اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

’’مشاہدات ‘‘ __ ایک مطالعہ‘ایک تاثر

پروفیسر خورشید احمد | اگست ۲۰۰۱ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

تحریک اسلامی کے حوالے سے خرم بھائی کی لمحات اور میاں طفیل محمد صاحب کی مشاہدات‘  دونوں کتابیں‘ تحریک کے لٹریچر میں بڑا قیمتی اضافہ ہیں۔ گو دونوں کا اپنا منفرد مزاج اور اسلوب اظہار ہے لیکن موضوع ایک ہی ہے: برعظیم پاک و ہند میں تحریک اسلامی۔ دونوں ہی گو بظاہر آپ بیتی ہیں لیکن دراصل تحریک کی کہانی اس کے دو مرکزی کرداروں کی زبانی ہے۔ صرف تحریک کے کارکنوں ہی کے لیے نہیں اُمت مسلمہ کے ہر فدائی کے لیے ان میں بہت کچھ ہے۔ ہمیں ان کتابوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مشاہدات کے چار پہلو قابل توجہ ہیں:

  • اوّل: باتیں میاں صاحب کی ہیں لیکن ان میں آپ کو جو جلوہ اور پیغام نظر آئے گا‘ الفاظ و بیان کی اس داستان میں جو تصویر نظر آئے گی‘ اور اس چمنستان خیال میں جو خوشبو آپ محسوس کریں گے‘ وہ ہے داعی تحریک (مولانا مودودیؒ) کی شخصیت‘ ان کا پیغام‘ ان کی زندگی‘ ان کی سیرت‘ ان کے عزائم‘ ان کی کوششیں اور جدوجہد۔
  •  دوم: داعی تحریک کے ساتھ ساتھ خود تحریک‘ اس کے نشیب و فراز‘ اس تحریک کا اصل مزاج --- یہ تحریک کیوں برپا ہوئی؟ کیا کام سرانجام دینا چاہتی ہے؟ وہ کون سا انقلاب ہے جو لانا چاہتی ہے؟ کن سانچوں میں انسانوں کی زندگی کو ڈھالنا چاہتی ہے؟ کس طرح انسانی معاشرے کو بدلنا چاہتی ہے؟ تاریخ کو کس رخ پر ڈالنا چاہتی ہے؟ تحریک اپنی جدوجہد میں کن نشیب و فراز سے گزری؟ کیا مشکلات پیش آئی ہیں؟ کیا امکانات پیدا ہوئے ہیں؟ اور مختلف النوع چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کیا تدابیر کی گئیں؟ گویا اس کتاب میں خود جماعت اسلامی کی پوری تاریخ کے جملہ اوراق بھی آپ کو ملیں گے۔
  • سوم: جماعت ہی نہیں خود پاکستان کی تاریخ‘ خصوصیت سے پاکستان میں حق و باطل کی کش مکش‘ اسلام اور سیکولرازم کی پیکار۔ اس ملک کو اس کے اصل مقصد سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد۔
  •  چہارم: اس تاریخ اور جدوجہد کی داستان میں آپ کو خود میاں صاحب کی شخصیت کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آجائیں گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے اپنی ذات کو ان تینوں میں اس طرح سمودیا کہ گو داستان کے مرکزی کردار یہی تین ہیں لیکن ڈرامے کے ان کرداروں کے نظر کو خیرہ کر دینے والے ان جلووں میں ہمیں خود میاں صاحب کی اپنی زندگی کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آجاتی ہیں۔ داستان ایک ہے مگر تصویریں اس میں چار اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے اپنے اس قلبی تاثر کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ مشاہدات ہی میں نہیں‘ میاں صاحب سے ۵۰ سالہ تعلق خاطر کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ان کی زندگی ایک مسلمان کی زندگی ہے‘ ایک مجاہد کی زندگی ہے۔ قرآن پاک کی جو دو آیات بار بار میرے ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک ہے:  اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔ اور دوسری آیت: اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹) ’’وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔

میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں ان دونوں کیفیتیوں کے حصول کے لیے انسانی کوشش کی ایک بڑی اچھی مثال ملتی ہے۔

میاں صاحب کی زندگی میں ’’جدید‘‘ سے مطلوب اور معیار کی طرف مراجعت کی ایک بڑی روشن مثال نظر آتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک نوجوان نے حق کو پا لیا‘ تو پھر وہ اپنے کو حق کے رنگ میں رنگنے کے لیے کس طرح سینہ سپر ہو گیا۔ جماعت کی رکنیت اختیار کرتے وقت میاں صاحب نے کس انوکھے عزم کا مظاہرہ کیا۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ کلین شیوڈ نوجوان ۷۵ نفوسِ قدسیہ کے درمیان آتا ہے اور جس طرح حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ میں کمزور ہوں اور میری آنکھوں میں آشوب چشم بھی ہے لیکن میں آپ ؐکا ساتھ دوں گا‘اسی جذبے سے میاں صاحب نے کہا کہ میرے ظاہر کو نہ دیکھیے‘ میں بھی آپ کے ساتھ اس دعوت اور پیغام کا علم بردار بننا چاہتا ہوں۔ اس پر بعض علما نے اپنے تامّل کا اظہار کیا کہ اس شکل و صورت اور حلیے میں ایک فرنگ زدہ نوجوان کو ہم کیسے قبول کر لیں؟ میاں صاحب نے کہا: آپ مجھے چھ مہینے دیجیے اور پھر دیکھیے کہ میں ان شرائط کو کیسے پورا کرتا ہوں۔کئی علما کی آنکھوں میں بے یقینی کا خوف تھا لیکن مولانا مودودی ؒنے اس نوجوان کے سر پر اعتمادکا ہاتھ رکھا اور پھر میاں صاحب نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا۔ پھر چھ مہینے ہی نہیں‘ بلکہ ۶۰سال پوری استقامت سے اپنے آپ کو اس دعوت کی نذر کر دیا۔

میاں صاحب کی زندگی میں ہمیں قبول حق کے ساتھ حق کے تقاضوں کا بدرجہ اتم احساس ملتا ہے۔ یعنی استقامت کے ساتھ ساتھ یہ عزم کہ اس حق پر جو بھی حملہ آور ہوگا‘ میں اس کے دفاع کے لیے ڈٹ جائوں گا۔ اس میں کوئی بزدلی نہیں دکھائوں گا۔ میاں صاحب پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور دوسری طرف اس حق پر ساتھ دینے والے تحریک کے لوگوں کے لیے‘اپنے اہل خانہ کے لیے‘ اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کے لیے سراپا شفقت‘ سراپا محبت‘ اور سراپا رحمت نظر آتے ہیں۔ بقول اقبال    ؎

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

میاں صاحب کی زندگی میں بڑی سادگی ہے۔ کسی قسم کی بناوٹ‘ ظاہرداری‘ تصنّع یا ملمّع سازی نظر نہیں آتی۔ کسی شخص کے کردار کی یہ بڑی نادر خوبی ہے۔ ہماری زندگیوں سے ایسی خوبیاں اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے میاں صاحب پر اپنا فضل و کرم کیا ہے کہ ہم نے بہ چشم سر ان کی زندگی میں ان خوبیوں کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہمیشہ اس پر قائم رکھے اور ہمیں ان سے سبق لینے کی توفیق دے۔

میاں صاحب کے ہاں اس سادگی‘ اس شفافیت کے باوجود‘ کسی قسم کا زعم‘کوئی غرور یا کوئی اِدّعا کہیں نظر نہیں آتا۔

مشاہدات کو میں اس پہلوسے بڑی اہمیت دیتا ہوں کہ محترم میاں صاحب نے اس میں ایک پورے دَور کو جس سادگی سے مفصّل اور مؤثر انداز میں پیش کر دیا ہے‘ وہ ہماری تحریکی زندگی اور تجربات کا خلاصہ ہے۔ سلیم منصور خالد نے ان کی باتوں کے ذریعے سے معلومات اور تاثرات و تعبیرات کا جو خزانہ جمع کیا ہے اور اسے جس طرح ۱۷ ابواب میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کیا وہ ایک بڑا ہی قیمتی تحفہ ہے۔

میں علامہ اقبال کی طرح شکوہ تو نہیں کر سکتا لیکن اپنی اس خواہش اور تمنّا کا اظہار کرتا ہوں کہ کاش! سلیم منصور خالد ۱۰ سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے اور مولانا مودودیؒ سے بھی ان کی باتوں کو اسی طرح جمع کر لیا ہوتا۔ اصغرگونڈوی نے بڑی پیاری بات کہی ہے     ؎

اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا

اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہیں

جو لوگ شخصی حیثیت میں میاں صاحب کو قریب سے نہیں دیکھ سکے‘ وہ بھی مشاہدات کے ذریعے ان کی اصل شخصیت‘ ان کے حسن سیرت ‘ ان کے توازن‘ ان کی سادگی‘ ان کی تحریکیت اور ان کی للہیت کو ان اوراق میں دیکھ سکتے ہیں‘ یہ سب چیزیں اس مرقع میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔

میاں صاحب‘ بحیثیت طالب علم ہندو اساتذہ سے جس طرح متاثر ہوئے اور جس طرح انھوں نے استفادہ کیا‘ خصوصیت سے فزکس کے استاد سے جس طرح اللہ کے وجود کی روشنی پائی‘ کاش آج کا ہمارا معلّم اس سے کچھ سبق سیکھے اور یہ دیکھے کہ کس طرح تعلیم فی الحقیقت روشنی اور ایمان کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ لیکن صرف علم کافی نہیں‘ جب تک کہ نور ایمان نہ ہو‘ محض تعلیم بے کار ہے۔

میاں صاحب نے مشاہدات میں اپنی اہلیہ کا جس طرح سے ذکر کیا ہے اور اس تذکرے میں جو پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان خاتون کے لیے ہی نہیں‘ ہرمسلمان اور خاندان کے ہر فرد کے لیے اس کے اندر بڑا اچھا نمونہ ہے۔ مختصر یہ کہ محترم میاں صاحب نے اپنے آپ کو تحریک کے سپرد کر دیا اور وہی کیفیت پیدا ہو گئی جسے فنا فی التحریک کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی اَنا اور اپنی ذات کو بالکل بالاے طاق رکھ دیا۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسا دل آویز نمونہ ہے‘ جو قابل تقلید ہے اور فقید المثال بھی۔

تحریک اسلامی کی اصل دولت اور اصل سرمایہ کیا ہے؟ کردار‘ مقصدیت‘ ایثار و قربانی‘ شفقت و محبت‘ رحمت و رافت---  مشاہدات میں ہمیں یہی روشنی نظر آتی ہے اور یہ ایک ایسی روشنی ہے جو قلب و نظر کو منور ہی نہیں کرتی بلکہ اس کی ٹھنڈک دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے--- اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان تمام خوبیوں کو اپنے میں سمو سکیں‘ آمین!

میں  مشاہدات کو تحریکی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ‘ سلیم منصور خالد کو بہترین جزا دے کہ انھوں نے ۲۰‘ ۲۲ سال کے عرصے پر پھیلے ہوئے لوازمے کو اخذ و جمع کیااور پھر اُسے ترتیب دے کر ایک گلدستے میں سجا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ ایک ایسا گلدستہ جس میں اگر ایک طرف حسن نظر کی تسکین کا سامان ہے تو دوسری طرف فضا کو معطر کرنے والی خوشبو بھی بہ افراط موجود ہے۔ (ناشر: ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور۔ طبع دوم‘ قیمت ۲۵۰ روپے۔ مجلد مع اشاریہ)