سید حامد عبدالرحمن الکاف


ایران اور النصرۃ فرنٹ کے درمیان لبنان سے متصل شام کے ضلع الزبدانی کے مستقبل کے بارے میں استنبول میں ہونے والی بات چیت سے کئی غورطلب پہلو سامنے آئے:

۱- یہ معاملہ ایران کے ساتھ آسٹریا میں ۵+۱ کے ’معاہدئہ وی آنا‘ پر دستخط کے فوراً بعد ہوا ہے۔ جس کے بعض خفیہ پہلو بھی ہیں جن کا اعلان تو نہیں ہوا مگر ان پر عمل شروع ہوچکا ہے۔

۲- یہ عمل ضلع الزبدانی کے علاقے سے سُنّی مسلم آبادی کے انخلا اور ان کی جگہ شیعہ آبادی کو بسانے سے شروع ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کا جز ہوگا۔ یہ ریاست بحرروم کے مشرقی دھانے پر ہوگی اور جو لازقیہ سے شروع ہو کر الزبدانی پر سے گزرتی ہوئی لبنان کے شیعی اکثریتی علاقے البقاع تک جائے گی۔

۳- ترکی کا کرد علاقے میں PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر اچانک ہلّہ بول دینا ،  جس کی کامیابی کے لیے ترکی نے کوبانی تک عراقی کردوں کو پہنچایا، تاکہ داعش کو کوبانی سے نکالا جاسکے۔ ترکی کے موقف میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ صدر طیب اردگان کو احساس ہوگیا کہ  عراقی کردستان کے ساتھ اب ترکی کردستان بھی بنے گا، جس میں صرف ایرانی کردستان کو شامل کرنا باقی رہے گا۔ اس طرح ایک آزاد کرد ریاست وجود میں آجانے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ عراق میں ’فضائی سروس کی ممانعت‘ (نوفلائی زون) کا علاقہ، عراقی کردستان کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے، کیوںکہ امریکا اس کو اپنی مدد کے ذریعے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح شیعہ ریاست کی حدود وسیع تر کرکے عراقی سُنّی ریاست سے جوڑ ا جانا پیش نظر ہے۔یہ امریکی وزیرخارجہ   کونڈا لیزارائس کے منصوبے میں ایک اہم پیش رفت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد، اس وقت اپنا منصوبہ بنا رہی تھیں جب بش انتظامیہ ایران سے بات چیت شروع کر رہی تھی۔

۴- عراقی کردستان بننے کا مطلب جنوبی عراق کی شیعہ آبادی اور علاقے میں ایک اور شیعہ ریاست وجود میں لانا پیش نظر ہے اور عراقی کرد اور عراقی شیعہ آبادی کے درمیان ایک سُنّی ریاست وجود میں لانے کا منصوبہ ہے۔

۵- نئی شیعہ ریاست جنوب میں کویت، الخبر، الدمام اور ظہران کے تیل کے ذخائر والے علاقوں اور بحرین اور شاید قطر پر بھی بنانا پیش نظر ہے۔

انھوں نے ایران کو خلیج کے مشرقی دہانے سے اُٹھا کر خلیج کے مغربی دھانے سلفی عرب تک پہنچا دیا ہے۔ غالباً یہ ایرانی کردستان کا خراج ہو، مگر یہ عربوں کے پہلو میں ایک زہریلا کانٹا ہوگا جس کو استعماری طاقتیں عرب ایران تعلقات کو کشیدہ بنانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہیں گی۔ یہ استعماری طاقتوں کا پرانا حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشیدگی پیدا کرکے اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایران اور عربوں کو اس طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

۶- وہابستان کے نام سے امریکا ایک نئی ریاست بنانے میں دل چسپی ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شاید پٹرول، کپاس اور ساحلِ سمندر سے محروم ہوگی۔

۷- گذشتہ کچھ عرصہ امریکا نے یمن کو متحد رکھا تھا مگر جدید نقشے کے مطابق نہ صرف امریکا، برطانیہ حوثیوں اور علی صالح کو عبدربہ ھادی کے برابر کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ بھی امریکا، برطانیہ اور حوثیوں کے ساتھ علی الاعلان ہوگئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کویت یا عمان میں منعقد ہونے والی بات چیت میں دائمی جنگ بندی کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اس کا اصل مقصد شمالی یمن میں زیدی ریاست کا قیام تو نہیں ہے؟ یہ اندیشہ لفظ ’دائمی جنگ بندی‘ سے پیدا ہو رہا ہے، جس کا مطلب بات چیت کو طول دینا اور وقتی سرحدوں کو دائمی سرحدوں میں بدلنا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور ۵+۱ نے مل جل کر نہ صرف نقشے پر اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس کو نافذ کرکے اس کے سیاسی، بین الاقوامی ماحول کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، روس اور چین کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔

باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل راز جو ساڑھے بارہ برس پر محیط اس بات چیت میں چھپا ہوا تھا، جو ایران اور ۵+۱ کے درمیان ہوتی رہی۔ عالمِ اسلام میں شاید اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو کہ اسرائیل اب اُردن کے ساتھ اپنی حدود کو آخری حدود تسلیم کرنے پرراضی ہوگیا ہے۔ گویا اب نیل سے فرات تک اسرائیل کا خواب انتہاپسند نیتن یاہو کے ہاتھوں دفن کیا جا رہاہے جیساکہ نیل سے شروع ہونے والے اسرائیل کو انتہاپسند مناحیم بیگن اور انتہاپسند گولڈامایئر نے دفن کیا تھا۔

یہ اعلان نیتن یاہو کے ہاتھوں اُردن کی سرحد سے لے کر ۲۹کلومیٹر طویل دیوار بنانے کے اعلان میں پوشیدہ ہے۔ یہ سب جمہوری ملک ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور ارادے کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ بحث مباحثہ کئی کئی برس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ داخلی اور خارجی پالیسی کا جزو بن جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔

 عالمِ اسلام چونکہتعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، پھر سطحیت اور آسان کوشی اس امر کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔غیراخلاقی، غیرقانونی ریاست اسرائیل کا وجود ’کھلی‘ اور ’علی الاعلان‘ سازش کا نتیجہ ہے۔ شرقِ اوسط کی تقسیم سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کے منصوبے کے تحت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ’شرقِ اوسط جدید‘ کی اصطلاح اسی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران، جو تل ابیب میں جون ۲۰۰۶ء میں منعقد ہوئی استعمال کی تھی۔ پھر  نومبر ۲۰۰۶ء میں گلوبل ریسرچ میں یہ تذکرہ شائع ہوا۔ اس میں ’جدید شرقِ اوسط‘ کا نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا۔

اسی موضوع پر ایک تبصرہ رابن رائٹ کا نیویارک کے سنڈے ریویو میں ۲۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو  شائع ہوا۔اس میں ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں پانچ عرب ملکوں کو ۱۴ بنا دیا گیا ہے۔ مگر  اس میں یمن کو دو حصوں میں ،جب کہ سعودی عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے۔

امریکی حکومت کے منصوبہ ساز اس سُنّی ریاست کو شامی کردستان اور مجوزہ شامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح یمن زیدی اور شافعی یمنیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مارب میں سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری فوجیں جمع ہیں مگر حرکت پذیر نہیں ہیں، جب کہ   لحج کے سرحدی شہر کرش تک سعودی اتحاد کی فوجیں پہنچ کر رُک گئی ہیں اور تعز کو حوثی اور علی عبداللہ صالح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی عرب مقتدر حلقوں کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی پر اعتراف کیاجا رہا ہے کہ: ’’اسرائیل نے غزہ اور اُردن کے مغربی دہانے میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ یہ مغالطہ آرائی بھی اسی بڑے منصوبے کے لیے ذہنوں کو تیار کرنے کا پروپیگنڈا ہے۔ سازش کا رنگ بھرنے کے لیے یہ نقشہ طویل وقت چاہتا ہے، مگر ہوا کا رُخ یہی ہے۔ مستقبل کے امریکی نقشوں میں اسرائیل کی موجودہ حدودبتائی گئی ہیں۔ امریکی آقائوں کے اس فیصلے یا سوچ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں برابر کے شریک ہیں۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا کی سیاسی، فوجی، فکری، تعلیمی، مذہبی اور ابلاغیاتی قیادت، امریکی سامراجیوں کی مرضی و منشا کو پورا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے، یا دُوراندیشی اور سمجھ داری سے اس سازش کے تار و پود بکھیرنا چاہتی ہے؟

۱۹۷۲ء کا سال تفہیم القرآن کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے ٹھیک تقریباً ۳۰سال پہلے، فروری ۱۹۴۲ء (محرم ۱۳۷۱ھ) سے مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن کی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔

تفہیم القرآن تحریر کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ جو سخت محنت کیا کرتے تھے، اس کا ذکر خواجہ اقبال ندوی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’کلام اللہ کے منشا و مفہوم کو سمجھنے کا    سب سے پہلا ذریعہ مولانا کے نزدیک خود کلام اللہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کمرے میں آتے تو وضو کرکے آتے اور بیٹھنے کے ساتھ ہی متعلقہ حصے کی تلاوت شروع کردیتے اور بار بار اسی کو پڑھتے اور اس پر غوروفکر کرتے رہتے۔ مَیں نے مولانا کو چند رکوع کئی کئی گھنٹے تک بار بار تلاوت کرتے دیکھا ہے۔ یہ کام جب ہوجاتا تو یہی مضامین قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، ان سب کو مولانا اکٹھا کرلیتے اور ان پر غوروفکر کرتے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تشریح کے لیے حدیث، سیرت، رجال اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ پھر متقدمین سے لے کر معاصرین تک تمام تفاسیر کے مطالعے میں لگ جاتے۔ درمیان میں کہیں ضرورت ہوتی تو لُغت اور کلامِ عرب کی طرف مراجعت فرماتے۔ پھر صحفِ سماوی کے تمام نسخوں سے قرآن کے تقابلی مطالعے کے بعد آثارِ قدیمہ کی دریافتوں اور تاریخ کے پورے ذخیرے سے متعلقہ عہد کا مطالعہ فرماتے رہتے۔ غرض کوئی چیز چھوٹنے نہ پاتی، جو متعلقہ عہد کے حصہ پر کسی طور سے بھی روشنی ڈالتی ہو۔    یہ مولانا کے مطالعۂ قرآن کا پہلا دَور ہوتا۔ پھر وہ سکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردیتے اور ایسے تمام سوالات لکھتے جاتے جو متعلقہ حصے کے مطالعے کے سلسلے میں ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوسکتے تھے۔ اب تمام سوالات کو سامنے رکھ کر تفسیر، سیرت، حدیث اور      اَئمہ مجتہدین کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتے اور ہفتوں یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ مطالعۂ تفسیر، حدیث و سیرت کے کئی دَور مکمل ہوجاتے۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں ان کا سب سے مضبوط سہارا  اللہ کی توفیق اور اس کا فضل رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے، اور اپنی کتاب کے  فہم کے مزید باب وا کردے۔ مطالعے کے بعد ترجمانی شروع ہوتی تو تمام ترجموں سے تقابل کرتے رہتے۔ کہیں اشتباہ ہوجاتا تو پھر مطالعہ شروع ہوجاتا۔ گویا عبارت میں حَک و جلا [تراش خراش] کا سلسلہ آخر تک جاری رہتا‘‘۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج۲،ص ۳۰۴)

مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کے اُس دیباچے میں جو انھوں نے نیوسنٹرجیل، ملتان میں ۱۱ستمبر ۱۹۴۹ء کو حوالۂ قرطاس کیا تھا، تحریرِ تفہیم کی غرض و غایت یہ بیان کی ہے:   ’’میں ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگوں میں روحِ قرآن تک پہنچنے اور اس کتابِ پاک کے حقیقی مدعا سے روشناس ہونے کی جو طلب پیدا ہوگئی ہے اور روزبروز بڑھ رہی ہے وہ مترجمین اور مفسرین کی قابلِ قدر مساعی کے باوجود ہنوز تشنہ ہے۔ اس کے ساتھ میں      یہ احساس بھی اپنے اندر پا رہا تھا کہ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت میں بھی کرسکتا ہوں۔ انھی دونوں احساسات نے مجھے اُس کوشش پر مجبور کیا جس کے ثمرات ہدیۂ ناظرین کیے جارہے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۱،ص ۵)

’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ تک اپنی تفسیر کو محدود کرنے کے بعد انھوں نے مزید وضاحت اس طرح کی: ’’اس کام میں میرے پیشِ نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں، نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علومِ دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآنِ مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵-۶)

دوبارہ وہ اپنے ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ کے عموم کی تخصیص اس طرح کرتے ہیں: ’’میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علومِ قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے، انھی کی ضروریات کو میں نے پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اُن تفسیری مباحث کو میں نے سرے سے ہاتھ ہی نہیں لگایا ہے، جو علمِ تفسیر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر اس طبقے کے لیے غیرضروری ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص۶)

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تفہیم کی تحریر کے آغاز پر کوئی ۲۷برس گزرنے کے بعد مولانا مودودیؒ کے ہاں ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ اور ’اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگوں‘ کی خدمت کے بجاے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے کے جذبے نے جگہ لے لی۔ اس کی توضیح انھوں نے تکمیلِ ترتیب  تفہیم القرآن کے موقع پر یوں کی:’’حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں  دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا، اب مجھے   آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآن کی تکمیل پر صرف کردی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر     قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ     آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کررہا تھا     اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی اور اس کے اندر یہ مقبول ہورہی ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۳۷، بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء )

اپنے خطاب کے اس فقرے میں مولاناؒ نے اپنی تفسیر کے بارے میں بڑی خوش آیند باتیں کہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تفسیر دراصل ’آیندہ نسلوں‘ کے لیے لکھی گئی تھی، اس اُمید پر کہ وہ ان نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ الحمدللہ!  ہوا بھی ایسا ہی۔ اس تفسیر کو پایۂ تکمیل کو پہنچے تقریباً ۳۷برس ہوچکے ہیں۔ وہ ابھی تک اُبھرتی ہوئی نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

  • پُرامیدی کا سبب: مولانا کو احساس تھا کہ لوگ ضرور اس بزعمِ خود پُرامیدی کا سبب دریافت کریں گے۔ انھوں نے اگلے فقرے میں اس کا جواب یہ کہہ کر دیا: ’’اس موقع پر میں   مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں کہ اس تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں، مَیں نے جو طرزِ استدلال توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ درحقیقت میری اس ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد کی ہے… چنانچہ اس حالت میں، مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ یہ نہیں ہے کہ میں دہریہ ہوگیا تھا یا ملحد ہوگیا تھا۔ دراصل میں تحقیقات کے بعد ایک مستقل فیصلہ کرنا چاہتا تھا… اس طرح میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوں، بلکہ مذاہب عالم کا اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہ راے قائم کی ہے، اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے دلائل کے ساتھ اس راے کا بھی اظہار کرتا ہوں۔ یہ وہ استدلال ہے جس سے مَیں نے درحقیقت اسلام حاصل کیا ہے۔ جس سے میں توحید کا قائل ہوا، جس سے میں رسالت کا قائل ہوا، جس سے میں وحی کا قائل ہوا، جس سے میں اس کے مکمل نظامِ زندگی ہونے کا قائل ہوا، جس سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہرزمانے کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ اس وجہ سے میں نے    یہ ضروری سمجھا کہ میں قرآن مجید کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھائوں کہ اسلام حقیقت میں ہے کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۷-۳۹)

یہی وہ قرآن سے ماخوذ توحید، رسالت، آخرت اور وحی وغیرہ پر قوی اور مؤثر استدلال ہے جو مخالف کو سکوت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے اگرچہ وہ اسے موافق بنانے میں ناکام ہی کیوں نہ رہا ہو۔ یہی وہ طرزِ استدلال ہے جس کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو ’متکلم اسلام‘ کا خطاب دیا گیا تھا اور جس پر تقریباً سارے ہی مذاہب فکر کا اتفاق تھا اور آج تک ہے۔ ’متکلم‘ اسلام ایک عام اور جامع خطاب ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہے۔ لگے ہاتھوں اس خطاب میں، مولانا ؒ نے تفہیم کا سیرتِ نبویہ شریفہ اور احادیث نبویہ شریفہ سے تعلق بھی واضح کردیا تاکہ جو غلط فہمیاں ارادتاً پھیلائی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے: ’’تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کر کے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن کی کون سی آیت اور کون سی سورت کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)

مولانا مودودیؒ نے اگرچہ اپنی تفسیر کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر قرار نہیں دیا ہے لیکن میرے نزدیک ابتدا سے لے کر آخر تک قرآن مجید اور سیرتِ نبویہ شریفہ کے درمیان قائم کردہ   ربط و ضبط نے تفہیم کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر کی صفت عطا کی ہے۔ یہی وہ وصف و صفت اور خاصیت ہے جو اس کو دوام بخشے گی ان شاء اللہ، کیونکہ ساری دنیا میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کو وہ راستہ دکھاتی رہے گی جس پر چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے جاں نثار ساتھیوں نے قرآنِ مجید کو ایک زندہ اور چلتی پھرتی حقیقت بنایا تھا۔

اسی حرکی تفہیم کا عربی پرتو، اور ذخیرۂ تفاسیر میں دوسری حرکی تفسیر سیدقطب شہیدؒ کے سرخ لہو کی سیاہی سے لکھی ہوئی نہایت ہی بلیغ و فصیح اور آبشار کی طرح دندناتی ہوئی تفسیر فی ظلال القرآن ہے۔ اس میں مولاناؒ کی نادرِ روزگار کتاب: قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں (الٰہ، رب، عبادت اور دین) کو جوں کا توں قبول کر کے اور مولاناؒ کی دوسری اہم کتابوں اسلام و جاہلیت، دین حق، جہاد فی سبیل اللّٰہ، تفسیر سورۃ النور اور سود، سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے سید قطب شہیدؒ نے فکرِ مودودی کو آسمانِ خلود کا چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔  فی ظلال   جب تک پڑھی جائے گی اس وقت تک فکرِ مودودی زندہ اور متحرک رہے گی اور اسلامی تحریکوں کی ظلال اور تفہیم کے ذریعے رہنمائی کرتی رہے گی۔ رحمہما اللہ تعالیٰ الابرار۔

رہا اس خطبے میں مولانا کا احادیث سے تفہیم میں استفادے کا ذکر، تو یہ ایک ایسے شخص سے بالکل ہی متوقع امر ہے جو بے دھڑک ختمِ نبوت کے دفاع میں پھانسی کے تختے پر لٹک جانے کے لیے بالکل تیار تھا کیونکہ احادیث ہی اس دین کی عملی تطبیق کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ اس لیے قرآن و حدیث کے چولی دامن جیسے تعلق کا انکار صرف کوئی احمق اور بدبخت ہی کرسکتا ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولاناؒ نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ ہرمسلمان سے ایک نہایت پتے کی بات یہ کہی ہے کہ شعوری طور پر پڑھ لکھ کر اور سوچ سمجھ کر ایمان لانے کا ثمرہ کیا ہوتا ہے: ’’اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت کے عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں… یہ صورتِ حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے، جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑکی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا، ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا‘‘۔ (ایضاً، ص۴۰)

  • اھم تقاضا: قانونِ فطرت کے تحت وہ تفہیم القرآن جس کی شمع راہ بننے کی تمنّا مولانا مودودیؒ نے کی تھی، پرانی ہوتی جائے گی، اگر اس کی بروقت اور مناسب تعمیر و ترمیم اور   دیکھ بھال نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ اگر اس کی اس زبان میں بروقت مناسب تبدیلی نہ کی جائے جو ٹھیٹ دلّی کی ٹکسالی زبان تھی اور جو اب، امتدادِ زمانے کے ساتھ ساتھ، اُردو ثقافت میں کمی کی وجہ سے ناقابلِ فہم ہوتی جائے گی، اس کے محاورے اور تشبیہیں نئی نسل کے لیے غیرمانوس ہوں گی، اور سائنسی ترقی اور علمی ترقیوں کے دبائو کے تحت طرزِاستدلال، مقدمات اور نتائج میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گی۔ بعض اوقات بعض فقروں کو صرف کلمات، محاوروںاور تشبیہوں ہی کو نہیں___ ازسرِنو لکھنا اور تفہیم ہی کے سیاق اور اسلوب میں لکھنا پڑے گا۔ یہ ایک فرد کا کام نہیں ہے۔ اس  کے لیے ایک مستقل دائمی کمیٹی کی ضرورت ہے جو اگر ہر اڈیشن کی اشاعت کے وقت نہ سہی، مگر ہردوسری تیسری طباعت کے بعد مناسب تبدیلیاں کر کے احدث اڈیشن (updated version) شائع کرے۔ اس کمیٹی کا کام ہوگا کہ تفہیم کے جتنی زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں ان میں ان تبدیلیوں پر بھی نگاہ رکھے جو وقتاً فوقتاً کی گئی ہوں تاکہ سب زبانوں میں تمام اڈیشن updated ہوں۔ اس طرح تفہیم بدلتے ہوئے حالات اور اسالیب ِ بیان کا ساتھ دینے والی تفسیر بن جائے گی۔ اگر یہ عمل مولانا مودودیؒ کی دوسری کتابوں تک بھی وسیع کردیا جائے تو ان کو بھی ایک حد تک دوام حاصل ہوسکتا ہے اور ان کے استدلال سے آنے والی نسلیں پورا پورا فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔

 

مقالہ نگار صنعائ، یمن میں مقیم ہیں

اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے حماس کی نمایاں کامیابیوں کا صدمہ ایک ناسور بن چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی واضح اکثریت کی منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باوجود وہ حماس کے خوف سے نجات نہیں پاسکے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سازش تیار کی جارہی ہے۔ اب ایک قابلِ بقا و استمرار (sustainable state)فلسطینی ریاست کے قیام کے دعوے کے تحت نومبر ۲۰۰۷ء میں منعقد ہونے والی واشنگٹن کانفرنس___ حقیقت میں یہ ایک ایسا سراب ہے جو صدر بش نے فلسطینیوں‘ عربوں‘ مسلمانوں اور ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تیار کیا ہے۔ صدر بش   نے بڑی ہوشیاری‘ چالاکی اور چال بازی کے ساتھ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کی سعودی تجویز‘    سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اور عالمی چار رکنی کمیٹی جو امریکا‘ یورپی یونین‘ روس اور اقوام متحدہ سے مل کر بنی ہے___ ان تینوں کو موت کی نیند سلانے کی نیت سے یہ سازش تیار کی ہے۔ اس کانفرنس کی ناکامی پہلے ہی سے معلوم ہے اور ہدف بھی یہی ہے‘ تاکہ ناکامی کا سارا الزام فلسطینیوں کے سرمنڈھ کر اسرائیل کو اپنے جارحانہ اور مجرمانہ منصوبوں کو پورا کرنے کا کھلا لائسنس دیا جاسکے۔

اس عالمی کانفرنس میں شام کو دعوت نامہ نہ بھیجنا بھی اس نیت کی حقیقت عیاں کرتا ہے  کہ اس ناکام مگر امریکی‘ یورپین اور اسرائیلی نقطۂ نظر سے ’’کامیاب ___ بہت ہی کامیاب،   عالمی پیمانے پر عالمی برادری کے معیار پر کامیاب‘‘ کانفرنس کو ناکام کرنے کی مسلسل کوششوں کا الزام شام پر بھی تھونپا جاسکے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے کے لیے اسرائیل کو جواز فراہم کیا جائے۔ اس حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی ہوائی جہازوں نے شمال مشرقی شام میں دید الزور پر حملہ کر کے اپنی ریہرسل کرلی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکے ہیں۔ یقینا آگے بڑھ کر لبنان میں حزب اللہ‘فلسطین میں حماس‘ غزہ اور غزہ حماس اور آخرکار ایران اس کا اصل اور آخری ہدف ہوگا۔

اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے بارے میں کوئی لچک نہیں رکھتا۔ وہ اپنے مبنی برظلم موقف کے بارے میں ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ بنیادی حساس موضوعات کو وہ چھیڑنا ہی نہیں چاہتا ہے اور فلسطینیوں سے وہی مطالبہ کر رہا ہے جو امریکا‘ برطانیہ اور یورپ اور اسرائیل نواز عالمی لابی بھی ہمیشہ سے دہراتی ہے ___ امن ‘ امن اور امن۔ صرف اسرائیل ہی کے لیے امن‘ اور ہلاکت‘ تباہی اور بدامنی اور قتل و غارت گری صرف اور صرف فلسطینیوں کے لیے۔

یہ عجیب و غریب اور ظالمانہ مساوات جو یہودی صہیونی ذہن کی خاص پیداوار ہے اور جسے یورپ اور بعد میں امریکا نے بحیثیت ملک و قوم اور نظامِ حیات اپنا لیا اور سینے سے لگالیا ہے‘ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ چار رکنی کمیٹی میں اقوامِ متحدہ کے نمایندے کو کہنا پڑا کہ اقوام متحدہ کو اس کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہیے‘ کیونکہ یہ کمیٹی فلسطین پر عائد کردہ اسرائیلی‘ امریکی‘ برطانوی‘ یورپی پابندیوں کو ختم کرانے میں ناکام رہی ہے(بی بی سی نیوز‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۷ء)۔ اقوامِ متحدہ جو امریکا‘ یورپ اور روس کے بعد باقی دنیا کی اس کمیٹی میں نمایندہ تھی‘ کے نمایندے کا یہ بیان اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ایک ایسا یک طرفہ ڈراما ہے جس کے سارے کردار اسرائیل اور اسرائیلی ہی ہیں۔ اس میں کسی اور کی کوئی گنجایش نہیں۔

اللہ تعالیٰ اَسْرَعُ مَکْرًا ہے‘ یعنی اللہ اپنی چال چلنے میں سب سے تیز ہے۔ اس لیے اس نے اپنی قدرت‘ حکمت اور مصلحت سے غزہ کی پٹی میں حماس کو غالب کر کے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ‘ یورپ اور دیگر اسرائیلی ہم نوائوں کے سینے میں ایک زہریلا خنجر گھونپا ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ جو حق‘ اہلِ حق کے لیے زندگی کا باعث ہوتا ہے‘ وہی حق‘ حق کے دشمنوں کے حق میں زہرہلاہل ہوتا ہے۔ شمال میں حزب اللہ اور جنوب مشرق میں حماس کے نرغے میں پھنسی ہوئی اسرائیلی ریاست‘ اور اس کے ساتھ یہ سب کے سب ظالم اورمجرم ملک اور قومیں درحقیقت اپنی اپنی موت کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اہلِ حق کو ختم کرنے کے زعم میں ان شاء اللہ ایک روز یہ خود صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ عاد و ثمود‘ فرعون و ہامان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

گذشتہ برس حزب اللہ کے کمزور اور ناتواں ہاتھوں سے اسرائیل‘ امریکا‘ برطانیہ وغیرہ کی شرمناک شکست اللہ تعالیٰ کی چالوں کی ایک کڑی تھی۔ اب یہ ظالم قومیں اپنے پیروں سے خود چل کر واشنگٹن کے اندھے کنوئیں میں اپنی مرضی سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔ یہ قوموں کی اجتماعی خودکشی ہے جو عذابِ خداوندی کی بہترین مثال ہے۔

یہ صرف اور صرف کُنْ فَیَکُوْنُ کا کھیل ہے اور کچھ نہیں۔ وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ (ابراھیم ۱۴:۲۰) ’’ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں ہے‘‘۔

 

۹ اور ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کے یادگار دن رہیں گے کیونکہ ۹ اگست سے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتیں دھڑا دھڑ گرنا شروع ہوئیں۔ پھر یہ وبا جاپان‘ جنوب ایشیا سے ہوتی ہوئی سارے یورپ میں جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے   پھیل گئی۔ ہر جگہ مرکزی بنک نے کئی کئی بلین ڈالر سے مارکٹوں کو غرق ___ہاں‘ ہرمعنی میں غرق کردیا مگر یہ گراوٹ نہ رُکنی تھی اور نہ رُکی۔۱۰ اگست اس اعتبار سے اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا کہ اُس دن صرف مرکزی بنکوں نے مارکٹوں کو کئی کئی سو بلین ڈالروں سے ’غرق‘ کیا۔ یہاں تک کہ وہ ان معنوں میں ناکام ہوگئیں کہ ان کے احتیاطی ذخیروں (reserves) کو یہ نہ تھمنے والا طوفان بہا لے گیا۔ پھر کیا ہوتا؟

ہوا وہی جو ہونا تھا۔ ان مرکزی بنکوں کے عالمی بنک‘ یعنی آئی ایم ایف (international monetary fund) کو تھک ہار کر مداخلت کرنا پڑی۔ وہ اس طرح کہ اس فنڈ نے ان مرکزی بنکوں کو ان کے حقوق سمیت drawing rights کو استعمال کرنے کا حکم دے کر ان کے حسابات میں اتنے بلین ڈالر کا اضافہ کریڈٹ کردیا۔ پھر وہ ان نئے کئی کئی بلین ڈالر لے کر اپنے اپنے قومی مارکیٹوں میں ڈالر کی بارشیں کرنے لگے مگر نتیجہ کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ صورتِ حال بڑی گمبھیر حد تک بحرانی ہی رہی۔

جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی ۳۰‘ ۴۰برسوں میں پہلی بار آئی ایم ایف نے عالمی پیمانے پر عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مداخلت کی ہے۔ مجھے تو اس کی کوئی نظیر (precedence) یاد نہیں ہے۔ایسا کیوں ہوا؟کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ خوف ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی مارکیٹ___ مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کے رہن کی مارکیٹ___ ڈوبنے پر اس لیے تلی ہوئی ہے کہ افراد اور کمپنیاں کئی ٹریلین ڈالر کے قرض سے ذاتی یا کاروباری مقاصد کے لیے خریدے ہوے مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کی قیمتوں کی ماہوار اقساط ادا کرنے سے عاجز ہوچکی ہے۔ ہے نا یہ ایک حیران کن  اور محیر عقل بات!

یہ بات عام آدمیوں کی عقل سے باہر ہے کہ امریکا جیسے ملک کے شہریوں اور کمپنیوں کے پاس اتنا نقد پیسہ (liquid money) نہ ہو کہ وہ ان چھوٹی سی ماہوار اقساط کو ادا کرنے سے عاجز آجائیں جو اس رقم کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہے جو ان کو ۱۵‘ ۲۰‘ ۲۵ برس پر ادا کی جانے والی قسطوں کی شکل میں ادا کرنا ہے؟ کیا یہ عام امریکی شہری آبادی‘ اس کی کئی کئی بلین ڈالر کی قیمت کی کمپنیوں اور پوری امریکی معیشت اور امریکی قوم کی افلاس کی علامت بلکہ اعلان نہیں ہے؟

اگر ایسا ہے‘ اور ایسا ہی حقیقت میں ہے تو اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت ہے۔

  •  بحران کا حقیقی سبب: نائن الیون کے بعد امریکا غرور اور بدحواسی میں ہوش کھوبیٹھا۔ اس نے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر تابڑ توڑ حملے کر کے دونوں ملکوں پر فوجی قبضہ کرلیا مگر مقامی آبادیوں کی شدید جنگی اور فوجی مزاحمت اور جوابی کارروائیوں اور عالمی پیمانے پر دہشت گرد نادیدہ بھوت (invisible terror ghost)سے اعلانِ جنگ کرنے اور خود اندرونِ امریکا متوقع حملوں کو روکنے کے لیے جو بے تحاشا اخراجات مسلسل کرنے پڑے اور کرنا پڑ رہے ہیں‘ اس نے امریکی معیشت اور مال کے بہت بڑے سمندر ___ ہاں‘ سمندر ___ یا کم از کم اس کے   ایک معتدبہ حصے کو خشک کردیاہے۔ خصوصاً اندرونی امن و امان کا وہ ادارہ جو سوویت بلاک کی جاں گسل کش مکش میں بھی وجود پذیر نہ ہوا تھا اور نہ کئی سو بلین ڈالر کے اخراجات کا سبب بنا تھا۔ علاوہ ازیں سوویت امریکی کش مکش کے زمانے میں افغانستان اور عراق جیسے محاذ بہت زیادہ اور بے تکے اخراجات کا مطالبہ نہیں کررہے تھے۔ اس پر مستزاد ان فوجی اخراجات کا اب تک جاری رہنا اور امتدادِ زمانہ سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہونا ہے‘ جو سوویت امریکی کش مکش کے زمانے سے چلے آرہے ہیں‘ جب کہ وہ خطرہ زائل ہوچکا ہے اور فریق مدمقابل یکسر اُن موہوم (fictional) اخراجات سے نجات پاکر انھی اموال کوا پنی اقتصادیات کو قوی کرنے میں لگا رہا ہے۔
  •  نتائج و اثرات: امریکی بجٹ بھیانک بلکہ ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے کچلا گیا۔ ڈالر کی قیمت میں زبردست کمی ہوتی رہی اوربیرونی تجارتی خساروں (deficit)‘ جاپان اور چین کے ساتھ تجارت میں‘ اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔اس کو ناپنے کا ہمارے پاس ایک پیمانہ ہے___ وہ ہے سکوں کے میدان میں اُترنے والا جدید ترین عنصر‘ یعنی یورو۔ یورو جب مارکیٹ میں داخل ہوا تو اس کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں تقریباً آدھی تھی اور اب دوگنے سے بھی آگے بڑھ چکی۔ اب ایک یورو ۲ ڈالر ۷ سینٹ کے برابر ہے۔

بالفاظ دیگر امریکی فرد اور کمپنیوں اور امریکی معاشرے کا معیارِ زندگی نائن الیون سے  لے کر آج تک ۱۰۰ فی صد گرچکا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ امریکی فرد/کمپنی کی آمدنی ۱۰۰فی صد گھٹ چکی ہے۔ اسے اس طرح بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ڈالر کی قوتِ خرید یورو کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد گھٹ چکی ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ شخص جس نے اب سے سات سال پہلے اپنی آمدنی کو ۱۵۰۰ ڈالر ماہانہ فرض کر کے ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ قسط بھرنے کی منصوبہ بندی کی تھی‘ اب کس طرح  یہ ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ بچا کر اپنی ماہوار قسط ادا کرسکتا ہے‘ جب کہ اس کی حقیقی آمدنی (real income )صرف ۷۵۰ ڈالر رہ گئی ہے؟ اگر وہ یہ قسط ادا کردے تو کیا کھائے پیے گا اور زندگی کے دوسرے اخراجات سے کیوں کر نمٹے گا؟اس لیے وہ قسط/قسطیں ادا کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ کلیتاً عاجز ہوچکا ہے۔

اس میدان میں سرگرم کمپنیوں کی طرف آیئے۔ انھوں نے شان دار مکانات اور عمارتیں کھڑی کرلی ہیں اور ماہانہ کرایے بھی مقرر کر لیے ہیں مگر کرایہ دار ۳۰‘ ۴۰ فی صد سے زیادہ نہیں آئے‘ یا جو آئے وہ کرایے ادا کرنے سے عاجز ہوچکے ہیں۔ اس لیے وہ بھی اپنی اپنی ماہانہ قسطیں اداکرنے سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھا چکی ہیں۔

بالفاظ دیگر یہ گھر گھر اور فردفرد کی کہانی اور آپ بیتی ہے۔ یہ پوری امریکی معیشت کی خوف ناک دلدل اور دماغوں کو پھاڑنے والی تصویر ہے۔ اس وجہ سے یہ تباہ کن طوفان ٹارنیڈو کی رفتار سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے بلکہ برق رفتاری سے___ ساری دنیا میں پھیل گیا اور آئی ایم ایف کی مداخلت بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔

مجھے تو یہ صورت حال سابق سوویت یونین کے آخری مہینوں ___ بلکہ آخری دنوں کی یاد دلا رہی ہے۔ جب وہ اسی افغانستان میں آٹھ سال لڑتے لڑتے‘ جب کہ وہ پڑوس تھا اور اس کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں‘ مالی حیثیت سے نڈھال ہوکر گر پڑا۔ امریکا نے دو جگہ ___ امریکا سے بہت دُور ___ دو محاذ (افغانی و عراقی محاذ) اور دوسرا اندرونی اور عالمی محاذ کھول کر اپنی معیشت کی جڑیں کھود ڈالیں۔ اگر وہ آئی ایم ایف کے ذریعے دنیا کے سارے بازاروں میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹہ ڈالر انجکٹ کرتا رہے گا تووہ اب ایسی مشک میں پانی بھررہاہے جس میں تین بلکہ چار پانچ بڑے بڑے ایسے سوراخ ہیں جوبھرے جانے والے پانی کو مسلسل خارج کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ سوراخ‘ افغانستان‘ عراق‘ اندرونی وبیرونی نظر نہ آنے والے دہشت گرد بھوت کے خلاف جنگ اور دیگر چھوٹی بڑی جنگیں‘ بند نہ ہوںگے‘ یہ ایک سعی لاحاصل ہے اوراس کا انجام پہلے ہی سے معلوم ہے۔ رہے نام اللہ کا!

کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo (رحمٰن ۵۵:۲۶-۲۷) روے زمین پر جو کوئی اور جو کچھ ہے وہ فنا ہوکر رہے گا اور باقی تو صرف تمھارے  ُپرجلال و  ُپراکرام رب کا چہرہ رہے گا۔

 

ہر فرد کی شخصیت مختلف عناصر اور اجزا سے مل کر بنتی ہے۔ ان میں سے بعض اجزا اور عناصر‘ پیدایشی یا وہبی ہوتے ہیں اور بعض انسان خود اپنی محنت‘ جستجو اور تگ و دو سے خود اپنی ذات میں پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ماحول اور معاشرے میں پائے جانے والے حالات اور واقعات بھی اس کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں‘ کیونکہ انسان اپنے ماحول‘ معاشرے اور ملک کے حالات سے آزاد یا لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے شخصی اجزاے ترکیبی کا جائزہ لیں گے۔

  • فکر معاش سے آزادی: ہم ان کے بچپن پر نظر دوڑائیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بچپن ہی سے سید مودودیؒ کے لیے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان کے ساتھ فکر معاش لگا دی۔ مگر اﷲ کے اس بندے نے معاش اور فکر معاش کو اپنی تگ و دو کا کبھی محور نہیں بنایا۔ چنانچہ ان کے بڑے بھائی ابوالخیر مودودیؒ فرماتے ہیں: مولوی کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد ابوالاعلیٰ کو مولوی عالم میں داخل کرنے کے لیے دارالعلوم حیدر آباد (دکن) بھیج دیا گیا۔ ۱۹۱۵ء میں والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا۔ ابوالاعلیٰ کو تعلیم چھوڑ کر فوراً بھوپال آنا پڑا۔ اس وقت ابوالاعلیٰ کی عمر ۱۲سال تھی اور میری۱۵۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۲۴۱)

فالج کے اسی مرض میں ان کے والد سید احمد حسن صاحب کے انتقال کے بعد ابوالاعلیٰ کو فکرمعاش اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ایسے میں یہ ۱۵ سال یا ۱۷ سال کا لڑکا اپنے بڑے بھائی ابوالخیر کے ساتھ بجنور کا رخ کرتا ہے‘ جہاں یہ دونوں بھائی ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ اخبار مدینہ‘ بجنور میں نہیں  نباہ سکے(ایضًا‘ ص ۱۲۶-۱۲۷)۔ یہ شاید ۱۹۱۸ء کی بات ہے(ایضًا‘ ص ۱۲۷)۔ غالباً ۱۹۱۹ء میں جب پہلی بار تاج الدین صاحب نے جبل پور سے تاج (ہفتہ وار) جاری کیا‘ اس کی ادارت کی   ذمہ داری بقول ابوالاعلیٰ: ’’ہم دونوں بھائیوں کے سپرد کی۔ چند مہینے سے زیادہ تاج نہ نکل سکا اور ہم جبل پور سے بھوپال اور بھوپال سے دہلی چلے گئے۔۱۹۲۰ئ-۱۹۲۴ء میں تاج الدین صاحب نے جبل پور سے پھر تاج نکالا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے --- مگر جبل پور کی زندگی بھی زیادہ مدت تک جاری نہ رہ سکی‘‘۔ یہ کل مدت ۱۹۱۸ء - ۱۹۲۰ء تک دو سال ہوتی ہے اور: ’’۱۹۲۰ء کے خاتمے پر میں دہلی واپس ہوا اور ۱۹۲۱ء کا ابتدائی زمانہ تھا جب میری ملاقات مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب صدر و ناظم جمعیت علماے ہند سے ہوئی۔ اسی سال انھوں نے جمعیت علماے ہند کی طرف سے اخبارمسلم نکالا اور مجھے اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ یہ اخبار ۱۹۲۳ء تک جاری رہا اور آخر تک میں اس کا ایڈیٹر رہا‘‘(ایضًا‘ ص ۱۲۸)۔ خیال رہے کہ مسلمیکم نومبر ۱۹۲۱ء سے شروع ہوا اور اس نے ۸ اپریل ۱۹۲۳ء کو دم توڑ دیا۔ اس طرح اس کی عمر ایک سال پانچ ماہ ۸۰ دن بنتی ہے۔ یہ گویا مولانا مودودیؒ کے مسلسل کمانے کا پہلا موقع ہے۔ اس سے پہلے خدا معلوم کیسے گزارا کیا‘ کچھ پتا نہیں۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھوپال اور دہلی میں موجود اہل خانہ کی اس عرصے میں ان کو مدد رہی ہو گی۔

دونوں بھائیوں نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں اپنی خانہ بدوشی اور مالی پریشانیوں کی طرف دور یا قریب سے اشارہ تک نہیں کیا۔ مولانا مودودیؒ اپنی فکر معاش کے ساتھ ۱۸  اپریل ۱۹۲۳ء سے ۱۴ جون ۱۹۲۵ء (یعنی دو سال ایک ماہ ۲۷ دن) تک کس طرح وقت گزارتے ہیں‘ معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ پھر ۱۴ مئی ۱۹۲۸ء تک الجمعیۃ کے مدیر مسئول (محرر خصوصی) کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ جون ۱۹۲۵ء سے لے کر دسمبر۱۹۲۹ء تک جو مدت انھوں نے حیدر آباد دکن پہنچنے سے پہلے بھوپال میں گزاری ہے (ایضًا‘ ص۱۲۸)‘ اور جس کو انھوں نے ہر قسم کے علوم و فنون کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اس مدت میں شاید انھوں نے الجمعیۃ کی آمدنی کی بچت پر گزارا کیا ہو گا۔ ایک یہ امکان ہے کہ بھوپال میں ان کے سب سے بڑے بھائی ابو محمد مودودیؒ نے ان کی دست گیری بھی کی ہو۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ان کتابوں کی آمدنی سے بھی مستفید ہوئے ہوں گے جو علی الترتیب اس طرح شائع ہوئیں:

                ۱-            دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ‘ سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (اکتوبر۱۹۲۸ئ‘ دہلی)

                ۲-            دکن کی سیاسی تاریخ‘ غالباً ۱۹۳۰ء ( حیدر آباد دکن) (ایضًا‘ ص ۱۲۹)

                ۳-            سلاجقہ‘ جون ۱۹۲۹ء (حیدر آباد دکن)

                ۴-            رسالۂ دینیات‘ ۱۹۳۲ء (حیدر آباد دکن)

                ۵-            ]غیرمطبوعہ[ ترجمہ اسفار اربعہ حصہ دوم اور حصہ سوم از علامہ صدر الدین شیرازی (دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن)(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۳۱۳- ۳۱۹)

اس آخری کام --- یعنی‘ اسفار اربعہ کے ترجمے --- کی آمدنی سے مولانا نے ابن خلکان کے  ان حصوں کا ترجمہ‘ جو مصر کے فاطمی خلفا سے تعلق رکھتے ہیں (جون ۱۹۲۹ئ) خریدا‘ بلکہ اسی آمدنی سے ترجمان القرآن بھی مولانا ابو مصلح سے خریدا (ایضًا‘ ص ۳۱۹)۔ اسی ترجمان القرآنکی خریداری اور ادارت ہی وہ مرحلہ تھا‘ جس سے ترجمان القرآن کے مالک و مدیر کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآن کی دعوت کو اپنا مقصد حیات اور اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اس کے بعد زندگی میں راحت و آرام بہت کم (شاید ۲۰ فی صد یا اس سے بھی کم) اور ہر قسم کی تکلیفیں‘ جن میں مالی اور معاشی پریشانیاں بھی شامل ہیں‘ زیادہ تھیں (شاید ۸۰ فی صد یا اس سے بھی زیادہ)۔ تفاصیل کے طالب حضرات اس خاکسار کا مقالہ ’’مولانا مودودیؒ - زندگی کا ایک پرآشوب دور‘‘(ترجمان القرآن،ستمبر۲۰۰۲ئ)‘ بیگم مودودی ؒکا انٹرویو(تذکرہ سید مودودیج۳‘  ص ۳۲۱-۳۲۲) اور میاں طفیل محمد کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں۔۱؎ خیال رہے کہ جہاں بیگم مودودیؒ، اپنے رفیق حیات کی نجی زندگی پر گواہ ہیں‘ وہیں میرے کرم فرما‘ میاں طفیل محمد ان کی سماجی زندگی پر گواہ ہیں‘ کیونکہ دعوت اسلامی کے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھان کوٹ سے لے کر ان کی وفات تک کے لمبے سفرمیں‘ یہ ہروقت اور ہر دم ساتھ رہے ہیں۔ ان دونوں کی گواہیاں بہت کافی ہیں۔

یہ تذکرہ ناقص رہے گا‘ اگر معاش اور فکر معاش کے جھمیلوں کے سلسلے میں اُن حضرات کی روش پر ایک نظر نہ ڈالی جائے جو مولانا مودودیؒ کے معیار زندگی کو نشانۂ ملامت اور ان کے ذرائع آمدنی کو ہدفِ تنقید بنا کر جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ میری مراد مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ ہیں۔۲؎

معاش کے بارے میں اپنے اندیشے اور خدشات مولانا محمد منظور نعمانی ؒ یوں بیان کرتے ہیں: ’’نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت‘ آپ کے نظریات اور آپ کی تعبیرات سے مکمل طور پر اتفاق و اتحاد ہے بلکہ یہ یکسانی فکر و نظر اکثر مجھے مجبور کرتی ہے کہ الفرقان کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دوں۔ لیکن کسی وقت خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں رسالے کی اشاعت متاثر نہ ہو جائے اور اس سے معاش کے مسئلے میں دشواریاں لاحق نہ ہو جائیں‘ کیونکہ اس رسالے میں اب تک ایک مخصوص حلقے کے مذاق کا لحاظ رکھا گیا ہے‘‘۔

اس پر مولانا مودودیؒ نے جو کچھ فرمایا وہ بہت چشم کشا ہے: ’’رزق کا معاملہ تو بالکل اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے حالات اگر آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آگئے تو امید ہے کہ اللہ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ان حالات کا تذکرہ فرمایا جن سے دوچار ہو کر ان کا ماضی گزرا ہے۔

۸ جنوری ۱۹۴۳ء کے اپنے مکتوب بنام مولانا مسعود عالم ندویؒ میں مولانا مودودیؒ ،مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

--- جب وہ تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں اور آپ کے وسائل کیا ہیں؟ معلوم ہوا ضروریات غیر معین ہیں اور وسائل تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ ۵۰ روپے کی حد تک مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بِلاکرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑ کر آ جائیے اور یہاں نہ صرف دعوت کا کام کیجیے‘ بلکہ اس کے ساتھ چودھری نیاز علی خان کا رسالہ دارالاسلام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیجیے (یہ رسالہ جس کی اشاعت ۵۰۰ کے قریب ہے‘ چودھری صاحب بلا معاوضہ ان کی ملکیت میں دینے کے لیے تیار تھے)۔ اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے --- تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی ---

بالفاظ دیگر فکر معاش وہ بلَا ہے جو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے لوٹانے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو مولانا مودودیؒ سے اپنے دین کی خدمت لینا تھی‘ اس لیے ان کو اندیشہ ٔ معاش سے یکسر آزاد کر دیا۔

  • سادگی لیکن نفاست کے ساتھ:  فطری طور پر مولانا مودودیؒ بڑے نفاست پسند واقع ہوئے تھے۔ یہ میرا خود ذاتی مشاہدہ ہے ۔ میں نے چشمِ سر سے دیکھا ہے کہ وہ سادہ مگر اجلا لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتے۔ لباس کی یہ سادگی مع نفاست ہر جگہ برقرار رہتی‘ خواہ وہ رابطہ العالم الاسلامی کے اجتماعات ہوں‘ یا جلسہ ہاے عام میں شرکت کر رہے ہوں۔ میں نے ان کو مکہ مکرمہ میں‘ الاستاذ محمد المبارک کے ہاں سے پروفیسر محمد قطب (برادر خورد سید قطب شہیدؒ) اور پروفیسر محمد مصطفی الاعظمی کے پاس اسی سادہ لباس میں جاتے ہوئے دیکھا۔ تب میں بھی اُن کے ہمراہ تھا۔

اب رہی کھانے پینے کی بات تو اس کی شہادت مولانا محمد ناظم ندوی مرحوم سے بہتر کون دے سکتا ہے: ’’البتہ مولانا کے ہاں کبھی کبھی ناشتے کے لیے چلا جاتا --- مجھے مولانا کے ہاں کھانے میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے‘ ان کا دسترخوان اتنا سادہ تھا کہ ہم بھی اس وقت ان سے بہتر کھانا کھاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ جو کچھ ہوتا تھا‘ وہ سادہ اور لذیذ ہوتا تھا‘‘۔۳؎

کھانے پینے کی بات چل نکلی ہے تو ذوقِ طعام کے بارے میں اپنا تجربہ بتاتا چلوں۔ جدہ میں ہمارے گھر پر مولانا محترم کو دوپہر کا کھانا کھلانے کا موقع ملا۔ ہم نے حیدر آبادی مذاق کا لحاظ کر کے دہی کی کڑھی‘ شکمپور اور ڈبل کا میٹھا (شاہی ٹکڑے) پیش کیے۔ مولانا بہت خوش ہوئے مگر جب دہی کی کڑھی چکھی تو کہنے لگے: ’’چاؤش! (حیدر آباد میں عربوں کو چائوش کہتے ہیں) آپ پکے حیدر آبادی نہیں ہیں۔ یہ دہی کی کڑھی آج کی بھگاری ہوئی ہے‘ جب کہ یہ دوسرے دن کھائی جاتی ہے‘‘۔

  • اسلام کی خاطر بے پناہ قربانیاں: محمد رفیع الدین فاروقی ترجمان القرآن کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ کی جاں فشانی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: رسالہ ترجمان القرآن کے مضامین کی ترتیب و تہذیب ‘ اس کی ادارت‘ کاغذ کی فراہمی‘ کتابت و طباعت‘ رسالوں کی ترسیل‘  آمد و خرچ کا حساب اور متعلقہ مسائل کا بار‘ مختصر یہ کہ تمام انتظامات بلاشرکت غیرے صرف اور صرف یکا و تنہا مولانا مودودیؒ ہی کی ذات پر تھے ---‘‘(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۸۷۵)

ظاہر بات ہے کہ اس طرح ان کا پورا وقت ترجمان کی نذر ہو جاتا تھا اور کھانے پینے کے خرچ کے مسائل کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے شاہد میرے استاذ عربی مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ تھے۔ انھوں نے کئی بار اس واقعے کو بیان کیا ہے:

میں ایک دن  ترجمان القرآنکے دفتر واقع بچلرس کوارٹرز‘ معظم مارکیٹ گیا۔ عمارت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ میں نے کہا: مولانا یہ ہے کیا؟ جواب میں بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتا ہوں اور اس امت کی خونِ جگر سے آبیاری کرتا ہوں‘‘

اس پر ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ رحمت سے نوازے اور جنت الفردوس میں ان کو انبیاے کرامؑ اور شہداے عظام ؒ کی رفاقت سے سرفراز کرے!

مالی قربانیوں کے ضمن میں مولانا محمد ناظم ندویؒ کی شہادت بھی بہت قیمتی ہے: ’’اور یہ بات بھی ان کی بے نفسی پر ایک قوی دلیل ہے کہ انھوں نے جماعت بنائی تو اپنی تصانیف کا بیش تر حصہ جماعت کے سپرد کر دیا۔ ان کا یہ اقدام ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہوا ایک غیر جذباتی اقدام تھا۔ یہ آخری جملہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ مولانا کے اس فیصلے کو وقتی جذبے کے تحت ایک جذباتی اقدام قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنی اس سوچ اور عملی زندگی میں ہوس دنیا سے بے نیاز رویے ہی سے عام لوگوں بلکہ ہم عصر علما تک میں ممتاز ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۸۹۴-۸۹۵)

  • خود داری: خود داری اور عزت نفس کے دو واقعات کافی ہوں گے:

مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سرکار آصفیہ ۳۰۰ سے زیادہ پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں (لائبریریوں) میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصر سے مخالف گروہ نے امور مذہبی پر اثر ڈال کر رسالے کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے --- مولانا کے استغنا اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے جاکر اس کے اجراے ثانی کی کوشش کی اور نہ کسی کی چوکھٹ پر دستک دی اور نہ کسی سے سفارش کروائی --- (ایضًا‘ ص ۳۲۸)

حیدر آباد دکن سے دارالاسلام ’جمال پور‘ پٹھان کوٹ منتقل ہونے سے رقم کی کمی ہوئی تو مولانا نے اس کا ذکر مولانا اعجاز الحق قدوسیؒ سے کیا۔ انھوں نے مولانا کی اس مشکل کا تذکرہ سرور خان صاحب سے کیا تو وہ: مسکراتے ہوئے کہنے لگے‘ اتنے ان کے قدر داں ہیں۔ کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ ان کو قرض دے سکے۔ میں نے کہا کہ اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے ---(ایضًا‘ ص ۳۰۱)

یہ وہی ایک ہزار روپے کا قرض حسنہ ہے جس کو زادِ راہ بنا کر مولانا مودودیؒ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک انجان اور نامعلوم و نامانوس مقام اور غیر مانوس لوگوں کی طرف علامہ اقبالؒ کی دعوت پر‘ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ پنجاب کی طرف‘ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر گئے۔ اس سے مولانا مودودیؒ کی مفلسی اور ناداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مگر خودداری اور عزت نفس کی برقراری کے ساتھ۔

 خودداری اور خود اعتمادی کا ایک واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ شاید یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ آخری بار مولانا مودودیؒ جدہ تشریف لائے۔ اتفاقاً مجھے بھی نماز جمعہ حرم مکی میں باب الملک عبدالعزیز میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ مولانا بہت کمزور اور ناتواں ہو چکے تھے۔ میں نے سہارا دینے کی کوشش کی۔ کہنے لگے: ’’چاؤش! سہارا نہ دیں۔ میں ساری زندگی کسی کے سہارے کے بغیر جیتا رہا ہوں۔ ان شاء اﷲ آیندہ بھی کسی کے سہارے کی نوبت نہیں آئے گی‘‘۔ میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ خود آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کار میں سوار ہو گئے۔ یہ خود داری اور خود اعتمادی کی بہترین مثال ہے۔

  • ﷲ تعالیٰ پر بھروسا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مولانا مودودی ؒکی شخصیت کا نہایت نمایاں اور درخشاں پہلو تھا۔ وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی امید کا دامن نہ چھوڑتے اور بڑے بڑے کام اﷲ پر بھروسا کر کے کر گزرتے۔ مثال کے طور پر ترجمان کے جن پرچوں کے بند کرنے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے‘ اس وقت وہ پریشان کن مالی حالات سے دوچار ہو چکے تھے‘ کیونکہ اس سے پہلے انھوں نے پرچے کو زندہ رکھنے کے لیے اہل خیر سے اپیل کی تھی اور خریداروں میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر یہاں یہ صورت حال ہو گئی تھی کہ ترجمان کی تعداد اشاعت گھٹ کر ۴۳۰ - ۱۳۲= ۲۹۸ رہ گئی تھی۔ یہ تعداد ان ۳۵۰ پرچوں سے ۵۲ پرچے کم تھی جس کا گلہ مولانا مودودی ؒنے مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں کیا تھا کہ: پرچہ موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے --- بلکہ اسی پرچے میں ’’اطلاع ثانی‘‘ کے تحت یہ اعلان بھی شائع ہوا: ’’۱۱ ماہ ذی قعدہ ۱۳۵۶ھ میں رسالہ ترجمان القرآن کا دفتر حیدر آباد سے جمال پور‘ ضلع گورداسپور (پنجاب) میں منتقل ہو جائے گا‘‘۔ ماہ شوال۶ ۱۳۵ھ‘ یہی وہ مہینہ ہے جس میں تعداد اشاعت گھٹ کر صرف ۲۹۸رہ جانے والی تھی اور جس کو لے کر وہ پنجاب کی طرف ہجرت کرنے کے لیے کمرکس رہے تھے۔

کیا یہ ہمت شکن حالات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ وہ    ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی ناؤ کھیئے جا رہے تھے‘ بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے --- چنانچہ اگست‘ ستمبر۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:

ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادران اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میں اب تک ۴۰۰روپے مالی اور ۵۰روپے کلدار]ریاست حیدر آباد کا سکّہ[‘ دفتر کو وصول ہوئے اور مزید ۵۰ روپے کلدار کا وعدہ ہے ---

یعنی ‘جملہ ’حالی‘ رقم ۵ئ۵۱۲ روپے بنی‘ جس سے ’مکتبہ ترجمان القرآن‘ کا آغاز ہوا‘ حالانکہ        خود ترجمان اب اور تب پر تھا۔ ایسی ہمت کو ہمت مرداں مددِ خدا کہتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں: (ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۸)

اگرچہ یہ رقم اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کر کے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘ اگست - ستمبر ۱۹۳۷ئ)

یہ نہ صرف مولانا مودودیؒ کا اعلان ہے بلکہ لوگوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے: --- پوری طرح سے ظاہری اسباب ہمت شکن ہو گئے۔ کاغذ‘ کتابت اور طباعت کی گرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے    اس معیار کے رسالے کو ۳۵۰ خریداروں ]صحیح عدد ۲۹۸ ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے[ سے چلانا کتنا مشکل کام تھا ]اس پر نقل مکانی مستزاد[۔ لیکن اﷲ پر اعتماد اور توکل نے مولانا مودودیؒ کو ان حالات سے لڑنا سیکھا دیا تھا ---(ایضًا، ص ۳۲۰)

اسی توکل علیٰ اﷲ کی تلقین انھوں نے مولانا منظور نعمانیؒ کو ان الفا ظ میں کی:’’--- رزق کا معاملہ تو بالکل اﷲ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے اگر حالات آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آ گئے تو امید ہے کہ اﷲ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔

مولانا جعفر شاہ صاحب پھلواریؒ سے انھوں نے یہ کہا: ’’اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائیے اور اﷲ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو    نہ ملنے لگے‘ اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے‘‘۔

  • قضا و قدر پر غیر متزلزل ایمان: مسئلہ جبرو قدر کے مصنف کو قضا و قدر پر ایمانِ غیر متزلزل دکھانے کا موقع اس وقت ملا‘ جب اس کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی۔ میاں طفیل محمد صاحب پھانسی کے فیصلے کے لمحات کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

اس کے بعد یہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا اور ان کے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے ان سے کہا:

آپ کوقادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے‘ اور علما کی گرفتاری پر بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ مارشل لا کے تحت سزاؤں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے‘ آپ چاہیں تو اپنی موت کی سزا کے خلاف سات دن کے اندر مسلح افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔

یہ سنتے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا چہرہ بلا مبالغہ انگارے کی مانند تمتما اٹھا اور آپ نے نہایت باوقار لہجے میں جواب دیا:

مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔(ایضًا‘ ص ۵۲‘ ۵۳ اور مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد)

دیکھا آپ نے اس شخص کا تقدیر الٰہی پر اٹل ایمان۔ ایسے مواقع پر لوگ رو پڑتے اور بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں‘ گڑ گڑاتے اور منت سماجت کرتے ہیں مگر تقدیر خداوندی پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والا یہ بندہ‘ اﷲ تعالیٰ کی قوت کے بل بوتے پر فوجی افسر سے زیادہ سخت لہجے میں دو ٹوک‘ مگر لاجواب کر دینے والا جواب دیتا ہے۔ سبحان اﷲ الخلاق العظیم۔

اس سے ملتی جلتی بات‘ اختلافِ الفاظ کے ساتھ‘ انھوں نے اپنے صاحبزادے سے کہی جب وہ سزاے موت کی خبر سن کر ان سے ملاقات کے لیے اپنے تایا جناب سید ابوالخیر مودودیؒ کے ساتھ جیل گئے تھے۔ یہ سید عمرفاروق مودودی ہیں۔ سنیے وہ بات جو ایک باپ نے اپنے بیٹے سے ان نازک مگر صبرآزما اور ہمت شکن حالات میں کہی:

بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھرشہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے‘ اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے۔ (ایضًا‘ ص ۱۹۴)

جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے جناب عبدالستار خان نیازیؒ، مولانا مودودیؒ کے اسلامیہ کالج کے زمانے سے شناسا تھے۔ سزاے موت کے بعد وہ بغل والی پھانسی کوٹھڑی میں تھے۔ انھوں نے سیدعمرفاروق مودودی سے کہا:

میاں! مولانا صاحب تو بڑی چیز ہیں‘ یہ کم بخت مجھے بھی پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے۔

یہاں انگریز حکام کی فراست بینی کی داد دینی ہو گی۔ انھوں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ اگر مودودیؒ اسی طرح اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچر دیتا رہا تو محرّک اسلام پر پروانہ وارفدا ہونے والوں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہو جائے گی‘ جو ایسے نایاب جملے اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت سے مزین ہو گی۔ انھوں نے کالج کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا اور مولانا مودودیؒ کو کالج سے نکال کر باہر کیا۔ (ایضًا‘ ص ۲۱۸-۲۲۰)

اب پھانسی کی کوٹھری کی پہلی رات کے بارے میں میاں طفیل محمد صاحب کی زبانی سنیے:

اگلے روز وارڈن وغیرہ کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھر گئے‘ پھانسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے‘ کوٹھری کے جنگلے سے باہر رکھے ہوئے پانی کے گھڑے سے وضو کیا‘ عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دو فٹ اور ساڑھے پانچ فٹ کے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے پہرے دار حیرت میں ڈوبے دیکھتے رہے کہ یا اللہ! یہ عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پا کر ایسا مدہوش سویا ہے‘ گویا اس کے سارے فکر اور تردد دور ہو گئے۔ گویا اسے من کی مراد مل گئی۔

وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا والمرسلینؐ ثابت کرنے کے جرم میں پھانسی پانا سب سے بڑی خوش بختی کی علامت تھی۔ اس لیے یہ خوش بخت بندۂ خدا مدہوش ہو کر صبح تک سویا رہا کہ شہادت پکی ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات اور صحبت خاتم الانبیا و المرسلینؐ بھی پکی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مودودیؒ ایک چلتا پھرتا زندہ ولی اللہ تھا۔

یہ پہلا موقع نہ تھا کہ مولانا مودودیؒ نے معافی مانگنے یا اپیل کرنے یا رحم کی درخواست کرنے سے ببانگ دہل انکار کیا ہو۔ وہ ایک دبنگ شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ڈر اور خوف سے وہ نا آشنا تھے۔ چنانچہ جب جنگ عظیم دوم [ستمبر ۱۹۳۹ئ] شروع ہوئی‘ تب ہندستان برطانوی استعمار کے زیر تسلط تھا۔ برطانیہ نے اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مولانا نے ’’اشارات‘‘ ]ادارتی مقالے[ میں برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں اور ظالمانہ رویے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اس وجہ سے یہ ’’اشارات‘‘ سنسر ہو گئے اور اس ماہ کا ترجمان القرآن(ستمبر ۱۹۳۹ئ) سادہ اور غیر مطبوعہ صفحات کے ساتھ شائع ہوا۔ صرف یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:

ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے  لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘ تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا‘ شاید کہ وہ       باز آئیں۔

اس سنسر کی داستان اس زمانے کے سنسر افسر نے‘ جو بعد میں میاں عبدالحمید ایڈیٹر پاکستان ریویوکی حیثیت سے مشہور ہوئے‘ یوں بیان کی ہے کہ جب مولانا مودودی سے معافی ---    حتیٰ کہ صرف زبانی معافی -- چاہنے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے کہا:

میں نے قرآنی تعلیم‘ تاریخ اسلام اور تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھ کر اظہار خیال کیا ہے --- رہی بات مجھے وارننگ کی تو میں اسے پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے قرآن کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوڑا ہے اور نہ چھوڑوں گا --- آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں معافی مانگوں‘ یہ ناممکن ہے۔ آپ کی حکومت مجھے تختۂ دار پر لٹکا دے‘ عمر قید کردے‘ میں کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔(قومی ڈائجسٹ، لاہور‘جنوری ۱۹۸۰ئ‘ ص۲۲۴)

پھر بھی مولانا خاموش نہ رہے۔ انھوں نے اپنے ایک دیرینہ دوست نصراللہ خان عزیز ایڈیٹر مدینہ‘ بجنور کو ایک فصیح و بلیغ خط لکھا اور حکومتِ پنجاب اور ا س کے وزیراعظم سرسکندر حیات اور ۱۳اکتوبر ۱۹۳۷ء کے’’ سکندر جناح پیکٹ‘‘ پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور بعض حقائق اور مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کیا اورملک نصراللہ خان عزیز سے خواہش ظاہر کی کہ ان ’’اشارات‘‘ کو  مدینہ میں شائع کریں۔ چنانچہ یہ چشم کشا اور حقائق سے بھرپور خط -- اور شاید ’’اشارات‘‘ بھی -- یکم نومبر ۱۹۳۹ء کی مدینہ‘ بجنور کی اشاعت میں شائع ہوا۔(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۴۷۶)

ہم نے اب تک جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت مزید ٹھوس دلیل کی ہے تو پھر سنیے: یہ شہادت ایک ایسے چشم دید گواہ کی ہے جو اس موقع پر بذاتِ خود موجود تھے۔ یہ پروفیسر غلام اعظم سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی گواہی ہے۔ یہ سننے اور سمجھنے کے لائق ہے کیونکہ یہ موت سے دُو بدُو اور دو چار ہونے کے وقت کی بات ہے جب لوگ چھپنے‘ بھاگنے‘ مدد مانگنے لگتے ہیں اور بدحواس ہو کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس سے ان کی شخصیت کے ڈھکے گوشے عیاں ہوجاتے ہیں ورنہ اس وقت تک لوگ ان کو نڈر‘ شیر دل اور بہادر اور خدا معلوم کیا کیا گردانتے رہتے ہیں۔

یہ اکتوبر ۱۹۶۳ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کو ناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ بہتر ہے کہ اس وقت ایوب انتظامیہ میں شامل ایک شخص کی گواہی پہلے سن لی جائے۔ یہ الطاف گوہر صاحب ہیں:

جب جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک کنونشن منعقد کیا تو ایوب خان نے حکم دیا کہ اجتماع میں بعض ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو وہاں لیڈروں اور مقرروں سے بعض خاص سوالات پوچھیں۔ جب یہ ہدایات براستہ گورنر [نواب آف کالا باغ] ہوم سیکرٹری تک پہنچیں تو بڑی مکروہ صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یہ کام چیف سیکرٹری کے حوالے کیا گیا جس نے علاقے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ضروری کارروائی کرے۔ متعلقہ تھانے کے افسر انچارج نے چند غنڈوں کو اس کام پر متعین کر دیا جو شراب کے نشے میں دھت وہاں پہنچے‘ ہلڑ بازی اور مار دھاڑ شروع کر دی۔ گولیاں چلائی گئیں اور ایک پرامن مندوب جاں بحق ہو گیا۔(ایضًا‘ ص ۸۴)

پروفیسر غلام اعظم بتاتے ہیں: ایسی حالت میں مولانا مودودی کی بے باکی اور جرأت مندانہ لیڈرشپ کا جو ثبوت ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ مولانا نے اعلان کیا کہ ’’رضاکاروں کے سوا سب کے سب بیٹھ کر تقریر سنتے رہیں۔ کوئی نہ اٹھے‘ نہ کوئی گھبرائے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رضاکاروں کو کام کرنے دیں۔ دوسرے سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں تو غنڈے کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

میں مولانا کے پیچھے اسٹیج ہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ مولانا نے تقریر جاری رکھی۔ غنڈوں کی جو ٹولی ڈائیس کی طرف بڑھ رہی تھی‘ رضاکاروں نے اسے گھیر لیا۔ اب وہ ہتھیار بلند کر کے مولانا کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ایک ذمہ دار نے بلند آواز میں مولانا سے بیٹھ جانے کی درخواست کی کہ گولی چل رہی ہے۔ مولانا نے پرزور لہجے میں کہا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘ اور تقریر جاری رکھی۔ (ایضًا‘ ص ۲۷۶)

یہاں پر یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جماعت کے اجتماعات کو غنڈوں کے ذریعے منتشر کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ اس سے پہلے‘ تقسیم ہند سے عین قبل‘ جماعت کے اجتماع منعقدہ مدراس کو وہاں پر مقامی مسلم لیگی حملہ آوروں نے منشتر کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ شامیانوں کو آگ لگا دی تھی‘ لیکن نظم و ضبط اور صبروتحمل کے آگے ان کی کچھ بھی نہ چلی اور وہ ناکام رہے۔ الحمدللہ! (روداد جماعت اسلامی‘ پنجم)

  • عفو و درگزر: مولانا مودودیؒ کے ایک دیرینہ رفیق اور مینیجر محمد شاہ تھے۔ ان کی نازیبا حرکتوں کے بارے میں خواجہ احمد اقبال ندوی کہتے ہیں:

لاہور میں رسالہ ترجمان القرآن اور مکتبے کے انچارج محمد شاہ تھے۔ اس زمانے میں مولانا کا قیام دارالاسلام میں تھا۔ شاہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مکتبے کی مطبوعات کے سلسلے میں خرد برد کر رہے ہیں اور بہت سی کتابیں دوسرے اداروں کے ہاتھ بیچ کر ذاتی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا نے ایک دن مجھے دارالاسلام میں حکم دیا کہ میرے ساتھ لاہور چلنا ہے۔ وہاں پہنچ کر شاہ صاحب کو مولانا نے مکتبے اور رسالے کا پورا چارج حوالے کرنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب نے اس موقع پر بھی ایک الماری کھولنے سے انکار کر دیا اور بتایا کہ اس میں میری ذاتی کتابیں ہیں اور پھر چارج دینے کے بعد اُسے اٹھا لے گئے۔ معلوم ہوا کہ الماری میں مولانا کی بہت سی کتابیںتھیں‘ جو انھوں نے ایک کتب فروش کے ہاتھ فروخت کیں۔ مولانا نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ظرفی سے کام لیا۔ معاملے کو عدالت تک نہیں لے گئے‘ اور نہ احباب کے مشورے کے باوجود شاہ صاحب کے ساتھ ہی کوئی سخت رویہ اختیار کیا بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ ان سے گلو خلاصی کر لی۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۲‘ ص ۳۱۲)

تاہم بعد میں مولانا مودودیؒ نے انھی محمد شاہ صاحب سے جو سلوک کیا‘ اس کا بیان جسٹس غلام علی مرحوم کی زبانی سنیے:

--- ویسے بھی میں نے کئی معاملات میں دیکھا ہے کہ مولانا کردار کی کس بلندی پر تھے۔ سید محمد شاہ ]کی[ بدمعاملگی پر مولانا نے ان کو اپنے ادارے سے الگ کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے ان کا خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں‘ میری کچھ مدد کریں۔ مولانا نے فوراً کچھ پیسے بھجوا دیے۔ کچھ دن گزرے تو پھر خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں اور وہ پیسے خرچ ہو گئے ہیں‘ کچھ مزید تعاون فرمائیں۔ مولانا نے فرمایا اور بھیج دو۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو بڑی عجیب صورت حال ہے کہ ہم اس طریقے سے پیسے بھیجتے رہیں۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۳‘ص ۲۳۴)

ایک دن ایک صاحب مولانا سے ملنے آئے۔ جب وہ چلے گئے تو معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مالی دشواریوں کی وجہ سے دُبئی یا ابوظہبی جانا چاہتے ہیں۔ مولانا سے سفارشی خط لینے آئے تھے۔ حسبِ عادت مولانا نے سفارشی خط دیا جو کام آیا اور ان کو وہاں اچھی نوکری مل گئی۔

یہ کون حضرت تھے؟ یہ وہی فوجی افسر جیلانی صاحب تھے جنھوں نے مولانا کو پھانسی کی سزا سنائی اور جن کے دستخط انگریزی میں لکھے اس فیصلے پر ثبت ہیں جس کو تذکرۂ مودودی ، جلد اول میں ’تعارف عکس‘ کے ضمن میں صفحہ ۹۴۳ پر اخبارات میں پھانسی کی سزا کی خبر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

دیکھا آپ نے؟ خرد برد کرنے والے پہلے شخص کو مزید مالی امداد‘ اور پھانسی کی سزا سنانے والے کے مسائل حل کرنے کے لیے سفارش--- اسے کہتے ہیں عالی ظرفی اور اونچا کردار! فجزاہ اللّٰہ خیراً

  • چھوٹوں کی ہمت افزائی: یہ چار واقعات خود میرے سامنے ہیں:

غالباً یہ ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ ہم چند نوجوانوں نے حیدر آباد دکن میں حلقۂ طلبہ جماعت اسلامی‘ حیدر آباد کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت ایک لائبریری کے قیام کا ارادہ کیا۔ میں اس کا سیکرٹری تھا۔ میں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور ایک خط لکھا‘ جس میں حلقۂ طلبہ اور ان کی لائبریری کے قیام کی اطلاع دی اور ترجمان القرآن مفت روانہ کرنے کی درخواست کی۔ چند ہی دن میں ترجمان آیا اور آتا ہی رہا۔ جب تک میں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی رام پور منتقل نہیں ہوا   اس وقت تک تو پابندی سے ترجمان آتا ہی رہا۔ بعد کا مجھے علم نہیں ہے۔ شاید آتا رہا ہو یہی   امکانِ غالب ہے۔

جب میں عدن پہنچا اور وہاں ڈاکٹر محمد علی البار اور محمد الخادم الوجیہ اور عمر سالم طرموم اور عبدالرحمن العمودی کے تعاون سے ’’المرکز الثقافی الاجتماعی الاسلامی‘‘ کی بنیاد ڈالی‘ تو میں نے اس مرکز کے دستور کے ساتھ جو عربی میں تھا‘ ایک خط مولانا کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ اس کی لائبریری کے لیے ترجمان القرآن روانہ کریں تو ترجمان آنا شروع ہوگیا۔ خیال رہے کہ اس وقت تک میری مولانا سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف خدمت ِ اسلام کی خاطر مولانا نے ہمت افزائی کے طور پر مفت ترجمان روانہ کیا۔ مخبراللہ عنا خبراً

جولائی ۱۹۶۷ء میں یا اس کے آس پاس جب میں جدہ منتقل ہو گیا تو وہاں مولانا سے    پہلی بار شرف تعارف حاصل ہوا۔ میں اور استاذ محترم مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ نے  جدہ ایئرپورٹ پر مولانا کا استقبال کیا۔ کار میں بیٹھنے کے بعد بن محفوظ نے کہا کہ مولانا یہ وہی سید حامد الکاف ہیں جنھوں نے آپ کی خدمت میں سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق کا ترجمہ روانہ کیا ہے۔ ہمارے دوست خلیل احمد حامدی بھی ساتھ تھے۔ مولانا نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ’’جی ہاں‘ آپ کا ترجمہ تو ملا ہے مگر اس میں عربیت زیادہ تھی۔ اس لیے میں نے اس کو ’’اردو وانے‘‘ کے لیے خلیل حامدی صاحب کو دیا ہے‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ نہیں معلوم اس  معالم فی الطریق کے پہلے ترجمے کا کیا ہوا؟ اتنا ضرور ہے کہ اس کی دو چار قسطیں سہ روزہ دعوت دہلی میں چھپی تھیں۔

میں نے مولانا سے عرض کیا تھا:’’میں رابطۃ العالم الاسلامی میں مترجم کی حیثیت سے کام کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ کل آپ سے وہیں ملاقات ہو گی‘‘۔ دوسرے دن تقریباً ۱۱ بجے رابطہ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ احوال کے تبادلے میں پوچھا: ’’کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’۵۰۰ سعودی ریال‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ تو بہت کم ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’خدمتِ اسلام کا ادارہ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ پھر اتنی کم تنخواہ کیوں؟ فوراً استعفا دیجیے ‘‘۔ اور واقعی اسی روز میں نے استعفا دے دیا اور عصر کی نماز میں مولانا کو بتا بھی دیا۔ کچھ بھی نہ کہا‘ خاموش رہے۔

جب گھر واپس ہوا تو کہا گیا :’’تمھیں حسن بن عبداللہ بن عجران بن محفوظ تلاش کر رہے تھے‘‘۔ میں ان سے ملا تو کہا کہ آج گھانا کونسلیٹ جنرل کے لوگ میری دوکان پر آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مترجم کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور ماہانہ ایک ہزار سعودی ریال دینے کو تیار ہیں۔ یہ ان کا ٹیلی فون ہے ان سے بات کر لو۔ دوسرے دن ضروری کارروائی کے بعد مجھے ایک ہزار سعودی ریال کی نوکری مل چکی تھی۔ الحمدللّٰہ!

یہ مولانا کی طرف سے یہ درس تھا کہ آدمی کو کسی وجہ سے بلا وجہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو سستے داموں نہیںبیچنا چاہیے۔

اس کے بعد مولانا پھر رابطہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جمعرات کا دن تھا۔ میں اور استاد محترم عمر بن محفوظ مغرب کے بعد مکہ مکرمہ کے شبرہ ہوٹل پہنچے جہاں مولانا کا قیام تھا۔ کچھ دیر بعد مکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ الندوہ کا نمایندہ حاضر ہوا۔ مولانا خلیل حامدی موجود نہیں تھے۔ مترجم کی خدمت میں نے انجام دی۔ دوسرے دن‘ یعنی جمعہ کو یہ انٹرویو الندوہ میں شائع ہو گیا۔

مکہ مکرمہ میں طے پایا تھا کہ میں اور عمر بن محفوظ دوسرے دن جمعہ کو صبح جدہ پیلس ہوٹل پہنچ جائیں گے جہاں مولانا‘ میاں طفیل محمد صاحب اور مولانا خلیل حامدی کے ہمراہ مقیم تھے۔ ہم دونوں حسب وعدہ کوئی ساڑھے آٹھ یا نو بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھ کر مولانا خوش ہوئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’چائوش! میں نے مسجد دہلوی‘ مکہ مکرمہ میں نوجوانوں سے جو خطاب کیا ہے اس کو عربی میں آپ نے منتقل کرنا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’مولانا میں کوئی کہنہ مشق مترجم نہیں ہوں۔ تھوڑا بہت ترجمہ کر لیتا ہوں لیکن آپ کے خطاب کا صحیح اور دقیق ترجمہ میرے بس کا روگ نہیں ہے‘‘۔ مولانا خلیل حامدی نے حامی بھر لی تو مولانا‘ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’خلیل صاحب! عربی زبان ان کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ یہ جو کہہ دیں فصیح ہے اور جو لکھ دیں بلیغ ہے‘‘۔

میں سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’چائوش! شروع ہو جائیں۔ آج رات انھیں (یعنی الندوہ والوں کو) دینے کا وعدہ ہے‘‘۔

میں نے ترجمہ کر دیا۔ دوسرے دن یہ تقریر الندوہ میں چھپ گئی۔ الحمدللہ

اس واقعے کے میاں طفیل محمد صاحب عینی گواہ ہیں۔ وہ خاموش بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ مولانا کے ان الفاظ نے مجھے اتنی ہمت بخشی کہ کبھی بھی مجھے اپنی عربی/ اردو/ انگریزی زبانوں کے معیار کے بارے میں شک و شبہہ پیدا نہ ہوا‘کیونکہ یہ مولانا مودودیؒ کا وہ ادبی ذوق تھا جس کی نفاست اور بلندمعیار ہونے کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

  • ہندستانی مسلمانوں کے لیے دلی ہمدردی: اسی جمعہ کے دن کوئی ۱۰ بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ شاید مولانا کو اندازہ تھا کہ لائن پر کون ہو سکتا ہے۔ مجھے ہدایت فرمائی کہ ٹیلی فون اٹھائوں۔ میں نے ٹیلی فون اٹھایا تو معلوم ہوا کہ بولنے والے سعودی عرب کے وزیر پٹرولیم احمد ذکی الیمانی ہیں۔ شاید اس وقت وہ قائم مقام وزیر تعلیم بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں حسن بن عبداللہ آل الشیخ وزیر تعلیم کی طرف سے بول رہا ہوں۔ ثانوی مرحلے تک کی نصاب کمیٹی کی رپورٹ تیار ہے۔ آپ‘ یعنی مولانا‘ریاض تشریف لائیں اور اس پر ایک نظر ڈال کر اپنی آرا سے آگاہ فرمائیں۔ مولانا نے ریاض جانے سے معذرت کر دی۔

اس وقت دراصل مولانا مودودیؒ دلی کرب اور رنجیدگی کی حالت میں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رابطہ کے اجلاس میں مولانا نے احمد آباد میں وحشیانہ اور خون ریز مسلم کش فسادات پر کوئی قرارداد منظور کروائی‘ مگر شاہ فیصل نے اس کو روک لیا‘ یعنی اس کا اعلان کرنے سے منع کر دیا۔

مولانا نے فرمایا :’’ابھی ابھی گردے کے آپریشن سے لوٹا تھا۔ فسادات کی خبریں سن کر محض ان کی شنوائی کی خاطر ایک گردے کے ساتھ یہاں چلا آیا۔ بڑی مشکل سے تو قرارداد پاس ہوئی۔ اس کو بھی روک لیا گیا۔ اب ریاض جا کر کیا کروں؟‘‘

بہرحال وہ جدہ ہی سے لاہور واپس ہو گئے۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ اللّٰھُمَّ اغفِرہُ والرحمہ یارب ۔ یہ واقعہ پہلی بار بیان کر رہا ہوں۔ الحمدللہ‘ میاں طفیل محمدصاحب بقیدحیات ہیں۔ وہ اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔

  • فراخ دلی اور محبت: مولانا مودودیؒ بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ وہ دل سے لوگوں سے محبت کرتے لیکن اس کا بے ساختہ اظہار نہیں کرتے تھے۔ لوگ اس کو سرد مہری قرار دیتے‘ لیکن بقول مولا نا محمد ناظم ندوی:’’مولانا کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ شایستگی‘ سلیقے اور وقار کے ساتھ تعلقات رکھنے والے فرد تھے۔ بلاشبہہ وہ تعلقات کے اظہار میں مبالغہ آمیز رویہ اختیار نہ کرتے تھے‘ جسے عام لوگ مولانا کی سرد مہری قرار دیتے‘ لیکن میرے نزدیک رویہ بھی ان کے اعتدال پسندانہ مزاج کا ایک پہلو تھا۔ وہ بظاہر فاصلے پر دکھائی دیتے‘ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے ہر فرد کا احترام کرتے تھے اور ہر اس فرد سے محبت کرتے تھے ‘جو دین کے لیے ذرہ برابر بھی کام کر رہا ہوتا تھا اور اس ضمن میں کبھی یہ تخصیص نہیں کی کہ وہ لازماً ان کا ارادت مند یا جماعت اسلامی کا کارکن ہی ہو‘‘۔(ایضًا‘ ص ۲۳۹)

اس سلسلے میں جسٹس غلام علی مرحوم کہتے ہیں: مولانا کے کردار کے حوالے سے اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ مولانا عبیداللہ انور مرحوم پر ایک مرتبہ پولیس نے انتہائی تشدد کیا۔ مولانا انور کے شاگرد اور اہل خانہ ان کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ مولانا مودودی کو جب یہ معلوم ہوا تو سخت افسوس ہوا۔ مولانا کو یہ بھی پتا چلا کہ ان کو گھر لے گئے ہیں‘ ہسپتال نہیں لے گئے‘ تو مولانا نے اپنے لڑکے کو غالباً صفدر حسن صدیقی کے ہمراہ بھیجا کہ میری طرف سے عیادت کریں اور مولانا کو ہسپتال بھی لے جائیں۔ انھیں کہیں کہ میں خود حاضر ہوتا ‘لیکن میری طبیعت چونکہ اس قابل نہیں ہے کہ کہیں آ جا سکوں‘ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔ چنانچہ مولانا کے مشورے پر ہی ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک دفعہ سعودی عرب میں کوئی کانفرنس تھی۔ مولانا محمد دائود غزنوی مرحوم بھی اس میں شامل تھے۔ ان کو کچھ تکلیف ہو گئی تو مولانا مودودیؒ رات بھر ان کے پاس بیٹھے رہے‘ حالانکہ مولانا مودودیؒ کی اپنی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ مولانا ابوبکر غزنوی‘ مولانا مودودی کے اس طرزِ عمل سے بڑے متاثر ہوئے اور بعد میں اس کا ذکر بھی کرتے تھے کہ مولانا کے دل میں محبت و انس کا کتناجذبہ ہے۔(ایضًا‘ ص ۲۳۴)

اس سوال کے جواب میں کہ کوئی ایسا واقعہ یا واقعات جن پر مولانا کو سخت صدمہ پہنچا ہو؟ میاں طفیل محمدصاحب نے فرمایا: ’’چودھری غلام جیلانی مرحوم نے بتایا تھا کہ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں‘وہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پر محترم سید قطب کی شہادت کی خبر سننے کے بعد میں اچھرہ جا رہا تھا کہ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری مل گئے۔ میں نے ان کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ ہم ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے تو مولانا کو بے حد ملول اور افسردہ پایا۔ ان کے چہرے پر خلافِ معمول زردی چھائی ہوئی تھی۔ اظہارِ تعزیت کرنے لگا تو مولانا خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر ایک گہرا سانس لیا اور جذبات بھرے لہجے میں فر مانے لگے (اور یہ میری ۴۰ سالہ رفاقت میں پہلا تجربہ تھا کہ مولانا مودودی کو میں نے یوں جذبات میں ڈوب کر بات کرتے دیکھا) کہ کل رات مجھ پر مسلسل ڈپریشن طاری رہا۔ ہزار کوشش کے باوجود پڑھنے لکھنے کا کوئی کام نہیں ہو رہا تھا‘ آخر میں کام چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اور فی الحقیقت میں بالکل نڈھال ہو گیا۔ خیال رہے کہ یہ عین وہی وقت ہو گا جب سیدقطب کو پھانسی دی جا رہی تھی‘‘ (چودھری غلام جیلانی کا کلام یہاں ختم ہوا)۔

میاں صاحب نے فرمایا: جہاں روحانی تعلق ہو وہاں ایسی کیفیت کا طاری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں کہ بیٹے کو کوئی حادثہ پیش آیا اور کوسوں دور ماں کا دل ڈوبنے لگا اور بلا کسی ظاہری سبب کے وہ سخت پریشان ہو گئی۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں سقوط حیدر آباد اور ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ بھی مولانا محترم کے لیے انتہائی صدمے کے موجب واقعات تھے اور علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم کی وفات کے سلسلے میں تو مولانا محترم کے جذبات کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۷۳)

کیوں نہ ہو۔ ان کا سید قطبؒ سے روحانی تعلق انتہائی گہرا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ   سیدقطب شہیدؒنے مولانا کی چار بنیادی اصطلاحوں (الہ‘ رب‘ عبادت‘ دین) کو نہ صرف اپنا یا‘ بلکہ ان پر حاکمیت اور سلطان وغیرہ کی اصطلاحوں کا اضافہ کیا۔ اپنی تفسیر  فی ظلال القرآن میں دو جگہ ان کو ’’المسلم العظیم‘‘ کے لقب سے یا د کیا۔ علاوہ ازیں بغیر علم اور لا شعوری طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح مقوّمات الشعور الاسلامی (اسلامی تصور کی بنیادیں) دو ضخیم جلدوں میں لکھی۔ یہ سب کچھ غائبانہ تعارف کے تحت ہوا۔

مزید یہ کہ ان میں اور مولانا مودودی میں توارد فکری بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں میں نے اپنے مضمون:تفہیم القرآن اور صاحبِ تفہیم القرآنمیں دی ہیں۔ ان میں اضافے کی اچھی خاصی گنجایش ہے۔ مسئلہ سود پر انھوں نے دل کھول کر مولانا کے افکار کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ نور کی تفسیر میں بھی انھوں نے مولانا کی ترجمہ شدہ کتاب تفسیر سورۃالنور سے بھرپور استفادہ کیا اور فخر کے ساتھ ان سب مقامات پر اپنے فکری مصادر اور اپنے ممدوح سید مودودی کا ذکر کیا ہے۔

ان کی شہادت کے وقت مولانا مودودیؒ کو ان تفاصیل کا علم نہیں تھا۔ اس وقت تک صرف معالم فی الطریق معروف ہوئی تھی اور اس پر مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا ہوئی۔  فی ظلال القرآنکا نظرثانی شدہ ایڈیشن بعد میں پھیلا اور عام ہوا۔ اس وجہ سے یہ روحانی اور تعلق خاطر حیرت انگیز امر ہے۔

میں تو بار بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ سید قطبؒ نے اپنی فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی ہوئی تفسیر کے ذریعے مودودیؒ اور فکر مودویؒ کو آسمان خلود کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔ فجز راھما اﷲ عنا خیر الخیرائ۔ یہ تفسیر تا قیامت جہاں جہاں اور جب جب پڑھی جائے گی‘ مودودیؒ اور فکر مودودیؒ کو زندہ اور تاب ناک کرتی رہے گی۔

یہ تو افراد کے ساتھ مولانا کی محبت کا بیان تھا۔ سقوط ڈھاکہ‘ ایک امت کا‘ ایک نظریے کا اور ایک ملک کا سقوط تھا۔ اس لیے اس کے اثرات بھی مولانا پر اتنے ہی گہرے اور مہلک پڑے۔ جب بیگم مودودیؒ سے پوچھا گیا کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحے پر مولانا کے جذبات کیا تھے؟ تو انھوں نے کہا:

اس سانحے سے ان پر کیا گزری اس کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں دل کا دورہ تبھی پڑا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا‘ اسے تو یوں سمجھئے کہ مغربی پاکستان والوں نے دھکے دے کر الگ کیا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۲۰۰)

یہی کچھ سقوط حیدر آباد دکن کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ ان کو حیدر آباد سے بے پناہ محبت تھی اس محبت کو ان مقالات کے عنوانات میں دیکھا جا سکتا ہے جو انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے تھے (ایضًا‘ ص ۳۱۵-۳۱۶)۔ اور ان کتابوں میں ان کا عکس ہے جو انھوں نے دکن کی سیاسی تاریخ اور سلطنت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقاتکے عنوانوں کے تحت لکھیں۔ (ایضًا‘ ص ۳۱۷‘ ۶۹۲‘ ۷۶۶)

انھوں نے حیدر آباد کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی اس خط کے ذریعے کی جو میرے محسن اور کرم فرما جناب محمد یونس کے ہاتھوں جناب قاسم رضوی کو لکھا تھا مگر یہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے تھے اور ایک پوری ریاست بھی کھو دی۔ (ایضًا‘ ص ۳۱-۳۲)

  • قائدانہ شان: ہم اس سے پہلے لاہور کے اجتماع میں گولی چلنے پر مولانا مودودیؒ کی پامردی اور ثبات اور اپنے مقام و منصب (یعنی منصب قائد) کے ادراک کی تصویر پیش کر چکے ہیں‘ لیکن اس سے ایک عرصہ پہلے بھی وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ تقسیم ہند کے وقت کر چکے تھے۔ اس سلسلے میں بیگم مودودی ؒکے انکشافات چشم کشا ہیں:

گورداسپور مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ تھا مگر دھوکا دہی سے ہندستان میں شامل کر دیا گیا۔ وہ دن ہم پر بڑے بھاری گزرے ---یہ اﷲ کا بڑا کرم تھا کہ سکھوں پر دارالاسلام کا بڑا رعب تھا۔ دارالاسلام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا --- حالانکہ اہل دارالاسلام کے پاس ایک آدھ بندوق کے سوا کچھ نہ تھا۔ کتنی راتیں ہم نے وہاں اس طرح گزاریں کہ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو جاتیں اور مرد مورچوں میں بیٹھے رہتے۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹتے پھر غازی (عبدالجبار) صاحب نے ایک کانوائے بھیجا‘ ایک ٹرک ہم نے چوہدری نیاز علی خان کو دے دیا۔ ہم صرف عورتیں اور بچے پاکستان آئے تھے۔ مودودی صاحب نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ان پناہ گزینوں کو مسلمان ملٹری آ کر اپنی حفاظت میں نہ لے لے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۱)

--- ایک مہینے تک نہ ہمیں مولانا صاحب کی خبر تھی کہ وہ زندہ سلامت ہیں کہ نہیں اور نہ انھیں ہماری کچھ خبر تھی۔ کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد مسلمان ملٹری نے دارالاسلام کے پناہ گزینوں کو جب اپنی تحویل میں لے لیا تب مووددی صاحب نے وہاں سے پاکستان کا رخ کیا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۰)

پاکستان آتے ہی مولانا نے کئی مہاجر کیمپ قائم کیے۔ نقد اور اشیا جمع کیں۔ سال ڈیڑھ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں سیلاب زدگان کی خدمت میں لگ گئے۔ چندہ‘ روپے پیسے‘ کپڑے وغیرہ جمع کیے۔

  • دولت سے بے نیازی: مولانا محمد ناظم ندوی نے میرے محسن اور کرم فرما چودھری غلام محمد مرحوم کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا ہے:

یہ واقعہ چودھری غلام محمد مرحوم نے مجھ سے ذاتی طور پر بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کے ایک سفر کے دوران جدہ کا ایک بہت بڑا تاجر جو مولانا سے ملاقات کی غرض سے آیا۔ وہ مولانا کی اسلام کے لیے خدمات اور ان کا دلی طور پر معترف تھا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اس نے ایک سادہ دستخط شدہ چیک بڑی عقیدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا: ’’مولانا اشاعت اسلام کے لیے جنتی رقم مطلوب ہو وہ آپ اپنے قلم سے لکھ لیجیے گا‘‘!! --- مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر چیک واپس کر دیا اور فرمایا: ’’آپ کابہت بہت شکریہ۔ جب ضرورت ہو گی لے لیں گے‘‘۔ اس تاجر نے یہ سنا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ایضًا‘ ص ۲۴۰-۲۴۱)

اسی ابہام کو دور کرنے کی خاطر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تاجر عبداﷲ شرتبلی تھے۔ بعد میں انھوں نے لسٹر (برطانیہ)کانو (نائجیریا) اور نیروبی (کینیا) میں اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالنے میں بڑھ چڑھ کر مالی لحاظ سے حصہ لیا۔ اس عظیم منصوبے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کئی سالوں تک چودھری غلام محمد کرتے رہے ہیں۔ اسی غرض سے وہ عدن سے ہو کر مشرقی افریقہ گئے تھے اور عدن ہی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہمارے دوست عمر سالم طرسوم کے واسطے سے ہوئی تھی۔ جدہ میں جب چودھری صاحب تشریف لاتے تو اکثر راؤ محمد اختر صاحب کے گھر پر ٹھیرا کرتے تھے۔ بعض اوقات میں بھی ترجمہ کر کے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جایا کرتا تھا۔ برادرم راؤ اختر‘ چودھری صاحب کے دست وبازو تھے۔ آگے چل کر وہ اس منصوبے کے افریقہ کی حد تک روح رواں ہوگئے۔

میں صرف ان ۱۱ شخصی عناصر ترکیبی کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا‘ جن سے مودودی صاحب کی شخصیت کا خمیربنا تھا اور جس نے نہ صرف ہند و پاک بلکہ عالمی پیمانے پر احیاے اسلام کی تحریک کو فکری اور عملی سطحوں پر زبردست فائدہ پہنچایا۔


حواشی

۱-            تذکرہ سید مودودی ‘ج ۳‘ مرتبہ: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد‘ ص ۳۲۵۔ یہ حوالہ صرف ترجمان کی ’ملکیت‘ کے بارے میں ہے۔ باقی باتیں میں نے حافظے کے بل پر کہی ہیں - حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ مولانا ابومصلح کی سیرت کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرۂ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۳۲۴ - ۳۲۶

۲-            ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۷ - ۴۷۔ تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷ - ۱۷۷۔ مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔

۳-            تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷۸ - ۲۱۰‘ بیگم مودودی ؒ کا انٹرویو

                اس سلسلے میں دوسرے رفقا اور معاصرین کے مشاہدات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میاں طفیل محمد صاحب فرماتے ہیں: ’’ہم لوگوں کی معاشی زندگی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دارالاسلام میں تو بعض دنوں خود مولانا مودودی ؒکے ہاں چولھا نہیں جلتا تھا لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒصاحب جیسے بزرگ ان کے سفید کرتے اور پاجامے اور دوپلی ٹوپی سے یہی اندازہ کرتے تھے کہ وہ کوئی رئیسانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ (تذکرۂ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۱۱۶)

معاصر اسلامی ریاستوں میں غیرمسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمت سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔

یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیرمسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلوخلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ ِ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم و ستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔

ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی و مفہوم کو بھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۲۹)اہل کتاب میں سے ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ اس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ دین حق (اسلام) کی (سیاسی اور سیادتی) برتری کو تسلیم کر کے اس کی اطاعت کا اعلان کرتے ہیں‘ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ اس حالت میں دیں کہ وہ ذلیل ہوں۔

آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جاسکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں سے یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اُسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں‘ ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں‘ سیاسی فضا سازگار ہونے پر‘ اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔

جنگ ِ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیرمسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست ہی دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘قرار دے کر ان پر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔

اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورتِ حال پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان ممالک کی زمینیں امتدادِ زمانہ کے ساتھ اور سامراج کے قبضے سے بہت پہلے نہ تو عشری زمینیں رہی ہیں اور نہ ’’اہل ذمہ کی زمینیں (خراجی زمینیں) رہی ہیں۔ خرید و فروخت‘ سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کی دستوری اور قانونی پوزیشن بالکل ہی بدل چکی تھی۔ یوں نہ ذمی فرد ہی آج    ذمی باقی رہا ہے اور نہ ذمیوں کی زمینیں ذمی (خراجی) رہی ہیں۔ بالفاظِ دیگر نہ تو ملک کے ذمی افراد ہی ذمی رہے ہیں اور نہ ملک بحیثیت ملک‘ بحیثیت زمین اور بحیثیت رقبہ ذمی رہا ہے۔ (دیکھیے:  فقہ الزکوٰۃ‘ ج ۱‘ ص۴۱۷-۴۱۸۔  اَیْنَ الْاَرْضُ الْخَراجِیَۃ الآن؟ الطبعۃ الثانیۃ)

یہ سب حقائق نہایت درجے دور رس‘ گہری اور بنیادی تبدیلیوں پر دلالت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم ممالک کی اپنی اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے سب شہری برابر کے شہری قرار پاتے ہیں۔ البتہ فرق ہے تو مسلمانوں اور غیرمسلموں میں مدنی قانون (سول کوڈ) کی حد تک جو غیر مسلم اقلیتوں کو ان کی اپنی شریعتوں کے مطابق نکاح‘ طلاق اور وراثت وغیرہ میں ان کی عدالتوں اور ان ہی کے ججوں کے ذریعے احکام صادر کرنے کا حق دیتا ہے۔ رہے عام مدنی اور فوج داری اور امن عامہ سے متعلق قوانین‘ تو وہ عام ملکی قوانین قرار پا کر‘ کیا مسلم کیا غیرمسلم‘ سب پر‘ یکساں لاگو ہوں گے۔

اسلام کا سب سے زیادہ امتیازی نشان یہ ہے کہ اس نے اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے میں غیرمسلموں کے حقوق بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیے ہیں۔ سچے مسلمان ان کی دل سے تنفیذ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ شاید ان میں اضافہ تو کر سکتے ہیں مگر ان میں کمی کرنے کا ان کو ہرگز اختیار نہیں ہے۔

یوں بھی آج کے دستوروں میں بنیادی انسانی حقوق‘ جو سب شہریوں کے مشترکہ طور پر حقوق ہوا کرتے ہیں‘ پوری وضاحت سے بیان کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی تنفیذ میں کہیں اونچ نیچ ہو تو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے اور ہر شخص خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حقوق حاصل کر سکتا ہے۔

اُوپر بیان کردہ وجوہات کے علاوہ آج کل کی دنیا میں مسلمان دیگر غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلم اقلیتوں کو ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ جن میں کسی عقیدے کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی آزادی بنیادی اہمیت کی حامل ہے‘ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کس طرح اپنے ملکوں کی غیر مسلم اقلیتوں کو    ’’کم تر درجے کا شہری‘‘ قرار دے کر ان سے برابر کا نہیں بلکہ کم تر درجے کا سلوک اختیار کر سکتے ہیں؟

میری اپنی رائے میں زمانے کا تقاضا ہے کہ اس موضوع پر مختلف پہلوئوں اور نقطۂ نگاہ سے سیرحاصل اور مفصل گفتگو کی جائے تاکہ اس کی روشنی میں کسی متفق علیہ نتیجہ پر پہنچا جا سکے۔

 

یوں تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۷۹-۱۹۰۳ء) کی زندگی کا غالب ترین حصہ خانہ بدوشی‘ مسلسل سفر‘ نقل مکانی‘ جیلوں کی کال کوٹھریوں‘ تقریر و تحریر‘ تصنیف و تالیف‘ جلسے اور جلوسوں میں گزرا ہے‘ لیکن ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۳۹ء کے ابتدائی چند مہینے تو بڑے صبرآزما اور ہنگامہ خیز رہے ہیں۔

میرے اندازے کے مطابق مولانا مرحوم کی زندگی کے اس پُرآشوب دور کا آغاز۱۹۳۷ء کی ابتدا سے ہوا۔ اسی زمانے میں ان کی شادی کی بات چیت شروع ہوچکی تھی۔ مولانا کی شادی ۵ مارچ ۱۹۳۷ء (۲۱ ذوالحجہ ۱۳۵۵ھ) کو محترمہ محمودہ بیگم بنت سید نصیرالدین شمسی صاحبہ سے ‘ دہلی میں ہوئی۔ مہر کی رقم مبلغ ۲ ہزار روپے تھی (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۳۰۲)۔ ابھی یہ نوشادی شدہ دولہا دلہن حیدر آباد دکن پہنچے ہی تھے کہ نئے نئے نوشہ کو بحیثیت مدیر ترجمان القرآن ایک ایسے بحران سے دوچار ہونا پڑا جو درحقیقت آنے والے طوفان بلکہ طوفانوں کا پیش خیمہ تھا۔ اس بحران کے بارے میں وہ مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں لکھتے ہیں:

کئی مہینوں سے پرچہ مسلسل تاخیر سے شائع ہورہا ہے۔ خریداروں کی شکایات جس قدر بڑھتی جاتی ہیں میری شرمندگی بھی اسی قدر بڑھ رہی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تاخیر کے جو اسباب ہیں ان کا علاج میرے اختیار میں نہیں‘ تاوقتیکہ رسالے کے ہمدرداور قدرشناس میری اعانت نہ کریں۔ میں ان مشکلات کو رفع نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے… اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اگر اس پرچے کو زندہ رکھنا ہے اور فی الواقع اس کی زندگی کی کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تواس کے تمام ہمدردوں کو خاص طور پر توسیع اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ آیندہ پانچ مہینوں میں اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر خریداروں کی تعداد میںکافی اضافہ نہ ہوا تو میں عرض کیے دیتا ہوں کہ محض ساڑھے تین سو خریداروں سے اس معیار کے پرچے کو چلانا میری قدرت سے باہر ہے۔ (ترجمان القرآن‘ مئی ۱۹۳۷ء)

سوال یہ ہے کہ اس اپیل کا کیا اثر ہوا؟--- اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں اس کا جواب  ان الفاظ میں ملتاہے:

رسالے کی توسیع اشاعت کے لیے ناظرین کو توجہ دلائی گئی تھی۔ اگرچہ اس سے اشاعت میں کوئی ایسا بڑا اضافہ نہیں ہوا جو رسالے کی مالی مشکلات کوحل کرنے کے لیے کافی ہو‘ صرف ۶۰‘ ۷۰ نئے خریدار مہیا ہوئے۔ پچھلے مہینے ایک صاحب خیرریئس نے ۲۵ روپے عنایت فرمائے تھے کہ ان کی طرف سے غریب مسلمانوں کے نام مفت یا رعایتی قیمت پر رسالہ جاری کر دیا جائے۔ چنانچہ ایک دارالمطالعہ کو مفت اور آٹھ اشخاص کو نصف قیمت پر ایک سال کے لیے رسالہ دیا گیا…۱؎  (ترجمان القرآن‘اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۳۷ء میں  ترجمان کی تعداد اشاعت ۷۰+۱۰=۸۰+۳۵۰=۴۳۰ ہوگئی۔ ابھی وہ ایک قدم آگے بڑھنے نہیں پائے تھے کہ نومبر ۱۹۳۷ء کے ترجمان القرآن میں یہ افسوس ناک خبر شائع ہوتی ہے:

اطلاع

سررشۂ تعلیمات‘ سرکار آصفیہ کی جانب سے ہر سال ترجمان القرآنکے جو ڈھائی سو پرچے مدارس کے لیے خریدے جاتے تھے ان کو ماہ شوال ۱۳۵۶ھ ] نومبر ۱۹۳۷ء[ سے گھٹا کر ۱۱۸ کر دیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن‘ نومبر۱۹۳۷ء)

گویا اب ترجمان کی تعداد اشاعت ۴۳۰ - ۱۳۲=۲۹۸ پرچے رہ گئی۔ یہ تعداد ان ۳۵۰ پرچوں سے ۵۲پرچے کم ہے جس کا گلہ مولانا مودودیؒ نے مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں کیا تھا کہ: پرچہ موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے ---کہاں اپیل اور کوشش توسیع اشاعت کی ہو رہی تھی اور اب نوبت اشاعت کی کہاں تک آپہنچی!!  سبحان اللّٰہ۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ اسی پرچے میں ’’اطلاع ثانی‘‘ کے تحت یہ اعلان بھی شائع ہوا: ’’۱۱ ماہ  ذی القعدہ۱۳۵۶ھ میں رسالہ ترجمان القرآن کا دفتر حیدرآبادسے جمال پور ضلع گورداسپور (پنجاب) میں منتقل ہو جائے گا  (ترجمان القرآن‘ نومبر ۱۹۳۷ء)۔ ماہ شوال ۱۳۵۶ھ وہ مہینہ ہے جس میں تعداد اشاعت گھٹ کر صرف ۲۹۸ رہ جانے والی تھی اور جس کو لے کر علامہ اقبالؒ (۱۹۳۸ء-۱۸۷۷ء) کی دعوت پر مولانا مودودیؒ کو حیدر آباد‘ دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھانکوٹ‘ منتقل ہونا تھا۔

کیا یہ ہمت شکن واقعات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ وہ ان حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی نائو‘ ناگفتہ بہ حالات میں کھئے جا رہے تھے‘بلکہ وہ  ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے--- چنانچہ اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:

ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادرانِ اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میںاب تک چار سو روپے حالی اور پچاس روپے کلدار۲؎ دفتر کو وصول ہوئے ہیں اور مزید پچاس روپے کلدار کا وعدہ ہے…

اگرچہ یہ رقم ۳؎ اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کرکے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)

ختم شوال ہے‘ اور وہ ایک نامعلوم علاقے کی طرف اور غیرمانوس انسانوں کے درمیان جانے کے لیے سفر پر نکل جاتے ہیں‘ تاکہ ترجمان اور ترجمانمیں پیش کردہ دعوت کو زندہ اور جاری و ساری رکھ سکیں۔ ساتھ ہی ایک مکتبے کے قیام کا بھی عزم ہے۔ وہ کیوں اور کیسے؟ اس کا جواب اوپر کی تحریر میں موجود ہے: خدا کے فضل پر بھروسا‘ یعنی وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا o (الطلاق۶۵:۳) ’’جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘۔ اس آیت سے پہلے یہ آیت گزر چکی ہے:  وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا  o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط (الطلاق ۶۵:۲-۳)  ’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور  اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔ پھر چوتھی آیت کے آخر میں مزید وضاحت یوں فرمائی:  وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (الطلاق ۶۵:۴) ’’جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے‘‘۔

دیکھیے ’’توکل‘‘ کی کرشمہ کاریاں کہ وہ کس طرح معاملات ‘ مسائل‘ مشکلات کو آسان فرماتا ہے:  فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o  (الحج ۲۲:۷۸) ’’بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار‘‘۔

ان مایوس کن حالات میں ایک غیر واضح ماحول کی طرف سفر کی تیاریاں کس طرح کی گئیں؟ ظاہر بات ہے کہ حیدر آباد میں معاملات کوسمیٹنے کے لیے ‘ ٹکٹ اور راستے کے خرچ کے لیے اور پھر جمال پور پہنچ کر کچھ عرصہ کام چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت تھی۔ اس کا حل کیسے نکلا؟

اس قرض حسنہ کا انتظام جناب مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم نے کیا تھا‘ اس لیے یہی بہترمعلوم ہوتا ہے کہ انھی کی زبان سے یہ داستان سنی جائے:

’’۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی تحریک پر مستقل طور پر رخت ِ سفر بندھنے لگا اورمولانا ]مودودیؒ[ نے حیدر آباد کے قیام کو الوداع کہنے کا ارادہ کیا۔ سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کتابیں بندھنے لگیں۔ ایک روز مولانا ]مودودیؒ[ نے مجھ سے کہا: ’’میں سفرکے لیے تیار ہوں ‘مگر میرے پاس سفر خرچ کی کچھ کمی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بغیر روپے کے سفرکیوںکر ممکن ہوگا؟‘‘ میں خاموش رہا‘ مگر دل میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مغرب کی نماز میں نے مسجد مدرسۂ دینیات سرکارعالی میں ادا کی۔ اتفاق سے مسجد میں سرور خان صاحب مل گئے‘ جو مولانا ]مودودیؒ[کی دینی بصیرت کے بہت قائل تھے اور مولانا کے مضامین سے بے حد متاثر تھے۔ گفتگو کا سلسلہ چلا تو میں نے دوران گفتگو ان سے کہا : ’’مولانا ]مودودیؒ[‘ علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب کے لیے عازم ہیں‘ مگر عجیب بات یہ ہے کہ سفر خرچ کی ان کے پاس کچھ کمی ہے۔ اندیشہ ہے کہ سفر خرچ ان کے پاس کم نہ ہو جائے‘‘۔

’’سرور خان صاحب اے کلاس کے بہت بڑے ٹھیکے دار تھے۔ ثروت کے ساتھ انھیں بھلائیوں میں اپنی دولت خرچ کرنے کا حوصلہ بھی تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ’’اتنے ان کے قدردان ہیں کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ وہ ان کو قرض دے سکے‘‘۔ میں نے کہا کہ : ’’اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے‘‘۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ وہ رخصت ہوئے اور میں اپنے گھر چلاآیا۔

صبح کو وہ اپنی موٹر میں آئے اور کہنے لگے‘ چلیے میں مولانا کو قرض دیتا ہوں…

ہم دونوں گھر سے رخصت ہو کر لکڑی کے پل پر پہنچے۔ مولانا سے ملے۔ میں نے عرض کیا ’’یہ آپ کو قرض دیناچاہتے ہیں‘‘۔ سرور خان صاحب نے کہا کہ ’’مولانا‘ میری ایک شرط ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ اس معاملے کو لکھ دیں۔ دوسرے یہ کہ آپ جتنی مدت بھی چاہیں‘ اس قرض کی ادایگی کے لیے لیں‘ میری طرف سے آپ کو پورا اختیار ہے۔ لیکن جب ادایگی کا وقت آئے تو آپ اسے بروقت ادا کردیں‘‘۔

مولانا نے یہ تحریر لکھ دی۔ آخر میں لکھا کہ میں یہ رقم ایک سال کی مدت میںادا کروںگا۔ مولانا ‘عازم پنجاب ہوئے اور حیدر آباد دکن کی دینی اور انشائی رونقوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔

معاہدے کی مدت پوری ہو گئی۔ سوا سال گزر گیا اور مولانا کا کوئی خط نہ آیا۔ سرور خان صاحب دبے دبے الفاظ میں کہنے لگے کہ ’’علما کے وعدے کو آپ نے دیکھ لیا‘‘۔ میں نے ہرچند ان سے کہا کہ ’’ممکن ہے کہ مولانا آپ کا قرض ادا کرنے سے کسی وجہ سے معذور ہوں‘‘۔ آخر جب ان کے طنز کے نشتر انتہا پر پہنچ گئے تو میں نے ایک خط مولانا کی خدمت میں پٹھان کوٹ لکھا‘ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ نے سرورخان صاحب کا قرض ابھی تک ادا نہیں کیا‘ حالانکہ قرض کی ادایگی کی موعودہ تاریخ گزرے تقریباً آٹھ ماہ گزرچکے ہیں۔علما کے مقدس طبقے کی بدنامی کو پیش نظر رکھ کر اگر ان کا قرض ادا فرما دیا جائے تو بڑی عنایت ہوگی۔

ایک ہفتہ کے بعد جناب نعیم صدیقی کے دستخط سے مولانا مودودیؒ کا گرامی نامہ موصول ہوا‘ جس کا مفہوم یہ تھا: میری مالی حالت اس لاغر گھوڑے کی طرح ہے جس پر آپ طعن و طنز کے لاکھ چابک برسائیں مگر وہ اپنی لاغری کی وجہ سے چل نہیں سکتا۔ میرے پاس پیسہ ہو تو میں ان کا قرض ادا کروں۔ مگر میری نیت بخیر ہے۔ میرے حالات جیسے ہی سازگار ہوںگے میں ان کا قرض ادا کر دوں گا۔ مطمئن رہیے اورسرور خان صاحب کو بھی اطمینان دلا دیجیے‘‘۔۴؎  

استاذ محترم جناب مولانا صدرالدین اصلاحیؒ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۸۴۶) جو ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی ہند‘ رام پور میں میرے استاذِ تفسیر اورصدر مدرس تھے‘ ان کے بقول: مولانا مودودیؒ ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو سرور خان صاحب کے ایک ہزار کے قرض حسن سے جو بتوسط مولانا اعجازالحق قدوسی ملا تھا‘ حیدر آباد دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘پٹھان کوٹ پہنچے۔ مولانا اصلاحیؒ لکھتے ہیں:

’’یہاں آکر مولانا مودودیؒ نے ان فکرانگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا‘ جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں‘ مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا‘ جس کے مطابق ان کے نزدیک برصغیر ]جنوب مشرقی ایشیا[ میں احیاے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔ اسے پڑھ کر اطراف ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کانام لے کر ان خطوط پر کام شروع کر دیا جانا چاہیے۔

اس تجویز یا مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا‘ جس میں پیش نظر تحریک کے مقصد‘ طریق کار اوراصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ ۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔ حاضرین میں سے اکثریت مغربی ہندکے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحب بھی تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔

اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔۵؎  بہرحال اجتماع ہو گیا تو اسی دن (یا اگلے دن) بعد عصر ]عبدالعزیز[ شرقی صاحب کی  رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ جمع ہوئے‘ جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ یہ کل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا مودودی نے      تجدید شہادت کی۔اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ کر تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔ جس کے بعد چودھری ]نیازعلی[ صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کر دیا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں‘ مگر اصرار کے ساتھ مولانا ]مودودیؒ[سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں اسلامی حکومت کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘… مولانا نے اس کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں یہاں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تو ہم اب کہیں اور جا کر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہو جانے کافیصلہ کرلیا۔

غرض ]یہ کہ[ منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا‘ کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں‘ صبح کوٹرک پر سامان لادا گیا اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے کہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پائوں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔ سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہو گئی‘ جوکئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔ یہ تھی دارالاسلام (پٹھانکوٹ) سے لاہور منتقل ہو جانے کی اصل وجہ‘ اور یہ تھا نقل مکانی کا اصل واقعہ‘‘۔ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷-۸۴۸)

اس طرح مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کا دیکھا ہوا خواب چکنا چور ہوکر رہ گیا۔ معلوم ایسا پڑتا ہے کہ یہ اس مشیت الٰہی کا جز تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مولانا کوصرف اپنی ذات پر بھروسا کرنے کا درس دیا تھا‘ یعنی ذاتِ الٰہی سبحان و تعالیٰ پر جیسا کہ مولانا نے علامہ اقبال کی وفات کی خبر سن کر کچھ اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا۔  وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔

یوں بھی مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم کہہ چکے ہیں کہ مولانا مودودیؒ، اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کیا کرتے تھے‘ مگر اس اسکیم میں چونکہ علامہ اقبال اور نیازعلی خان کا مشترکہ وعدۂ تعاون تھا‘ اس لیے شاید علامہ پر تکیہ کسی نہ کسی درجے میں کیا ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اقامت میں کسی پر بھی--- حتیٰ کہ داعیوں کی ذات پر بھی--- بھروسے کو گوارا نہیں کرتا۔ یہ دعوتِ ربانی ہے۔ اسی لیے رب ہر شخص اور ہرشے سے یکسر بے نیاز ہے۔ اس حقیقت کو سارے داعیان الی الحق کواچھی طرح سمجھ لیناچاہیے۔ سید قطب شہیدؒ ]م: اگست ۱۹۶۶ء[ نے واقعۂ اُحد کے سلسلے میںاس پر خوب بحث کی ہے۔ اس کو بار بار پڑھنے اورہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت کا یہاں بیان کیا جانا ضروری ہے کہ مولانا نے شادی سے پہلے محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ کوصاف صاف اپنے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں:

مودودی صاحب بڑے صاف گو تھے۔ انھوں نے شادی سے قبل میرے دادا جان کوایک خط میں سارے حالات لکھے تھے کہ یہ میرا مشن ہے۔ اگر اللہ نے مجھے توفیق دی تو ایک اعلیٰ گھر بھی بنائوں گا اور گاڑی بھی رکھوںگا‘ کیونکہ میں ہوتے سوتے خراب حالات میں رہنے کا قائل نہیں۔ لیکن اگر اللہ نے مجھے نہ دیا تو میں خستہ حالی میں بھی اپنے مشن کو نہیں چھوڑوں گا۔ میرے دادا ابا نے جو جواب دیا وہ میرے والدین کے سامنے مجھے سنانے کے لیے پڑھ کرسنایا۔ اس میں یہ جملہ بھی تھا: ’’ہماری بیٹی محل میں بھی تمھاراساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی‘‘--- دادا جی کی اس بات نے آنے والے حالات میں مجھے بے پناہ تقویت اور حوصلہ بخشے رکھا۔ (تذکرہ سید مودودیؒ، ج ۳‘ ص ۱۸۲)

بالفاظ دیگر مولانا مودودیؒ کواپنے مشن اور اس کی دشواریوں کااندازہ ضرور تھا‘ مگر غائب کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہ اپنی محبت کا دعویٰ کرنے والے بندوں کو آزمانے کے لیے حالات بھی اپنی قدرت اور حکمت سے پیدا کرتا رہتا ہے۔ اللہ کی حکمتیں صرف وہی جانتا ہے۔

بہرحال یہ ۱۹۳۷ء کے ابتدائی دنوں سے شروع ہونے والا سفری‘ مالی‘ جسمانی‘ ذہنی اور فکری بحران ۱۹۳۸ء کے آخر تک‘ بلکہ شاید ۱۹۳۹ء کی ابتدا تک جاری رہا۔ مولانا مودودیؒ، بیگم مودودی اور استاذ محترم مولانا صدرالدین اصلاحیؒ سب کے سب اس میں ثابت قدم رہے:  فجزاھم اللّٰہ عنا خیرًا واغفرلنا ولھم وتقبل منھم ومنا انہ سمیع قریب مجیب۔

خلاصۂ کلام

مزید غوروفکر سے مندرجہ ذیل نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱۹۳۷ء سے شروع ہونے والے مرحلے کو ہم سید مودودیؒ کی زندگی میں خط فاصل قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سے:

  • سید مودودیؒ کی ازدواجی اور عائلی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور وہ ایک خاندان کے سربراہ بنتے ہیں۔
  •  اپنے ’’مشن‘‘ کے حصول کی راہ میں وہ رخت ِ سفر‘ نہایت نامساعد حالات میں باندھتے ہیں۔
  •  جب مشن کی راہ میں فردی اور مادی (یعنی افراد اور پیسے) کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں اور چودھری نیاز علی خاں اسلامی حکومت کے قیام کے ارادے کی راہ میں پہاڑ بن کر کھڑے    ہوجاتے ہیں تو مولانا مودودیؒ اس مشن کی خاطر ایک اور نامعلوم مقام کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں‘ نتائج و عواقب کی پروا کیے بغیر۔ اورراتوں رات لاہور کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ یہ ایک جماعت کی قیادت اور سربراہی کی راہ میں پہلا امتحان تھا۔ اس امتحان میں وہ کامیاب رہے۔
  • لاہور میں اس مشن کی راہ میں کام کیے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ اُس جماعت اسلامی کی تاسیس عمل میں آتی ہے جس کا مقصد ’’اسلامی حکومت کا قیام‘‘ یا ’’اقامت دین حق‘‘ قرار پاتا ہے۔ یہ قیادت میں کامیابی کا دوسرا ثمرہ تھا۔
  • جب ڈھائی تین سال کے بعد پھر دارالاسلام لوٹتے ہیں تو اس کا سبب اور شرط پھر استاذ محترم کی زبانی سنیے:

دارالاسلام واپسی

’’جب ڈھائی تین سال بعد مولانا پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے۔ میں ان دنوں لاہور میں موجود نہیںتھا۔ اس لیے براہ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کر سکتا‘ مگر دارالاسلام واپس لوٹنے سے   چند ماہ قبل مولانا مودودی مرحوم نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی‘ ا س سے حقیقت پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے۔

یکم فروری ۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا:

کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خان صاحب اور شیخ نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط و کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں یہ تصفیہ ہواکہ وہ عمارات مع چھ ایکڑ زمین کے‘۹۰ سال کے پٹے پر میں ان سے لوں گا اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہو گی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا ان کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت ان کا حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے‘ جس طرح یہاں (لاہور میں) کرایہ دے کررہتے ہیں ‘‘(تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷- ۸۴۸)۔

یہ قیادت میں کامیابی کا اور اصول و مبادی پر جم جانے کا تیسراثمرہ تھا۔

اسی لیے جب اس دارالاسلام میں مولانا محمد منظورنعمانی وغیرہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تو مولانا مودودیؒ بھانپ گئے کہ اقامت دین حق کا وہ مفہوم جو ’’اسلامی حکومت کے قیام‘‘ کے ہم معنی ہے‘ ان حضرات کو نہیں پچ رہا ہے۔ اس لیے انھوں نے ان حضرات اور ان کے موہوم اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی‘ کیونکہ وہ اور ان کے دارالاسلام سے لاہور ہم سفر حضرات اس بھٹی میں تپنے کے بعد ایک ایسا کھرا سونا بن چکے تھے‘ جس کی مارکیٹ میں ایک قابل قدر حیثیت ہوا کرتی ہے۔ یہ کامیابی اور کامرانی کاچوتھا ثمرہ تھا۔

جب یہی سونا: قرارداد مقاصد کی منظوری‘ اسلامی دستور کی مہم‘ پھانسی کی کوٹھڑی وغیرہ میں اپنا سکہ جما چکا اور وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی کے ہاتھوں اسلامی دستور پاس ہو گیا ‘ پھرجب اس کی تنفیذ کا مرحلہ پیش آیا تو عملی میدان میں اُترنے کے مسئلے پر جماعت ایک بار پھر بحران کاشکار ہوگئی۔ اس بار بھی حزبِ اختلاف کی سرکردگی مدارس سے فارغ حضرات ہی کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت میں داخلی ٹکرائو سے بچائو کے لیے استعفا پیش کر دیا۔۶؎ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ان کو کامیابی سے پانچواں پھل ملا۔

وہ دیکھ رہے تھے کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جیسا کہ چودھری نیاز علی خاں صاحب‘ شیخ نصیب صاحب توکچھ مدت بعد اپنے موقف پر نظرثانی کرکے راہ حق پر لوٹ سکتے ہیں‘ لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ مولوی تمیزالدین‘ اے کے بروہی وغیرہم بھی اسلامی حکومت کے حق میں موقف اپنا سکتے ہیں‘ حتیٰ کہ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تک بھی کسی نہ کسی شکل میں تعاون پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ مگر یہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کی گولی کسی کے حلق سے نہیں اتر سکتی ہے تو وہ ہے خود علماے کرام کا ایک موثر طبقہ۔

اس کی وجہ سیاست اورسیاسی امور سے سخت نفرت اور سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنا ہے۔ یہاں تک کہ  سیاسی و اجتماعی امور میں الجھنا‘ طہارت ، تقویٰ اور دین داری کے خلاف سمجھنا ہے۔ اس پندار سے نکلنے میں     یہ سخت ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح ایک ہمسایہ ملک میں عرش اقتدار تک تو پہنچ گئے مگر وہ اپنے مخصوص تدریسی ماحول سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکے۔ جمود پر قناعت کی اور اجتہاد سے اظہار بیزاری کیا اور عصرِحاضر کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر لیں اور حکمت‘ وسیع القلبی اور وسیع النظری پر قرار واقعی توجہ نہ دی۔ جس سے داخلی اتحاد و تعاون میں کمی اور دشمن کو حملہ کرنے کی سہولت میسر آئی۔ انجام حسرت ناک سامنے آیا۔

رہے مولانا مودودیؒ تو انھوں نے اس اونچی دیوار کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی جودین اور سیاست کے درمیان کھڑی کی گئی تھی۔ اس میں وہ اوران کے رفقا بڑی حد تک کامیاب رہے‘ جس کے نتیجے میں آج اسلامی حکومت کے قیام کا تصور ایک مسلمہ امر بن چکا ہے۔ وللّٰہ الامر من قبل ومن بعد-

اسلامی ریاست کے قیام کی اس جدوجہد میں مایوس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہے۔  وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) ’’مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیںہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔  وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔


 حواشی

۱- جناب رفیع الدین فاروقی اپنے مقالے ’’مولانا مودودیؒ اور حیدر آباددکن‘‘ میںرقم طرازہیں: ’’… پھر مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سرکار آصفیہ تین سو سے زائد پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصرسے مخالف گروپ نے امور مذہبی پر اثرڈال کر رسالہ کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوگئے (غالباً یہ واقعہ اپریل ۱۹۳۷ء کا ہوگا کیونکہ مئی ۳۷ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں اس کا اشارہ ملتا ہے‘‘ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۳۲۷-۳۲۸)۔ خیال رہے کہ نومبر ۱۹۳۷ء سے پرچے کی خریداری بند کی گئی تھی‘ جب کہ ماہ پیش ترشادی کے اخراجات ہو چکے تھے۔

۲- (حوالہ بالا‘ ص ۸۴۶)۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام سے نہ صرف چودھری نیاز علی صاحب جیسے جدید تعلیم یافتہ حضرات بدک گئے تھے بلکہ علما کرام کو بھی اس مقصد سے بہت کچھ تحفظات (reservations) تھے۔ لیکن مولانا محمد منظور نعمانی  ؒ نہ صرف اس دارالاسلام کے دستورمیں اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے‘ بلکہ اُس جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں منظور شدہ دستور میں بھی اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے جو لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ پھر پتا نہیں اتنے عرصے اس موضوع پر غور کرنے کے بعد ان میں تبدیلی کیوں آئی؟ اگر سطحی اور معمولی اختلافات سے ایسا ہوا تو افسوس ناک امر ہے۔ کیونکہ کسی بھی‘ ہاں‘ کسی بھی جماعت یا تحریک کے قائدین کا   وسیع القلب اور حلیم المزاج ہونا ازحدضروری ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس کے بعد وہ باقاعدہ کسی بھی نظم میں شریک نہیں ہوسکے اور کسی نظم کا جز نہیں رہ سکے۔اسی طرح دو دستور تیار ہوئے اور دو بار تجدید شہادت بھی ہوئی۔ مولانا اصلاحیؒ نے ان دیگر تین افراد جماعت کے نام پیش کیے‘ جو ان کے علاوہ اس دارالاسلام والی جماعت کے ارکان تاسیسی تھے۔ ظاہر بات ہے وہ خود اس اولین جماعت کے اولین رکن تھے۔ کاش ان دونوں دستوروں کا تقابلی موازنہ کر کے ان کے درمیان جو اغراض و مقاصد اور تنظیمی اور تربیتی امور میں فرق پایا جاتا تھا‘ ان پر روشنی ڈالی جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

۳- اس بحران کے اسباب کے لیے ملاحظہ فرمایئے محمدحمیداللہ صدیقی صاحب کا خط بنام ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی‘ مورخہ ۱۹دسمبر ۱۹۵۷ء خصوصاً ص ۳۲۶‘ سطر۹ سے لے کر سطر ۱۵ تک (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ ایجوکیشنل بک ہائوس‘ علی گڑھ‘ اگست ۲۰۰۰ء) ۔مزید ملاحظہ کیجیے: مضمون ’’گہرہاے گراں مایہ‘‘ از سلیم منصور خالد (تذکرۂ مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۴۹۱-۵۰۰)۔ اسی کے صفحہ ۵۰۱ پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے نتائج دیکھیے: اس میں ۹۲۰ ارکان موافق تھے اوران کے مقابلے میں ۱۵ مخالف تھے۔ اگر اس رائے پر کچھ لوگوں نے ’’مریدوں کی رائے‘‘ کی پھبتی کسی تو یہی وہ جماعت ہے جومولانا مودودی ؒکی فکرکی رہینِ منت ہے۔

خاتم الانبیا والمرسلین ہونے کے ناطے سیدنا محمد بن عبداللہ علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ان بہت سی خصوصیات سے سرفراز فرمایا ہے جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر وارد ہوا ہے مگر وہ اکثر دوسری سورتوں کے سیاق میں ہے۔ جہاں تک سورۃ الفتح اور سورۃ النصر کا تعلق ہے تو وہ آپؐ کی فتح و نصرت اور اس کے اسباب کے لیے خاص ہیں تو وہیں سورۃ الکوثر میں آپؐ کوخیرکثیر--- ہرمعنیٰ میں‘ ہر وقت‘ دنیا اور آخرت میں خیرکثیر---عطا کیے جانے کی بشارت اس طرح دی کہ اس کے پہلو بہ پہلو آپؐ کے دشمن کی جڑ--- خواہ کوئی کیوں نہ ہو‘ مادی ہو کہ معنوی --- کٹنے کی خوش خبری سنائی۔

اس نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ الضحیٰ اور سورہ الم نشرح صرف آپؐ کی ذات بابرکات‘ اس سے اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے تعلق--- نبوت سے مشرف ہونے سے قبل اور بعد کے تعلق --- کا مختلف پہلوئوں اور زاویوں اور وجوہات کے سبب اور آپؐ پر نظر خاص اور عنایت خاص کا ذکر ان دو سورتوں میں آیا ہے۔

سورہ کا نظم

سورۃ الضحیٰ اللہ تعالیٰ کا ہر لمحے آپؐ کے ساتھ ہونے‘ ساتھ دینے‘ نظر کرم رکھنے اور آپؐ پر اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کی مسلسل بارش برسائے جانے سے عبارت ہے۔ اب رہی سورہ الم نشرح ‘ تو وہ اگرچہ الضحیٰ کا تکملہ اور تتمہ ہے مگر اس میں آپؐ کی ذاتِ بابرکاتؐ کے نبوی پہلو پر توجہ فرما کر اس سلسلے میں اللہ نے اپنی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ اس غیر محدود اور غیر منقطع اجر کا بیان بھی کیا جو آپؐ کو عطا کیا گیا ہے۔

اسی میں اس عطاے عظیم کے ایک حصہ و جز--- محض ایک چھوٹے سے حصے اور جز--- کا ذکر بھی ہے جس کا وعدہ الضحیٰ میں یہ کہہ کر فرمایا تھا کہ بہت جلد تیرا رب تجھے اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو کر اس عطا سے اور خود عطا کرنے والے رب سے راضی ہو جائو گے۔ (وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo الضحیٰ ۹۳:۵)

آگے چل کر سورۃ التین میں البلد الامین --- مکۃ المکرمہ --- کی قسم اس سرزمین طور سینا کے ساتھ کھا کر جس میں انجیر اور زیتون پیدا ہوتے ہیں‘ آپؐ کے شہر اور فلسطین مبارک کے اٹوٹ رشتے کی طرف اشارہ فرما کر یہ ثابت کیا کہ آپؐ  اسی شجرئہ طیبہ و مبارکہ کا ثمرہ طیبہ ہیں جس کا مبارک سایہ فلسطین کی مبارک سرزمین سے لے کر مکہ مکرمہ کے حرم تک پھیلا ہوا ہے اور جس کا بیج ڈالنے والے ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔

علاوہ ازیں البلدالامین میں لطیف اشارہ ہے‘ اس مبارک شخصیت کی طرف‘ جس کے باشندے آپؐ کو الصادق الامین کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ یوں یہ شہر بھی امانت دار قرار پایا اور اس کا ایک باشندہ بھی امانت دار ہونے کی صفت سے متصف ہوا۔

یہ وہ امانت ہے جس کو خانۂ کعبہ اور سیدنا اسماعیل ؑ کی شکل میں سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ میں چھوڑا تھا اور جو اس شخص کے حوالے کی گئی جو ہر پہلو سے امانت دار ہونے کے ناطے اس کو اٹھانے‘ اس کی حفاظت کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کا ہر طرح مستحق اور قابل تھا۔ یہ توحید اور عبودیت کی امانت ہے جس کو ایک لفظ ’’الاسلام‘‘ میں ادا کیا جاتا ہے اور جس کا پیغام لے کر آپؐ کو خاتم المرسلین ؐ کی حیثیت سے معبوث کیا گیا۔ اس پیغام کو اور اُس امانت کو جس کسی نے دل و جان سے قبول کیا اور اس کے حقوق حتی الامکان ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی تو وہ اسفل السافلین میں شمار کیے جانے سے بچ کر نہ ختم ہونے والے اجر کا مستحق قرار پایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ عدل کے ساتھ فیصلہ کر کے اجر عطا کرنے والا ہے۔ (التین ۹۵:۵-۸)

معانی و مطالب

سورہ الم نشرح کا آغاز آپؐ پر اس بے مثال اور بے نظیر احسان سے ہو رہا ہے جس کو شرح صدر کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے صرف آپ ؐ کو اس خصوصیت سے کیوں خاص کیا گیا تو اس کا جواب ازخود سامنے آجائے گا۔

خاتم الانبیا  ؑوالمرسلین ہونے کی وجہ سے آپؐ  اس لمحے سے جب آپؐ پر غارحرا میں اقرا باسم ربک الذی خلق(پڑھ اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ العلق۹۶: ۱)نازل ہوئی‘ اس لمحے تک جب صوراسرافیل پھونکا جائے گا‘ آپؐ سارے ہی جن و انس کے نبیؐ اور رسولؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر آپؐ ہزاروں سال پر پھیلے ہوئے زمینی فاصلے پر لاتعداد جن و انس کے لیے رسولؐ اور نبیؐ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ زمان و مکان اور وہ لامحدود تعداد جن و انس اور ان کی ہدایت اور نجات‘ فلاح و بہبود کے مسائل اور اس راہ میں شیطان اور اس کے چیلوں کی ریشہ دوانیاں اور ان سے پیدا ہونے والی رکاوٹیں‘ اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ‘ ساری ہی دنیا میں‘ جو دُور رس اور پیچیدہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے والی تھیں‘ اور ان سے جو فکری‘ مادی‘ اخلاقی اور دینی فتنے اور فساد پیدا ہو کر پھیلنے والے تھے‘ ان کو اپنے دل و دماغ اور روح اور جسم میں سمانے اور ان کا مقابلہ کرنے‘ اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک اُمت وسط پیدا کرنے‘ اور اپنے پیغام کو آخری لمحۂ دنیا تک جاری و ساری رکھنے اور اس کے اس لامحدود اور نامعلوم عرصے تک برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسے دل کی ضرورت تھی جس میں یہ نامعلوم‘ غیر محدود اور ان گنت امور اور مسائل سما سکیں۔

اس لیے آپؐ کے شرح صدر‘ خواہ وہ مادی ہو یامعنوی یا مادی اور معنوی دونوں ہی سے عبارت ہو‘ کی ضرورت تھی۔ اس کے بغیر یہ غیر محدود ذمہ داریاں جو نامعلوم زمان ومکان تک پھیلی ہوئی تھیں اٹھائی ہی نہیں جا سکتی تھیں۔ اس لیے آپؐ کے قلب مبارک میں وسعت پیدا کی گئی کیونکہ معمولی انسانی دل میں یہ امور سما ہی نہیں سکتے تھے اور نہ آج اور تاحیات سما سکتے ہیں۔ اگر بالجبر ان کو کسی معمولی انسانی دل میں سمونے کی کوشش کی بھی گئی تو وہ دل ہی پھٹ پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انسانی دل ان لامحدود امور‘ مسائل اور ذمہ داریوں کو سہارنے کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ یہ اس کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حضورؐ ان امور کی وسعتوں‘ گہرائیوں اور لامحدودیتوں کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلے جا رہے تھے۔ یہ سوچ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے‘ اٹھتے بیٹھتے‘ چلتے پھرتے ہمہ وقت آپؐ  کا پیچھا کرتی رہتی تھی‘ جب کہ عالم یہ تھاکہ آپؐ معمول کی نبوی اور انسانی ذمہ داریاں پوری کرنے میں دل و جان سے جتے ہوئے تھے۔ اس ناقابل برداشت بوجھ تلے آپؐ کی کمر بیٹھی جا رہی تھی۔ عین ممکن تھا کہ آپؐ  سخت بیمار ہو جاتے یا کسی لاعلاج مرض کا شکار ہو جاتے۔ اس لیے لطف ربانی نے آپؐ  پر‘ آپؐ  کی اُمت مرحومہ پر اور ساری ہی انسانیت پر تاقیامت مع عالم جن‘ رحم کی بارش کی اور آپؐ کے دل کو اتنی لامحدود زمانی و مکانی‘ وسعتوں سے روشناس فرمایا کہ ختم نبوتؐ کا کارہاے ناممکن آپؐ کے لیے بہت ہی آسان ہو گیا۔ آپؐ کے دل و دماغ سے یہ بوجھ اور دبائو ہٹ گیا اور اس کرم ربانی کی وجہ سے آپؐ ان امور کو قابل عمل اور قابل حصول سمجھنے لگے۔ آپؐ  کی ہمت اور حوصلہ بڑھا اور آپؐ اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مزید دل و جان اور روح و جسم کے ساتھ لگ گئے۔

ان حقائق کی طرف ہمیں قرآن مجید میں واضح اشارات ملتے ہیں:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹) رہا یہ ذکر‘ تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا o (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’اُمت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلاَّ ٓ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) اور اللہ اس امر پر پوری طرح جما ہوا ہے کہ وہ اپنے نور (ہدایت) کو ہر سُو پھیلاکر ہی رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تین آیتوں میں ان راہوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ کو سکون سے آشنا فرمایا۔ آپؐ کو اس کی تاکید یوں کی کہ اے محمدؐ! تمھاری وفات کے بعد اور تمھاری زندگی میں بھی ہم اس قرآن عظیم‘ اس کے معانی اور اس کے پیغام کی حفاظت کریں گے۔ تم اس معاملے سے بالکل ہی بے فکر ہو جائو اور اس پر غوروفکر اور اپنے آپؐ  کو پریشان کرنا بالکل ہی ترک کر دو۔ وہ اس لیے کہ ہم نے تمھارے مبارک ہاتھوں اور تمھاری مبارک نگرانی میں ایک ایسی اُمت پیدا کرنے‘ اس کو جاری رکھنے اور اس کی آبیاری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو اس پیغام اور اس کی ذمہ داری کو جس سے ہمارا قرآن عبارت ہے‘ بحسن و خوبی تمھارے بعد نبھائے گی۔ یہ پیغام اب ایک فرد ہی کا پیغام نہیں رہا ہے بلکہ اس کے لیے ایک اُمت کھڑی ہونے والی ہے جو اس کے لیے مرمٹنے والی ہوگی۔ یہ اس کے تمھارے بعد تاقیامت جاری و ساری رہنے کی بہترین ضمانت ہے۔

یہ بات بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مزید اطمینان دلایا کہ ہم‘ خالق کائنات‘ خالق بشر اور خالق جن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا نور‘ جس کو قرآن کی شکل میں ہم نے تم پر نازل کیا ہے‘ قیامت تک دنیا میں ہرسُو پھیلاتے ہی رہیںگے۔ اس کے لیے ہر قسم کے اسباب مہیا کریں گے اور تمھاری اُمت کو وقت بوقت کمک پہنچاتے ہی رہیں گے تاکہ ہمارا نور ہر جن و انس تک پھیل سکے اور پہنچ سکے۔ تم تو جانتے ہی ہو اے محمدؐ! کہ ہم اس کائنات کے جن و انس کے‘ یکہ و تنہا خالق اور مالک ہیں۔ اس لیے ہمارے اس ارادے میں کوئی بھی حائل ہو کر کھڑا نہیں ہوسکتا خواہ وہ کفار جن و انس اور شیاطین کی ان گنت فوجیں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم ان کو تن تنہا شکست دینے پر قادر ہیں۔ اس لیے یہ امر ہر طرح سے مضبوط و محکم ہے۔ اس کے سارے انتظامات بذاتِ خود ہم نے کیے ہیں۔ لہٰذا اب تم اطمینان و سکون اختیار کرو اور اپنے کام میں مزید دلجوئی سے لگ جائو۔

رفع ذکر

آپؐ کا اجر و ثواب ‘ اس دنیا اور آخرت میں‘ اُن لامحدود ذہنی‘ فکری‘ روحانی اور جسمانی مصیبتوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں جو آپؐ نے روزِ اوّل سے نور حق کو پھیلانے کے لیے اٹھائیں وہ بھی‘ رب کریم کی طرف سے‘ لامحدود اور ان گنت ہے۔ اس کو بھی شمار کرنا اور گنتی میں لانا ناممکن ہے کیونکہ اس اجر و ثواب کو شمار کرنے کی کوئی ایسی صورت نہیں کہ اس کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کا احاطہ انسان کی محدود قدرت سے باہر ہے۔ اس کی وجہ آپؐ کا رفع ذکرہے۔ اس کی وہ شکلیں‘ جو اس خاکسار کے نوک قلم پر اس وقت آسکی ہیں وہ یہ ہیں:

  •  رفع ذکر کے معنیٰ ذکر کو اُونچا اور بلند کرنا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ موثر اور واضح شکل اس کلمۂ طیبہ میں ظاہر ہوتی ہے جو کسی شخص کے مسلمان ہونے یا اسلام قبول کرنے کے وقت زبان سے ادا کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے:  اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ (میں اس امر کی گواہی دیتا ہوںکہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ نہیں ہے اور اس بات کی (بھی) شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسولؐ  اور بندے ہیں۔ اس کو کلمہء شہادت بھی کہتے ہیں۔

اس میں‘ رفع ذکر کا یہ پہلو ہے کہ اللہ جل جلالہ کے نام پاک کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو اس کے محبوب ترین بندے کا نام بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہاں عبودیت (عبد/بندہ) الوہیت کے پہلو بہ پہلو جگمگا رہی ہے۔ سبحان اللہ وتبارک اللہ۔ اس سے بڑھ کر اور کس طرح ذکر کو بلند کیا جا سکتا ہے!

اس کلمہء شہادت کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ اسلام میں داخل ہونے کا دروازہ ہے۔ یہ دروازہ صرف اس شخص پر کھلتا ہے جو نہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرے اور اس کی شہادت دے بلکہ اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ہونے کا اقرار‘ اعلان کرنا اور اس کی شہادت بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر وہ صرف الوہیت الٰہی کا اعلان کرنے پر اکتفا کرے اور رسالت محمدیؐ سے انکار کرے‘ پہلوتہی کرے‘ یا چشم پوشی کرے‘ تو پھر وہ مسلم نہیں ہو سکتا ہے۔ گویا الوہیت الٰہی اور رسالت محمدیؐ دونوں ہی کی شہادت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی شرط اول ہے۔

  •  اس اعلان شہادت کے کچھ ہی دیر بعد اذان کا وقت آپہنچتا ہے اور اس میں اشھدان محمدًا رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں) ایک بار نہیں دو بار کہا جاتا ہے۔اگر وہ تنہا ہوگا تب بھی اذان میں دو بار رسالت محمدیؐ کی شہادت کا پوری قوت کے ساتھ اعلان کرے گا اور اگر وہ موذن کی آواز سن رہا ہوگا تو اس کو اذان کے باقی اجزا کے ساتھ دو بار دہرائے گا۔ اذان کے بعد وہ اپنے رب سے یہ دعا کرے گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو الوسیلۃ اور الفضیلۃ عطا فرمائے اور آپؐ کو مقام محمود پر فائز کردے جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

یہ دعا پوری محبت‘ منت و سماجت اور لجاجت سے ہر مومن اور مسلم ہر اذان کے بعد کرتا ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اس دعا سے قیامت کے ہولناک دن آپؐ کی شفاعت اس کے حق میں واجب ہو جاتی ہے۔ اس شفاعت کے مستحق ہونے کے لیے اور اس ہولناک دن کی ناقابل تصور اورناقابل برداشت ہولناکیوں‘ تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے ہر شخص دل و جان سے یہ دعا کرکے آپؐ کا نام دل و جان سے لیتا ہے۔

  •  نماز کے لیے وضو ضروری ہے اور وضو کے بعد قبلہ رو کھڑے رہ کر کلمۂ شہادت ادا کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ اس لیے ہر مومن وضوکے بعد ‘ دن اور رات میں کم از کم پانچ بار آپؐ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی کلمے میں دہراتا رہتا ہے۔
  •  نماز میں تشہد ناگزیر ہے جس میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہر نمازی--- مرد‘ عورت‘ بچہ اور بچی--- پڑھتے ہیں‘ آپؐ پر سلامتی بھیجتے ہیں اور پھر کلمۂ شہادت میں آپؐ کا نام لے کر یہ کہتے ہیں کہ میں اس امر کی گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

یہ فرائض میں نو بار اور سنتوں میں بے شمار بار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فرائض اور سنتوں میں درودِ ابراہیمی میں دو بار آپؐ پر آپؐ کی آل پر صلاۃ اور برکت کی دعا مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز کے خاتمے پر جو دعا کی جاتی ہے اس کو بھی آپؐ  پر سلام اور صلاۃ پر تمام کرنا ایک امر ضروری ہے۔

آپ ان پانچوں وقتوں‘ مقاموں اور موقعوں پر ۲۴ گھنٹوں میں آپؐ کے نام کے وارد ہونے اور آپؐ پر درود و سلام بھیجے جانے اور آپؐ کے اور آپؐ کی آل کے لیے دعا کیے جانے کا شمار کریں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ان گنت گنتی ہے جو شمار میں نہیں آ سکتی ہے۔

  •   اس پر سونے پر سہاگہ وہ حکم ربانی ہے جس کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ فرما کر کیا کہ اے مومنو! اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر صلاۃ بھیجتے ہیں اور تم کو بھی میں حکم دیتا ہوں کہ تم بھی اپنے پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر صلاۃ و سلام بھیجو۔ اس صلاۃ و سلام کا نہ تو کوئی وقت ہی مقرر ہے اور نہ کوئی جگہ ہی متعین ہے اور نہ کوئی موقع محل تحدد ہے۔ انسان جب اور جہاں چاہے اللہ سے یہ دعا کر سکتا ہے خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ آپؐنے فرمایا کہ جس کسی نے میرا نام سن کر مجھ پر صلاۃ و سلام بھیجا تو اللہ اس پر ایک بار کے بدلے ۱۰ بار صلاۃ و سلام بھیجتا ہے اور اس کا ذکر اس سے بہتر مجلس‘ یعنی ملائکہ کے درمیان کرتا ہے۔

خدارا اب آپ ہی بتایئے کہ کون نہیں چاہے گا کہ اس پیارے نبی و رسولؐ کا ایک بار نام لے کر اپنا ذکر--- اور وہ بھی اپنے خالق کی زبانی--- ملائکہ کے درمیان ہونا پسند نہ کرے ؟ یہ تو خیر ہی خیر اور نفع ہی نفع ہوا۔ اس لیے ہر مومن چلتے پھرتے‘ سوتے جاگتے‘ کھاتے پیتے اور کاروبار سرانجام دیتے ہوئے اپنے پیارے نبی اور رسولؐ پر درود و سلام بھیج کر اپنا ذکر اپنے رب کی محفل میں کروا لیتا ہے۔ صلاۃ و سلام ہو اس پیارے نبیؐ اور رسولؐ پر جس پر صلاۃ و سلام بھیجنے سے گناہ گاربندوں کا ایک بار کے بدلے ۱۰ بار ذکر دربار الٰہی میں ہوتا ہے۔

آپ دیکھیں کہ ثواب کے خواہاں لوگ ہمیشہ ہی صلاۃ و سلام نبی و رسول میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بات بالکل صحیح اور سچ دکھائی دیتی ہے: اللّٰہ اللّٰہ خیرماصلّٰی (اللہ اللہ یہ کتنی خیر کی بات ہے کہ نبیؐ پر صلاۃو سلام بھیجا جائے)۔ یقینا یہ بہترین عمل ہے اور خوش بخت اور خوش قسمت ہونے کی علامت ہے۔

  •   لاتعداد مسلمان محض خیروبرکت اور خوش بختی کی خاطر اپنے بچوں کا نام ’’محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) رکھتے ہیں۔ فطری طور پر لوگ اس بچے کو پیدایش سے لے کر موت اور موت کے بعد بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کے نام پکارتے‘ بلاتے اور لکھتے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ دن و رات کے ۲۴ گھنٹوں میں سارے عالم میں آپؐ کی اُمت کے افراد کے ذریعے سے کتنی بار یہ نام مبارک بولا اور لکھا جاتا ہے۔ کیا آپؐ تصور کر سکتے ہیں اور گن سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔
  •   پیدا ہوتے ہی مسلمان لڑکے اور لڑکی کے کان میں اذان دے کر اللہ خالق تبارک و تعالیٰ کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی آواز گزاری جاتی ہے۔ گویا یہ نقشِ اول ہے جو بٹھایا جا رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی تمنا ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کرتی ہے کہ اس کی موت اور اس کا آخری کلام: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔

غور کیجیے کہ مشرق سے مغرب تک دن رات میں کتنے بچے اور بچیاں پیدا ہو کرآپؐ کا نام موذن کی زبان سے نکلواتے ہیں اور پھر ان کو اپنے اپنے کانوں میں بٹھا لیتے ہیں تاکہ موت کے وقت بھی وہ ان کے کانوں میں بیٹھا رہے اور زبان سے صادر ہو۔

اللہ اللہ یہ کیا رفع ذکر ہے! کیا اس کی کثرت اور بلندی ہے‘ اور کیا اس کے لیے محبت بھری سبقت ہے! جو نطق کلمہ اور پیدایش سے شروع ہو کر موت اور موت کے بعد تک بھی ہر فرد‘ مومن مرد اور عورت کے ساتھ  لگی رہتی ہے اور اس کو اور اس کی زندگی اور موت اورمابعد الموت تک اس کوخیر و برکت اور خوشی اور مسرت اور خوش بختی اور خوش قسمتی سے ہم کنار کرتی اور ہم کنار رکھتی ہے۔

اطمینان قلب اور تقویت ایمان

فرمایا کہ اے محمدؐ! تم آج دشمنوں کی کثرت‘ قوت و طاقت اور اپنے ساتھیوں کی قلت اور کمزوری دیکھ کر دل شکستہ اور پریشان نہ ہو۔ یہ بہت جلد پلٹا کھا کر ختم ہو جانے والا ہے۔ کیونکہ ہم نے اس دنیا میں ایک  محکم سنت یہ جاری کر رکھی ہے کہ ہر قلت کے بعد کثرت‘ ہر تکلیف کے بعد راحت اور ہر تنگی کے بعد فراخی اور  ہر شدت کے بعد آسانی اور ہر رات کے بعد اُجالا آئے گا۔ اس لیے عالم اسباب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اور تمھارے ساتھی اس نورکو پھیلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دو‘ دن رات ایک کر دو‘ اور اپنی جانوں پر کھیل جائو اور ان کو دائو پر لگا دو۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ تم دیکھو گے کہ بہت جلد اہل عرب جوق در جوق اور فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوںگے اور تمھاری اطاعت کو قبول کریں گے۔ پرچم توحید سربلند ہو کر لہرائے گا اور پرچم کفر و شرک سرنگوں ہوگا۔ تمھاری تگ و دو بالآخر اپنا رنگ دکھائے گی اور تمھاری محنت و مشقت ثمرآور اور بارآور ہوگی۔

اس حقیقت کو دہرا کر‘ یعنی دو آیتوں میں بیان کر کے اور وہ بھی صیغہ اسمیہ کی صورت میں بیان کر کے اس کی حتمیت کی طرف اشارہ فرمایا۔  (فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا  o اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o  (الم نشرح ۹۴:۶-۷)

مزید فرمایا کہ اس جدوجہد کے لمبے اور جاں گسل سفر کا اگر کوئی کارآمد زادِ راہ ہے تو وہ ہے اپنے رب کی عبادت میں‘ جب بھی فرصت ملے اور موقع ملے‘ دل لگانا جس کی بہترین شکل پوری رغبت اور محبت اور خشوع و خضوع کے ساتھ نمازپڑھنا ہے۔ اس لیے رکوع و سجود کرتے رہو اور نئی نئی طاقت و قوت حاصل کرتے رہو اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہوئے میری الوہیت کا ڈنکا بجاتے رہو۔

یہ دو آخری نصیحتیں عام طور پر ہر اُمتی کے لیے دائمی اور ابدی ہدایات ہیں مگر وہ ان لوگوں کے لیے سرمدی ہدایات اور ارشادات ہیں جو اپنی زندگیوں کو نور حق ہرسُو پھیلانے کے لیے وقف کر دینا چاہتے ہیں اور انسان کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محبوب بندے محمد بن عبداللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی راہ ہدایت پر چلنے اور دوسروں کو راہ حق پر چلنے کی دعوت دینے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے‘ اور آپ کی اُمت کو سربلند کرے اور کامیابیوں سے سرفراز فرمائے‘ اور آپؐ کے اورآپؐ کی دعوتِ حق کے دشمنوں کا سرنیچا کرے۔ آمین!

 

سب سے پہلے یکسو ہو کر اور دل کو تمام وساوس سے پاک کر کے بار بار پوری سورت کو پڑھ کر اس کا مرکزی مضمون اور اس مضمون کا قرآن کے اصل موضوع سے تعلّق معلوم کیجیے۔ پھر سورت کے مضامین اور مومنین و منافقین‘ مشرکین و کافرین کے ساتھ جو اندازِ خطاب اختیار کیا گیا ہے اس پر غور کرکے یہ معلوم کیجیے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کس مرحلے میں رہی ہوگی اور دعوت کو کس رہنمائی کی ضرورت تھی جسے اس سورت میں پورا کیا گیا۔ نیز جن لوگوں نے اس دعوت کو صدق دل سے نہیں مانا تھا اور جو اس کے مخالف تھے ان کے ساتھ کیا طرزعمل اختیار کرنے کی اس سورہ میں ہدایت فرمائی گئی۔ یہ بات سمجھ آجانے کے بعد پھر سورہ کو بار بارپڑھ کر یہ معلوم کیجیے کہ سورہ کتنے خطابات پر مشتمل ہے اور کون سا خطبہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ پھر ہر خطبے کے مرکزی مضمون کا سورہ کے مرکزی مضمون سے تعلّق‘ ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات‘ طرز استدلال اور انداز خطاب پر غور کرتے رہیے۔ پھر ہر تفسیر کو پڑھیے‘ اس کے مباحث کو سمجھیے اور ہر کتاب کے مباحث سے تقابل کرتے رہیے اور ذہن میں جو سوال پیدا ہوں ان کے جواب تلاش کرتے رہیے‘ یہاں تک کہ ہر بات سمجھ میں آجائے۔ اس کے بعد جن چیزوں کے سلسلے میں مختلف اقوال اور آرا منقول ہوں‘ ان میں عبارت کے سیاق و سباق اور اس مرحلے کے پس منظر میں جس میں کہ متعلقہ خطبے کا نزول ہوا ہے‘ قول راجح اور اس کے وجوہ و اسباب تلاش کیجیے۔ یہ سارا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد‘ مولانا نے ہدایت فرمائی تھی کہ ساری کتابیں رکھ دیجیے اور اپنا قرآن مجید اٹھا کر پوری یکسوئی کے ساتھ اس طرح ٹھیرٹھیر کر پڑھیے کہ آپ کا دل محسوس کرتا رہے کہ یہ لفظ زبان سے نہیں دل سے نکل رہا ہے۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج ۲‘ ص۳۰۳-۳۱۳‘ ادارہ معارف اسلامی‘ منصورہ‘ لاہور)

مولانا حکیم خواجہ اقبال ندوی نے لاہور اور دارالاسلام پٹھانکوٹ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒسے قرآن کریم درساً درساً پڑھا اور مولانا کے تعلّق قرآن اور تدبر قرآن کو بہت ہی قریب سے دیکھا اور سمجھا۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں اس سوال کے جواب میں کہ مولانا نے قرآن کے مضامین و مفاہیم پر غوروفکر کرنے کے لیے کس اسلوب اور منہاج کی طرف رہنمائی فرمائی ‘جو بیان کیا وہ مذکورہ بالا الفاظ میں درج کیا گیا ہے۔

ہم ان ہدایات کو مرحلہ بہ مرحلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی تفصیل و شرح حسب مقدور عرض کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

۱- یکسوئی اور دل کو وساوس سے پاک کرنا: یہ قرآن فہمی کی شاہ کلید ہے۔ ہم دراصل شعوری یا لاشعوری طور پر اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہی پڑھتے ہیں۔ اللہ کی شیطان سے پناہ مانگتے ہیں اور اللہ کے نام سے ہی ابتدا کرتے ہیں لیکن یکسو نہیں ہوتے۔ زبان دل کا ساتھ نہیں دیتی۔

یکسوئی انسان کو درجۂ امامت تک پہنچاتی ہے۔ اس کو قرآن کی زبان میں حنیفیت کہتے ہیں جو ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسی چیز نے ان کو انسانوں کا امام بنایا۔

یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل کو تدبرقرآن کے علاوہ ہر چیز سے خالی کر لو اور صرف قرآن کریم اور اس کے مطالعے کی طرف دل و دماغ کا رخ پھیر کر متوجہ ہو جائو تاکہ تفکّرمرکوز کر کے گوہر قرآنی کو اپنے دامن میں سمیٹ سکو۔

رہا وساوس سے پاک کرنا‘ تو وہ اس لیے ضروری ہے کہ ہدایت کی راہ میں مختلف روڑے اٹکانا شیاطین جن و انس کا خاص الخاص مشغلہ ہے۔ اسی وجہ سے سورئہ توحید (سورہ اخلاص) کے بعدجس میں اس دین کی بنیاد کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے‘ معوذتین کو رکھا گیا تھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ سارے ہی قرآن میں ہدایت کی جو راہ روشن کی گئی تھی‘ اس کی حفاظت کی خاطر اللہ کی صفات‘ ربوبیت و خالقیت‘ مالکیت اور الوہیت کی پناہ طلب کی جائے تاکہ ان ہدایت کے دشمنوں اور توحید سے نفرت کرنے والوں کے ہتھکنڈے بے اثر اور بیکار ثابت ہوسکیں۔

یہی مقصد ہے قرآن کریم یا احادیث نبویہ شریفہ کی تلاوت سے پہلے تعوذ اور بسملہ پڑھنے کا۔ اسی کی تعلیم مولانا مودودیؒ نے قرآن کے تدبر میں آگے بڑھنے والوں کو دی ہے۔

۲- سورہ کا مرکزی مضمون: یہ دوسری ہدایت ہے کہ پوری یکسوئی اور وساوس سے پاک ہو کر بار بار کسی بھی سورت کو اس نیت سے پڑھو کہ اس کا مرکزی مضمون ہاتھ آجائے۔ مرکزی مضمون وہی چیز ہے جس کو مولانا حمیدالدین فراہی ؒ سورہ کا عمود اور سید قطب شہید ؒ  محور کہتے ہیں۔ ان سب کا مقصود سورت کا وہ نکتہ ہے جس کے اطراف اس کے مضامین گھومتے رہتے ہیں۔ اس طرح سورت میں مرکزیت کی وجہ سے وحدت ہدف اور مرکزی مباحث کے خدوخال اُبھرنے لگتے ہیں جن کو ہم outlines کا نام دے سکتے ہیں۔ ان میںتفصیلی رنگ بھرنے کا طریقہ آگے بیان کیا جا رہا ہے۔

مولانا نے بات صرف سورت کے مرکزی مضمون تک محدود نہیں کر دی بلکہ ہر ہر سورت کو قرآن کے مرکزی مضمون سے باندھنے پربھی اصرار کیا ہے تاکہ ہر سورت خود قرآن کے مرکزی مضمون سے منسلک ہو کر موتیوں کے ہار کی طرح ایک لڑی میں پروئی جائے۔ اس طرح خود قرآن کے مرکزی مضمون کے اطراف قرآن کی ساری ہی سورتوں کے مرکزی مضامین قرآن کی وحدت کو جگمگانے کا باعث بنیں۔

اس طرح مولانا نے سارے ہی قرآن کوایک وحدت گردانا اور دوسروں کو بھی اس وحدت کو دریافت کرنے کی تعلیم دی۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔

۳- سورہ کے مضامین اور مختلف گروہوں سے اندازِ خطاب:  اوپر میں نے جن خطبوں میں رنگ بھرنے کی طرف اشارہ کیا تھا یہ وہی مضامین رنگ و بو ہیں۔ مختلف گروہوں سے اندازخطاب کو وحدت سورت کے اصل جسم پر گوشت پوست کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے بعد سورت کی شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ شخصیت انگلی اُٹھا کر اس ماحول اور ان حالات کی طرف اشارہ کردیتی ہے جن میں وہ نازل ہوئی تھی بلکہ اس کے مختلف خطبے اس خاص ماحول اور مرحلے کے مختلف اجزا کو نظروں کے سامنے لا کر سینما کی ریل کی طرح‘ ایک لمبے مرحلے کو جو مختلف چھوٹے بڑے مناظر سے عبارت ہوا کرتا ہے‘پیش کر دیتے ہیں۔مناظر کا یہ تسلسل ان کے مختلف رنگوں ‘ خصوصیات‘ کیفیات اور ان میں پیش آنے والے حالات کی سچی تصویرکشی کر کے ان کے چھوٹے سے چھوٹے گوشے اور جزئیات تک کو واضح کر دیتا ہے۔

اسی کو تفسیری اصطلاح میں ’’شانِ نزول‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن یہ شانِ نزول سورتوں کے مضامین اور مختلف گروہوں کو مخاطب کرنے کے انداز سے ازخود نمودار ہوئی ہے اور اپنی زبان سے خود کہہ رہی ہے کہ مجھے ان اسباب اور ان حالات میں اتارا گیا تھا۔ یہ قرآن کی اپنی اندرونی اور منہ بولتی شہادت ہے جس کی سچائی میں کسی قسم کے شک کی گنجایش نہیں ہے۔

یہیں سے حرکی اور متداول تفاسیر میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ حرکی تفاسیرشانِ نزول کو دعوت اسلامی کے مختلف مراحل سے جوڑ کر شان نزول کے بہت سے دقیق مباحث سے دامن بچا لیتی ہیں۔ اس سے قرآن فہمی آسان ہو جاتی ہے۔

سب ہی جانتے ہیں کہ عصرحاضر کی پہلی حرکی تفسیر اردو میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے نکلی تھی ‘ جب کہ عربی میں پہلی حرکی تفسیر سید قطب شہید ؒ کے خون کی سرخ روشنائی سے لکھی گئی ہے۔ یہ حرکی اسلوب تفسیر اس خاص ماحول اور ان خاص حالات کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے جن میں داعی اوّلؐ اور ان کی دعوت اور جماعت گھرے ہوئے تھے اور پھر وہ خود ان ضروریات کو واضح کرتا ہے جو اس وقت دعوتِ اسلامی کو لاحق تھیں‘ اور اس رہنمائی کو بھی عیاں کرتا ہے جس کی طلب تھی اور وہ اس سورت اور اس کے مختلف مضامین سے پوری کی گئی۔

اسی حقیقت کا دوسرا رخ وہ اندازِ خطاب‘ وہ دلائل اثبات و انکار‘ وہ تعریف و توصیف اور وہ دھمکی و وعید  ہے جو اس مرحلے میں حصہ لینے والے مختلف گروہوں کے لیے اختیار کی گئی تھی۔

۴- سورہ کے خطبات یا اجزاء تکوینی: یہ کسی بھی سورت کی صورت گری کا بہت اہم مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے خدوخال اور خطوط عامہ تک نوبت پہنچی تھی اور اب صورت گری کا معاملہ درپیش ہے۔ یہ ان خطبوں سے عبارت ہے جن سے مل کر سورت بنتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بقول قرآن دعوتِ اسلامی کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور داعی اوّلؐ کی رہنمائی‘ تسلی اور دل جوئی کے لیے خطبات کی شکل میں نازل ہوا کرتا تھا جو اس کتاب عزیز میں اور عام کتابوں میں فرق کا حقیقی سبب ہے۔ یہ خطبات کبھی تو حقائق کون و مکان (سورج‘ چاند‘  ہوا‘ پانی‘ دن رات) کے بارے میں اور ان کے مختلف قابل غور اور عبرت ناک پہلوئوں‘ توحید خالق سبحانہ وتعالیٰ کے مختلف زاویوں اور جواب دہی اور حتمیت ساعۃ (قیامت) کے اشارات لیے ہوئے ہوتے‘ تو کبھی حقائق دین (توحید‘ رسالت‘ آخرت‘ ملائکہ) کے بارے میں ہوا کرتے‘ یا پھر ان پر صدق دل و جان سے ایمان لانے والوں‘ منافقین‘ مشرکین‘ کفار‘ اہل کتاب کی کیفیات اور احوال ‘ اس خاص وقت یا تاریخ کے کسی پچھلے مرحلے کے بارے میں ہوا کرتے‘ اور کبھی وہ احکام و ہدایات حیات کے روپ میں نازل ہوتے۔ ایک ہی سورت خصوصاً طویل سورتیں (البقرہ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدہ وغیرھا) اس قسم کے کئی کئی خطبات پر مشتمل ہیں بلکہ یہ خطبات ایک ہی موضوع پر پلٹ پلٹ کر مختلف پہلوئوں اور زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں اور سامانِ رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔

ان خطبات میں مشابہت کے باوجود‘ اختلاف مقصد و بیان اور اسلوب بیان کو دریافت کرنا اور ان کا مختلف زاویوں کے اختلاف کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان کا مرکزی مضمون دریافت کرنا‘ اور اس مرکزی مضمون کو سورت کے مرکزی مضمون سے جوڑنا‘ نہایت مشکل‘ باریک بینی اور گہرے غوروفکر کا متقاضی امر ہے۔ یہ کام اسی طرح مربوط ہے جیسا کہ ہاتھ ہے جس میں انگلیاں ہیں‘ پھر پنجہ ہے‘پھر پنجے سے کہنی تک کا حصہ ہے اور آخر میں کہنی سے مونڈھے تک کا جز ہے۔ یہ جوڑ ویسے ہی ہیں جیسا کہ کسی سورت کے خطبات ۔جس طرح مختلف جوڑوں کے ملنے سے ہاتھ بنتا ہے‘ اسی طرح مختلف خطبات کے باہمی ربط سے مرکزی مضمون مربوط ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بات ربط آیات‘ ربط مضامین‘ دلائل اثبات اور انداز خطاب تک جا پہنچتی ہے۔ گویا ہاتھ کے جوڑوں کے درمیان واقع اجزاے ترکیبی پر غوروخوض کرنا۔ انگلی ہے تو اس میں تین تین پور ہیں‘ ہڈیاں ہیں‘ ناخن ہیں‘ ان پر گوشت چڑھا ہوا ہے‘ ان میں خون دوڑتا ہے‘ وہ مڑسکتی ہیں‘ ان سے اشیا کو چھوا یا چکھا جا سکتا ہے اور ان کو ملا کر پکڑا اور اٹھایا جا سکتا ہے۔ یوں ایک ایک آیت اور اس کے ایک ایک لفظ تک کا ربط معلوم کرنا ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سورت کے مرکزی مضمون سے آیت اور اس کے الفاظ تک غور کرنا گویا بلندی سے نشیب کی طرف اترنا اور اس راہ میں جو جو پہاڑ‘وادیاں اور میدان آئیں ان کو عبور کر کے بالکل تہ تک پہنچنا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا ربط آیات و مضامین پر لفظاً لفظاً غور فرمانا گویا پہاڑ سے ذرے تک پہنچنے کے مترادف ہے۔

۵- دیگر تفاسیر سے استفادہ: ان سارے مراحل کو اپنی کوشش اور اپنے بل بوتے پر طے کرنے اور اس راہ میں پوری اجتہادی صلاحیتوں اور کوششوں کو صَرف کرنے کے بعد مزید توضیح‘ تنقیح اور اطمینان کی خاطر ان بزرگ ہستیوں کی کاوشوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے جنھوں نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات کتاب اللہ پر غور کرنے میں صَرف کیے تھے۔

اس سے قبل ایک سوال کے جواب میں حکیم خواجہ اقبال ندوی صاحب کہہ چکے ہیں کہ مولانا نے ایک شاگرد کو--- ایک مبتدی کو --- تفسیر ابن جریر‘ ابن کثیر‘ تفسیر کبیر‘ کشاف اور راغب اصفہانی کی مفردات اور احکام القرآن میں سے جصاص اور ابن عربی مطالعہ کے لیے دی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محنتی طالب علم کے لیے بہت کچھ باقی ہے جس سے اس کو استفادہ کرنا چاہیے۔ تفہیم القرآن ان تفاسیر کے حوالوں سے ماشا اللہ مالا مال ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ان سب تفاسیر سے  بھرپور استفادہ فرمایا ہے۔

ان تفاسیر سے رجوع کرنے کا اصل مقصد ان میں منقول مختلف آرا اور اقوال کا احاطہ کرکے‘ پھر اپنی کاوشوں کی طرف پلٹ کر ان کو عبارت کے سیاق و سباق اور نبی کریمؐ کو درپیش مرحلے کے پس منظر میں رکھ کر ان تفاسیر میں وارد قول راجح کے وجوہ و اسباب تلاش کرنا ہے۔

قول راجح کو اکثر --- نہ کہ ہمیشہ ---اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ متداول تفاسیر کے دائرے سے نہ نکلا جائے کیونکہ یہ امت کے متفق علیہ امور میں سے ہے ورنہ شاذ کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر قول راجح کسی وجہ سے اختیار نہ کرنا پڑے تو ان ہی تفاسیر کے کسی اور قول کو اختیار کر کے اسباب و وجوہ کو تلاش کیا جانا چاہیے جیسا کہ قول راجح کے سلسلے میں عمل کیا گیا تھا۔

۶- قرآنی الفاظ کا دل سے نکلنا: آخری اور فیصلہ کن مرحلہ وہ تلاوت قرآن پاک ہے جس کو ٹھیرٹھیرکر پڑھا جائے ‘اس طرح کہ پورے استغراق کی حالت میں قرآن پاک کے الفاظ دل سے نکلتے ہوئے محسوس ہوں۔ گویا صرف دماغ اور زبان سے الفاظ کا نکلنا کافی نہیں ہے بلکہ ان کا دل سے نکلنا ضروری ہے‘ خصوصاً ایسے دل سے جو یکسوئی اختیار کر چکا ہو اور وساوس سے یکسر پاک و صاف ہو چکا ہو۔

یہ اپنے نتیجے پر بھروسا پیدا کرنے کی ترکیب ہے تاکہ غلطی‘ غلط فہمی اور غلط روی کا کم سے کم امکان پایا جائے۔ انسان ہونے کے ناطے کوئی معصوم نہیں ہے الا معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کے۔

یہ مولانا مودودیؒ کے تفکر و تدبر کے چھ اصول ہیں۔ ان اصولوں کو انھوں نے تفہیم القرآن میںبرتا ہے۔ اس حقیقت کو ہر سورہ کے مقدمے میں عموماً اور مرکزی مضامین اور تاریخی پس منظر میں خصوصاً دیکھا جا سکتا ہے۔  اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مولانا مودودیؒ نہ صرف ایک ’’صاحب دل‘‘ بلکہ ’’صاحب حال‘‘ آدمی بھی تھے!!

اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔