’’امریکی کردارسے بے زاری کے اسباب‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) میں دو بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کی بے دخلی کی روشنی میں امریکی حکومت اور ابلاغ عامہ کے ردّعمل پر خوب صورت انداز سے بحث کی گئی ہے۔ یہ قارئین کو بدلتے حالات سے خبردار رکھنے کی درست سعی ہے۔ مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ مدا ہنت سے نہیں‘ بلکہ حالات کے بے لاگ تجزیے کے ذریعے امریکی قیادت اور پوری دنیا کو آگاہ کیا جائے کہ عالمی سیاست میں بگاڑ کا باعث اور انسانی معاشرے میں ظلم و استحصال کا ذریعہ بننے والے اسباب اور عوامل کیا ہیں؟ اسباب کے زمرے میں امریکہ پر عالمی بے اعتمادی اور اس کے پرُرعونت طریقۂ کار کو موردالزام ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ مذکورہ دونوں اسباب نہیں‘ بلکہ نتائج ہیں۔ قارئین کو بنیادی اسباب سے خبردار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ عناصر روز بروز نہ صرف اپنی گرفت عالمی سیاست ‘ معیشت اور عسکری قوتوں پر مضبوط کر رہے ہیں بلکہ کھلے انداز سے میدان میں کود پڑے ہیں۔ مضمون میں عالم اسلام کے کردار پر بہت ہی کم بحث ہوئی ہے۔ کیا ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی ہے؟
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ’’قرآن: اندازِ نزول کی حکمت‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) میں جس طرح حکمت اور دلائل کے ساتھ قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کی حکمتیں بیان کی ہیں‘ اس سے بڑی حد تک ان سوالات کا جواب مل جاتا ہے جو قرآن مجید کا مطالعہ کرتے وقت ذہن میںپیدا ہوتے ہیں۔ ’’اتحاد قومی: پانچ بنیادی اُصول‘‘ موجودہ حالات کے ایک اہم تقاضے کو پورا کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ ہمارے عوام اور بعض علماے کرام بھی اختلاف اور مخالفت میں فرق نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہماری مساجد میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں۔
’’قومی بیداری‘ وقت کا تقاضا‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) فوجی حکومت کے لیے لمحہ فکرہے اور اس میں آنے والے طوفان سے پیشگی خبردار کیا گیا ہے۔ سید مودودیؒ کے بتائے ہوئے اتحاد قومی کے پانچ بنیادی اصول ہمارے موجودہ قومی مسائل کے حل کے لیے آج بھی نسخہ کیمیا ہیں‘ کاش ان پر عمل کیا جائے! ’’قرآن: اندازِ نزول کی حکمت‘‘ بہت عمدہ ہے‘ تاہم اس کے ص ۲۶ کی آخری سطر میں ’’نوبت‘‘ کی بجائے ’’نبوت‘‘ شائع ہوا ہے جس سے بڑی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر فخرالاسلام کی تحریر ’’غیر حکومتی تنظیمیں: حقائق‘ کرنے کا کام‘‘ (جولائی ۲۰۰۱ء) پڑھ کر معلوم نہ ہو سکا کہ یہ تحریر این جی اوز کی مخالفت میں لکھی گئی ہے یا حق میں۔ رسائل و مسائل کی کمی محسوس ہوئی۔