اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست ۲۰۰۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

والدین کی جانب سے تحریکی کام کی مخالفت

سوال :  میں ایم بی بی ایس سال آخر کا طالب علم ہوں۔ ۴ سال سے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوں اور آیندہ بھی تحریک اسلامی کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔ میری والدہ نماز کی پابند ہیں۔ روزانہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں لیکن میری ان سرگرمیوں کی سخت مخالف ہیں اور شدت سے منع کرتی ہیں۔ دین میں والدہ کی اطاعت کی اتنی زیادہ تاکید ہے۔ میں سخت پریشانی میں ہوں‘ کیا کروں؟ (سوال میں تفصیل ہے‘ یہاں اختصار کر دیا گیا ہے)۔

جواب :  والدہ صاحبہ اور دیگر اہل خانہ کی طرف سے تحریکی سرگرمیوں اوراسلام کا مطالعہ کرنے پر برہمی اور مخالفت کے بارے میںآپ نے جو تفصیل خط میں لکھی ہے اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ ہدایت اور رہنمائی فی الواقع اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس لیے والدہ صاحبہ کی مزاحمت کے باوجود الحمدللہ آپ پرُعزم طور پر تحریک سے وابستہ ہیں اور اسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے پر شعوری طور پر قائم ہیں۔ یہ بڑے نصیب اور حوصلے کی بات ہے۔ اس پر آپ جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی بھلائی‘ اچھائی اور فلاح کے بارے میں مخلص ہونے کے باوجود انسان ہونے کے سبب غلطی کر سکتے ہیں اور بعض معاشرتی رجحانات اور جاہلی خاندانی روایات کی بنا پر اولاد سے اپنے اخلاص و محبت کے باوجود غیر عقلی اور غیر اسلامی رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیشہ ان کے لیے دُعا کرنی چاہیے کہ اللہ انھیں حق کو پہچاننے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے اور وہ روایتی اور رسمی اسلام سے نکل کر حقیقی اور قرآن و سنت پر مبنی اسلام کی برکتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔

آپ کے خط میں آخر میں جو بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا سامنا دَور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک ہر طالب علم کرتا رہا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ جب حضرت ابراہیم  ؑ ‘ حضرت موسٰی ؑ اور دیگر انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنے اہل خانہ اور اہل قریہ کو دعوت حق دی تو جواب یہی تو تھا،’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اگر ہم نے تمھاری بات مان لی تو خاندان اور قبیلے والوں کے سامنے ناک کٹ جائے گی۔ دین و ملک خطرے میں پڑ جائے گا‘‘۔ لیکن انبیاے کرام نے اپنے والدین کی اور اہل خانہ کی مخالفت کے باوجود دین حق کو متاع حیات بنایا اور اس کے باوجود آذر جیسے باپ کے لیے محض اس بناپر ربّ کریم سے دعا کی کہ باپ سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کروں گا۔

آپ کو علم ہے حضرت ابوہریرہؓ جب اپنے خاندان کی روایات کے خلاف دین حق قبول کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کسی سفاک اور ظالم فرعون نے نہیں‘ ان کی اپنی والدہ نے ان کے جسم سے کپڑے تک اُتروا لیے اور وہ ایک مانگے کی چادر سے اپنے جسم کو چھپاتے‘ پرُعزم اور باہمت طور پر دعوت حق سے بال برابر پیچھے نہ ہٹے!

قرآن کریم نے سورہ بنی اسرائیل اور دیگر مقامات پر والدین کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے‘ یعنی اگر والدین اللہ کی اطاعت کی راہ میں حائل ہوں اور اللہ کے ساتھ شرک کا حکم دیں تو ان کی اطاعت معصیت اور ان کی نافرمانی دینی فریضہ ہوگی۔ اسلام کا اصول ہے‘ ’’خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔

صبح کی خواب آور فضا میں جب مؤذن مسجد کی طرف بلاتا ہے تو ابلیس اور اس کی ذریت اللہ کی بندگی کی جگہ نفس کی بندگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اگر ابلیس کی بات مان لی جائے تو گویا چند لمحات کے لیے ایک شخص نفس کو اللہ کی حاکمیت میں شریک کر لیتا ہے‘ اور یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ جب خاندانی رسوم و رواج اسلام کی واضح تعلیمات سے ٹکراتی ہوں اور ایک شخص بزرگوں کے کہنے پر ان رسوم و رواج کی پیروی کرے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کہ اس نے بندئہ ربّ ہوتے ہوئے رسوم و رواج کو اپنا خدا بنا لیا۔

والدین کی اطاعت قرآن و سنت کی رُو سے مشروط ہے‘ مطلق نہیں ہے‘ اور جس طرح والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح دین کے علم کا حصول بھی فرض عین ہے اور دعوت و تبلیغ یا امربالمعروف ونہی

عن المنکر بھی ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ اگر آپ کی والدہ صاحبہ قرآن باترجمہ پڑھتی ہیں تو انھیں محبت و احترام سے یہ بات سمجھایئے کہ کیا وہ چاہتی ہیں کہ ان کا چہیتا بیٹا ہدایت کی روشنی کو چھوڑ کر جاہلیت کی تاریکی کی طرف لوٹ جائے اورچاہے اس دنیا کے مادی فوائد حاصل کر لے لیکن آخرت میں نقصان میں رہے۔

بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ صاحبہ کو زندگی کے کسی مرحلے میں کسی ایسے تلخ تجربے کا اتفاق ہوا ہے جس میں انھوں نے یہ محسوس کیا کہ اللہ کے دین کے لیے کام کرنے والے ان معاملات میں جنھیں ہم دُنیاوی کہتے ہیں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان کی پہنچ حد سے حد مسجد کی امامت تک ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر والوں اور کاروبار کو چھوڑ کر مہینوں دین کی تبلیغ کے لیے باہر رہتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ صرف نماز‘ روزہ اور وہ بھی گھر میں بیٹھ کرکر لینے سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائیں گے اور اعلیٰ سرکاری ملازمت یا کسی تجارتی ادارے میں سربراہ بن کر مادی فوائد حاصل کر لینے سے زندگی کامیاب ہو جائے گی۔

دین اور دُنیا کی تفریق کا یہ تصور قرآن و سنت کے منافی ہے۔ قرآن و سنت زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی اتحاد چاہتے ہیں ‘ٹکرائو اور تضاد کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح قرآن و سنت دعوتی اور تحریکی کاموں کے ساتھ والدین کے حقوق کی ادایگی‘ حصول علم اور معاشرے میں فعال فرد کی حیثیت سے ایک اچھے خاندان اور اخلاقی معاشی کردار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دین کی جامع فکر اور دین کی رسمی فکر میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اول الذکر حیات انسانی کے تمام معاملات میں ہم آہنگی اور عدم تضاد چاہتا ہے‘اور ثانی الذکر دین کی جگہ ’’رسمی مذہبیت‘‘ کے ساتھ شان دار مادّہ پرستی‘ رسم پرستی‘ خاندان پرستی اور نفس پرستی سے خوش ہوتا ہے۔

بلاشبہ جنت ماں کے پائوں تلے ہے لیکن اس وقت جب ماں بیٹے کو جنت کی طرف جانے کے راستے پر عمل کرنے دے اور اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ اولاد سے صحیح محبت وہ ہے جو قرآن و سنت کی پیروی میں ہو۔ اسلام محض کلمہ گوئی کا نام نہیں ہے۔ یہ کلمے پر عمل کا نام ہے۔ منہ سے کہہ دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہنما ‘ آخری رسولؐ اور ہادی اعظمؐ ہیں‘ اور عملاً مادّی منفعت کو اپنا خدا بنا لینا‘ رسوم و رواج کو پوجنا کلمے کے انکار کے مترادف ہے۔

جیسا کہ اُوپر کہا گیا ہے کہ فرائض دین میں اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر اللہ نے اقامت صلوٰۃ کا حکم دیا ہے اور ایک شخص گھر میں نماز پڑھتا ہے تو وہ بنیادی تعلیم کا انکار کرتا ہے۔ یہ اختیار کسی بندے کو نہیں ہے‘ وہ والدین ہوں یا حکومت وقت۔ اسی لیے قرآن کا واضح اصول ہے کہ اولوالامر کی اطاعت صرف اس وقت تک ہے جب تک ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہو ورنہ کوئی اطاعت نہیں ہے۔ لیکن یہ مناسب نہیں ہے کہ والدین کے ساتھ بے ادبی اور بدتمیزی اختیار کی جائے بلکہ محبت و احترام سے انھیں سمجھایا جائے اور بار بار سمجھایا جائے اور کسی موقع پر بھی کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ چاہے ان کا رویہ اہل مکّہ کی طرح کا ہی کیوں نہ ہو۔

اگر آپ کی والدہ کے ذہن پر بوجوہ کوئی اثرات ہیں تو اس کے علاج کی فکر کیجیے تاکہ ان کی سوچ مثبت اور تعمیری بن سکے۔ دعوتی کام تو زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے‘ اسے کسی قیمت پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہاں‘ یہ نہ بھولیے کہ خود والدین کوحکمت و محبت سے دعوت دینا بھی آپ کے فرائض میں شامل ہے اور گھر کے باہر کام کرنے کے ساتھ ساتھ واجب ہے۔ اس لیے اگر وہ ترجمان القرآن پڑھنے پر آمادہ نہ ہوںتو گفتگو میں اس کے کسی اچھے مضمون کا خلاصہ بیان کر دیجیے۔ کبھی قرآن کریم کی کسی آیت کی تشریح تفہیم القرآن کی مدد سے بغیر یہ بتائے کہ کون یہ کہتا ہے‘ ان کے سامنے رکھیے۔ اگر کسی اجتماع سے آپ کوئی بات سمجھ کر آئے ہیں تو اسی موضوع پر کسی مناسب موقع پر والدہ سے بات کیجیے اور ان سے اس کا حل پوچھیے اور پھر عاجزانہ رائے کے طور پر جو آپ نے خود مطالعہ کیا ہو یا کسی سے سمجھا ہو‘ا نھیں بتایئے۔ اور اس پورے کام کو دعوتی کام ہی سمجھیے۔ ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے دعا لازماً کیجیے۔ ہمارے قلوب اسی کی گرفت میں ہیں‘ وہی دین کے لیے سینہ کو کشادہ کرتا ہے‘ وہی راہ راست دکھاتا ہے اور وہی راہ راست پر قائم رکھتا ہے۔ فنعم المولٰی ونعم النصیر۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

مصنوعی بالوں کی پیوند کاری

س :  آج کل بالوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ یعنی جلد میں آپریشن کے ذریعے مصنوعی بال لگائے جاتے ہیں۔ ایک جھلی پر بال (مصنوعی) چپکا کر جھلی سر پر جہاں بال نہ ہوں چپکا دی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں بال ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ کیا غسل اور وضو اس صورت میں ہوجاتے ہیں یا نہیں؟

ج :  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا جسم و جان امانت کے طور پر عطا کیا ہے ۔ اس امانت کا حق اس طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے مطابق استعمال کیا جائے۔ لہٰذا ترک و اختیار میں شریعت سے انحراف اس امانت کا ناجائز تصرف ہوگا۔

۱- بالوں کی پیوند کاری تغیر فی خلق اللہ کے زمرے میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی اور غیرفطری کاموں سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۰)

اس فطرت پر قائم ہو جائو جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘ یہی بالکل درست دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث جو حدیث کی معتبر ترین کتب میں مذکور ہیں‘ ان میں آپ نے صریح الفاظ میںاس مصنوعی فعل سے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں آتا ہے: ’’لعن الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ (مسلم‘ عن ابن عمر‘ کتاب ا للباس‘ ترمذی‘ ابواب الادب‘ ابوداؤد‘ کتاب الترجل)۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والوں پر لعنت فرمائی‘‘۔ البتہ انسانی بالوں کے علاوہ کسی دوسری چیز سے بنے ہوئے مصنوعی بال جوڑنے کی گنجایش موجود ہے۔ آپ نے جس صورت کے بارے میں سوال کیا ہے اگر اس میں جھلی اور بال کسی درخت وغیرہ سے بنائے گئے ہیں تو ان کا استعمال جائز شمار ہوگا۔ ایسی صورت میں غسل میں جہاں تک پانی پہنچایا جا سکتا ہو پہنچایا جائے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ ’’عورت کے لیے اس میں حرج کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے بالوں کی مینڈیوں میں پشم کی کوئی چیز جوڑے‘‘ ۔(الفتاویٰ الھندیۃ‘ کتاب الکراھیۃ‘ الباب التاسع عشر‘ ج ۴‘ ص ۱۱۳)

اصطلاح میں غسل کے معنی بدن کو دھونا ہے اور اس کا اطلاق بدن کے ظاہر اور باطن پر ہوتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ جس میں پانی کا پہنچانا ناممکن یا مشکل ہو جیسا کہ بحرالرائق میں ہے: ’’غسل سوائے کسی تکلیف کے حتی الوسع تمام جسم پر پانی بہانا ہے‘‘۔

اس لیے جو مصنوعی غیر انسانی بال سرجری کے لیے سر میں پیوست ہوچکے ہیں اور جسم کا حصہ بن چکے ہیں‘ اگر غسل کی صورت میں پانی سر تک نہیں پہنچتا بلکہ مصنوعی جھلی تک پہنچتا ہے تو غسل یا وضو ہو جائے گا۔ البتہ جن بالوں کو سر سے جدا کیا جا سکتا ہے ان کو غسل کے وقت جسم سے جدا کیا جائے اور سر تک پانی پہنچایا جائے ‘ اس کے بغیر غسل یا وضو نہ ہوگا۔ واللہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

وی سی آر اور ڈش انٹینا کا کاروبار

س :  میں ایک دکان میں بطور ملازم کام کرتا ہوں۔ دکان کا کاروبار ٹی وی‘ وی سی آر‘ ٹیپ ریکارڈر اورریڈیو کے پرزوں پر مشتمل ہے۔بعض مقامی علما اس کاروبار کو جائز نہیں سمجھتے۔ کچھ دوست بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔

ج :  ٹی وی‘ ریڈیو‘ وی سی آر‘ ڈش انٹینا اور ویڈیو وغیرہ جدید زمانے کے ذرائع ہیں۔ یہ جدید آلات ہیں۔ ان سے قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اسلامی پروگرام بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس لیے اس شعبہ میں کام کرنا برا نہیں۔ اس وقت اقتدار لادینوں کے پاس ہے اور وہ ان آلات کے ذریعے بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی ترویج و اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اس کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس لیے کاروبار محض اس وجہ سے حرام نہیں ہوگا کہ یہ آلات فحاشی پھیلانے کے ذرائع ہیں۔ آپ اگر ان آلات کی مرمت کا کام کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح ایک دکان دار چھری‘ چاقو اور اسلحہ فروخت کرتا ہے تو یہ جائز کاروبار ہے۔ اگر کوئی شخص چھری‘ چاقو کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا‘ دکان دار نہیں۔ اس لیے آپ جو کام کر رہے ہیں اسے کر سکتے ہیں۔ واللہ اعلم! (ع - م )

چند متفرق مسائل

س :  ۱- امریکہ میں میرے ایک بھائی نے ایک دن برگر کھا لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں جھٹکے کا گوشت تھا۔ ان کے ایک دوست نے کہا کہ یہ حرام نہیں ہے۔ کیا یہ کھانا حرام ہے؟

۲- بسنت‘ مائوں کا دن‘ باپوں کا دن وغیرہ منانا اسلام کی رُو سے جائز ہے؟

۳- آج کل بازار میں فلالین کی ایسی قمیصیں مل رہی ہیں جن کے ساتھ پاجامہ ہوتا ہے‘ یہ تنگ نہیں ہوتے۔ کیا ان کا استعمال درست ہے؟

۴- باہر آنے جانے کے لیے برقع لیا جائے‘ جب کہ تعلیمی ادارے اور صرف لڑکیوں کی موجودگی میں گلے میں دوپٹا لیں‘ کیا یہ درست ہے؟

۵- اگر ایک ادارے کی بہت فیس ہو ‘ اس کے طلبہ کو لائبریری سے رسالہ درکار ہو‘ یا کوئی پودا پسند آئے تو کیا لے سکتے ہیں‘ جب کہ اجازت لینے کی بھی جرأت نہ ہو؟ اسی طرح خالہ‘ ماموں‘ چچا کے گھر سے بھی چیز لی جا سکتی ہے؟

۶- گرمیوں میں گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کیا کوئی لڑکی صرف لڑکیوں کی موجودگی میں ایسی چھجے والی ٹوپی پہن سکتی ہے جس کا پرنٹ رنگ بالکل لڑکیوں والا ہو؟ ویسے تو مردوں کی سی چیزیں حرام ہیں مگر ایسی ٹوپی جو کوئی مرد نہ پہن سکے‘ اس میں بھی حرج ہے؟

۷- کیا ابرووئں کے درمیان کے چند بال ختم کیے جا سکتے ہیں؟

ج :  ۱- برگر میںجھٹکے کا گوشت ہو تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ جھٹکے کا گوشت حلال ہے اس کی بات صحیح نہیں ہے۔

۲- بسنت اور اس جیسے تہوار یہودیوں‘ ہندوئوں اور عیسائیوں کے رسوم و رواج ہیں۔ ان میں وقت کا ضیاع اور خلاف اسلام عقائد کی آمیزش ہے۔ ان کا منانا کفار کی جاری کردہ تفریحات میں اُلجھ کر اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ایسے رسوم و رواج اور کھیل جو اسلام کے منافی نہ ہوں ان کی بھی صرف اس وقت اجازت ہے ‘جب کہ ان میں دینی اور دنیوی فائدہ ہو۔

۳- خواتین کو ایسا لباس استعمال کرنا چاہیے جس سے مردوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ لباس کو دیکھ کر اندازہ ہو کہ یہ خاتون ہے۔ لباس مکمل طور پر ساتر ہو۔ قمیص کے ساتھ پاجامہ ہو تو اس سے جسم کے پیچ و خم بھی نظر آتے ہیں ۔اس لیے یہ لباس‘ لباسِ ساتر نہیں ہے۔

۴- جہاں پر مرد موجود نہ ہوں صرف خواتین ہوں وہاں دوپٹا اوڑھنے کی رخصت ہے۔ جہاں غیر محرم مردوں کی آمدورفت جاری رہتی ہو وہاں پورے ستر کو ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔

۵- ادارے کی اشیا کو بغیر اجازت استعمال میں لانا جائز نہیں۔ البتہ خالہ‘ ماموں اور چچا کے گھرسے کھانے پینے کی چیزیں اس وقت استعمال کی جا سکتی ہیں‘ جب کہ صراحت سے یا عرفاً اجازت ہو۔

۶- خواتین ٹوپیاں استعمال نہ کریں کیونکہ ان میں مردوں کے لباس کے ساتھ مشابہت موجود ہے اور خواتین کو مردانہ یا اس سے مشابہ لباس پہننے کی اجازت نہیں۔

۷- ابرو کے درمیان والے بال کیمیکل سے صاف کر دینا یا استرے سے منڈوانا جائز نہیں ہے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م )