اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

صبر و شکر

مولانا اشرف علی تھانوی | اگست ۲۰۰۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

شکر: ہر وقت ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہوتی ہیں:  وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْھَا ط  (ابراہیم ۱۴:۳۴) ’’اگراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنو تو شمار نہ کر سکو گے‘‘۔ کچھ نعمتیں تو ایسی ہیں کہ کوئی چیز مل گئی جیسے رزق مل گیا‘ کپڑا مل گیا‘ مال مل گیا‘ ان کو وجودی نعمتیں کہتے ہیں۔ اور کچھ نعمتیں عدمی ہیں کہ چیز ہم سے دُور نہ ہوئی‘ مثلاً اس وقت ہم آرام سے بیٹھے ہیں چھت نہیںگری‘ دیوار نہیں گری‘ آسمان سے پتھر نہیں برس رہے‘ سانپ اور بچھو اور درندہ ہمیں نہیں ستا رہا‘ چور‘ ڈاکو حملہ نہیں کر رہے‘ کوئی زہرنہیں کھلا رہا‘ کوئی قتل نہیں کر رہا۔قبض نہیں ہے‘ بدہضمی نہیں ہے ‘ لقمہ گلے میں اَٹکا ہوا نہیں ہے‘ پانی گلے سے اُتر رہا ہے۔ ہاتھ پائوں‘ آنکھیں‘ کان کام کر رہے ہیں۔ ان سب نعمتوں کا پورا شکر تو ہم کر ہی نہیں سکتے لیکن جتنا کر سکتے ہیں ہم تو اتنا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ تو۲۴گھنٹوں میں ایک دفعہ بھی ہم الحمدللہ نہیں کہتے۔ کوئی کہے کہ نماز میں تو الحمدللہ پڑھا ہے‘ تو جواب یہ ہے کہ یہ چھلکے کے درجے میں شکر ادا کیا ہے‘ مغز کے درجے میں ادا نہیں کیا۔ مغز یہ ہے کہ نعمت کی اور نعمت دینے والے کی دل سے قدر ہو۔ کوئی بہت ہی پیارا دوست کوئی ہدیہ بھیجے اور پہلے وہ منہ نہ لگاتا تھا تو اس ہدیے کی کتنی قدر ہوتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے عمربھر اللہ تعالیٰ کے ایک ہدیے کی بھی قدر کی؟ حالانکہ ہر وقت نعمتوں کی بارش ہم پر ہو رہی ہے۔ اگرچہ نعمت پرجوش و خروش ہمارے اختیار میں نہیں‘ لیکن اس کے اسباب تو ہمارے اختیار میں ہیں‘ جیسے تحصیل دار لگ جانا تو ہمارے اختیار میں نہیں‘ اس کے اسباب جیسے امتحان پاس کرنا‘ درخواست دینا وغیرہ‘ یہ تو اختیار میں ہیں۔

ہم میں شکر کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ نہ عقلی شکر ہم کرتے ہیں نہ طبعی۔ کیونکہ شکر کے لیے لازم ہے کہ نعمت دینے والے کے حق ادا کیے جائیں اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور ہم صبح سے شام تک نافرمانی کر رہے ہیں۔ ہم نے صرف چند چیزوں کو ہی نافرمانی سمجھ رکھا ہے: چوری‘ زنا‘ غصب‘ قتل‘ شراب۔ حالانکہ گناہ ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور پائوں سے بھی‘ آنکھ سے بھی ہوتا ہے اور دل سے بھی‘ جیسے حسد‘ تکبر‘ حرص‘ حب مال و جاہ‘ کینہ۔

صبر: یہ تو شکر کا حال تھا۔ باقی رہا صبر‘ تو اس کے دو موقعے ہیں: ایک مصیبت‘ وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۶)‘کہ خوش خبری دے دیں ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں‘ جب ان کو مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور ان ہی کی طرف لوٹیں گے۔ یعنی وہ شکوہ شکایت نہیں کرتے اور ان کے دل میں حق تعالیٰ سے ناشکری اور حق تعالیٰ سے بے تعلّقی نہیں ہوتی۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ذرا سی تکلیف میں شکوہ شکایت زبان پر یا کم از کم دل میں آجاتا ہے۔ دوسرا موقع صبر کا عبادت ہے۔ تو نماز میں حال یہ ہے کہ خشوع و خضوع تو دُور کی چیز ہے‘ رکوع و سجدہ بھی ہماراٹھیک نہیں ہے۔ آپ کسی دوست سے کہیں کہ ہمیں ایک آدمی لا دو۔ وہ چارپائی پر ڈال کر ایک اندھا‘ گونگا‘ لنگڑا‘ ہاتھوں سے لنجا لا دے تو آپ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوں گے۔ ایسے ہی ہماری نماز سے اللہ تعالیٰ خوش ہونے کی جگہ ناراض ہوتے ہیں۔ اب یہ نہ کرو کہ چھوڑ دو‘ بلکہ اصلاح کرتے رہو‘ کرتے رہو یہاںتک کہ نماز اعلیٰ ہوجائے۔ پوری کوشش کے بعد جس درجے کی بھی نماز ہو جائے گی آقا قبول فرما لیں گے۔ فَاُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ (الفرقان ۲۵: ۷۰)۔ حسنات کی تفسیر حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ توبہ کی برکت سے وہ ہماری نماز کو‘جو گناہ کہلانے کے قابل ہے‘ عبادت ہی شمار فرما لیتے ہیں‘ جیسے غریب لوگ مٹی کے تربوز اور خربوزے تحفہ لاتے ہیں تو سخی رئیس ان کو ہی قبول کر لیتے ہیں۔ خشوع کی آسان صورت یہ ہے کہ ہر لفظ اور ہر رکوع اور سجدہ ذرا سوچ کر کر لے۔ شروع میں کچھ مشق ہو گی‘ پھر عادت سے آسانی ہو جائے گی۔ ایسے نہ پڑھیں جیسے گھڑی کو ایک دفعہ چابی دے دیتے ہیں‘ پھر وہ ۲۴ گھنٹے تک چلتی ہی رہتی ہے۔ چند دن ضرور مشق کرنی ہوگی۔ یہ نہیں کہ ایک دن میں مکمل ہو جائے    ؎

صوفی نشود صافی تا در نہ کشد جامے

بسیار سفر باید تاپختہ شود خامے

صوفی صاف دل والا اس وقت تک نہیں ہو تا جب تک کہ مشقت کا پیالہ نہیں پیتا۔ پختہ ہونے کے لیے بہت سے سفر کی  ضرورت ہے۔

مجذوب بن جانا کمال نہیں‘ سنت کی پیروی کمال ہے۔ ایک مجذوب نماز میں کھڑا ہوا جب تک آواز نہ آئی رکوع نہ کیا لیکن یہ کمال نہیں ہے۔ کمال صرف اتباع سنّت میں ہے۔ بیماری میں بھی درمیانہ درجہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ظاہر کرے‘ ہر وقت نہ گاتا پھرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار تھے۔ کسی نے حال پوچھا تو فرمایا: طبیعت اچھی نہیں۔ کسی نے کہا‘ آپ شکایت کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا میں اللہ میاںکے سامنے پہلوانی کروں؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا:  اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ  (یوسف ۱۲:۸۶)‘ کہ میں تو اپنے درد و غم کی شکایت صرف اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں۔

ہرحال میں صبروشکر: ہماری ایک حالت ایسی بھی ہے جس میں صبر اور شکر دونوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ موقع مصیبت ہی کا ہوتا ہے‘ مثلاً طبیب ناراض ہو گیا۔ وہ جلاب کی دوا لکھ کر نہیں دیتا ہے۔ کوشش کے بعد جب وہ راضی ہوا تو نسخہ لکھ دیا‘ تو اب ہم اس کے شکرگزار ہوں گے۔ اب یہاںتکلیف پر صبر بھی ہے اور طبیب کا شکر بھی ادا ہو رہا ہے۔ ایک طبیب کا تو ہم شکر ادا کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اگر جلاب دیں تو ہم شکر کیوں ادا نہیں کرتے؟ مصیبت روحانی جلاب ہے کیونکہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔ کسی کا بچہ فوت ہو جائے تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جاتا ہے جس کا نام بیت الحمد رکھا جاتا ہے۔ اب یہ نام اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ موقع اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا ہے‘ یعنی شکر کرنے کا ہے۔ اگر یہ صرف مصیبت ہی ہوتی تو نام بیت الصبر ہوتا۔

ایک دفعہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ مصیبت کے فوائد بیان فرما رہے تھے کہ یہ بھی ایک نعمت ہے۔ اتنے میں ایک آدمی آگیا جو درد کی وجہ سے آہ آہ کر رہا تھا۔ اس نے آکر کہا: حضرت بہت تکلیف ہے‘ دُعا فرمایئے کہ دُور ہو جائے۔ اب اگر وہ دعا نہ فرمائیں کہ ابھی جو بیان فرما رہے تھے کہ مصیبت بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے خلاف ہوگا تو اس آنے والے کی دل شکنی ہوتی۔ حضرت نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے کہ یااللہ بیماری بھی نعمت ہے لیکن ہم کمزور ہیں‘ بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت سے بدل دیجیے۔ پس جب بیماری اور مصیبت نعمت ہے تو یہ موقع صبر کا بھی ہے اور شکر کا بھی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر مصیبت ہے تو نعمت نہیں اور اگر نعمت ہے تو مصیبت نہیں‘ تو جواب یہ ہے کہ صورت کے لحاظ سے مصیبت ہے اور حقیقت کے لحاظ سے نعمت ہے۔ جیسے بیماری ہے کہ درد کو دیکھیں تو مصیبت ہے‘ اگر یہ دیکھیں کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں‘ تو نعمت ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس سے نفس میں تہذیب پیداہوتی ہے تو اس لحاظ سے بھی نعمت ہے۔ اسی طرح راحت ظاہری طور پر نعمت ہے اور شکر کا موقع ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ صبر کا موقع ہے۔ کسی کے پاس مال آیا‘ اب شکر کا موقع ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ لیکن یہ صبر کا بھی موقع ہے کہ شریعت کی حد سے آگے خرچ نہ کرے اور بہت زیادہ خوشی کا اظہار بھی نہ کرے۔

خلاصہ یہ نکلا کہ مصیبت میں شکر بھی واجب ہے اور صبر بھی۔ راحت میں صبر بھی واجب ہے اور شکر بھی‘ اور عبادت میں بھی صبراور شکر دونوں واجب ہیں۔ میری یہ بات الحمدللہ ثابت ہوگئی کہ صبر اور شکر ہر وقت واجب ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ ہر وقت صبر اور شکر ضروری ہے تو ہر وقت صرف الحمدللہ اور اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھیں‘ نماز روزہ وغیرہ کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ اس شبے کی وجہ سے میں یہ نہ کہوں گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی‘ صبر اور شکر ہر وقت ضروری نہیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ صبر اور شکر صرف اناللہ پڑھنے کا اور الحمدللہ پڑھنے کا نام نہیں ہے۔ صبر کیا ہے؟ نفس کو روکنا۔ یہ روکنا نماز میں بھی ہے‘ روزے میں بھی ہے اور ہر عبادت میں ہے۔ شکر کے معنی قدردانی کے ہیں۔ اناللہ پڑھنا صورت ہے صبر کی‘ اور الحمدللہ پڑھنا صورت ہے قدردانی کی۔ پس نماز میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔ روزے میں صبر بھی ہے شکر بھی۔ حج میں صبر بھی ہے شکر بھی ہے۔

خوف اور محبت کی کیفیت: اس ساری تقریر سے آپ کی سمجھ میں یہ تو آگیا ہوگا کہ صبر اور شکر کی ہر وقت ضرورت ہے۔ اب یہ سمجھیے کہ ہر وقت ہم صبروشکر کیسے کریں؟ اس مقصد کے لیے آپ کو دو چیزوں کی اور ضرورت پیش آئے گی۔ ایک اللہ تعالیٰ کا خوف و خشیت‘ اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے محبت۔ جب خشیت ہوگی تو نفس کو آپ ایک حد پر لے جا کر روک سکیںگے۔ یہ صبر پایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی تو اس نعمت دینے والے آقا کی خوب قدر کرو گے اور یہ شکر ہے۔ اگر خوف اورمحبت نہ ہوں گے تو صبر اور شکر بھی نہ ہوں گے۔ کیونکہ اگر محبت نہ ہو‘ صرف خوف ہو تو نعمت ملنے سے لذت نہ آئے گی تو شکر ادا نہ ہوگا۔ اگر صرف محبت ہو‘ ساتھ خوف نہ ہو‘ تو محبت کی وجہ سے ناز پیدا ہو جائے گا اور نفس حد پر جا کر نہ رُکے گا بلکہ حد سے آگے نکل جائے گا اس لیے صبر پیدا نہ ہوگا۔

اگر کوئی یہ کہے کہ ایک ہی شخص سے محبت بھی ہو اور اسی سے خوف بھی ہو‘ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جواب یہ ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ناراضی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔

صبروشکر کا طریقہ: اب یہ سمجھیے کہ خوف اور محبت پیدا کیسے ہوں گے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ متعین وقت روزانہ نکالو۔ اس میں سے آدھا اپنی نافرمانیوں کو اور ان کی سزائوں کو سوچو کہ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ اس گناہ کی یہ سزا ہے‘ خطرہ ہے کہ فرشتے گھسیٹ کر دوزخ میں لے جائیں‘ اور دوسرے آدھے میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں سوچو۔ سزائیں سوچنے سے خوف پیدا ہوگا اور نعمتیں سوچنے سے اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہوگی۔ یہ تو طریقہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا خوف کیسے پیدا ہو۔ اب یہ سمجھیے کہ پیدا ہونے کے بعد یہ دونوں چیزیں محفوظ کیسے رہیں۔ محفوظ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ۱۵ منٹ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزاریں اور ۱۵ منٹ اہل اللہ کی صحبت اور خدمت میں گزاریں۔ ان دونوں کاموں سے صبر اور شکر محفوظ رہیں گے بلکہ ان میں ترقی ہوگی اور صبروشکر کا اعلیٰ درجہ پیدا ہوگا اور پھر اس آیت کا فائدہ آپ کو معلوم ہوگا:  اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍo (ابراہیم ۱۴:۵)  ’’ اس میں البتہ نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو بہت صبر کرنے والا بہت شکر کرنے والا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔ آمین! (تلخیص:  مولانا صوفی محمد سرور۔ تدوین: مسلم سجاد) (بہ شکریہ ماہنامہ الحسن‘ جون ۲۰۰۱ء)