اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

خدمت خلق جامع تصور‘انفرادی اور اجتماعی تقاضے

خرم مراد | اگست ۲۰۰۱ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

خدمت خلق کے کیا معنی ہیں؟

عام طور پر ہم کسی بھی لفظ یا اصطلاح کے وہی معنی سمجھتے ہیں جو ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جانتے ہوں‘ یا جن معنوں میں ہم نے اس لفظ کو استعمال ہوتا دیکھا اور سنا ہو۔ اس لحاظ سے خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک شعبے کا نام آتا ہے۔ اس کے ساتھ عموماً قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تصویر بھی ذہن کے پردے میں آتی ہے۔ اسی طرح دوائیں اور ڈاکٹر لے کر چلتی ہوئی گاڑیاں‘ مریضوں کو لے جانے والی گاڑیاں‘ میت گاڑیاں--- یہ بھی خدمت خلق کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں نمودار ہو جاتی ہیں۔ یا پھر ایسی جگہ کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جہاں پر محتاج و مساکین اور غریب طالب علم درخواستیں لے کر جائیں اور ان کی امداد کر دی جائے۔

یہ سارے معنی ہم نے اپنے تجربے اور مشاہدے سے اختیار کیے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں لیکن یہ خدمت خلق کے حقیقی اور مکمل تصور کا احاطہ نہیں کرتے۔

خدمت خلق کا جامع تصور

خدمت خلق کا تصوربہت وسیع اور جامع ہے۔ اس کے لیے کسی دفتر یا شعبے کا قیام بھی ضروری نہیں ہے۔ اس کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ گاڑیوں میں ڈاکٹر دوائیں لے کر‘ یا کسی مقام پر بیٹھ کر مریضوں کا معائنہ کریں‘ یا پھرمریضوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میت کو قبرستان تک پہنچا دیا جائے‘ یا غریب غربا سے درخواستیں وصول کر کے ان کی مالی اعانت کی جائے۔ درحقیقت خدمت خلق کا جو تصور ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ سے اور دین اسلام سے معلوم ہوتا ہے‘ وہ ان سب سے کہیں زیادہ وسیع اور اس سے بہت مختلف ہے۔

اگرچہ یہ چیزیں اس کے اندر شامل ہو سکتی ہیں‘ لیکن یہ خدمت خلق کے اس جامع تصورکا ایک بڑا مختصر اور محدود حصہ ہے جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو دی ہے۔

خدمت خلق--- یہ لفظ اللہ اور اس کے رسولؐ نے صرف ان معنوں میں استعمال نہیں کیا کہ انسانوں کی خدمت کی جائے بلکہ ’’خلق‘‘ کے اندرانسان بھی شامل ہیں اور جانور بھی۔’’خلق‘‘ میںتو خدا کی ہر مخلوق شامل ہے۔ ان کے ساتھ سلوک اور برتائو کی ہدایات قرآن مجید میں بار بار آئی ہیں اور نبی کریم ؐ کی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ اگر ہم ایک دفعہ یہ سمجھ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خدمت خلق کو اپنے دین میں اور اپنی تعلیمات میں کیا مقام دیا ہے‘ تو یہ بات خود بخود ہم پر واضح ہو جائے گی کہ خدمت خلق کا کام صرف شعبے قائم کرنے‘ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے‘ یا شفاخانے بنانے اور سفری شفاخانے دوڑانے سے پورا نہیں ہو سکتا--- اس لیے کہ جس کام کو اتنا عظیم الشان مقام دیا گیا ہو‘ وہ صرف اتنی سی بات تک محدود نہیں ہو سکتا!

ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے لیے کچھ کرنے کا ذکر ایمان کے بعد سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ جہاں ایمان کا ذکر آئے گا وہاں پر اللہ کی راہ میں ’’دینے‘‘ کا بھی ذکر آئے گا۔ دینے کے لیے کہیں ’’ینفقون‘‘ کا لفظ آئے گا کہ وہ خرچ کرتے ہیں۔ کہیں دینے ہی کا لفظ آئے گا‘ اَتٰی یعنی اس نے دیا۔ اور کہیں اس دینے کی جو بہت ساری صورتیں ہیں‘ اُن کا ذکر آئے گا‘ مثلاً کھانا کھلانا‘ کھانا کھلانے کی ترغیب دینا اور مل جل کر کھانا کھانا وغیرہ۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس کا ذکر ایمان کے فوراً بعد ہوتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہے بلکہ ایمان کا ایک حصہ ہے۔

آپ سورہ البقرہ میں پڑھنا شروع نہیں کرتے کہ ایمان کے بعد اقامت صلوٰۃ کا‘ جو ایمان کی عملی صورت ہے‘  تذکرہ ہے‘ اور اس کے بعد ہم نے جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کی صفت کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ’’رزق‘‘ سے مراد محض مال نہیں ہے بلکہ رزق کا لفظ اللہ تعالیٰ نے مال کے علاوہ ہر اس چیز کے لیے استعمال کیا ہے جو اس نے ہمیں بخشی ہے۔ ہمارا وقت بھی اس کا رزق ہے‘ عمر بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے ‘ اور دل و دماغ بھی اس کے دیے ہوئے رزق کے اندر شامل ہیں۔ ہمارا جسم بھی اس کا دیا ہوا رزق ہے۔ غرض ہم کو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے۔ صرف مال ہی رزق نہیںہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ رزق کی شکل میں اللہ نے دیا ہے‘ اس کو خرچ کرتے ہیں۔ اسے مومن کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ موثر اور زوردار تصویر قرآن مجید میں آخرت کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کی کھینچی گئی ہے جو جہنم میں ڈالے جائیں گے‘ جن کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ فرمایا:

اور جس کا نا مۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت (جو دُنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی! آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو‘ پھر اسے جہنم میں جھونک دو‘ پھر اس کو ستّر (۷۰) ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارغم خوار ہے اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا‘ جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔ (الحاقۃ ۶۹: ۲۵-۳۶)

یہاں بھی بس دو ہی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی ایمان نہ لانا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا۔

اسی طرح  سورہ المدثر میں ہے کہ جولوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے ان سے اصحاب الیمین‘ جو جنت میں ہوں گے‘ پوچھیں گے:

تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی ہے؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘ اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے‘ یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا  (المدثر ۷۴: ۴۰-۴۷)

یہاں بھی پہلے تو نماز کا ذکر آیا ہے جو کہ ایمان کا عملی ثبوت ہے اور اس کے فوری بعد یہ کہ ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے--- یہ بھی بہت صاف صاف بتا رہا ہے کہ اللہ کی نظر میں مخلوق کی خدمت کا کیا مقام ہے!

تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں

نبی کریم ؐ کی پوری دعوت میں شروع سے آخر تک برابر اس بات کا ذکر ہے۔ ایک صحابی عمرو بن عبسہؓ روایت کرتے ہیں کہ میرا شروع سے بتوں پر ایمان نہ تھا۔ میراخیال تھاکہ یہ غلط کام ہے۔ پھر میں نے سنا کہ ایک آدمی مکّہ میں ایک اور چیز کی دعوت دے رہا ہے--- میں نے سواری کا کجاوہ کسا ‘ اس پر بیٹھا اور مکّہ پہنچ گیا۔ یہ ایسا زمانہ تھا کہ حضورؐ کا پتا چلنا ہی مشکل تھا۔

میں نے آپ ؐ کا پتا لیا اورآپ ؐ سے ملا اور پوچھا: آپ ؐ کون ہیں؟

آپ ؐ نے کہا: میں نبی ہوں۔

میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟

آپ ؐ نے کہا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔

میں نے پوچھا: اللہ نے آپ ؐ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟

اس پر حضورؐ نے فرمایا: صلۃ الارحام یعنی قرابت داری کے رشتے قائم کرنے کے لیے‘ اور بتوں سے بچنے کے لیے‘ اور ایک اللہ کی بندگی کرنے کے لیے۔

یہاں بھی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آگئی کہ حضورؐ نے اس وقت بھی جو دعوت پیش کی‘ اللہ کے احکام اور پیغام پیش کیا‘ اس میں سب سے پہلے صلۃ الارحام کہا۔ یہ صلہ رحمی (قرابت داری کے رشتے قائم کرنا) بھی خدمت خلق ہے۔

حضرت جعفر طیارؓ سے جب نجاشی نے دربار میں پوچھا کہ تم کو کیا تعلیم دی گئی ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ہم پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے اور ظلم ڈھاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انھوں نے ہمیں دعوت دی۔ اب ہم بیوائوں کی خبرگیری کرتے ہیں‘ یتیموں کی خدمت کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی بھی کرتے ہیں۔

دیکھیے‘ بین الاقوامی پیمانے پر اسلام کا تعارف ہو رہا ہے لیکن یہاں بھی اللہ کی بندگی اور انسانوں کی خدمت دونوں باتیں ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔

جب نبی کریم ؐ ایک نیا دین‘ ایک نئی ریاست‘ ایک نئی تہذیب قائم کرنے کے لیے مدینہ تشریف لائے اور آپؐ نے پہلا خطبہ دیا تو ارشاد فرمایا:

افشو السلام‘ واطعموا الطعام‘ وصلو الناس القیام وادخلوا الجنۃ بالسلام

یہاں چار باتیں فرمائی گئی ہیں: پہلی یہ کہ سلام پھیلائو‘ یعنی سلامتی پھیلائو ‘ اپنی زبان اور اپنے رویے سے۔ دونوں کو سلامتی کا نمونہ بنائو۔ یہ بھی خدمت خلق کی ایک صورت ہے۔ دوسری یہ کہ کھانا کھلائو‘ یعنی جو ضرورت مند ہیں‘ بھوکے ہیں‘ ان کو کھانا کھلائو۔تیسری یہ کہ جب لوگ سوتے ہوں تو نماز پڑھو۔ اور چوتھی یہ کہ جنت میں سیدھے سیدھے داخل ہو جائو۔گویا جو نئی تہذیب‘ نئی ریاست اور نیا معاشرہ بننے والا تھا‘ اس کو آپ ؐ نے پہلی ہدایت کے طور پر یہ تین باتیں کہیں‘ اور جنت کے داخلے کی بشارت بھی ان ہی تین چیزوں کے ساتھ وابستہ کی۔

اس بات سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کا کتنا اہم کام ہے جس کو  قرآن مجید نے اور اللہ کے نبیؐ نے یہ مقام عطا فرمایا۔

خدمت خلق: مقصد دین

اگر میں یہ کہوں کہ ایک پہلو سے سارے دین کا مقصد ہی خدمت خلق ہے تو میری یہ بات غلط نہیں ہوگی۔

دین کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے بچایا جائے۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا جائے تو یہ خدمت خلق ہے‘ اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے؟ یقینا یہ خدمت خلق ہی ہے!

دعوت کی تعریف بھی یہی ہے ۔ لیکن بات اتنی نہیں ہے بلکہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول اس لیے بھیجے اور کتابیں اس لیے اُتاریں‘ تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ گویا یہ بھی خدمت خلق ہے۔ لوگوں کو انصاف پر قائم کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف قائم کرنا‘ فی الواقع اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہی رسولوں کا مقصد ٹھیرا‘ یہی کتابوں کے اُتارنے کا مقصد قرار پایا‘ اور یہی مومنین کی جماعت کا مقصد قرار پائے گا کہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘ اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دین کا پورا مقصد ہی خدمت خلق ہے۔ اس کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ بعض جگہ اس کا ایمان سے پہلے ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ مدثر میں ہے۔ بعض آیات جو بالکل ابتدائی دَور کی ہیں ان میں بھی اس کی ہدایت کی گئی ہے‘ مثلاً:  فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی o وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰیo (الیل ۹۲: ۵-۱۰) ’’ جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا ‘ اور بھلائی کو سچ مانا‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیںگے‘‘۔ یعنی جو راہِ خدا میں مال دینے والا ہو‘ لینے والا نہ ہو‘ اللہ نے جو کچھ اور جتنا دیا ہو اس میں سے خرچ کرنے والا ہو‘ سائل اور مستحق کی مدد کرنے والا ہو‘ خدا کی نافرمانی سے بچنے والا‘ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو اور بھلی بات کی تصدیق کرنے والا یعنی ایمان لانے والا ہو‘ اس کے لیے اللہ جنت کے راستے کو‘ اس پر چلنے کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں۔

بعض آیات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کی تو تعبیر ہی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے بندوں کی خدمت کرے۔ سورہ الماعون جو نماز میں اکثر پڑھی جاتی ہے‘اس کی بہت اچھی مثال ہے:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلاَتِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَ o وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (سورہ الماعون ۱۰۷: ۱-۷)

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ‘ اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں‘اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔

قیامت کا جھٹلانا کیا ہے؟ یتیموں کو دھکے دینا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینا‘ یہ قیامت کا جھٹلانا ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ میں قیامت کو نہیں مانتا۔ کوئی زبان سے اقرار کرتا ہو‘ لیکن عمل یہ ہو تو یہ عملاً جھٹلانا ہے۔ اس طرح پورے ایمان کی تعبیر خدمت خلق بن گئی۔ عبادت کی تعبیر بھی یہی ہے۔ نماز سے غفلت یہ ہے کہ دکھاوے کے لیے پڑھے‘ اس میں بندگی کی روح نہ ہو۔ اور روز مرہ استعمال کی معمولی چیزیں آدمی مارے بخل کے دینے سے روک لے۔

ایک دوسری جگہ جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے والوں کا تذکرہ یوں کیا گیا:

وَمَآ اٰدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo یَّتِیْمًا  ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o  (البلد ۹۰: ۱۲-۱۸)

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا‘ یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مکین کو کھانا کھلانا ۔ پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہوجو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔

خدمت خلق کا مقام

اس کے بعداب اس بات میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ خدمت خلق کا دین میں کیا مقام ہے! یہ کام تواتنا اہم ہے کہ انسان کی پوری زندگی‘ سوچ‘ ذہن‘ دل و دماغ‘ غرض ہر چیز سے اس کی عکاسی ہونی چاہیے نہ یہ کہ آدمی ایک شعبہ قائم کر کے یا کھالیں جمع کر کے مطمئن ہو جائے‘ یا چند درخواستیں لے کر اور نمٹا کر سمجھے کہ ہم نے خدمت خلق کا کام کر دیا ہے۔ دین کی تعلیم سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدمت خلق کوئی ایسی چھوٹی چیز ہے بلکہ یہ کام اپنے اندر بڑی جامعیت اور وسعت رکھتا ہے۔

یہ اہمیت کیوں ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہماری پوری زندگی مخلوق کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ خالق کو تو ہم نے نہیں دیکھا اور خالق سے ہم اپنا تعلق سوچ سمجھ کے‘ جان بوجھ کے‘ اور بڑی مشکل اور کوشش کر کے قائم کرتے ہیں لیکن مخلوق سے تو ہمارا رشتہ پیدا ہونے سے پہلے قائم ہو جاتا ہے۔ ایک مرد اور عورت مل کر ‘ اپنا آرام اور اپنی لذت اور اپنا سب کچھ بھول کے‘ اگر چاہتے ہیں تو انسان وجود میں آتا ہے۔ اس کے بعد بچپن میں اگر والدین بچے کو نہ پوچھیں تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا‘ اسی وقت مر جائے بلکہ سانس بھی نہ لے پائے۔ اسی طرح انسانی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ انسان کے ساتھ‘ جانوروں کے ساتھ‘ اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ۔ اگردین پوری زندگی کو اللہ کی بندگی میں دینے کا نام ہے تو زندگی کا ۹۰ سے ۹۵ فی صد حصہ خلق کے ساتھ تعلق پر مبنی ہے۔

اس تعلق کی جڑ دل میں ہے‘ ایمان میں ہے۔ جیسے بیج زمین سے پھوٹتا ہے اسی طرح جب ایمان پھوٹے گا ‘ درخت بن کے نکلے گا تواس کی ساری شاخوں کو کہیں نہ کہیں اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہوگا۔ آدمی گھر میں ہو‘ بازار میں ہو‘ کھیت میں ہو‘ حکومت کر رہا ہو‘ ملازمت کر رہا ہو‘ غرض کوئی بھی کام کر رہا ہو‘ اس کا واسطہ انسانوں سے پڑتا ہے۔ گھر میں جاتا ہے بیوی بچے ہوتے ہیں‘ مسجد میں جاتا ہے نمازی ہوتے ہیں‘ دکان پر جاتا ہے گاہک آتے ہیں--- کوئی کام ایسا نہیں ہے جہاں اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ نہ ہو۔ مخلوق کے ساتھ اسی تعلق سے اس کی زندگی کا ایک ایک تار‘ ایک ایک حصہ‘ اور ایک ایک لمحہ بندھا ہوا ہے۔ اسی لیے مخلوق کی خدمت کا یہ مقام اللہ کی تعلیم میں اور رسولؐ اللہ کی تعلیم میں ہے۔

خدمت خلق: انفرادی تقاضے

اگر غور کیا جائے تو خدمت خلق کا جو تصور اور مفہوم اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں سکھایا ہے وہ بہت جامع اور وسیع ہے۔ نبی کریم ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں‘ جن میں آپؐ نے بہت سے ایسے طریقوں کی تعلیم دی ہے جن سے آدمی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔ ان سب کو اگر ہم الگ الگ دیکھیں تو خدمت خلق کے بہت سے پہلو ہمیں معلوم ہو سکتے ہیں۔

اپنی ذات سے تکلیف نہ دینا

خدمت خلق کا سب سے کم تر درجہ لیکن شاید سب سے اہم درجہ یہی ہے کہ آدمی اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔

ہم کوئی بھی خدمت نہ کر سکتے ہوں‘ لیکن خدمت کے اس پہلو سے تو کوئی عذر پیش نہیں کیاجا سکتا۔ ایک آدمی کہہ سکتا ہے کہ میری جیب میں پیسہ نہیں ہے‘ کھانا کیسے کھلائوں؟ وقت نہیں ملتا‘ خدمت کیسے کروں؟ یتیموں اور بیوائوں کی خبرگیری کیسے کروں؟ لیکن کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کے بس سے یہ چیز باہر ہو کہ اپنی ذات سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اس میں کچھ خرچ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اپنے دل میں کچھ چیزیں ہوتی ہیں جنھیں قربان کرنا پڑتا ہے۔ وہ بعض دفعہ زیادہ مشکل ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا خلق کی پہلی خدمت یہی ہے کہ آدمی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک طویل حدیث میں نبی ؐ نے بہت ساری چیزوں کی تعلیم دی تو لوگوں نے کہا کہ اگر ہم یہ بھی نہ کر سکیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر کم سے کم اپنی برائی سے دوسروں کو بچائو‘ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچو۔

بعض علما کے نزدیک ساری شریعت اسی اصول پر قائم ہے۔ شریعت کے جتنے بھی احکام ہیں‘ نکاح و طلاق کا مسئلہ ہو یا طرز حکومت کا‘ تجارت کے آداب ہوں یا کسی بھی شعبے سے متعلق‘ جو تعلیم دی گئی ہے‘ سب کا بنیادی اصول یہی ہے کہ کوئی مخلوق خدا کو ایذا نہ پہنچاے حتیٰ کہ اپنے منہ سے‘ ہاتھ سے‘ اور پائوں سے بھی۔ اگر یہ حکم ہے کہ تین آدمی ہوں‘ تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں تو اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ تیسرے کو تکلیف ہوگی۔ آدمی اگر کسی کے گھر جائے تو تین بار دروازہ کھٹکھٹائے ‘ دروازہ نہ کھلے تو واپس چلا جائے‘ بغیر اجازت کے داخل نہ ہو۔ یہ بھی اسی لیے ہے۔ اس نوعیت کے دین کے بے شمار احکامات ہیں۔ جس حکم پر بھی غور کیا جائے‘ خواہ کسی بھی دائرے سے تعلق رکھتا ہو‘ یہی حکمت واضح ہوگی کہ انسان انسان کو تکلیف نہ پہنچائے۔ ایک انسان سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ خدمت خلق کی بنیاد اور روح یہی ہے۔

اگر پوری شریعت کو فی الحال ہم ایک طرف بھی رکھ دیں لیکن ہر آدمی کم از کم یہ ارادہ کر لے کہ اپنے کام سے‘ اپنی بات سے‘ یا اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچائے گا تو یہ بھی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے ہمارے گھر ‘ ہمارے محلے‘ ہماری بستیاں‘ ہمارا معاشرہ اور ہماری زندگیاں اتنی پرُسکون اور بابرکت زندگیاں بن جائیں گی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنی زبان سے وہ بات نہ نکالیں جس سے کسی کا دل دُکھتا ہو۔ وہ کام نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ چہرے پر ایسی کوئی ادا نہ آئے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔ کسی کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں کہ اس سے اسے دکھ ہوگا--- یہ ساری تعلیمات ہمارے دین میں بڑی تفصیل سے موجود ہیں اور ان میں یہی بنیادی اصول کارفرما ہے۔

یہ خدمت خلق کے حوالے سے سب سے پہلی بات ہے۔ اس سے کوئی بھی آدمی یہ کہہ کر انکار نہیں کر سکتا کہ یہ میرے بس سے باہر ہے یا میرے پاس وسائل نہیں ہیں یا پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے کسی شعبے کی یا شفاخانے کی یا ایمبولینس کی‘ یا کھالیں جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ صرف یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ میری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ جس سے بھی میل جول ہو یا ملاقات ہو‘ خواہ قریبی عزیز ہوں یا دُور کے‘ ماں باپ ہوں یا بیوی بچے‘ کام کرنے والے ملازم ہوں یا دفتر میں کام کرنے والے ساتھی یا ماتحت--- منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکالے یا ہاتھ سے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے کسی کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو بڑے بڑے خدمت خلق کے کام بھی ضائع ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کو ایذا پہنچانا کینسر کی بیماری کی طرح ہے۔ بڑے بڑے نیک کاموں کے ساتھ اگر یہ بیماری لگ جائے تو سارے اعمال اکارت اور بیکار ہو جاتے ہیں۔

چند احتیاطیں

خدمت خلق کے لیے ایک لفظ جو قرآن اور حدیث میں استعمال ہوا ہے‘ وہ صدقے کا لفظ ہے۔ صدقے سے مراد صرف پیسہ دینا ہی نہیں ہے یا یہ صرف خیرات کرنا نہیں ہے‘ بلکہ صدقے کے لفظ کے اندر بہت ساری باتیں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں صدقے کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور انفاق کا لفظ بھی آیا ہے۔ یہ چند احتیاطوں کا متقاضی ہے۔

  •  راہِ خدا میں خواہ کتنا ہی مال دیا ہو‘ اس انفاق کے بعد لوگوں پر احسان جتایا‘ تکلیف دی تو سارا انفاق‘ ساری خدمت خلق بیکار ہو جاتی ہے۔
  •  جو لوگ دفتر میں بیٹھے کہہ دیں کہ ہم نے تمھارے ساتھ اتنا کیا‘ تو وہ سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔ اور جو کوئی ایسی بات کہہ دے جس سے لینے والے کو جس کی خدمت ہو رہی ہے تکلیف پہنچے یا برا بھلا کہہ دیا تو اس سے سب اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچا جائے--- خدمت خلق کے لیے یہ لازمی اور ناگزیر ہے۔ اگر آدمی کوئی کام بھی کرے‘ کسی کا بھی کرے‘ بڑی سے بڑی خدمت کرے اور اس کے بعد تکلیف پہنچا دے‘ توسب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔
  •  ماں باپ کی بہت خدمت کی لیکن بعد میں برا بھلا کہہ دیا‘ یا بدتمیزی کر دی‘ تو سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ یہ بات قصاص کے دائرے میں بھی آسکتی ہے۔
  • نوکر کا بہت خیال رکھا‘ اس کو کپڑے دیے‘ عید پررقم دی‘ لیکن کھڑے کھڑے اس کی بے عزتی کر دی‘ اس طرح آدمی نے جو کچھ کیا سب ضائع ہو سکتا ہے۔

اس لیے سب سے پہلی بات جس کے بارے میں انسان کو سوچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جس سے دوسروں کو ایذا پہنچے یا تکلیف ہو۔ یہ خدمت خلق کی وہ صورت ہے جو ہم میں سے ہر آدمی کر سکتا ہے۔ کسی کے بھی بس سے باہر نہیں ہے۔ اس میں نہ پیسہ لگتا ہے ‘ نہ وقت‘ بس صرف اپنے نفس کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ غصہ آ رہا ہے‘ انتقام لینے کو دل چاہ رہا ہے‘ اس وقت اپنے آپ کو قربان کر دینا‘ نفس پر قابو پا لینا‘ یہ بہت بڑی بات تو ضرور ہے لیکن خدمت خلق کی راہ میں بہرحال پہلی چیز ہے۔

راہِ خدا میں خرچ کرنا

خدمت خلق دینے‘ خرچ کرنے‘ انفاق اور ایتا کا نام ہے۔

کھانا کھلانا‘ علاج کرنا‘ خدمت کرنا اور عبادت کرنا--- سب اسی کے اندر آتا ہے۔ لیکن اصل چیز یہ کہ آدمی خود غرض نہ ہو بلکہ دینے کو تیاررہے‘ اور دینے کے اندر جو چیز آدمی کو سب سے پیاری ہے وہ ہے مال و دولت۔ ویسے تو وقت بھی ہے اور بھی بہت سی چیزیں انسان کو پیاری ہوتی ہیں لیکن عزت و آبرو کے بعد سب سے پیاری چیز پیسہ ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے جہاں بھی خدمت خلق کا ذکر آیا ہے وہاں پر دولت کو سینت سینت کر رکھنے سے منع کیا گیا ہے ‘ یا اس کی برائی بیان کی گئی ہے۔ سورہ الھمزہ میں ہے:

وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃِ لُّمَزۃِ نِ o الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ o (الھمزہ ۱۰۴: ۱-۲)

تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے‘ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا۔

گویا مال جمع کرنا‘ اسے گن گن کر رکھنا‘ بنک بیلنس شمار کرتے رہنا‘ اور اپنا مال تھیلیوں اور تجوریوں میں بھر بھر کر رکھنا--- یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ قرآن نے مال جمع کرنے اور اسے سینت سینت کر رکھنے کو اس بات سے بھی جوڑا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کو طعنے دینے اور برا بھلا کہنے کا خوگر ہوتا ہے اور انھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ گویا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے پیچھے بھی مال کی محبت کا محرک کارفرما ہوتا ہے۔

ایک دوسرے مقام پر انسانی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ہم انسان کو عزت اور نعمت دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے عزت دار بنا دیا‘ اور جب آزمایش کرتے ہیں اور اس کا رزق تنگ کر دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا۔ مگر حقیقت کیا ہے‘ اس کی نشاندہی قرآن یوں کرتا ہے:

کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰)

ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔

یہاں بھی مال کی محبت اور دوسروں کو تکلیف دینا‘ دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔

نیکی کی تعریف قرآن مجید میں‘ ایک مقام پر اس طرح سے کی گئی ہے:

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ ……… وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (البقرہ ۲:۱۷۷)

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر‘ مسکینوں اور مسافروں پر‘ مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں‘ اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

یہاں بھی اللہ‘ یوم آخر‘ ملائکہ‘ کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لانے کے بعد جس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور نادار و محتاج لوگوں پر خرچ کرنا۔ نماز‘ زکوٰۃ اور جہاد کا حکم اس کے بعد دیا گیا ہے۔ اس سے بھی راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

عَلٰی حبہٖ کے معنی ہیں: اللہ کی محبت میں دینا‘ مال کی محبت کے باوجود دینا۔ دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ مال کی محبت کے باوجود آدمی اسی وقت دے سکتا ہے جب مال سے زیادہ کوئی اور چیزپیاری ہوجائے‘ اور وہ ہے اللہ! اللہ کی محبت میں بھی آدمی اسی وقت دے سکتا ہے‘ جب مال کی محبت‘ اللہ کی محبت سے کم ہو۔ مقصد یہ ہے کہ جو مال اللہ نے ہمیں دیا ہے‘ جس سے ہمیں بڑی محبت ہے‘ اسے اللہ کی راہ میں دوسرے بندوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ لہٰذا کنجوسی سے مال کو بچانے کے بجائے کھلے دل اور کھلے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں دینا‘ یہ خدمت خلق کی دوسری صورت ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو اجتماعی کاموں کی عمارت کھڑی کرنے سے خدمت خلق کے کام کا وہ حق ادا نہیں ہوتا جو اللہ اور رسولؐ نے ہم پر عائد کیا ہے۔

مال نہیں‘ قلبی وسعت

مال دینے کے لیے مال کا ہونا ضروری ہے لیکن بہت زیادہ مال ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ دل کے اندر بہت سی جگہ ہو۔ دو پیسے بھی آدمی دے تو اس کے لیے بہت ہیں۔

نبی کریم ؐ نے اسی پہلو کو حدیث میں یوں واضح کیا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ آدمی اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا‘ درمیان میں کوئی پردہ نہ ہوگا‘ رُوبرو ہوگا اور آگ بھڑک رہی ہوگی۔ سوچے گا کہ آگ سے کیسے بچے؟ دائیں بائیں سہارا دیکھے گا۔ پھر دیکھے گا کہ جو کچھ مال میں نے دُنیا میں آگے بھیجا ہے اس میں سے کچھ نہیں ہے‘ سوائے عمل کے۔

پھر فرمایا: ’’آگ سے بچو--- اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی دے کر بچ سکتے ہو تو بچو‘‘۔

یعنی آگ سے بچنے کے لیے خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دیا جائے یا صرف ایک پیسہ‘ جو کچھ بھی ہو‘ دینا چاہیے۔ اللہ کے ہاں اجر مقدار کی بنا پر نہیں بلکہ دینے کی نوعیت کے لحاظ سے ملے گا۔ اگر اتنا مفلس اور قلاش ہو کہ کچھ بھی نہ دے سکے‘ تو کم از کم اس بات پر رنجیدہ تو ہو کہ میں دے نہیں سکتا۔ آنکھ میں آنسو اور دل میں افسوس ہی ہو کہ کاش میرے پاس کچھ ہوتا تو میں دے دیتا۔ اس کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے۔

اپنا مال قربان کرنا‘ اللہ کی راہ میں دینا اورمال کی محبت دل سے نکالنا--- اس کے بغیر خدمت خلق نہیں ہو سکتی۔ مال کی محبت دل میں ہو تو آدمی وقت کے بارے میں بھی کنجوس ہوتا ہے‘ جسمانی صلاحیتوں اور توانائیوں کے استعمال میں بھی کنجوس ہوتا ہے اور ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں‘ غرض بہت سی کنجوسیاں آجاتی ہیں۔ اسی طرح اگر مال کے بارے میں دل کھلا ہو تو ہر چیز کے بارے میں دل کھلا ہوتا ہے۔ جو بخیل ہوتا ہے اس کے کردار میں ہر طرح کی خرابیاں آجاتی ہیں۔ فیاض آدمی میں بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیں--- دل اتنا کھلا ہو کہ جو دولت اللہ نے دی ہے‘ جتنا بھی دیا ہے‘ خواہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے سکتا ہو‘ اللہ کی راہ میں دے۔ اتقوا النار ولو کان شقۃ--- یہ ہے خدمت خلق کی روح!

بھلی بات کہنا

تیسری چیز یہ ہے کہ آدمی ایسی بات کہے کہ جو دوسرے کے دل کو خوش کر دے‘ اس کو نفع پہنچائے۔

ایک حدیث میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی راہِ خدا میں دینے کے لیے نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے اس آگ سے بچو۔ کم از کم یہ بات تو ایسی ہے جو آدمی ضرور ہی کر سکتا ہے۔ ایک اچھی اور میٹھی بات منہ سے نکالنے میں نہ پیسہ لگتا ہے نہ دمڑی‘ بلکہ کچھ بھی نہیں لگتا۔ مسکرا کر ملنے سے‘ مسکرا کر دیکھنے سے‘ اچھی اور میٹھی بات کرنے سے کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ پھر آدمی اس میں بخل کیوں کرے‘ کنجوسی اور تنگ دلی کا مظاہرہ کیوں کرے۔

اچھی بات کر دینے سے آدمی کا دل کتنا خوش ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے دینے سے وہ فائدہ نہیں ہوتا‘ جو میٹھی بات سے ہوتا ہے۔ پیسہ روک دینے سے دل پر وہ زخم نہیں لگتا جو کڑوی بات سے لگتا ہے۔ کڑوی بات کا زخم کسی طرح نہیں مٹتا۔ تلوار یا بندوق کا زخم دوائوں سے مٹ جاتا ہے‘ مندمل ہو جاتا ہے لیکن کڑوی بات کا زخم جب دل پر لگتا ہے تو کوئی مرہم اس پر کام نہیں کرتا۔ چنانچہ اگر کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو تو نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ‘ پھر اچھی بات سے اپنے آپ کو آگ سے بچائو۔

وسائل اور صلاحیتیں لگانا

خدمت خلق کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو وقت‘ جسم و جان‘ صلاحیتیں اور توانائیاں عطا کی ہیں‘ انھیں راہِ خدا میں لگائے۔ اس کی بے شمار صورتیں ہیں۔ نبیؐ نے اپنے زمانے کی مناسبت سے ان کو بیان فرمایا اور ان کی تعلیم دی ہے۔

آپؐ نے فرمایا کہ اگر بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ اگر کسی کو سواری پر ہاتھ پکڑ کر بٹھا دو‘ تو یہ بھی خدمت خلق اور صدقہ ہے۔ اگر اندھے کو راستہ نہیں ملتا‘ تم نے اسے راستہ بتا دیا تو یہ بھی خدمت خلق کا کام ہے۔ کسی کے لیے کچھ کما کر اس کی خدمت کر دی‘ مالی مدد کر دی‘ تو یہ بھی خدمت خلق ہے۔ کسی کو سودا سلف لا دینا‘ یہ بھی خدمت ہے۔ اس طرح کی بے شمار صورتیں ہیں جن سے آدمی اپنے جسم و جان سے خدمت کر سکتا ہے۔

محلّے کے اندر کوئی عورت بوڑھی ہے یا بیوہ ہے‘ جاتے جاتے اس کی طبیعت ہی پوچھ لی۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے جسے لوگ نہیں کرتے۔حالانکہ اس میں بھی بہت خدمت خلق ہے۔ ممکن ہے کہ اس نے کچھ منگوانا ہو۔ لیکن اتنا پوچھ لینا کہ ا مّاںسودا تو نہیں لانا--- یہ پوچھنابھی اس کے دل کو خوش کر دے گا۔ اس کی خوشی سے اللہ کا رسولؐ خوش ہوگا اور اللہ خوش ہوگا۔ یہ ایسی خوشی ہے جو نماز‘ روزہ یا تسبیح و تہلیل سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اللہ کے بندوں کو خوش کرنے سے اللہ کو اور اس کے رسولؐ کو ہوتی ہے!

یہ سب خدمت خلق کی انفرادی صورتیں ہیں جو ایک فرد اپنے ہاتھوں سے انجام دے سکتا ہے۔ ان کا ذکر پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ جو بھی اجتماعی کام ہیں خواہ کوئی شعبہ قائم کیا جائے‘ کوئی شفاخانہ بنایا جائے‘ کھالیں جمع کی جائیں‘ اسکول بنایا جائے‘ مدرسہ بنایا جائے‘ یا کوئی بھی کام کیا جائے--- یہ افراد ہی انجام دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم محض اجتماعی ڈھانچوں کے قیام سے خدمت خلق کا حق ادا کر دیںگے اور جو لوگ خدمت خلق کا فریضہ ادا کر رہے ہیں‘ خود ان کی ذات سے اس کی عکاسی نہ ہوتی ہو‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف اجتماعی ڈھانچے کھڑے کر دینے سے خدمت خلق کا حق ادا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (جاری)