ذکر کیا جاتا ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوا؟  ہم خود معاہدہ تاشقند سے آج تک اعتمادپیدا کرنے والے اقدامات (Confidence Builiding Measures - CBM's) کی بات سن رہے ہیں لیکن چالیس سال میں ان سے کیا حاصل ہوا؟ ۱۹۷۲ء (شملہ معاہدہ) سے دوطرفہ مذاکرات کی بات ہو رہی ہے لیکن ۵۰ سے زیادہ بار مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے حاصل کیا ہوا؟ اوسلو کے بارے میں اس وقت اسرائیل کے بڑے سے بڑے موید بھی یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ یہ راستہ مسائل کے حل کا راستہ نہیں۔

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں دو یہودی دانش ور ایک ہی بات کہتے ہیں جو غور طلب ہے۔ ہنری سیگمین (Henry Seigman)جو امریکہ کی مشہور زمانہ Council on Foreign Relations کا سینیرفیلو او ر اسرائیل کا ہمدردہے ‘ یہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ:

اوسلو معاہدہ کئی وجوہات سے ایک مستقل حیثیت کے معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سب سے بنیادی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی اپنے لیے وہ واحد ہدف تسلیم نہیں کیا جو اس طرح کے معاہدے کو ممکن بناتا‘ یعنی مغربی کنارے اور غزہ میں ایک مستحکم اور خودمختار فلسطینی ریاست۔ اعتماد کوئی خیالی چیز نہیں ہے جو محض اپنی خاطروجود رکھتا ہو‘ یہ کسی مقصد کے حوالے سے ہی کوئی معنی و مفہوم پاتا ہے۔ اعتماد یہ ہونا چاہیے کہ یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اوسلو کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے مراد صرف وہی اقدام ہو سکتے ہیں جن سے فلسطینی یہ یقین کرنے لگیں کہ وہ مستحکم ریاست کا مرتبہ حاصل کر لیں گے۔بامعنی ریاستی حیثیت بنیادی آرزو ہے۔ اگر اس کے بارے میں گفتگو کے آغاز کا مقصد بھی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات سے متعلق نہ ہو تو اس طرح کے مجرب نسخے پر عمل کا بے معنی پن (absurdity) ذہن کو ششدر کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ امریکی سفارت کاری کی بنیاد ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۱ء)

ہمارا مسئلہ بھی بالکل یہی ہے۔ اصل سوال اہل جموں و کشمیر کے حق خود ارادیت کا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اس کی بات نہ کرو صرف اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات کی کرو‘جن معاملات کا کوئی تعلق اصل مسئلے سے نہیں ہے ان میں اُلجھ جائو۔ پھر نتیجہ بھی معلوم ہے۔ بات کبھی ان اقدامات سے آگے اصل مسئلے کی طرف نہیں جاتی۔ جب بھی اصل مسئلے کو موخر کیا گیا ہے یا مبہم چھوڑ دیا گیا ہے کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ خواہ مسئلہ فلسطین کاہو یاکشمیر کا۔ یہی اسرائیل کا کھیل ہے‘ یہی بھارت کا‘ یہی امریکہ کا۔ ہم کب تک ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے رہیںگے۔  ٹربیون کے اسی شمارے میں صیہونیت کا ایک مبلغ جافری وہیٹ کرافٹ (Geoffrey Wheatcraft) اپنے مضمون میں لکھتا ہے:

یہ امر واقعہ شک و شہبے سے بالاتر ہے کہ اوسلو (اسے کلنٹن بھی کہا جا سکتا ہے) کا پورا عمل پٹڑی سے اتر گیا ہے۔

اوسلو طریق کار کے بارے میں یہ دو تبصرے چشم کشا ہیں۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ اور یہی وہ کھیل ہے جو بھارت ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جنرل مشرف صاحب اس جال سے دامن بچا کر نکل آئے ہیں لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ اگلے مراحل کی تیاری‘ جہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی‘ اصولی موقف پر استقامت‘ عالمی راے عامہ کو متاثر اور متحرک کرنے کی کوشش‘ بھارت کے عوام اور اہل دانش کی رائے کو متاثر کرنے کی کوشش‘ خود اپنی قوم پر اعتماد اور اسے ساتھ لے کر چلنا ---یہ سب ۱۴ اگست کے تجدید عہد کے چند پہلو ہیں۔

آگرہ میں سربراہی ملاقات کے موقع پر بھارت کی قیادت کو سب سے زیادہ جو چیز کھٹکی وہ جنرل پرویز کی بھارتی اخبارات کے مدیروں سے ملاقات میں کھلی کھلی باتیں اور ان کا بھارت کے میڈیا پر آجانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وعدے کے باوجود اور جنرل پرویز کی خواہش کے علی الرغم روانگی سے قبل ان کو ورلڈ میڈیا سے خطاب کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مدمقابل پر چوٹ کہاں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔

جنرل پرویز نے بھارت سے دہلی اور آگرہ میں جس طرح معاملہ کیا وہ ان کے لیے ‘ ہماری فوج کے لیے اور پوری قوم کے لیے باعث اطمینان ہے اور اس میں سابقہ قیادت خصوصیت سے بے نظیر صاحبہ‘ نوازشریف صاحب اور ان کے رفقا کے لیے بھی بڑا سبق ہے۔ قومی مفاد پر استقامت میں کامیابی اور اس پر سمجھوتہ کرنے میں دنیا میں بھی رسوائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی اس پر بڑی پکڑ کا خطرہ ہے۔

۱۴اگست کا پیغام : اس سال ۱۴ اگست کا یوم تجدید عہد جن حالات میں آ رہا ہے ان میں ملک کی معاشی مشکلات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔معاشی خلفشار کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں غلط معاشی پالیسیاں‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی محکومی‘ کرپشن اور بدعنوانی‘ غلط ترجیحات اور ہمہ گیر معاشی بدانتظامی ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس سے اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ البتہ ان معاشی حالات سے پریشان ہو کر یا ان کی بنیاد پر قیادت کو گھبراہٹ میں مبتلا کر کے ورلڈبنک اور گلوبلائزیشن کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کے خطرات سے متنبہ کرنا ہمارا قومی فرض ہے۔ قوم کو جھوٹی تسلیاں دینے اور مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔ اسے ترک کر کے ایک انقلابی حکمت عملی وضع کیے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے مقابلے میں فوجی حکومت کے لیے کسی انقلابی حکمت عملی کو اختیار کرنا آسان ہوتاہے۔  ہمیں اس رائے سے اتفاق نہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اس راستے کو پہلے دن ہی سے بندکر دیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط پر جس تابع داری سے اس زمانے میں عمل ہو رہا ہے‘ کبھی نہیں ہوا۔ اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ اس لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ایک نئی قیادت کے بغیر کسی بڑی معاشی پہل قدمی (initiative)کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس حکومت سے نہ کسی بہتر معاشی پالیسی کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ کسی موثر‘ شفاف اور مبنی بر عدل نظام احتساب کی۔ فوج کی قیادت کا سیاست میں مزید اُلجھا رہنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں۔

اس سال ۱۴ اگست پر قوم کو تجدید عہد کے ساتھ موجودہ حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دے دینا چاہیے کہ جتنی جلد ملک میں نئے منصفانہ انتخابات کے ذریعے دستور کے تحت ایک نئی‘ دیانت دار اور باصلاحیت قیادت کو زمام کار سونپی جا سکے ملک و ملّت کے لیے بہتر ہے۔ مخصوص طبقات سے اُبھرنے والی قیادتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور بگاڑ میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اب ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام میں سے ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کا دامن پاک اور شہرت اچھی ہو۔ یہ قیادت دستور کی پابند اور وفادار ہو‘ دستور کو اپنے مفادات کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ دستور کے مطابق عوام اور ملک کے مفاد میں کام کرے۔ وقت کی اصل ضرورت قوم کو بیدار کرنا اور متحرک کرنا ہے تاکہ عوام مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں ڈھور ڈنگر کی طرح نہ کھیلیں بلکہ اپنی قسمت کے خود مالک بنیں اور اس ملک کو سنوارنے اور بنانے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرے کہ وہ پاکستان کا محافظ اور خادم ہے اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔

۱۴  اگست جس تجدید عہد کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک تحریک پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو اور اس جذبے سے کام کرے کہ اسے پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی مملکت بنانا ہے‘ اس ملک سے جہالت‘ غربت‘ ناداری اور محتاجی کو دُور کر کے علم کی شمع کو روشن کرنا اور اعلیٰ اخلاق اور عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں کو اللہ کے دیے ہوئے دین کی برکتوں سے شادکام کرنے اور بالآخر آخرت میں اپنے ربّ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرنا ہے۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ۳۱ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جس تمنا کا اظہار کیا تھا آج اس کی تذکیر کی ضرورت ہے۔ اس تمنا کو اپنے دلوں میں اتار لینے اور زبان اور عمل سے اس کے اظہار کا عزم اس سال ہمارے لیے ۱۴ اگست کا بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔

قائد نے کہا تھا:

’’میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل‘ میرا اپنا ایمان‘ میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح‘ تم نے واقعی مدافعت ِاسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح‘ تم مسلمانوں کی تنظیم‘ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علَم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔


(یوم آزادی پر تقسیم کرنے کے لیے اس مضمون کا کتابچہ ۳۰۰ روپے فی سیکڑہ کے حساب سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور - ۵۴۵۷۰)