سب سے پہلے یکسو ہو کر اور دل کو تمام وساوس سے پاک کر کے بار بار پوری سورت کو پڑھ کر اس کا مرکزی مضمون اور اس مضمون کا قرآن کے اصل موضوع سے تعلّق معلوم کیجیے۔ پھر سورت کے مضامین اور مومنین و منافقین‘ مشرکین و کافرین کے ساتھ جو اندازِ خطاب اختیار کیا گیا ہے اس پر غور کرکے یہ معلوم کیجیے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کس مرحلے میں رہی ہوگی اور دعوت کو کس رہنمائی کی ضرورت تھی جسے اس سورت میں پورا کیا گیا۔ نیز جن لوگوں نے اس دعوت کو صدق دل سے نہیں مانا تھا اور جو اس کے مخالف تھے ان کے ساتھ کیا طرزعمل اختیار کرنے کی اس سورہ میں ہدایت فرمائی گئی۔ یہ بات سمجھ آجانے کے بعد پھر سورہ کو بار بارپڑھ کر یہ معلوم کیجیے کہ سورہ کتنے خطابات پر مشتمل ہے اور کون سا خطبہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ پھر ہر خطبے کے مرکزی مضمون کا سورہ کے مرکزی مضمون سے تعلّق‘ ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات‘ طرز استدلال اور انداز خطاب پر غور کرتے رہیے۔ پھر ہر تفسیر کو پڑھیے‘ اس کے مباحث کو سمجھیے اور ہر کتاب کے مباحث سے تقابل کرتے رہیے اور ذہن میں جو سوال پیدا ہوں ان کے جواب تلاش کرتے رہیے‘ یہاں تک کہ ہر بات سمجھ میں آجائے۔ اس کے بعد جن چیزوں کے سلسلے میں مختلف اقوال اور آرا منقول ہوں‘ ان میں عبارت کے سیاق و سباق اور اس مرحلے کے پس منظر میں جس میں کہ متعلقہ خطبے کا نزول ہوا ہے‘ قول راجح اور اس کے وجوہ و اسباب تلاش کیجیے۔ یہ سارا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد‘ مولانا نے ہدایت فرمائی تھی کہ ساری کتابیں رکھ دیجیے اور اپنا قرآن مجید اٹھا کر پوری یکسوئی کے ساتھ اس طرح ٹھیرٹھیر کر پڑھیے کہ آپ کا دل محسوس کرتا رہے کہ یہ لفظ زبان سے نہیں دل سے نکل رہا ہے۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج ۲‘ ص۳۰۳-۳۱۳‘ ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور)
مولانا حکیم خواجہ اقبال ندوی نے لاہور اور دارالاسلام پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒسے قرآن کریم درساً درساً پڑھا اور مولانا کے تعلّق قرآن اور تدبر قرآن کو بہت ہی قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ مولانا نے قرآن کے مضامین و مفاہیم پر غوروفکر کرنے کے لیے کس اسلوب اور منہاج کی طرف رہنمائی فرمائی ‘جو بیان کیا وہ مذکورہ بالا الفاظ میں درج کیا گیا ہے۔
ہم ان ہدایات کو مرحلہ بہ مرحلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی تفصیل و شرح حسب مقدور عرض کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
۱- یکسوئی اور دل کو وساوس سے پاک کرنا: یہ قرآن فہمی کی شاہ کلید ہے۔ ہم دراصل شعوری یا لاشعوری طور پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہی پڑھتے ہیں۔ اللہ کی شیطان سے پناہ مانگتے ہیں اور اللہ کے نام سے ہی ابتدا کرتے ہیں لیکن یکسو نہیں ہوتے۔ زبان دل کا ساتھ نہیں دیتی۔
یکسوئی انسان کو درجۂ امامت تک پہنچاتی ہے۔ اس کو قرآن کی زبان میں حنیفیت کہتے ہیں جو ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسی چیز نے ان کو انسانوں کا امام بنایا۔
یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل کو تدبرقرآن کے علاوہ ہر چیز سے خالی کر لو اور صرف قرآن کریم اور اس کے مطالعے کی طرف دل و دماغ کا رخ پھیر کر متوجہ ہو جائو تاکہ تفکّرمرکوز کر کے گوہر قرآنی کو اپنے دامن میں سمیٹ سکو۔
رہا وساوس سے پاک کرنا‘ تو وہ اس لیے ضروری ہے کہ ہدایت کی راہ میں مختلف روڑے اٹکانا شیاطین جن و انس کا خاص الخاص مشغلہ ہے۔ اسی وجہ سے سورئہ توحید (سورہ اخلاص) کے بعدجس میں اس دین کی بنیاد کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے‘ معوذتین کو رکھا گیا تھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ سارے ہی قرآن میں ہدایت کی جو راہ روشن کی گئی تھی‘ اس کی حفاظت کی خاطر اللہ کی صفات‘ ربوبیت و خالقیت‘ مالکیت اور الوہیت کی پناہ طلب کی جائے تاکہ ان ہدایت کے دشمنوں اور توحید سے نفرت کرنے والوں کے ہتھکنڈے بے اثر اور بیکار ثابت ہوسکیں۔
یہی مقصد ہے قرآن کریم یا احادیث نبویہ شریفہ کی تلاوت سے پہلے تعوذ اور بسملہ پڑھنے کا۔ اسی کی تعلیم مولانا مودودیؒ نے قرآن کے تدبر میں آگے بڑھنے والوں کو دی ہے۔
۲- سورہ کا مرکزی مضمون: یہ دوسری ہدایت ہے کہ پوری یکسوئی اور وساوس سے پاک ہو کر بار بار کسی بھی سورت کو اس نیت سے پڑھو کہ اس کا مرکزی مضمون ہاتھ آجائے۔ مرکزی مضمون وہی چیز ہے جس کو مولانا حمیدالدین فراہی ؒ سورہ کا عمود اور سید قطب شہید ؒ محور کہتے ہیں۔ ان سب کا مقصود سورت کا وہ نکتہ ہے جس کے اطراف اس کے مضامین گھومتے رہتے ہیں۔ اس طرح سورت میں مرکزیت کی وجہ سے وحدت ہدف اور مرکزی مباحث کے خدوخال اُبھرنے لگتے ہیں جن کو ہم outlines کا نام دے سکتے ہیں۔ ان میںتفصیلی رنگ بھرنے کا طریقہ آگے بیان کیا جا رہا ہے۔
مولانا نے بات صرف سورت کے مرکزی مضمون تک محدود نہیں کر دی بلکہ ہر ہر سورت کو قرآن کے مرکزی مضمون سے باندھنے پربھی اصرار کیا ہے تاکہ ہر سورت خود قرآن کے مرکزی مضمون سے منسلک ہو کر موتیوں کے ہار کی طرح ایک لڑی میں پروئی جائے۔ اس طرح خود قرآن کے مرکزی مضمون کے اطراف قرآن کی ساری ہی سورتوں کے مرکزی مضامین قرآن کی وحدت کو جگمگانے کا باعث بنیں۔
اس طرح مولانا نے سارے ہی قرآن کوایک وحدت گردانا اور دوسروں کو بھی اس وحدت کو دریافت کرنے کی تعلیم دی۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
۳- سورہ کے مضامین اور مختلف گروہوں سے اندازِ خطاب: اوپر میں نے جن خطبوں میں رنگ بھرنے کی طرف اشارہ کیا تھا یہ وہی مضامین رنگ و بو ہیں۔ مختلف گروہوں سے اندازخطاب کو وحدت سورت کے اصل جسم پر گوشت پوست کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد سورت کی شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ شخصیت انگلی اُٹھا کر اس ماحول اور ان حالات کی طرف اشارہ کردیتی ہے جن میں وہ نازل ہوئی تھی بلکہ اس کے مختلف خطبے اس خاص ماحول اور مرحلے کے مختلف اجزا کو نظروں کے سامنے لا کر سینما کی ریل کی طرح‘ ایک لمبے مرحلے کو جو مختلف چھوٹے بڑے مناظر سے عبارت ہوا کرتا ہے‘پیش کر دیتے ہیں۔مناظر کا یہ تسلسل ان کے مختلف رنگوں ‘ خصوصیات‘ کیفیات اور ان میں پیش آنے والے حالات کی سچی تصویرکشی کر کے ان کے چھوٹے سے چھوٹے گوشے اور جزئیات تک کو واضح کر دیتا ہے۔
اسی کو تفسیری اصطلاح میں ’’شانِ نزول‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہ شانِ نزول سورتوں کے مضامین اور مختلف گروہوں کو مخاطب کرنے کے انداز سے ازخود نمودار ہوئی ہے اور اپنی زبان سے خود کہہ رہی ہے کہ مجھے ان اسباب اور ان حالات میں اتارا گیا تھا۔ یہ قرآن کی اپنی اندرونی اور منہ بولتی شہادت ہے جس کی سچائی میں کسی قسم کے شک کی گنجایش نہیں ہے۔
یہیں سے حرکی اور متداول تفاسیر میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ حرکی تفاسیرشانِ نزول کو دعوت اسلامی کے مختلف مراحل سے جوڑ کر شان نزول کے بہت سے دقیق مباحث سے دامن بچا لیتی ہیں۔ اس سے قرآن فہمی آسان ہو جاتی ہے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ عصرحاضر کی پہلی حرکی تفسیر اردو میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے نکلی تھی ‘ جب کہ عربی میں پہلی حرکی تفسیر سید قطب شہید ؒ کے خون کی سرخ روشنائی سے لکھی گئی ہے۔ یہ حرکی اسلوب تفسیر اس خاص ماحول اور ان خاص حالات کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے جن میں داعی اوّلؐ اور ان کی دعوت اور جماعت گھرے ہوئے تھے اور پھر وہ خود ان ضروریات کو واضح کرتا ہے جو اس وقت دعوتِ اسلامی کو لاحق تھیں‘ اور اس رہنمائی کو بھی عیاں کرتا ہے جس کی طلب تھی اور وہ اس سورت اور اس کے مختلف مضامین سے پوری کی گئی۔
اسی حقیقت کا دوسرا رخ وہ اندازِ خطاب‘ وہ دلائل اثبات و انکار‘ وہ تعریف و توصیف اور وہ دھمکی و وعید ہے جو اس مرحلے میں حصہ لینے والے مختلف گروہوں کے لیے اختیار کی گئی تھی۔
۴- سورہ کے خطبات یا اجزاء تکوینی: یہ کسی بھی سورت کی صورت گری کا بہت اہم مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے خدوخال اور خطوط عامہ تک نوبت پہنچی تھی اور اب صورت گری کا معاملہ درپیش ہے۔ یہ ان خطبوں سے عبارت ہے جن سے مل کر سورت بنتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بقول قرآن دعوتِ اسلامی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور داعی اوّلؐ کی رہنمائی‘ تسلی اور دل جوئی کے لیے خطبات کی شکل میں نازل ہوا کرتا تھا جو اس کتاب عزیز میں اور عام کتابوں میں فرق کا حقیقی سبب ہے۔ یہ خطبات کبھی تو حقائق کون و مکان (سورج‘ چاند‘ ہوا‘ پانی‘ دن رات) کے بارے میں اور ان کے مختلف قابل غور اور عبرت ناک پہلوئوں‘ توحید خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مختلف زاویوں اور جواب دہی اور حتمیت ساعۃ (قیامت) کے اشارات لیے ہوئے ہوتے‘ تو کبھی حقائق دین (توحید‘ رسالت‘ آخرت‘ ملائکہ) کے بارے میں ہوا کرتے‘ یا پھر ان پر صدق دل و جان سے ایمان لانے والوں‘ منافقین‘ مشرکین‘ کفار‘ اہل کتاب کی کیفیات اور احوال ‘ اس خاص وقت یا تاریخ کے کسی پچھلے مرحلے کے بارے میں ہوا کرتے‘ اور کبھی وہ احکام و ہدایات حیات کے روپ میں نازل ہوتے۔ ایک ہی سورت خصوصاً طویل سورتیں (البقرہ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدہ وغیرھا) اس قسم کے کئی کئی خطبات پر مشتمل ہیں بلکہ یہ خطبات ایک ہی موضوع پر پلٹ پلٹ کر مختلف پہلوئوں اور زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں اور سامانِ رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔
ان خطبات میں مشابہت کے باوجود‘ اختلاف مقصد و بیان اور اسلوب بیان کو دریافت کرنا اور ان کا مختلف زاویوں کے اختلاف کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان کا مرکزی مضمون دریافت کرنا‘ اور اس مرکزی مضمون کو سورت کے مرکزی مضمون سے جوڑنا‘ نہایت مشکل‘ باریک بینی اور گہرے غوروفکر کا متقاضی امر ہے۔ یہ کام اسی طرح مربوط ہے جیسا کہ ہاتھ ہے جس میں انگلیاں ہیں‘ پھر پنجہ ہے‘پھر پنجے سے کہنی تک کا حصہ ہے اور آخر میں کہنی سے مونڈھے تک کا جز ہے۔ یہ جوڑ ویسے ہی ہیں جیسا کہ کسی سورت کے خطبات ۔جس طرح مختلف جوڑوں کے ملنے سے ہاتھ بنتا ہے‘ اسی طرح مختلف خطبات کے باہمی ربط سے مرکزی مضمون مربوط ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بات ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات اور انداز خطاب تک جا پہنچتی ہے۔ گویا ہاتھ کے جوڑوں کے درمیان واقع اجزاے ترکیبی پر غوروخوض کرنا۔ انگلی ہے تو اس میں تین تین پور ہیں‘ ہڈیاں ہیں‘ ناخن ہیں‘ ان پر گوشت چڑھا ہوا ہے‘ ان میں خون دوڑتا ہے‘ وہ مڑسکتی ہیں‘ ان سے اشیا کو چھوا یا چکھا جا سکتا ہے اور ان کو ملا کر پکڑا اور اٹھایا جا سکتا ہے۔ یوں ایک ایک آیت اور اس کے ایک ایک لفظ تک کا ربط معلوم کرنا ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سورت کے مرکزی مضمون سے آیت اور اس کے الفاظ تک غور کرنا گویا بلندی سے نشیب کی طرف اترنا اور اس راہ میں جو جو پہاڑ‘وادیاں اور میدان آئیں ان کو عبور کر کے بالکل تہ تک پہنچنا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا ربط آیات و مضامین پر لفظاً لفظاً غور فرمانا گویا پہاڑ سے ذرے تک پہنچنے کے مترادف ہے۔
۵- دیگر تفاسیر سے استفادہ: ان سارے مراحل کو اپنی کوشش اور اپنے بل بوتے پر طے کرنے اور اس راہ میں پوری اجتہادی صلاحیتوں اور کوششوں کو صَرف کرنے کے بعد مزید توضیح‘ تنقیح اور اطمینان کی خاطر ان بزرگ ہستیوں کی کاوشوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جنھوں نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات کتاب اللہ پر غور کرنے میں صَرف کیے تھے۔
اس سے قبل ایک سوال کے جواب میں حکیم خواجہ اقبال ندوی صاحب کہہ چکے ہیں کہ مولانا نے ایک شاگرد کو--- ایک مبتدی کو --- تفسیر ابن جریر‘ ابن کثیر‘ تفسیر کبیر‘ کشاف اور راغب اصفہانی کی مفردات اور احکام القرآن میں سے جصاص اور ابن عربی مطالعہ کے لیے دی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محنتی طالب علم کے لیے بہت کچھ باقی ہے جس سے اس کو استفادہ کرنا چاہیے۔ تفہیم القرآن ان تفاسیر کے حوالوں سے ماشا اللہ مالا مال ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ان سب تفاسیر سے بھرپور استفادہ فرمایا ہے۔
ان تفاسیر سے رجوع کرنے کا اصل مقصد ان میں منقول مختلف آرا اور اقوال کا احاطہ کرکے‘ پھر اپنی کاوشوں کی طرف پلٹ کر ان کو عبارت کے سیاق و سباق اور نبی کریمؐ کو درپیش مرحلے کے پس منظر میں رکھ کر ان تفاسیر میں وارد قول راجح کے وجوہ و اسباب تلاش کرنا ہے۔
قول راجح کو اکثر --- نہ کہ ہمیشہ ---اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ متداول تفاسیر کے دائرے سے نہ نکلا جائے کیونکہ یہ امت کے متفق علیہ امور میں سے ہے ورنہ شاذ کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر قول راجح کسی وجہ سے اختیار نہ کرنا پڑے تو ان ہی تفاسیر کے کسی اور قول کو اختیار کر کے اسباب و وجوہ کو تلاش کیا جانا چاہیے جیسا کہ قول راجح کے سلسلے میں عمل کیا گیا تھا۔
۶- قرآنی الفاظ کا دل سے نکلنا: آخری اور فیصلہ کن مرحلہ وہ تلاوت قرآن پاک ہے جس کو ٹھیرٹھیرکر پڑھا جائے ‘اس طرح کہ پورے استغراق کی حالت میں قرآن پاک کے الفاظ دل سے نکلتے ہوئے محسوس ہوں۔ گویا صرف دماغ اور زبان سے الفاظ کا نکلنا کافی نہیں ہے بلکہ ان کا دل سے نکلنا ضروری ہے‘ خصوصاً ایسے دل سے جو یکسوئی اختیار کر چکا ہو اور وساوس سے یکسر پاک و صاف ہو چکا ہو۔
یہ اپنے نتیجے پر بھروسا پیدا کرنے کی ترکیب ہے تاکہ غلطی‘ غلط فہمی اور غلط روی کا کم سے کم امکان پایا جائے۔ انسان ہونے کے ناطے کوئی معصوم نہیں ہے الا معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
یہ مولانا مودودیؒ کے تفکر و تدبر کے چھ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو انھوں نے تفہیم القرآن میںبرتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر سورہ کے مقدمے میں عموماً اور مرکزی مضامین اور تاریخی پس منظر میں خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مولانا مودودیؒ نہ صرف ایک ’’صاحب دل‘‘ بلکہ ’’صاحب حال‘‘ آدمی بھی تھے!!
اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔