اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

جدید انسان کا روحانی اور جذباتی اضطراب

سید راشد بخاری | اگست ۲۰۰۱ | تہذیبِ جدید

Responsive image Responsive image

آج کے انسان کے لیے سائنسی اور مادّی ترقی کی معراج پر پہنچ کر بہت سے امکانات کے دَر وا ہورہے ہیں ‘لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ روحانی طور پر اتنے ہی بڑے صدمے‘ نفسی طور پر اتنی ہی بڑی بے اطمینانی‘ اور جذباتی طور پر اتنی ہی زیادہ تنہائی اور بے چارگی کا شکار ہے۔آج کا انسان چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ شمال میں ہو یا جنوب میں‘ پاکستان میں رہتا ہو یا امریکہ میں‘ مشرق وسطیٰ کا باسی ہو یا افریقہ کا‘ یورپ کے قلب میں ہو یا مشرق بعید کے ساحلوں پر‘ شہروں میں ہو یا دیہاتوں میں--- اپنے طرزفکر‘ طرزمعاشرت‘ طرززندگی‘ ترقی اور پس ماندگی کے تمام تر فرق کے باوجود ‘ نوعیتوں اور درجوں کے لحاظ کے ساتھ ایک بہت بڑے روحانی بحران‘ جذباتی ابتلا اور احساس تنہائی کا شکار ہے۔ مختلف معاشروں میں اس روحانی بحران کا اظہار‘ نفرت‘ غصّے‘ انتقام‘ لاتعلّقی‘ عدم برداشت‘ خود غرضی‘ لذت کوشی اور جرائم کی مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور رقابتوں کے علاوہ بڑے بڑے جرائم کی تہہ میں بھی نفسیاتی عوارض اور جذباتی عدم توازن کارفرما ہوتا ہے۔

مغرب میں انسان کو اس کی نفسیات اور جذبات کی مختلف حالتوں کے ذریعے سمجھنے کی قابل قدر کوششیں کی گئی ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی۔ ہمیں ان کے نتائج وتحقیق سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ حقیقت بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مغرب کا انسان کے بارے میں مخصوص تصور ہے۔ ان کا زندگی کا اپنا مخصوص فلسفہ‘ مخصوص اقدار اور مخصوص پیمانے ہیں۔ یہ عوامل نفسیاتی تحقیقات کو ایک مخصوص رخ دیتے ہیں اور عام طور پر انھی موضوعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مغرب کے تصور زندگی سے ہم آہنگ ہیں۔

مذہب بیزار مغربی معاشرہ

آسٹریا کے یہودی نژاد نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات خصوصاً ان کا تحلیل نفسی کا نظریہ جدید دَور میں بے حد مقبول ہوا۔ انھوں نے نفسیاتی امراض کے مطالعے کے ضمن میں جنسی تقاضے پر بڑا زور دیا ہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس زمانے کی تہذیب و ثقافت میں جنسی تعلّق کو بہت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے ایک قبیح فعل سمجھا جاتا تھاجس سے ہر صورت میں بچنا ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فرائیڈنے نفسیاتی امراض کی تشریح میں جنس کے مسئلے کو مبالغہ آمیز حد تک اہمیت دی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ نفسیاتی امراض جنسی محرک کو دبانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے زیراثر اور مغرب میں جنسی جذبے پر موجود بے حد دبائو اور پابندیوں کے ردّعمل میں آج کا مغربی معاشرہ پیدا ہوا‘ جس میں اس جذبے کے ہر طرح کے اظہار اور بے راہ روی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ مغرب میں بغیر شادی کے مردوں اور عورتوں کے اکٹھے رہنے اور ایک فطری جذبے کی غیر فطری تسکین کا رجحان پیدا ہونے کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ عیسائیت میں عیسائی علما کے مطابق شادی کے بعدطلاق کی اجازت نہیں تھی‘ اور ناکام شادی شدہ جوڑوں کے لیے اس بندھن سے نجات کی کوئی راہ نہیں تھی۔ چنانچہ یہی مناسب جانا گیاکہ شادی کے جھنجھٹ سے ہی آزادی حاصل کر لی جائے۔

فرائیڈ نے اپنی تحقیق میں انسانی نفس پر اثرانداز ہونے والے تین عناصر ’’ذات‘ انانیت اور خودی‘‘ کی نشان دہی کی ہے۔ اس کے نزدیک ’’ذات‘‘ نفسیاتی توانائی کا وہ وسیلہ ہے جو اِن حیوانی خواہشات کو تیز تر کرتا ہے جو کسی فرد کے حیاتیاتی وجود کے لیے ضروری ہوتی ہیں‘ مثلاً حرص‘ طاقت‘ شہوت‘ حسد اور غرور و تکبر۔ ’’خودی‘‘ ہماری نیکی‘ اخلاق اور خطا کے تصور کا وسیلہ ہے جو اعلیٰ و ارفع کوششوں کی جانب ہمارے لیے کشش پیدا کرتی ہے ‘ جب کہ ’’انانیت‘‘ اس ذہانت کو کہتے ہیں جو ’’ذات‘‘ کی ضروریات کو کنٹرول کرکے ان میں اعتدال پیدا کرتی ہے اور اس سلسلے میں معاشرے اور خودی کے مطالبات کو سامنے رکھتی ہے۔ جرمن نژاد امریکی نومسلم جیفرے لینگ نے انسانی نفس کی ان تینوں ترغیبات کا منبع اسلامی نظریے میں موجود ’’شیطانی‘‘،’’ذاتی‘‘ اور ’’ملکوتی‘‘ تصورات میں تلاش کیا ہے۔ شیطان اللہ کی وہ مخلوق ہے جو ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتی ہے تاکہ ہماری جھوٹی خواہشات کو اُبھار سکے۔ فرشتے روحانی عظمت اور ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کرتے ہیں‘ اور ذات وہ انسانی شخصیت ہے جسے ان ترغیبات میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیفرے لینگ نے مسند ابن حنبل ؒ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی اس حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان کو پیدا کیا جاتا ہے جو اس کی گھٹیا نفسانی خواہشات کو انگیز کرتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ایک فرشتہ پیدا کیا جاتا ہے جو اس کے اعلیٰ تصورات اور نیک خواہشات کو تحریک دیتا ہے۔ جب حضورؐ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپؐ کے ساتھ بھی شیطان پیدا کیا گیا ہے تو حضورؐ نے جواب دیا: ’’ہاں‘ مگر اللہ نے میری مدد کی تاکہ میں اس پر حاوی ہو جائوں اور وہ مغلوب ہو کر مجھے اچھائی کے علاوہ کسی اور کام کی ترغیب نہیں دیتا‘‘۔ (ابن حنبل‘ مسند ‘ جلد اول‘مطبع المیمنہ پریس‘ ص ۳۸۵‘ ۳۹۷‘ ۴۰۱)

مندرجہ بالا معروضات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرائیڈ انسان کے نفسیاتی عدم توازن کی وجوہات کا سراغ لگاتے ہوئے اور نفس انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی حد تک حقیقت کے قریب پہنچا لیکن زندگی اور انسان کے بنیادی تصور میں کجی کی بنا پر اس نے ان امراض کا وہ علاج تجویز کر دیا جو ان کے مزید بگاڑ کا سبب بن گیا۔

ڈاکٹر محمد اجمل کا‘ جو برعظیم پاک و ہند کے علوم نفسیات و فلسفہ کے اکابرین میں سے ہیں‘ کہنا ہے کہ آج کا انسان اپنے نفسیاتی زخموں کے لیے مرہم کی تلاش میں ہے‘ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسائل کا جو بھی حل وہ تلاش کرتا ہے وہ اس کے لیے خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہ بات آج کی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں درست ہے۔ خواہ وہ اقتصادیات کا شعبہ ہو یا انتظامی امور کا یا نفسیاتی معاملات کا۔ کسی ستم ظریف نے تحلیل نفسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ وہی مرض پیدا کرتی ہے جس کا اسے مداوا سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (نفسی طریق علاج میں مسلمانوں کا حصہ‘ ترجمہ شہزاد احمد)

مغربی تاریخ میں ریاست اور کلیسا کی جنگ ایک معروف حقیقت ہے جس نے بالآخر ریاست کی فتح اور مذہب کی موت کے نام سے موجودہ مغربی معاشرے اور نظام کو جنم دیا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج جب مغربی معاشرہ اور نظام اپنے انہدام کی آخری سیڑھی پر ہے اور مغرب خود مایوسی کا شکار ہے‘ ہم دُنیا کواور انسان کے کردار کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ان مغربی نظریات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے بارے میں خود مغرب شش وپنج کا شکار ہے۔ ہم میں سے بہت سے اسی کو ترقی کا درست راستہ سمجھنے پر مصر ہیں۔ ایک امریکی مصنف جے ڈبلیو کرچ نے اپنی کتاب Modern Temper میں مغرب کی مایوسی کا اظہار یوں کیا تھا کہ ’’ہم اپنے مقصد حیات سے محروم ہو چکے ہیں اور اب اس فطری کائنات میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ لیکن ہمیں (کم از کم) اب بطور انسان ہی مرنا چاہیے‘ بطور حیوان نہیں‘‘۔

مذہب کے انکار کے بعد مغربی انسان کے لیے حصول مسرت ہی واحد مقصد حیات ٹھیرا اور زندگی میں اس کی تمام جدوجہدکا نکتہ اوّل و آخریں زیادہ سے زیادہ مراعات کا حصول اور زیادہ سے زیادہ حصول لذت قرار پایا۔ یقینا دُنیا اور مادّی زندگی کو اپنا محور و مرکز بنا کر مغرب اپنے معیارِ زندگی کو بہت بہتر بنانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اپنی تمام تحقیق و جستجو میں روحانی زندگی اور قلبی اطمینان کی اہمیت کو نظرانداز کر کے اس نے خود اپنی روح پر وہ زخم لگائے ہیں جن کا مداوا اب اس کے پاس نہیں۔

دوسری جانب مسلمان معاشروں میں بے چینی اور ناکامی کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ مغربی استعمار کے چنگل میں پھنس کر اپنی ذہنی اور فکری توانائیاں زائل کر بیٹھے‘ اور دوسری طرف انھوں نے اپنے امراض کے علاج کے لیے اپنے منابع و مصادر سے رجوع کرنے کے بجائے مغرب سے متاثر ہو کر اسی کی خوشہ چینی شروع کر دی ہے۔ لیکن وہ اپنی صدیوں کی ذہنی و فکری تربیت کے باعث مغرب کی طرح مذہب سے مکمل طور پر اپنا پیچھا نہ چھڑا سکے اور نتیجتاً دین و دُنیا کے بیچ ذہنی اُلجھاوئوںکا شکار ہو کر رہ گئے۔ بھلا جو شخص ہمیشہ دوراہے پر کھڑا رہے وہ اپنی منزل کیسے پائے!

ذہنی کرب کے دو بنیادی اسباب

مشرق و مغرب کی بحث کو چھوڑتے ہوئے اگر ہم آج کی دُنیا کے انسان کی ذہنی‘ جذباتی اور روحانی حالت زار کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں آج کا انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر غم‘ غصّے‘ نفرت‘ خودغرضی‘ حسد اور انتقام کے جذبات سے بھرا ہوا ملے گا۔ کسی بھی گزرگاہ پر راہ چلتے انسانوں کے چہروں اور ان کے تاثرات پر نظر ڈالیں‘ کسی بھی بازار یا دفتر میں لوگوں کو لین دین کرتے‘ کام کرتے اور بات چیت کرتے دیکھیں‘ کسی بھی گھر میں جھانک کر (چلیے اپنے ہی گھر میں) افراد خانہ اور رشتہ داروں کے باہمی تعلّق کا جائزہ لیں‘ کسی بھی بس یا ویگن میں سفر کرتے لوگوں کو غور سے دیکھیں‘ چہروں پر لکھی وحشتیں اور ایک دوسرے سے لاتعلّقی ایک بے حد تشویش ناک منظر پیش کرتی ہے۔ اس اضطراب کے کچھ اسباب معاشرتی ہیں‘ کچھ ذاتی ہیں‘ کچھ خارجی ہیں‘ اور کچھ داخلی ہیں۔ کچھ کا تعلّق معاشرتی ناانصافیوں‘ حکومتوں کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کی بنا پر عوام کے غیر یقینی مستقبل سے ہے اور کچھ کا تعلّق انسانوں کے اپنے اعمال و کردار سے ہے۔

دو بڑے اسباب بھوک اور خوف ہیں۔ معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم‘ امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق‘ اپنے حقوق غصب کیے جانے اور اپنی عزت نفس کے ہر دم مجروح ہو جانے کا احساس معاشرے کے لوگوں میں عمومی طور پر غم اور غصّے کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہر وقت لٹ جانے‘ تباہ ہو جانے‘ عدم تحفظ ‘ بیماریوں اور غیر یقینی مستقبل کا خوف ان میں نفسیاتی عوارض اور جذباتی ہیجان کا سبب بن رہا ہے۔ جب تک معاشرتی انصاف کا تقاضا پورا نہیں کیا جائے گا اور عوام کو احساس تحفظ میسر نہیں آئے گا ان کے اندر یہ لاوا پکتا ہی رہے گا اورنہ جانے کس وقت ایک خوف ناک ردّعمل کی صورت میں ظاہر ہو جائے۔ لیکن بھوک اور خوف کا زیادہ تعلّق معاشرے کے درمیانی اور نچلے طبقے سے ہے۔ مراعات یافتہ طبقے معاشی پریشانیوں اور غیر یقینی مستقبل کے خوف سے بڑی حد تک آزاد ہیں۔ اس کے باوجود یہ آسودہ حال لوگ بھی ذہنی‘ جذباتی اور روحانی صحت کے اچھے درجے پر نہیں ہیں۔ غم و غصّے اور تشویش کی علامات اس طبقے میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کے نفسی مسائل مغربی طرزمعاشرت اور طرزفکر کے زیادہ گہرے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے زیادہ تر مغربی معاشرے کے مسائل سے مشابہ ہیں۔ معروف برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل نے ایسے ہی مراعات یافتہ طبقوں کی تشویش اور غم و اندوہ کا تجزیہ اپنی کتاب Conquest of Happiness (تسخیر مسرت) میں کیا ہے۔ رسل نے لکھا ہے کہ اس دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو خوشی نہ دے سکے۔ انسان فطری طور پر اپنی حدوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے لیکن وہ موت کو شکست نہیں دے سکتا جس سے بالآخر ہر زندہ مخلوق کو دوچار ہونا ہے۔ اسی طرح انسان ناقابل خطا اور یقینی علم حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے جو رسل کے بقول اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس کے نزدیک اچھی زندگی گزارنے کا راز یہ ہے کہ ناقابل حل معموں اور ناممکن الحصول خواہشوں کو ترک کر دیا جائے۔

انسانی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے رسل نے انسانی ناخوشی کے بہت سے اسباب گنوائے ہیں جن سے انسان بہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان میں (۱) نرگسیت(narcissism) جسے حد سے بڑھی ہوئی خودپسندی یا خود محبتی بھی کہا جاسکتا ہے‘ (۲) خبط ِ عظمت‘ یعنی اپنی اہمیت و طاقت کا مبالغہ آمیز تصور اور دوسروں سے بھی اپنے لیے اقرار عظمت کی توقع رکھنا اور (۳) احساس گناہ سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر عناصر میں قنوطیت‘ مسابقت‘ بوریت‘ تھکاوٹ‘ حرص‘ دوسروں کی طرف سے اذیت پہنچنے‘ اور دھوکا کھانے کا خوف (persecution mania)اور عوامی رائے کا خوف شامل ہیں۔

رسل کے تجزیے میں بہت سے قابل غور پہلو ہیں لیکن دیگر علماے یورپ کی طرح ان کے افکار میں بھی مادّی رجحانات کا غلبہ ہے اور روحانی اور دینی پہلوئوں کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب روح اور دین بنیادی تصور زندگی سے ہی غائب ہو جائیں تو وہ کسی بھی پہلو سے سوچ کا حصہ کیسے بنیں۔ فکر کی یہی وہ بنیادی غلطی ہے جو انسان کو کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے نہیں دیتی اور لب بام سے دو چار ہاتھ کی دُوری بھی اس کے لیے عمر بھر کا فاصلہ بن جاتی ہے۔

مسلمانوں کی حالت زار

آج مسلمان خود اپنے سینوں میں جھانک کر دیکھ لیں توقرآن و سنت میں انھیں وہ نسخہ کیمیا ہاتھ آسکتا ہے جو صرف انھی کے امراض کا علاج نہیں بلکہ مغرب کے زخموں کا مداوا بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایمان کی اس کمزوری کا کیا کیا جائے جو جدید انسان کے مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت پر غوروفکر اور تدبر کا موقع ہی نہیں دیتی۔ کیونکہ قرآن کی نعمتیں تو ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس پر مکمل ایمان رکھیں۔’’ان سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے‘ مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے‘‘ (حٰم السجدہ۴۱:۴۴)۔ جو لوگ قرآن کی اس شرط اوّل پر معترض ہیں وہ امریکہ کے ماہر نفسیات ولیم جیمز کا اعتراف بھی سن لیں جن کا کہنا ہے کہ ’’انسان کے دکھ درد کا سب سے بڑا علاج ’’ایمان‘‘ ہے۔ ایمان انسان کی زندگی میں بے پناہ قوت پیدا کرتا ہے جو انسان کے تمام نفسیاتی اور جسمانی اعمال پر اثرانداز ہوتا ہے‘‘۔ (محمد عثمانی نجاتی‘ القرآن اور علم النفس‘ ص ۳۶۶)

کمزور ایمان کے ساتھ تشکیک زدہ ذہن جب قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں اس مطالعے سے فائدہ کے بجائے نقصان ہی ہوتا ہے۔ قرآن کی یہ آیت اس معاملے میں بہت بڑی تنبیہ ہے یعنی: ’’ہم اس قرآن کے سلسلۂ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے‘مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۲)۔

ڈاکٹر محمد اجمل ذہنی امراض اور ایمان کے تعلّق کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’تمام نفسیاتی فاصلے جو انسان اور انسان کے درمیان یا انسان اور فطرت میں موجود ہیں اس فاصلے کا شاخسانہ ہیں جو خدا اور بندے کے درمیان پیدا ہو چکا ہے ‘ چنانچہ ذہنی صحت کا دارومدار نفسیاتی طور پر خدا سے قریب ہونے میں ہے۔ ایمان‘ میں پھر کہتا ہوں صرف ایمان‘ مفروضہ نہیں‘ بے شک صرف خدا کی وحدت پر ایمان‘ ایک طرف تو ذات کی اکائی کی علامت ہے اور دوسری طرف فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا احساس ہے--- خدا سے دُوری کا مطلب ہی ذہنی مرض ہے۔ یہ جدید نفسیات کی الم ناک غلطیوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ذہنی فتور کو طبعی بیماری کی حیثیت میں دیکھنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (حوالہ بالا)

واضح رہے کہ ذہنی مرض سے مراد وہ انتہائی ذہنی اور نفسیاتی بگاڑ یا عدم توازن نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان کسی بھی طرح کا ذہنی کام انجام دینے کے قابل نہیں رہتا اور معاشرہ اسے مکمل طور پر ردّ کر کے پاگل خانوں‘ عقوبت گاہوں یا جیل خانوں میں پہنچا دیتا ہے‘ بلکہ نفاق‘ شک‘ حسد‘ انتقام‘ غصّہ‘ خود غرضی اور لاتعلّقی کی مختلف حالتیں ذہنی مرض ہی کی مختلف علامتیں ہیں۔ ان میں وہ تمام نفسیاتی عوارض بھی شامل ہیں جن کا ذکر برٹرینڈرسل کے حوالے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور یہ صرف بالائی طبقوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر طبقے کے افراد ان میں مبتلا ہیں۔ وجوہات‘ علامات اور اظہار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ذہنی اور باطنی ناہمواری کا بنیادی سبب خدا سے دُوری ہے۔

ذہنی مرض کو سمجھنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی اس طرح فرمائی ہے کہ ’’یہ جان لو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جس پر اس کے نیک و بد ہونے کا انحصار ہے۔ گوشت کا یہ لوتھڑا صحت مند ہو تو انسان (روحانی طور پر) صحت مند رہتا ہے اور جب یہ صحت مند نہ ہو تو انسان بھٹک جاتا ہے۔ اور گوشت کا یہ لوتھڑا قلب انسانی ہے‘‘۔ قرآن حکیم مرض پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:  فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ (البقرہ ۲:۱۰)‘ یعنی ان کے دلوں میں مرض ہے اور اس مرض میں مسلسل اضافے کی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے تکبر میں ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ (البقرہ ۲:۱۵)۔

خدا سے دُوری کے نتائج

باطنی ناہمواری: ڈاکٹر محمد اجمل کے نزدیک خدا سے دُوری اور قلب کی اس بیماری کے سبب انسان باطنی ناہمواری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ باطنی ناہمواری لوگوں کے باہمی تعلّقات میں اختلاف اور انتشار پیدا کرتی ہے۔ پھر لوگ اپنی بے قرار روح کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے مضبوط اَنا (ego) تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’’صالحین‘‘ کا نام دے دیتے ہیں۔ لوگوں اور معاملات کے ساتھ ان کا تعلّق استحصال اور شناخت کا تعلّق ہوتا ہے۔ خود نمائی ان کی حرص بڑھا دیتی ہے اور جوں جوں ان کی حرص بڑھتی ہے ‘ وہ گھمنڈی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جوں جوں ان کا تعلق غیرمتعلق لوگوں اور مادی اشیا کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے‘و یسے ہی وہ خود بھی غیر متعلق اور مادّے جیسے مردہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بے شمار لالچ اور ترغیبات ان کا دامن کھینچتی ہیں اور وہ بہت سی عادات کے غلام بن جاتے ہیں‘ تحفظ ان کا قوی ترین جذبہ اور حصول مسرت ان کا واحد اصول بن جاتا ہے۔ (حوالہ بالا‘ ص ۱۳)

باطنی کرب: قلب کی یہ بیماری انسانوں کو ایک ایسے باطنی کرب میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ ایک ایسے فکری دائرہ شر میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں جہاں سے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ خواجہ عبداللہ انصاری ؒ اپنی تفسیر میں اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ ایک بیماری ہے جس کی کوئی حد نہیں‘ یہ ایک درد ہے جس کا کوئی مداوا نہیں‘ یہ ایک رات ہے جس کی کوئی صبح نہیں‘ منافقت کی ذہنی حالت سے زیادہ قابل رحم ذہنی حالت اور کون سی ہو سکتی ہے؟ یہ شروع سے آخر تک ذہنی طور پر کٹ جانے کی حالت ہے۔ آج وہ باطنی کرب میں مبتلا ہے اور کل وہ دائمی مایوسی کا شکار ہوگا‘‘۔ ایک اور مقام پر خواجہ انصاری مرض کو ’’شک‘‘ اور ’’نفاق‘‘ کہتے ہیں۔ آج کے دَور کا انسان اسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ (ایضاً)

ضمیر کی کش مکش :  اللہ تعالیٰ کا انسان پر یہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کی فطرت میں ایک ایسی کسوٹی رکھ دی ہے جس سے اسے خود بخود اپنے افعال کے اچھے یا بر ے ہونے کا پتا چلتا رہتا ہے۔ اور جب بھی وہ فطرت کے خلاف شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف ذہنی رجحانات کے زیراثر کوئی کام سرانجام دیتا ہے یا اس کی سوچ فطرت سے ہم آہنگ نہ ہو تو اسے اپنے اندر ایک خلش کا احساس ضرور ہوتا رہتا ہے۔ اگر وہ اپنے ضمیر کی اس آواز کو مسلسل دباتا چلا جائے تو ایک فکری دائرہ شر میں داخل ہو جاتا ہے‘ ذہنی طور پر فطرت سے کٹ کر رہ جاتا ہے اور پھر اس میں سوائے بدی کے کوئی قدر باقی نہیں رہ جاتی۔

پرُمسرت زندگی کا حصول:  ذہنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ضمیر کی آواز پر کان دھرا جائے اور اس کو اہمیت دی جائے۔ قرآن مجید میں سورۃ القیامہ کا آغاز یوں ہوتا ہے: ’’نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ‘ اور نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘ (۷۵: ۱-۲)۔ نفس لوامہ وہ روح ہے جو الزام دیتی ہے اور خامیوں سے آگاہ رکھتی ہے۔ یہی ضمیر ہے‘ ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو گناہوں پر ندامت پر آمادہ کرتی ہے۔ ندامت کی بھی تین قسمیں بیان  کی جاتی ہیں:

۱- حال کی پشیمانی: اس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرے۔

۲- ماضی کی پشیمانی: یہ انسان کو دوسروں کے حقوق انھیں واپس دینے کی ضرورت یاد دلاتی ہے۔ اگر انسان نے کسی انسان کی ناجائز ملامت کی ہو‘ اس کا حق غصب کیا ہو تو وہ اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگے۔ اگر اس نے بدی کا کام کیا ہو تو خدا سے معافی کا خواست گار ہو۔

۳-مستقبل کی پشیمانی: انسان یہ فیصلہ کرے کہ وہ دوبارہ گناہ نہ کرے گا۔

روحانی اور ذہنی صحت کی ابتدا ندامت سے ہوتی ہے۔ انسان کو سب سے پہلے اپنے ساتھ سچ بولتے ہوئے اپنی غلطیوں کے جواز گھڑنے کے بجائے اپنی حالت کو قبول کرنا چاہیے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی اس سلسلے میں یہی ہدایت دی ہے کہ اپنی حالت کو قبول کیا جائے۔ قبول کرنے کے بعد ہی انسان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنے فکری اضطرار کو اخلاقی ارادے کے زیراثر لایا جائے۔ یوں انسان اپنے خدا کے قریب آجاتا ہے۔ یاد رہے کہ ندامت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر وقت اپنے گناہوں کا ذکر کرتے رہیں کیونکہ بار بار ذکر کرنے سے انسان کو باطنی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ایذا پسندی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر آدمی کی شدید اعصابی ضرورت بن جاتی ہے۔ جس قدر زیادہ کوئی گناہوں کی ندامت میں گھرا رہے گا اسی قدر زیادہ وہ اپنے گناہوں کو دہرانے پر مائل ہوگا۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ اگر آپ کسی شے کی آخری حد تک جانے کی کوشش کریں تو آپ کو اس کا متضاد حاصل ہوگا۔ بہت سے لوگ شر کے اس چکر میں پھنس جاتے ہیں اور اپنے لیے ایسی صورت حال پیدا کر لیتے ہیں جو ان کے مقاصد کے برعکس ہوتی ہے۔

’’توبہ کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ندامت ہی میں پھنس کررہ جائے‘ یا خود رحمی کا شکار ہو‘ یا اپنی ناقدری کرنے لگے۔ روحانی تبدیلی کا عمل شروع کرنے کے لیے بہترین وقت حال--- یہیں اور ابھی ہے۔ جو بار بار ماضی کا تذکرہ کرتا رہتا ہے‘ تاسف اور ندامت کے ہاتھوں وہ ماضی کا اسیر بن جاتا ہے۔ وہ جس میں اپنے آپ سے ارفع جانے کی ہمت ہے‘ وہی اپنے آپ کو پا سکتا ہے‘‘۔ (ڈاکٹر محمد اجمل‘ ص ۸۸)

روحانی طور پر خوش گوار زندگی بسر کرنے کا آسان کلیہ یہ ہے کہ انسان خدا کی خوشنودی کے حصول کو اپنی زندگی کی پہلی ترجیح قرار دے‘ اور اپنے تمام معمولات کو احکامات خداوندی اور نبی کریم ؐ کی ہدایت کے مطابق انجام دینے کی کوشش کرے۔ جوں جوں اس کے ضمیر سے بوجھ اترنے لگیں گے اور وہ خدا سے اپنے تعلق کو جتنا زیادہ مضبوط کرے گا اتنا ہی وہ اپنے آپ کو فطرت سے زیادہ ہم آہنگ محسوس کرے۔ ایمان کی مضبوطی کے ساتھ ہی وہ زندگی میں دکھ درد کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر مثبت ردّعمل اختیار کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ قرآن کی بشارت ہے کہ ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں ‘ جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا‘ ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (یونس ۱۰: ۶۲-۶۴)

عبادات‘ ذکر‘ دعا‘ مغفرت طلبی‘ انسان دوستی‘ عفو و درگزر‘ قناعت‘ صلہ رحمی‘ انفاق فی سبیل اللہ جیسے

بے شمار ہتھیار اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو اپنے احکامات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے ذریعے عطا فرمائے ہیں جن سے زندگی کے تمام دکھوں‘ پریشانیوں‘ کٹھنائیوں‘ آزمایشوں اور غم و اندوہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ‘ قربانی اور مذہبی اخلاقیات ایک فرد کو تمام عمر سہارا دیتے ہیں۔ وہ اسے اس کا مقصدحیات یاد دلاتے ہیں اور باطنی قوت کی مضبوطی‘ قوت فیصلہ کی راستی اور کردار سازی میں مدد دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہماری بہت سی پریشانیاں ہماری اپنی ناشکری اور بے صبری کی پیداوار ہوتی ہیں۔ دُنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پاس خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے کچھ نہ ہو‘ اور جو ایسا سوچتا ہے بالآخر اس سے خدا ‘ شکر اور خوشی کے تمام جواز چھین بھی لیا کرتا ہے۔ جو شخص اس انتہائی محرومی سے بچنا چاہتا ہے اسے ان نعمتوں کو پہچاننے ‘ ان کا حق ادا کرنے‘ ان پر خوش ہونے اور ان کا شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خدا ان سے خود اپنا تصور بھی چھین کر ایسا تنہا کر دے کہ ان کی بینائی کے لوٹ آنے کی امید نہ رہے۔

یقینا اللہ تعالیٰ ظالموں اور فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ’’پھر جب انھوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے‘ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (الصف ۶۱:۵)۔ اللہ ان کی رہنمائی کرتا ہے جو اس کے احکامات پر چلتے ہیں‘ مخلص اور نیک نیت ہیں‘ اور اسے پکارتے ہیں:’’پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے‘ میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۶)۔ ’’اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انھیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے‘‘ (العنکبوت ۲۹:۷)۔ ’’ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے‘‘ ۔(الاعراف ۷:۴۳)